𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

عبدالرزاق گرناہکی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نوبیل خطبہ

لکھنا

عبدالرزاق گرناہ

Abdulrazak Gurnah

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

چونکہ اس کا (لکھت کا) معاملہ کسی نہ کسی طور  انسانی زندگی  ہوتا ہے اس لیے جلد یا بدیر ظلم اور محبت اور کمزوری اس کا موضوع بن جاتا ہے۔ میرا  یقین ہے کہ  لکھت کو  تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھانا پڑتا ہے ، وہ  جسے سخت نظر رکھنے والی آنکھ نہیں دیکھ پاتی

—عبدالرزاق گرناہ

عبدالرزاق گرناہ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نوبیل خطبہ

لکھنا

عبدالرزاق گرناہ

Abdulrazak Gurnah

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

چونکہ اس کا (لکھت کا) معاملہ کسی نہ کسی طور  انسانی زندگی  ہوتا ہے اس لیے جلد یا بدیر ظلم اور محبت اور کمزوری اس کا موضوع بن جاتا ہے۔ میرا  یقین ہے کہ  لکھت کو  تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھانا پڑتا ہے ، وہ  جسے سخت نظر رکھنے والی آنکھ نہیں دیکھ پاتی  

عبدالرزاق گرناہ

لکھنا ہمیشہ سے لطف انگیز رہا ہے۔ مَیں اپنے لڑکپن میں سکول میں بھی کہانی لکھنے کے لیے، یا جو کچھ ہمارے اساتذہ نے سوچا  ہوتا کہ ہمارے لیے باعثِ دلچسپی ہوگا، رکھی ہوئی جماعت کا کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ انتظار کِیا کرتا تھا۔ پھر سب  چپ چاپ اپنی  اپنی میزپر جھک کر اپنی یادداشت اور تخیل سے کچھ قابلِ تحریر رقم کرنے لگتے۔ جوانی کی اِن کاوشوں میں، خاص طور پر کچھ کہنے،  کسی یادگار تجربے کو دھرانے، اپنی کسی رائے پر ثابت قدمی کے اظہار یا شکایت کی بھڑاس نکالنے  کوئی تمنّا نہیں ہوتی تھی۔ نہ ہی اِن کاوشوں کے لیے استاذ کے علاوہ، جو ہماری کاوشوں کو بہتر بنانےکے لیے حوصلہ افزائی کرتے تھے،  کسی دوسرے قاری کی ضرورت تھی۔ مَیں نے اس لیے لکھا کہ مجھے لکھنے کی ہدایت کی گئی تھی، اور اِس لیے کہ مجھے اِس مشق میں بے انتہا حظ ملتا تھا۔

برسوں بعد، جب مَیں خود سکول ٹیچر تھا، مجھے یہی تجربہ الٹا ہونا تھا کہ مَیں پُرسکوت کمرہ ِٔ جماعت میں بیٹھا رہتا جب کہ شاگرد اپنے اپنے  کام میں جُت جاتے تھے۔ اِس سے مجھے ڈی ایچ لارنس  کی ایک نظم یاد آ گئی۔ جس سے اب مَیں چند سطروں کا حوالہ دوں گا:

’’سکول کی بہترین چیز‘‘ سےسطریں:

