تراجم عالمی ادب

ہن کانگ  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نوبیل خطبہ

روشنی اور دھاگہ

ہن کانگ

Han Kang

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

وشد احساسات  کو، جو میں ایک فانی وجود کے طور پر محسوس کرتی ہوں، جملوں میں   سمونے  کے لیے اپنے بدن کا لہو شامل کرتی ہوں۔

ہن کانگ

ہن کانگ  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نوبیل خطبہ

روشنی اور دھاگہ

ہن کانگ

Han Kang

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

وشد احساسات  کو، جو میں ایک فانی وجود کے طور پر محسوس کرتی ہوں، جملوں میں سمونے  کے لیے اپنے بدن کا لہو شامل کرتی ہوں۔

ہن کانگ

[ہن کانگ نے ۷ دسمبر ۲۰۲۴ء  کو سٹاک ہوم میں سویڈش اکیڈمی میں اپنے نوبیل انعام برائے ادب   پر خطبہ دیا۔ ان کا تعارف سویڈش اکیڈمی کے مستقل سیکرٹری میٹس مالم نے کرایا۔]

گزشتہ جنوری میں ایک پیش آمدہ کام کے سلسلے میں اپنے  گودام میں کی چھان پھٹک کرتے ہوئے مجھے جوتوں کا ایک پرانا ڈبہ دکھائی  دیا۔ میں نے ڈبہ  کھولا تو اس میں مجھے اپنے بچپن کی کئی ڈائریاں ملیں۔ جرائد کے ڈھیر کے درمیان ایک کتابچہ تھا، جس کے سامنے کے رخ پر ’’نظموں کی ایک کتاب‘‘ کے الفاظ   پینسل سے لکھے ہوئے تھے۔ کتابچہ پتلا تھا: کھردرے A5 کاغذ کے پانچ اوراق وسط سے موڑ کر  اسٹیپلز سے جوڑے ہوئے۔ میں نے عنوان کےنیچے دو آڑھی ترچھی لکیریں لگائی ہوئی تھیں۔ ایک لکیر  بائیں سے چھ حصوں میں بلندی کی طرف  جا رہی تھی  تو دوسری سات حصوں میں دائیں سمت  جھکی ہوئی تھی۔ کیا یہ کسی نوع  کا  سرورق تھا؟ یا محض ایک آڑھا ترچھا خاکہ؟ سن ۱۹۷۹ء اور میرا نام  اس کتابچے کے عقبی حصے پر لکھے ہوئے  تھے ۔ اس کے اندرونی اوراق پر کل آٹھ نظمیں اسی صاف ستھری لکھائی میں ، جو سرورق اور پشت پر تھی، پنسل سے لکھی ہوئی تھیں۔ علی الترتیب آٹھ مختلف تاریخوں نے ہر صفحے کے نچلے حصے کو  نشان زد کر رکھا تھا۔  آٹھ سال کی عمر میں میری اپنی   لکھی ہوئی  وہ سطریں مناسب طور پر معصوم اور بے رونق سی تھیں، لیکن اپریل کی ایک نظم نے میری نگاہیں ہلنے نہیں دیں۔ اس کا آغاز درج ذیل اشعار سے ہوتا تھا:

کہاں ہے محبت؟

میرے دھک دھک کرتے دل میں ۔

کیا ہے محبت ؟

ہمارے دلوں کو جوڑنے والی طلائی تار۔

چشم زدن میں،  میں چالیس برس  پیچھے پہنچ گئی  کہ اس کتابچے کو جوڑنے میں بیتنے والی اس سہ پہر یادیں لوٹ آئیں۔ میری چھوٹی اور موٹی پنسل  جس کے ساتھ اضافی بال پوائنٹ بھی تھا، جھاڑن، ایک بڑا  سا دھاتی سٹیپلر جو میں نے اپنے والد کے کمرے سے چوری چھپے اٹھایا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ ہمارے خاندان  کی سیئول منتقلی  کے بارے میں آگاہ ہونے کے بعد میرے اندر کاغذ کی پرچیوں، سکول کے کام کی کاپیوں یا کسی جریدے کے اندراجات کے درمیان میں لکھی ہوئی اپنی ان نظموں کو اکٹھا کرنے کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔ مجھے اپنی ’’نظموں کی کتاب‘‘مکمل ہونے کے بعد کسی کو اسے کسی کو  نہ دکھانے کا ناقابل فہم احساس بھی یاد آیا۔

ڈائریوں اور کتابچے کو جوں کا توں واپس رکھنے انھیں بند کرنے سے قبل، میں نے اپنے فون سے اس نظم کی تصویر کھینچی۔ میں نے یہ کام بِلا  احساس  کیا کہ اس وقت کے میرے ان  کچھ الفاظ میں اور جو آج  میں ہوں کے مابین کوئی تسلسل  ہے۔ میرے سینے کے اندر، میرے دل کی دھڑکن میں، ہم سب کے دلوں کے بیچ ، جوڑنے والے دھاگے کی ایک تار ہے ایک ایسی تار جس سے روشنی پھوٹتی ہے۔

*

چودہ سال بعد، اپنی  پہلی نظم اور پھر اگلے برس اپنی پہلے افسانے کی اشاعت سے میں مصنف بن گئی۔ پھر  اگلے   پانچ برسوں کے بعد  میں  نے اپنا پہلا طویل افسانوی کام  شائع کروایا جسے میں نے لگ بھگ تین سال کے عرصے میں لکھا تھا۔ مجھے شاعری اور افسانے لکھنے میں دلچسپی تھی، اور رہے گی، لیکن ناول لکھنے میں  میرے لیے  ایک خاص کشش  ہے۔ میری کتابیں مجھے ایک سال سے لے کر سات سال تک کے لیے کھینچ کر  اپنی تکمیل کی خاطر کہیں سے  کہیں لے جاتی رہی ہیں، جن کے لیے میں نے اپنی ذاتی زندگی کے خاصے معقول حصوں کا تبادلہ کیا۔ یہی چیز مجھے کام کی طرف راغب کرتی ہے۔ جس طرح سے میں غور کر سکتی ہوں، اور ان میں رہ سکتی ہوں، وہ سوالات جو مجھے ضروری اور فوری توجہ کے حامل لگتے ہیں ہیں، اتنے کہ میں تجارت کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہوں۔

