تراجم عالمی ادب

نیپالی نظم

ڈالیا کے پھول، مَیں تیرا نام بدلنا چاہتی ہوں

تریتھا شریستھا

(Tritha Shrestha)

ترجمہ:منیر فیاض

پلاسٹک کا نہ ہونے کے باوجود، بے باس

اے ڈالیا[1] کے پھول!

اس لمحے جب کہ مجھے جنگ میں مارا ہوا اپنا شوہر یاد آرہا ہے

میرے لیے ایسے خط کا تصور کرنا بھی محال ہے

جس کے کونے پر دھاگا[2]  بندھا ہو

اور میرے شوہر کی زندگی کی کُل کمائی—

میت کی باس دیتی ہوئی پنشن

جس پر میری زندگی کا بہت انحصار ہے

اس سائبان کے دروازے کی طرف منہ اٹھا کے

جہاں میرے جیسی ایک غریب بیوہ رہتی ہے

تم کس بے شرمی سے کھِل رہے ہو

اے ڈالیا کے پھول!

پرانے زخم مت چھیڑو

زخموں پر نمک نہ چھڑکو

میری ساری زندگی بہت عرصہ زخم جیسی رہی

بہت عرصہ درد رہا

مجھے مختصر سی تفریح چاہئے، اے ڈالیا کے پھول!

زخموں کی تہیں پھرولتے ہوئے

مَیں معاہدے[3] کی تاریخ بدل دینا چاہتی ہوں

اپنے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے

مَیں یہ خونیں تجارت روکنا چاہتی ہوں

تاریخ کا یہ سیاہ ورق پھاڑ کے پھینک دینا چاہتی ہوں

ٹھہرو، اے ڈالیا کے پھول!

مَیں تمھارا نام تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔

:::


  [1]   ڈالیا یہاں ذو معنی ہے۔ ایک پھول کے اور دوسرا وہ نیپالی فوجی جو دوسرے ممالک کی فوج میں ہیں۔

[2]   خط کے لفافے کے کونے میں دھاگا بندھا ہونا پردیس میں کسی کی موت کی اطلاع کی نشانی ہوتا تھا۔

[3]  ۱۸۱۶ء کا معاہدہ سوگائولی اور ایسے دیگر معاہدے جن کے تحت غیر ملکی افاج نیپالیوں کی جبری بھرتی کا اختیار رکھتے تھے۔

نیپالی نظم

ڈالیا کے پھول، مَیں تیرا نام بدلنا چاہتی ہوں

تریتھا شریستھا

(Tritha Shrestha)

ترجمہ:منیر فیاض

پلاسٹک کا نہ ہونے کے باوجود، بے باس

اے ڈالیا[1] کے پھول!

اس لمحے جب کہ مجھے جنگ میں مارا ہوا اپنا شوہر یاد آرہا ہے

میرے لیے ایسے خط کا تصور کرنا بھی محال ہے

جس کے کونے پر دھاگا[2]  بندھا ہو

اور میرے شوہر کی زندگی کی کُل کمائی—

میت کی باس دیتی ہوئی پنشن

جس پر میری زندگی کا بہت انحصار ہے

اس سائبان کے دروازے کی طرف منہ اٹھا کے

جہاں میرے جیسی ایک غریب بیوہ رہتی ہے

تم کس بے شرمی سے کھِل رہے ہو

اے ڈالیا کے پھول!

پرانے زخم مت چھیڑو

زخموں پر نمک نہ چھڑکو

میری ساری زندگی بہت عرصہ زخم جیسی رہی

بہت عرصہ درد رہا

مجھے مختصر سی تفریح چاہئے، اے ڈالیا کے پھول!

زخموں کی تہیں پھرولتے ہوئے

مَیں معاہدے[3] کی تاریخ بدل دینا چاہتی ہوں

اپنے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے

مَیں یہ خونیں تجارت روکنا چاہتی ہوں

تاریخ کا یہ سیاہ ورق پھاڑ کے پھینک دینا چاہتی ہوں

ٹھہرو، اے ڈالیا کے پھول!

مَیں تمھارا نام تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔

:::


  [1]   ڈالیا یہاں ذو معنی ہے۔ ایک پھول کے اور دوسرا وہ نیپالی فوجی جو دوسرے ممالک کی فوج میں ہیں۔

[2]   خط کے لفافے کے کونے میں دھاگا بندھا ہونا پردیس میں کسی کی موت کی اطلاع کی نشانی ہوتا تھا۔

[3]  ۱۸۱۶ء کا معاہدہ سوگائولی اور ایسے دیگر معاہدے جن کے تحت غیر ملکی افاج نیپالیوں کی جبری بھرتی کا اختیار رکھتے تھے۔

 

Authors

  • تریتھا شریستھا ایک معروف شاعر اورگیت نگار ہیں۔ اُنھوں نے غزلیں اور مکاتاکا (ایک نوع کی آزاد نظم) بھی لکھیں۔ وہ نیپالی ادبی تحریک میں ایک سرکردہ حیثیت رکھتے ہیں۔تریتھا شریستھا نیپالی کیلنڈر کے مطابق سنہ ۲۰۱۶ ب س (بِکرم سمبت؍وِکرم سموَت) (مطابق عیسوی کیلنڈر ۲ نومبر ۱۹۵۹ء) میں پوکھرا میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے پنچایت دور میں جمہوریت کے حق میں سیاست سرگرمی سے حصہ لیا۔ اُنھیں پوکھرا شہر میں پارٹی کی نمائندگی کا تجربہ بھی ہے۔ وہ اِس وقت سیاست سے بالاتر ہو کر پوکھرا کے ثقافتی فروغ اور ادبی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں اور نیپالی شاعری میں ’ترالتا‘ (سیالیت) کی تحریک کے اہم رکن ہیں۔ تریتھا شریستھا کا شعری سفر ۱۳ برس کی عمر میں پہلی بار اسکول کے ایک وال میگزین میں اُن کی نظم کی اشاعت سے ہوا۔ چار دہائیوں پر محیط سفر، وہ اب تک چھ شعری مجموعوں کے مالک ہیں: اپنی نظموں میں دیہی زندگی کی سختی کی اِس طرح کی پہچان لاتے ہیں کہ وہ صرف غربت کے بارے میں نہیں بلکہ نیپال کے دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں رہنے والوں کے خوابوں، خواہشات، امنگوں کے ترجمان بن جاتے ہیں ۔ اُن کی نظمیں خاص طور پر حب الوطنی کو اپنا موضوع بناتی ہیں۔نیز اُن کی بہترین نظموں میں رومانیت اور سماجی تنقید کا عمدہ تعامل ہے۔ 

    View all posts
  • منیر فیاض اردو اور انگریزی کے ممتاز شاعر، مترجم، نقاد ہیں ۔وہ ایف جی کالجز، اسلام آباد، پاکستان میں اسسٹنٹ پروفیسر (انگریزی) کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ دارلحکومت کی معروف یونیورسٹی میں ’’مطالعہِ ادب و تراجم ‘‘پر لیکچر دیتے ہیں۔ اُنھوں نے حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے شائع ہونے والے ’’پاکستان ادب‘‘ (پاکستان کی ہم عصرافسانے) کے ایک خصوصی شمارے کی ادارت بھی کی ہے۔ منیر فیاض ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے براڈکاسٹر اور پاکستان ٹیلی ویژن (ورلڈ) کے ادبی پروگراموں کے پینلسٹ بھی ہیں۔ وہ ۲۰۰۹ء سے پاکستانی شاعری اور افسانوں کے انگریزی میں تراجمم کر رہے ہیں۔ اُردو میں اُن کے تراجم یہ ہیں: معاصر چینی مختصر کہانیاں، کرغزمصنف چنگیز ایتماتوف کے ناول، نیپالی شاعروں کی ایک مجموعہ ’’نیپال کی آواز‘‘۔ مزید برآں، اُنھوں نے بین الاقوامی شہرت کے شاعروں اور ادیبوں: نجیب محفوظ اور جان ایشبیری، اور امریکی شاعر ٹریسی کے سمتھ اور جوآن فلپ ہیریرا کی سوانح بھی رقم کی ہیں۔ 

    View all posts

6 thoughts on “ڈالیا کے پھول میں۰۰۰”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *