چینی ناولچہ
گاجر
مَویان
(Mo Yan)
تعارف و ترجمہ:ریحان اسلام
)دوسرا اور آخری حصہ(
باب چہارم
سنہری گاجر چھپاک سے دریا میں جا گری ۔دریا کی تہہ میں ڈوب جانے سے پہلے یہ کچھ لمحوں کے لیے سطح پر تیرتی رہی ۔ پھر ڈوب کر سنہری ریت تلے دب گئی۔ جس مقام پر یہ دریا میں گری تھی وہاں دھند سی اڑنے لگی ۔
صبح کے وقت دھند نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا۔ اس دھند کی چادر کے نیچے دریا سسک رہا تھا۔ دریا کے کنارے بطخیں ماتمی انداز میں دھند کو دیکھ رہی تھیں۔ آخر کار سورج نکل آیا اور اس کی کرنیں دھند کی چادر کو چیرنے لگیں۔ اس روشنی میں بطخوں نے دیکھاکہ ایک بوڑھا آدمی کندھے پر بستر اور اوزار لادے دریا کے مغربی سرے کی جانب جا رہا ہے۔ بوجھ کی وجہ سے اس کی کمر میں خم آ گیا تھا اور اس کی گردن راج ہنس کی طرح اٹھی ہوئی تھی۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو نیکر پہنے ننگے پاؤں ایک کالا بچہ وہاں نمودار ہوا۔ ایک نر بطخ نے مادہ بطخ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور کہا: ’’یاد ہے ؟یہ وہی بچہ ہے جو اس رات بالٹی لے کر جا رہا تھا۔‘‘
خئی ہائے دریا کے کنارے آہستہ آہستہ چل رہا تھا اور دھند کے پار دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے مخالف کنارے پر بطخوں کو کائیں کائیں کرتے سنا ۔ وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر وہیں بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ ٹانگوں کے گرد لپیٹ لیے ۔ چڑھتے سورج کی کرنیں اس کی کمر کو جلا رہی تھیں۔
اس نے گزشتہ رات پل کے نیچے ہی گزاری تھی۔ جب علی الصبح مرغے نے بانگ دی تو اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے دیکھا کہ بوڑھا لوہار پل کے دہانے پر کھڑا بڑ بڑا رہا ہے ۔ اسے دوبارہ نیند نہ آئی تو وہ بوڑھے کے پیچھے پیچھے چلاآیا۔ اسی دوران وہ پھسل کر ریت پر گر گیاتھا۔ جب تک وہ سنبھلا بوڑھا غائب ہو چکا تھا۔ اب وہ کنارے پر بیٹھا دریا کی تہہ میں دیکھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
کام والی جگہ پر ڈائریکٹر لیو پھر سے مزدوروں پر برس رہا تھا۔ ’’کم بخت صبح صبح بھٹی کے پاس گڑ بڑ ہو گئی۔ بوڑھا منحوس کچھ بتائے بغیر غائب ہو گیا۔ وہ چھوٹا شیطان بھی غائب ہے ۔ تم لوگوں کے تنظیمی نظم وضبط کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘
’’خئی ہائے!‘‘
’’خئی ہائے !‘‘
’’دریا کے کنارے وہی بیٹھا ہے شاید۔ ‘‘
جوزی اور مستری بھاگ کر گئے اور اسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھا لیا۔
’’میرے بچے تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟‘‘ اس نے اس کے سر سے تنکے ہٹاتے ہوئے پوچھا’’اتنی سردی میں یہاں بیٹھنا ٹھیک نہیں ۔‘‘
’’کل رات والی شکرقندی بچی ہوئی ہے ۔ جاؤاور ایک آنکھ والے اژدھے کو کہو کہ تمھیں بنا کر دے ۔‘‘
’’بوڑھا جا چکا ہے ‘‘ جوزی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اب کیا کریں ؟ کیا اسے دوسرے لوہارکے ساتھ رہنے دیں؟ اس کاتو رویہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘
’’پریشان مت ہوں۔ یہ ایک بہادر بچہ ہے اور پھر جب تک ہم یہاں ہیں وہ اسے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ‘‘
وہ اسے زبردستی کام والی جگہ پر لے گئے۔ ہر قدم پر خئی ہائے پیچھے مڑ کر دیکھتا تھا۔
’’ٹھیک سے چلو بد معاش ‘‘ مستری نے کہا ’’دریا میں دیکھنے کے لیے کیا ہے؟ ‘‘ اس نے اس کا بازو دبایا۔
’’مجھے تو لگا تھا کہ تمھیں بوڑھے نے اغوا کر لیا ہے ۔‘‘ڈائریکٹر لیو نے نوجوان لوہار کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے کہا۔ ’’اور تم ، اب جب کہ تم نے بوڑھے کو بھگا دیا ہے تو کام پر پورا دھیان دو۔ اگر تم نے ٹھیک سے اوزاروں کی مرمت نہ کی تو میں تمھاری آنکھ نکال دوں گا۔ ‘‘
نوجوان فخریہ انداز میں مسکرایا۔ ’’آپ اس بات کی فکر نہ کریں لیو صاحب‘‘ اس نے کہا ’’بس مجھے بوڑھے کے حصے کا معاوضہ اور اناج بھی چاہیے ورنہ آپ کوئی اور لوہار ڈھونڈ لیں۔ ‘‘
’’چلو دیکھتے ہیں ۔ اگر تمھار اکام اچھا ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ یہاں سے دفع ہو جانا۔‘‘
’’آگ جلاؤلڑکے۔‘‘ اس نے خئی ہائے کو حکم دیا۔
اس صبح خئی ہائے نیم مردہ انسانوں کی طرح کام کر رہا تھا۔ وہ عجیب و غریب حرکتیں کر رہا تھا۔ کبھی وہ بیلچے سے اتنازیادہ کوئلہ ڈال دیتا کہ دھواں کالا ہو جاتا ، کبھی وہ چھینی کی نوک کے بجائے سر کو آگ میں رکھ دیتا۔
’’تمھارا دماغ کدھر ہے ؟‘‘ لوہار نے ڈانٹتے ہوئے کہا ،وہ پسینے میں شرابورتھا اور دل جمعی سے کام کر رہا تھا۔ جب چھینیاں تیار ہو گئیں تو وہ خودانہیں کام والی جگہ پر لے کر گیا۔ اس کے جانے کے بعد خئی ہائے نے اوزار پھینکے اور باہر نکل گیا۔ یک دم روشنی میں آنے سے وہ چکرا گیا۔ وہ کچھ دیر کے لیے ٹھہرا اور پھر دوڑتا ہوا چند ہی لمحوں میں دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ وہ ایک بار پھر دریا کی تہہ میں دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر اس نے اپنا نیکر اوپر کیا، دریا کے پانی میں قدم رکھ کر معائنہ کیا اور ٹھنڈک کی وجہ سے تھر تھرانے لگا۔ پانی اس کے گھٹنوں سے اوپر تک پہنچ گیا تھا۔ اس نے نیکر کو اتنا اوپر چڑھا لیا کہ اب اس کے کولہے نظر آ رہے تھے۔ اب وہ دریا کے درمیان میں کھڑا تھا۔ اس کا دھڑ سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ دریا اس کی ٹانگوں سے ٹکراتا ہوا آہستگی سے بہہ رہا تھا۔ ایک دم سے اس کے پاؤں کے نیچے سے ریت کھسکنے لگی اور وہ تھوڑا سا اور پانی کے اندر چلا گیا جس کی وجہ سے اس کے نیکر گیلا ہو گیا۔ اب اس کا نیکر کا کچھ حصہ جوٹانگوں سے لگا ہوا تھا ،پانی میں تیر رہا تھا اور اس کے جسم کی سیاہی کی وجہ سے آس پاس کا پانی بھی کالا ہو رہا تھا۔ وہ کچھ تلاش کرتا ہوا پانی میں چلنے لگا۔
’’خئی ہائے ! خئی ہائے !‘‘ مستری اسے پل کے دہانے سے آواز دے رہا تھا۔’’تم وہاں ڈوب جاؤگے۔ ‘‘
لوہار بھی دریا کے کنارے پر آ چکا تھا لیکن خئی ہائے نے مڑ کر نہ دیکھا۔ ’’باہر آ جاؤ!‘‘ لوہار نے ایک ڈھیلا اٹھا کر اس کی طرف پھینکا جو اس کے اوپر سے گزر گیا اور دریا میں جا گرا۔ دوسرا ڈھیلا اس کی کمر میں لگاجس کی وجہ سے وہ قریب قریب پانی میں جا ڈھ گیا۔ اس کے ہونٹ پانی کو چھونے لگے ۔ وہ مڑا اور بھاگتا ہوا دریا کے کنارے پر آ گیا ۔ وہ لوہار کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے جسم سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اس کا نیکر جلد سے چپکا ہوا تھا اور اس کا عضو تناسل ریشم کے کیڑے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ لوہار نے اسے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا لیکن اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ڈر سا گیا اور رک گیا ۔ لڑکا مسلسل اسے گھور رہا تھا۔
’’جاؤاور آگ جلاؤ۔ میری بنائی ہوئی چھینی زبردست ہیں‘‘ اس نے فخر سے کہا اور خئی ہائے کی گردن تھپتھپانے لگا۔
وقفے کے دوران لوہار نے گزشتہ رات بچ جانے والی شکر قندی بھٹی میں رکھ دیں۔ پٹ سن کے کھیتوں سے ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی۔ ہر طرف سورج کی روشنی بکھری ہوئی تھی۔ شکنجے سے شکر قندیاں پلٹتے ہوئے لوہار گانا گانے لگا۔
