𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

بانو مشتاق  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

بُکر خطاب

بانو مشتاق

Banu Mushtaq

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

Banu Mushtaq and Deepa Bhasthi International Booker Prize 2025 with their Prize

کوئی کہانی مقامی نہیں ہوتی کہ میرے گاؤں کے  برگد کے درخت تلے جنم لینے والی کہانی اپنی چھاؤں آج کی شب کی طرح پھیلا سکتی ہے۔

بانو مشتاق

قابلِ احترام منصفین، ساتھی مصنفین اور دنیا بھر سے میرے چہیتے قارئین، شام بخیر۔

اگر میں اپنی ثقافت سے مستعار لوں تو یہ لمحہ فلکِ واحد کو  ہزارہا آتش بازیوں سے منور کرنے  والا ہے، مختصراً روشن اور کاملاً  منظم کہ ان غیرمعمولی  حتمی نبارزین کے درمیان میں کھڑا ہونا بھی میرے لیے باعثِ اعزاز ہے۔  میں اس عظیم عزت افزائی کو ایک فرد کی حیثیت میں نہیں بلکہ    دیگر بے شمار کی اجتماعی طور پر بلند کی جانے والی آواز کے طور پر قبولتی ہوں۔  میں تمام دنیا  کے لیے مسرور ہوں جو تنوع  اور جامعیت سے بھری ہوئی ہے۔ میں اپنے لیے خوش ہوں اور اپنی مترجم  دیپا بھا ستھی کے لیے۔ ایک ذاتی کامیابی سے زیادہ  یہ  اس امر کی توثیق ہے کہ ہم بحیثیت افراد اور بحیثیت  ایک عالمی معاشرے کے تب ہی پنپ سکتے ہیں جب ہم   رنگارنگی  سے ہم کنار ہوتے ہیں، اپنی نایکسانیتوں کا اُچھاؤ کرتے اور ایک دوسرے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہم سب مل جل کر ایک ایسی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں جہاں ہر ایک کی سنوائی ہوتی ہے، ہر کہانی کی، اور   خاص طور اس شخص ،کی جس سے وہ متعلق ہوتی ہے، اہمیت ہوتی ہے ۔

سب سے پہلے تو میں ممنون ہوں  بکر[1] پرائز کمیٹی سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کی کہ انھوں نے میری کٹھور جماعت کے ساتھ انتظام و انصرام کی خدمات کا اعتراف کیا ۔میرے اہلِ بصیرت  ادبی ایجنٹ  کنیشکا گپتا جنھیں اس کتاب کے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بننے پر یقین تھا اور میری مترجم دیپا بھاستھی کی  جس نے میرے  الفاظ کو نہایت  ثروت مندی سے ترجمہ کیا اور خاص طور پر  اپنے ناشر پینگوئین رینڈم ہاؤس کا شکریہ ادا کرتی ہوں…… اور دیگر…… دیگر کہانیوں…… تارا اور سٹیفن کو تمام زبانوں میں اور سرحدوں کے پار پھیلانے میں ، جو آپ کی فتح ہے اور اپنے  خاندان، اپنے دوستوں اور قارئین کی کہ آپ سب ہی وہ اصل دھرتی تھے جہاں میری کہانی پروان چڑھتی ہے۔ یہی محبت نامہ میرا تصور  ہو سکتا ہے کہ کوئی کہانی مقامی نہیں ہوتی کہ میرے گاؤں کے  برگد کے درخت تلے جنم لینے والی کہانی اپنی چھاؤں آج کی شب کی طرح پھیلا سکتی ہے۔ ہر قاری کا شکریہ جس نے میرے ہمراہ  سفر کیا۔ آپ نے میری کنڑ زبان کو  عظمت بخشی، اپنے  گھر کا حصہ بنایا  ۔ یہ زبان  جو لچک اور لطافتیں رکھتی ہے۔ کنڑ زبان میں لکھنا ایک ایسی میراث ہے  جو آفاقی  میراث کے تحیر اور زمینی عقل و بینش کی حامل  ہے۔

  اس کتاب کا جنم بھی  اس  گاؤں میں  ہوا کہ انسانی تجربے کی نقش نگاری میں کوئی کہانی کم تر نہیں،۔  ایک ایسی دنیا میں، جہاں اکثر ہمیں تقسیم کرنے کا جتن کیا جاتا ہے،  ہر تار اپنی جگہ اہم ہے۔ ادب ہی  گم شدہ مقامات میں سے وہ واحد جگہ بچتی ہے جہاں ہم ایک دوسرے کے ذہنوں میں رہ سکتے ہیں خواہ یہ قیام محض چند صفحات کی حد تک ہی  ہو۔ میں اپنے  تمام قارئین کی ممنون ہوں جنھوں نے مجھے اعتبار بخشتے ہوئے اپنا وقت دیا۔ آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میرے الفاظ اپنے دلوں میں جگہ عنایت کی ۔ آج کی شام  کوئی آخری  شام نہیں بلکہ یہ تو  ایک چلتی ہوئی روشنی ہے جو مزید ناشنیدہ گوشوں کی کہانیوں کی راہ کو مزید تراجم کے واسطے سے منور کر سکتی ہے،  جو سرحدوں کی منکر ہیں اور مزید بے شمار آوازیں جو ہمیں یاددہانی کرواتی ہیں کہ کائنات ہر آنکھ میں بستی ہے۔ دل کی گہرائیوں سے آپ تمام کا شکریہ۔

:::

]انگریزی متن ویڈیو’’عالمی بکر فاؤنڈیشن‘‘[

 



[1] مقرر نے یہاں بروکر (دلال) کا لفظ استعمال کیا ہے، جو سہو بھی ہو سکتا ہے۔

 
 

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

بانو مشتاق  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

بُکر خطاب

بانو مشتاق

Banu Mushtaq

 

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

Banu Mushtaq and Deepa Bhasthi International Booker Prize 2025 with their Prize

کوئی کہانی مقامی نہیں ہوتی کہ میرے گاؤں کے  برگد کے درخت تلے جنم لینے والی کہانی اپنی چھاؤں آج کی شب کی طرح پھیلا سکتی ہے۔

بانو مشتاق

قابلِ احترام منصفین، ساتھی مصنفین اور دنیا بھر سے میرے چہیتے قارئین، شام بخیر۔

اگر میں اپنی ثقافت سے مستعار لوں تو یہ لمحہ فلکِ واحد کو  ہزارہا آتش بازیوں سے منور کرنے  والا ہے، مختصراً روشن اور کاملاً  منظم کہ ان غیرمعمولی  حتمی نبارزین کے درمیان میں کھڑا ہونا بھی میرے لیے باعثِ اعزاز ہے۔  میں اس عظیم عزت افزائی کو ایک فرد کی حیثیت میں نہیں بلکہ    دیگر بے شمار کی اجتماعی طور پر بلند کی جانے والی آواز کے طور پر قبولتی ہوں۔  میں تمام دنیا  کے لیے مسرور ہوں جو تنوع  اور جامعیت سے بھری ہوئی ہے۔ میں اپنے لیے خوش ہوں اور اپنی مترجم  دیپا بھا ستھی کے لیے۔ ایک ذاتی کامیابی سے زیادہ  یہ  اس امر کی توثیق ہے کہ ہم بحیثیت افراد اور بحیثیت  ایک عالمی معاشرے کے تب ہی پنپ سکتے ہیں جب ہم   رنگارنگی  سے ہم کنار ہوتے ہیں، اپنی نایکسانیتوں کا اُچھاؤ کرتے اور ایک دوسرے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہم سب مل جل کر ایک ایسی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں جہاں ہر ایک کی سنوائی ہوتی ہے، ہر کہانی کی، اور   خاص طور اس شخص ،کی جس سے وہ متعلق ہوتی ہے، اہمیت ہوتی ہے ۔

سب سے پہلے تو میں ممنون ہوں  بکر[1] پرائز کمیٹی سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کی کہ انھوں نے میری کٹھور جماعت کے ساتھ انتظام و انصرام کی خدمات کا اعتراف کیا ۔میرے اہلِ بصیرت  ادبی ایجنٹ  کنیشکا گپتا جنھیں اس کتاب کے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بننے پر یقین تھا اور میری مترجم دیپا بھاستھی کی  جس نے میرے  الفاظ کو نہایت  ثروت مندی سے ترجمہ کیا اور خاص طور پر  اپنے ناشر پینگوئین رینڈم ہاؤس کا شکریہ ادا کرتی ہوں…… اور دیگر…… دیگر کہانیوں…… تارا اور سٹیفن کو تمام زبانوں میں اور سرحدوں کے پار پھیلانے میں ، جو آپ کی فتح ہے اور اپنے  خاندان، اپنے دوستوں اور قارئین کی کہ آپ سب ہی وہ اصل دھرتی تھے جہاں میری کہانی پروان چڑھتی ہے۔ یہی محبت نامہ میرا تصور  ہو سکتا ہے کہ کوئی کہانی مقامی نہیں ہوتی کہ میرے گاؤں کے  برگد کے درخت تلے جنم لینے والی کہانی اپنی چھاؤں آج کی شب کی طرح پھیلا سکتی ہے۔ ہر قاری کا شکریہ جس نے میرے ہمراہ  سفر کیا۔ آپ نے میری کنڑ زبان کو  عظمت بخشی، اپنے  گھر کا حصہ بنایا  ۔ یہ زبان  جو لچک اور لطافتیں رکھتی ہے۔ کنڑ زبان میں لکھنا ایک ایسی میراث ہے  جو آفاقی  میراث کے تحیر اور زمینی عقل و بینش کی حامل  ہے۔

  اس کتاب کا جنم بھی  اس  گاؤں میں  ہوا کہ انسانی تجربے کی نقش نگاری میں کوئی کہانی کم تر نہیں،۔  ایک ایسی دنیا میں، جہاں اکثر ہمیں تقسیم کرنے کا جتن کیا جاتا ہے،  ہر تار اپنی جگہ اہم ہے۔ ادب ہی  گم شدہ مقامات میں سے وہ واحد جگہ بچتی ہے جہاں ہم ایک دوسرے کے ذہنوں میں رہ سکتے ہیں خواہ یہ قیام محض چند صفحات کی حد تک ہی  ہو۔ میں اپنے  تمام قارئین کی ممنون ہوں جنھوں نے مجھے اعتبار بخشتے ہوئے اپنا وقت دیا۔ آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میرے الفاظ اپنے دلوں میں جگہ عنایت کی ۔ آج کی شام  کوئی آخری  شام نہیں بلکہ یہ تو  ایک چلتی ہوئی روشنی ہے جو مزید ناشنیدہ گوشوں کی کہانیوں کی راہ کو مزید تراجم کے واسطے سے منور کر سکتی ہے،  جو سرحدوں کی منکر ہیں اور مزید بے شمار آوازیں جو ہمیں یاددہانی کرواتی ہیں کہ کائنات ہر آنکھ میں بستی ہے۔ دل کی گہرائیوں سے آپ تمام کا شکریہ۔

:::

]انگریزی متن ویڈیو’’عالمی بکر فاؤنڈیشن‘‘[

 



[1] مقرر نے یہاں بروکر (دلال) کا لفظ استعمال کیا ہے، جو سہو بھی ہو سکتا ہے۔

 

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

Authors

  • Banu_Mushtaq_ Booker_Prize_Winner_2025

    بانو مشتاق ۱۹۴۸ء میں ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے شہر حسن میں  ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک مصنف،  سماجی کارکن اور وکیل ہیں۔ انھیں آٹھ برس کی عمر میں کنڑ زبان کے شواس موگا مشنری سکول میں اس شرط پر داخلہ ملا کہ  وہ چھے ماہ کے اندر کنڑ زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھیں گی لیکن انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر محض چند ایام  میں ہی کنڑ زبان میں لکھنے کا آغاز کر دیا۔  بعد ازاں، مخالفتوں کے باوجود انھوں نہ صرف جامعہ کی تعلیم حاصل کی بلکہ ۲۶ برس کی عمر میں محبت کی شادی بھی کی۔ وہ کنڑ، ہندی، دکنی اردو اور انگریزی زبانیں جانتی ہیں۔ انھوں  نے اپنے کیریئر کا آغاز ’’لنکش پیتریک‘‘ نامی اخبار میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے کیا۔ پھر انھوں نے چند ماہ کے لیے آل انڈیا بنگلور میں بھی کام کیا۔ یوں تو بانو مشتاق کو بچپن ہی لکھنے پڑھنے سے شغف تھا لیکن وہ اپنی ۲۹ برس کی عمر میں اپنا پہلا افسانہ لکھ کر باقاعدہ مصنف بنیں اور انھوں نے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی  دہائیوں میں جنوب مغربی ہندوستان کے ترقی پسند احتجاجی ادبی حلقوں میں لکھنے کا آغاز کیا۔ ذات پات اور طبقاتی نظام کی ناقد بندایا ساہتیہ تحریک نے بااثر دلت اور مسلمان مصنفین کو جنم دیا، جن میں چند خواتین میں سے ایک بانو مشاق تھیں۔ وہ چھے افسانوی مجموعوں، ایک ناول، مضامین کے ایک  اور ایک  شعری مجموعے کی مصنفہ ہیں۔ وہ کنڑ میں لکھتی ہیں اور اپنے ادبی کاموں  پر قابلِ قدر اعزازات جیت چکی ہیں، جن میں کرناٹک ساہتیہ اکیڈمی اور دانا چنتامانی اتیمبے ایوارڈز شامل ہیں۔ ان کی بین الاقوامی بکر پرائز 2025 جیتنے والی کتاب  ’’دل چراغ‘‘ ان کے ادبی  کاموں میں سے بارہ منتخب افسانوں  کا انگریزی میں ترجمہ ہونے والی پہلی کتاب ہے۔  اس انگریزی ترجمے کی وساطت سے کچھ افسانوں کا اردو، ہندی، تامل اور ملیالم میں ترجمہ کیا  جا چکا ہے۔ ان کے پہلے افسانے کا موضوع نئی نئی ماں بننے والی ایک ایسی عورت ہےجو زچگی کے ڈپریشن کو سہتی ہے۔ یہیں سے بانو مشتاق نے  اپنے احساسات و تجربات کے اظہار کو اپنی تحریروں کے موضوعات بنایا۔ اس طرح ان کے افسانے نسوانی مسائل کا بیانیہ ہیں۔ ان کے افسانوں کی مترجم دیپا  بھاستھی نے ان کے ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۳ء کے درمیان شائع ہونے والے افسانوں میں بارہ ایسی کہانیوں کا انتخاب کیا جن کے مرکزی کردار مسلم گھرانوں کی خواتین تھیں اور دیپا  بھاستھی نے اپنے تراجم کا آغاز ۲۰۲۲ء میں کر کے فروری ۲۰۲۵ء میں کتاب کو پینگوئین رینڈم، بھارت سے شائع کروایا۔ اس  سے قبل دیپا بھاستی بانو مشتاق کے چھے افسانوں کے ایک انتخاب ’’حسینہ اور دوسری کہانیاں‘‘ کے عنوان سے کیا تھا ، جسے  پین ایوارڈ ۲۰۲۴ء سے نوازا گیا تھا جب کہ ’’دل چراغ‘‘بکر پرائز ۲۰۲۵ء جیتنے میں کامیاب رہی۔  صرف یہی نہیں بلکہ بانو مشتاق تمام مرد و زن مسلمان مصنفین میں پہلی مسلمان  خاتون مصنف  بلکہ کنڑ زبان کے تمام مرد و زن ادیبوں میں بھی پہلی مصنف ہیں جنھیں بکر انعام سے سرفراز کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ امر بھی قابلِ تذکرہ ہے کہ دیپا بھاستھی بھی پہلی ہندوستانی مترجم (جملہ مرد و زن مترجمین میں) ہیں جو اس انعام کی شریک بنی ہیں۔ بانو مشتاق قبل ازیں کرناٹک ساہتیہ ایوارڈ ۱۹۹۹ء اور  دانا چنتامنی اتیمبے ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top
𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