جب بھی  کسی ناول پر کام کرتی ہوں تو  ہر مرتبہ سوالات کو سہتے ہوئے ان کے اندر بستی ہوں۔ جب میں ان سوالوں کے اختتام پر پہنچتی ہوں جب میں ان کے جوابات تلاش لیتی  ہوں تو وہ اختتام ویسا نہیں ہوتا  بلکہ وہ ہوتا ہے جب میں تحریری عمل کے اختتام پر پہنچتی ہوں۔ تب تک، میں ویسی نہیں رہتی جیسی میں آغاز کے وقت تھی، اور اس بدلی ہوئی حالت سے، میں دوبارہ شروع کرتی ہوں۔ اگلے سوالات کا ، زنجیر کی کڑیوں یا  ڈومینو  کے مانند، انھیں ڈھانپتے اور ان میں شامل ہوتے  اور جاری رکھتے ہوئے تعاقب کرتی ہوں، اور میں کچھ نیا لکھنے کا جذبہ اپنے اندر پاتی ہوں۔

۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۵ء کے دوران اپنے  تیسرے ناول سبزی خور کو لکھتے ہوئے، میں کچھ دردناک سوالات کے ساتھ بسر کر رہی تھی: کیا کوئی شخص مکمل طور پر بے قصور ہو سکتا ہے؟ ہم تشدد کو کس حد تک مسترد کر سکتے ہیں؟ جو انسان کہلانے والی نسل سے اپنے تعلق کا استرداد کرتا ہے اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

تشدد سے انکاری ہوتے ہوئے گوشت نہ کھانے کا انتخاب کرنا، اور بالآخر پانی کے علاوہ  کھانے پینے کی تمام چیزوں  سے اس  یقین کی بناء پر  انکار کر دیتی ہے کہ  وہ ایک پودے میں تبدیل ہو گئی ہے۔  سبزی خور کی مرکزی کردار ییونگ ہئے اپنے آپ  کو ایسی ستم ظریفانہ صورتحال میں پاتی ہے کہ وہ  اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں موت کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ییونگ ہئے  اور اس کی بہن اِن ہئے، جو دراصل شریک مرکزی کردار ہیں،  بھیانک خوابوں اور شکست و ریخ کے واسطے سے بے آواز چیختی چلاتی ہیں، لیکن آخری دم تک ایک دوسرے کے  ساتھ رہتی ہیں۔ میں نے آخری منظر ایک ایمبولینس میں ترتیب دیا، جیسا کہ مجھے امید تھی کہ ییونگ ہئے  اس کہانی کی دنیا میں زندہ رہے گی۔ گاڑی چمکیلے سبز پتوں تلے پہاڑی سڑک پر دوڑتی ہے جب کہ اس کی بڑی بہن کھڑکی سے باہر  چوکس چوکنا  حالت میں تک رہی ہے۔ شاید وہ  جواب کی منتظر ہے، یا شاید احتجاجاً۔ پورا ناول  ایک سوالیہ کیفیت میں رہتا ہے۔ گھورنا اور مزاحمت کرنا۔ جواب کا انتظار کرنا۔

سبزی خور کے بعد آنے والا ناول روشنائی اور لہو ان سوالات کا تسلسل قائم رکھتا ہے۔ تشدد سے انکار کرنے کی خاطر زندگی اور دنیا سے انکار کرنا ممکن نہیں۔  بہرحال ہم سب تو پودوں میں کی جون نہیں اپنا سکتے۔ پھر ہم کیسے زندگی کا تسلسل برقرار رکھیں؟ اس پراسرار ناول میں رومن اور اٹالک قسم کے جملوں کی کشمکش اور تصادم ہے  کیوں کہ مرکزی کردار، جو ایک طویل عرصے تک موت کی پرچھائیں سے برسرپیکار  رہی ہے،  یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اس کی سہیلی کی اچانک موت خودکشی نہیں اپنی جان خطرے میں ڈالتی ہے۔ جب میں نے اختتامی منظر لکھا، جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ وہ موت اور تباہی سے نکلنے کے لیے اپنے آپ کو فرش پر گھسیٹ رہی ہے، تو میں اپنے آپ سے یہ سوالات کر رہی تھی: کیا ہمیں آخر کار زندہ نہیں رہنا چاہیے؟ کیا ہماری زندگیوں کو سچائی کی گواہی نہیں دینی چاہیے؟

اپنے پانچویں ناول یونانی اسباق کے ساتھ میں  مزید آگے بڑھی۔ اگر ہمیں اس دنیا  ہی میں بسنا ہے تو کون سے لمحات اس امر کو ممکن بناتے ہیں؟ ایک عورت جو اپنی گویائی کھو چکی ہے اور ایک مرد جو اپنی بینائی کھو رہا ہے جب  پرسکوت  اور تاریک راستے گزر رہے ہوتے ہیں اور جب  ان کی تنہا راہیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ میں اس کہانی میں سپرش لمحات میں شرکت کرنا چاہتی تھی۔ یہ ناول خاموشی اور تاریکی کےوسیلے سے  اپنی دھیمی رفتار سے آگے بڑھتا ہوا اُس مقام پر پہنچتا ہے  جب عورت اپنا ہاتھ بڑھا کر مرد کی ہتھیلی میں چند الفاظ لکھتی ہے۔ اس روشن لمحے میں، جو ابدیت تک پھیلتا ہے، یہ دونوں کردار اپنی شخصیتوں کے نرم گوشوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ میں یہاں جو سوال دریافت  کرنا چاہتی تھی وہ یہ تھا: کیا یہ ہو سکتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہےکہ انسانیت کے نرم ترین پہلوؤں کو مدِنظر رکھتےہوئے،  ان میں بسنے والی ناقابلِ تردید گرمجوشی کو سہارا دے کر، ہم اس مختصر، پرتشدد دنیا میں آخر کار زندگی گزار سکیں؟

اس سوال کے اختتام پر پہنچ کر میں نے اپنی اگلی کتاب پر غوروخوض شروع کیا۔ یہ ۲۰۱۲ء کا موسم بہار  تھا،  ابھی یونانی اسباق کو شائع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں ایک ایسا ناول لکھوں گی جو روشنی اور گرم جوشی کی سمت ایک اور قدم ہو۔ میں اس زندگی میں رنگ بھروں گی  اور دنیا کو گلے لگانے والے کام کو روشن، شفاف احساسات سے مزین کروں گی۔ مجھے جلد ہی ایک موضوع مل گیا اور ابھی پہلے مسودے کے محض بیس صفحات ہوئے تھےکہ  میں ٹھہرنے پر مجبور ہو گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ اندر کی کوئی چیز مجھے یہ ناول لکھنے سے منع کر رہی ہے۔

