ہسپانوی نظم
خوف
پابلو نیرودا
(Pablo Neruda)
ترجمہ:عمران ازفر
سب گھیرا ڈالے ہوئے میرے تعاقب میں ہیں
اُفوہ یہ فٹ بال کھیلتے
سب جلدی میں
یہاں تک کہ تیرتے اور اُڑتے ہوئے،
نہایت خوفزدہ !
ہر ایک میرے تعاقب میں ہے
اسے آسان سمجھ کر
اُن سب نے میرے لیے معالج سے وقت مقرر کیا
کیا ہونے جا رہا ہے
اِس انوکھے انداز میں؟
ہر ایک میرے پیچھے ہے،خاص مقصد کے لیے
آنے کے لیے،جانے کے لیے
مگر سیاحت کے لیے نہیں
مرنے کے لیے اور متبادل طور پر نہ مرنے کے لیے
اس کی کوئی اہمیت نہیں
ہر ایک نُدرت کو داغدار کر رہا ہے
ریڈیو کے پیش کردہ خوفناک خاکوں سے
میرا اندر دفعتاً چونک اٹھا
میں جس سے متفق نہیں
ہر ایک میری شاعری کھنگالتا ہے
اپنے بے لگام چھری کانٹوں سے
بلاشبہ ایک مکھی تلاش کرنے کے لیے
میں خوفزدہ ہوں
میں ساری دنیا سے
خوفزدہ ہوں
ٹھنڈے پانی سے، موت سے
ڈرا ہوا ہوں
میں بھی تمام انسانوں کی طرح ہوں
صبر کرنے کے قابل نہیں
اور یوں،ان مختصر گذرتے دنوں میں
میں نے انہیں توجہ نہیں دی
میں خود کو جان کر،خود سے پہلو تہی کروں گا
اپنے سب سے گہرے دشمن
پابلو نیرودا سے
:::
……پابلو نرودا کی نظم ’’خزاں کی واپسی‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ہسپانوی نظم
خوف
پابلو نیرودا
(Pablo Neruda)
ترجمہ:عمران ازفر
سب گھیرا ڈالے ہوئے میرے تعاقب میں ہیں
اُفوہ یہ فٹ بال کھیلتے
سب جلدی میں
یہاں تک کہ تیرتے اور اُڑتے ہوئے،
نہایت خوفزدہ !
ہر ایک میرے تعاقب میں ہے
اسے آسان سمجھ کر
اُن سب نے میرے لیے معالج سے وقت مقرر کیا
کیا ہونے جا رہا ہے
اِس انوکھے انداز میں؟
ہر ایک میرے پیچھے ہے،خاص مقصد کے لیے
آنے کے لیے،جانے کے لیے
مگر سیاحت کے لیے نہیں
مرنے کے لیے اور متبادل طور پر نہ مرنے کے لیے
اس کی کوئی اہمیت نہیں
ہر ایک نُدرت کو داغدار کر رہا ہے
ریڈیو کے پیش کردہ خوفناک خاکوں سے
میرا اندر دفعتاً چونک اٹھا
میں جس سے متفق نہیں
ہر ایک میری شاعری کھنگالتا ہے
اپنے بے لگام چھری کانٹوں سے
بلاشبہ ایک مکھی تلاش کرنے کے لیے
میں خوفزدہ ہوں
میں ساری دنیا سے
خوفزدہ ہوں
ٹھنڈے پانی سے، موت سے
ڈرا ہوا ہوں
میں بھی تمام انسانوں کی طرح ہوں
صبر کرنے کے قابل نہیں
اور یوں،ان مختصر گذرتے دنوں میں
میں نے انہیں توجہ نہیں دی
میں خود کو جان کر،خود سے پہلو تہی کروں گا
اپنے سب سے گہرے دشمن
پابلو نیرودا سے
:::
……پابلو نرودا کی نظم ’’خزاں کی واپسی‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Authors
-
تین صدیوں تک اسپین کی غاصبانہ، سامراجی اور غیر انسانی اصولوں پر استوار حکومت میں قید رہنے والی سر زمین چلی نے عالمی شاعری کو پابلو نیرودا جیسا بے مثال تخلیق کار دیا۔ براعظم دکنی امریکہ کے مغربی ساحلی کنارے اور انڈس پہاڑی سلسلوں کے درمیان طویل لکیر کی طرح ۲۱۹۹۳۰ مربع کلومیٹر پر مشتمل اس ملک کی آبادی لگ بھگ دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ ایک طویل عرصے سے سامراجی قوتوں کے آلہ کار بنے رہے تاوقتیکہ یہاں ترقی پسند افکار کے پھیلاو نے آزادی اور خود مختاری کے احساس کو قومی سطح پر پھیلایا اور لوگوں میں آزادی کے حصول کی خواہش کو بیدار کیا۔ اس نئی فکر کے پیش کاروں میں دیگر سیاست دانوں اور قومی دانشوروں کے ساتھ نیرودا کی حیثیت ممتاز اور منفرد رہی جس نے اپنی قومی کی آزادی اور خود مختاری کے لیے ہر ممکن اور ناممکن کوشش کی۔ یوں ہمارا یہ شاعر کبھی جلا وطن کیا گیا تو کبھی بے گھری کے آزار میں مبتلا ہوا اور پھر اپنے آزاد وطن کا وزیر داخلہ بھی بنایا گیا۔ شاعر، سفیر اور سیاست دان پابلو نیرودا جولائی ۱۲، ۱۹۰۴ء کو پرل،چلی میں پیدا ہوئے اور ستمبر ۲۳، ۱۹۷۳ء کو سینٹ یاگو، چلی میں داعی مطلق کو لبیک کہا۔ ہسپانوی زبان کے بے بدل نظم نگار اور مارکسیت و اشتراکیت کے داعی پابلو کو ۱۹۷۱ء میں نوبیل امن ایوارڈ برائے نظم پیش کیا گیا۔ نیرودا کا اولین شعری مجموعہ ۱۹۲۴ء میں ’’محبت کی بیس نظمیں اور اداسی کا گیت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ نیرودا نے کم عمری میں ہی واہماتی، سیاسی،تاریخی موضوعات پر پر شکوہ اور اثر انگیز نظمیں لکھیں۔ ۰۴ مارچ ۱۹۴۵ء کو پابلو نیرودا کمیونسٹ پارٹی برائے چلی کی طرف سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ نیرودا کی ملکیت تین گھر آج عوام کے لیے کھول دیگ گئے ہیں جن میں نیرودا کی اشیاء بطور یادگار رکھی گئی ہیں۔ نیرودا کی حیات پر مشتمل ڈرامہ ’’نیرودا‘‘ سال ۲۰۱۶ء میں پیش کیا گیا جبکہ سوانحی فلم بعنوان’’البورادا‘‘ سال ۲۰۲۱ء میں منظر عام پر آئی۔ پابلو نیرودا پر اٹلی میں سوانحی فلم ’’اِل پوستینو‘‘بنائی گئی۔ اس کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی نیرودا کے حالات و واقعات پر مشتمل فلمیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ہسپانوی زبان میں نیرودا کی چالیس سے زائد کتب شائع ہوئیں جبکہ انگریزی میں ترجمہ شدہ کتابوں کو بین الاقوامی سطح پر بے حد شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ بین الاقوامی امن اعزاز ’’لینن امن اعزاز‘‘ سمیت کئی دیگر اعزازات سے بھی پابلو نیرودا کو نوازا گیا۔ نیرودا نے اپنی عالمگیر شہرت کی حامل شاعری کے ذریعے چلی کو پوری دنیا میں متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا جو اس سے پہلے محض ایک کالونی تھی۔ یہ لاجواب شاعر اور وزارت داخلہ سے تعلق رکھنے والا بے مثل سیاستدان سرطان ایسے موذی مرض سے جنگ لڑتا ہوا آخر کار ۶۹ برس کی عمر میں اپنے گھر ایسلا نیگرا میں ۲۳ ستمبر ۱۹۷۳ء کو جہانِ فانی سے ابد آباد کو کوچ کر گیا۔
View all posts -
عمران ازفر اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، یونیورسٹی آف سرگودھا ہیں۔ وہ گل گشت ملتان میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان سے ایم اے (اردو) کِیا اور بعد ازاں اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی۔ اسلام آباد میں دس برس تک نوکری کرنے کے بعد یونیورسٹی آف سرگودھا سے بطور لیکچرار (اردو) اپنی ملازمت کا آغاز۲۰۱۸ء سے کِیا۔ اُن کی اب تک کئی کتب منصۂ شہود پر آچکی ہیں جن میں اُن کی نظموں کا مجموعہ ’’رات کا خیمہ‘‘،نظم نگاری پرتنقیدکی کتاب ’’نئی نظم نئی تخلیقی جہت‘‘، نظریہ سازی کے حوالے سے کتاب ’’ادب کی سماجیات‘‘، ’’مغربی پنجاب پر مسلم اور انگریز معاشرت کے اثرات‘‘شامل ہیں۔ اُن کے ۲۴ تحقیقی مضامین بین الاقوامی جرائد میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ اِس کے علاوہ تراجم کے ضمن میں وہ اب تک ’’پابلو نیرودا کی ۱۱۱ نظموں کے تراجم‘‘،ٹی ایس ایلیٹ کی معروف نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ کا پہلی مرتبہ ’’مفاعلاتن‘‘ کی بحر میں ترجمہ اور ۲۰۲۴ء کا نوبیل انعام برائے ادب کی فاتح کوریائی شاعرہ و مصنفہ ہن کانگ کے دنیا بھر میں شہرت پانے والےناول ’’دی ویجیٹرین‘‘ کا، جسے بُکر انعام ۲۰۱۶ء سے نوازا جا چکا ہے، اردو میں ’’سبزی خور‘‘ کے عنوان سے ترجمہ بھی اُن کا طرہ امتیاز ہے۔
View all posts
تراجم عالمی ادب
1 thought on “خوف”
Pingback: درد بھرا توصیفی گیت … نظم - Translations - تراجم