جب مَیں  جماعت  میں ایک طرف تنہا  بیٹھا

لڑکوں کو اُن کے موسم گرما کے لباس میں

 اُنھیں لکھتے، اُن کے گول سروں کو مگن جھکے دیکھتا  ہوں

اورپھر وہ ایک ایک کر کے اٹھتے ہیں

اُس کا چہرہ مجھے تکتا ہے،

بہت دھیان سے سوچتا ہوا،

گویا وہ  دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھ رہا

اور پھر وہ ذرا سی مسرت کے ساتھ دوبارہ جھکتا ہے

اپنے کام کے سنسنی  میں وہ پھر مجھ سے منہ موڑ لیتا ہے

جووہ  چاہتا تھا اُسے  کھوج کے، جو اُسے درکار تھا اُسے پا کے۔

مَیں لکھت کی جس جماعت  کی بات کر رہا تھا اور جس کی  مجھے یہ نظم یاد  دلاتی ہے، وہ اُس طرح نہیں لکھ رہی تھی جس کا بعد میں معلوم ہوتا۔  اسے تحریک  دی گئی تھی نہ کوئی ہدایت، کام کیا گیا تھا نہ کیے گئے کام کو غیر مختتم  طور پر دوبارہ منظم کیا گیا تھا۔ جوانی کی ان کوششوں میں میں نے  ایک  لکیر کے فقیر کے مانند  لکھا،   یوں کہہ لیجیے کہ   بناء کسی ہچکچاہٹ یا اصلاح کے،  بغیر کسی تصنع کے۔ میں نے مطالعہ بھی ایک نوع کی بے دلی کے ساتھ کیا، اسی طرح بغیر کسی سمت کے تعین کے، اور  تب میں اس  سے بھی آگاہ نہیں  تھا کہ میری یہ سرگرمیاں کس حد تک مربوط تھیں۔ بعض اوقات، جب اسکول کے لیےعلی الصبح جاگنا ضروری نہیں ہوتا تھا، میں رات  گئے تک پڑھتا  رہتا کہ میرے والد، جو خود بے خوابی کا شکار تھے، مجبور ہو کر میرے کمرے میں آنے پر مجبور ہو کر مجھے  بتی گل کرنے کا حکم دے دیتے تھے۔ تو ان سے یہ کہنے کی بھی جسارت نہیں کی  جا  سکتی تھی کہ وہ  خود ابھی تک جاگ رہے ہیں  تو میں کیوں نہیں  جاگ سکتا کیونکہ اپنے والد سے اس طرح بات  کرنا سلیقہ مندی نہیں تھی ۔ بہرصورت ،  وہ تاریکی میں اپنی بے خوابی سہتے،  بتی گل رکھتے تاکہ میری والدہ  تنگ نہ ہوں، اس لیے  بتی گل رکھنے کی ہدایت ابھی تک برقرار ہے۔

بعد میں جو لکھنا اور پڑھنا آیا اس کا موازنہ جوانی کے بے ہنگم تجربے سے کیا ، لیکن یہ  ہمیشہ مسرت آگیں ہی رہا  اور شاید کبھی   کبھار ہی جہد بنا ہو ۔  تاہم دھیرے دھیرے  یہ  بھی ایک مختلف قسم کی  مسرت بن گیا۔ مجھے  انگلستان میں  بس جانے تک اس  امر کا پوری طرح احساس نہیں ہوا  تھا ۔  وہاں اپنی گھر کی ہڑک  اور ایک اجنبی کی زندگی کی اذیت کے درمیان، میں نے جس قدر غوروخوض کرنا شروع کیا اس سے  پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ افلاس و بیگانگی کے اس طویل دور سے نکل کر میں نے مختلف قسم کی تحریریں رقم کرنا شروع کیں۔ مجھ پر واضح ہو ا کہ مجھے کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہ مجھے ایک کام کرنا ہے، یاس زدگیوں  اور شکایات سے جان چھڑا کر  غوروفکر کرنا ہے۔

سب سے پہلے تو میں نے اس پر تفکر کیا کہ میں  اپنے گھر سے لاابالی پن میں  پرواز  کر کے اپنے پیچھے کیا چھوڑا تھا ۔  ۱۹۶۰ء  کی دہائی کے وسط میں ہماری زندگیوں پر ایک گہرا بھونچال  نازل ہوا، جس کے  حق و ناحق  واقعات: نظربندیاں، پھانسیاں، بے دخلیاں، اور  غیر مختتم چھوٹی بڑی بے  توقیریاں اور جور و جبر اس  بربریت نے، جو اپنے ہمراہ   ۱۹۶۴ء  میں برپا ہونے والا انقلاب سے تبدیلیاں  لائی تھی،   دھندلا ڈالی تھیں۔ ان واقعات کے درمیان اور ایک نوجوان کے ذہن کے حامل کے لیے جو کچھ ہو رہا تھا  کے تاریخی اور مستقبل کے مضمرات کے بارے میں بیّن طور پر سوچنا ناممکن تھا۔