*

اس وقت تک، میں نے گوانگجو کے بارے میں لکھنے پر غور نہیں کیا تھا۔

میں نو سال کی تھی جب میرے خاندان نے، اجتماعی قتل عام شروع ہونے سے  لگ بھگ چار ماہ قبل، جنوری ۱۹۸۰ء  میں گوانگجو کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ کچھ برسوں کے  بعد، جب میں بارہ سال کی تھی،  کتابوں کی الماری پر ’’گوانگجو فوٹو بک‘‘ کی الٹا پڑا دیکھا اور  اپنے آس پاس کسی بالغ کے  نظر نہ آنے پر اس پر نظر دوڑاائی ۔ اس کتاب میں گوانگجو کے باسیوں اور طلبا کی تصاویر شامل تھیں جنھیں بغاوت کو منظم کرنے والی نئی فوجی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے موٹے ڈنڈوں، سنگینوں اور بندوقوں سے قتل کر ڈالا گیا تھا۔ زندہ بچ جانے والوں اور موت سے ہمکنار ہونے والوں کے خاندانوں کی طرف سے چھپ کر شائع اور تقسیم کی گئی وہ کتاب ایسے وقت میں سچائی کی گواہی دیتی تھی  جب سخت دباؤ کا شکار میڈیا  کے ذریعے سچائی کو مسخ کیا جا رہا تھا۔ بچپن میں، میں نے ان تصویروں کی سیاسی اہمیت کو نہیں سمجھا تھا، اور مسخ شدہ  چہرے میرے ذہن میں انسانوں کے متعلق ایک بنیادی سوال راسخ کر گئے: کیا یہ ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ رویہ ہے؟ اور پھر، یونیورسٹی ہسپتال کے باہر خون کا عطیہ دینے کے انتظار میں لوگوں کی لامتناہی قطار کی تصویر دیکھ کر: کیا یہ ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ سلوک ہے؟ یہ دونوں سوالات آپس میں ٹکرا گئے اور ناقابل مصالحت لگے۔ ان کی عدم مطابقت ایک ایسی گرہ تھی جسے میں ختم نہیں کر سکتی تھی۔

چنانچہ ۲۰۱۲ء  کے موسم بہار کے اس  دن، جب میں نے اپنے ہاتھ کو  ایک روشن، زندگی کی تصدیق کرنے والا ناول لکھنے  پر آمادہ کرنے کی سعی کی تو مجھے ایک بار پھر اس حل طلب مسئلہ کا سامنا تھا۔ میں طویل عرصے سے انسانوں میں گہرے اعتبار کا احساس کھو چکی تھی۔ پھر میں دنیا کو کیسے گلے لگا سکتی تھی؟ مجھے ادراک ہوا  کہ اگر میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں تو مجھے اس ناممکن الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔  مجھ پر  یہ منکشف ہوا تو میں سمجھ گئی کہ اس سے اب تک  گزرنے اور  اب بھی گزرنے کا میرا واحد وسیلہ  بس  لکھنا ہی ہے ۔

میں نے اُس سال کا زیادہ حصہ یہ تصور کرتے ہوئے  اپنے ناول کی خاکہ نگاری میں گزارا کہ گوانگجو میں مئی ۱۹۸۰ء  کا مہینا ایک کتاب کو متشکل کرےگا۔ دسمبر میں، میں نے مانگوول ڈول کے قبرستان کا دورہ کیا۔ دوپہر کا وقت گزر چکا تھا اور ایک دن پہلے ہی شدید برف باری ہوئی تھی۔ بعد ازاں ، جوں ہی روشنی مدہم  پڑی، میں اپنے سینے پر اپنے دل کے قریب ہاتھ رکھ کر منجمد قبرستان سے باہر نکلی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ اگلا ناول گوانگجو کو کسی ناول کا محض ایک جز بنانے کے بجائے بالکل واضح نظر آئے گا۔ میں نے ایک کتاب حاصل کی جس میں ۹۰۰ سے زیادہ  شہادتیں تھیں، اور میں نے اُس میں جمع کیے گئے ایک ایک بیان کو ایک ماہ کے دوران  ہر روز نو گھنٹے تک پڑھتی رہی۔ پھر میں نے نہ صرف گوانگجو کے بلکہ ریاستی تشدد کے دیگر واقعات کو پڑھا۔ پھر، ماضی سے وسیع المطالعگی کرتے ہوئے میں نے دنیا بھر کے  بڑے پیمانے پر اجتماعی قتل کے بارے میں پڑھا جو انسانوں نے پوری دنیا اور پوری تاریخ میں بار بار کیے ہیں۔

میرے ناول کی تحقیق کے اس دور میں اکثر دو سوال میرے ذہن میں سرفہرست رہتے تھے۔ اپنی بیسویں دہائی کے وسط میں، میں نے اپنی  ہر نئی ڈائری کے پہلے صفحے پر یہ سطریں لکھی تھیں۔

کیا حال ماضی کی مدد کر سکتا ہے؟

کیا زندہ مردہ کو بچا سکتے ہیں؟

جوں جوں  میں نے مطالعہ جاری رکھا، یہ واضح ہو گیا کہ یہ ناممکن سوالات تھے۔ انسانیت کے تاریک ترین پہلوؤں کے ساتھ اس مسلسل تصادم سے میں نے محسوس کیا کہ انسانیت پر میرے طویل عرصے سے ٹوٹے ہوئے اعتقاد کی باقیات  کے تاروپود  کاملاً بکھر گئے ہیں۔ میرے پاس ناول کو ترک کر دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ پھر میں نے شبینہ سکول کے ایک نوجوان معلم کی ڈائری کے اندراجات پڑھے۔ ایک شرمیلے اورکم گو نوجوان، پارک یونگ جون، نے مئی ۱۹۸۰ء  میں دس روزہ بغاوت کے دوران میں گوانگجو میں بننے والی خود مختار شہریوں کے ’’مطلق سماج‘‘ میں حصہ لیا تھا۔ اسے صوبائی انتظامیہ کے ہیڈکوارٹر کے  قریب وائی ڈبلیو سی اے کی عمارت میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا،  جہاں اس نے یہ جاننے کے باوجود کہ فوجی صبح سویرے لوٹ آئیں گے  رہنے کا انتخاب کیا تھا۔ اپنی اُس  آخری رات اُس نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا۔ ’’اے خدا، مجھے ایسا ضمیر  کیوں عنایت کیا جو مجھے بے حد چبھتا اور تکلیف دیتا ہے؟ میں جینا چاہتا ہوں۔‘‘

ان جملوں کو پڑھتے ہوئے بجلی کے کوندے کی مانند کے  مجھ پر منکشف ہوا کہ ناول کو کس  سمت جانا چاہیے۔ اور یہ کہ مجھے اپنے  دونوں سوالوں کو الٹ کر دینا ہے۔

کیا ماضی حال کی مدد کر سکتا ہے؟

کیا مردہ زندہ کو بچا سکتے ہیں؟

بعد میں، جب میں لکھ رہی تھی کہ انسانی اعمال  کیا بن جائیں گے تو میں نے بعض لمحات محسوس کیا کہ ماضی واقعی حال کی مدد کر رہا ہے، اور یہ کہ مردہ زندہ لوگوں کو بچا رہے ہیں۔ میں وقتاً فوقتاً قبرستان جاتی  تو معلوم نہیں کیوں ہمیشہ موسم صاف ہوتا۔ میں اپنی آنکھیں موند لیتی، اور سورج کی نارنجی کرنیں میری پلکوں پر چھا جاتیں ۔ میں نے اسے زندگی کی اپنی روشنی کے طور پر محسوس کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ روشنی اور ہوا  نے مجھے اپنی  ناقابل بیان حدت کی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔

تصویروں کی اس کتاب کو دیکھنے کے طویل عرصے کے  بعد بھی  جو سوالات میرے ذہن میں جاگزیں رہے وہ یہ تھے: انسان اتنے متشدد کیسے ہوتے ہیں؟ اور پھر یہ کیسے ممکن ہے  کہ   وہ بیک وقت اتنے زبردست تشدد کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں؟ انسان نامی نسل سے تعلق رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ انسانی ہول ناکیوں اور انسانی عظمت کے ان دونوں نشیب و فراز کے درمیان خالی جگہ کے وسیلے سے مجھے ایک ناممکن طریقے سے مذاکرات کرنے کے لیے مرنے والوں کی مدد کی ضرورت تھی۔ عین ویسے ہی جیسے اس ناول، انسانی اعمال،میں بچہ ،ڈونگ ہو، اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر اسے سورج کی طرف راغب کرتا ہے۔

بلاشبہ، میں مُردوں، سوگواروں، یا زندہ بچ جانے والوں کے ساتھ کیے گئے کو ختم نہیں کر سکتی تھی۔ میں محض اتنا کر سکتی تھی کہ ان کو اپنے جسم میں رواں احساسات، جذبات اور حیات عطا کر سکوں۔ ناول کے آغاز  و انجام میں ایک شمع روشن کرنے کی خواہش میں، میں نے میونسپل جمنازیم میں افتتاحی منظر ترتیب دیا جہاں مرحومین کی لاشیں رکھی اور تجہیز و تکفین کی رسومات ادا کی گئی تھیں۔ وہاں، ہم پندرہ سالہ ڈونگ ہو  کو لاشوں پر براق چادریں ڈالتے اور ہر شعلے  کی نیلگوں گہرائی میں تکتے ہوئے  شمعیں روشن کرتے دیکھتے ہیں۔

اس ناول کا کوریائی عنوان  Sonyeon-i onda ہے۔ آخری لفظ اوندا‘ فعل ’اوڈا‘ کا زمانۂ حال ہے، یعنی ہونے والا۔ جب سونیون، یعنی اے لڑکے،  کہہ کر دوسرے شخص کو مخاطب کیا جاتا ہے تو یہ تم کے معنی دیتا ہے، خواہ وہ آپ کا کوئی قریبی فرد  ہو یا کم قریبی، تو وہ مدھم روشنی میں بیدار ہو کر  حال کی طرف چلنے لگتا ہے۔ اس کے قدم روح کے قدم ہوتے ہیں۔ وہ  نہایت قریب آ کر اب بن جاتا ہے۔ جب ایک خاص زمان و مقام پر، جس کے دوران میں انسانی ظلم اور عظمت  انتہائی متوازی طور پر موجود تھے تو اسے گوانگجو کہا جاتا ہے، تو وہ نام  کسی ایک شہر کے لیے اسم معرفہ نہیں رہ جاتا بلکہ اسم  نکرہ بن جاتا ہے، جو میں نے اس کتاب کو لکھتے ہوئے سیکھا۔ یہ ہمارے پاس آتا ہے — بار بار  زمان و مقام  عبور کر کے، اور ہمیشہ زمانۂ حال  میں۔حتّٰی کہ اب بھی  آتا ہے۔

*

بالآخر ۲۰۱۴ء  کے موسم بہار میں جب یہ کتاب پایۂ تکمیل کو پہنچ کر  شائع ہوئی تو میں قارئین کے اس دکھ  پر ششدر  رہ گئی جس کا انھوں نے اس کی قرأت کے دوران میں محسوس کرنے کا اعتراف کیا۔ مجھے یہ سوچنے میں تھوڑا سا وقت لگا کہ  اس کو ضبطِ تحریر میں لانے کے سارے عمل کے دوران میں مَیں نے جو درد محسوس کیا تھا اور میرے قارئین نے مجھ سے اپنے جس اضطراب کا اظہار کیا وہ آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ اس اذیت کے پیچھے کیا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ کہ ہم اپنا ایمان انسانیت پر  استوار کرنا چاہتے ہیں اور جب وہ ایمان متزلزل ہوتا ہے تو ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہماری  اپنی ذات ہی تباہ ہو رہی ہے؟ کیا یہ کہ ہم انسانیت سےپیار کرنا چاہتے ہیں اور جب یہ محبت  ریزہ ریزہ ہوتی ہے  تو ہم یہ اذیت محسوس کرتے ہیں ؟ کیا محبت دکھ کو جنم دیتی ہے، اور کیا تھوڑا بہت  درد محبت کا ثبوت ہے؟

اسی سال جون کے مہینے میں، میں نے ایک خواب دیکھا۔ ایک ایسا خواب جس میں مَیں ایک وسیع میدان میں یوں چل رہا تھی جیسے ویرل برف گر رہی ہو۔ ہزارہا  ٹنڈمنڈ درختوں میدان میں  پھیلے ہوئے تھے اور ان میں سے ہر ایک کے پیچھے قبر کا  ایک ٹیلہ تھا۔  ایک مرحلے پر جب میں پانی میں قدم دھر  رہی تھی  اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میں نے دیکھا کہ سمندر میدان کے سرے  پردوڑ رہا ہے ، جسے میں نے غلطی سے افق سمجھ لیا۔ میں متحیّر تھی کہ اُس جیسے مقام پر قبریں کیوں تھیں؟  کیا سمندر کے  نزدیکی نشیبی  ٹیلے کی تمام ہڈیاں بہہ نہیں گئی ہوں گی؟ کیا مجھے کم از کم ہڈیوں کو بالائی  ٹیلے  کے اندر منتقل نہیں کردینا چاہیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے؟ لیکن کیسے؟ میرے پاس تو  بیلچہ بھی نہیں تھا۔ پانی میرے ٹخنوں تک پہنچ چکا تھا۔ میری آنکھ کھل گئی، اور جیسے ہی میں نے تاریک کھڑکی سے باہر دیکھا تو  مجھے وجدان ہوا کہ یہ خواب مجھے  کسی اہم چیز سے آگاہ کر  رہا ہے۔ مجھے یاد  پڑتا ہے کہ  خواب کو لکھ لینے کے بعد میں سوچ رہی تھی کہ شاید یہی میرے اگلے ناول کا آغاز ہو۔