بیجنگ سے لے کر نان جنگ تک کوئی بھی نہیں ایسا
جس کی پتلون سے ٹارچ لٹکتی ہو
’’کیا تم نے کبھی ایسادیکھا ہے خئی ہائے؟ کیاتمھاری سوتیلی ماں کے پاس ہے ایسی پتلون؟ ‘‘لوہار نے پوچھا۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ ’’جاؤاور کچھ گاجریں لے آؤ۔ تب تک شکرقندی تیار ہو جائے گی ۔‘‘
خئی ہائے کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس سے پہلے کہ لوہار کچھ کہتا وہ تیزی سے روانہ ہو گیا۔ جب وہ بند پر چڑھ رہا تھا تو اس نے سنا کہ جوزی کہیں دور سے اسے آوازیں دے رہی تھی۔ اس نے مڑ کے دیکھا لیکن روشنی کی وجہ سے کچھ دیکھ نہ سکا۔ وہ بھاگ کر دوسری طرف اتر گیا اور پٹ سن کے کھیت میں داخل ہو گیا ۔ کھیت میں پودے بے ترتیبی سے لگے ہوئے تھے ۔ لیکن سب کی قامت ایک جیسی تھی۔ کھیت میں چلتے ہوئے پٹ سن کے پتے کانٹوں کی طرح چبھ رہے تھے۔ جیسے ہی وہ گاجر کے کھیت کے قریب پہنچا اس نے سینے کے بل رینگنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی وہ کھیت میں داخل ہونے لگا تو اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی قریبی کھیت میں گندم کی بیجائی کر رہا ہے ۔ وہ رینگتا ہو اواپس پٹ سن کے کھیت میں آ گیا ۔ سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ وہ پٹ سن کے کھیت سے گاجروں کو بآسانی دیکھ سکتا تھا۔
اسی دوران ایک سرخ چہرے والا جوان شکر قندی کے کھیت سے چلتا ہوا بوڑھے کے پاس آیا اور اچانک پوچھا’’تم کیا کہہ رہے تھے کہ کل رات یہاں چور آیا تھا ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ بوڑھے نے اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’چھ گاجر اور آٹھ شکر قندی۔ پراس نے انگوروں کو بخش دیا۔‘‘
’’شاید یہ سیلابی دروازے پر کام کرنے والے پاگلوں کی کارستانی ہے ۔ ان پر نظر رکھو۔ دوپہر کے کھانے پر جانے سے پہلے کچھ دیر ادھر ہی ٹھہرو۔‘‘
’’میں ایسے ہی کروں گا کمانڈرصاحب۔‘‘
بوڑھے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کہا۔
خئی ہائے اور بوڑھے نے نوجوان کمانڈر کو بند پر چڑھتے ہوئے دیکھا ۔ بوڑھا پٹ سن کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ خئی ہائے مزید پیچھے کھسک گیا تاکہ بوڑھا اسے دیکھ نہ سکے ۔
’’خئی ہائے !‘‘
’’خئی ہائے !‘‘
جوزی اور مستری بندکے زیریں کنارے سے پٹ سن کی طرف منہ کر کے اسے آوازیں دے رہے تھے۔ لوہار پل کے دہانے سے ان دونوں کودیکھ رہا تھا اور اندر ہی اندر جل رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے جب وہ دونوںپل کے نیچے بھٹی کے پاس اسے ڈھونڈنے آئے تھے تو ان کے چلنے اور بولنے کا انداز یہ ظاہر کررہا تھا جیسے وہ اپنے بچے کو ڈھونڈ رہے ہوں۔ ’’ذرا صبر کرو پھر دیکھنا‘‘ لوہار نے آگ بگولہ ہو کر زیر لب کہا ۔
’’خئی ہائے! خئی ہائے !‘‘ جوزی نے پھر آواز لگائی’’شاید وہ پٹ سن کے کھیت میں لیٹ کر سو گیا ہے ۔ ‘‘
’’ہمیں جا کراسے ڈھونڈنا چاہیے ۔‘‘
’’واقعی! چلو چلتے ہیں۔‘‘
وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ ے کھیت میں داخل ہوئے ۔ لوہار بھاگ کر کھیت کے کنارے پر آ کر ان کی آوازیں سننے لگا۔ وہ ابھی بھی خئی ہائے کو پکار رہے تھے ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کنویں کے اندر سے پکار رہے ہوں۔
خئی ہائے تھک چکا تھا ۔ وہ سیدھا ہو کر لیٹ گیا اور سورج کو دیکھنے لگا۔
’’خئی ہائے !‘‘
’’خئی ہائے !‘‘
آوازیں سن کر وہ اپنے خیالوں سے باہر آ گیا۔ وہ کھڑا ہوا اور ایک موٹی شاخ سے جا ٹکرایا۔
’’وہ شاید سو گیا ہے ۔ ‘‘
’’جس قوت سے ہم آواز لگا رہے ہیں لگتا نہیں وہ سو رہا ہوگا۔ شاید وہ گھر بھاگ گیا ہے ۔ ‘‘
’’چھوٹا شیطان ‘‘
’’یہ جگہ بہت پر سکون ہے ۔‘‘
’’بالکل —‘‘
ان دونوں کی آوازیں مدھم ہونا شروع ہو گئیں۔ خئی ہائے نے اپنے جسم میں ایک عجیب سی لہر دوڑتی ہوئی محسوس کی اور وہ پریشان ہو گیا ۔ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پودوں کے درمیان دیکھا تو اسے ان کے جسم نظر آئے۔ وہ پتوں کے درمیان کانٹوں پر لٹکا ہو ا ارغوانی رومال دیکھ کر حیران ہو گیا۔ وہیں پاس میں مستری کی جیکٹ پڑی ہوئی تھی۔ وہ واپس مڑا اور چلنا شروع کر دیا۔ وہ بہت عجیب محسوس کر رہا تھا۔
باب پنجم
اگلے چند ہفتوں میں جوزی اور مستری اسے یکسر بھلا چکے تھے ۔ وہ اب اس سے ملنے بھٹی پر بھی نہیں آتے تھے ۔ دوپہر اور رات کو وہ پٹ سن کے کھیت پر جا کر چڑیوں کا گانا سنتا اور مسکراتا جیسے کہ وہ جانتا ہو کہ چڑیا ں کیا کہہ رہی ہیں۔ آہستہ آہستہ لوہارنے بھی چڑیوں کے گانے نوٹس کیے۔ اس نے دیکھا کہ جب جب چڑیاں گانا گاتی ہیں، مستری اپنے کام سے غائب ہوتا تھا۔ جوزی بھی پہلے یہاں وہاں دیکھتی اور پھر ہتھوڑا رکھ کر غائب ہو جاتی۔ اس کے بعد چڑیوں کا گانا بند ہو جاتا۔ یہ منظر دیکھ کر لوہار کی شکل بگڑ جاتی۔ اس نے اب شراب پینا شروع کر دی تھی۔ خئی ہائے روزانہ پل کے پار ایک چھوٹی سی دکان سے اس کے لیے شراب لے کرآتا۔
ایک رات جب چاندنی آبشار بن کر نیچے گر رہی تھی تو چڑیوں نے گانا گایا ۔ ہواپٹ سن کے کھیتوں سے کام والی ہر جگہ کی طرف چل رہی تھی۔ لوہار نے شراب کی بوتل اٹھائی اور ایک ہی گھونٹ میں آدھی بوتل اندر اتار لی۔اس کی آنکھ سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ ڈائریکٹر لیو اپنے بیٹے کی شادی میں گیا ہوا تھا اور مزدور کام چوری کر رہے تھے ۔ رات کو کام کرنے والے مزدور سگریٹ پینے میں مشغول تھے۔ بھٹی بھی سرد پڑی تھی ۔
’’خئی ہائے جاؤاور کچھ گاجریں لے آؤ۔ ‘‘
شراب پینے کی وجہ سے لوہار کو شدید بھوک لگ رہی تھی۔
خئی ہائے بھٹی کے پاس ساکت کھڑا تھااور اسے گھور رہا تھا ۔’’کیا تم مارکھانے کاانتظار کر رہے ہو؟‘‘
خئی ہائے معمول کے مطابق پٹ سن اور شکر قندی کے کھیت سے گزر کر گاجر کے کھیت میں پہنچا۔ جب وہ ایک گاجر لے کر واپس آیا تو لوہار بستر میں خراٹے لے رہا تھا۔ خئی ہائے نے گاجر کو سندان پر رکھ کر آگ جلانا شروع کی ۔ وہ چاہتا تھا کہ آگ کی روشنی میں ایک بار پھر اس رات کی طرح گاجر سنہری دکھائی دے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ گاجر نے جیسے کالی چادر اوڑھ لی تھی۔ وہ مایوسی سے سر جھکا کر بیٹھ گیا۔
اس رات خئی ہائے ٹھیک سے سو نہ سکا۔ ڈائریکٹر لیو کی غیر موجودگی میں سب مزدور گھر چلے گئے تھے اور سونے کی غرض سے استعمال ہونے والا گھاس پوس تقریباً ختم ہو چکاتھا۔ اس کے ذہن پر وہ سنہری گاجر چھائی ہوئی تھی۔ اس نے خیالوں میں کبھی خود کو دریا میں کھڑا ہوا پایا تو کبھی گاجر کے کھیت میں۔
صبح جب خئی ہائے باہر آیا تو وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ ڈائریکٹر لیو ایک دن پہلے آ گیا تھااور صورتحال دیکھ کر شدید غصے میں تھا۔ اس نے مزدوروں کو حکم دیا کہ وہ اب زائد کام کریں گے۔ ہر طرف ہتھوڑا چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مرمت کے لیے بہت ساری چھینیاں اکھٹی ہو چکی تھیں اور لوہار جانفشانی سے انہیں ٹھیک کر رہا تھا۔ مرمت کے لیے آنے والے مستری اس کے کام کی تعریف کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں وہ بوڑھے لوہار سے بھی اچھا کام کر رہا تھا۔
جیسے ہی دن چڑھا مستری دو چھینیاں مرمت کے لیے لے آیا ۔ یہ حال ہی میں خریدی گئی تھیں اور ایک کی قیمت چار سے پانچ یوان تھی۔ لوہار نے جیسے ہی پرجوش مستری کو دیکھا اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا لیکن مستری یہ سب نہ دیکھ پایا کیونکہ ایک خوش انسان کو ہر طرف خوشیاں ہی نظر آتی ہیں۔ خئی ہائے جان گیا کہ لوہار مستری کے ساتھ کوئی چال چلنے والا ہے ،یہ سوچ کر وہ خوف زدہ ہو گیا۔ لوہار نے دونوں چھینیوں کو اتنا گرم کیا کہ وہ چاندی کی طرح سفید ہو گئیں۔ پھر سندان پر رکھ کر ان کے کنارے سیدھے کیے اور پھر ایک ساتھ انہیں بالٹی میں ڈبو دیا۔
مستری انہیں لے کر چلا گیا ۔ لوہار شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ خئی ہائے سے مخاطب ہوا۔’’کیا یہ اس لائق ہے کہ میری بنائی ہوئی چھینی استعمال کرے؟‘‘اس نے مزیدکہا ۔’’تمھیں کیا لگتا ہے ؟‘‘
خئی ہائے کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد مستری واپس آ گیا اور چھینی لوہار کی طرف پھینک کر غرایا۔
’’کانے شیطان! یہ کیا بکواس ہے ؟‘‘
’’کیوں چیخ رہے ہو سالے ؟‘‘
’’آنکھیں کھول کر خود دیکھ لو ۔‘‘
’’یہ پہلے سے ہی خراب ہوں گی ۔‘‘
’’بکواس! یہ تم نے جان بوجھ کر میری بے عزتی کروانے کے لیے کیا ہے ۔ ‘‘
’’تو کیا ہوا ؟میرا تو تمھیں دیکھتے ہی خون کھول اٹھتا ہے ۔ ‘‘
’’اچھا —‘‘مستری غصے سے لال پیلا ہو گیا۔’’تم میں دم ہے تو آ جاؤدو دو ہاتھ ہو جائیں۔ ‘‘
’’میں تم سے نہیں ڈرتا—‘‘ لوہار نے اپنی کام والی قمیض اتار دی اور جنگلی ریچھ کی طرح اس کی طرف دوڑا۔
مستری نے بھی اپنی جیکٹ اتار دی تھی۔وہ سیلابی دروازے کے ساتھ ریت میں کھڑا تھا۔ وہ دراز قد اور مضبوط تھا۔ لوہارکے پاؤں کے گرد ابھی تک کام والا حفاظتی کپڑا بندھاہوا تھااور وہ آواز پیدا کرتا ہوا دوڑا۔ اس کے بازو لمبے، ٹانگیں موٹی اور سینہ مضبوط تھا۔
’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔‘‘ لوہار طنزیہ انداز میں چلایا۔
’’یہ تو تم پر منحصر ہے ۔ ‘‘ مستری نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
’’پہلے گھر جا کر اپنے باپ کو بتا دو کہ میں تمھاری موت کا ذمہ دار نہیںہوں گا۔ ‘‘
’’تم گھر جا کر اپنے کفن دفن کا انتظا م کرو۔‘‘
تو تو میں میں کرتے کرتے وہ ایک دوسرے کے بالکل آمنے سامنے آ گئے ۔ خئی ہائے کونے میں دبک کر بیٹھا رہا۔ ان دونوں کا پہلاحملہ کافی مزاحیہ تھا۔ مستری نے لوہار کے منہ پر تھوک دیا۔ جب لوہار نے تھوکا تو وہ لہرا کر ایک طرف ہو گیااور نشانہ چوک گیا۔ لوہار بار بار ناکام ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ مستری دوبارہ لوہار پر تھوکتا، لوہار نے اس کے کندھے پر مکا جڑ دیا جس سے مستری گھوم گیا۔ شور شرابے کی وجہ سے وہاں پر کافی لوگ جمع ہو گئے تھے۔ ’’لڑنا بند کرو‘‘ وہ چلائے۔ ’’رُک جاؤ۔‘‘ لیکن کسی نے آگے بڑھ کر انہیں الگ کرنے کی کوشش نہ کی ۔ سب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ جوزی کا چہرہ خوف کے مارے سفید ہو چکا تھا۔ اس نے ساتھ کھڑی عورت کے کندھوں کو پکڑا ہوا تھا۔ جب جب اس کے محبوب کو مکا لگتا وہ کراہتی ۔
وہ دونوں ایک دوسرے پر مکے برسا رہے تھے لیکن کوئی ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ مستری کو لمبے قد کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا کیونکہ اس کے مکوں میں د م نہیں تھا۔ لوہار کی رفتار دھیمی تھی لیکن اس کے فولادی مکے اپنا کام دکھا رہے تھے۔ اس نے مستری کو زمین پر پٹخ دیا۔
ہجو م میں سے شور اٹھنے لگا ۔
لوہار فاتحانہ انداز میں ا پنا سر ہلا رہا تھا۔
مستر ی ایک بار پھر لڑنے کے لیے تیار تھا ،وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔ اس بار وہ محتاط ہو کر لڑ رہا تھا اور اپنے پیٹ کو اس کے وار سے بچا رہا تھا۔ اس نے کافی بار لوہار کو نیچے گرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا اور پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ جبکہ لوہار کے جسم پر پسینے کا ایک قطرہ بھی نہ تھا۔ مستری کمزور پڑ رہا تھا جیسے ہی اس نے لوہار پر حملہ کیا لوہارنے اسے کمرسے پکڑ کر دبوچ لیا ۔ یہاں تک کہ اس کا سانس رکنے لگا ،وہ ایک بار پھر زمین پر پڑا تھا۔
مستری تیسری بار بھی ناکام ہوا ۔ لوہار نے اسے ہاتھوں پر اٹھا کر دو میٹر دور اچھا ل دیا۔ جوزی نے روتے ہوئے بھاگ کر مستری کی کھڑے ہونے میں مدد کی۔ یہ منظر دیکھ کر لوہارکی خوشی مایوسی میں بدل گئی۔ جیسے ہی مستری کھڑا ہوا اس نے تیزی سے مٹھی بھر مٹی لوہار کی آنکھ میں پھینک دی جس کی وجہ سے وہ کچھ دیر کے لیے مکمل اندھا ہو گیا ۔ مستری نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نیچے گر ا دیا اور اس پر ایسے مکے برسانے لگا جیسے ڈھول بجا رہا ہو۔ اسی دوران خئی ہائے ہجوم کو چیرتا ہوا وہاں آیا اور مستری کی کمر پر چڑھ کر پوری قوت سے اس کے گال نوچنے لگا۔ مستری چیختا ہوا پھر سے زمین پر گر گیا ۔ لوہار آنکھیں ملتا ہوا پھر اٹھ کھڑا ہوا اوراندھا دھند پتھر پھینکنا شروع کر دیے ۔ ایک پتھر جوزی کی دائیں آنکھ میں جا لگا اس کی چیخ سن کر لوہار رک گیا۔
چیخ سن کر خئی ہائے بھی پیچھے ہٹ گیا، اس نے مستری کے گالوں پر دو گہرے زخم ڈال دیے تھے ۔ اسی ہلچل میں وہ بھاگ کر پل کے نیچے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ اس کے دانت بج رہے تھے۔
باب ششم
اگلے دن کام والی جگہ پر افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ جوزی اور مستری دونوں غیر حاضر تھے۔ ہوا چلنے کی وجہ سے گرد اڑرہی تھی اور آسمان پیلا دکھائی دے رہا تھا۔ نو بجے کے بعد گرد نیچے بیٹھ گئی۔ بیٹے کی شادی سے واپسی پر جب ڈائریکٹر لیو کو جھگڑے کے بارے میں پتا لگا تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے بھٹی کے پاس کھڑے ہو کر لوہار کو دھمکایا کہ اس کی آنکھ نکال کر جوزی کو دے دے گا کیونکہ پتھر لگنے سے اس کی آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ لوہار نے اپنے دفاع میں کچھ نہ کہا ۔اس کے سیاہ چہرے پر مہاسے سرخ ہو چکے تھے۔ وہ لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اور شراب کے بڑے بڑے گھونٹ بھر رہا تھا۔
باقی تمام مستری سخت محنت سے کام کر رہے تھے ۔ بھٹی کے پاس خراب چھینیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا لیکن لوہار اپنے بستر پر پڑا شراب پیے جا رہا تھا۔
ڈائریکٹر لیونے اسے لات رسید کی’’ ڈرامے بازی بند کرو،آنکھیں بند کرنے سے معاملات سیدھے نہیں ہوں گے۔ جاؤاور کام کرو ،شاید اس طرح تمھارے گناہ دھل جائیں۔ ‘‘
لوہار نے اپنی بوتل پل پر دے ماری ۔ اسکی کرچیاں ہر طرف بکھر گئیں اور شراب کے کچھ قطرے ڈائریکٹر لیو پر جا گرے ۔ لوہار اپنی جگہ سے اچھلا اور بھاگنا شروع کر دیا ۔ وہ چلا کر کہہ رہا تھا ۔ ’’میں کسی سے نہیں ڈرتا ،نہ مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے نہ موت سے ۔‘‘ اب وہ سیلابی دروازے پر چڑھ گیا ۔’’مجھے کسی انسان کا ڈر نہیں۔ ‘‘ اس کا سر پتھر کی دیوار سے ٹکرایا اور وہ چکرانے لگا۔ ’’دھیان سے ‘‘ نیچے سے لوگوں نے پکارا۔ ’’تم گر جاؤگے ۔ ‘‘
’’میں اور گر جاؤں گا؟‘‘ وہ زور سے ہنسا اور دروازے پر لاپرواہی سے چلنے لگا۔ خوف کے مارے لوگوں کا سانس رک گیا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا چل رہا تھااور گا رہا تھا۔
بیجنگ سے لے کر نان جنگ
کوئی بھی نہیں ایسا
جس کی پتلون سے ٹارچ لٹکی ہو
کچھ مستری اسے اتارنے کے لیے اوپر چڑھ گئے۔ ’’مجھ سے پنگا نہ لو ،میں کرتب دکھانے میں مہارت رکھتا ہوں۔ ‘‘ لوہار مزاحمت کرتے ہوئے بولا۔ جب مستری اسے نیچے لائے تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا ۔و ہ اپنے بستر پر بکھر گیا اور اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔ وہ ایک بار پھر چلایا ۔ ’’ماں ! میں اب اور نہیں سہہ سکتا ،خئی ہائے! جاؤاور اپنے استاد کے لیے گاجر لاؤ۔ ‘‘ خئی ہائے نے کوٹ پہنا ہوا تھا جواس کے گھٹنوں تک آ رہا تھا۔ سب اسے حیرانی سے دیکھ رہے تھے ۔ یہ بڑھیا کپڑے سے بنا تھا اور پانچ سال تک چل سکتا تھا۔ اس کا نیکر ایسے دکھائی دے رہا تھا جیسے کوٹ کا کنارا ہو۔ اس نے بڑے سائز کے نئے جوگرز بھی پہنے ہوئے تھے۔
’’تم نے سنا نہیں کہ تمھارے استاد نے کیا حکم دیا ہے خئی ہائے؟‘‘ایک بوڑھے مستری نے خئی ہائے کو یاد دلانے والے انداز میں کہا۔
خئی ہائے بندکو پار کر کے پٹ سن کے کھیت میں داخل ہو گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ کھیت میں ایک راستہ بنا ہوا ہے اور کچھ پودے گرے ہوئے ہیں۔ کچھ آگے چل کر اس نے دیکھا کہ کافی سارے پودوں کو گرا کر لیٹنے کے لیے جگہ بنائی گئی۔ وہ جیسے ہی سبزی کے کھیت کے قریب پہنچا تو پیٹ کے بل لیٹ گیااور آس پاس دیکھنے لگاکہ کہیں وہ بوڑھا نگرانی تو نہیں کر رہا۔ اس کے بعد وہ چلتا ہو ا گاجر کے کھیت میں پہنچا اور گاجر اکھاڑنے لگا۔ وہ ایک بار پھر سنہری گاجر ڈھونڈ رہا تھا لیکن اسے بار بار مایوسی ہو رہی تھی۔ اسی دوران اس نے کافی ساری گاجریں اکھاڑ کر پھینک دیں۔
نگرانی پر مامور بوڑھا گوبھی کے کھیت میں کیڑوںکو مار رہا تھا۔ اس کی آنکھیںرنگ کے لحاظ سے گدلے پانی کا تالاب محسوس ہوتی تھیں۔ جیسے ہی دوپہر ہوئی وہ کمانڈر کو جگانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا جو قریب ہی ایک چھپرکے نیچے سو رہا تھا۔ کمانڈر گزشتہ رات جاگتا رہا تھا ،اسی لیے وہ گاؤں کے شور شرابے سے دور یہاں آ کر سو گیاتھا۔ جیسے ہی بوڑھے نے کمر سیدھی کی اس کی ہڈیا ں چٹخنے لگیں۔ اس کی نظر گاجر کے کھیت میں ایک ڈھیر پر پڑی۔ روشنی میں ایسے لگتا تھا جیسے کوئی شعلہ جل رہا ہو۔ وہ اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے ڈھانپ کر وہاں جا پہنچا۔ یہ ڈھیر چھوٹی چھوٹی گاجروں کا تھا۔ ’’تو یہ تمھاری کارستانی ہے ۔‘‘ وہ بچے کو دیکھ کر چلایا ۔ خئی ہائے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ایک گاجر ہاتھ میں اٹھائے دھوپ میں اس کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس کی بڑی اور چمکدار آنکھوں نے بوڑھے کو خوفزدہ کر دیا لیکن پھر بھی اس نے اسے پکڑ لیا اور گھیسٹتا ہوا چھپر تک لے گیا اور کمانڈر کو جگایا۔
’’ایک گڑ بڑ ہے سر ۔ اس ریچھ کے بچے نے گاجر کا آدھا کھیت اکھاڑ پھینکا ہے ۔ ‘‘
’’کمانڈرنے خود جا کر کھیت کا معائنہ کیا اور جب وہ واپس آیا تو اس کی آنکھ میں خون اترا ہوا تھا۔ اس نے خئی ہائے کو زور دار لات رسید کی ۔ خئی ہائے آہستہ سے اٹھنے لگا لیکن کمانڈر نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔
’’تمھارا تعلق کس گاؤں سے ہے بیوقوف ؟‘‘ خئی ہائے کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ ’’تم کس کے کہنے پر فصل تباہ کر رہے ہو؟‘‘ خئی ہائے رونے والا تھا ۔
’’تمھارا نام کیا ہے ؟تمھارے باپ کا کیا نام ہے ؟‘‘
اس کی آنکھوںسے آنسو بہنے لگے۔
’’یہ بد بخت گونگا تو نہیں؟‘‘
اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے ۔
’’اسے جانے دو کمانڈر ۔ ‘‘
’’جانے دوں ؟‘‘وہ مسکرایا۔ ’’ٹھیک ہے ۔ ‘‘
کمانڈر نے اس کا نیا کوٹ اور نئے جوتے چھین لیے یہاں تک کہ اس کا نیکر بھی۔ اس نے یہ تمام چیزیں ایک کونے میں پھینک دیں۔
’’گھر جاؤاور اپنے باپ سے کہو کہ آکر کپڑے واپس لے جائے۔ اب دفع ہو جاؤ۔ ‘‘
خئی ہائے واپس جانے کے لیے مڑا پہلے تو اس نے شرم کے مارے ہاتھوں سے اپنی ستر پوشی کی کوشش کی لیکن کچھ قدم چل کر اپنے ہاتھ ہٹالیے ،اس کے ننگے اور میلے کچیلے بدن کو دیکھ کربوڑھے نے آہ بھری۔
خئی ہائے پٹ سن کے کھیت میں ایسے داخل ہوا جیسے مچھلی سمندرمیں غوطہ لگاتی ہے ۔ موسم خزاں کے سورج کے تلے پٹ سن کے پتے میں سر سراہٹ کی آواز آ رہی تھی۔
’’خئی ہائے!‘‘
’’خئی ہائے !‘‘
:::
چینی ناولچہ
گاجر
مَویان
(Mo Yan)
تعارف و ترجمہ:ریحان اسلام
)دوسرا اور آخری حصہ(
باب چہارم
سنہری گاجر چھپاک سے دریا میں جا گری ۔دریا کی تہہ میں ڈوب جانے سے پہلے یہ کچھ لمحوں کے لیے سطح پر تیرتی رہی ۔ پھر ڈوب کر سنہری ریت تلے دب گئی۔ جس مقام پر یہ دریا میں گری تھی وہاں دھند سی اڑنے لگی ۔
صبح کے وقت دھند نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا۔ اس دھند کی چادر کے نیچے دریا سسک رہا تھا۔ دریا کے کنارے بطخیں ماتمی انداز میں دھند کو دیکھ رہی تھیں۔ آخر کار سورج نکل آیا اور اس کی کرنیں دھند کی چادر کو چیرنے لگیں۔ اس روشنی میں بطخوں نے دیکھاکہ ایک بوڑھا آدمی کندھے پر بستر اور اوزار لادے دریا کے مغربی سرے کی جانب جا رہا ہے۔ بوجھ کی وجہ سے اس کی کمر میں خم آ گیا تھا اور اس کی گردن راج ہنس کی طرح اٹھی ہوئی تھی۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو نیکر پہنے ننگے پاؤں ایک کالا بچہ وہاں نمودار ہوا۔ ایک نر بطخ نے مادہ بطخ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور کہا: ’’یاد ہے ؟یہ وہی بچہ ہے جو اس رات بالٹی لے کر جا رہا تھا۔‘‘
خئی ہائے دریا کے کنارے آہستہ آہستہ چل رہا تھا اور دھند کے پار دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے مخالف کنارے پر بطخوں کو کائیں کائیں کرتے سنا ۔ وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر وہیں بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ ٹانگوں کے گرد لپیٹ لیے ۔ چڑھتے سورج کی کرنیں اس کی کمر کو جلا رہی تھیں۔
اس نے گزشتہ رات پل کے نیچے ہی گزاری تھی۔ جب علی الصبح مرغے نے بانگ دی تو اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے دیکھا کہ بوڑھا لوہار پل کے دہانے پر کھڑا بڑ بڑا رہا ہے ۔ اسے دوبارہ نیند نہ آئی تو وہ بوڑھے کے پیچھے پیچھے چلاآیا۔ اسی دوران وہ پھسل کر ریت پر گر گیاتھا۔ جب تک وہ سنبھلا بوڑھا غائب ہو چکا تھا۔ اب وہ کنارے پر بیٹھا دریا کی تہہ میں دیکھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
کام والی جگہ پر ڈائریکٹر لیو پھر سے مزدوروں پر برس رہا تھا۔ ’’کم بخت صبح صبح بھٹی کے پاس گڑ بڑ ہو گئی۔ بوڑھا منحوس کچھ بتائے بغیر غائب ہو گیا۔ وہ چھوٹا شیطان بھی غائب ہے ۔ تم لوگوں کے تنظیمی نظم وضبط کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘
’’خئی ہائے!‘‘
’’خئی ہائے !‘‘
’’دریا کے کنارے وہی بیٹھا ہے شاید۔ ‘‘
جوزی اور مستری بھاگ کر گئے اور اسے بازوؤں سے پکڑ کر اٹھا لیا۔
’’میرے بچے تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟‘‘ اس نے اس کے سر سے تنکے ہٹاتے ہوئے پوچھا’’اتنی سردی میں یہاں بیٹھنا ٹھیک نہیں ۔‘‘
’’کل رات والی شکرقندی بچی ہوئی ہے ۔ جاؤاور ایک آنکھ والے اژدھے کو کہو کہ تمھیں بنا کر دے ۔‘‘
’’بوڑھا جا چکا ہے ‘‘ جوزی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اب کیا کریں ؟ کیا اسے دوسرے لوہارکے ساتھ رہنے دیں؟ اس کاتو رویہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘
’’پریشان مت ہوں۔ یہ ایک بہادر بچہ ہے اور پھر جب تک ہم یہاں ہیں وہ اسے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ‘‘
وہ اسے زبردستی کام والی جگہ پر لے گئے۔ ہر قدم پر خئی ہائے پیچھے مڑ کر دیکھتا تھا۔
’’ٹھیک سے چلو بد معاش ‘‘ مستری نے کہا ’’دریا میں دیکھنے کے لیے کیا ہے؟ ‘‘ اس نے اس کا بازو دبایا۔
’’مجھے تو لگا تھا کہ تمھیں بوڑھے نے اغوا کر لیا ہے ۔‘‘ڈائریکٹر لیو نے نوجوان لوہار کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے کہا۔ ’’اور تم ، اب جب کہ تم نے بوڑھے کو بھگا دیا ہے تو کام پر پورا دھیان دو۔ اگر تم نے ٹھیک سے اوزاروں کی مرمت نہ کی تو میں تمھاری آنکھ نکال دوں گا۔ ‘‘
نوجوان فخریہ انداز میں مسکرایا۔ ’’آپ اس بات کی فکر نہ کریں لیو صاحب‘‘ اس نے کہا ’’بس مجھے بوڑھے کے حصے کا معاوضہ اور اناج بھی چاہیے ورنہ آپ کوئی اور لوہار ڈھونڈ لیں۔ ‘‘
’’چلو دیکھتے ہیں ۔ اگر تمھار اکام اچھا ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ یہاں سے دفع ہو جانا۔‘‘
’’آگ جلاؤلڑکے۔‘‘ اس نے خئی ہائے کو حکم دیا۔
اس صبح خئی ہائے نیم مردہ انسانوں کی طرح کام کر رہا تھا۔ وہ عجیب و غریب حرکتیں کر رہا تھا۔ کبھی وہ بیلچے سے اتنازیادہ کوئلہ ڈال دیتا کہ دھواں کالا ہو جاتا ، کبھی وہ چھینی کی نوک کے بجائے سر کو آگ میں رکھ دیتا۔
’’تمھارا دماغ کدھر ہے ؟‘‘ لوہار نے ڈانٹتے ہوئے کہا ،وہ پسینے میں شرابورتھا اور دل جمعی سے کام کر رہا تھا۔ جب چھینیاں تیار ہو گئیں تو وہ خودانہیں کام والی جگہ پر لے کر گیا۔ اس کے جانے کے بعد خئی ہائے نے اوزار پھینکے اور باہر نکل گیا۔ یک دم روشنی میں آنے سے وہ چکرا گیا۔ وہ کچھ دیر کے لیے ٹھہرا اور پھر دوڑتا ہوا چند ہی لمحوں میں دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ وہ ایک بار پھر دریا کی تہہ میں دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر اس نے اپنا نیکر اوپر کیا، دریا کے پانی میں قدم رکھ کر معائنہ کیا اور ٹھنڈک کی وجہ سے تھر تھرانے لگا۔ پانی اس کے گھٹنوں سے اوپر تک پہنچ گیا تھا۔ اس نے نیکر کو اتنا اوپر چڑھا لیا کہ اب اس کے کولہے نظر آ رہے تھے۔ اب وہ دریا کے درمیان میں کھڑا تھا۔ اس کا دھڑ سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ دریا اس کی ٹانگوں سے ٹکراتا ہوا آہستگی سے بہہ رہا تھا۔ ایک دم سے اس کے پاؤں کے نیچے سے ریت کھسکنے لگی اور وہ تھوڑا سا اور پانی کے اندر چلا گیا جس کی وجہ سے اس کے نیکر گیلا ہو گیا۔ اب اس کا نیکر کا کچھ حصہ جوٹانگوں سے لگا ہوا تھا ،پانی میں تیر رہا تھا اور اس کے جسم کی سیاہی کی وجہ سے آس پاس کا پانی بھی کالا ہو رہا تھا۔ وہ کچھ تلاش کرتا ہوا پانی میں چلنے لگا۔
’’خئی ہائے ! خئی ہائے !‘‘ مستری اسے پل کے دہانے سے آواز دے رہا تھا۔’’تم وہاں ڈوب جاؤگے۔ ‘‘
لوہار بھی دریا کے کنارے پر آ چکا تھا لیکن خئی ہائے نے مڑ کر نہ دیکھا۔ ’’باہر آ جاؤ!‘‘ لوہار نے ایک ڈھیلا اٹھا کر اس کی طرف پھینکا جو اس کے اوپر سے گزر گیا اور دریا میں جا گرا۔ دوسرا ڈھیلا اس کی کمر میں لگاجس کی وجہ سے وہ قریب قریب پانی میں جا ڈھ گیا۔ اس کے ہونٹ پانی کو چھونے لگے ۔ وہ مڑا اور بھاگتا ہوا دریا کے کنارے پر آ گیا ۔ وہ لوہار کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے جسم سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اس کا نیکر جلد سے چپکا ہوا تھا اور اس کا عضو تناسل ریشم کے کیڑے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ لوہار نے اسے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا لیکن اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ڈر سا گیا اور رک گیا ۔ لڑکا مسلسل اسے گھور رہا تھا۔
’’جاؤاور آگ جلاؤ۔ میری بنائی ہوئی چھینی زبردست ہیں‘‘ اس نے فخر سے کہا اور خئی ہائے کی گردن تھپتھپانے لگا۔
وقفے کے دوران لوہار نے گزشتہ رات بچ جانے والی شکر قندی بھٹی میں رکھ دیں۔ پٹ سن کے کھیتوں سے ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی۔ ہر طرف سورج کی روشنی بکھری ہوئی تھی۔ شکنجے سے شکر قندیاں پلٹتے ہوئے لوہار گانا گانے لگا۔
بیجنگ سے لے کر نان جنگ تک کوئی بھی نہیں ایسا
جس کی پتلون سے ٹارچ لٹکتی ہو
’’کیا تم نے کبھی ایسادیکھا ہے خئی ہائے؟ کیاتمھاری سوتیلی ماں کے پاس ہے ایسی پتلون؟ ‘‘لوہار نے پوچھا۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ ’’جاؤاور کچھ گاجریں لے آؤ۔ تب تک شکرقندی تیار ہو جائے گی ۔‘‘
خئی ہائے کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس سے پہلے کہ لوہار کچھ کہتا وہ تیزی سے روانہ ہو گیا۔ جب وہ بند پر چڑھ رہا تھا تو اس نے سنا کہ جوزی کہیں دور سے اسے آوازیں دے رہی تھی۔ اس نے مڑ کے دیکھا لیکن روشنی کی وجہ سے کچھ دیکھ نہ سکا۔ وہ بھاگ کر دوسری طرف اتر گیا اور پٹ سن کے کھیت میں داخل ہو گیا ۔ کھیت میں پودے بے ترتیبی سے لگے ہوئے تھے ۔ لیکن سب کی قامت ایک جیسی تھی۔ کھیت میں چلتے ہوئے پٹ سن کے پتے کانٹوں کی طرح چبھ رہے تھے۔ جیسے ہی وہ گاجر کے کھیت کے قریب پہنچا اس نے سینے کے بل رینگنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی وہ کھیت میں داخل ہونے لگا تو اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی قریبی کھیت میں گندم کی بیجائی کر رہا ہے ۔ وہ رینگتا ہو اواپس پٹ سن کے کھیت میں آ گیا ۔ سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ وہ پٹ سن کے کھیت سے گاجروں کو بآسانی دیکھ سکتا تھا۔
اسی دوران ایک سرخ چہرے والا جوان شکر قندی کے کھیت سے چلتا ہوا بوڑھے کے پاس آیا اور اچانک پوچھا’’تم کیا کہہ رہے تھے کہ کل رات یہاں چور آیا تھا ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ بوڑھے نے اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’چھ گاجر اور آٹھ شکر قندی۔ پراس نے انگوروں کو بخش دیا۔‘‘
’’شاید یہ سیلابی دروازے پر کام کرنے والے پاگلوں کی کارستانی ہے ۔ ان پر نظر رکھو۔ دوپہر کے کھانے پر جانے سے پہلے کچھ دیر ادھر ہی ٹھہرو۔‘‘
’’میں ایسے ہی کروں گا کمانڈرصاحب۔‘‘
بوڑھے نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کہا۔
خئی ہائے اور بوڑھے نے نوجوان کمانڈر کو بند پر چڑھتے ہوئے دیکھا ۔ بوڑھا پٹ سن کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا۔ خئی ہائے مزید پیچھے کھسک گیا تاکہ بوڑھا اسے دیکھ نہ سکے ۔
’’خئی ہائے !‘‘
’’خئی ہائے !‘‘
جوزی اور مستری بندکے زیریں کنارے سے پٹ سن کی طرف منہ کر کے اسے آوازیں دے رہے تھے۔ لوہار پل کے دہانے سے ان دونوں کودیکھ رہا تھا اور اندر ہی اندر جل رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے جب وہ دونوںپل کے نیچے بھٹی کے پاس اسے ڈھونڈنے آئے تھے تو ان کے چلنے اور بولنے کا انداز یہ ظاہر کررہا تھا جیسے وہ اپنے بچے کو ڈھونڈ رہے ہوں۔ ’’ذرا صبر کرو پھر دیکھنا‘‘ لوہار نے آگ بگولہ ہو کر زیر لب کہا ۔
