سویتلانا الیگزائی وچ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
نجم الدین احمد کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
افسانے کا فن
ہاری ہوئی جنگ
سویتلانا الیگزائی وِچ
(Svetlana Alexivich)
تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد
ہم ہمیشہ المیہ ہی کیوں لکھتے ہیں؟ کیوں کہ ہم ایسی ہی زندگی جیتے ہیں۔ —سویتلانا الیگزائی وِچ
نوبیل انعام برائے ادب۔۲۰۱۵ء سے بیلاروس کی صحافی خاتون سویتلانا الیگزائی وِچ کو سرفراز کیا گیا ہے کہ’’اُن کی لِکھتیں ہمارے عہد کی گوناں گوں صوتوں کی حامل یاد گار لِکھتیں ہیں۔‘‘ انعام کا اعلان کرتے ہوئے نوبیل پرائز کمیٹی نے الیگزائی وِچ کی اِن الفاظ میں تحسین کی: ’’اُن کا اُسلُوب غیر معمولی ہے— انسانی آوازوں کا احتیاط سے ترتیب ہوا کولاژ— جو ایک پُورے عہد کے ہمارے فہم کو گہرا کرتا ہے۔‘‘ الیگزائی وِچ ادب کا نوبیل پانے والی چودہویں اور رُوس کی پہلی لکھاری خاتون ہیں۔ اِس سے قبل رُوس کے کسی لکھاری یا ادیب کو اِس اعزاز سے نہیں نوازا گیا۔ الیگزائی وِچ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ دُنیا بھر کے مرد و زَن صحافیوں نوبیل انعام پانے والی پہلی صحافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوبیل انعام ۲۰۱۵ء متنازعہ ہے کیوں کہ غیر افسانوی نثر نگار کو نوبیل انعام برائے ادب دیے جانے کا یہ پہلا موقع ہے۔
سویتلانا کا پُورا نام سویتلانا الیگزینڈروفنا الیگزائی وِچ ہے۔ وہ ۳۱ مئی ۱۹۴۸ء کو مغربی یوکرین کے شہر سٹانِسلا وِف (جس کا نام ۱۹۶۲ء میں تبدیل کر کے اِیوانوفرانک فِسک رکھ دیا گیا تھا) میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد کا تعلّق بیلاروس سے تھا جب کہ ماں یوکرینی تھیں۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، بیلاروسیّن سٹیٹ یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے اور مِنسک کے ادبی جریدے ’’نیمان‘‘ (Neman) کی نامہ نگار بننے سے قبل، اُنھوں نے متعدد مقامی اخبارات کے نمائندے کی حیثیت سے کام کیا۔ اُنھوں نے اپنی صحافتی زندگی کے دوران رُوس کے بہت سے ڈرامائی واقعات کے، مثلاً دُوسری جنگِ عظیم، رُوس افغانستان جنگ اور سانحۂِ چرنوبل، عینی شاہدین کے انٹرویو قلم بند کیے۔ جنھیں سویتلانا خُود کو پس منظر میں رکھتے ہوئے، تاہم کہیں کہیں اپنی جھلک بھی دِکھاتے ہوئے، افسانوی انداز میں ضبطِ تحریر میں لائی ہیں۔ یہ ستم رسیدگی کی ایسی داستانیں ہیں جو درحقیقت انسان کی سائنس کی ترقی کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں زمین پر زندگی کی تباہ و بربادی اور قلع قمع کی داستانیں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ نوبیل انعام برائے ادب کی حق دار قرار پائی ہیں۔ لُوکاشینکو انتظامیہ کے سیاسی جبر و استحصال کے بعد سال ۲۰۰۰ء میں اُنھوں نے بیلاروس کو داغِ مفارقت دے دیا۔ اُنھیں پناہ گزینوں کے عالمی شہروں نے پناہ کی پیشکش کی اور اُنھوں نے ۲۰۱۱ء تک کا عرصہ پیرس، گوتھن برگ اور برلن میں بسر کیا۔ ۲۰۱۱ء میں وہ مِنسک لوٹ آئیں۔
v
الیگزائی وِچ کی کتب کو سوویت اور سوویت ٹُوٹنے کے بعد کی جذباتی تاریخ گردانا جاتا ہے جسے محتاط طریقے سے انٹرویوز کے کولاژمیں بیان کیا گیا ہے۔ رُوسی مصنف اور نقاد دَمتری بائیکوف کے مطابق اُن کی کتابوں میں بہت سے خیالات و نظریات بیلاروس کے لکھاری اَلیس ایڈمووِچ سے مستعار لیے گئے ہیں جن کا خیال تھا کہ بیسویں صدی کی ہول ناکیوں کو بیان کرنے کے لیے افسانوی تخلیقات سے زیادہ بہترین راستہ گواہوں کے بیانات کی قلم بندی ہے۔ بیلاروس کے شاعر اُلادِزمیرنیا کلیایوف نے ایدمووِچ کو ’’الیگزائی وِچ کا جدِّ امجد‘‘ قرار دیا ہے۔ اُنھوں نے ایدمو وِچ کے دستاویزی ناول ’’میں جلے ہوئے گاؤں سے آیا ہوں‘‘ کا حوالہ دیا ہے جس میں نازی فوجی دستوں نے بیلاروس پر قبضے کے دوران اُلادِزمیر کالیس نِک اور جانکا بِرل نامی گاؤوں کو آگ لگا دی تھی کہ یہ واحد کتاب ہے جس نے ادب کی سمت الیگزائی وِچ کے روّیے پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ الیگزائی وِچ نے خُود بھی ایدمووِچ کے اثر کو تسلیم کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ وہ بیلاروس کے ایک اَور لکھاری واسِل بائی کاؤ سے بھی متأثر ہیں۔
اپنی تخلیقات کے بارے میں الیگزائی وِچ کہتی ہیں: ’’اگر ہماری تمام تاریخ پر نظر ڈالی جائے، سوویت اور مابعد سوویت دونوں پر، تو وہ ایک وسیع و عریض اجتماعی قبر اور خُون میں نہائی ہوئی ظالموں اور مظلوموں کا دائمی نوحہ ہے۔ ستم رسیدہ رُوسی سوال کرتے ہیں کہ کیا کِیا جائے اور کس پر الزام دھرا جائے: انقلاب پر، جبری مشقت کے کیمپوں پر (gulag: ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۵ء کے دوران سوویت یونین میں جبری مشقت کے کیمپ بنائے گئے تھے جن میں بے شمار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔)، جنگِ عظیم دوم پر، عوام سے خفیہ رکھی جانے والی سوویت افغان جنگ پر، عظیم سلطنت کے انہدام پر، عظیم اشتراکی ملک کے زوال پر، مثالی سرزمین پر اور اب آفاقی مسئلے چرنوبل پر۔ ایسا مسئلہ جو رُوئے ارض کے تمام جان داروں کا مسئلہ ہے۔ یہ ہماری تاریخ ہے۔ یہی میری تخلیقات ہیں اور یہی میرا راستہ ہے……۔‘‘
الیگزائی وِچ اپنے وطن بیلاروس سے زیادہ دُنیا بھر میں معروف ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ’’وہ ایک صحافی ہیں، جج نہیں۔ وہ کہانیاں سنا کر فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتی ہے۔‘‘
پیرس ریویو کے انٹرویو کنندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے سویتلانا الیگزائی وِچ نے اپنی تحریروں کے افسانہ (فکشن) ہونے پر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیا کیا: ’’ہاں. جب موضوع جنگ ہو، یا کیمپ ہو، یا کسی سلطنت کا زوال تو سینکڑوں مصنفین اِس پر کام کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ ہیئت میں نے ایجاد کی ہے۔ اِس نوع کا ادب روس میں عرصہ دراز سے موجود ہے۔ ماضی میں پہلی جنگ عظیم تک جائیں تو صوفیہ فیڈورچینکو نے کہانیاں اکٹّھی کیں۔ وہ ایک نرس کے طور پر کام کرتی تھی اور فوجیوں کی گفتگو لکھتی تھی۔ سوویت کے زمانے میں بھی، بیلاروس کی مصنفہ ایلس آدمووچ، میرے استاذ نے، روسی مصنف ڈینیئل گرانین کے ساتھ مل کر لینن گراڈ کے محاصرے کے بارے میں ایک کتاب مرتب کی تھی۔ پھر بھی، میرا نظریہ مختلف ہے۔ اُن تمام ٹکڑوں سے، میں آوازوں سے ایک ناول تخلیق کرنا چاہتی ہوں۔ وہ زبانی تاریخ لکھ رہے تھے۔ وہ اُسے تصادفی طور پر لکھ رہے تھے، امریکی (مصنف و مؤرخ) سٹڈس ٹرکیل (Studs Terkel) کے مانند۔ اُس نےواقعات لکھ دیے۔ امریکا میں بے شمار زبانی مورخین ہیں، لیکن میری کتابیں ناول لکھنے کے اصولوں کو برتتے ہوئے تحریر ہوئی ہیں۔ میرے پاس ایک آغاز ہے، ایک پلاٹ ہے، کردار ہیں۔‘‘
