ہن کانگ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
غلام حسین ساجد کی تحریروں کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
غلام حسین ساجد
شاکا ہاری / ہان کانگ

اس ناول کا نام بھٹکا دینے والا ہے۔ اس کے پہلے باب کا مطالعہ کرتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ شاید یہ ایک شاکا ہاری بیوی کے باعث ایک گوشت خور خاوند کی عذاب ہوتی چلی جاتی زندگی کی کتھا ہے مگر… اس ناول کا اردو ترجمہ اسما حسین نے کیا ہے… ترجمے کا معیار عمدہ ہے اور بیانیے کی روانی قابلِ قدر۔
—غلام حسین ساجد
ہان کانگ (Han Kang)کے ناول شاکا ہاری ( سبزی خور) کو ، مترجم اسما حسین، ۲۰۱۶ء میں بُکر انٹرنیشنل پرائز سے نوازا گیا اور پھر وہ اپنے مجموعی کام کی بدولت ۲۰۲۴ء میں نوبیل انعام کی حقدار ٹھہریں۔ یہ ناول مجموعی طور پر چار کرداروں یونگھے، اُس کے شوہر، اُس کی بڑی بہن انحے اور اور اُس کے مصّور میاں کی کہانی ہے اور تین حصّوں شاکا ہاری، منگولیا نشان اور فروزاں شجر پر مشتمل ہے۔ پہلے حصّے کا راوی یونگھے کا شوہر ہے اور دوسرے اور تیسرے حصّے کی راوی خود مصنّفّہ۔ اس لیے اسے ایک ذو بیانیہ ناول قرار دینے میں کوئی ہرج نہیں اور یہ گہرے لسانی اور علمی تجزیے کی بُنیاد پر کرادوں کی باطنی کیفیات کو اور اُس نفسیاتی تشنّج کو سمجھنے کی سعی کرتا ہے جو مرکزی کردار کی شخصیت میں تبدیلی لانے کا سبب بنتا ہے۔ ایسی تبدیلی جو سادہ روی سے آگے بڑھتی زندگیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے اور ایک عجیب طرح کا شزوفرینیائی بھنور خلق کر کے کرداروں کی سادہ رُو بشاشت، عمومی ہمواری، معاشرتی رویّوں اور مانوسیت کو چاٹ کر انھیں کسی اور ہی دُنیا کا باسی بنا دیتا ہے۔ اس طرح کہ وہ معلوم کی دنیا سے خارج ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار یعنی یونگھے تو خود کو نوعِ انساں سے جُدا کر کے نباتات کا حصّہ سمجھنے لگتی ہے اور اُس کا یہ مغالطہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ اُس کے اذہان پر غالب آ کر اُس کے ادراک کا حِصّہ بن جاتا ہے۔
تہذیب انسانی کے حجریاتی اور تواریخی شواہد سے پتا چلا ہے کہ انسان بُنیادی طور پر شاکا ہاری یعنی سبزی خور ہے۔ قدیم اور آج کے انسان کے دانتوں کی ساخت انسان کو گوشت خور جانوروں سے الگ کرتی ہے۔ کئی معاشروں خاص طور جین مت، ہندو دھرم کے بعض سلاسل اور بّدھ مت میں جانوروں کا شکار کرنا اور اُن کا خُون پینا یا گوشت کھانا مستحب نہیں سمجھا جاتا بل کہ وہ لوگ انڈے سے بنی خوراک کو بھی کھانے سے اجتناب کرتے ہیں مگر ’’شاکا ہاری‘‘ کے مرکزی کردار کے سبزی خور ہونے کی وجہ مذہبی نہیں نفسیاتی ہے۔ وہ ایک خواب دیکھتی ہے اور اس کے نتیجے میں پہلے گوشت اور گوشت کی شرکت سے پکائے دوسرے کھانوں سے کنارا کرتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ اُس کے اندر کچھ کھانے کی رغبت ہی دم توڑ دیتی ہے۔ پھولوں سے بدن پینٹ کیے جانے اور ایک محرک سے خالی جنسی تجربے سے گزرنے کے بعد، جس کا باعث انحے کا مصور شوہر بنتا ہے، وہ خود کو درختوں کی طرح زمین سے براہِ راست توانائی پانے کا حق دار سمجھتی ہے اور اس عارضے کے باعث ہر طرح کی خوراک سے دست کش ہو جاتی ہے۔ اسے طِبّی زبان میں جو بھی کہا جائے۔ یہ صرف گوشت کو بطورِ غذا ترک کر دینے کا معاملہ نہیں ہے، ایک وجودی بحران ہے اور فطرت سے موجود کی دنیا اور اّس کی جکڑبندیوں کو ترک کرکے آزاد اور خود مختار ہونے کی طرف پیش رفت ہے۔ افسوس کہ یہ پیش قدمی بنی نوع انسان کے عمومی تہذیبی مزاج کو قبول نہیں اور فطرت سے پیوست ہونے کی ایسی کوشش کو ایک نفسیاتی عارضے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا سو یونگھے کو طلاق، بیماری اور بالآخر موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُس کی اکلوتی تیمار دار اُسے بچانے میں ناکام رہتی ہے۔
انسانی دماغ کس قدر پیچیدہ ہے، اسے کس نوع کی پُراسراریت سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ اُس کی یکساں رفتار سے چلنے والی سُوئی کہاں اور کس سِرّی منطقے پر اٹک سکتی ہے اور اُسے سدھارنے والے کتنے مجبور اور کیسی بے بسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ’’شاکا ہاری‘‘ اس ناطاقتی اور بے بسی کی عمدہ مثال ہے۔ اپنے تاثر کے لحاظ سے یہ ایک تکلیف دہ کتاب ہے اور یونگھے کے مقدر کی فطرت سے ہم آہنگی کی کوشش کو اس صارفیت زدہ معاشرے میں وجودی آزادی کے مظہر کی علامت سمجھ کر رد کرتی ہے۔
