

دل کا فیصلہ
یوسف روز صبح سات بجے گھر سے ناشتہ کیے بغیر نکل جاتا اور دوپہر کے کھانے کے لیے ہی واپس آتا۔ شام کا کھانا وہ اپنی ماں کے ہاں کھاتا، جس کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ یوسف کے گھر کے سامنے ایک بڑا کمرہ تھا۔
یوسف روز صبح سات بجے گھر سے ناشتہ کیے بغیر نکل جاتا اور دوپہر کے کھانے کے لیے ہی واپس آتا۔ شام کا کھانا وہ اپنی ماں کے ہاں کھاتا، جس کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ یوسف کے گھر کے سامنے ایک بڑا کمرہ تھا۔
سیڑھیوں پر ہال کی دُوسری طرف نتاشا کا سامنا اپنے پڑوسی بارن وُولف سے ہُوا۔ وہ لکڑی کے ننگے تختوں پر بہ مشقّت اُوپر چڑھتے ہُوئے کٹہرے پر پیار سے ہاتھ
اُس نے اپنی کمر کو سہلائے جانے دیا، جس کے نچلے حصے پر پسینے کے قطرے تھے، اُس کابدن تیزآنچ پر جلائی گئی شکر کی خوشبو خارج کررہاتھا، خاموشی تھی، اُس کے تصور میں تھاکہ ایک آواز تک اُس کی یادداشت میں داخل ہوکر سب کچھ برباد کر دے گی،
جون اور میری محبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور شادی کر لیتے ہیں۔ دونوں کے پاس قابلِ قدر اور منافع بخش ملازمت ہے جسے وہ مشکل اور متحرک کر دینے والی پاتے ہیں۔
وہ عورت اپنے دونوں ہاتھ سینے کے سامنے جوڑ لیتی ہے۔بھنویں سکیڑتی ہے اور تختہ سیاہ کی طرف دیکھتی ہے۔
’’ٹھیک ہے ، یہ پڑھو ۔‘‘ موٹے شیشوں عینک والے
جب تک کہ وہ سبزی خور نہیں ہوئی مَیں اپنی بیوی کو ہمیشہ اور ہر حوالے سے ایک نہایت عام عورت خیال کیا کرتا تھا۔ سچ بتاؤں تو پہلی ملاقات میں وہ مجھے کچھ خاص محسوس نہیں ہوئی تھی درمیانہ قد،
’’یہیں پر، میں نے پینا چھوڑ دی تھی! کچھ بھی نہیں— کچھ بھی مجھے اس کی طرف راغب نہیں کرسکتی۔ یہی وقت ہے کہ میں نے اپنا ہاتھ تھامنا ہے۔
میں نے اپنے بستر سے چھلانگ لگائی۔ میں مزید وہاں نہیں رک سکتا تھا۔ میں اندھا دھند صفائی کرنے والے لڑکے کے کمرے میں بھاگ گیا۔
سچ ہے کہ کتاب رکھنے والے شخص کو بغیر کسی ڈر کے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، چاہے وہ معاشرہ ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے میکونگ ڈیلٹا کے گاؤں فاٹ ڈٹ ۔
میری ماں کا پہلا بچّہ فوت ہو گیا تھا، مجھے حیات میں آنے کے بعد دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں بتا دیا گیا تھا۔
مجھے بتا دیا گیا تھا کہ وہ ایک لڑکی تھی،