’’لٹریری حب‘‘ کو انٹرویو میں اُنھوں نے اپنے فن کے متعلق کہا۔ ’’میں اکثر صحافیوں سے سنتی ہوں کہ میں نے جو کچھ سنا اُسے صرف دکھایا اور ضبطِ تحریر میں لائی ہوں۔ لو جی، کتاب تیار ہے۔ یقیناً، یہ بکواس ہے۔اُن کتابوں کو تخلیق کرنے کے لیے، مجھے دنیا سے بہت ساری تفصیلات اکٹّھی کر کے یکجا کرنا پڑتی ہیں۔ فطرت کی زندگی کو دبوچنا ہوتا ہے؛ دورِ آشوب میں لوگوں کو قابو کرنا پڑتا ہے۔
لوگ اکثر مجھ سے سوال کرتے ہیں۔ ’’لوگ آپ کی کتابوں میں اتنی خوب صورتی سے بات چیت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میرا جواب ہوتا ہے کہ میں محبت کے لمحات، شدید ترین ہلچل، موت کے لمحات کو ضبط کرتی ہوں: جنگ، چرنوبل۔ ایسا شخص خوب صورت انداز میں گفتگو کرتا ہے۔ وہ جو کچھ کرنے کے قابل ہے اُس کی تمام حدود و قیود سے وہ اپنے آپ کو باہر نکال لے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میرے مرکزی کرداروں نے بھی کبھی کبھی مجھ سے کہا: ’’میں تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ میں یہ جانتا ہوں۔‘‘ میرے لیے اِس طور سے لوگوں تک رسائی اہم تھی۔
فرسودگی کے اس پردے کو ہٹانے میں بہت سا وقت صرف ہوتا ہے، کیوں کہ ہم فرسودگیوں کی دنیا میں موجود ہیں: اخبارات، زیادہ تر کتابیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ کسی شخص کے اصل متن تک پہنچنے کے لیے اِس فرسودگی کو ہر صورت ختم کرنا چاہیے تاکہ وہ وہ باتیں کہے جو دِیگر لوگوں نے نہیں کہیں، دوسروں نے اُنھیں نہیں جانا۔ جب وہ یہ دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں، تو مجھے یہ سننے کے لیے اینٹینا لگانے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے، کیوں کہ کچھ نیا سننے کے لیے، کچھ نئے انداز میں پوچھنا پڑتا ہے۔
لوگ کہیں گے۔ ’’آپ صرف دکھاتے ہیں اور لکھتے ہیں— وجودی غلاظت، جو ہماری زندگی ہے۔‘‘ نہیں، ہماری زندگی سے تمام زیادتیاں، تمام سطحی، فرسودہ چیزوں کو لازماً ہٹانا ہوگا، پھر اُس شخص کے ساتھ مل کر اُس خود شناسی میں غوطہ زن ہو جائیں۔ یہ بہت بڑا، مشکل کام ہے۔ کہانیوں کے ایسے مجموعے میں مرد و زن ، بوڑھے، بچّے ضرور شامل ہونا چاہئیں۔ مختلف نقطۂِ نظر، مختلف پیشوں کے حامل لوگ، کیوں کہ پیشہ ہم سب کے نقطۂِ نظر کو بدلتا ہے۔ آپ دنیا کو ایک خاص انداز میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ سب کچھ یکجا کرنا، اِسے ڈھانچے پر استوار کرنا پڑتا ہے— عملی حقیقی زندگی پر مبنی۔
سب سے دشوار امر یہ ہے کہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ دستاویزی افسانہ ہے۔ گویا میں نے اُن لوگوں سے، جن کی میں نے باتیں سنی ہیں، سب کچھ اخذ کِیا ہے۔ نہیں، میری کتابوں میں سب کچھ وہی ہے جو لوگوں نے واقعی کہا، لیکن اِس تمام کو شکل دینا پڑتی ہے، ایک ساتھ بُننا پڑتا ہے تاکہ یہ واقعی فن کا کام ہو۔‘‘
لاس اینجلس ریویو کو دیے گئے انٹرویو میں سویتلانا الیگزائی وِچ نے اپنی لکھتوں اور افسانوی فن کے حوالے سے اظہار خیال کِیا۔ ’’ہم مختلف لوگوں کو مختلف طریقوں سے کہانیاں سناتے ہیں، خواہ وہ بچوں کے لیے ہوں، بڑوں اور دوستوں کے لیے ہوں۔ …… یہ اُس مواد کو زندگی کے اُن دھاگوں سے ایک ساتھ بُننے کا کام تھا، جیسے کوئی محبت یا موت کے بارے میں سوچے۔ المیوں میں تقدیریں ہیں، اور پھر کورس میں گانے والے جو مستقبل کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ یہ ٹکڑیاں اُس جگہ کے لحاظ سے چھوٹے ٹکڑے ہیں جن کا وہ احاطہ کرتے ہیں، لیکن ہیں بہت اہم۔ میں ایک فنی ڈھانچہ یا اس طرح کی سمفنی بنانے کی سعی کر رہی تھی۔ انسانی جانوں اور انسانی آوازوں سے بنا ایک طرح کا مندر۔‘‘
اِس سوال کے جواب میں کہ اُنھوں نے یہ تعین کیسے کِیا کہ شہادتوں کو کیسے ترتیب دیا جائے، اور آیا یہ عمل اُن کے دوسرے کاموں کے لیے شرکاء کے انتخاب کے عمل سے ملتا جلتا تھا یا مختلف؟ اُنھوں نے کہا۔ ’’یہ ایک مشکل سوال ہے جیسے کسی موسیقار سے پوچھا جائے کہ ’’آپ کو یہ آوازیں کہاں سے آتی ہیں؟ اِنھیں اِس مخصوص انداز میں کیوں ترتیب دیا گیا ہے؟‘‘۔ یہ سب وجدان ہے۔ یہ بس محسوس ہوتا ہے کہ یہ کیسا ہونا ہے۔ میرے لیے یہ ضروری ہے کہ واقعہ پر مبنی نہیں بلکہ سوچ پر مبنی پلاٹ ہو۔ واقعات کو آپ مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ میں یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوا تھا، اُس وقت لوگوں نے اُس کا تجربہ کیسے کِیا اور یہ جانچنے کے لیے کہ ہم نے اُسے کیا سمجھا تھا، مختلف عمروں اور مختلف پیشوں کے لوگوں کی باتیں جمع کرتی ہوں۔ شاید، کافی وقت بِیت جانے کے بعد، لوگ یہ سمجھنے کی خاطر کہ کیا ہوا تھا چیزوں کو بے حد مختلف طریقے سے سمجھیں گے کیوں کہ ہم اُن کے لیے وحشیوں کی طرح ہوں گے۔ وہ فطرت کو زیادہ گہرائی سے دیکھ اور زیادہ گہرائی سے سمجھ سکتے ہوں گے۔
لیکن وہاں آپ ایک بدیہی راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو محض خوف سے جھنجھوڑ نہیں سکتے کہ کسی شخص کی تابکاری سے موت خوف ناک ہے۔ جی ہاں، یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ میں اُس وحشت سے کوئی پوری کتاب نہیں قلم بند کر سکتی تھی۔ ہمارے تجربہ کر سکنے کی ایک حد ہوتی ہے، انسانوں کے لیے ایک حد مقرر ہوتی ہے۔ جمالیات ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ متن کی موسیقی، متن کے زیریں چلتی ہوئی المیاتی موسیقی۔ اِس سب کی اپنی آواز ہے لیکن اُس موسیقی کے بغیر یہ فن نہیں ہوگا۔ یہ فن کا کام نہیں ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ میں اپنا مواد لے کر گئی ہوں— وہ حقیقی لوگ ہیں۔ مائیکل اینجیلو نے بھی یہی کہا تھا: ’’یہ پہلے سے موجود ہے، مجھے صرف فالتو کو چھینی سے چھیلنا پڑتا ہے۔‘‘ میں بھی یہی کرتی ہوں۔ زندگی سے ایک ٹکڑا منتخب کرتی ہوں اور تمام فالتو سطحی چیزیں نکال باہر کرتی ہوں۔‘‘
سویتلانا الیگزائی وِچ نے ایک اور سوال کے جواب دیتے ہوئے مزید کہا۔ ’’جب میں کتاب ’’جنگ کا غیرنسوانی چہرہ‘‘ (The Unwomanly Face of War) لکھ رہی تھی تو کچھ لوگوں نے مجھ پر شکوک و شبہات کا اظہار کِیا: جنگ عرصے میں وہاں نہ ہونے کے باوجود میں یہ کتاب کیسے لکھ سکتی تھی؟ مجھے نہیں لگتا کہ آپ بوڑھے ہوں یا جوان، آپ کا وہاں موجود ہونا لازم ہے۔ آپ کو واقعے کا تجربہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اُس عمر یا ثقافت سےبڑھ کر ہے جس کے ساتھ کوئی پلا بڑھا ہو۔ ایک ہندوستانی کا چرنوبل کا تجربہ یورپی سے الگ ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہ چیزوں کی نوعیت میں گھسنا — ایک خاصا کم عمر شخص بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے، یا مجھے توقع ہے کہ ابھی ایک نوجوان ہدایت کار بڑا ہو رہا ہے، جو آئے گا اور میرے متن سےایک بالکل مختلف شے تشکیل دے گا۔ وہ کسی اور عہد سے، یا شاید کسی اور نوع کے ہنر وصلاحیت سے تسکین کریں گے۔
رسمی چیزیں زندگی میں بڑا کردار ادا نہیں کرتی ہیں۔ کبھی کبھی مجھے گاؤں کی کسی بوڑھی عورت سے گفتگو کرنے میں گہری دلچسپی ہوتی ہے، جس نے ٹالسٹائی یا دوستوفسکی کو نہیں پڑھا ہوتا، لیکن وہ نہایت دلچسپ باتیں کرتی ہے۔ وہ اُن چیزوں کی، جو میرے لیے کاملاً مبہم ہوتی ہیں، فطری نوعیت کو دیکھتی ہے۔ میں اِسے سمجھ نہیں پاتی، اور میں نے کبھی اِس پر غور بھی نہیں کِیا تھا۔ اُس نے کِیا تھا۔ میں کبھی کبھی ایسے بچوں سے بات چیت کرتی ہوں جو ازحد غیر معمولی ہوتے ہیں۔ اُن کا نظریہ مختلف ہوتا ہےجو کسی اور ہی چیز پر منحصر ہوتا ہے: ہم کتنی اچھی زندگی گزار رہے ہیں؛ ہم کس قدر باصلاحیت ہیں اور ہم اپنی سوچ بچار کے طور میں کتنے تجربہ کار ہیں؛ ہم زندگی میں کتنی سنجیدگی سے گھستے ہی؛۔ ہم پیش پا افتادگی کو کس حد تک پیچھے چھوڑتے ہیں کیوں کہ بیشتر لوگوں کا جینا، کھانا پینا ، اوڑھنا بچھونا فرسودگی ہی ہے، اور بس اتنا کافی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہر کسی کی زندگی کے نقطۂِ نظر پر انحصار کیے بغیر اپنی ذات میں سے اپنی مخلوق کو تخلیق کرنا، ایسی باتوں میں حصہ ڈالنا جو کتابوں میں نہیں کہی گئی، حتّٰی کہ اچھی کتابوں میں بھی نہیں، اپنے نقطۂِ نظر کو بدلنا، ایسا متن پیش کرنا جس کا انسانی تاریخ میں تجربہ نہ کیا گیا ہو—ایک عظیم کام ہے، اور آپ کو اپنی پوری زندگی اِس پر کام کرنا چاہیے۔
میں نے اپنی صنف کا انتخاب صرف اِس لیے نہیں کیا کہ میری سماعت کیسے، میری بصارت کیونکر کام کرتی ہے اور میں دنیا کو کیسے دیکھتی ہوں۔ میں نے اِسے منتخب اِس لیے کیا کیوں کہ میں افسانے سے مایوس تھی۔ مطلب — اچھائی اور برائی کے درمیان تنازعہ— افسانے میں کسی نہ کسی طرح گھٹا ہوا ہے۔ اِس نصف دستاویزی صنف میں اِن ناقابل بیان چیزوں کو پہنچانے کا ایک بہتر موقع ہے، اور یہ ایک افسانوی متن سے زیادہ سریع طور پر کام کرتا ہے۔ آپ بہت جلد اچھا ناول نہیں لکھ سکتے۔ ایک عظیم کتاب کے لیے، آپ کو کافی وقت درکار ہے۔ مجھے ارتکازی انداز میں لکھنا پسند ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ آج ادب کا مرکزی کردار شہادت ہے۔ یہ وہ گواہ ہے جو کسی واقعہ کو وقوع پذیر ہوتے اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھتا اور اُس کا تجربہ کرتا ہے۔ بعد میں، سرخ پھیکا پڑ کر گلابی ہو جاتا ہے۔ ہماری یادداشت کو کچھ ہو جاتا ہے۔ یہ اتنا مرتکز نہیں رہتا۔ ہمیں اب وہی صدمہ محسوس نہیں ہوتا۔
میں ہمیشہ اپنے انٹرویو دہندگان سے عین اُسی وقت ملنا چاہتی تھی جب واقعہ پیش آیا ہوتا تھا۔ میں نے اپنی جنگ والی کتاب اُن واقعات کے ۴۰ سال بعد لکھی، لیکن سچ بولنے کا یہی پہلا موقع تھا۔ لوگ اِس قدر صدمے سے دوچار ہوئے کہ اُن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اُنھوں نے اِس سے کہیں زیادہ کہا جتنا وہ جنگ کے فوراً بعد مجھے بتاتے۔ دہشت گردی کے برسوں کے دوران میں، جب وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتے تھے اور ایسا کچھ چھاپنے کا محل بھی نہیں تھا۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میرے انٹرویو دہندگان اتنی خوب صورت اور درست بات کیوں کرتے ہیں۔ ہم سب سے اہم چیزوں کا دوبارہ تجربہ کرتے ہیں— موت اور محبت— جب ہم سب سے زیادہ جذباتی صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ محبت بھی شدّت کے اعتبار سے چرنوبل اور جنگ جیسی ہے۔ اپنے گھر منسک میں میرے پاس محبت کے بارے میں ایک نامکمل کتاب ہے۔ میں محبت کی بات کرنے والے مردوں اور عورتوں کے بارے میں ایک کتاب لکھنا چاہتی تھی، لیکن مجھے اب انقلاب کے بارے میں لکھنا ہے۔
کسی بھی چیز سے بڑھ کر، میں انسانی فطرت کے بارے میں کتابیں پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘
نوبیل انعام کا اعلان ہونے کے بعد نوبیل پرائز آرگنائزیشن کی نمائندہ جولیا چائیکا نے سویتلانا الیگزائی وِچ سے فون پر اُن سے رابطہ کر کے مبارک باد دینے اور ابتدائی رسمی کلمات کی ادائی کے بعد سویتلانا الیگزائی وِچ سے اُن کے طرزِ تحریر کے بارے میں سوال کِیا: جب آپ نے اپنی تخلیقات میں اِس نوع کے صحافتی انداز کا انتخاب کِیا تو آپ کو کس چیز نے متأثر کِیا؟ تو سویتلانا الیگزائی وِچ کا جواب تھا کہ آپ آگاہ ہیں کہ جدید دنیا میں ہر چیز اتنی تیزی اور شدّت سے وقوع پذیر ہوتی ہے کہ کوئی فرد ہی کیا بلکہ پورا معاشرہ بھی اُس کا تصوّر نہیں کر پاتا۔ بدقسمتی سے یہ نہایت سریع ہے۔ بیٹھ کر اِس پر غور کرنے کے لیے وقت نہیں، جیسا کہ ٹالسٹائی نے کِیا تھا، جس کے خیالات کئی دہائیوں میں پختہ ہوئے تھے۔ مجھ سمیت ہر شخص حقیقت کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہے، نامکمل معلومات کی بنیاد پر محض قیاس کر سکتا ہے۔ بعض اوقات، میں اپنے متن کے ۱۰۰ صفحات میں سے صرف ۱۰ سطریں چھوڑتی ہوں، تو کبھی ایک صفحہ۔ اور یہ تمام باہم مل کر آوازوں کے ایک ناول میں جُڑ کر ہمارے وقت کی تصویر کشی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
جس پر انٹرویو کنندہ نے سوال کِیا: ابھی آپ نے ایک شاندار استعارہ ’’آوازوں کا ناول‘‘ استعمال کِیا ہے اور میرا اگلا سوال اسی سے جُڑا ہوا ہے۔ آپ نے بہت زیادہ تکالیف کا مشاہدہ کِیا اور اپنے کام کے دوران میں خوفناک ثبوت دیکھے۔ کیا اِس نے انسان کو دیکھنے کے انداز کو متأثر کِیا؟
سویتلانا الیگزائی وِچ کا جواب تھا: اِس سوال کا جواب دینے کے لیے کچھ وقت درکار ہے لیکن میں یہ کہوں گی کہ میں اُس ثقافت سے تعلق رکھتا ہوں جس میں مستقل طور پر یہ درجہ، یہ تکلیف دہ درجہ حرارت ہے۔ دوسری ثقافتوں میں کوئی ناقابلِ فہم اور ناقابلِ برداشت چیز ہمارے لیے ایک عمومی حالت ہے۔ ہم اِس میں زندگی بسر کرتے ہیں، یہی ہمارا ماحول ہے۔ ہم ہمہ وقت متأثرین اور جلادوں کے درمیان رہتے ہیں۔ ہر خاندان میں، میرے خاندان میں …… ۱۹۳۷ء کا سال، چرنوبل، جنگ۔ یہ سال بہت کچھ بتا سکتا ہے، سب پاس یہ کہانیاں ہیں … ہر خاندان آپ کو دُکھ کا یہ ناول سنا سکتا ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ میرا یہ نقطۂِ نظر ہے یا مجھے یہ پسند ہے کہ ایسے حالات میں لوگ کس طرح سوچتے ہیں۔ نہیں، یہ ہماری زندگی ہے۔ ایک ایسے شخص کا تصوّر کریں جو پاگل خانے سے نکلا ہے اور وہ اِس کے بارے میں لکھ رہا ہے۔ کیا میں اُس شخص سے کہوں: ’’سنو، تم اِس کے بارے میں کیوں لکھ رہے ہو؟‘‘ پریمو لیوی کی طرح، جس نے حراستی کیمپوں کے بارے میں لکھا اور اپنے آپ کو اُن سے الگ نہیں رکھ پایا، یا چلاموف کی طرح جو کیمپ کے ہاتھوں مارا گیا تو وہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں لکھ سکتا تھا۔ میں خود غور و خوض کرتی رہی ہوں کہ ہم کون ہیں، ہمارے دُکھ آزادی میں کیوں نہیں بدل سکتے؟ میرے لیے یہ ایک اہم سوال ہے۔ غلامی کا شعور ہمیشہ کیوں غالب رہتا ہے؟ ہم اپنی آزادی کو مادی فوائد میں کیوں بدلتے ہیں؟ یا ڈرتے رہنا، جیسا کہ ہم نے پہلے کیا تھا؟
انٹرویو کنندہ کے اِس سوال پر کہ آپ کس کے لیے لکھ رہی ہیں؟ سویتلانا الیگزائی وِچ کا کہنا تھا: میرا خیال ہے کہ اگر میں خود اِن سوالات کو سمجھ لوں تو میرے لیے کسی سے بات کرنا آسان ہو جائے گا۔ کسی منظر کے مقام پر یا جب میں لکھ رہی ہوتی ہوں، دونوں صورتوں میں قریبی دوستوں سے باتیں کرنے کو دِل چاہتا ہے ۔ میری تمنّا ہوتی ہے کہ اُنھیں بتاؤں کہ میں نے اِس زندگی میں کیا محسوس کیا۔ میں جج کا کردار کبھی نہیں قبولتی، میں کوئی سردمہر تاریخ نویس نہیں۔ میرا دِل ہمیشہ وہاں اٹکا رہتا ہے۔ جوسوال مجھے دِق کرتا ہے، یہ ہے کہ ہم وحشت کی اِس شاہراہ پر کب تک گامزن رہ سکتے ہیں؟ انسان کتنا برداشت کر سکتا ہے؟ اِسی لیے المیے کے میرے منصوبے میرے لیے اہم ہیں۔ یہ اہم ہے کہ جب کوئی کہے کہ وہ ایسی خوفناک کتابیں پڑھنے کے بعد بہتر محسوس کرتا ہے یا یہ کہ کسی قاری کے آنسو بہہ نکلے تو وہ آنسو من کو اُجلا کرنے والے تھے۔ آپ کو یہ سب باتیں ذہن میں رکھنی چاہئیں نہ کہ بس لوگوں کو خوف سے مغلوب کریں۔
سویتلانا الیگزائی وِچ کو آوازیں سُنائی دیتی ہیں۔ اُنھوں نے اُن ہی آوازوں کو اپنی لِکھتوں میں بیان کیا ہے۔ نوبیل انعام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے اُن آوازوں اور اپنے فن و فکر کا ذکر اپنے نوبیل خطبے ’’ہاری ہوئی جنگ‘‘ میں یُوں کیا۔ ’’اِس چبوترے پر میں تنہا نہیں کھڑی ہوں… میرے چاروں طرف آوازیں ہیں، سینکڑوں آوازیں جو بچپن ہی سے میرے ساتھ رہی ہیں۔ میں دیہی علاقے میں پلی بڑھی۔ …… اپنے گھروں کے آس پاس بینچوں پر جمع ہو جانے والی عورتوں کی آوازیں۔ اُن کے خاوند تھے نہ باپ اور بھائی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد ہمارے گاؤں میں ایک بھی مرد تھا۔ …… مجھے بس اِتنا یاد ہے کہ وہ عورتیں محبت کی باتیں کرتی تھیں۔ اپنی محبوب ہستیوں کے جنگ پر روانگی سے ایک روز قبل خُدا حافظ کہنے کے قِصّے سُنایا کرتیں اور اُن کے انتظار کی باتیں کرتی تھیں— سال ہا سال بِیت گئے لیکن وہ اُن کی منتظر ہیں۔ ……فلابرٹ خُود کو انسانی قلم کہا کرتا تھا، میں کہتی ہوں کہ میں انسانی سماعت ہوں۔ جب میں سڑک سے گُزرتی ہوں تو میری سماعت الفاظ، جملے اور آہ وبکا سُنتی ہے۔ میں ہمیشہ سوچتی ہوں— کتنے ہی ناول گُم ہو گئے! اندھیروں میں کھو گئے۔ ہم نے ادب میں گفتگو کے پہلو کے کو پکڑا ہی نہیں۔ ہم اِس رُخ کو پسند ہی نہیں کرتے، اِس پر حیران ہوتے ہیں نہ حظ اُٹھاتے ہیں۔ لیکن اِس پہلو نے مجھے تو مسحور کر رکھا ہے بلکہ اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔ … میں نے پانچ کتابیں لکھیں ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ جیسے وہ پانچوں دراصل ایک ہی کتاب ہے۔ مثالی دُنیا کے بارے میں ایک کتاب۔ …… میں روزمرّہ احساسات، خیالات، الفاظ اور اپنے عہد کی زندگی کو اکٹّھا کرتی ہوں۔ مجھے رُوح کی تاریخ سے دِلچسپی ہے۔ رُوح کی روزمرّہ زندگی، وہ چیزیں یا حسرتیں جن سے تاریخ کی دیوہیکل تصویر صرفِ نظر کرتی ہے۔ میں تاریخ کے پوشیدہ پہلوؤں پر کام کرتی ہوں۔ مجھے اب بھی اکثر کہا جاتا ہے کہ میں جو کچھ لکھتی ہوں وہ ادب نہیں ہے، دستاویز ہے۔ آج ادب کیا ہے؟ اِس سوال کا جواب کون دے گا؟ اب ہم پہلے سے زیادہ برق رفتار زندگی بسر کر رہے ہیں…… ہر شے اپنی حد سے تجاوز کر گئی ہے، موسیقی اور مصوّری بھی— یہاں تک کہ دستاویزی الفاظ بھی دستاویز کی حدود و قیود سے نکل گئے ہیں۔ حقیقت اور افسانے میں کوئی سرحد نہیں رہی۔ دونوں ایک دُوسرے میں ضم ہو گئے ہیں۔ …… کہانی لکھنے میں مجسمہ ساز کی سی کشتی لڑنا پڑتی ہے۔ …… مجھے چھوٹے لوگوں میں دلچسپی ہے۔ چھوٹے لیکن جنھیں میں عظیم لوگ کہوں گی کیوں کہ لاچاری وسعت قلبی دیتی ہے۔ میری کتابوں میں یہ لوگ اپنی باتیں کرتے ہیں، چھوٹی سے چھوٹی تاریخ کا ذکر کرتے ہیں جس کے ساتھ ساتھ بڑی تاریخ بھی چلتی ہے۔ ہمارے پاس اِتنا وقت نہ تھا اور نہ ہے کہ سمجھ پاتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے… یہ کم و بیش میری وہ گفتگوئیں ہیں جو میری اپنے مرکزی کرداروں سے کسی نہ کسی طرح ہوئیں۔ بِلاشبہ، لوگ اپنے فارغ وقت میں باتیں کرتے تھے۔ اُن کے پاس باتوں کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔ تاہم انسانی رُوح تک رسائی مشکل ہے کیوں کہ ٹیلی ویژن اور اخبار سدِّراہ ہیں اور یہی اِس صدی کے توہمّات، بغض اور گُمراہیاں ہیں۔…… لوگ تو اپنے کرتوتوں بھگت رہے ہیں لیکن جانور، پرندے، مچھلیاں— اُنھوں نے کیا کِیا ہے؟ … میں نے خُود دیکھا ہے کہ ہتھیار خُوب صُورت ہیں: مشین گنیں، سُرنگیں، ٹینک۔ انسان نے انسانوں کو قتل کرنے کے لیے خُوب غوروخوض سے کام لیا ہے۔ یہی سچائی اور خُوب صُورتی کے درمیان نزاع ہے۔ …… میں افغانستان کے ایک ہسپتال میں زخمی بچّوں کو تحائف دینے گئی۔ … میرے پاس پانچ کھلونا ریچھ بھی تھے۔ …… ایک نوجوان عورت اپنے بازوؤں میں ایک بچّہ اُٹھائے میری طرف بڑھی۔ وہ پچھلے دس برسوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی تھی۔ میں نے ایک کھلونا بچّے کو دیا جسے اُس نے اپنے مُنھ سے پکڑا۔ …… بچّے کے دونوں بازو نہیں تھے۔ مجھ سے دریافت کیا جاتا ہے: ہم ہمیشہ المیہ ہی کیوں لکھتے ہیں؟ کیوں کہ ہم ایسی ہی زندگی جیتے ہیں۔‘‘
:::
سویتلانا الیگزائی وچ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
نجم الدین احمد کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
افسانے کا فن
ہاری ہوئی جنگ
سویتلانا الیگزائی وِچ
(Svetlana Alexivich)
تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد
ہم ہمیشہ المیہ ہی کیوں لکھتے ہیں؟ کیوں کہ ہم ایسی ہی
زندگی جیتے ہیں۔ —سویتلانا الیگزائی وِچ
نوبیل انعام برائے ادب۔۲۰۱۵ء سے بیلاروس کی صحافی خاتون سویتلانا الیگزائی وِچ کو سرفراز کیا گیا ہے کہ’’اُن کی لِکھتیں ہمارے عہد کی گوناں گوں صوتوں کی حامل یاد گار لِکھتیں ہیں۔‘‘ انعام کا اعلان کرتے ہوئے نوبیل پرائز کمیٹی نے الیگزائی وِچ کی اِن الفاظ میں تحسین کی: ’’اُن کا اُسلُوب غیر معمولی ہے— انسانی آوازوں کا احتیاط سے ترتیب ہوا کولاژ— جو ایک پُورے عہد کے ہمارے فہم کو گہرا کرتا ہے۔‘‘ الیگزائی وِچ ادب کا نوبیل پانے والی چودہویں اور رُوس کی پہلی لکھاری خاتون ہیں۔ اِس سے قبل رُوس کے کسی لکھاری یا ادیب کو اِس اعزاز سے نہیں نوازا گیا۔ الیگزائی وِچ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ دُنیا بھر کے مرد و زَن صحافیوں نوبیل انعام پانے والی پہلی صحافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوبیل انعام ۲۰۱۵ء متنازعہ ہے کیوں کہ غیر افسانوی نثر نگار کو نوبیل انعام برائے ادب دیے جانے کا یہ پہلا موقع ہے۔
سویتلانا کا پُورا نام سویتلانا الیگزینڈروفنا الیگزائی وِچ ہے۔ وہ ۳۱ مئی ۱۹۴۸ء کو مغربی یوکرین کے شہر سٹانِسلا وِف (جس کا نام ۱۹۶۲ء میں تبدیل کر کے اِیوانوفرانک فِسک رکھ دیا گیا تھا) میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد کا تعلّق بیلاروس سے تھا جب کہ ماں یوکرینی تھیں۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، بیلاروسیّن سٹیٹ یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے اور مِنسک کے ادبی جریدے ’’نیمان‘‘ (Neman) کی نامہ نگار بننے سے قبل، اُنھوں نے متعدد مقامی اخبارات کے نمائندے کی حیثیت سے کام کیا۔ اُنھوں نے اپنی صحافتی زندگی کے دوران رُوس کے بہت سے ڈرامائی واقعات کے، مثلاً دُوسری جنگِ عظیم، رُوس افغانستان جنگ اور سانحۂِ چرنوبل، عینی شاہدین کے انٹرویو قلم بند کیے۔ جنھیں سویتلانا خُود کو پس منظر میں رکھتے ہوئے، تاہم کہیں کہیں اپنی جھلک بھی دِکھاتے ہوئے، افسانوی انداز میں ضبطِ تحریر میں لائی ہیں۔ یہ ستم رسیدگی کی ایسی داستانیں ہیں جو درحقیقت انسان کی سائنس کی ترقی کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں زمین پر زندگی کی تباہ و بربادی اور قلع قمع کی داستانیں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ نوبیل انعام برائے ادب کی حق دار قرار پائی ہیں۔ لُوکاشینکو انتظامیہ کے سیاسی جبر و استحصال کے بعد سال ۲۰۰۰ء میں اُنھوں نے بیلاروس کو داغِ مفارقت دے دیا۔ اُنھیں پناہ گزینوں کے عالمی شہروں نے پناہ کی پیشکش کی اور اُنھوں نے ۲۰۱۱ء تک کا عرصہ پیرس، گوتھن برگ اور برلن میں بسر کیا۔ ۲۰۱۱ء میں وہ مِنسک لوٹ آئیں۔
v
الیگزائی وِچ کی کتب کو سوویت اور سوویت ٹُوٹنے کے بعد کی جذباتی تاریخ گردانا جاتا ہے جسے محتاط طریقے سے انٹرویوز کے کولاژمیں بیان کیا گیا ہے۔ رُوسی مصنف اور نقاد دَمتری بائیکوف کے مطابق اُن کی کتابوں میں بہت سے خیالات و نظریات بیلاروس کے لکھاری اَلیس ایڈمووِچ سے مستعار لیے گئے ہیں جن کا خیال تھا کہ بیسویں صدی کی ہول ناکیوں کو بیان کرنے کے لیے افسانوی تخلیقات سے زیادہ بہترین راستہ گواہوں کے بیانات کی قلم بندی ہے۔ بیلاروس کے شاعر اُلادِزمیرنیا کلیایوف نے ایدمووِچ کو ’’الیگزائی وِچ کا جدِّ امجد‘‘ قرار دیا ہے۔ اُنھوں نے ایدمو وِچ کے دستاویزی ناول ’’میں جلے ہوئے گاؤں سے آیا ہوں‘‘ کا حوالہ دیا ہے جس میں نازی فوجی دستوں نے بیلاروس پر قبضے کے دوران اُلادِزمیر کالیس نِک اور جانکا بِرل نامی گاؤوں کو آگ لگا دی تھی کہ یہ واحد کتاب ہے جس نے ادب کی سمت الیگزائی وِچ کے روّیے پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ الیگزائی وِچ نے خُود بھی ایدمووِچ کے اثر کو تسلیم کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ وہ بیلاروس کے ایک اَور لکھاری واسِل بائی کاؤ سے بھی متأثر ہیں۔
اپنی تخلیقات کے بارے میں الیگزائی وِچ کہتی ہیں: ’’اگر ہماری تمام تاریخ پر نظر ڈالی جائے، سوویت اور مابعد سوویت دونوں پر، تو وہ ایک وسیع و عریض اجتماعی قبر اور خُون میں نہائی ہوئی ظالموں اور مظلوموں کا دائمی نوحہ ہے۔ ستم رسیدہ رُوسی سوال کرتے ہیں کہ کیا کِیا جائے اور کس پر الزام دھرا جائے: انقلاب پر، جبری مشقت کے کیمپوں پر (gulag: ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۵ء کے دوران سوویت یونین میں جبری مشقت کے کیمپ بنائے گئے تھے جن میں بے شمار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔)، جنگِ عظیم دوم پر، عوام سے خفیہ رکھی جانے والی سوویت افغان جنگ پر، عظیم سلطنت کے انہدام پر، عظیم اشتراکی ملک کے زوال پر، مثالی سرزمین پر اور اب آفاقی مسئلے چرنوبل پر۔ ایسا مسئلہ جو رُوئے ارض کے تمام جان داروں کا مسئلہ ہے۔ یہ ہماری تاریخ ہے۔ یہی میری تخلیقات ہیں اور یہی میرا راستہ ہے……۔‘‘
الیگزائی وِچ اپنے وطن بیلاروس سے زیادہ دُنیا بھر میں معروف ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ’’وہ ایک صحافی ہیں، جج نہیں۔ وہ کہانیاں سنا کر فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتی ہے۔‘‘
پیرس ریویو کے انٹرویو کنندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے سویتلانا الیگزائی وِچ نے اپنی تحریروں کے افسانہ (فکشن) ہونے پر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیا کیا: ’’ہاں. جب موضوع جنگ ہو، یا کیمپ ہو، یا کسی سلطنت کا زوال تو سینکڑوں مصنفین اِس پر کام کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ ہیئت میں نے ایجاد کی ہے۔ اِس نوع کا ادب روس میں عرصہ دراز سے موجود ہے۔ ماضی میں پہلی جنگ عظیم تک جائیں تو صوفیہ فیڈورچینکو نے کہانیاں اکٹّھی کیں۔ وہ ایک نرس کے طور پر کام کرتی تھی اور فوجیوں کی گفتگو لکھتی تھی۔ سوویت کے زمانے میں بھی، بیلاروس کی مصنفہ ایلس آدمووچ، میرے استاذ نے، روسی مصنف ڈینیئل گرانین کے ساتھ مل کر لینن گراڈ کے محاصرے کے بارے میں ایک کتاب مرتب کی تھی۔ پھر بھی، میرا نظریہ مختلف ہے۔ اُن تمام ٹکڑوں سے، میں آوازوں سے ایک ناول تخلیق کرنا چاہتی ہوں۔ وہ زبانی تاریخ لکھ رہے تھے۔ وہ اُسے تصادفی طور پر لکھ رہے تھے، امریکی (مصنف و مؤرخ) سٹڈس ٹرکیل (Studs Terkel) کے مانند۔ اُس نےواقعات لکھ دیے۔ امریکا میں بے شمار زبانی مورخین ہیں، لیکن میری کتابیں ناول لکھنے کے اصولوں کو برتتے ہوئے تحریر ہوئی ہیں۔ میرے پاس ایک آغاز ہے، ایک پلاٹ ہے، کردار ہیں۔‘‘
’’لٹریری حب‘‘ کو انٹرویو میں اُنھوں نے اپنے فن کے متعلق کہا۔ ’’میں اکثر صحافیوں سے سنتی ہوں کہ میں نے جو کچھ سنا اُسے صرف دکھایا اور ضبطِ تحریر میں لائی ہوں۔ لو جی، کتاب تیار ہے۔ یقیناً، یہ بکواس ہے۔اُن کتابوں کو تخلیق کرنے کے لیے، مجھے دنیا سے بہت ساری تفصیلات اکٹّھی کر کے یکجا کرنا پڑتی ہیں۔ فطرت کی زندگی کو دبوچنا ہوتا ہے؛ دورِ آشوب میں لوگوں کو قابو کرنا پڑتا ہے۔
لوگ اکثر مجھ سے سوال کرتے ہیں۔ ’’لوگ آپ کی کتابوں میں اتنی خوب صورتی سے بات چیت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میرا جواب ہوتا ہے کہ میں محبت کے لمحات، شدید ترین ہلچل، موت کے لمحات کو ضبط کرتی ہوں: جنگ، چرنوبل۔ ایسا شخص خوب صورت انداز میں گفتگو کرتا ہے۔ وہ جو کچھ کرنے کے قابل ہے اُس کی تمام حدود و قیود سے وہ اپنے آپ کو باہر نکال لے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میرے مرکزی کرداروں نے بھی کبھی کبھی مجھ سے کہا: ’’میں تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ میں یہ جانتا ہوں۔‘‘ میرے لیے اِس طور سے لوگوں تک رسائی اہم تھی۔
فرسودگی کے اس پردے کو ہٹانے میں بہت سا وقت صرف ہوتا ہے، کیوں کہ ہم فرسودگیوں کی دنیا میں موجود ہیں: اخبارات، زیادہ تر کتابیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ کسی شخص کے اصل متن تک پہنچنے کے لیے اِس فرسودگی کو ہر صورت ختم کرنا چاہیے تاکہ وہ وہ باتیں کہے جو دِیگر لوگوں نے نہیں کہیں، دوسروں نے اُنھیں نہیں جانا۔ جب وہ یہ دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں، تو مجھے یہ سننے کے لیے اینٹینا لگانے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے، کیوں کہ کچھ نیا سننے کے لیے، کچھ نئے انداز میں پوچھنا پڑتا ہے۔
لوگ کہیں گے۔ ’’آپ صرف دکھاتے ہیں اور لکھتے ہیں— وجودی غلاظت، جو ہماری زندگی ہے۔‘‘ نہیں، ہماری زندگی سے تمام زیادتیاں، تمام سطحی، فرسودہ چیزوں کو لازماً ہٹانا ہوگا، پھر اُس شخص کے ساتھ مل کر اُس خود شناسی میں غوطہ زن ہو جائیں۔ یہ بہت بڑا، مشکل کام ہے۔ کہانیوں کے ایسے مجموعے میں مرد و زن ، بوڑھے، بچّے ضرور شامل ہونا چاہئیں۔ مختلف نقطۂِ نظر، مختلف پیشوں کے حامل لوگ، کیوں کہ پیشہ ہم سب کے نقطۂِ نظر کو بدلتا ہے۔ آپ دنیا کو ایک خاص انداز میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ سب کچھ یکجا کرنا، اِسے ڈھانچے پر استوار کرنا پڑتا ہے— عملی حقیقی زندگی پر مبنی۔
سب سے دشوار امر یہ ہے کہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ دستاویزی افسانہ ہے۔ گویا میں نے اُن لوگوں سے، جن کی میں نے باتیں سنی ہیں، سب کچھ اخذ کِیا ہے۔ نہیں، میری کتابوں میں سب کچھ وہی ہے جو لوگوں نے واقعی کہا، لیکن اِس تمام کو شکل دینا پڑتی ہے، ایک ساتھ بُننا پڑتا ہے تاکہ یہ واقعی فن کا کام ہو۔‘‘
لاس اینجلس ریویو کو دیے گئے انٹرویو میں سویتلانا الیگزائی وِچ نے اپنی لکھتوں اور افسانوی فن کے حوالے سے اظہار خیال کِیا۔ ’’ہم مختلف لوگوں کو مختلف طریقوں سے کہانیاں سناتے ہیں، خواہ وہ بچوں کے لیے ہوں، بڑوں اور دوستوں کے لیے ہوں۔ …… یہ اُس مواد کو زندگی کے اُن دھاگوں سے ایک ساتھ بُننے کا کام تھا، جیسے کوئی محبت یا موت کے بارے میں سوچے۔ المیوں میں تقدیریں ہیں، اور پھر کورس میں گانے والے جو مستقبل کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ یہ ٹکڑیاں اُس جگہ کے لحاظ سے چھوٹے ٹکڑے ہیں جن کا وہ احاطہ کرتے ہیں، لیکن ہیں بہت اہم۔ میں ایک فنی ڈھانچہ یا اس طرح کی سمفنی بنانے کی سعی کر رہی تھی۔ انسانی جانوں اور انسانی آوازوں سے بنا ایک طرح کا مندر۔‘‘
اِس سوال کے جواب میں کہ اُنھوں نے یہ تعین کیسے کِیا کہ شہادتوں کو کیسے ترتیب دیا جائے، اور آیا یہ عمل اُن کے دوسرے کاموں کے لیے شرکاء کے انتخاب کے عمل سے ملتا جلتا تھا یا مختلف؟ اُنھوں نے کہا۔ ’’یہ ایک مشکل سوال ہے جیسے کسی موسیقار سے پوچھا جائے کہ ’’آپ کو یہ آوازیں کہاں سے آتی ہیں؟ اِنھیں اِس مخصوص انداز میں کیوں ترتیب دیا گیا ہے؟‘‘۔ یہ سب وجدان ہے۔ یہ بس محسوس ہوتا ہے کہ یہ کیسا ہونا ہے۔ میرے لیے یہ ضروری ہے کہ واقعہ پر مبنی نہیں بلکہ سوچ پر مبنی پلاٹ ہو۔ واقعات کو آپ مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ میں یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوا تھا، اُس وقت لوگوں نے اُس کا تجربہ کیسے کِیا اور یہ جانچنے کے لیے کہ ہم نے اُسے کیا سمجھا تھا، مختلف عمروں اور مختلف پیشوں کے لوگوں کی باتیں جمع کرتی ہوں۔ شاید، کافی وقت بِیت جانے کے بعد، لوگ یہ سمجھنے کی خاطر کہ کیا ہوا تھا چیزوں کو بے حد مختلف طریقے سے سمجھیں گے کیوں کہ ہم اُن کے لیے وحشیوں کی طرح ہوں گے۔ وہ فطرت کو زیادہ گہرائی سے دیکھ اور زیادہ گہرائی سے سمجھ سکتے ہوں گے۔
لیکن وہاں آپ ایک بدیہی راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو محض خوف سے جھنجھوڑ نہیں سکتے کہ کسی شخص کی تابکاری سے موت خوف ناک ہے۔ جی ہاں، یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ میں اُس وحشت سے کوئی پوری کتاب نہیں قلم بند کر سکتی تھی۔ ہمارے تجربہ کر سکنے کی ایک حد ہوتی ہے، انسانوں کے لیے ایک حد مقرر ہوتی ہے۔ جمالیات ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ متن کی موسیقی، متن کے زیریں چلتی ہوئی المیاتی موسیقی۔ اِس سب کی اپنی آواز ہے لیکن اُس موسیقی کے بغیر یہ فن نہیں ہوگا۔ یہ فن کا کام نہیں ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ میں اپنا مواد لے کر گئی ہوں— وہ حقیقی لوگ ہیں۔ مائیکل اینجیلو نے بھی یہی کہا تھا: ’’یہ پہلے سے موجود ہے، مجھے صرف فالتو کو چھینی سے چھیلنا پڑتا ہے۔‘‘ میں بھی یہی کرتی ہوں۔ زندگی سے ایک ٹکڑا منتخب کرتی ہوں اور تمام فالتو سطحی چیزیں نکال باہر کرتی ہوں۔‘‘
سویتلانا الیگزائی وِچ نے ایک اور سوال کے جواب دیتے ہوئے مزید کہا۔ ’’جب میں کتاب ’’جنگ کا غیرنسوانی چہرہ‘‘ (The Unwomanly Face of War) لکھ رہی تھی تو کچھ لوگوں نے مجھ پر شکوک و شبہات کا اظہار کِیا: جنگ عرصے میں وہاں نہ ہونے کے باوجود میں یہ کتاب کیسے لکھ سکتی تھی؟ مجھے نہیں لگتا کہ آپ بوڑھے ہوں یا جوان، آپ کا وہاں موجود ہونا لازم ہے۔ آپ کو واقعے کا تجربہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اُس عمر یا ثقافت سےبڑھ کر ہے جس کے ساتھ کوئی پلا بڑھا ہو۔ ایک ہندوستانی کا چرنوبل کا تجربہ یورپی سے الگ ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہ چیزوں کی نوعیت میں گھسنا — ایک خاصا کم عمر شخص بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے، یا مجھے توقع ہے کہ ابھی ایک نوجوان ہدایت کار بڑا ہو رہا ہے، جو آئے گا اور میرے متن سےایک بالکل مختلف شے تشکیل دے گا۔ وہ کسی اور عہد سے، یا شاید کسی اور نوع کے ہنر وصلاحیت سے تسکین کریں گے۔
رسمی چیزیں زندگی میں بڑا کردار ادا نہیں کرتی ہیں۔ کبھی کبھی مجھے گاؤں کی کسی بوڑھی عورت سے گفتگو کرنے میں گہری دلچسپی ہوتی ہے، جس نے ٹالسٹائی یا دوستوفسکی کو نہیں پڑھا ہوتا، لیکن وہ نہایت دلچسپ باتیں کرتی ہے۔ وہ اُن چیزوں کی، جو میرے لیے کاملاً مبہم ہوتی ہیں، فطری نوعیت کو دیکھتی ہے۔ میں اِسے سمجھ نہیں پاتی، اور میں نے کبھی اِس پر غور بھی نہیں کِیا تھا۔ اُس نے کِیا تھا۔ میں کبھی کبھی ایسے بچوں سے بات چیت کرتی ہوں جو ازحد غیر معمولی ہوتے ہیں۔ اُن کا نظریہ مختلف ہوتا ہےجو کسی اور ہی چیز پر منحصر ہوتا ہے: ہم کتنی اچھی زندگی گزار رہے ہیں؛ ہم کس قدر باصلاحیت ہیں اور ہم اپنی سوچ بچار کے طور میں کتنے تجربہ کار ہیں؛ ہم زندگی میں کتنی سنجیدگی سے گھستے ہی؛۔ ہم پیش پا افتادگی کو کس حد تک پیچھے چھوڑتے ہیں کیوں کہ بیشتر لوگوں کا جینا، کھانا پینا ، اوڑھنا بچھونا فرسودگی ہی ہے، اور بس اتنا کافی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہر کسی کی زندگی کے نقطۂِ نظر پر انحصار کیے بغیر اپنی ذات میں سے اپنی مخلوق کو تخلیق کرنا، ایسی باتوں میں حصہ ڈالنا جو کتابوں میں نہیں کہی گئی، حتّٰی کہ اچھی کتابوں میں بھی نہیں، اپنے نقطۂِ نظر کو بدلنا، ایسا متن پیش کرنا جس کا انسانی تاریخ میں تجربہ نہ کیا گیا ہو—ایک عظیم کام ہے، اور آپ کو اپنی پوری زندگی اِس پر کام کرنا چاہیے۔
میں نے اپنی صنف کا انتخاب صرف اِس لیے نہیں کیا کہ میری سماعت کیسے، میری بصارت کیونکر کام کرتی ہے اور میں دنیا کو کیسے دیکھتی ہوں۔ میں نے اِسے منتخب اِس لیے کیا کیوں کہ میں افسانے سے مایوس تھی۔ مطلب — اچھائی اور برائی کے درمیان تنازعہ— افسانے میں کسی نہ کسی طرح گھٹا ہوا ہے۔ اِس نصف دستاویزی صنف میں اِن ناقابل بیان چیزوں کو پہنچانے کا ایک بہتر موقع ہے، اور یہ ایک افسانوی متن سے زیادہ سریع طور پر کام کرتا ہے۔ آپ بہت جلد اچھا ناول نہیں لکھ سکتے۔ ایک عظیم کتاب کے لیے، آپ کو کافی وقت درکار ہے۔ مجھے ارتکازی انداز میں لکھنا پسند ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ آج ادب کا مرکزی کردار شہادت ہے۔ یہ وہ گواہ ہے جو کسی واقعہ کو وقوع پذیر ہوتے اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھتا اور اُس کا تجربہ کرتا ہے۔ بعد میں، سرخ پھیکا پڑ کر گلابی ہو جاتا ہے۔ ہماری یادداشت کو کچھ ہو جاتا ہے۔ یہ اتنا مرتکز نہیں رہتا۔ ہمیں اب وہی صدمہ محسوس نہیں ہوتا۔
میں ہمیشہ اپنے انٹرویو دہندگان سے عین اُسی وقت ملنا چاہتی تھی جب واقعہ پیش آیا ہوتا تھا۔ میں نے اپنی جنگ والی کتاب اُن واقعات کے ۴۰ سال بعد لکھی، لیکن سچ بولنے کا یہی پہلا موقع تھا۔ لوگ اِس قدر صدمے سے دوچار ہوئے کہ اُن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اُنھوں نے اِس سے کہیں زیادہ کہا جتنا وہ جنگ کے فوراً بعد مجھے بتاتے۔ دہشت گردی کے برسوں کے دوران میں، جب وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتے تھے اور ایسا کچھ چھاپنے کا محل بھی نہیں تھا۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میرے انٹرویو دہندگان اتنی خوب صورت اور درست بات کیوں کرتے ہیں۔ ہم سب سے اہم چیزوں کا دوبارہ تجربہ کرتے ہیں— موت اور محبت— جب ہم سب سے زیادہ جذباتی صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ محبت بھی شدّت کے اعتبار سے چرنوبل اور جنگ جیسی ہے۔ اپنے گھر منسک میں میرے پاس محبت کے بارے میں ایک نامکمل کتاب ہے۔ میں محبت کی بات کرنے والے مردوں اور عورتوں کے بارے میں ایک کتاب لکھنا چاہتی تھی، لیکن مجھے اب انقلاب کے بارے میں لکھنا ہے۔
کسی بھی چیز سے بڑھ کر، میں انسانی فطرت کے بارے میں کتابیں پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘
نوبیل انعام کا اعلان ہونے کے بعد نوبیل پرائز آرگنائزیشن کی نمائندہ جولیا چائیکا نے سویتلانا الیگزائی وِچ سے فون پر اُن سے رابطہ کر کے مبارک باد دینے اور ابتدائی رسمی کلمات کی ادائی کے بعد سویتلانا الیگزائی وِچ سے اُن کے طرزِ تحریر کے بارے میں سوال کِیا: جب آپ نے اپنی تخلیقات میں اِس نوع کے صحافتی انداز کا انتخاب کِیا تو آپ کو کس چیز نے متأثر کِیا؟ تو سویتلانا الیگزائی وِچ کا جواب تھا کہ آپ آگاہ ہیں کہ جدید دنیا میں ہر چیز اتنی تیزی اور شدّت سے وقوع پذیر ہوتی ہے کہ کوئی فرد ہی کیا بلکہ پورا معاشرہ بھی اُس کا تصوّر نہیں کر پاتا۔ بدقسمتی سے یہ نہایت سریع ہے۔ بیٹھ کر اِس پر غور کرنے کے لیے وقت نہیں، جیسا کہ ٹالسٹائی نے کِیا تھا، جس کے خیالات کئی دہائیوں میں پختہ ہوئے تھے۔ مجھ سمیت ہر شخص حقیقت کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہے، نامکمل معلومات کی بنیاد پر محض قیاس کر سکتا ہے۔ بعض اوقات، میں اپنے متن کے ۱۰۰ صفحات میں سے صرف ۱۰ سطریں چھوڑتی ہوں، تو کبھی ایک صفحہ۔ اور یہ تمام باہم مل کر آوازوں کے ایک ناول میں جُڑ کر ہمارے وقت کی تصویر کشی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
جس پر انٹرویو کنندہ نے سوال کِیا: ابھی آپ نے ایک شاندار استعارہ ’’آوازوں کا ناول‘‘ استعمال کِیا ہے اور میرا اگلا سوال اسی سے جُڑا ہوا ہے۔ آپ نے بہت زیادہ تکالیف کا مشاہدہ کِیا اور اپنے کام کے دوران میں خوفناک ثبوت دیکھے۔ کیا اِس نے انسان کو دیکھنے کے انداز کو متأثر کِیا؟
سویتلانا الیگزائی وِچ کا جواب تھا: اِس سوال کا جواب دینے کے لیے کچھ وقت درکار ہے لیکن میں یہ کہوں گی کہ میں اُس ثقافت سے تعلق رکھتا ہوں جس میں مستقل طور پر یہ درجہ، یہ تکلیف دہ درجہ حرارت ہے۔ دوسری ثقافتوں میں کوئی ناقابلِ فہم اور ناقابلِ برداشت چیز ہمارے لیے ایک عمومی حالت ہے۔ ہم اِس میں زندگی بسر کرتے ہیں، یہی ہمارا ماحول ہے۔ ہم ہمہ وقت متأثرین اور جلادوں کے درمیان رہتے ہیں۔ ہر خاندان میں، میرے خاندان میں …… ۱۹۳۷ء کا سال، چرنوبل، جنگ۔ یہ سال بہت کچھ بتا سکتا ہے، سب پاس یہ کہانیاں ہیں … ہر خاندان آپ کو دُکھ کا یہ ناول سنا سکتا ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ میرا یہ نقطۂِ نظر ہے یا مجھے یہ پسند ہے کہ ایسے حالات میں لوگ کس طرح سوچتے ہیں۔ نہیں، یہ ہماری زندگی ہے۔ ایک ایسے شخص کا تصوّر کریں جو پاگل خانے سے نکلا ہے اور وہ اِس کے بارے میں لکھ رہا ہے۔ کیا میں اُس شخص سے کہوں: ’’سنو، تم اِس کے بارے میں کیوں لکھ رہے ہو؟‘‘ پریمو لیوی کی طرح، جس نے حراستی کیمپوں کے بارے میں لکھا اور اپنے آپ کو اُن سے الگ نہیں رکھ پایا، یا چلاموف کی طرح جو کیمپ کے ہاتھوں مارا گیا تو وہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں لکھ سکتا تھا۔ میں خود غور و خوض کرتی رہی ہوں کہ ہم کون ہیں، ہمارے دُکھ آزادی میں کیوں نہیں بدل سکتے؟ میرے لیے یہ ایک اہم سوال ہے۔ غلامی کا شعور ہمیشہ کیوں غالب رہتا ہے؟ ہم اپنی آزادی کو مادی فوائد میں کیوں بدلتے ہیں؟ یا ڈرتے رہنا، جیسا کہ ہم نے پہلے کیا تھا؟
انٹرویو کنندہ کے اِس سوال پر کہ آپ کس کے لیے لکھ رہی ہیں؟ سویتلانا الیگزائی وِچ کا کہنا تھا: میرا خیال ہے کہ اگر میں خود اِن سوالات کو سمجھ لوں تو میرے لیے کسی سے بات کرنا آسان ہو جائے گا۔ کسی منظر کے مقام پر یا جب میں لکھ رہی ہوتی ہوں، دونوں صورتوں میں قریبی دوستوں سے باتیں کرنے کو دِل چاہتا ہے ۔ میری تمنّا ہوتی ہے کہ اُنھیں بتاؤں کہ میں نے اِس زندگی میں کیا محسوس کیا۔ میں جج کا کردار کبھی نہیں قبولتی، میں کوئی سردمہر تاریخ نویس نہیں۔ میرا دِل ہمیشہ وہاں اٹکا رہتا ہے۔ جوسوال مجھے دِق کرتا ہے، یہ ہے کہ ہم وحشت کی اِس شاہراہ پر کب تک گامزن رہ سکتے ہیں؟ انسان کتنا برداشت کر سکتا ہے؟ اِسی لیے المیے کے میرے منصوبے میرے لیے اہم ہیں۔ یہ اہم ہے کہ جب کوئی کہے کہ وہ ایسی خوفناک کتابیں پڑھنے کے بعد بہتر محسوس کرتا ہے یا یہ کہ کسی قاری کے آنسو بہہ نکلے تو وہ آنسو من کو اُجلا کرنے والے تھے۔ آپ کو یہ سب باتیں ذہن میں رکھنی چاہئیں نہ کہ بس لوگوں کو خوف سے مغلوب کریں۔