گوشت کھانا ترک کر دینا یا گوشت کھانے کی رغبت نہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ اس کی کئی طِبّی اور نفسیاتی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ مُدّتوں پہلے ایک ڈاکومنٹری نُما فلم ’’Eating Alive‘‘ دیکھنے کے بعد میں اور میرے خاندان کے کئی لوگ لگ بھگ ایک برس تک شاکا ہاری رہ چکے ہیں اور ہماری زندگی کس طرح کے مجاہدے کے بعد معمول پر آئی کچھ میں ہی جانتا ہوں۔ کسی دستاویزی فلم یا کسی کابوسی خواب کے نتیجے میں گوشت سے کراہت کا تصور وابستہ ہو جانا کوئی عجوبہ بات نہیں۔ اسی طرح مرکزی کردار یعنی یونگھے کا دھوپ کے مقابل اپنی چھاتیاں ننگی کرنا یا گھر میں کپڑوں کے بغیر رہنا بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ میں خود ایک شخص کو جانتا ہوں جو گھر میں اکیلے ہوتے ہی کپڑوں کے بغیر رہنا پسند کرتا تھا اور اُسے اس سے مکمل آزادی اور فطرت کے قریب تر ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ یونگھے کا مسئلہ اس لیے قدرے تکلیف دہ ہے کہ وہ باقاعدہ نفسیاتی تشنج کا شکار ہے اور اپنے موجود سے بے خبر ہو کر اپنی فینتاسی کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ اس لیے اُس کے دماغ کی ٹیڑھ میں اضافہ ہونا اور اس بنیاد پر اُس کی زندگی سے جُڑے کرداروں کا ردِعمل الگ اور مثالی محسوس ہوتا ہے۔
اس ناول کا نام بھٹکا دینے والا ہے۔ اس کے پہلے باب کا مطالعہ کرتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ شاید یہ ایک شاکا ہاری بیوی کے باعث ایک گوشت خور خاوند کی عذاب ہوتی چلی جاتی زندگی کی کتھا ہے مگر اگلے ہی باب میں یہ کتھا ایک مختلف روپ اختیار کر لیتی ہے اور ایک مصور اور اُس کے ماڈل بل کہ معمول کے بیچ کی نفسیاتی کشمکش کا روپ اختیار کر لیتی ہے جس کے وقوع پذیر ہونے کی ساری صورتِ حال یونگھے کی سطح پر بالکل فطری اور بڑی حد تک غیر ارادی محسوس ہوتی ہے، ہاں اس حصے کے مرد کردار کے حوالے سے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا رہا ہے یا ایک تخلیقی مکاشفے کو بصری صورت دینے کی کوشش میں خود بھی معمول بن گیا تھا اور ناول کا تیسرا باب ’’فروزاں شجر‘‘ تو عجب طرح کی کیفیت کا مظہر ہے۔ میر درد کی شاعری کا مرکزی کردار یعنی عاشق تو داغوں کی وجہ سے سروِ چراغاں بنا تھا مگر یہاں اُس کا سبب وجود میں پھیلتی ہوئی اور اُکل و شرب اور متوازی راستے پر آگے بڑھتی دنیا سے کنارہ کشی اور خود کو نباتات سے ہم آہنگ بل کہ اُن میں سے ایک محسوس کرنے کا جہنمی گُمان ہے جو بظایر عجیب مگر اپنی کّنہ میں ایک حقیقت ہے۔
اس ناول کا اردو ترجمہ اسما حسین نے کیا ہے اور غالباً ڈیبورا اسمتھ کے انگریزی ترجمے سے۔ ویجیٹیرین کا ترجمہ سبزی خور بھی ہو سکتا تھا مگر شاید مترجم کو ’’شاکا ہاری‘‘ ترکیب زیادہ خوش آئی ہو۔ ممکن ہے یہ ہندوستانی مارکیٹ میں ترجمے کی مانگ پیدا کرنے کی کوشش ہو، جو بھی ہے، ترجمے کا معیار عمدہ ہے اور بیانیے کی روانی قابلِ قدر۔ سُنا ہے کہ ہان کانگ کے اُسلوب کی خوبی اور انفرادیت اُس کی شاعرانہ زبان ہے۔ یہ اُسلوب کتنا دل کش ہے اور ترجمے میں اس کا حُسن منتقل ہو سکا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ کہنا دشوار ہے کہ ہم ناول کی اصل زبان کی شُد بُد نہیں رکھتے مگر ترجمے کی روانی اور بیانیے کے گُتھے ہوئے ہونے کی خوبی یقیناً لائقِ تحسین ہے۔
جرمنی میں مقیم ہمارے دوست رشی خان کو یہ ناول پسند نہیں آیا اور وہ اسے نوبل پرائز دینے کی کوئی وجہ تلاش نہیں کر پائے (ممکن اس کی وجہ اس کا اختصار ہو)۔ میں اُن سے متفق نہیں مگر ان کی رائے کی تردید کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتا۔ ادب اب حظ اُٹھائے سے زیادہ رنج اور تکلیف بانٹنے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ وہ اسرار بھری تہذیبی جدلیات ہے جو ہمارے نہ چاہنے اور لاتعلقی کے باوجود ہمارے وجود کا حصہ بن رہی ہے اور کئی طرح کے وجودی بحرانوں کو جنم دے رہی ہے۔ یونگھے بھی ایسے ہی ایک وجودی بحران کا شکار ہے اور اس سے نکلنے اور اس سے بھی زیادہ نکالے جانے کی کوشش میں لہو لہان ہوتی چلی جاتی ہے مگر اسے نجات دلانے کی طاقت کسی ڈاکٹر کے پاس ہے نہ انحے اور اس کے شوہر کے پاس جو یونگھے کے بدن پر ہم اہنگ رنگوں سے پھول بنانے کا ہُنر تو جانتا ہے مگر اُس کے مٹّی میں جڑوں کی طرح پنپنے کی خواہش رکھنے والے وجود کو دوبارہ انسان کی جون میں لانے پر قادر نہیں۔
:::
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
ہن کانگ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
غلام حسین ساجد کی تحریروں کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
غلام حسین ساجد
شاکا ہاری / ہان کانگ

اس ناول کا نام بھٹکا دینے والا ہے۔ اس کے پہلے باب کا مطالعہ کرتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ شاید یہ ایک شاکا ہاری بیوی کے باعث ایک گوشت خور خاوند کی عذاب ہوتی چلی جاتی زندگی کی کتھا ہے مگر… اس ناول کا اردو ترجمہ اسما حسین نے کیا ہے… ترجمے کا معیار عمدہ ہے اور بیانیے کی روانی قابلِ قدر۔
—غلام حسین ساجد
ہان کانگ (Han Kang)کے ناول شاکا ہاری ( سبزی خور) کو ، مترجم اسما حسین، ۲۰۱۶ء میں بُکر انٹرنیشنل پرائز سے نوازا گیا اور پھر وہ اپنے مجموعی کام کی بدولت ۲۰۲۴ء میں نوبیل انعام کی حقدار ٹھہریں۔ یہ ناول مجموعی طور پر چار کرداروں یونگھے، اُس کے شوہر، اُس کی بڑی بہن انحے اور اور اُس کے مصّور میاں کی کہانی ہے اور تین حصّوں شاکا ہاری، منگولیا نشان اور فروزاں شجر پر مشتمل ہے۔ پہلے حصّے کا راوی یونگھے کا شوہر ہے اور دوسرے اور تیسرے حصّے کی راوی خود مصنّفّہ۔ اس لیے اسے ایک ذو بیانیہ ناول قرار دینے میں کوئی ہرج نہیں اور یہ گہرے لسانی اور علمی تجزیے کی بُنیاد پر کرادوں کی باطنی کیفیات کو اور اُس نفسیاتی تشنّج کو سمجھنے کی سعی کرتا ہے جو مرکزی کردار کی شخصیت میں تبدیلی لانے کا سبب بنتا ہے۔ ایسی تبدیلی جو سادہ روی سے آگے بڑھتی زندگیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے اور ایک عجیب طرح کا شزوفرینیائی بھنور خلق کر کے کرداروں کی سادہ رُو بشاشت، عمومی ہمواری، معاشرتی رویّوں اور مانوسیت کو چاٹ کر انھیں کسی اور ہی دُنیا کا باسی بنا دیتا ہے۔ اس طرح کہ وہ معلوم کی دنیا سے خارج ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار یعنی یونگھے تو خود کو نوعِ انساں سے جُدا کر کے نباتات کا حصّہ سمجھنے لگتی ہے اور اُس کا یہ مغالطہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ اُس کے اذہان پر غالب آ کر اُس کے ادراک کا حِصّہ بن جاتا ہے۔
تہذیب انسانی کے حجریاتی اور تواریخی شواہد سے پتا چلا ہے کہ انسان بُنیادی طور پر شاکا ہاری یعنی سبزی خور ہے۔ قدیم اور آج کے انسان کے دانتوں کی ساخت انسان کو گوشت خور جانوروں سے الگ کرتی ہے۔ کئی معاشروں خاص طور جین مت، ہندو دھرم کے بعض سلاسل اور بّدھ مت میں جانوروں کا شکار کرنا اور اُن کا خُون پینا یا گوشت کھانا مستحب نہیں سمجھا جاتا بل کہ وہ لوگ انڈے سے بنی خوراک کو بھی کھانے سے اجتناب کرتے ہیں مگر ’’شاکا ہاری‘‘ کے مرکزی کردار کے سبزی خور ہونے کی وجہ مذہبی نہیں نفسیاتی ہے۔ وہ ایک خواب دیکھتی ہے اور اس کے نتیجے میں پہلے گوشت اور گوشت کی شرکت سے پکائے دوسرے کھانوں سے کنارا کرتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ اُس کے اندر کچھ کھانے کی رغبت ہی دم توڑ دیتی ہے۔ پھولوں سے بدن پینٹ کیے جانے اور ایک محرک سے خالی جنسی تجربے سے گزرنے کے بعد، جس کا باعث انحے کا مصور شوہر بنتا ہے، وہ خود کو درختوں کی طرح زمین سے براہِ راست توانائی پانے کا حق دار سمجھتی ہے اور اس عارضے کے باعث ہر طرح کی خوراک سے دست کش ہو جاتی ہے۔ اسے طِبّی زبان میں جو بھی کہا جائے۔ یہ صرف گوشت کو بطورِ غذا ترک کر دینے کا معاملہ نہیں ہے، ایک وجودی بحران ہے اور فطرت سے موجود کی دنیا اور اّس کی جکڑبندیوں کو ترک کرکے آزاد اور خود مختار ہونے کی طرف پیش رفت ہے۔ افسوس کہ یہ پیش قدمی بنی نوع انسان کے عمومی تہذیبی مزاج کو قبول نہیں اور فطرت سے پیوست ہونے کی ایسی کوشش کو ایک نفسیاتی عارضے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا سو یونگھے کو طلاق، بیماری اور بالآخر موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُس کی اکلوتی تیمار دار اُسے بچانے میں ناکام رہتی ہے۔
انسانی دماغ کس قدر پیچیدہ ہے، اسے کس نوع کی پُراسراریت سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ اُس کی یکساں رفتار سے چلنے والی سُوئی کہاں اور کس سِرّی منطقے پر اٹک سکتی ہے اور اُسے سدھارنے والے کتنے مجبور اور کیسی بے بسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ’’شاکا ہاری‘‘ اس ناطاقتی اور بے بسی کی عمدہ مثال ہے۔ اپنے تاثر کے لحاظ سے یہ ایک تکلیف دہ کتاب ہے اور یونگھے کے مقدر کی فطرت سے ہم آہنگی کی کوشش کو اس صارفیت زدہ معاشرے میں وجودی آزادی کے مظہر کی علامت سمجھ کر رد کرتی ہے۔
گوشت کھانا ترک کر دینا یا گوشت کھانے کی رغبت نہ ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ اس کی کئی طِبّی اور نفسیاتی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ مُدّتوں پہلے ایک ڈاکومنٹری نُما فلم ’’Eating Alive‘‘ دیکھنے کے بعد میں اور میرے خاندان کے کئی لوگ لگ بھگ ایک برس تک شاکا ہاری رہ چکے ہیں اور ہماری زندگی کس طرح کے مجاہدے کے بعد معمول پر آئی کچھ میں ہی جانتا ہوں۔ کسی دستاویزی فلم یا کسی کابوسی خواب کے نتیجے میں گوشت سے کراہت کا تصور وابستہ ہو جانا کوئی عجوبہ بات نہیں۔ اسی طرح مرکزی کردار یعنی یونگھے کا دھوپ کے مقابل اپنی چھاتیاں ننگی کرنا یا گھر میں کپڑوں کے بغیر رہنا بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ میں خود ایک شخص کو جانتا ہوں جو گھر میں اکیلے ہوتے ہی کپڑوں کے بغیر رہنا پسند کرتا تھا اور اُسے اس سے مکمل آزادی اور فطرت کے قریب تر ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ یونگھے کا مسئلہ اس لیے قدرے تکلیف دہ ہے کہ وہ باقاعدہ نفسیاتی تشنج کا شکار ہے اور اپنے موجود سے بے خبر ہو کر اپنی فینتاسی کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔ اس لیے اُس کے دماغ کی ٹیڑھ میں اضافہ ہونا اور اس بنیاد پر اُس کی زندگی سے جُڑے کرداروں کا ردِعمل الگ اور مثالی محسوس ہوتا ہے۔
اس ناول کا نام بھٹکا دینے والا ہے۔ اس کے پہلے باب کا مطالعہ کرتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ شاید یہ ایک شاکا ہاری بیوی کے باعث ایک گوشت خور خاوند کی عذاب ہوتی چلی جاتی زندگی کی کتھا ہے مگر اگلے ہی باب میں یہ کتھا ایک مختلف روپ اختیار کر لیتی ہے اور ایک مصور اور اُس کے ماڈل بل کہ معمول کے بیچ کی نفسیاتی کشمکش کا روپ اختیار کر لیتی ہے جس کے وقوع پذیر ہونے کی ساری صورتِ حال یونگھے کی سطح پر بالکل فطری اور بڑی حد تک غیر ارادی محسوس ہوتی ہے، ہاں اس حصے کے مرد کردار کے حوالے سے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا رہا ہے یا ایک تخلیقی مکاشفے کو بصری صورت دینے کی کوشش میں خود بھی معمول بن گیا تھا اور ناول کا تیسرا باب ’’فروزاں شجر‘‘ تو عجب طرح کی کیفیت کا مظہر ہے۔ میر درد کی شاعری کا مرکزی کردار یعنی عاشق تو داغوں کی وجہ سے سروِ چراغاں بنا تھا مگر یہاں اُس کا سبب وجود میں پھیلتی ہوئی اور اُکل و شرب اور متوازی راستے پر آگے بڑھتی دنیا سے کنارہ کشی اور خود کو نباتات سے ہم آہنگ بل کہ اُن میں سے ایک محسوس کرنے کا جہنمی گُمان ہے جو بظایر عجیب مگر اپنی کّنہ میں ایک حقیقت ہے۔
اس ناول کا اردو ترجمہ اسما حسین نے کیا ہے اور غالباً ڈیبورا اسمتھ کے انگریزی ترجمے سے۔ ویجیٹیرین کا ترجمہ سبزی خور بھی ہو سکتا تھا مگر شاید مترجم کو ’’شاکا ہاری‘‘ ترکیب زیادہ خوش آئی ہو۔ ممکن ہے یہ ہندوستانی مارکیٹ میں ترجمے کی مانگ پیدا کرنے کی کوشش ہو، جو بھی ہے، ترجمے کا معیار عمدہ ہے اور بیانیے کی روانی قابلِ قدر۔ سُنا ہے کہ ہان کانگ کے اُسلوب کی خوبی اور انفرادیت اُس کی شاعرانہ زبان ہے۔ یہ اُسلوب کتنا دل کش ہے اور ترجمے میں اس کا حُسن منتقل ہو سکا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ کہنا دشوار ہے کہ ہم ناول کی اصل زبان کی شُد بُد نہیں رکھتے مگر ترجمے کی روانی اور بیانیے کے گُتھے ہوئے ہونے کی خوبی یقیناً لائقِ تحسین ہے۔