’’خئی ہائے! خئی ہائے !‘‘ جوزی نے پھر آواز لگائی’’شاید وہ پٹ سن کے کھیت میں لیٹ کر سو گیا ہے ۔ ‘‘
’’ہمیں جا کراسے ڈھونڈنا چاہیے ۔‘‘
’’واقعی! چلو چلتے ہیں۔‘‘
وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ ے کھیت میں داخل ہوئے ۔ لوہار بھاگ کر کھیت کے کنارے پر آ کر ان کی آوازیں سننے لگا۔ وہ ابھی بھی خئی ہائے کو پکار رہے تھے ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کنویں کے اندر سے پکار رہے ہوں۔
خئی ہائے تھک چکا تھا ۔ وہ سیدھا ہو کر لیٹ گیا اور سورج کو دیکھنے لگا۔
’’خئی ہائے !‘‘
’’خئی ہائے !‘‘
آوازیں سن کر وہ اپنے خیالوں سے باہر آ گیا۔ وہ کھڑا ہوا اور ایک موٹی شاخ سے جا ٹکرایا۔
’’وہ شاید سو گیا ہے ۔ ‘‘
’’جس قوت سے ہم آواز لگا رہے ہیں لگتا نہیں وہ سو رہا ہوگا۔ شاید وہ گھر بھاگ گیا ہے ۔ ‘‘
’’چھوٹا شیطان ‘‘
’’یہ جگہ بہت پر سکون ہے ۔‘‘
’’بالکل —‘‘
ان دونوں کی آوازیں مدھم ہونا شروع ہو گئیں۔ خئی ہائے نے اپنے جسم میں ایک عجیب سی لہر دوڑتی ہوئی محسوس کی اور وہ پریشان ہو گیا ۔ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پودوں کے درمیان دیکھا تو اسے ان کے جسم نظر آئے۔ وہ پتوں کے درمیان کانٹوں پر لٹکا ہو ا ارغوانی رومال دیکھ کر حیران ہو گیا۔ وہیں پاس میں مستری کی جیکٹ پڑی ہوئی تھی۔ وہ واپس مڑا اور چلنا شروع کر دیا۔ وہ بہت عجیب محسوس کر رہا تھا۔
باب پنجم
اگلے چند ہفتوں میں جوزی اور مستری اسے یکسر بھلا چکے تھے ۔ وہ اب اس سے ملنے بھٹی پر بھی نہیں آتے تھے ۔ دوپہر اور رات کو وہ پٹ سن کے کھیت پر جا کر چڑیوں کا گانا سنتا اور مسکراتا جیسے کہ وہ جانتا ہو کہ چڑیا ں کیا کہہ رہی ہیں۔ آہستہ آہستہ لوہارنے بھی چڑیوں کے گانے نوٹس کیے۔ اس نے دیکھا کہ جب جب چڑیاں گانا گاتی ہیں، مستری اپنے کام سے غائب ہوتا تھا۔ جوزی بھی پہلے یہاں وہاں دیکھتی اور پھر ہتھوڑا رکھ کر غائب ہو جاتی۔ اس کے بعد چڑیوں کا گانا بند ہو جاتا۔ یہ منظر دیکھ کر لوہار کی شکل بگڑ جاتی۔ اس نے اب شراب پینا شروع کر دی تھی۔ خئی ہائے روزانہ پل کے پار ایک چھوٹی سی دکان سے اس کے لیے شراب لے کرآتا۔
ایک رات جب چاندنی آبشار بن کر نیچے گر رہی تھی تو چڑیوں نے گانا گایا ۔ ہواپٹ سن کے کھیتوں سے کام والی ہر جگہ کی طرف چل رہی تھی۔ لوہار نے شراب کی بوتل اٹھائی اور ایک ہی گھونٹ میں آدھی بوتل اندر اتار لی۔اس کی آنکھ سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ ڈائریکٹر لیو اپنے بیٹے کی شادی میں گیا ہوا تھا اور مزدور کام چوری کر رہے تھے ۔ رات کو کام کرنے والے مزدور سگریٹ پینے میں مشغول تھے۔ بھٹی بھی سرد پڑی تھی ۔
’’خئی ہائے جاؤاور کچھ گاجریں لے آؤ۔ ‘‘
شراب پینے کی وجہ سے لوہار کو شدید بھوک لگ رہی تھی۔
خئی ہائے بھٹی کے پاس ساکت کھڑا تھااور اسے گھور رہا تھا ۔’’کیا تم مارکھانے کاانتظار کر رہے ہو؟‘‘
خئی ہائے معمول کے مطابق پٹ سن اور شکر قندی کے کھیت سے گزر کر گاجر کے کھیت میں پہنچا۔ جب وہ ایک گاجر لے کر واپس آیا تو لوہار بستر میں خراٹے لے رہا تھا۔ خئی ہائے نے گاجر کو سندان پر رکھ کر آگ جلانا شروع کی ۔ وہ چاہتا تھا کہ آگ کی روشنی میں ایک بار پھر اس رات کی طرح گاجر سنہری دکھائی دے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ گاجر نے جیسے کالی چادر اوڑھ لی تھی۔ وہ مایوسی سے سر جھکا کر بیٹھ گیا۔
اس رات خئی ہائے ٹھیک سے سو نہ سکا۔ ڈائریکٹر لیو کی غیر موجودگی میں سب مزدور گھر چلے گئے تھے اور سونے کی غرض سے استعمال ہونے والا گھاس پوس تقریباً ختم ہو چکاتھا۔ اس کے ذہن پر وہ سنہری گاجر چھائی ہوئی تھی۔ اس نے خیالوں میں کبھی خود کو دریا میں کھڑا ہوا پایا تو کبھی گاجر کے کھیت میں۔
صبح جب خئی ہائے باہر آیا تو وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ ڈائریکٹر لیو ایک دن پہلے آ گیا تھااور صورتحال دیکھ کر شدید غصے میں تھا۔ اس نے مزدوروں کو حکم دیا کہ وہ اب زائد کام کریں گے۔ ہر طرف ہتھوڑا چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مرمت کے لیے بہت ساری چھینیاں اکھٹی ہو چکی تھیں اور لوہار جانفشانی سے انہیں ٹھیک کر رہا تھا۔ مرمت کے لیے آنے والے مستری اس کے کام کی تعریف کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں وہ بوڑھے لوہار سے بھی اچھا کام کر رہا تھا۔
جیسے ہی دن چڑھا مستری دو چھینیاں مرمت کے لیے لے آیا ۔ یہ حال ہی میں خریدی گئی تھیں اور ایک کی قیمت چار سے پانچ یوان تھی۔ لوہار نے جیسے ہی پرجوش مستری کو دیکھا اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا لیکن مستری یہ سب نہ دیکھ پایا کیونکہ ایک خوش انسان کو ہر طرف خوشیاں ہی نظر آتی ہیں۔ خئی ہائے جان گیا کہ لوہار مستری کے ساتھ کوئی چال چلنے والا ہے ،یہ سوچ کر وہ خوف زدہ ہو گیا۔ لوہار نے دونوں چھینیوں کو اتنا گرم کیا کہ وہ چاندی کی طرح سفید ہو گئیں۔ پھر سندان پر رکھ کر ان کے کنارے سیدھے کیے اور پھر ایک ساتھ انہیں بالٹی میں ڈبو دیا۔
مستری انہیں لے کر چلا گیا ۔ لوہار شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ خئی ہائے سے مخاطب ہوا۔’’کیا یہ اس لائق ہے کہ میری بنائی ہوئی چھینی استعمال کرے؟‘‘اس نے مزیدکہا ۔’’تمھیں کیا لگتا ہے ؟‘‘
خئی ہائے کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد مستری واپس آ گیا اور چھینی لوہار کی طرف پھینک کر غرایا۔
’’کانے شیطان! یہ کیا بکواس ہے ؟‘‘
’’کیوں چیخ رہے ہو سالے ؟‘‘
’’آنکھیں کھول کر خود دیکھ لو ۔‘‘
’’یہ پہلے سے ہی خراب ہوں گی ۔‘‘
’’بکواس! یہ تم نے جان بوجھ کر میری بے عزتی کروانے کے لیے کیا ہے ۔ ‘‘
’’تو کیا ہوا ؟میرا تو تمھیں دیکھتے ہی خون کھول اٹھتا ہے ۔ ‘‘
’’اچھا —‘‘مستری غصے سے لال پیلا ہو گیا۔’’تم میں دم ہے تو آ جاؤدو دو ہاتھ ہو جائیں۔ ‘‘
’’میں تم سے نہیں ڈرتا—‘‘ لوہار نے اپنی کام والی قمیض اتار دی اور جنگلی ریچھ کی طرح اس کی طرف دوڑا۔
مستری نے بھی اپنی جیکٹ اتار دی تھی۔وہ سیلابی دروازے کے ساتھ ریت میں کھڑا تھا۔ وہ دراز قد اور مضبوط تھا۔ لوہارکے پاؤں کے گرد ابھی تک کام والا حفاظتی کپڑا بندھاہوا تھااور وہ آواز پیدا کرتا ہوا دوڑا۔ اس کے بازو لمبے، ٹانگیں موٹی اور سینہ مضبوط تھا۔
’’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔‘‘ لوہار طنزیہ انداز میں چلایا۔
’’یہ تو تم پر منحصر ہے ۔ ‘‘ مستری نے اسی لہجے میں جواب دیا۔
’’پہلے گھر جا کر اپنے باپ کو بتا دو کہ میں تمھاری موت کا ذمہ دار نہیںہوں گا۔ ‘‘
’’تم گھر جا کر اپنے کفن دفن کا انتظا م کرو۔‘‘
تو تو میں میں کرتے کرتے وہ ایک دوسرے کے بالکل آمنے سامنے آ گئے ۔ خئی ہائے کونے میں دبک کر بیٹھا رہا۔ ان دونوں کا پہلاحملہ کافی مزاحیہ تھا۔ مستری نے لوہار کے منہ پر تھوک دیا۔ جب لوہار نے تھوکا تو وہ لہرا کر ایک طرف ہو گیااور نشانہ چوک گیا۔ لوہار بار بار ناکام ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ مستری دوبارہ لوہار پر تھوکتا، لوہار نے اس کے کندھے پر مکا جڑ دیا جس سے مستری گھوم گیا۔ شور شرابے کی وجہ سے وہاں پر کافی لوگ جمع ہو گئے تھے۔ ’’لڑنا بند کرو‘‘ وہ چلائے۔ ’’رُک جاؤ۔‘‘ لیکن کسی نے آگے بڑھ کر انہیں الگ کرنے کی کوشش نہ کی ۔ سب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ جوزی کا چہرہ خوف کے مارے سفید ہو چکا تھا۔ اس نے ساتھ کھڑی عورت کے کندھوں کو پکڑا ہوا تھا۔ جب جب اس کے محبوب کو مکا لگتا وہ کراہتی ۔
وہ دونوں ایک دوسرے پر مکے برسا رہے تھے لیکن کوئی ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ مستری کو لمبے قد کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا کیونکہ اس کے مکوں میں د م نہیں تھا۔ لوہار کی رفتار دھیمی تھی لیکن اس کے فولادی مکے اپنا کام دکھا رہے تھے۔ اس نے مستری کو زمین پر پٹخ دیا۔
ہجو م میں سے شور اٹھنے لگا ۔
لوہار فاتحانہ انداز میں ا پنا سر ہلا رہا تھا۔
مستر ی ایک بار پھر لڑنے کے لیے تیار تھا ،وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔ اس بار وہ محتاط ہو کر لڑ رہا تھا اور اپنے پیٹ کو اس کے وار سے بچا رہا تھا۔ اس نے کافی بار لوہار کو نیچے گرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا اور پورا جسم پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ جبکہ لوہار کے جسم پر پسینے کا ایک قطرہ بھی نہ تھا۔ مستری کمزور پڑ رہا تھا جیسے ہی اس نے لوہار پر حملہ کیا لوہارنے اسے کمرسے پکڑ کر دبوچ لیا ۔ یہاں تک کہ اس کا سانس رکنے لگا ،وہ ایک بار پھر زمین پر پڑا تھا۔
مستری تیسری بار بھی ناکام ہوا ۔ لوہار نے اسے ہاتھوں پر اٹھا کر دو میٹر دور اچھا ل دیا۔ جوزی نے روتے ہوئے بھاگ کر مستری کی کھڑے ہونے میں مدد کی۔ یہ منظر دیکھ کر لوہارکی خوشی مایوسی میں بدل گئی۔ جیسے ہی مستری کھڑا ہوا اس نے تیزی سے مٹھی بھر مٹی لوہار کی آنکھ میں پھینک دی جس کی وجہ سے وہ کچھ دیر کے لیے مکمل اندھا ہو گیا ۔ مستری نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نیچے گر ا دیا اور اس پر ایسے مکے برسانے لگا جیسے ڈھول بجا رہا ہو۔ اسی دوران خئی ہائے ہجوم کو چیرتا ہوا وہاں آیا اور مستری کی کمر پر چڑھ کر پوری قوت سے اس کے گال نوچنے لگا۔ مستری چیختا ہوا پھر سے زمین پر گر گیا ۔ لوہار آنکھیں ملتا ہوا پھر اٹھ کھڑا ہوا اوراندھا دھند پتھر پھینکنا شروع کر دیے ۔ ایک پتھر جوزی کی دائیں آنکھ میں جا لگا اس کی چیخ سن کر لوہار رک گیا۔
چیخ سن کر خئی ہائے بھی پیچھے ہٹ گیا، اس نے مستری کے گالوں پر دو گہرے زخم ڈال دیے تھے ۔ اسی ہلچل میں وہ بھاگ کر پل کے نیچے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ اس کے دانت بج رہے تھے۔
باب ششم
اگلے دن کام والی جگہ پر افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ جوزی اور مستری دونوں غیر حاضر تھے۔ ہوا چلنے کی وجہ سے گرد اڑرہی تھی اور آسمان پیلا دکھائی دے رہا تھا۔ نو بجے کے بعد گرد نیچے بیٹھ گئی۔ بیٹے کی شادی سے واپسی پر جب ڈائریکٹر لیو کو جھگڑے کے بارے میں پتا لگا تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے بھٹی کے پاس کھڑے ہو کر لوہار کو دھمکایا کہ اس کی آنکھ نکال کر جوزی کو دے دے گا کیونکہ پتھر لگنے سے اس کی آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ لوہار نے اپنے دفاع میں کچھ نہ کہا ۔اس کے سیاہ چہرے پر مہاسے سرخ ہو چکے تھے۔ وہ لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اور شراب کے بڑے بڑے گھونٹ بھر رہا تھا۔
باقی تمام مستری سخت محنت سے کام کر رہے تھے ۔ بھٹی کے پاس خراب چھینیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا لیکن لوہار اپنے بستر پر پڑا شراب پیے جا رہا تھا۔
ڈائریکٹر لیونے اسے لات رسید کی’’ ڈرامے بازی بند کرو،آنکھیں بند کرنے سے معاملات سیدھے نہیں ہوں گے۔ جاؤاور کام کرو ،شاید اس طرح تمھارے گناہ دھل جائیں۔ ‘‘
لوہار نے اپنی بوتل پل پر دے ماری ۔ اسکی کرچیاں ہر طرف بکھر گئیں اور شراب کے کچھ قطرے ڈائریکٹر لیو پر جا گرے ۔ لوہار اپنی جگہ سے اچھلا اور بھاگنا شروع کر دیا ۔ وہ چلا کر کہہ رہا تھا ۔ ’’میں کسی سے نہیں ڈرتا ،نہ مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے نہ موت سے ۔‘‘ اب وہ سیلابی دروازے پر چڑھ گیا ۔’’مجھے کسی انسان کا ڈر نہیں۔ ‘‘ اس کا سر پتھر کی دیوار سے ٹکرایا اور وہ چکرانے لگا۔ ’’دھیان سے ‘‘ نیچے سے لوگوں نے پکارا۔ ’’تم گر جاؤگے ۔ ‘‘
’’میں اور گر جاؤں گا؟‘‘ وہ زور سے ہنسا اور دروازے پر لاپرواہی سے چلنے لگا۔ خوف کے مارے لوگوں کا سانس رک گیا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا چل رہا تھااور گا رہا تھا۔
بیجنگ سے لے کر نان جنگ
کوئی بھی نہیں ایسا
جس کی پتلون سے ٹارچ لٹکی ہو
کچھ مستری اسے اتارنے کے لیے اوپر چڑھ گئے۔ ’’مجھ سے پنگا نہ لو ،میں کرتب دکھانے میں مہارت رکھتا ہوں۔ ‘‘ لوہار مزاحمت کرتے ہوئے بولا۔ جب مستری اسے نیچے لائے تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا ۔و ہ اپنے بستر پر بکھر گیا اور اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔ وہ ایک بار پھر چلایا ۔ ’’ماں ! میں اب اور نہیں سہہ سکتا ،خئی ہائے! جاؤاور اپنے استاد کے لیے گاجر لاؤ۔ ‘‘ خئی ہائے نے کوٹ پہنا ہوا تھا جواس کے گھٹنوں تک آ رہا تھا۔ سب اسے حیرانی سے دیکھ رہے تھے ۔ یہ بڑھیا کپڑے سے بنا تھا اور پانچ سال تک چل سکتا تھا۔ اس کا نیکر ایسے دکھائی دے رہا تھا جیسے کوٹ کا کنارا ہو۔ اس نے بڑے سائز کے نئے جوگرز بھی پہنے ہوئے تھے۔
’’تم نے سنا نہیں کہ تمھارے استاد نے کیا حکم دیا ہے خئی ہائے؟‘‘ایک بوڑھے مستری نے خئی ہائے کو یاد دلانے والے انداز میں کہا۔
خئی ہائے بندکو پار کر کے پٹ سن کے کھیت میں داخل ہو گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ کھیت میں ایک راستہ بنا ہوا ہے اور کچھ پودے گرے ہوئے ہیں۔ کچھ آگے چل کر اس نے دیکھا کہ کافی سارے پودوں کو گرا کر لیٹنے کے لیے جگہ بنائی گئی۔ وہ جیسے ہی سبزی کے کھیت کے قریب پہنچا تو پیٹ کے بل لیٹ گیااور آس پاس دیکھنے لگاکہ کہیں وہ بوڑھا نگرانی تو نہیں کر رہا۔ اس کے بعد وہ چلتا ہو ا گاجر کے کھیت میں پہنچا اور گاجر اکھاڑنے لگا۔ وہ ایک بار پھر سنہری گاجر ڈھونڈ رہا تھا لیکن اسے بار بار مایوسی ہو رہی تھی۔ اسی دوران اس نے کافی ساری گاجریں اکھاڑ کر پھینک دیں۔
نگرانی پر مامور بوڑھا گوبھی کے کھیت میں کیڑوںکو مار رہا تھا۔ اس کی آنکھیںرنگ کے لحاظ سے گدلے پانی کا تالاب محسوس ہوتی تھیں۔ جیسے ہی دوپہر ہوئی وہ کمانڈر کو جگانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا جو قریب ہی ایک چھپرکے نیچے سو رہا تھا۔ کمانڈر گزشتہ رات جاگتا رہا تھا ،اسی لیے وہ گاؤں کے شور شرابے سے دور یہاں آ کر سو گیاتھا۔ جیسے ہی بوڑھے نے کمر سیدھی کی اس کی ہڈیا ں چٹخنے لگیں۔ اس کی نظر گاجر کے کھیت میں ایک ڈھیر پر پڑی۔ روشنی میں ایسے لگتا تھا جیسے کوئی شعلہ جل رہا ہو۔ وہ اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے ڈھانپ کر وہاں جا پہنچا۔ یہ ڈھیر چھوٹی چھوٹی گاجروں کا تھا۔ ’’تو یہ تمھاری کارستانی ہے ۔‘‘ وہ بچے کو دیکھ کر چلایا ۔ خئی ہائے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ایک گاجر ہاتھ میں اٹھائے دھوپ میں اس کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس کی بڑی اور چمکدار آنکھوں نے بوڑھے کو خوفزدہ کر دیا لیکن پھر بھی اس نے اسے پکڑ لیا اور گھیسٹتا ہوا چھپر تک لے گیا اور کمانڈر کو جگایا۔
’’ایک گڑ بڑ ہے سر ۔ اس ریچھ کے بچے نے گاجر کا آدھا کھیت اکھاڑ پھینکا ہے ۔ ‘‘
’’کمانڈرنے خود جا کر کھیت کا معائنہ کیا اور جب وہ واپس آیا تو اس کی آنکھ میں خون اترا ہوا تھا۔ اس نے خئی ہائے کو زور دار لات رسید کی ۔ خئی ہائے آہستہ سے اٹھنے لگا لیکن کمانڈر نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔
’’تمھارا تعلق کس گاؤں سے ہے بیوقوف ؟‘‘ خئی ہائے کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ ’’تم کس کے کہنے پر فصل تباہ کر رہے ہو؟‘‘ خئی ہائے رونے والا تھا ۔
’’تمھارا نام کیا ہے ؟تمھارے باپ کا کیا نام ہے ؟‘‘
اس کی آنکھوںسے آنسو بہنے لگے۔
’’یہ بد بخت گونگا تو نہیں؟‘‘
اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے ۔
’’اسے جانے دو کمانڈر ۔ ‘‘
’’جانے دوں ؟‘‘وہ مسکرایا۔ ’’ٹھیک ہے ۔ ‘‘
کمانڈر نے اس کا نیا کوٹ اور نئے جوتے چھین لیے یہاں تک کہ اس کا نیکر بھی۔ اس نے یہ تمام چیزیں ایک کونے میں پھینک دیں۔
’’گھر جاؤاور اپنے باپ سے کہو کہ آکر کپڑے واپس لے جائے۔ اب دفع ہو جاؤ۔ ‘‘
خئی ہائے واپس جانے کے لیے مڑا پہلے تو اس نے شرم کے مارے ہاتھوں سے اپنی ستر پوشی کی کوشش کی لیکن کچھ قدم چل کر اپنے ہاتھ ہٹالیے ،اس کے ننگے اور میلے کچیلے بدن کو دیکھ کربوڑھے نے آہ بھری۔
خئی ہائے پٹ سن کے کھیت میں ایسے داخل ہوا جیسے مچھلی سمندرمیں غوطہ لگاتی ہے ۔ موسم خزاں کے سورج کے تلے پٹ سن کے پتے میں سر سراہٹ کی آواز آ رہی تھی۔
’’خئی ہائے!‘‘
’’خئی ہائے !‘‘
:::
Authors
-
نوبیل انعام برائے ادب۔۲۰۱۲ء سے چینی النسل ناول نگار اور افسانہ نگار مَویان کو نوازا گیا کہ’’ وہ اپنی تحریروں میں تخیّلاتی حقائق نگاری کا ادغام فوک داستانوں، تاریخ اور عصرِ حاضر سے کرتے ہیں۔‘‘ سویڈش اکیڈمی کے سربراہ پیٹر این گلنڈ کے مطابق: ’’اُن کا اسلوب اِس قدر لاثانی ہے کہ آدھا صفحہ پڑھتے ہی آپ کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ مَویان ہیں۔‘‘ گیارہ اَکتوبر ۲۰۱۲ء کو سویڈش اکیڈمی کے اعلان کے بعد مَویان یہ انعام جیتنے والے دُنیا کے یک صد نویں اور چین کے دُوسرے ادیب ہیں لیکن چین ہی میں قیام پذیر پہلے ادیب ہیں۔ مَویان سے قبل ۲۰۰۰ء میں ایک چینی ادیب گاؤ چنگ جیان کو یہ انعام مل چکا ہے لیکن وہ فرانس کے شہری تھے۔ مَو یان کا اصل نام گُوآن مَوئے ہے۔ گُوآن اُن کا خاندانی نام ہے جب کہ گھر میں اُنھیں صرف مَو کہہ کر پُکارا جاتا ہے لیکن دُنیا بھر میں اُن کی شہرت اُن کے قلمی نام مَویان سے ہے۔ مَویان کا چینی زبان میں مطلب ہے: ’’چُپ یا خاموش رہو۔‘‘ نیشنل انڈوومنٹ فار ہیومینیٹیز کے چیئرمین جِم لِیچ کو انٹرویو دیتے ہوے گُوان مَوئے نے بتایا کہ یہ نام اُن کے ذہن میں اپنے ماں باپ کی تنبیہہ سے آیا تھا کہ گھر سے باہر اپنے دِل کی بات زبان پر مت لاؤ کیوں کہ اُن کے لڑکپن میں ۱۹۵۰ء سے چین میں سیاسی انقلاب کی صُورتِ حال تھی۔ اُن کے قلمی نام مَویان کا اُن کی تحریروں سے گہرا تعلّق ہے جو چین کی سیاسی اور جنسی زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔ گُوان مَوئے ۱۷ - فروری ۱۹۵۵ء کو مَویان شندونگ صوبے کے گاؤمی ضلع کے دیہی علاقے ڈالان (جسے اُنھوں نے اپنے ناولوں میں گاؤمی ضلع کے ’’شمال مشرقی قصبہ‘‘ کا نام دیا ہے) میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوے۔ ثقافتی انقلاب کے دوران وہ سکول چھوڑ کر پٹرولیم مصنوعات کی ایک فیکٹری میں کام کرنے لگے۔ انقلاب کے بعد وہ پیپلز لِبریشن آرمی میں بھرتی ہوے اور فوج کی ملازمت کے دوران ہی اُنھوں نے لکھنا شروع کر دیا۔ تین سال بعد اُنھیں پیپلز لِبریشن آرمی کی اکادمی برائے فن و ادب کے شعبۂِ ادب میں استاد کی نشست مل گئی جہاں سے ۱۹۸۴ء میں اُنھوں نے اپنا ناولچہ ناول ’’ایک شفاف مولی‘‘ شائع کیا۔ اُنھوں نے ادب میں ماسٹر ڈگری بیجنگ نارمل یونیورسٹی سے حاصل کی۔ مَویان نے بطور مصنف اپنے کیریئر کا آغاز چینی زبان میں اصلاح اور ایک نئے عہد کا آغاز کرنے والی ہزاروں کہانیاں اور ناول لکھ کر کیا۔ اُن کا پہلا ناول ’’موسمِ بہار کی رات کو برف باری‘‘ ۱۹۸۱ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اُن کے لاتعداد ناولوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اُن کے ناول ’’سرخ جوار‘‘ پر اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی۔ توانائی سے بھرپُور مَویان نے اپنا ناول ’’حیات و موت مجھے نوچ رہی ہیں‘‘ صرف ۴۲ دِنوں میں ہاتھ سے لکھ کر مکمل کیا ۔ وہ اپنے ناولوں کو ٹائپ کرنے کی بجائے ہاتھ ہی سے لکھنے پر ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ اُن کا خیال ہے کہ ٹائپ ’’ ذخیرۂِ الفاظ کو محدود کردیتی ہے۔ ویان بین الاقوامی ادب کے تراجم کا مطالعہ کرتے ہیں (کیوں کہ مَویان کی تصانیف کو انگریزی میں ترجمہ کرنے والے ہاورڈ گولڈ بلیٹ کے بقول اُنھیں چینی کے علاوہ کوئی اَور زبان نہیں آتی)اور دُنیا بھر کے ادب کے مطالعے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ اُنھوں نے فرینکفرٹ بُک فیئر ۲۰۰۹ء کی افتتاحی تقریر میں گوئٹے کے نظریے کو یہ کہتے ہوے بیان کیا: ’’ادب ملکوں اور قوموں کے درمیان موجود سرحدوں پر غلبہ پا سکتا ہے۔‘‘مَویان کی تحریریں رزمیہ تاریخی اُسلُوب رکھتی ہیں جس میں تخیّلاتی حقائق نگاری اورمزاح کی پُرکاری کی آمیزش موجود ہے۔ اُنھوں نے انسانی حرص و طمع اور بدعنوانی کو اپنا مستقل موضوع بنایا ہے۔ مَویان کو ملنے والے انعامات و اعزازت کی طویل فہرست ہے ۔ جن میں کِری یاما۔۲۰۰۵ء، ڈاکٹر آف لیٹرز۔۲۰۰۵ء، فیوکوکا ایشین کلچر پرائز۔XVII، نیومین پرائز برائے چینی ادب۔۲۰۰۹، آنریری فیلو ماڈرن لینگوایج ایسوسی ایشن۔۲۰۱۰ء، ماؤ ڈن لٹریچر پرائز۔۲۰۱۱ء اور نوبیل انعام برائے ادب۔۲۰۱۲ء شامل ہیں۔
View all posts -
محمد ریحان، جو ریحان اسلام کو اپنے قلمی نام کے طور پر استعمال کرتے ہیں، کا تعلق ملتان، پاکستان سے ہے۔ انگریزی ادب میں ایم فل کرنے کے بعد، ریحان نے چین میں دو سال تک چینی زبان، ثقافت اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔ واپسی کے بعد اُنھوں نے کچھ عرصہ چینی ترجمان کے طور پر کام کیا۔ اس وقت وہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج، دنیا پور، پنجاب میں انگریزی کے لیکچرار ہیں ۔ اُنھوں نے چینی نوبل انعام یافتہ مو یان کی کہانیوں کے تراجم کا بعنوان ترجمہ ’’مو یان کی کہانیاں ‘‘اور جاپانی ناول نگار ہاروکی موراکامی کے ناول ’’ ساؤتھ آف دی بارڈر، ویسٹ آف دی سن‘‘ کا اردو میں ترجمہ ’’سرحد سے پار، سورج سے پرے‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ ریحان اسلام نے مختلف انگریزی افسانوں کے بھی اردو میں تراجم کیے ہیں جو موقر اردو ادبی جرائد کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔ وہ اردو سے انگریزی میں بھی افسانوں کے تراجم کرتے ہیں جو مختلف قومی و بین الاقوامی جرائد میں اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں۔
View all posts
تراجم عالمی ادب
1 thought on “گاجر (دوسراحصہ)”
Nice 👍