سویتلانا الیگزائی وِچ کو آوازیں سُنائی دیتی ہیں۔ اُنھوں نے اُن ہی آوازوں کو اپنی لِکھتوں میں بیان کیا ہے۔ نوبیل انعام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے اُن آوازوں اور اپنے فن و فکر کا ذکر اپنے نوبیل خطبے ’’ہاری ہوئی جنگ‘‘ میں یُوں کیا۔ ’’اِس چبوترے پر میں تنہا نہیں کھڑی ہوں… میرے چاروں طرف آوازیں ہیں، سینکڑوں آوازیں جو بچپن ہی سے میرے ساتھ رہی ہیں۔ میں دیہی علاقے میں پلی بڑھی۔ …… اپنے گھروں کے آس پاس بینچوں پر جمع ہو جانے والی عورتوں کی آوازیں۔ اُن کے خاوند تھے نہ باپ اور بھائی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد ہمارے گاؤں میں ایک بھی مرد تھا۔ …… مجھے بس اِتنا یاد ہے کہ وہ عورتیں محبت کی باتیں کرتی تھیں۔ اپنی محبوب ہستیوں کے جنگ پر روانگی سے ایک روز قبل خُدا حافظ کہنے کے قِصّے سُنایا کرتیں اور اُن کے انتظار کی باتیں کرتی تھیں— سال ہا سال بِیت گئے لیکن وہ اُن کی منتظر ہیں۔ ……فلابرٹ خُود کو انسانی قلم کہا کرتا تھا، میں کہتی ہوں کہ میں انسانی سماعت ہوں۔ جب میں سڑک سے گُزرتی ہوں تو میری سماعت الفاظ، جملے اور آہ وبکا سُنتی ہے۔ میں ہمیشہ سوچتی ہوں— کتنے ہی ناول گُم ہو گئے! اندھیروں میں کھو گئے۔ ہم نے ادب میں گفتگو کے پہلو کے کو پکڑا ہی نہیں۔ ہم اِس رُخ کو پسند ہی نہیں کرتے، اِس پر حیران ہوتے ہیں نہ حظ اُٹھاتے ہیں۔ لیکن اِس پہلو نے مجھے تو مسحور کر رکھا ہے بلکہ اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔ … میں نے پانچ کتابیں لکھیں ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ جیسے وہ پانچوں دراصل ایک ہی کتاب ہے۔ مثالی دُنیا کے بارے میں ایک کتاب۔ …… میں روزمرّہ احساسات، خیالات، الفاظ اور اپنے عہد کی زندگی کو اکٹّھا کرتی ہوں۔ مجھے رُوح کی تاریخ سے دِلچسپی ہے۔ رُوح کی روزمرّہ زندگی، وہ چیزیں یا حسرتیں جن سے تاریخ کی دیوہیکل تصویر صرفِ نظر کرتی ہے۔ میں تاریخ کے پوشیدہ پہلوؤں پر کام کرتی ہوں۔ مجھے اب بھی اکثر کہا جاتا ہے کہ میں جو کچھ لکھتی ہوں وہ ادب نہیں ہے، دستاویز ہے۔ آج ادب کیا ہے؟ اِس سوال کا جواب کون دے گا؟ اب ہم پہلے سے زیادہ برق رفتار زندگی بسر کر رہے ہیں…… ہر شے اپنی حد سے تجاوز کر گئی ہے، موسیقی اور مصوّری بھی— یہاں تک کہ دستاویزی الفاظ بھی دستاویز کی حدود و قیود سے نکل گئے ہیں۔ حقیقت اور افسانے میں کوئی سرحد نہیں رہی۔ دونوں ایک دُوسرے میں ضم ہو گئے ہیں۔ …… کہانی لکھنے میں مجسمہ ساز کی سی کشتی لڑنا پڑتی ہے۔ …… مجھے چھوٹے لوگوں میں دلچسپی ہے۔ چھوٹے لیکن جنھیں میں عظیم لوگ کہوں گی کیوں کہ لاچاری وسعت قلبی دیتی ہے۔ میری کتابوں میں یہ لوگ اپنی باتیں کرتے ہیں، چھوٹی سے چھوٹی تاریخ کا ذکر کرتے ہیں جس کے ساتھ ساتھ بڑی تاریخ بھی چلتی ہے۔ ہمارے پاس اِتنا وقت نہ تھا اور نہ ہے کہ سمجھ پاتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے… یہ کم و بیش میری وہ گفتگوئیں ہیں جو میری اپنے مرکزی کرداروں سے کسی نہ کسی طرح ہوئیں۔ بِلاشبہ، لوگ اپنے فارغ وقت میں باتیں کرتے تھے۔ اُن کے پاس باتوں کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔ تاہم انسانی رُوح تک رسائی مشکل ہے کیوں کہ ٹیلی ویژن اور اخبار سدِّراہ ہیں اور یہی اِس صدی کے توہمّات، بغض اور گُمراہیاں ہیں۔…… لوگ تو اپنے کرتوتوں بھگت رہے ہیں لیکن جانور، پرندے، مچھلیاں— اُنھوں نے کیا کِیا ہے؟ … میں نے خُود دیکھا ہے کہ ہتھیار خُوب صُورت ہیں: مشین گنیں، سُرنگیں، ٹینک۔ انسان نے انسانوں کو قتل کرنے کے لیے خُوب غوروخوض سے کام لیا ہے۔ یہی سچائی اور خُوب صُورتی کے درمیان نزاع ہے۔ …… میں افغانستان کے ایک ہسپتال میں زخمی بچّوں کو تحائف دینے گئی۔ … میرے پاس پانچ کھلونا ریچھ بھی تھے۔ …… ایک نوجوان عورت اپنے بازوؤں میں ایک بچّہ اُٹھائے میری طرف بڑھی۔ وہ پچھلے دس برسوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی تھی۔ میں نے ایک کھلونا بچّے کو دیا جسے اُس نے اپنے مُنھ سے پکڑا۔ …… بچّے کے دونوں بازو نہیں تھے۔ مجھ سے دریافت کیا جاتا ہے: ہم ہمیشہ المیہ ہی کیوں لکھتے ہیں؟ کیوں کہ ہم ایسی ہی زندگی جیتے ہیں۔‘‘
:::
Authors
-
نوبیل انعام برائے ادب۔۲۰۱۵ء سے بیلاروس کی صحافی خاتون سویتلانا الیگزائی وِچ کو سرفراز کیا گیا ہے کہ’’ان کی لکھتیں ہمارے عہد کی گوناں گوں صوتوں کی حامل یاد گار لکھتیں ہیں۔‘‘ انعام کا اعلان کرتے ہوئے نوبیل پرائز کمیٹی نے الیگزائی وِچ کی ان الفاظ میں تحسین کی: ’’ان کا اسلوب غیر معمولی ہے— انسانی آوازوں کا احتیاط سے ترتیب ہوا کولاژ— جو ایک پورے عہد کے ہمارے فہم کو گہرا کرتا ہے۔‘‘ الیگزائی وِچ ادب کا نوبیل پانے والی چودہویں اور رُوس کی پہلی لکھاری خاتون ہیں۔ اس سے قبل روس کے کسی لکھاری یا ادیب کو اس اعزاز سے نہیں نوازا گیا۔ الیگزائی وِچ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ دُنیا بھر کے مرد و زَن صحافیوں نوبیل انعام پانے والی پہلی صحافی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوبیل انعام ۲۰۱۵ء متنازعہ ہے کیوں کہ غیر افسانوی نثر نگار کو نوبیل انعام برائے ادب دیے جانے کا یہ پہلا موقع ہے۔ سویتلانا کا پُورا نام سویتلانا الیگزینڈروفنا الیگزائی وِچ ہے۔ وہ ۳۱ مئی ۱۹۴۸ء کو مغربی یوکرین کے شہر سٹانِسلا وِف (جس کا نام ۱۹۶۲ء میں تبدیل کر کے ایوانوفرانک فِسک رکھ دیا گیا تھا) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا تعلّق بیلاروس سے تھا جب کہ ماں یوکرینی تھیں۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، بیلاروسیّن سٹیٹ یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے اور مِنسک کے ادبی جریدے ’’نیمان‘‘ (Neman) کی نامہ نگار بننے سے قبل، انھوں نے متعدد مقامی اخبارات کے نمائندے کی حیثیت سے کام کیا۔ انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کے دوران رُوس کے بہت سے ڈرامائی واقعات کے، مثلاً دُوسری جنگِ عظیم، رُوس افغانستان جنگ اور سانحۂِ چرنوبل، عینی شاہدین کے انٹرویو قلم بند کیے۔ جنھیں سویتلانا خود کو پس منظر میں رکھتے ہوئے، تاہم کہیں کہیں اپنی جھلک بھی دِکھاتے ہوئے، افسانوی انداز میں ضبطِ تحریر میں لائی ہیں۔ یہ ستم رسیدگی کی ایسی داستانیں ہیں جو درحقیقت انسان کی سائنس کی ترقی کے نام پر اپنے ہی ہاتھوں زمین پر زندگی کی تباہ و بربادی اور قلع قمع کی داستانیں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ نوبیل انعام برائے ادب کی حق دار قرار پائی ہیں۔ لُوکاشینکو انتظامیہ کے سیاسی جبر و استحصال کے بعد سال ۲۰۰۰ء میں انھوں نے بیلاروس کو داغِ مفارقت دے دیا۔ انھیں پناہ گزینوں کے عالمی شہروں نے پناہ کی پیشکش کی اور انھوں نے ۲۰۱۱ء تک کا عرصہ پیرس، گوتھن برگ اور برلن میں بسر کیا۔ ۲۰۱۱ء میں وہ مِنسک لوٹ آئیں۔
View all posts -
نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔
View all posts
تراجم عالمی ادب
4 thoughts on “ہاری ہوئی جنگ”
Informative
Good work
بیلاروس کی نوبیل انعام یافتہ مصنفہ نے افسانے کے فن کو کمال خوبی سے بیان کیا ہے۔ اور مترجم نے نہ صرف ان کے انٹرویوز سے اچھے اور متعلقہ اقتباسات چنے ہیں بلکہ انہیں نہایت خوبصورت انداز میں ترتیب دیا ہے۔مبارک باد۔
Nice work