جرمنی میں مقیم ہمارے دوست رشی خان کو یہ ناول پسند نہیں آیا اور وہ اسے نوبل پرائز دینے کی کوئی وجہ تلاش نہیں کر پائے (ممکن اس کی وجہ اس کا اختصار ہو)۔ میں اُن سے متفق نہیں مگر ان کی رائے کی تردید کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتا۔ ادب اب حظ اُٹھائے سے زیادہ رنج اور تکلیف بانٹنے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ وہ اسرار بھری تہذیبی جدلیات ہے جو ہمارے نہ چاہنے اور لاتعلقی کے باوجود ہمارے وجود کا حصہ بن رہی ہے اور کئی طرح کے وجودی بحرانوں کو جنم دے رہی ہے۔ یونگھے بھی ایسے ہی ایک وجودی بحران کا شکار ہے اور اس سے نکلنے اور اس سے بھی زیادہ نکالے جانے کی کوشش میں لہو لہان ہوتی چلی جاتی ہے مگر اسے نجات دلانے کی طاقت کسی ڈاکٹر کے پاس ہے نہ انحے اور اس کے شوہر کے پاس جو یونگھے کے بدن پر ہم اہنگ رنگوں سے پھول بنانے کا ہُنر تو جانتا ہے مگر اُس کے مٹّی میں جڑوں کی طرح پنپنے کی خواہش رکھنے والے وجود کو دوبارہ انسان کی جون میں لانے پر قادر نہیں۔
:::
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
Authors
-
غلام حسین ساجد یکم دسمبر ۱۹۵۱ء کو بستی کبیر سنپال تحصیل میاں چنوں میں مہر سجاول خاں کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جراحی اور پکا حاجی مجید میں پائی۔ ثانوی تعلیم ایم سی ہائی سکول میاں چنوں، انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ کالج ساہیوال، بی اے گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور اور ایم اے(پنجابی) اور ایم اے( اردو) پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے کیے۔ ۱۹۷۸ء میں محکمہ تعلیم پنجاب سے وابستہ ہوئے۔ چھے برس مرکز تحقیق و ترقیٔ نصاب لاہور میں کام کرنے کے بعد اردو کے استاد کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج آف سائنس ملتان چلے گئے، پھر گورنمنٹ کالج ملتان(اب ایمرسن یونیورسٹی)سے وابستہ رہے۔۱۹۷۷ء میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور آئے اور وہاں سے ۲۰۱۲ ء میں بحثیت صدر شعبہ ریٹائر ہوئے، بعد میں کچھ برس پنجاب ٹیکسٹ بورڈ لاہور کی نصابی جائزہ کمیٹی کے رکن اور صوبائی اور مرکزی سطح کی نصاب سازی کا فعال حصہ رہنے کے بعد آج کل کُل وقتی ادیب ہیں اور اپنا وقت پڑھنے لکھنے میں گزارتے ہیں۔ غلام حسین ساجد شاعر، افسانہ نگار، خاکہ نگار اور نقاد ہیں۔ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں تخلیقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب تک ان کی یہ کتب شائع ہو چکی ہیں: ۱۔ دُنیا پھرے غمازی( پنجابی شاعری)،ناشر:پنجاب ادبی مرکز،لاہور(۱۹۷۸ء)؛ ۲۔نئی پاکستانی نظم۔نئے دستخط، ناشر:معیار پبلی کیشنز، دہلی(بھارت)(۱۹۸۲ء)؛ ۳۔موسم(اردو شاعری)،ناشر:خالدین، لاہور(۱۹۸۵ء)؛ ۴۔نئی پاکستانی غزل-نئے دستخط، ناشر:خالدین،لاہور(۱۹۸۶ء)؛ ۵۔عناصر(اردو شاعری)، ناشر:اورینٹ پبلی کیشنز،لاہور(۱۹۹۳ء)؛ ۶۔تائید(اردو تنقید)، ناشر:اورینٹ پبلی کیشنز،لاہور(۱۹۹۶ء)؛ ۷۔پانی رمز بھرے(شاعری)، ناشر:سرائیکی ادبی بورڈ،ملتان(۱۹۹۶ء)؛ ۸۔مُہاندرے(پنجابی خاکے)،ناشر:پنجابی ادبی بورڈ،لاہور(۱۹۹۷ء)؛ ۹۔کتابِ صبح(اردو شاعری)،ناشر:سارنگ پبلی کیشنز،لاہور(۱۹۹۸ء)؛ ۱۰۔اردو شاعری کلاسیکی عہد میں(مرتبہ تنقید)،ناشر:اورینٹ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۰۲ء)؛ ۱۱۔بیلے وچ چڑیاں(پنجابی شاعری)،ناشر:سچیت پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۰۳ء)؛ ۱۲۔آیندہ(اردو شاعری)، ناشر:قوسین، لاہور(۲۰۰۴ء)؛ ۱۳۔اردو ادب بیسویں صدی میں(مرتبہ تنقید)، ناشر:اورینٹ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۰۵ء)؛ ۱۴۔معاملہ(اردو شاعری)،ناشر:اورینٹ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۰۶ء)؛ ۱۵۔نیندر بِھنی رات( کہانیاں)،ناشر:سانجھ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۰۶ء)؛ ۱۶۔سرسوتی توں راوی تائیں(پنجابی شاعری)،ناشر:سانجھ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۰۷ء)؛ ۱۷۔بانے(پنجابی شاعری)، ناشر:سانجھ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۱۰ء)؛ ۱۸۔کسے سُفنے دے نال(پنجابی شاعری)، ناشر:سانجھ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۱۱ء)؛ ۱۹۔نیند میں چلتے ہوئے(اردو شاعری)،ناشر:سانجھ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۱۲ء)؛ ۲۰۔مونجھ اُسارے محل(پنجابی شاعری)، ناشر:سانجھ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۱۴ء)؛ ۲۱۔چہار دریا(اردو شاعری)،ناشر:سانجھ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۱۶ء)؛ ۲۲۔مزامیر(کلیات اردو شاعری۔جلد اول)،ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز،کراچی(۲۰۱۸ء)؛ ۲۳۔ہست و بُود(اردو شاعری)،ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز،کراچی(۲۰۱۸ء)؛ ۲۴۔اعادہ(اردو شاعری)،ناشر:سانجھ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۱۹ء)؛ ۲۵۔حقیقت(اُردو شاعری)،ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز،کراچی(۲۰۲۰ء)؛ ۲۶۔باغ و راغ(اردو تنقید)،ناشر:کتاب ورثہ،لاہور(۲۰۲۱)؛ ۲۷۔کتابیں اور یادیں(اردو تنقید)،ناشر:کتاب ورثہ،لاہور(۲۰۲۱ء)؛ ۲۸۔گُلِ سیمیا(اردو شاعری)،ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز،کراچی(۲۰۲۲ء)؛ ۲۹۔کن دے گُن(پنجابی شاعری)،ناشر:سلیکھ پبلی کیشنز،لاہور(۲۰۲۲ء)؛ ۳۰۔تجاوز(ارودو شاعری)،ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز،کراچی(۲۰۲۳ء)؛ ۳۱۔مزامیر(کلیات اردو شاعری۔جلد دوم)،ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز،کراچی(۲۰۲۴ء)؛ ۳۲۔باغِ نشاط کی طرف(۲۰۲۴ء)۔ غلام حسین ساجد کو ان کی تخلیقات پر بے شمار اعزازات سے بھی نوازا گیا: ۱۔مسعود کھدر پوش ایوارڈ سات مرتبہ حاصل کیا: برائے سال۱۹۹۷ء، ۲۰۰۳ء، ۲۰۰۶ء، ۲۰۰۷ء، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء، اور ۲۰۱۶ء؛ ۲۔ گورو نانک وجدان ایوارڈ پانچ مرتبہ برائے سال ۲۰۱۱ء،۲۰۱۲ء، ۲۰۱۴ء، ۲۰۱۶ء، اور ۲۰۱۸ء۔ ورلڈ پنجابی فورم ایوارڈ برائے سال ۲۰۱۱ء و سال ۲۰۱۴ء۔ پاکستان رائٹرز گلڈ ایورڈ، ۲۰۰۶ء۔ پنجابی ادبی لہر ایوارڈ، ۲۰۰۷ء۔ پلاک ایوارڈ، ۲۰۲۲ء۔ رضیہ فرخ کہانی مانتا ایوارڈ، ۲۰۰۶ء۔ وارث شاہ ایوارڈ، اکادمی ادبیات پاکستان ۲۰۲۲ء ۔ علامہ اقبال ایوارڈ، اکادمی ادبیات پاکستان ۲۰۲۳ء۔ نیز وہ حلقہ اربابِ ذوق کے ۱۹۷۵ء میں رکن بنے اور بعد ازاں بطور سیکریٹری حلقہ ۲۰۱۷ء و ۲۰۱۸ء فرائض سرانجام دیے اور مجلسِ عاملہ کے رکن بھی سال ۱۹۸۱ء، ۲۰۱۹ء اور سال ۲۰۲۱ء تا حال(۲۰۲۵ء) ہیں۔
View all posts -
ادب کے نوبیل انعام ۲۰۲۴ء کا اعلان کرتے ہوئے منصفین نے ہن کانگ کو نوبیل انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کِیا: ’’اُن کی پُرزور شاعرانہ نثر کے لیے جو تاریخی صدمات کا مقابلہ کرتی ہے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی کو عیاں کرتی ہے۔‘‘ وہ نوبیل انعام پانے والی پہلی کوریائی شاعرہ/ مصنفہ ہیں جب کہ کل نوبیل جیتنے والے کل ۱۱۹ شعرا و ادبا میں سترھویں خاتون ہیں — اُن سے قبل ۱۶ خواتین یہ اعزاز حاصل کر چکی ہیں — اور ایشیا سے نوبیل انعام کے فاتحین میں اُن کا نمبر نواں ہے۔ ہن کانگ ۲۷ نومبر، ۱۹۷۰ء کو جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں پیدا ہوئیں مگر نو سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سیول منتقل ہو گئی تھیں۔ اُن کا اپنا ایک ادبی پس منظر ہے۔ اُن کے والد ایک نامور ناول نویس تھے۔ اپنے لکھنے پڑھنے کے کام کے ساتھ ساتھ، اُنھوں نے اپنے آپ کو فنونِ لطیفہ اور موسیقی کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے، جس کی عکاسی اُن کے تمام ادبی کاموں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ہن کانگ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۹۳ء میں ’’ادب اور معاشرہ‘‘ نامی کوریائی میگزین میں متعدد نظموں کی اشاعت سے کیا۔ اُن کی نثر کی شروعات ۱۹۹۵ء میں افسانوی مجموعے ’’یوہسُو کی محبت‘‘ سے ہوئی (یوہسُو ، جنوبی کوریا کا ایک ساحلی شہر)۔ جس کے فوراً بعد اُن کے بہت سے نثری کام، ناول اور افسانوں کے مجموعے منصۂ شہود پر آئے۔ جن میں سے قابل ذکر ناول ’’تمھارے یخ ہاتھ‘‘ ۲۰۰۲ء ہے۔ اِس میں فنونِ لطیفہ میں ہن کانگ کی دلچسپی کے واضح آثار موجود ہیں۔ یہ ناول ایک لاپتہ مجسمہ ساز کے، جو خواتین کے بدنوں کےمجسمے پلاسٹر آف پیرس سے بنانے کا جنونی ہے، اپنے پیچھے چھوڑے گئے ایک مخطوطہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اِس میں انسانی علم الاعضا اور شخصیت و تجربے کےمابین کھیل کا استغراق ہے، جہاں مجسمہ ساز کے کام میں ایک تنازع جنم لیتا ہے کہ جسم کیا ظاہر کرتا اور کیا چھپاتا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے آخر میں ایک جملہ واضح اصرار کرتا ہے: ’’زندگی ایک پاتال پر تنی ہوئی چادر ہے، اور ہم اِس پر نقاب پوش بازی گروں کے مانندرہتے ہیں۔