مجھے اس بات کا واضح اندازہ نہیں تھا کہ یہ  مجھے کدھر  لے جا سکتا ہے۔ تاہم، میں نے اپنے آپ  کو بہت سی  طاقت ور  کہانیوں کو آغاز  اور  انھیں ردّی کی ٹوکری کی نذر کرتے ہوئے پایا ، جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ اس خواب کی تعبیر ہو سکتی ہیں۔ آخرکار دسمبر ۲۰۱۷ء میں، میں نے جیجو جزیرے پر ایک کمرہ کرائے پر لیا اور  اپنے اگلے دو سال یا  کچھ زیادہ عرصہ جیجو اور سیول کے درمیان گزارا۔ جنگلوں میں، سمندر کے ساتھ، اور گاؤں کی سڑکوں پر چلتے ہوئے، ہر لمحے جیجو کے شدید موسم کو محسوس کرتے ہوئے — اس کی ہوا و روشنی اور برف باری و برسات — مجھے ناول کا خاکہ اپنے ارتکاز میں آتا لگا۔ انسانی اعمال کےمانند، میں نے قتل عام سے بچ جانے والوں کی شہادتوں کا مطالعہ کیا، مواد  کو کھنگالا، اور پھر، سفاکانہ تفصیلات سے نظریں چرائے بغیر  ممکنہ حدود میں رہتے ہوئے میں نے وہ لکھا جسے الفاظ میں بیان کرنا تقریباً ناممکن لگتا تھا،  اور میں نے وہ جو  لکھا وہ  ہم جدا نہیں ہوتے کی صورت اختیار کر گیا۔ یہ کتاب  ان سیاہ درختوں کے ٹھنٹھ تنوں اور ٹھاٹھیں مارتے سمندر والے خواب کے لگ بھگ سات برس بعد شائع ہوئی۔

اس کتاب پر کام کرتے ہوئے میں نے جو نوٹ بک رکھی تھی، اس میں مَیں نے یہ نوٹ بنائے تھے:

حیات اپنا وجود قائم رکھنے کا جتن  کرتی ہے۔ زندگی حرارت ہے۔

مرنے کا مطلب ٹھنڈا ہو جانا ہے۔ چہرے پر  پڑنے والی برف پگھلنے کی بجائے جم جائے۔

مارنے کا مطلب ٹھنڈا کرنا ہے۔

تاریخ میں اور کائنات میں انسان کا وجود۔

ہوا اور سمندر کے دھارے۔ پانی اور ہوا کا مدور بہاؤ جو پوری دنیا کو جوڑتا ہے۔ ہم جڑے ہوئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہم جڑے ہوئے ہوں۔

ناول تین حصوں پر مشتمل ہے۔ اگر پہلا حصہ ایک افقی سفر ہے جو راوی،  کیونگھا،کی پیروی کرتا ہے۔ کیونگھا سیول سے جیجو کے بالائی علاقوں میں اپنی دوست انسیون کے،  جسے شدید برف باری سے پالتو پرندوں کو بچانے کا کام سونپا گیا ہے،  گھر کی سمت سفر ہے تو دوسرا حصہ کیونگھا اور انسیون کو ایک عمودی راہ   پر ،جو انسانیت کی تاریک ترین راتوں میں سے ایک ہے —  ۱۹۴۸ء کے موسم سرما تک جب جیجو  کے شہری ذبح کیے گئے — اور سمندر کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے ۔ تیسرے اور آخری حصے میں، وہ دونوں سمندر کی تہہ میں ایک  شمع روشن کرتے ہیں۔

اگرچہ ناول کو دونوں دوستوں نے آگے بڑھایا کہ جس طرح وہ  شمع کو تھامے  ناول کو موڑ  دیتے ہیں لیکن اس کا اصل مرکزی کردار کیونگھا اور انسیون دونوں سے جڑی ہستی انسیون کی ماں جیونگسِم ہے۔ وہ، جو جیجو پر ہونے والے قتل عام سے بچ گئی تھی، اپنے پیارے کی ہڈیوں کے ایک ٹکڑے کو بھی برآمد کرنے کے لیے لڑی تاکہ وہ مناسب تدفین کر سکے۔ وہ جو ماتم  کنائی کو روک تھام کو مسترد کرتی ہے۔ وہ جو دکھ سہتی کرتی ہے اور غفلت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ وہ جو الوداع نہیں کہتی۔  وہ اپنی  زندگی بِتاتی ہے ، جس میں ایک طویل عرصے تک دکھ تکلیف اور محبت کے ساتھ ساتھ مساویانہ طور کثافت اور حدت بھری ہوئی تھی۔ میرے خیال ہے کہ میں جو سوالات دریافت کر رہا تھی، وہ یہ تھے: ہماری محبت کی حدود و قیود کیا ہیں؟ آخر تک انسان رہنے کے لیے ہمیں کس حد تک محبت کرنی چاہیے؟

*

ہم جدا نہیں ہوتے کے کوریائی ایڈیشن کی اشاعت کے تین سال بعد، میں نے ابھی اپنا اگلا ناول ابھی مکمل کرنا ہے۔ اور جس کتاب کا میں نے سوچا ہے اگلی کتاب وہ ہو گی جو  ایک طویل عرصے سے میری توجہ کی منتظر ہے۔ ایک ایسا ناول ہے جو رسمی طور پر کوری کتاب سے منسلک ہے،  جسے میں نے  اس خواہش کے زیرِ اثر لکھا تھا کہ کاش میں مختصر وقت کے لیے ہی سہی اپنی زندگی اپنی بڑی بہن کو،  جو اپنی پیدائش کےمحض دو گھنٹے بعد ہی دنیا سے رخصت ہو گئی تھی، دے سکتی اور اس نظریہ کے تحت لکھا تھا  کہ ہم اپنے ان حصوں میں جھانکیں جو، خواہ کچھ بھی ہو جائے، اوناشی  و اَٹوٹ رہتے ہیں ۔ ہمیشہ کی طرح، یہ پیش گوئی کرنا  بھی ناممکن ہے کہ کب کیا مکمل ہوگا،  تاہم  میں سست روی سے  لکھتی رہوں گی۔ میں اپنی پہلے سے لکھی ہوئی کتابوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنا کام جاری رکھوں گی۔ تب  تک کہ میں ایک  ایک کونے کھدرے میں چکر لگا کر  یہ نہ دیکھ لوں کہ اب میری بصارت کے سامنے کچھ نہیں آرہا۔ تب تک جب تک میرا عرصۂ حیات مجھے اجازت دیتاہے۔