میں انگلستان میں قیام کے ابتدائی سالوں ہی  کے دوران میں ایسے مسائل پر غوروخوض کرنے، ان بدصورتیوں پر  سوچ بچار کرنے کا اہل تھا جو ہم ایک دوسرے پر مسلط کرسکتے تھے، اور ان دروغ گوئیوں اور فریبوں کو مکرر جانچنے کے قابل تھا جن سے ہم نے خود کو تسلی دی تھی۔ ہماری تاریخ جانب دارتھی، بے شمار مظالم  پر چپ۔ ہماری سیاست کو نسلی رنگ دیا گیا جو  انقلاب کے بعد ہونے والے ظلم و ستم کا  راست سبب بنا  کہ باپوں کو ان کے بچوں کے سامنے ذبح کیا گیا اور بیٹیوں کو ان کی ماؤں کے سامنے  زدوکوب کیا گیا۔ ان سانحات سے بہت دور  انگلستان میں بستے ہوئے بھی  میں ذہنی طور پر ان کی وجہ سےازحد پریشان رہا،۔ ممکن ہے کہ میں ایسی یادوں کی قوت کا مقابلہ کرنے کا اہل  نہیں تھا جتنا  میں ان لوگوں میں  رہتے ہوئے ہوتا جو اَب تک ان کے عواقب بھگت رہے تھے۔ لیکن میں دوسری یادوں سے بھی دِق تھا جن کا ان واقعات سے کوئی  واسطہ نہیں تھا: والدین کی جانب سے اپنے بچوں پر ڈھائے جانے والے ظلم، جس طرح سے لوگوں کو سماجی یا صنفی بنیاد پر مکمل اظہار سے  منع کیا گیا، عدم مساوات اور انحصاریت کو سہنے والی تیسرے درجے کی درماندگی۔ یہ تمام معاملات انسانی زندگی میں موجود ہیں اور ہمارے لیے غیر معمولی نہیں، لیکن یہ ہمہ وقت آپ کے ذہن پر سوار نہیں رہتے جب تک کہ حالات آپ کو ان سے آگاہی کا تقاضا نہ کریں۔ مجھے شبہ ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے ایک بوجھ ہے جو صدمے سے بھاگ کر اپنے آپ کو پیچھے  چھوٹ جانے والوں سے دور محفوظ طور پر  رستا بستا پاتے ہیں۔ آخرش میں نے ان میں سے کچھ مظاہر کے بارے میں لکھنا شروع کیا، مربوط یا  منظم انداز میں نہیں، اب تک نہیں،  بس اپنے ذہن میں موجود الجھنوں اور غیر یقینی صورتحال کی صراحت  کی تسکین کی خاطر۔

تاہم، وقت  بیتنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوتا چلا  گیا کہ نہایت   تشویش ناک کچھ ہو رہا ہے۔  وقوع پذیر کو بدل کر،  یہاں تک کہ مٹا کے ایک نئی، سہل تاریخ مرتب  کی جا رہی تھی،  لمحۂ موجود کے حقائق کے مطابق تشکیلِ نو کی جارہی تھی۔ یہ نئی اور سادہ تاریخ نہ صرف ان فاتحین کا ناگزیر کام تھا، جو ہمیشہ اپنی پسند کا  بیانیہ تشکیل دینے   پر قادر ہوتے ہیں، بلکہ یہ ان مبصرین،  علماء اور  حد یہ  کہ مصنفین کے لیے بھی موزوں تھا ، جنھیں ہم سے کوئی حقیقی دلچسپی  نہیں تھی یا  جو ہمیں ایک ایسے چوکھٹے میں سے دیکھ رہے تھے جو دنیا کے بارے میں ان کے نظریہ سے  ہم آہنگ تھا، اور جنھیں نسلی آزادی اور ترقی کے لیے  ایک مانوس بیانیے کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد ضروری ہو گیا  تھا کہ ایسی تاریخ  کو مسترد کیا جائے، جس میں عہدِ گزشہ کی  شہادت   دینے والی ان مادی اشیاء کو، ان عمارتوں، کامیابیوں اور  حساسیتوں کو، جنھوں نے زندگی کو ممکن بنایا تھا، نظر انداز کیا تھا ۔ کئی برسوں بعد، میں اس قصبے کی گلیوں میں سے گزرا جن میں مَیں پلا بڑھا تھا اور میں نے  اشیاء ، مقامات اور لوگوں کی تنزلی دیکھی، جو اپنے سفید بالوں اور بغیر  دانتوں  والے منھوں کے ساتھ  اپنے  ماضی کی یادوں کے کھو جانے کے خوف میں رہتے ہیں۔ اس یاد کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا، جو کچھ تھا اس کے بارے میں، ان لمحات اور کہانیوں کو بازیافت کرنا جن کے ذریعے لوگ  اپنی زندگیاں بسر کرتے تھے اور جن کے ذریعے وہ  خود آگاہی پاتے تھے، لکھنا لازم ہو گیا ۔ ان ایذارسانیوں اور مظالم کے بارے میں لکھنا ضروری تھا جنھیں ہمارے حکمرانوں کی خود تحسینی نے ہماری یادداشت سے  محو کرنا چاہا تھا۔

تاریخ کی ایک اور تفہیم پر بھی توجہ دینا ضروری تھا، جو  مجھے پر تب ہی واضح ہو گئی تھی جب میں انگلستان میں اس کے ماخذ کے قریب ہی  قیام پذیرتھا، اس سے بھی  زیادہ واضح  جب میں زنجیبار میں اپنی نوآبادیاتی تعلیم کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔ ہم، ہماری نسل سے تعلق رکھنے والے، استعمار کی اولاد اس طرح سے تھے جس طرح نہ ہمارے والدین اور نہ ہی ہمارے بعد آنے والی نسل تھی، یا کم از کم وہ لوگ  ہماری  طرح سے نہیں تھے۔ اس سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ ہم ان چیزوں سے الگ ہو گئے تھے  جن کی ہمارے والدین قدر کرتے تھے یا جو ہمارے بعد کی نسل نوآبادیاتی اثرات سے آزاد  تھی۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہم انتہا درجے کی سامراجیت کے،  جو کم از کم دنیا  میں ہمارے خطوں پر تو تھی، اس عہد  میں پلے بڑھے اور تعلیم پائی جب تسلط نے اپنی اصلیت کو خوشامد میں چھپا لیا  تھا اور ہم  چوپہلو دھوکے پر  متفق ہو گئے تھے۔ میں پورے خطے میں نوآبادیات کے خاتمے کے کی مہمات سے قبل کے اس دور کا حوالہ دیتا ہوں جب   انھوں نے اپنے عروج پر پہنچ کر  ہماری توجہ نوآبادیاتی حکمرانی کی پستی کی جانب مبذول کروائی۔ ہمارے بعد  کی نسل کے پاس اپنی تشفی کے لیے نوآبادیاتی دور کے بعد کی اپنی مایوسی اور خود فریبی تھی، اور شاید انھوں نے واضح طور پر یا اتنی گہرائی میں نہیں دیکھا  تھا کہ نوآبادیاتی تصادم نے ہماری زندگیوں کو کس طرح بدل کر رکھ دیا تھا، کہ ہماری بدعنوانی اور بدانتظامی  بھی کسی حد تک اس نوآبادیاتی میراث کا حصہ تھی۔

ان میں سے کچھ معاملات انگلستان ہی میں مجھ پر واضح ہو گئے تھے، اس لیے نہیں کہ  میری ان لوگوں سے ملاقات کی جنھوں نے میرے ساتھ دورانِ گفتگو میں یا  کمرۂ جماعت  میں ان کی وضاحت کی بلکہ اس  طرح کہ میں نے اس بات کو بہتر طور پر  سمجھنے کی کوشش کی کہ مجھ جیسا کوئی شخص اپنی کہانیوں میں سے کچھ کو کیسے سمجھتا ہے: اپنی  تحریروں میں اور عمومی گفتگو میں، ٹی وی اور دیگر تمام مقامات  پر نسل پرستانہ لطیفوں کا خیرمقدم کرنے والے مزاحیہ پروگراموں  میں، غیر جبری عداوت میں، دکانوں، دفتروں، بس میں  روزانہ میرا واسطہ ان سے پڑا ۔ میں اپنے اس استقبال  پر کچھ نہیں کر سکتا تھا، لیکن جیسا کہ میں نے زیادہ سمجھ  بوجھ کے ساتھ مطالعہ کرنا سیکھا ، پس اس سے ان لوگوں کے، جنھوں نے ہمیں حقیر اور  کمتر سمجھا، اپنے آپ کو یقین دلائے گئے خلاصے کو مسترد کرتے ہوئے میرے اندر  لکھنے کی خواہش نے جنم لیا۔

لیکن لکھت محض  محاذ آرائی اور  مجادلوں کے بارے میں نہیں ہو سکتی، خواہ  یہ حوصلہ افزا اور تسلی بخش ہی ہو۔ لکھت کسی ایک چیز کے بارے میں نہیں  ہوتی، اِس یا اُس مسئلے کے متعلق نہیں ہوتی، یا اِس یا اُس  فکر کے بارے میں نہیں ہوتی، اور چونکہ اس کا معاملہ کسی نہ کسی طور  انسانی زندگی  ہوتا ہے اس لیے جلد یا بدیر ظلم اور محبت اور کمزوری اس کا موضوع بن جاتا ہے۔ میرا  یقین ہے کہ  لکھت کو  تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھانا پڑتا ہے ، وہ  جسے سخت نظر رکھنے والی آنکھ نہیں دیکھ پاتی، جو لوگ بظاہر پست قامت  ہوتے ہیں وہ دوسروں کی حقارت سے قطع نظر اپنے  اندر خود اعتمادی کا اطمینان  محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے میں نے اس موضوع پر  لکھنا اور  دیانت داری سے اپنا کام کرنا ضروری سمجھا تاکہ بدصورتی اور خوبی دونوں سامنے آجائیں اور انسان سادگی اور دقیانوسیت سے باہر نکلتے دکھائی دیں۔ جب یہ چیز  کام کرتی ہے تو اس سے ایک قسم کی خوبصورتی  نمودار ہوتی ہے۔

اور دیکھنے کا یہ طریقہ  نحیفی و نزاری کو، ظلم کے درمیان حلیمی کو جگہ دیتا ہے، اور غیبی وسائل میں مہربانی کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں  کہ لکھنا میرے لیے میری زندگی کا ایک قابل قدر اور جاذب نظر جزو رہا ہے۔ یقینا اس کے علاوہ اور بھی چیزیں ہیں، لیکن وہ اس موقع پر ہمارے لیے محل نہیں۔ کچھ معجزانہ طور پر، تحریر میں جوانی کی وہ سرخوشی، جس کی میں نے آغاز میں بات کی تھی،  ان تمام دہائیوں کے بعد آج بھی موجود ہے۔

مجھے اور میرے کام کو یہ عظیم اعزاز عطا کرنے کے لیے سویڈش اکیڈمی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے ختم کرتا ہوں۔ میں ازحد ممنون ہوں۔

:::

]انگریزی متن’’نوبیل پرائز آرگنائزیشن‘‘[

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

Authors

  • نوبیل انعام برائے ادب ۲۰۲۱ء کی جیوری کے مطابق عبدالرزاق گرناہ کو انعام سے نوازنے پر جس امر نے انھیں تحریک دی، وہ تھا: ’’ان کے نوآبادیاتی اثرات اور ثقافتوں اور براعظموں کے درمیان خلیج میں پناہ گزینوں کی تقدیر پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر ہمدردانہ جز رسی۔‘‘ عبدالرزاق گرناہ کی تمام تخلیقات میں پناہ گزینوں کی کسمپرسی موضوع ہے۔ ان کے ناولوں میں ثقافتی طور پر متنوع مشرقی افریقا کی منظر کشی کی گئی ہے۔ گرناہ کی سچائی کے لیے لگن اور معاملات کو سادگی کا روپ دینے پر ان کی کراہت و زودرنجی قابل ذکرہیں۔ یہ انھیں رنجیدہ اور غیر سمجھوتہ کرنے والا بنا سکتے ہیں۔ تاہم بہ ایں ہمہ وہ نہایت ہمدردی اور غیر متزلزل عزم کے ساتھ افراد کی تقدیر کے متعاقب بھی ہوتے ہیں۔ ناول نگار عبدالرزاق گرناہ ۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو مشرقی افریقا میں بحرہند میں واقع جزیرہ سلطنتِ زنجیبار، تنزانیہ میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے لیکن ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آخر میں وہ اپنا دیس چھوڑنے پر مجبور ہو کر انگلستان میں آباد ہو گئے۔ دسمبر ۱۹۶۳ء میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کے بعد زنجیبار صدر عبید کروم کے دور حکومت میں ایک انقلاب سے گزرا جس میں عرب نژاد شہریوں پر جوروظلم ہوا۔ قتل عام ہوا۔ گرناہ کا تعلق متاثرہ نسلی گروہ سے تھا اور سکول کی تعلیم ختم کرنے کے بعد ان کو اپنا خاندان کو چھوڑ کر ملک بدری پر مجبور کیا گیا ۔ اس وقت تک تنزانیہ کی نو تشکیل شدہ جمہوریہ تھا۔ ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ ۱۹۸۴ء تک ان کے لیے زنجیبار لوٹنا ممکن نہیں ہوا، جب انھیں اپنے والد کی موت سے کچھ دیر پہلے ان سے ملنے کی اجازت ملی۔ گرناہ اپنی ریٹائرمنٹ تک کینٹربری کی کینٹ یونیورسٹی میں انگریزی اور ’’مابعد نوآبادیاتی ادب‘‘ کے پروفیسر رہے ہیں، جو بنیادی طور پر وولے سوینکا (Wole Sovinka)، نگوگی وا تھیونگ (Ngũgĩ wa Thiong’o) اور سلمان رشدی جیسے مصنفین کے کام اپنا مرکزِ نگاہ بناتا ہے۔ عبدالرزاق گرناہ کے دس ناول اور متعدد مختصر کہانیاں منصۂ شہود پر آئیں۔ان کے اہم ناولوں میں ’روانگی کی یاد، ۱۹۹۸۷ء‘،’حجاج کا راستہ، ۱۹۸۸ء، ’ڈوٹی، ۱۹۹۰ء‘، ’جنت، ۱۹۹۴ء‘، ’خاموشی کی تحسین ، ۱۹۹۶ء‘، ’سمندر کنارے، ۲۰۰۱ء‘، ’تنہائی، ۲۰۰۵ء‘، ’سنگ دل، ۲۰۱۷ء‘ اور تازہ ترین ناول ’ بعد از مرگ، ۲۰۲۰ء‘ پناہ گزینوں کی کسمپرسی کا موضوع ان کی تمام تخلیقات میں شامل ہے۔ انھوں نے انگلستان میں جلاوطنی کے دوران میں ۲۱ برس کی عمر میں لکھنے کا آغاز کیا، اور اگرچہ سواحلی ان کی مادری زبان تھی لیکن انگریزی ان کا ادبی ہتھیار بنی۔ انھوں نے کہا ہے کہ زنجیبار میں، سواحلی ادب تک ان کی رسائی تقریباً صفر تھی اور ان کی ابتدائی تحاریر کو بلااستثنا ادب میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ عربی اور فارسی شاعری، خاص طور پر ’’دی عریبین نائٹس‘‘، ان کے لیے ابتدائی اور اہم سرچشمہ تھیں ۔ لیکن شیکسپیئر سے وی ایس نائپال تک انگریزی زبان کی روایت ان کے کام کو خاص امتیاز بخشے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ وہ نوآبادیاتی نقطہ نظر کو الٹا ٹانگتے ہوئے مقامی آبادیوں کو اجاگر کرنے کے لیے شعوری طور پر روایت کو توڑتا ہے۔ گرناہ میں، کہانی افریقی سرزمین پر جاری رہتی ہے اور حقیقت میں کبھی ختم نہیں ہوتی۔ انھوں نے اپنی تمام تصانیف میں نوآبادیاتی سے پہلے کے پراچین افریقا کے لیے جا بہ جا موجود اپنی پرانی یادوں سے بچنے کی سعی کی ہے۔ ان کا اپنا پس منظر بحر ہند کا ثقافتی طور پر ایک متنوع جزیرہ ہے، جس کی تاریخ میں غلاموں کی تجارت اور متعدد نوآبادیاتی طاقتوں کے — پرتگالی، عرب، جرمن اور برطانوی — زیرنگیں جبر کی مختلف شکلیں اور دنیا بھر کے ساتھ تجارتی روابط ہیں۔ زنجبیار عالمگیریت سے پہلے ایک کثیرالثقافتی معاشرہ تھا۔ گرناہ کی لکھتیں ان کے جلاوطنی کے زمانے کی ہے لیکن ان کا تعلق اس جگہ سے ہے جسے وہ چھوڑ چکے تھے یعنی ان کے عمل تخلیق کے لیے یادداشت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ گرناہ اکثر اپنی احتیاط سے تیار کردہ داستانوں کو بہ دقت حاصل کردہ بصیرت تک لے کر جاتا ہے۔ پناہ گزینوں کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے گرناہ کے بیانیے میں توجہ شناخت اور اپنے تصور پر مرکوز رہتی ہے، گرناہ کے سیلانی کردار اپنے آپ کو ثقافتوں اور براعظموں کے درمیان ایک ٹوٹی ہوئی کڑی میں، ماضی کی زندگی تھی اور ابھرتی ہوئی زندگی کے مابین پاتے ہیں، جو عدم تحفظ کی ایک حالت ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ ہمیں اس ٹوٹی ہوئی کڑی کی ایک نئی شکل گرناہ کے افسانوی ادب میں ملتی ہے۔ جہاں نوآبادیاتی مشرقی افریقا میں وسیع ثقافتی فرق کو روشن کرنے کے لیے ایک المناک جذبہ برتا جاتا ہے۔ عبدالرزاق گرناہ کے ناول دقیانوسی بیانات سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے ثقافتی طور پر متنوع مشرقی افریقا کی طرف ہماری آنکھیں کھولتے ہیں جس سے دنیا کےدیگر حصوں کےبے شمار لوگوں ناآشنا ہیں۔ گرناہ کی ادبی کائنات میں، سب کچھ بدل رہا ہے — یادیں، نام، شناخت۔ غالباً ایسا اس لیے ہے کہ ان کا منصوبہ کسی بھی صورت حتمی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ فکری جذبے سے چلنے والی ایک نہ ختم ہونے والی کھوج ان کی تمام کتابوں میں بخوبی موجود اور نمایاں ہے۔ عبدالرزاق گرنا کے ناول ’جنت، ۱۹۹۴ء‘بکر اور وائٹ بریڈ پرائز دونوں کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ’سمندر کنارے، ۲۰۰۱ء‘ بکر کے لیے لانگ لسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز بک پرائز کے لیے شارٹ لسٹ ہوا۔ اور ’تنہائی، ۲۰۰۵ء‘ کامن ویلتھ رائٹرز پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ۲۰۰۶ء میں گرناہ کو رائل سوسائٹی آف لٹریچر کا فیلو منتخب کیا گیا۔ ۲۰۰۷ء میں، ان کے ناول ’سمندر کنارے‘ نے فرانس کا آر ایف آئی ٹیموئن ڈُو مونڈے (وِٹنیس آف دی ورلڈ) ایوارڈ جیتا۔

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top
𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