‘‘ ہن کانگ کو نمایاں بین الاقوامی شہرت ۲۰۰۷ء میں اشاعت پذیر ہونے والے اُن کے ناول ’’سبزی خور‘‘ سے ملی جس کا ۲۰۱۵ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ ’’دی ویجیٹیرین‘‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ تین حصوں پر مشتمل اِس ناول میں اُن متشدد عواقب کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اُس وقت رونما ہوتے ہیں جب ناول کی مرکزی کردار ییونگ ہائے کھانا کھانے کی مروجہ اقدار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ اس کے گوشت نہ کھانے کے فیصلے پر مختلف، یکسر مختلف رد ِّعمل سامنے آتے ہیں۔ اُس کے رویے کو اُس کا شوہر اور جابر باپ دونوں سختی سے مسترد کر دیتے ہیں، اور اُس کے بصری فنکار (ویڈیو آرٹسٹ) بہنوئی کے ہاتھوں اُس کا شہوانی و جمالیاتی استحصال ہوتا ہے جو اُس کے غیر فعال جسم کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بالآخر، اُسے ایک نفسیاتی علاج گاہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے، جہاں اُس کی بہن اُسے بچانے اور اُسے ’’معمول کی زندگی‘‘ میں واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم ییونگ ہائے ایک گہری نفسیاتی کیفیت میں مزید ڈوب چکی ہوتی ہے جس کا اظہار ’’بھڑکتے ہوئے درختوں‘‘ (درختوں کی ایک قسم، جس کے پتے گہرے سرخ اور بڑے ہوتے ہیں جس سے یوں لگتا ہے جیسے اُس میں آگ بھڑکی ہوئی ہو۔ یہ درختوں کی سلطنت کے بادشاہی کی علامت بھی ہے اور یہ جتنا دلکش دکھائی دیتا ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہوتا ہے۔) کی علامت کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ایک اور پلاٹ پر مبنی کتاب ’’ہَوا چلتی ہے، جاؤ‘‘ہے، جو ۲۰۱۰ء میں منظرِ عام پر آئی اور دوستی اور فن کے بارے میں ایک ضخیم اور پیچیدہ ناول ہے، جس میں دُکھ اور تبدیلی کی آرزو اپنی بھرپور شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہن کانگ کی کہانیوں میں زندگی کی شدتوں کو سہتے جسموں سے ہمدردی کی تصویر کشی کےلیے اُنھیں اپنے بے حد قوی استعاراتی انداز سے تقویت ملتی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ’’یونانی اسباق‘‘- ۲۰۲۳ء، دو غیر محفوظ افراد کے درمیان غیر معمولی تعلق کی ایک دلکش تصویر کشی ہے۔ ایک نوجوان عورت، جو کئی تکلیف دہ تجربات کے بعد اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے،ازمنۂ قدیم کے یونان میں اپنی استاذ سے رابطہ کرتی ہے، جو خود اپنی بینائی کھو رہی ہے۔ اُن کی اِن اپنی خامیوں سے، ایک سوختہ و خستہ محبت پروان چڑھتی ہے۔یہ ناول خسارے، قربت اور زبان کے حتمی حال و قال کے چوگرد ایک خوبصورت مراقبہ ہے۔ کوریائی زبان میں ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والے ناول ’’انسانی افعال‘‘، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۶ء میں ’’ہیومن ایکٹس‘‘کے عنوان سے ہوا، میں اِس مرتبہ ہن کانگ نے اپنی سیاسی بنیاد کو برتتے ہوئے ایک تاریخی واقعہ پیش کِیا جو گوانگجو شہر میں پیش آیا تھا، جہاں وہ خود پلی بڑھی اور جہاں سینکڑوں طلبہ اور غیر مسلح شہریوں کا ۱۹۸۰ء میں جنوبی کوریا کی فوج نے قتلِ عام کِیا تھا۔ تاریخ کے متأثرین کی آواز بننے کی کاوش میں، وہ اپنے اِس ناول میں اِس واقعہ کو سفاکانہ حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کرتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، ادبی گواہی کی صنف تک پہنچتی ہیں۔ ہن کانگ کا انداز، جتنا بصیرت آمیز ہے اُتنا ہی جامع و مختصر بھی۔ اس کے باوجود ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا جس کی خاص مصلحت یہ ہے کہ مُردوں کی روحوں کو اُن کے بدنوں سے جدا ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی فنا کا خود مشاہدہ کر سکیں۔ کچھ خاص مقامات پر، ناقابلِ شناخت لاشوں کے نظر آنے پر جنھیں کفن دفن نصیب نہیں ہوا ہوتا، متن سوفوکلس کے اینٹی گون کے مرکزی خیال سے رجوع کرتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ہن کانگ کا اگلا پڑاؤ تھا: ’’سفید کتاب‘‘۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں اگلے ہی برس ۲۰۱۷ء میں ’’سفید کتاب‘‘ کے عنوان سے ہو گیا۔اِس ناول میں ایک بار پھر ہن کانگ کا شاعرانہ اندازحاوی نظر آیا۔ یہ کتاب اُس شخص کے نام انتساب کی گئی ہے جو اپنی بڑی بہن کا خود بیانیہ ہو سکتا تھا، لیکن وہ تو پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی چل بسی تھی۔ مختصر وضاحتوں کی ترتیب میں، جو تمام تر سفید اشیاء کے بارے میں ہیں جنھیں ایک لڑی میں پرویا گیا ہے کہ سفید رنگ غم و حزن کا رنگ ہے۔ یہی چیز اِسے ایک ناول کم اور ایک قسم کی ’’سیکولر دعائیہ کتاب‘‘ کا درجہ دیتی ہے، جیسا کہ یہی بیان بھی کیا گیا ہے۔ اگر راوی کی، یہ توجیہ راوی ہی پیش کرتا ہے، خیالی بہن کو زندہ رہنے دیا جاتا تو وہ خود بھی اپنے آپ کو وجود میں نہ آنے دیتی۔ مرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ، جس پر کتاب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے: ’’اُس سفید کے اندر، اُن تمام سفید چیزوں میں، مَیں اپنی آخری سانس اُس سانس میں لوں گا جو تم نے خارج کی تھی۔‘‘ ہن کانگ کی ایک اور خاص تخلیق اُن کا ۲۰۲۱ء میں منصۂ شہود پر آنے والا تازہ ترین ناول ’’ ہم جدا نہیں ہوتے ‘‘ الم و حزن کی تصویر کشی کے حوالے سے گہرے طور پر ’’ سفید کتاب ‘‘سے جڑی ہوئی ہے۔اِس کی کہانی ۱۹۴۰ء کی دہائی کے اواخر میں جنوبی کوریا کے جزیرے جیجو پر ہونے والے ایک قتل عام کو سامنے لاتی ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کو، جن میں بچّے اور بوڑھے بھی شامل تھے، محض ساتھی ہونے کے شبہ میں گولی مار دی گئی۔ اِس ناول میں راوی اور اُس کے دوست اِنسیون کی مشترکہ سوگ منانے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ دونوں اِس سانحے کے کافی عرصے بعد تک اپنےعزیز و اقارب کی بربادی کے صدمے کو برداشت کرتے ہیں۔ تخیل کے ساتھ، جو کہانی کے عین اُتنا ہی مطابق ہے جتنا کہ کثیف، ہن کانگ نہ صرف ماضی کی طاقت کو حال پر منتج کرتی ہیں بلکہ اتنی ہی قوت کے ساتھ وہ دوستوں کی اُن بے لوث کوششوں کو منظر عام پر لانے کے لیےکھوج بھی لگاتی ہیں جو اجتماعی غفلت کا شکار ہوئیں۔ اِس طرح یہ اُن دونوں دوستوں کا ایک مشترکہ آرٹ پروجیکٹ میں صدمہ بن جاتا ہے، جو کتاب کو اِس کا عنوان فراہم کرتا ہے۔ دوستی کی گہری ترین شکل کی صورت میں یہ ناول جتنا وراثتی المیے کو بیان کرتا ہے اُتنا ہی ڈراونے خوابوں کو بھی اور ادبی گواہی کی حق گوئی کے رجحان کے درمیان بڑی اصلیت کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ ہن کانگ کے تمام کام کی خصوصیت الم و حزن کی ایسی دوہری تصویر کشی عبارت ہے جو مشرقی سوچ سے قریبی تعلق کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی اذیت کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ۲۰۱۳ء کے ناول ’’رُوبہ صحت‘‘ میں ٹانگ کا السر شامل ہے جو ٹھیک ہونے سے انکار کرتا ہے، اور مرکزی کردار اور اس کی مردہ بہن کے مابین ایک تکلیف دہ رشتہ۔ کوئی حقیقی صحت یابی کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتی، اور درد ایک بنیادی وجودی تجربے کے طور پر ابھرتا ہے جسے کسی گزرتے ہوئے عذاب میں کسی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔ ’’سبزی خور‘‘ جیسے ناول میں بھی کوئی سادہ سی وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔ جب کہ اِس ناول میں منحرف عمل اچانک اور دھماکہ خیز طور پر صاف انکار کی صورت میں ہوتا ہے، جس میں مرکزی کردار خاموش رہتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کی مختصر کہانی، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۹ء میں ’’یوروپا‘‘کے عنوان سے ہوتا ہے، ایک ایسے مرد راوی کو سامنے لاتی ہے جو اپنے آپ کو عورت کے بھیس میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایک چیستاں عورت کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے جو ایک ناممکن شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ بیانیہ خود تو چپ رہتا ہے لیکن جب اُس کی محبوبہ دریافت کرتی ہے: ’’اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوتے تو آپ اپنی زندگی کا کیا کرتے؟‘‘ لیکن یہاں تکمیل یا کفارہ کی کوئی گنجائش نہیں ملتی۔ ہن کانگ اپنی تخلیقات میں، تاریخی سانحات اور پوشیدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ مبارزت اور اپنی ہر لکھت میں انسانی زندگی کی بے ثباتی کو کھول کر بیان کرتی ہیں۔ وہ جسم اور روح، زندہ اور مردہ کے درمیان رشتے کے بارے میں ایک منفرد آگہی رکھتی ہیں، اوراُنھوں نے اپنے آپ کو اپنے شاعرانہ اور تجرباتی انداز میں عصری نثر میں ایک اختراعی کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔
View all posts