جیسے ہی میں ان سے دور ہوں گی ، میری کتابیں مجھ سے آزادانہ طور پر اپنی زندگی جتیی رہیں گی اور اپنی منزل کی جانب سفر جاری رکھیں گی۔ عین ان دونوں بہنوں کی طرح ہر وقت اس ایمبولینس کے اندر رہیں گی جیسے گاڑی کے سامنے والے شیشے   کے پار سبز آگ روشن  ہوتی ہے۔ جس طرح کہ وہ عورت جلد ہی اپنی گویائی دوبارہ  پا کر  سکوت اور تاریکی میں اپنی انگلی سے آدمی کی ہتھیلی پر لکھے گی۔ میری بہن کی طرح   جو اس دنیا   میں محض دو گھنٹے گزارنے کے بعد چل بسی تھی اور میری نوجوان ماں جو اپنی بچی کی، اس کے موت تک منتیں کرتی رہی تھی: ’’مت مرو۔ براہِ مہربانی، مت مرو۔‘‘ وہ روحیں کہاں تک جائیں گی — وہ جو میری موندی ہوئی پلکوں کے عقب میں  نارنجی رنگ کی گہری چمک میں بسی ہوئی ہیں، جس نے مجھے اس ناقابلِ بیان گرم روشنی میں لپیٹ رکھا ہے؟  شمعیں کہاں تک  ساتھ دیں گی گی — جو ہر قتل کے مقام پر  روشن کی جاتی ہیں جہاں ہر  زمان و مکان میں شدید تشدد  کر کے لاشیں  گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دی  جاتی ہیں، اور ان لوگوں نے تھامی ہوتی ہیں جو کبھی الوداع نہ کہنے کا عہد کرتے ہیں؟ کیا وہ  طلائی دھاگے پر، شمع ایک  بتی سے دوسری بتی، ایک  دل سے  دوسرے دل تک سواری کرتے ر ہیں گے؟

*

میں نے گزشتہ جنوری میں پرانے جوتوں کے ڈبے سے جو پمفلٹ  نکالا تھا،  جو میرا اپنا ماضی تھا، سن ۱۹۷۹ء کا رقم کیا ہوا،  اس میں  اپنے آپ سے پوچھا تھا:

کہاں ہے محبت؟

کیا ہے محبت؟

جبکہ ۲۰۲۱ء  کے خزاں تک، جب ہم جدا نہیں ہوتے شائع ہوا تھا، میں نے ان دو مسائل کو اپنی اصل میں سمجھا تھا:

دنیا اتنی پرتشدد اور دردناک کیوں ہے؟

اور پھر بھی دنیا اتنی خوبصورت کیسے ہو سکتی ہے؟

ایک طویل عرصے تک، میں سمجھتی رہی کہ ان جملوں کے درمیان تناؤ اور اندرونی کشمکش ہی میری تحریر کا محرک ہے۔ میرے پہلے ناول سے لے کر میرے تازہ ترین ناول تک، میرے ذہن میں جو سوالات تھے وہ  اپنے مقام بدلتے اور کھلتے رہے، تاہم صرف دو  سوالات مستقلاً برقرار رہے۔ لیکن دو تین سال پہلے مجھے شکوک و شبہات گھیرنے لگے۔ ۲۰۱۴ء کے موسم بہار میں انسانی اعمال کی کوریائی اشاعت کے بعد کیا میں نے واقعی اپنے آپ سے محبت کے بارے میں  ہمیں جوڑنے والے اس درد کے بارے میں  پوچھنا شروع کیا تھا ؟ میرے ابتدائی ناول سے لے کر تازہ ترین تک، کیا میرے استفسار کی گہری پرت ہمیشہ محبت کی طرف جھکی نہیں رہی تھی؟ کیا یہ ممکن رہا ہو کہ محبت ہی درحقیقت میری زندگی کی  ازلی اور بنیادی بات رہی ہو؟

بچی نے اپریل  ۱۹۷۹ء میں لکھا تھا : محبت ایک نجی مقام پر واقع ہے جسے ’میرا دل‘ کہا جاتا ہے۔ (میرے دھک دھک کرتے دل میں ۔) اور جہاں تک محبت کیا ہے کا تعلق ہے تو اس کا جواب تھا: (ہمارے دلوں کو جوڑنے والی طلائی تار۔)

جب میں لکھتی ہوں تو اپنا جسم برتتی ہوں۔ میں دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے، نرمی اور گرمی و سردی اور درد کا تجربہ کرنے، میرے دل کی دوڑ اور میرے  بدن کو کھانے پانی کی ضرورت محسوس کرنے، چلنے پھرنے و دوڑنے  اور ہوا  و  بارش کو اپنی جلد پر ، ہاتھ تھامنے کو محسوس کرنے کی اپنی تمام حسیات استعمال  میں لاتی ہوں۔اِن وشد احساسات  کو، جو میں ایک فانی وجود کے طور پر محسوس کرتی ہوں،   جملوں میں   بھرنے  کے لیے اپنے بدن کا لہو شامل کرتی ہوں۔ گویا میں برقی رو  کا نفوذ کرتی ہوں۔اور جب میں محسوس کرتی ہوں کہ  یہ برقی رو کو قاری تک منتقل  ہورہی ہے تو میں حیرت زدہ  اور متحرک ہو جاتی ہوں۔ ان لمحات میں مجھے ایک بار پھر زبان کے اس دھاگے کا تجربہ ہوتا ہے جو ہمیں آپس میں جوڑتا ہے کہ میرے سوالات اس برقی رو،  اس جان دار شے کے واسطے سے قارئین سے کیسے جڑے ہوئے ہیں۔ میں ان تمام لوگوں کا، جو مجھ سے اس دھاگے کے ذریعے جڑے ہیں، تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گی  اور ساتھ ہی ان تمام لوگوں کا بھی جو ایسا کرنے  یہاں تشریف لائے ہیں۔

:::

