تراجم عالمی ادب

ہسپانوی نظم

خزاں کی واپسی

پابلو نیرودا

(Pablo Neruda)

ترجمہ:عمران ازفر

ایک سوگ میں ملبوس دن،

گھنٹیوں سے گرتا ہے

بے گھر بیوہ کے لہراتے نقاب کی طرح

یہ ایک رنگ ہے،ایک خواب

زمین میں ڈوبی چیریوں کی شریانوں میں روندی ہوئی پتیوں کی سرسراہٹ سے

وہاں آسماں کے نیچے کچھ ہے

سانڈ کی زبان کے جیسا موٹا

کوئی چیز آسمان کی غیر یقینی صورتحال اور ماحول میں ہے

چیزیں واپس اپنی جگہ پر آ جاتی ہیں

نہایت ضروری وکیل، ہاتھ، تیل، بوتلیں

زندگی کے سب نشانات: بستر سب سے پہلے

اور خون کے سیال سے بھری بوتلیں

لوگ اپنے راز کمینے کانوں کو سونپتے ہیں

قاتل اپنی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہیں

                   لیکن ایسا نہیں ہے

مگر قدیم دُلکی

قدیم خزاں کا گھوڑا

جو کانپتا ہے اور ضبط کرتا ہے

قدیم خزاں کے گھوڑے کی داڑھی سرخ ہے

اور سامنے کے خوف نے اس کے گالوں کو چھپا رکھا ہے

اور ہوا،  جو اُس کا پیچھا کرتی ہے،

سمندر کی شکل میں ہے

اور غیر واضح خوشبو

            پوشیدہ مدفن

ہر روز راکھ جیسا رنگ آسمان سے گرتا ہے

کبوتروں کو اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے، دھرتی کے لیے

ایک رسی جو فراموشی اور آنسوؤں سے بنی جاتی ہے

وقت جو گھنٹیوں کے ساتھ سو گیا ہے

ہر شے

پھٹے ہوئے کپڑے

عورتیں برف باری دیکھ رہی ہیں

سیاہ پوست،جو مرنے سے پہلے کوئی نہیں دیکھ سکتا

ہر چیز ہاتھوں میں آتی ہے

جو میں بارش کے درمیان میں اٹھاتا ہوں

 

:::

ہسپانوی نظم

خزاں کی واپسی

پابلو نیرودا

(Pablo Neruda)

ترجمہ:عمران ازفر

ایک سوگ میں ملبوس دن،

گھنٹیوں سے گرتا ہے

بے گھر بیوہ کے لہراتے نقاب کی طرح

یہ ایک رنگ ہے،ایک خواب

زمین میں ڈوبی چیریوں کی شریانوں میں روندی ہوئی پتیوں کی سرسراہٹ سے

وہاں آسماں کے نیچے کچھ ہے

سانڈ کی زبان کے جیسا موٹا

کوئی چیز آسمان کی غیر یقینی صورتحال اور ماحول میں ہے

چیزیں واپس اپنی جگہ پر آ جاتی ہیں

نہایت ضروری وکیل، ہاتھ، تیل، بوتلیں

زندگی کے سب نشانات: بستر سب سے پہلے

اور خون کے سیال سے بھری بوتلیں

لوگ اپنے راز کمینے کانوں کو سونپتے ہیں

قاتل اپنی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہیں

                   لیکن ایسا نہیں ہے

مگر قدیم دُلکی

قدیم خزاں کا گھوڑا

جو کانپتا ہے اور ضبط کرتا ہے

قدیم خزاں کے گھوڑے کی داڑھی سرخ ہے

اور سامنے کے خوف نے اس کے گالوں کو چھپا رکھا ہے

اور ہوا،  جو اُس کا پیچھا کرتی ہے،

سمندر کی شکل میں ہے

اور غیر واضح خوشبو

            پوشیدہ مدفن

ہر روز راکھ جیسا رنگ آسمان سے گرتا ہے

کبوتروں کو اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے، دھرتی کے لیے

ایک رسی جو فراموشی اور آنسوؤں سے بنی جاتی ہے

وقت جو گھنٹیوں کے ساتھ سو گیا ہے

ہر شے

پھٹے ہوئے کپڑے

عورتیں برف باری دیکھ رہی ہیں

سیاہ پوست،جو مرنے سے پہلے کوئی نہیں دیکھ سکتا

ہر چیز ہاتھوں میں آتی ہے

جو میں بارش کے درمیان میں اٹھاتا ہوں

 

:::

Authors

  • تین صدیوں تک اسپین کی غاصبانہ، سامراجی اور غیر انسانی اصولوں پر استوار حکومت میں قید رہنے والی سر زمین چلی نے عالمی شاعری کو پابلو نیرودا جیسا بے مثال تخلیق کار دیا۔ براعظم دکنی امریکہ کے مغربی ساحلی کنارے اور انڈس پہاڑی سلسلوں کے درمیان طویل لکیر کی طرح ۲۱۹۹۳۰ مربع کلومیٹر پر مشتمل اس ملک کی آبادی لگ بھگ دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ ایک طویل عرصے سے سامراجی قوتوں کے آلہ کار بنے رہے تاوقتیکہ یہاں ترقی پسند افکار کے پھیلاو نے آزادی اور خود مختاری کے احساس کو قومی سطح پر پھیلایا اور لوگوں میں آزادی کے حصول کی خواہش کو بیدار کیا۔ اس نئی فکر کے پیش کاروں میں دیگر سیاست دانوں اور قومی دانشوروں کے ساتھ نیرودا کی حیثیت ممتاز اور منفرد رہی جس نے اپنی قومی کی آزادی اور خود مختاری کے لیے ہر ممکن اور ناممکن کوشش کی۔ یوں ہمارا یہ شاعر کبھی جلا وطن کیا گیا تو کبھی بے گھری کے آزار میں مبتلا ہوا اور پھر اپنے آزاد وطن کا وزیر داخلہ بھی بنایا گیا۔ شاعر، سفیر اور سیاست دان پابلو نیرودا جولائی ۱۲، ۱۹۰۴ء کو پرل،چلی میں پیدا ہوئے اور ستمبر ۲۳، ۱۹۷۳ء کو سینٹ یاگو، چلی میں داعی مطلق کو لبیک کہا۔ ہسپانوی زبان کے بے بدل نظم نگار اور مارکسیت و اشتراکیت کے داعی پابلو کو ۱۹۷۱ء میں نوبیل امن ایوارڈ برائے نظم پیش کیا گیا۔ نیرودا کا اولین شعری مجموعہ ۱۹۲۴ء میں ’’محبت کی بیس نظمیں اور اداسی کا گیت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ نیرودا نے کم عمری میں ہی واہماتی، سیاسی،تاریخی موضوعات پر پر شکوہ اور اثر انگیز نظمیں لکھیں۔ ۰۴ مارچ ۱۹۴۵ء کو پابلو نیرودا کمیونسٹ پارٹی برائے چلی کی طرف سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ نیرودا کی ملکیت تین گھر آج عوام کے لیے کھول دیگ گئے ہیں جن میں نیرودا کی اشیاء بطور یادگار رکھی گئی ہیں۔ نیرودا کی حیات پر مشتمل ڈرامہ ’’نیرودا‘‘ سال ۲۰۱۶ء میں پیش کیا گیا جبکہ سوانحی فلم بعنوان’’البورادا‘‘ سال ۲۰۲۱ء میں منظر عام پر آئی۔ پابلو نیرودا پر اٹلی میں سوانحی فلم ’’اِل پوستینو‘‘بنائی گئی۔ اس کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی نیرودا کے حالات و واقعات پر مشتمل فلمیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ہسپانوی زبان میں نیرودا کی چالیس سے زائد کتب شائع ہوئیں جبکہ انگریزی میں ترجمہ شدہ کتابوں کو بین الاقوامی سطح پر بے حد شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ بین الاقوامی امن اعزاز ’’لینن امن اعزاز‘‘ سمیت کئی دیگر اعزازات سے بھی پابلو نیرودا کو نوازا گیا۔ نیرودا نے اپنی عالمگیر شہرت کی حامل شاعری کے ذریعے چلی کو پوری دنیا میں متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا جو اس سے پہلے محض ایک کالونی تھی۔ یہ لاجواب شاعر اور وزارت داخلہ سے تعلق رکھنے والا بے مثل سیاستدان سرطان ایسے موذی مرض سے جنگ لڑتا ہوا آخر کار ۶۹ برس کی عمر میں اپنے گھر ایسلا نیگرا میں ۲۳ ستمبر ۱۹۷۳ء کو جہانِ فانی سے ابد آباد کو کوچ کر گیا۔ 

    View all posts
  • عمران ازفر اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، یونیورسٹی آف سرگودھا ہیں۔ وہ گل گشت ملتان میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان سے ایم اے (اردو) کِیا اور بعد ازاں اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی۔ اسلام آباد میں دس برس تک نوکری کرنے کے بعد یونیورسٹی آف سرگودھا سے بطور لیکچرار (اردو) اپنی ملازمت کا آغاز۲۰۱۸ء سے کِیا۔ اُن کی اب تک کئی کتب منصۂ شہود پر آچکی ہیں جن میں اُن کی نظموں کا مجموعہ ’’رات کا خیمہ‘‘،نظم نگاری پرتنقیدکی کتاب ’’نئی نظم نئی تخلیقی جہت‘‘، نظریہ سازی کے حوالے سے کتاب ’’ادب کی سماجیات‘‘، ’’مغربی پنجاب پر مسلم اور انگریز معاشرت کے اثرات‘‘شامل ہیں۔ اُن کے ۲۴ تحقیقی مضامین بین الاقوامی جرائد میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ اِس کے علاوہ تراجم کے ضمن میں وہ اب تک ’’پابلو نیرودا کی ۱۱۱ نظموں کے تراجم‘‘،ٹی ایس ایلیٹ کی معروف نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ کا پہلی مرتبہ ’’مفاعلاتن‘‘ کی بحر میں ترجمہ اور ۲۰۲۴ء کا نوبیل انعام برائے ادب کی فاتح کوریائی شاعرہ و مصنفہ ہن کانگ کے دنیا بھر میں شہرت پانے والےناول ’’دی ویجیٹرین‘‘ کا، جسے بُکر انعام ۲۰۱۶ء سے نوازا جا چکا ہے، اردو میں ’’سبزی خور‘‘ کے عنوان سے ترجمہ بھی اُن کا طرہ امتیاز ہے۔ 

    View all posts

1 thought on “خزاں کی واپسی”

  1. Pingback: خوف … نظم - Translations - تراجم

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *