فسوں کاریاں
کنڑ کہانی
دل کا فیصلہ
بانو مشتاق
Banu Mushtaq
انگریزی ترجمہ: دیپا بھاستھی
اردو ترجمہ: محمد عامر حسینی

یوسف روز صبح سات بجے گھر سے ناشتہ کیے بغیر نکل جاتا اور دوپہر کے کھانے کے لیے ہی واپس آتا۔ شام کا کھانا وہ اپنی ماں کے ہاں کھاتا، جس کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ یوسف کے گھر کے سامنے ایک بڑا کمرہ تھا۔ اس نے گھر کے باقی حصے کا دروازہ بند کر دیا، ایک نیا دروازہ سڑک کی طرف سے کھلوایا، کچھ جگہ باتھ روم کے لیے مخصوص کی، کچھ جگہ کچن کے لیے، اور اسے اپنا گھر قرار دے دیا۔ گھر کا بایاں حصہ اُس کی بیوی اخیلا کا تھا اور دایاں حصہ اُس کی ماں محبوب بی کا۔ محبوب بی نے، جو کم عمری میں بیوہ ہو گئی تھیں، دوبارہ شادی کی بات پر آگ اُگل دی تھی، اور اپنے اکلوتے بیٹے یوسف کو کمر پر اٹھا کر بہت محبت سے پالا تھا۔ کوئی جدوجہد ایسی نہ تھی جو اس نے نہ کی ہو، کوئی کام ایسا نہ تھا جو اس نے نہ کیا ہو۔
یوسف کو بچپن سے ہی پھل بیچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ شروع میں وہ اپنے صحن میں اُگے ہوئے پپیتے توڑتا، انہیں نہایت نفاست سے کاٹتا، ہر سلائس اتنا باریک ہوتا جیسے کاغذ، اور انہیں بیچتا۔ نمک اور مرچ چھڑکے ہوئے کھیرے کے پتلے پتلے قتلے گاہکوں کے ہاتھوں میں جھومتے۔ ہر ٹکڑا منہ میں جا کر گھل جاتا۔ ایسا پھل بیچنے کا کاروبار روز بروز ترقی کرتا ہے۔ اس نے ایک اچھا خاصا پھلوں کا اسٹال قائم کر لیا۔ پہلے جو شخص ایک ایک دانے چاول کو ترستا تھا، اب وہ ایک اچھی حیثیت میں آ چکا تھا۔ اسے زیادہ فکروں کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ مگر…
اس کی بیوی اس کی واحد پریشانی تھی۔ اخیلا کو اس بات سے سخت چڑ تھی کہ وہ اپنی ماں کے سامنے ہر بار جیسے چھوٹا بچھڑا بن جاتا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے دوپہر کے کھانے سے شوہر خوش نہیں ہوتا۔ اگر وہ مچھلی یا گوشت کا سالن بناتی، تو وہ کبھی یہ نہ پوچھتا۔ ’’کیا اماں کو بھی سالن دیا؟‘‘ اگر ایسا کہتا تو وہ اسے بخشتی نہیں۔ اس کے بجائے وہ صرف سالن چاول میں ملا کر کھا لیتا اور گوشت یا مچھلی کے ٹکڑوں کو پلیٹ کے کنارے کی طرف دھکیل دیتا۔ وہ رات کا کھانا اپنی ماں کے سامنے بیٹھ کر خوب مزے سے کھاتا۔ بعض دن تو اتنا کھاتا کہ پیٹ اتنا بھر جاتا کہ وہیں لیٹ جانا پڑتا۔
اسی لیے اس کی ساس محبوب بی، اخیلا کی زندگی کی سب سے بڑی دشمن تھی۔ جب وہ اور یوسف شادی کے بندھن میں بندھے، تو سب ایک ساتھ ہی رہتے تھے۔ یوسف نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی ماں اُس سے الگ، کسی اور حصے میں رہے گی۔ مگر اخیلا کا غصہ دن بہ دن بڑھتا گیا۔ اس کے چار پانچ بھائی تھے، سب آس پاس ہی رہتے تھے۔ ایک دن یوسف اور اخیلا کی لڑائی اتنی شدید ہو گئی کہ اُن میں سے ایک چھوٹے بھائی نے بیچ میں آ کر یوسف کو خوب مارا۔ اس واقعے کے بعد یوسف اس جاہل عورت اخیلا سے زیادہ، جس نے اسے ذلیل کروایا، اپنی ماں سے اور بھی قریب ہو گیا، جو اسے گلے سے لگا کر روتی رہی، اپنے آنچل سے پنکھا جھلتی رہی۔
اگلے ہی دن، جب اس نے دیکھا کہ اس کی ماں ٹمکور میں اپنے بھائی کے گھر جانے کے لیے تیار ہو رہی ہے، تو وہ انگارہ بن گیا۔ اس نے قسم کھائی۔ ’’اگر تم اس گھر سے نکلیں، تو میں اخیلا کو چھوڑ دوں گا۔‘‘ پوری جماعت، اخیلا کے بھائی، اور کچھ پڑوسی صلح کے لیے آ گئے۔ انہوں نے طے کیا کہ گھر کے سامنے والے کمرے کے دروازے کو اندر سے بند کر دیا جائے گا، ایک نیا دروازہ سامنے سے لگایا جائے گا، اور محبوب بی وہیں رہے گی۔
یوسف نے بہت محنت کی۔ اگر وہ اخیلا کے لیے ایک چھوٹا ٹی وی خریدتا، تو ایسا ہی ایک ٹی وی اپنی ماں کے لیے بھی لاتا۔ اگر وہ اخیلا کے لیے مٹی کا چولہا لاتا، تو ایسا ہی چولہا ماں کے لیے بھی لاتا؛ اگر ایک گھر میں تربوز آتا، تو دوسرے گھر میں بھی ویسا ہی تربوز پہنچتا۔ اگرچہ اخیلا اپنے گھر کی مالکن تھی، پھر بھی وہ جَل بھُن جاتی۔ ان دونوں خواتین کے درمیان دشمنی سے فائدہ اخیلا کے چاروں بیٹوں — راجہ، منا، بابو، اور چھوٹو — نے خوب اٹھایا۔ اگر محبوب بی بھی اُسی طرح اخیلا کا مقابلہ کرتی تو شاید یوسف اتنا اپنی ماں کا طرف دار نہ بنتا۔ لیکن یہ حقیقت کہ وہ خاموش رہتی تھی، چاہے اخیلا جتنا بھی چیختی، یوسف کے دل کو چبھتی، اور وہ قدرتی طور پر ماں کی طرف جھک جاتا۔
ایک دن، دس سالہ منا نہ صرف دادی کے پاس بیٹھ کر چائے میں بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھا چکا تھا، بلکہ گھر جا کر ماں کو تفصیل سے بتایا کہ بسکٹ کتنے خستہ تھے۔ وہ بسکٹ نہ تو یوسف نے اپنی بیوی کے لیے لائے تھے اور نہ ماں کے لیے۔ محبوب بی کا بھانجا آیا تھا اور ایک پیکٹ دے گیا تھا۔ اخیلا نے فطری طور پر یوسف کو سنایا اور اس کی ماں کو گالیاں دیں۔ دروازے تک جا کر ایسی آواز میں اسے گھر توڑنے والی کہا کہ محبوب بی بھی سن سکے۔ جب اس کا کوئی اثر نہ ہوا، تو اس نے سینہ پیٹنا شروع کر دیا۔ ’’تم میرے شوہر کو چھین کر میرے دل کو آگ لگا رہی ہو، ایک سوتن کی طرح!‘‘
اس کے چاروں بچے اسے گھیر کر کھڑے ہو گئے، خوفزدہ۔ ان کو دیکھ کر اس کی سسکیاں اور بڑھ گئیں۔ وہ اس بات کو برداشت نہ کر سکی کہ اس کا شوہر اس بڑھیا سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے، ان موتی جیسے بچوں سے بھی زیادہ۔ اسے یقین تھا کہ وہ انھیں پیروں کی خاک سمجھتا ہے۔ رونے دھونے، چیخنے چلانے، تماشا کرنے کے درمیان، اسے یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ یوسف پیچھے کھڑا ہے۔ کبھی کبھار یوسف کا دماغ گھوم جاتا، اور وہ سوچتا: ’’اسے مار ڈالوں!‘‘ یہ وہی لمحہ تھا۔ مگر ماں سے ملے تھوڑے بہت تحمل کی بدولت، وہ خاموش رہا۔ کرسی پر بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کی سونے کی انگوٹھیوں کو تکنے لگا۔ اُسے انگوٹھیاں پہننا بہت پسند تھا؛ اس کے مسلم دوست اس کے کپڑوں اور زیورات پر چھیڑتے رہتے۔ اسلامی روایت کے مطابق، مردوں کو ریشم اور سونا ممنوع ہے۔ مگر یوسف روز ایک قپالی انگوٹھی اور ایک سبز پتھر والی بڑی انگوٹھی پہنتا۔
وہ کرسی پر بیٹھا گہری سوچ میں گم، بائیں ہاتھ کی انگوٹھی کو گھماتا رہا۔ اگرچہ اخیلا نے اُسے دیکھتے ہی اپنی گالیوں کی لغت بند کر دی، لیکن وہ زیرِ لب بڑبڑاتی رہی: ’’میری سوتن… میری سوتن…‘‘ یوسف کے صبر کا بندھ ٹوٹ گیا۔ وہ اچانک کھڑا ہوا اور پوچھا۔ ’’کون ہے تیری سوتن؟‘‘ وہ براہِ راست جواب دینے پر آمادہ نہ تھی، ضد سے بولی۔ ’’جس نے میرا گھر برباد کیا، جس نے میرے شوہر کو مجھ سے چھین لیا، جس نے مجھے باسی گدھ کی طرح نوچ ڈالا… اُسے ہی سوتن کہوں گی۔‘‘ یوسف کو لگا اُس سے بات کرنا بےکار ہے، اور وہ دروازے کی طرف بڑھا۔ لیکن جیسے ہی وہ اُس کی چیخوں کو نظرانداز کرتا ہوا ماں کے گھر کی طرف بڑھا، اخیلا کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔ وہ بھاگ کر اس کے پیچھے گئی، اُس کی قمیص کے پچھلے حصے کو کھینچا اور چیخی۔ ’’تمھیں اُسے رکھنا ہی تھا، تو مجھ سے شادی کیوں کی؟‘‘ یوسف کا غصہ مکمل طور پر قابو سے باہر ہو گیا۔ ’’چپ کر جا! اگر دوبارہ ایسی گندگی بکی تو سارے دانت توڑ دوں گا!‘‘ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ اخیلا نے آنکھیں پھیلا کر کہا۔ ’’مارو، مارو! اُس رنڈی نے تمھیں ایسا ہی کرنے کو کہا ہوگا!‘‘ قابو کھو کر یوسف نے اسے دو تین تھپڑ مارے اور باہر نکل گیا۔ اُس رات وہ واپس گھر نہ آیا، ماں کے ہاں کھانا کھایا اور وہیں سو گیا۔ صبح جب اس نے اپنے بڑے بیٹے راجہ کو پچاس روپے دے کر کہا۔ ’’یہ اخیلا کے خرچے کے لیے ہیں۔‘‘ اور کام پر روانہ ہو گیا۔ دوپہر کو اخیلا نے اُس کا انتظار کیا، مگر وہ نہ آیا۔ اُس کا دوسرا بیٹا منا بہت چالاک تھا۔ اُس نے منا کو اسکول سے روک لیا، اُسے اپنی ساس کے گھر جاسوسی پر لگا دیا۔ منا دن بھر رپورٹ دیتا رہا، اور وہ بےقراری سے اُس کی واپسی کا انتظار کرتی رہی۔ یوسف مسلسل ماں کے گھر میں سوتا، صبح منّا کو پیسے دے کر بھیجتا اور دن بھر دکان میں کام کرتا۔ ایک ہفتہ گزر گیا، اور اخیلا نے منا کو اسکول بھیجنے سے صاف انکار کر دیا۔ مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ آخرکار وہی جھکنے پر مجبور ہوئی۔ ایک دن، وہ بابو کو ساتھ لے کر یوسف کے پھلوں کے دکان پر گئی۔ یوسف کا غصہ تب تک تھوڑا ٹھنڈا ہو چکا تھا، مگر اُسے یہ ڈر بھی تھا کہ شاید اخیلا بھائیوں کے ساتھ آئی ہو۔ مگر جیسے ہی اُس نے دیکھا کہ اخیلا ’’سررا بررا‘‘ کر کے زور زور سے سونگھتی ہوئی آوازیں نکال رہی ہے، اُسے سمجھ میں آ گیا کہ اس بار حربہ کچھ اور ہے۔ بازار میں دکاندار اور خریدار دیکھ رہے تھے، اس لیے اُس نے سمجھداری سے کام لیا، بیٹے کو ایک پھل کا پیکٹ دیا اور کہا۔ ’’میں دوپہر کو آ رہا ہوں، تم گھر چلو۔‘‘ وہ واپس گیا۔ اخیلا کے گھر میں دوپہر کا کھانا کھایا۔ اُس نے خاص طور پر یوسف کے لیے مچھلی تل کر رکھی تھی۔ یوسف نے گوشت کو کنارے نہیں کیا، دو تین بوٹیاں کھائیں اور ڈکار لی۔ شوہر بیوی کے بیچ ایک مدھم سی مسکراہٹ محبت کے آثار لیے موجود تھی۔ دونوں ایسے پیش آئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لیکن شام کو جب وہ ماں کے ہاں کھانے گیا، تو کاکا ہوٹل سے دو فرائی کی ہوئی مچھلیاں خاص طور پر پیک کروا کر لے گیا۔ ماں کے سامنے رکھ کر بولا۔ ’’اماں، تم سے بنے گا نہیں اس لیے تیار شدہ لے آیا۔ اخیلا نے دوپہر کو مچھلی بنائی تھی، بہت مزے کی، لیکن میں کھا نہ سکا — ایسا لگا جیسے گلے میں اٹک گئی ہو — اگر وہ تمھیں بھی بھیج دیتی تو شاید ایسا نہ ہوتا!‘‘ محبوب بی نے کہا۔ ’’رہنے دو، اصل بات یہ ہے کہ تم دونوں سکون سے رہو۔ مچھلی، گوشت، چکن — یہ سب کیا چیز ہے؟ ہاتھ، منھ — یہ سب بھی تو گوشت ہے نا؟ اتنی دل پر کیوں لیتے ہو؟ اگر اُسے نرمی نہیں آتی، تو تم ہی برداشت کرو۔ ورنہ سڑک پر تماشا بن جاتا ہے۔‘‘ وہ نوالہ کھاتے کھاتے نصیحت بھی دے رہی تھی۔ منا وہیں بیٹھا تھا، کتاب کے صفحات پلٹتے ہوئے، مگر کان باتوں پر لگے ہوئے تھے۔ یوسف نے اُسے محسوس نہ کیا۔ اگر دادی اُسے مچھلی کا ایک ٹکڑا دے دیتی، تو شاید وہ اپنا وفاداری بدل لیتا۔ لیکن جب ماں اور بیٹے نے اسے مکمل نظرانداز کیا، تو وہ چپکے سے باہر نکل گیا اور ماں کے پاس آ گیا۔ اخیلا نے چٹائی بچھا رکھی تھی، پان چباتے ہوئے شوہر کے انتظار میں تھی۔ اُس نے منا کو گود میں لٹایا، اُس کے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور پیار سے پوچھا۔ ’’کیا ہو رہا ہے وہاں؟‘‘ منا اب سب کچھ سمجھ چکا تھا۔ اُس نے صرف مچھلی والا واقعہ ہی نہیں سنایا، بلکہ مزیدنمک مرچ لگا کر کہا۔ ’’پھر اُنھوں نے کہا، اور پھر انھوں نے کہا، تم میں سمجھ نہیں ہے، تم پاگل ہو!‘‘ اخیلا، جو اپنے شوہر سے صلح کی خواہاں تھی، یہ سن کر ہل گئی۔ اُس نے دروازہ کھینچ کر کھولا، پان کی پچکاری نالی میں پھینکی، اور زور سے چیخ کر اپنی دشمن کو باہر بلایا — جنگ کا اعلان ہو چکا تھا۔ اب وہ سمجھ نہ پائی کہ رکاوٹ ساس ہے یا شوہر کی محبت سے انکار۔ اُس نے دونوں کو بیک وقت کوسا۔ یوسف حیرت زدہ باہر نکلا۔ آہستہ آہستہ پڑوسی بھی باہر نکلنے لگے۔ اخیلا بے وقوفوں کی طرح تماشا بنا رہی تھی۔ اُس کے چیخنے میں مچھلی، فرائی مصالحہ، کاکا ہوٹل، پاگل عورت، بد دماغ جیسے الفاظ شامل تھے، اور منا آنکھیں بند کیے معصوم بنا ہوا تھا۔ یوسف نے فوراً ساری بات سمجھ لی۔ اُس نے اخیلا کو کھینچ کر اندر کیا اور دروازہ بند کر دیا۔ وہ اس ہنگامے سے بیزار ہو چکا تھا۔ اُس نے اخیلا کو بستر پر بٹھایا، خود بھی پاس بیٹھا، اور اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ’’دیکھو اخیلا، کسی نے تمھارے بارے میں کچھ نہیں کہا۔‘‘ وہ اُسے پاگل کہنے ہی والا تھا، مگر زبان کاٹ لی، اور نرمی سے بولا۔ ’’کیا وہ میری ماں نہیں ہے؟ دیکھو، تمہارے چار بیٹے ہیں۔ اماں کے پاس دیکھنے والا کوئی نہیں۔ اگر کوئی اور بیٹا ہوتا، تو میں توجہ نہ دیتا۔ تمہارے بچے بھی پوچھتے ہیں نا کہ کھایا یا نہیں، طبیعت کیسی ہے — تو پھر ماں کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ تم ہی بتاؤ، کیا چاہیے تمھیں؟ میں تمھیں دکھ دینا نہیں چاہتا؛ اگر فقیر بھی ہو گیا، تمھاری خواہش پوری کروں گا۔ بس اماں کو کچھ مت کہو۔‘‘ اُس نے کئی طریقوں سے تسلی دی۔ اخیلا خاموش رہی، مگر آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ’’مجھے کچھ نہیں چاہیے، رے۔ کیا میں نے زیور مانگا، نئے کپڑے مانگے، بڑا بستر مانگا؟ اگر تمھاری محبت ملے تو کافی ہے۔ مگر وہی تو نہیں ملتی!‘‘ اُس نے روتے ہوئے کہا۔ یوسف نے اُسے چپ کروانے کی کوشش کی۔ اپنی انگلیوں سے انگوٹھیاں نکالیں، اور اُسے پہنا دیں، امید تھی وہ خوش ہو جائے گی۔ آخرکار صلح ہو گئی۔
صبح ہو چکی تھی۔ اخیلا ابھی سو رہی تھی۔ جیسے ہی یوسف بیدار ہوا، اُس نے احتیاط سے اس کے ہاتھوں سے وہی انگوٹھیاں اتاریں، جو رات اُس نے خود پہنائی تھیں، اور دوبارہ اپنی انگلیوں میں ڈال لیں، پھر دکان کے لیے روانہ ہو گیا۔ اخیلا نے زیادہ دھیان نہ دیا، منا کو اسکول بھیجا، اور گھر کے کاموں میں مشغول ہو گئی۔ تاہم، اس کی ایک آنکھ مستقل محبوب بی کے گھر کی طرف لگی رہتی، ذرا سی آواز پر کان کھڑے ہو جاتے، اور مصالحے کی معمولی خوشبو پر ناک پھڑکنے لگتی۔ وہ شوہر کے واپس آنے کا بےچینی سے انتظار کرتی رہی۔
تقریباً گیارہ بجے، محبوب بی غسل کر کے باہر نکلی، صاف ستھری ململ کی ساڑھی پہنے، پاؤں میں چپلیں، اور ہاتھ میں ایک تھیلی۔ اخیلا کو تجسس ہوا — یہ کہاں جا رہی ہیں؟ جیسے ہی اُس نے کھانا بنا کر دروازے پر آ کر شوہر کا انتظار کیا، اُس نے ماں اور بیٹے کو ایک رکشے سے اترتے ہوئے دیکھا۔ غصے کی ایک لہر اُس کے وجود میں دوڑ گئی۔ یوسف نے ایک تربوز نکالا اور محبوب بی کے گھر لے گیا، پھر ایسا ہی دوسرا تربوز اخیلا کے لیے لایا۔ جب اُس نے تربوز اخیلا کو دیا، تو اُس نے اسے بے دلی سے زمین پر گرنے دیا۔ اس سے پہلے کہ یوسف کچھ سمجھ پاتا، اُس نے پوری طاقت سے تربوز کو ٹھوکر ماری، جیسے فٹ بال ہو۔ تربوز دیوار سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، اور اس کا گودا ہر طرف بکھر گیا۔ یوسف کی نسیں تن گئیں۔ اگرچہ اُس کی مٹھی بند تھی، وہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کی خاموشی نے اخیلا کے غصے کو اور بھڑکا دیا۔ وہ یہ فیصلہ نہ کر سکی کہ چیخے، لڑے یا روئے۔ اس نے دیوار سے سر ٹکرانا شروع کر دیا۔ یوسف اب بھی بےحس بیٹھا رہا، جیسے یہ سب کسی فلم کا منظر ہو۔ یہ واضح نہ تھا کہ وہ واقعی سنبھل نہیں رہا یا جان بوجھ کر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اخیلا فرش پر گر گئی اور چیخنے لگی۔ اُس کی آوازیں گلی میں گونجنے لگیں۔ کچھ دیر رونے کے بعد اُس نے سینہ پیٹا اور شوہر اور ساس کو گالیاں دینے لگی۔ اُس نے ایک لمبی قطار سوالات کی بارش کر دی۔ ’’کبھی مجھے کہیں لے کر گئے ہو؟ سارا دن اس بڑھیا کو لیے گھومتے ہو! شرم نہیں آتی۔‘‘ اگرچہ وہ منجمد نظر آ رہا تھا، مگر جیسے ہی اس کی ماں کا ذکر آیا، وہ چونکا۔ ’’دیکھو، یہ سب تم کر رہی ہو، انجام اچھا نہیں ہو گا۔ تم نے پھل کو لات ماری — مجھے مارتیں، چلو کوئی بات نہیں، مگر اماں کے بارے میں کچھ مت بولو۔ تمھیں معلوم ہے نا، اُس کے گھٹنوں میں درد ہے، رات بھر سوئی نہیں۔ اسی لیے میں نے کہا کہ وہ ہسپتال چلی جائے۔ صبح ہسپتال گئی، پھر میری دکان پر آئی۔ اُس حالت میں کیا اُسے پیدل لاتا؟ اسی لیے رکشہ لیا۔ کیا یہ غلط تھا؟ اگر تم چاہو تو میں لوگوں کو جمع کر کے پوچھتا ہوں، میں نے کیا غلطی کی؟ یہ سب بند کرو!‘‘ اُس نے سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر اخیلا کا دل جل رہا تھا۔ شوہر کی محبت کا بڑا حصہ اگر اُس کی ماں کے لیے ہے، تو بھی وہ اُسے بانٹنے پر آمادہ نہ تھی۔ اُسے لگا کہ یوسف کا دلاسہ بھی دھوکہ ہے۔ اگر وہ تھوڑا سا غور کرتی تو یہ بات یہیں ختم ہو جاتی، لیکن جو شعلہ اُس نے نظر انداز کیا تھا، وہ اب انگارے میں بدل چکا تھا۔ اُس نے سینے کی آگ کو زہر میں ڈبو کر تھوکا۔ ’’آہا، کیا بات ہے! کتنا پیار سے سمجھا رہے ہو! تو اب مجھے یقین بھی آ جائے؟ وہ بڑھیا چار مردوں کے برابر ہے! اسے کیا مرض لاحق ہو گیا؟ وہ تو چنڈال کی طرح کھڑی ہے، میرا خاندان نگلنے کو، اوپر سے پانی پیے جا رہی ہے!‘‘ یوسف تھک ہار کر اٹھا اور باہر جانے لگا، کہنے لگا۔ ’’تم سے بات کرنے والوں کو عقل نہیں ہوتی۔ جو چاہے کرو۔‘‘ اخیلا کو اُس کی خاموشی سب سے زیادہ چبھتی تھی۔ ابھی بھی لڑنے کو تیار، اُس نے کہا۔ ’’رے، تُو باہر کی رنڈیوں سے تعلق رکھے، میں کچھ نہیں کہوں گی۔ انہیں کھانا کھلا، کپڑے لا دے، جو مرضی کر! مگر یہ میری سوتن…‘‘ اس سے پہلے کہ جملہ مکمل ہوتا، یوسف نے زور دار طمانچہ رسید کیا۔ ’’کیا؟ کتنی بڑی زبان ہو گئی ہے تیری! اگر دوبارہ اماں کا نام لیا، تو ایسے غائب کر دوں گا کہ دنیا سوچے گی پیدا ہی نہ ہوئی تھی! تجھے کیا؟ وہ میری ماں ہے! باپ کے مرنے کے بعد اس نے مجھے کیسے پالا، پتا ہے؟ دس فالتو عورتیں مل جائیں، مگر ماں؟ وہ ایک ہی ہوتی ہے! تُو ہے کون جو ماں بیٹے کے درمیان آئے؟ تُو ایک ساڑھی بھی دیکھ کر جل جاتی ہے۔ سن لے، میں تجھے دکھاؤں گا — اماں کو پنجابی سوٹ پہنا کر تیرے سامنے گھماؤں گا، سونے کے زیور سے سجاؤں گا، پوری گلی میں شامیانہ لگا کر اُس کی شادی کروں گا!‘‘ اخیلا کو جیسے کسی نے زہر کا پیالہ پلایا ہو۔ اُس نے تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا۔ ’’تو پنجابی سوٹ پہنائے گا؟ تو شادی کرواے گا؟ کر کے دکھا، مرد ہے تو!‘‘ یوسف نے چلّاتے ہوئے کہا۔ ’’اگر میں نے شادی نہ کرائی، تو مونچھیں منڈوا دوں گا!‘‘ بیچاری محبوب بی، جو سمجھ رہی تھی کہ میاں بیوی حسبِ معمول جھگڑ رہے ہیں، خاموشی سے اپنے گھٹنوں پر مرہم ملتی رہی۔ معمول کے مطابق، جھگڑے کے بعد یوسف ماں کے گھر سو گیا۔ کہتے ہیں عورت کا مستقل گھر کوئی نہیں ہوتا — کبھی باپ کا، کبھی شوہر کا، کبھی بیٹے کا۔ مگر یہاں عجیب بات تھی — یوسف کے پاس خود کوئی گھر نہ تھا۔ محبوب بی کا بھی گھر تھا، اخیلا کا بھی — اور وہ بیچ میں پھنسا ہوا تھا۔ جب بیوی سے ناراض ہوتا، ماں کی گود میں جاتا، اور جب بیوی کی ضرورت ہوتی، اُس کے پاس آ جاتا۔ اسے فیصلہ کرنا تھا۔ پہلا راستہ یہ تھا کہ اخیلا کو طلاق دے دے۔ لیکن چونکہ وہ اُسے دل سے چاہتا تھا، اور ان کے چار چھوٹے بچے تھے، یہ کوئی حل نہ تھا۔ اخیلا، اپنی ساس سے شدید چڑ کے باوجود، ایک اچھی عورت تھی۔ اور اگر وہ طلاق دیتا، تو شہر میں رہنا مشکل ہو جاتا۔ اُس کے بھائی اُس کے بازو اور ٹانگیں توڑ دیتے۔ اس لیے اس نے یہ خیال چھوڑ دیا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ کسی اور عورت سے شادی کرے، تاکہ اخیلا کو سزا دے۔ لیکن یہ سوچتے ہی پسینے پسینے ہو گیا۔ اُسے شک نہ تھا کہ اخیلا اُس عورت کو قتل کر دے گی اور جیل چلی جائے گی۔ اور محبوب بی؟ وہ اکیلی کہاں سنبھال پاتی؟ یہ فکریں یوسف کو اندر ہی اندر کھانے لگیں۔ دکان میں بیٹھے، کھڑے، سوتے، ہر وقت یہ سوچیں ساتھ رہتیں۔ نیند اُڑ چکی تھی۔ ایک ہفتہ گزرنے تک اس نے فیصلہ کر لیا۔ وہ قسم کھا چکا تھا کہ وہ وہی کرے گا جو بطور چیلنج زبان سے نکلا تھا۔ رشتہ کروانے والے حیات خان کا چہرہ ذہن میں آیا۔ اگرچہ اس نے بےشمار شادیوں کا انتظام کیا تھا، مگر یوسف کی تجویز سن کر وہ چونک گیا۔ اس نے مسئلے کا ہر پہلو سوچا اور جامع مسجد کے مولوی سے مشورہ کیا۔ مولوی نے کھنکارا، داڑھی پر ہاتھ پھیرا، اور کہا۔ ’’ارے میاں، بیوہ کی شادی کرانا نیکی کا کام ہے! نکاح کراؤ، ہمیں بلاؤ!‘‘ دینی لحاظ سے کوئی روک نہ تھی۔ حیات خان نے جوش سے کام شروع کر دیا۔
ابھی حیات خان نے باقاعدہ تلاش شروع بھی نہیں کی تھی کہ پوری بستی میں خبر پھیل گئی۔ کچھ لوگ چپکے چپکے ہنسے، کچھ نے فراخدلی دکھائی۔ ’’کیا ہوا؟ مرد اگر دوسری شادی کرے تو عام سی بات ہے، عورت کرے تو کیا قباحت؟ لیکن… یہ عورت کچھ نرالی ہے!‘‘ اور بہت سے لوگ بولے۔ ’’یہ شخص پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ یوں یوسف اور اس کی ماں، دونوں چرچوں کا موضوع بن گئے۔ یوسف نے اپنی ماں کی ایک بڑی سی رنگین تصویر کھنچوائی، جب وہ اسپتال جا رہی تھی۔ جیسا کہ اخیلا نے کہا تھا، اس دن وہ واقعی تندرست لگ رہی تھی۔ پچاس کے قریب عمر، مگر وقار تھا چہرے پر، اور یہی وجہ تھی کہ رشتہ تلاش کرنے میں بہت سی رکاوٹیں نہیں آئیں۔ تاہم یوسف کے قدموں سے ایک بیل لپٹی ہوئی تھی، اور اس کا نام تھا: ہاشم صاحب۔ یوسف نے اس کا پس منظر کھنگالا۔ اچھے خاصے گھرانے سے تعلق تھا۔ چھ بچے تھے، سب شادی شدہ، الگ الگ بستیاں بسا چکے تھے۔ بیوی فالج کا شکار ہو کر بستر کی مکھی بن چکی تھی۔ آخری بیٹا اور بہو اُس کے ساتھ رہتے تھے۔ ہاشم صاحب کو فوراً کسی عورت کی ضرورت تھی جو اس کی بیوی کی دیکھ بھال کرے۔ حیات خان کے ذریعے یوسف نے اُسے کسی بہانے اخیلا کے گھر بلایا۔ کسی کو نہیں بتایا کہ وہ کون ہے اور کیوں آیا ہے۔ اخیلا نے خوب اہتمام سے کھانا پکایا تھا، مگر بکری بوڑھی تھی، گوشت سخت، اور ہاشم صاحب کے دانت کمزور۔ گوشت چبانے میں دقّت ہوئی۔ یوسف نے اس کی جھری دار داڑھی اور پلیٹ میں دھکیلے ہوئے گوشت کے ٹکڑوں کو دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ آدمی دندان سے محروم ہے۔ اور یہ بھی سوچا کہ وہ اپنی ماں کو کسی ایسے شخص کے گھر بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا جو اُسے آیا بنا دے، کسی کی پیشاب پاخانہ صاف کرائے۔ یوسف نے فوراً پیغام بھجوایا کہ یہ رشتہ منظور نہیں، اور تلاش جاری رکھی۔
پھر آیا عبدالغفار۔ یوسف کو لگا، یہی وہ شخص ہے جسے وہ ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ اور اُس کی بیوی دونوں اَپر پرائمری اسکول میں استاد تھے۔ تین بیٹیاں تھیں، خوشحال خاندان۔ بیوی کینسر کی لپیٹ میں آ کر اچانک چل بسی۔ دو بیٹیوں کی شادی پہلے ہی ہو چکی تھی۔ اب عبدالغفار اور اُس کی بیٹی روشنی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ یوسف کو یہ رشتہ بہت پسند آیا۔ عبدالغفار نے محبوب بی کی تصویر دیکھ کر ہاں کہہ دی۔ نکاح کی تاریخ طے ہونے کے بعد، یوسف کے سر پر جیسے سو کام آن پڑے۔ عبدالغفار نے شرماتے ہوئے اپنی شادی شدہ بیٹیوں اور دامادوں کو اطلاع دی۔ کسی نے اعتراض نہ کیا، سب نے شرکت کی ہامی بھری، مگر عبدالغفار کے دل میں جھجک باقی رہی۔ اُس نے یوسف سے کہا۔ ’’بس ایک دن رکھ دو، نکاح ہو جائے۔ زیادہ دھوم دھام کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ مگر یوسف کیا خاموش بیٹھنے والا تھا؟ وہ تو پہلے ہی خاص تیاریوں میں جُت چکا تھا۔
سب سے پہلے اُس نے اپنی ونگی انگوٹھی کو پالش کروایا، اور لاکر میں رکھ دیا۔ چار پانچ انگوٹھیاں پگھلوائیں، کچھ پیسے اور ملائے، اور ماں کے لیے ایک ہار بنوایا۔ وہ بھی لاکر میں رکھ دیا۔ اخیلا حیران تھی کہ روز کارٹن میں کچھ نہ کچھ لا رہا ہے، اور لاکر میں بند کر دیتا ہے۔ اُس کے پاس جھانکنے کا کوئی موقع نہیں تھا، کیونکہ چابی ہمیشہ یوسف کی جیب میں رہتی۔ جب عبدالغفار کے ساتھ شادی کی بات ہو رہی تھی، تب یوسف صرف دو دوستوں کو ساتھ لایا تھا۔ لیکن پوری بستی میں افواہیں پھیل گئیں۔ اور جلد ہی محبوب بی اور اخیلا کے کانوں تک بھی خبریں پہنچ گئیں۔ دونوں نے محسوس کیا کہ یوسف کے ہاتھ میں کبھی نہ اتارنے والی انگوٹھیاں اب نظر نہیں آتیں۔ اخیلا کو اب یوسف سے بحث کرنے کا خوف ستانے لگا تھا۔ محبوب بی کو اپنے بیٹے کے ذہن کی سمت پر شک ہوا، اور وہ دن بھر روتی رہی۔
اس دن صبح یوسف نے چار بکرے لا کر گھر کے باہر باندھ دیے۔ تینوں کردار — ماں، بیوی اور یوسف — ایک دوسرے سے چھپ چھپ کر جی رہے تھے۔ کسی نے بکرے کی بابت سوال نہ کیا، یوسف نے خود بھی کچھ نہ کہا۔ اسے انتظامات کرتے وقت بہت الجھن ہو رہی تھی، کیونکہ وہ ابھی تک ماں سے کھل کر بات نہیں کر سکا تھا۔ محبوب بی کا دل جیسے کسی اندھیرے غار میں بند ہو گیا تھا۔ ’’آخرکار بہو نے شوہر کے کان بھر دیے، اور مجھے ہمیشہ کے لیے دور کر دیا۔ تھو! کیسا ذلت آمیز انجام ہے!‘‘ وہ بڑبڑاتی رہی۔ دوسری طرف اخیلا بھی پریشان تھی۔ ’’چھی، مجھ سے غلطی ہو گئی۔ بات اتنی بڑھنے نہیں دینی چاہیے تھی۔‘‘ وہ شوہر کے سامنے گونگی بن گئی تھی۔ اگرچہ دل میں تڑپ تھی کہ اُس نے اپنی ساس کو رنڈی اور سوتن کہا، لیکن اب کیا فائدہ؟ اُسے یقین تھا کہ یوسف نے اپنی ماں کے لیے ہار بنوایا ہے، اور شاید ایک آدھ پنجابی سوٹ بھی۔ وہ اس خیال سے ہی بیزار ہو جاتی کہ ’’بوڑھی الو‘‘ اُس سے زیادہ نصیب والی بن جائے گی، مگر ظاہر کچھ نہ کرتی۔ کسی بڑے دھماکے کے ڈر سے زبان کھولنا بھول گئی تھی۔ اس سارے ہنگامے میں واحد خوش قسمت تھے بچے، خاص طور پر منا، جو نہ صرف محلے کے سب بچوں کو جمع کر کے خوشی منا رہا تھا بلکہ جانے کس نے سکھا دیا — بکرے پر بیٹھ کر گاتا۔ ’’اجّی کی شادی، اجّی کی شادی!‘‘ اس کے یہ الفاظ جب اخیلا کے کانوں میں پڑے، تو اُس نے منا کو گھسیٹ کر اندر لایا اور خوب پٹائی کی، ساری جھلاہٹ اس پر نکالی۔ بچے کی چیخیں ایسی تھیں کہ چھت تک ہل گئی۔ منا کی آواز محبوب بی کے کانوں میں بھی پہنچی۔ عام حالات میں وہ فوراً آ کر اُسے سینے سے لگا لیتیں، مگر آج دل پتھر بن چکا تھا۔ اُس نے دروازہ بند کیا، پردے کھینچ دیے، اور بھوکی پیاسی، ایک اندھیرے محل میں چلی گئی۔ مگر جیسے ہی اس کے کانوں میں منا کی پکار گونجی، ماں کے جذبے نے اُس کی پتھریلی حالت کو توڑ ڈالا۔ نہ گھٹنوں کا درد دھیان میں آیا، نہ ڈھیلی ساڑھی، نہ گرتا آنچل — وہ لپک کر اخیلا کے گھر گئی۔ بچے فرش پر بیٹھے رو رہے تھے۔ منا کو گود میں لے کر اس نے ڈانٹ کر پوچھا۔ ’’تُو انسان ہے یا راکشسنی؟ بچے کو کیا مار ڈالے گی؟‘‘ اور اُسے سینے سے لگا لیا۔ اس لمحے اُسے خوف ہوا کہ کہیں یہ عورت اب اور تماشا نہ کرے، مگر برخلاف توقع، اخیلا ماں کی بانہوں میں گِر پڑی، سسکتے ہوئے بولی۔ ’’بی اماں، بی اماں، یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ عزت مٹی میں مل گئی! سب میری غلطی ہے، جوتے مارو، میں نے تم سے بہت ناانصافی کی!‘‘ محبوب بی حیران رہ گئی۔ کیا یہ وہی عورت تھی؟ جو اُسے رنڈی کہتی تھی، سوتن کہتی تھی؟ اچانک اتنا بدل جانا — نیکی یا نفاق؟ وہ کچھ سمجھ نہ سکی۔ اخیلا نے بھرپور فائدہ اٹھایا، محبت بھرے لہجے میں ’’بی اماں‘‘ کہہ کر ساری بدزبانی کو واپس لے لیا۔ یہ آواز سن کر کوئی بھی موم ہو جاتا۔ محبوب بی بھی پگھلنے لگی۔ ’’بی اماں، کچھ بُرا وقت آ گیا تھا۔ جو نہیں ہونا تھا، وہ ہو گیا۔ میری غلطی تھی؛ میں کتیا بن گئی تھی۔ لیکن آخرکار وہ بھی مرد ہے نا؟ اگر اُس نے دو لاتیں مار دی ہوتیں، تو شاید میں سنبھل جاتی۔ مگر کوئی بیٹا اپنی ماں کی شادی کراتا ہے؟ ہاں؟ کیا تم نے کبھی سنا ہے ایسا؟‘‘ اس نے ذمے داری شوہر پر ڈال دی۔
***

بانو مشتاق
بانو مشتاق ۱۹۴۸ء میں ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے شہر حسن میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک مصنف، سماجی کارکن اور وکیل ہیں۔ انھیں آٹھ برس کی عمر میں کنڑ زبان کے شواس موگا مشنری سکول میں اس شرط پر داخلہ ملا کہ وہ چھے ماہ کے اندر کنڑ زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھیں گی لیکن انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر محض چند ایام میں ہی کنڑ زبان میں لکھنے کا آغاز کر دیا۔ بعد ازاں، مخالفتوں کے باوجود انھوں نہ صرف جامعہ کی تعلیم حاصل کی بلکہ ۲۶ برس کی عمر میں محبت کی شادی بھی کی۔
بانو مشتاق کنڑ، ہندی، دکنی اردو اور انگریزی زبانیں جانتی ہیں۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ’’لنکش پیتریک‘‘ نامی اخبار میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے کیا۔ پھر انھوں نے چند ماہ کے لیے آل انڈیا بنگلور میں بھی کام کیا۔ یوں تو بانو مشتاق کو بچپن ہی لکھنے پڑھنے سے شغف تھا لیکن وہ اپنی ۲۹ برس کی عمر میں اپنا پہلا افسانہ لکھ کر باقاعدہ مصنف بنیں اور انھوں نے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی دہائیوں میں جنوب مغربی ہندوستان کے ترقی پسند احتجاجی ادبی حلقوں میں لکھنے کا آغاز کیا۔ ذات پات اور طبقاتی نظام کی ناقد بندایا ساہتیہ تحریک نے بااثر دلت اور مسلمان مصنفین کو جنم دیا، جن میں چند خواتین میں سے ایک بانو مشاق تھیں۔ وہ چھے افسانوی مجموعوں، ایک ناول، مضامین کے ایک اور ایک شعری مجموعے کی مصنفہ ہیں۔ وہ کنڑ میں لکھتی ہیں اور اپنے ادبی کاموں پر قابلِ قدر اعزازات جیت چکی ہیں، جن میں کرناٹک ساہتیہ اکیڈمی اور دانا چنتامانی اتیمبے ایوارڈز شامل ہیں۔ ان کی بین الاقوامی بکر پرائز 2025 جیتنے والی کتاب ’’دل چراغ‘‘ ان کے ادبی کاموں میں سے بارہ منتخب افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ ہونے والی پہلی کتاب ہے۔ اس انگریزی ترجمے کی وساطت سے کچھ افسانوں کا اردو، ہندی، تامل اور ملیالم میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
بانو مشاق کے پہلے افسانے کا موضوع نئی نئی ماں بننے والی ایک ایسی عورت ہےجو زچگی کے ڈپریشن کو سہتی ہے۔ یہیں سے بانو مشتاق نے اپنے احساسات و تجربات کے اظہار کو اپنی تحریروں کے موضوعات بنایا۔ اس طرح ان کے افسانے نسوانی مسائل کا بیانیہ ہیں۔ ان کے افسانوں کی مترجم دیپا بھاستھی نے ان کے ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۳ء کے درمیان شائع ہونے والے افسانوں میں بارہ ایسی کہانیوں کا انتخاب کیا جن کے مرکزی کردار مسلم گھرانوں کی خواتین تھیں اور دیپا بھاستھی نے اپنے تراجم کا آغاز ۲۰۲۲ء میں کر کے فروری ۲۰۲۵ء میں کتاب کو پینگوئین رینڈم، بھارت سے شائع کروایا۔ اس سے قبل دیپا بھاستی بانو مشتاق کے چھے افسانوں کے ایک انتخاب ’’حسینہ اور دوسری کہانیاں‘‘ کے عنوان سے کیا تھا ، جسے پین ایوارڈ ۲۰۲۴ء سے نوازا گیا تھا جب کہ ’’دل چراغ‘‘بکر پرائز ۲۰۲۵ء جیتنے میں کامیاب رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ بانو مشتاق تمام مرد و زن مسلمان مصنفین میں پہلی مسلمان خاتون مصنف بلکہ کنڑ زبان کے تمام مرد و زن ادیبوں میں بھی پہلی مصنف ہیں جنھیں بکر انعام سے سرفراز کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ امر بھی قابلِ تذکرہ ہے کہ دیپا بھاستھی بھی پہلی ہندوستانی مترجم (جملہ مرد و زن مترجمین میں) ہیں جو اس انعام کی شریک بنی ہیں۔ بانو مشتاق قبل ازیں کرناٹک ساہتیہ ایوارڈ ۱۹۹۹ء اور دانا چنتامنی اتیمبے ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔
۰۰۰
بانو مشتاق کی تحریریں/انٹرویو وغیرہ:

محمد عامر حسینی
محمد عامر حسینی کا تعلق پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے ایک اہم شہر، خانیوال سے ہے۔ وہ ایک تجربہ کار اور صاحبِ بصیرت صحافی ہیں جنہوں نے ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے وابستگی کے دوران صحافت کے مختلف میدانوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ اُن کی تحریریں نہ صرف قومی سطح پر پڑھی جاتی ہیں بلکہ عالمی قارئین بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ محمد عامر حسینی چھے کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں تنقید، سماجیات، سیاسی تجزیے اور ادبی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ وہ نہ صرف فکشن لکھتے ہیں بلکہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کا ایک اور اہم پہلو غیر ملکی ادب کے اردو تراجم ہیں، جن کے ذریعے انہوں نے عالمی ادب کو اردو زبان میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ادب، صحافت اور ترجمے کے میدان میں ان کی کاوشیں علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
۰۰۰
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
1 thought on “دل کا فیصلہ”
Nice story, well translated
Thank you Mr. Amir Hussaini