]انگریزی متن بشکریہ’’نوبیل پرائز آرگنائزیشن‘‘[

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

Authors

  • ادب کے نوبیل انعام ۲۰۲۴ء کا اعلان کرتے ہوئے منصفین نے ہن کانگ کو نوبیل انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کِیا: ’’اُن کی پُرزور شاعرانہ نثر کے لیے جو تاریخی صدمات کا مقابلہ کرتی ہے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی کو عیاں کرتی ہے۔‘‘ وہ نوبیل انعام پانے والی پہلی کوریائی شاعرہ/ مصنفہ ہیں جب کہ کل نوبیل جیتنے والے کل ۱۱۹ شعرا و ادبا میں سترھویں خاتون ہیں — اُن سے قبل ۱۶ خواتین یہ اعزاز حاصل کر چکی ہیں — اور ایشیا سے نوبیل انعام کے فاتحین میں اُن کا نمبر نواں ہے۔ ہن کانگ ۲۷ نومبر، ۱۹۷۰ء کو جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں پیدا ہوئیں مگر نو سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سیول منتقل ہو گئی تھیں۔ اُن کا اپنا ایک ادبی پس منظر ہے۔ اُن کے والد ایک نامور ناول نویس تھے۔ اپنے لکھنے پڑھنے کے کام کے ساتھ ساتھ، اُنھوں نے اپنے آپ کو فنونِ لطیفہ اور موسیقی کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے، جس کی عکاسی اُن کے تمام ادبی کاموں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ہن کانگ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۹۳ء میں ’’ادب اور معاشرہ‘‘ نامی کوریائی میگزین میں متعدد نظموں کی اشاعت سے کیا۔ اُن کی نثر کی شروعات ۱۹۹۵ء میں افسانوی مجموعے ’’یوہسُو کی محبت‘‘ سے ہوئی (یوہسُو ، جنوبی کوریا کا ایک ساحلی شہر)۔ جس کے فوراً بعد اُن کے بہت سے نثری کام، ناول اور افسانوں کے مجموعے منصۂ شہود پر آئے۔ جن میں سے قابل ذکر ناول ’’تمھارے یخ ہاتھ‘‘ ۲۰۰۲ء ہے۔ اِس میں فنونِ لطیفہ میں ہن کانگ کی دلچسپی کے واضح آثار موجود ہیں۔ یہ ناول ایک لاپتہ مجسمہ ساز کے، جو خواتین کے بدنوں کےمجسمے پلاسٹر آف پیرس سے بنانے کا جنونی ہے، اپنے پیچھے چھوڑے گئے ایک مخطوطہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اِس میں انسانی علم الاعضا اور شخصیت و تجربے کےمابین کھیل کا استغراق ہے، جہاں مجسمہ ساز کے کام میں ایک تنازع جنم لیتا ہے کہ جسم کیا ظاہر کرتا اور کیا چھپاتا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے آخر میں ایک جملہ واضح اصرار کرتا ہے: ’’زندگی ایک پاتال پر تنی ہوئی چادر ہے، اور ہم اِس پر نقاب پوش بازی گروں کے مانندرہتے ہیں۔‘‘ ہن کانگ کو نمایاں بین الاقوامی شہرت ۲۰۰۷ء میں اشاعت پذیر ہونے والے اُن کے ناول ’’سبزی خور‘‘ سے ملی جس کا ۲۰۱۵ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ ’’دی ویجیٹیرین‘‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ تین حصوں پر مشتمل اِس ناول میں اُن متشدد عواقب کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اُس وقت رونما ہوتے ہیں جب ناول کی مرکزی کردار ییونگ ہائے کھانا کھانے کی مروجہ اقدار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ اس کے گوشت نہ کھانے کے فیصلے پر مختلف، یکسر مختلف رد ِّعمل سامنے آتے ہیں۔ اُس کے رویے کو اُس کا شوہر اور جابر باپ دونوں سختی سے مسترد کر دیتے ہیں، اور اُس کے بصری فنکار (ویڈیو آرٹسٹ) بہنوئی کے ہاتھوں اُس کا شہوانی و جمالیاتی استحصال ہوتا ہے جو اُس کے غیر فعال جسم کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بالآخر، اُسے ایک نفسیاتی علاج گاہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے، جہاں اُس کی بہن اُسے بچانے اور اُسے ’’معمول کی زندگی‘‘ میں واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم ییونگ ہائے ایک گہری نفسیاتی کیفیت میں مزید ڈوب چکی ہوتی ہے جس کا اظہار ’’بھڑکتے ہوئے درختوں‘‘ (درختوں کی ایک قسم، جس کے پتے گہرے سرخ اور بڑے ہوتے ہیں جس سے یوں لگتا ہے جیسے اُس میں آگ بھڑکی ہوئی ہو۔ یہ درختوں کی سلطنت کے بادشاہی کی علامت بھی ہے اور یہ جتنا دلکش دکھائی دیتا ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہوتا ہے۔) کی علامت کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ایک اور پلاٹ پر مبنی کتاب ’’ہَوا چلتی ہے، جاؤ‘‘ہے، جو ۲۰۱۰ء میں منظرِ عام پر آئی اور دوستی اور فن کے بارے میں ایک ضخیم اور پیچیدہ ناول ہے، جس میں دُکھ اور تبدیلی کی آرزو اپنی بھرپور شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہن کانگ کی کہانیوں میں زندگی کی شدتوں کو سہتے جسموں سے ہمدردی کی تصویر کشی کےلیے اُنھیں اپنے بے حد قوی استعاراتی انداز سے تقویت ملتی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ’’یونانی اسباق‘‘- ۲۰۲۳ء، دو غیر محفوظ افراد کے درمیان غیر معمولی تعلق کی ایک دلکش تصویر کشی ہے۔ ایک نوجوان عورت، جو کئی تکلیف دہ تجربات کے بعد اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے،ازمنۂ قدیم کے یونان میں اپنی استاذ سے رابطہ کرتی ہے، جو خود اپنی بینائی کھو رہی ہے۔ اُن کی اِن اپنی خامیوں سے، ایک سوختہ و خستہ محبت پروان چڑھتی ہے۔یہ ناول خسارے، قربت اور زبان کے حتمی حال و قال کے چوگرد ایک خوبصورت مراقبہ ہے۔ کوریائی زبان میں ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والے ناول ’’انسانی افعال‘‘، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۶ء میں ’’ہیومن ایکٹس‘‘کے عنوان سے ہوا، میں اِس مرتبہ ہن کانگ نے اپنی سیاسی بنیاد کو برتتے ہوئے ایک تاریخی واقعہ پیش کِیا جو گوانگجو شہر میں پیش آیا تھا، جہاں وہ خود پلی بڑھی اور جہاں سینکڑوں طلبہ اور غیر مسلح شہریوں کا ۱۹۸۰ء میں جنوبی کوریا کی فوج نے قتلِ عام کِیا تھا۔ تاریخ کے متأثرین کی آواز بننے کی کاوش میں، وہ اپنے اِس ناول میں اِس واقعہ کو سفاکانہ حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کرتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، ادبی گواہی کی صنف تک پہنچتی ہیں۔ ہن کانگ کا انداز، جتنا بصیرت آمیز ہے اُتنا ہی جامع و مختصر بھی۔ اس کے باوجود ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا جس کی خاص مصلحت یہ ہے کہ مُردوں کی روحوں کو اُن کے بدنوں سے جدا ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی فنا کا خود مشاہدہ کر سکیں۔ کچھ خاص مقامات پر، ناقابلِ شناخت لاشوں کے نظر آنے پر جنھیں کفن دفن نصیب نہیں ہوا ہوتا، متن سوفوکلس کے اینٹی گون کے مرکزی خیال سے رجوع کرتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ہن کانگ کا اگلا پڑاؤ تھا: ’’سفید کتاب‘‘۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں اگلے ہی برس ۲۰۱۷ء میں ’’سفید کتاب‘‘ کے عنوان سے ہو گیا۔اِس ناول میں ایک بار پھر ہن کانگ کا شاعرانہ اندازحاوی نظر آیا۔ یہ کتاب اُس شخص کے نام انتساب کی گئی ہے جو اپنی بڑی بہن کا خود بیانیہ ہو سکتا تھا، لیکن وہ تو پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی چل بسی تھی۔ مختصر وضاحتوں کی ترتیب میں، جو تمام تر سفید اشیاء کے بارے میں ہیں جنھیں ایک لڑی میں پرویا گیا ہے کہ سفید رنگ غم و حزن کا رنگ ہے۔ یہی چیز اِسے ایک ناول کم اور ایک قسم کی ’’سیکولر دعائیہ کتاب‘‘ کا درجہ دیتی ہے، جیسا کہ یہی بیان بھی کیا گیا ہے۔ اگر راوی کی، یہ توجیہ راوی ہی پیش کرتا ہے، خیالی بہن کو زندہ رہنے دیا جاتا تو وہ خود بھی اپنے آپ کو وجود میں نہ آنے دیتی۔ مرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ، جس پر کتاب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے: ’’اُس سفید کے اندر، اُن تمام سفید چیزوں میں، مَیں اپنی آخری سانس اُس سانس میں لوں گا جو تم نے خارج کی تھی۔‘‘ ہن کانگ کی ایک اور خاص تخلیق اُن کا ۲۰۲۱ء میں منصۂ شہود پر آنے والا تازہ ترین ناول ’’ ہم جدا نہیں ہوتے ‘‘ الم و حزن کی تصویر کشی کے حوالے سے گہرے طور پر ’’ سفید کتاب ‘‘سے جڑی ہوئی ہے۔اِس کی کہانی ۱۹۴۰ء کی دہائی کے اواخر میں جنوبی کوریا کے جزیرے جیجو پر ہونے والے ایک قتل عام کو سامنے لاتی ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کو، جن میں بچّے اور بوڑھے بھی شامل تھے، محض ساتھی ہونے کے شبہ میں گولی مار دی گئی۔ اِس ناول میں راوی اور اُس کے دوست اِنسیون کی مشترکہ سوگ منانے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ دونوں اِس سانحے کے کافی عرصے بعد تک اپنےعزیز و اقارب کی بربادی کے صدمے کو برداشت کرتے ہیں۔ تخیل کے ساتھ، جو کہانی کے عین اُتنا ہی مطابق ہے جتنا کہ کثیف، ہن کانگ نہ صرف ماضی کی طاقت کو حال پر منتج کرتی ہیں بلکہ اتنی ہی قوت کے ساتھ وہ دوستوں کی اُن بے لوث کوششوں کو منظر عام پر لانے کے لیےکھوج بھی لگاتی ہیں جو اجتماعی غفلت کا شکار ہوئیں۔ اِس طرح یہ اُن دونوں دوستوں کا ایک مشترکہ آرٹ پروجیکٹ میں صدمہ بن جاتا ہے، جو کتاب کو اِس کا عنوان فراہم کرتا ہے۔ دوستی کی گہری ترین شکل کی صورت میں یہ ناول جتنا وراثتی المیے کو بیان کرتا ہے اُتنا ہی ڈراونے خوابوں کو بھی اور ادبی گواہی کی حق گوئی کے رجحان کے درمیان بڑی اصلیت کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ ہن کانگ کے تمام کام کی خصوصیت الم و حزن کی ایسی دوہری تصویر کشی عبارت ہے جو مشرقی سوچ سے قریبی تعلق کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی اذیت کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ۲۰۱۳ء کے ناول ’’رُوبہ صحت‘‘ میں ٹانگ کا السر شامل ہے جو ٹھیک ہونے سے انکار کرتا ہے، اور مرکزی کردار اور اس کی مردہ بہن کے مابین ایک تکلیف دہ رشتہ۔ کوئی حقیقی صحت یابی کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتی، اور درد ایک بنیادی وجودی تجربے کے طور پر ابھرتا ہے جسے کسی گزرتے ہوئے عذاب میں کسی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔ ’’سبزی خور‘‘ جیسے ناول میں بھی کوئی سادہ سی وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔ جب کہ اِس ناول میں منحرف عمل اچانک اور دھماکہ خیز طور پر صاف انکار کی صورت میں ہوتا ہے، جس میں مرکزی کردار خاموش رہتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کی مختصر کہانی، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۹ء میں ’’یوروپا‘‘کے عنوان سے ہوتا ہے، ایک ایسے مرد راوی کو سامنے لاتی ہے جو اپنے آپ کو عورت کے بھیس میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایک چیستاں عورت کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے جو ایک ناممکن شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ بیانیہ خود تو چپ رہتا ہے لیکن جب اُس کی محبوبہ دریافت کرتی ہے: ’’اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوتے تو آپ اپنی زندگی کا کیا کرتے؟‘‘ لیکن یہاں تکمیل یا کفارہ کی کوئی گنجائش نہیں ملتی۔ ہن کانگ اپنی تخلیقات میں، تاریخی سانحات اور پوشیدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ مبارزت اور اپنی ہر لکھت میں انسانی زندگی کی بے ثباتی کو کھول کر بیان کرتی ہیں۔ وہ جسم اور روح، زندہ اور مردہ کے درمیان رشتے کے بارے میں ایک منفرد آگہی رکھتی ہیں، اوراُنھوں نے اپنے آپ کو اپنے شاعرانہ اور تجرباتی انداز میں عصری نثر میں ایک اختراعی کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *