𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

ماریو ورگاس یوسا کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدین احمد کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

افسانے کا فن

مدحت در مطالعۂِ فسانہ (فکشن)

ماریو وَرگاس یوسا

(ہسپانوی تلفظ: مارجو بریاس یوسا)

(Mario Vargas Llosa)

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

نقطہ آغاز ہمیشہ یادیں ہوتا ہے: یادوں سے تخیل پنپتا ہے، وہ مناظر ملتے ہیں جو آپ کے ساتھ ایک طویل عرصے سے ہیں، اور یہی وہ بنیادی مواد ہے جس کے ساتھ ایک مصنف کام کرتا ہے۔

— ماریو ورگاس یوسا

سن ۲۰۱۰ء کے لیے نوبیل انعام برائے ادب وصول پانے والے کے نام کا اعلان کرتے ہوئے سویڈش اکیڈمی نے مؤقف اختیار کیا: ’’۲۰۱۰ء کا نوبیل انعام وَرگاس یوسا کو ان کی بنت کاری کے مضبوط فن اور فرد کی مزاحمت ، بغاوت اور شکست کی مؤثر اور نمایاں تخلیق کاری پر دیا گیا ہے۔‘‘

ماریو وَرگاس یوسا کا نام ہسپانوی روایتی طریقے کے مطابق ہے کہ اصل نام ماریو کے بعد اس کے نام کا پہلا حصّہ (ورگاس) ددھیالی خاندانی اور دوسرا حصّہ( یوسا) ننھیالی خاندانی نام ہے۔ البتّہ ان کا پورا نام جارج ماریو پیڈرو ورگاس ہے۔ مستقبل میں نواب (Marquis) کے خطاب کا اعزاز پانے والا پہلا فرد ماریو ورگاس یوسا ۲۸ مارچ ۱۹۳۶ء کو پیرو کے صوبائی صدر مقام ایرے کیوپا (Arequipa) میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین اَرنیسٹو (Ernesto) وَرگاس مالڈوناڈو (Maldonado) اور ڈورا یوسا کا اکلوتا بچّہ ہیں۔ ان کی پیدائش سے چند ماہ قبل ان کے والدین میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ اپنے والدین میں طلاق ہونے تک ماریو ورگاس یوسا نے ایک برس کا عرصہ اپنے ننھیال میں بسر کیا۔ چوں کہ ان کی والدہ  اور ان کا خاندان ماریو کو بتانا نہیں چاہتے تھے کہ اس کے والدین میں علیحدگی ہو گئی ہے لہٰذا انھوں نے انھیں یقین دلایا کہ ان کے والد فوت ہو چکے ہیں۔ دس برس کی عمر میں ماریو  لیما چلا گئے جہاں پہلی بار ان کی ملاقات اپنے والد سے ہوئی تو ان کے والدین کے آپس میں  تعلّقات دوبارہ بحال ہو گئے۔ سولہ برس کی عمر میں گریجوایشن کرنے سے قبل ہی ماریو نے ایک مقامی اخبار میں بطور صحافی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے ملٹری اکیڈمی چھوڑ کر پیرو سے اپنی تعلیم مکمل کی اور وہاں بھی ایک مقامی اخبار میں کام کرتے رہے۔ ۱۹۵۲ء میں انھوں نے امریکیوں کی قدیم ترین جامعہ، جامعہ سان مارکوس میں داخلہ لیا اور قانون اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ۱۹۵۵ء میں ۱۹ برس کی عمر میں اپنے سے دس برس بڑی اپنی ماموں(خالہ) زاد جولیا یورقوئیدی (Julia Urquidi) سے شادی کی۔ ۱۹۵۸ء میں سان مارکوس کی نیشنل یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کے بعد انھیں ۱۹۶۰ء میں سپین کی کمپلوٹینس (Complutense) یونیورسٹی آف میڈرڈسے تعلیمی وظیفہ مل گیا۔ میڈرڈ کے  وظیفے کی معیاد ختم ہونے پر وہ اس  توقع پر فرانس چلے گئے  کہ انھیں  وہاں بھی تعلیمی وظیفہ مل جائے گا لیکن پیرس پہنچنے پر انھیں انکار کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی حالات خراب ہونے کے باوجود ماریو ورگاس یوسا اور ان کی اہلیہ جولیا نے پیرس ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں یوسا نے بے تحاشا لکھنے کا آغاز کیا۔ انھوں نے  پیرو کی صدارت کے انتخاب میں بھی حصّہ لیا لیکن البرٹو فیوجی موری سے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوئے۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں میکسیکن ٹیلی ویژن پر ایک فقرہ کہا جو دنیا بھر میں محاورہ بن کر معروف ہو گیا: ’’میکسیکو مکمل آمریت ہے۔‘‘ یہ فقرہ بعد کے عشروں میں زبان زدعام ہوا۔

ماریو ورگاس یوسا بہ یک وقت مصنف، سیاست دان، صحافی اور مضمون نگار ہیں۔وہ بشمول ادبی تنقید و صحافت ادب کی ہمہ جہت اصناف میں لکھتے ہیں۔ ان کے ناول مزاح نگاری، پراسرار قتل، تاریخ اور سیاسی ہلچل کو موضوع بناتے ہیں۔  وہ لاطینی امریکا کےنہایت اہم ناول نگار اور اپنی نسل کے نمائندہ لکھاری ہیں۔ کچھ نقادوں کے نزدیک لاطینی امریکا کے دیگر مصنفین سے ان کی بین الاقوامی شہرت کہیں زیادہ ہے۔ ماریو ورگاس یوسا نے اپنے باقاعدہ ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۵۷ء میں اپنے ابتدائی افسانوں ’’قائدین‘‘ (Los Jefes) اور ’’دادا‘‘ (El abuelo) سے کیا۔ ساتھ ہی وہ دو مقامی اخباروں کے لیے بھی کام کرتےرہے۔ انھوں نے سترہ سے زائد ناول اور افسانوں کے مجموعے اور متعدد غیرافسانوی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی افسانوی تصنیفات پر پیرو کے معاشرے کی ان کی اپنی تفہیم اور پیرو کا باسی ہونے کے ناطے ذاتی تجربات کا گہرا اثر ہے۔ تاہم انھوں نے اپنے موضوعات کا احاطہ وسیع کرتے ہوئے دنیا کے دیگر حصّوں کے مسائل کو بھی اپنی تصنیفات میں شامل کیا۔ اپنے مضامین میں ورگاس نے دنیا کے مختلف حصّوں میں قومیت پرستی کو تنقید کا نشانہ بنایا جن میں دیگر ممالک کے علاوہ بوسنیا، کروشیا اور سربیا شامل ہیں۔ ان کے ادبی کیریئر کی سب سے اہم تبدیلی ان کے اسلوب اور سوچ کا جدیدیت سے مابعد جدیدت کی طرف سفر ہے۔

v   

دسمبر ۲۰۱۰ء میں نوبیل انعام کی تقریب  تقسیم کے  وقت سرویجز ٹیلی ویژن اے بی کے شعبہ موسیقی کی سربراہ کیملا لنڈبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے ماریو ورگاس یوسا نے اپنی ناول نگاری کے فن میں بتایا۔ ’’ ہاں، میں بنت کرتا ہوں۔ ہیئت پر بہت زیادہ کام کرتا ہوں۔ میرے خیال میں ساخت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی تحریر، اسلوب۔ کسی ناول کو قائل کرنے کی اِس قوت فراہمی ناول کی کامیابی یا ناکامی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور میرے خیال میں یہ چیز انیسویں صدی میں پائی جاتی ہے، خاص طور پر موسیقی کی ترتیب کاری میں۔ ‘‘

’’پیرس ریویو‘‘ کے انٹرویو کنندگان کے سوالات کے جواب میں ماریو ورگاس یوسا نے افسانے کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’فالکنر وہ پہلا ناول نگار تھا جسے میں نے قلم اور کاغذ ہاتھ میں تھام کر پڑھا کیونکہ اس کی تکنیک نے مجھے دنگ کر دیا تھا۔ وہ پہلا ناول نگار تھا جس کے کام کی میں نے شعوری طور پر کھوج لگا کر دوبارہ لکھنے کا جتن  کیا۔ مثال کے طور پر، وقت کی تنظیم، زمان و مکان کا ملاپ، بیانیے میں وقفے، اور ایک خاص ابہام پیدا کرنے  اور اسے اسے مزید گہرائی دینے کے لیے مختلف نکات سے کہانی سنانے کی صلاحیت۔ ……جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھے یقین ہے کہ موضوع مصنف کا انتخاب کرتا ہے۔ مجھے ہمیشہ یہ احساس رہا ہے کہ بعض کہانیوں نے خود کو مجھ پر مسلط کیا۔ میں ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ  مبہم طور پر ان کا کسی نوع کے بنیادی تجربے سے واسطہ  تھا — میں واقعی یہ نہیں بتا سکتا کہ کیسے۔ ……اب تک، یہ میری تمام کتابوں کے لیے بالکل یکساں رہا ہے۔ مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں نے کوئی  کہانی لکھنے کا  شعوری اور  سرد  مہرانہ فیصلہ کیا ہو۔ اس کے برعکس، بعض واقعات یا لوگ، بعض اوقات خواب یا مطالعہ، اپنے آپ کو اچانک مجھ پر  مسلط کر لیتے ہیں اور توجہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ میں ادبی تخلیق کے خالص غیر تعقلی عناصر کی اہمیت کے بارے میں بہت زیادہ بات کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ غیر تعقلی بھی قارئین تک پہنچنا چاہیے۔ میں چاہوں گا کہ میرے ناول بھی  اسی طرح مطالعہ کیے جائیں جیسے میں اپنے پسندیدہ ناول پڑھتا ہوں۔ جن ناولوں نے مجھے سب سے زیادہ اپنا گرویدہ کیا وہ  دانش  یا عقلی ذرائع سے مجھ تک کم ہی پہنچے  جتنا کہ میری مسحوری کے وسیلے سے۔ یہ ایسی کہانیاں ہیں جو میری تمام تنقیدی صلاحیتوں کی کاملاً تعدیم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں کہ میں جہاں کا تہاں عالم حیرت میں ڈوبا رہوں۔ میں اسی قسم کا ناول پڑھنا پسند کرتا اور اسی نوع  کا ناول لکھنا چاہوں گا۔ میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے کہ ایسی کہانیوں میں، جو قاری کو اپنے خیالات سے نہیں بلکہ اپنے رنگ، جذبات سے متاثر کرے، اپنے دنگ کر ڈالنے والے تجسس بھرے  حیرت انگیز عنصر اور اسرار سے جنھیں  وہ جنم دینے کی اہل ہوں،  فکری عنصر، جس کی موجودگی ناول میں ناگزیر ہے، عمل میں گھل مل  جائے۔ میری رائے میں، ناول کی تکنیک بنیادی طور پر اس اثر کو جنم دینے کے لیے موجود ہوتی ہے کہانی اور قاری کے درمیان فاصلے کو کم کرنے اور اگر ممکن ہو تو  اس فاصلے کو مٹانے کے لیے۔ اس لحاظ سے میں انیسویں صدی کا ادیب ہوں۔ میرے لیے ناول اب بھی مہم جوئیوں کا ناول ہے، جسے  ایک خاص انداز میں پڑھا جاتا ہے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے۔‘‘

ایسمٹوٹ (Asymptote) میں شائع ہونے والے انٹرویو میں انٹرویو کنندہ ہنری ایس نائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے ماریو ورگاس یوسا نے کہا کہ سنجیدہ ادب ہمیشہ روح پرور تفریح ہوتا ہے۔ایسا سنجیدہ ادب، جو قاری سے فکری سعی کا متقاضی ہوتا ہے، بیزار کن نہیں ہوتا۔ بہترین تفریح کے بغیر کوئی بڑا ادب نہیں ہوتا۔ ……کسی ناول کو پڑھنے کے لیے تفریح ایک لازمی شرط ہے، لیکن دوسری طرف، یہ صرف تفریح نہیں ہونا چاہیے۔ بہت فضول ادب بہت سختی سے تفریحی ہوتا ہے۔ ایک اچھے ناول میں، ہمیشہ تفریح کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے — خیالات، دنیا پر تنقید۔ ناول آپ کے وژن کو تقویت بخشتے  ہیں، ان مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کی سوجھ بوجھ عطا کرتے ہیں جن میں آپ گھرے ہوتے ہیں۔ اس سوال ’’آپ تاریخ اور افسانے کے درمیان تعلق کو کیسے دیکھتے ہیں؟‘‘ کا جواب دیتے ہوئے ماریو ورگاس یوسا نے کہا:  میرے خیال میں ادب کے مصنف کو مورخ پر ایک فائدہ ہوتا ہے: وہ جو آپ نہیں جانتے — جو ہم کسی تاریخی واقعے کے بارے میں نہیں جان سکتے — آپ  تخلیق  کر سکتے ہیں۔ بہ ایں ہمہ، اگر آپ تاریخی حقائق پر مبنی ناول لکھتے ہیں تو آپ کو کم از کم تاریخ کے مرکزی واقعات  کو مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ بصورت دیگر آپ خالص فنتاسی لکھ رہے ہوں گے۔ یہ ایک نہایت لطیف توازن ہے جسے تحریری ادب سے حاصل ہونے والی تمام آزادیوں کو استعمال کرنے کے لیے برقرار رکھنا لازم ہے، لیکن اس انداز میں جو قاری کی طرف سے مشتعل ردعمل کو ترغیب نہ دے۔ اتنا  کہنا کافی ہے کہ یہ تاریخی ہے، یا یہ خالص تخیلاتی ہے۔ . یہ ادب کی آزادی اور تاریخی حقائق کے تناظر کے درمیان ایک توازن ہے۔ تمام عظیم تاریخی ناول، مثلاً ’’جنگ اور امن‘‘، یا Les Misérables، تخلیق اور تاریخ کے درمیان اس نوع  کے توازن کو قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

۲۳ مئی ۲۰۱۴ء کو ماریو ورگاس یوسا نے اسٹاک ہوم میں نوبیل میوزیم کا  دورہ کیا۔ اس دوران میں نوبیل آرگنائزیشن نے ان کا ایک انٹرویو کیا جس میں دیگر موضوعات پر سوالات کے ساتھ ساتھ  ان کے افسانوی فن پر بھی ان سے سوالات کیے گئے۔ہم اپنے موضوع کی حد تک محدود رہتے ہوئے یہاں ان کے صرف ان جوابات کا ترجمہ پیش کریں گے جو ان کے افسانے کے فن کی ہمہ جہت تکنیکوں  سے متعلق ہیں۔ ’’ میرے پاس یقیناً عظیم مصنفین بطور عملی نمونہ موجود تھے اور بہت سے …میرے لیے بہت اہم مثال کے طور پر فلوبرٹ کا معاملہ تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان تمام مصنفین کے برعکس، جو اپنے جنم ہی سے نابغہ دکھائی دیتے تھے، فلوبرٹ کو زندگی میں اپنی نابغہ روزگار تخلیقات کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ لہٰذا ان کے معاملے میں صلاحیت ثابت قدمی، نظم و ضبط، اچھا لکھاری بننے کے عزم صمیم کا نتیجہ تھا۔ …میں فلابرٹ کو اس وقت سے پسند کرتا ہوں جب میں نے ان کا پہلا ناول پڑھا تھا، جو مادام بوواری تھا، میں نے ان کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور میں نے دریافت کیا کہ جب انھوں نے لکھنا شروع کیا تو وہ بالکل بھی نابغہ نہیں تھے، بلکہ ایک نہایت عام لکھاری جس نے اپنے عملی نمونوں کے زیر اثر لکھا اور یہ کہ ان کی اصلیت اور واقعی ان کا ہنر وہ چیز ہے جو انھوں نے اپنے نظم و ضبط، بہت محنت اور اپنے کام کے عہد بستگی سے حاصل کیا۔ تو انھوں  نے مجھے لکھنے کا ایک طریقہ دیا جو میرے خیال میں بے حد اہم تھا کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ میں بالکل بھی  نابغہ نہیں تھا اور یہ کہ  میں عمدہ کتابیں لکھنا چاہتا تھا جن کے لیے مجھے محنت کرنا تھی۔ پس فلوبرٹ میرے لیے ایک بہت بڑا فیضان تھے کیونکہ وہ ایک ایسے مصنف تھے جنھوں نے اپنی مطلوبہ صلاحیتیں، اپنی نابغہ روزگاری، بہت محنت اور اپنے پیشہ کے ساتھ بہت گہری وابستگی سے تعمیر کی تھیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنی تخلیقات کی خوبصورتی اور فراوانی سے میری بہت مدد کی بلکہ اس طور بھی کہ وہ پیدائشی نابغہ نہ ہونے کی وجہ سے کوشش، عزم، استقامت، نظم و ضبط کے ذریعے اپنے نابغہ کو بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ……میں سمجھتا ہوں کہ میری پیرو کی جڑیں میرے لیے ازحد اہم ہیں کیونکہ میری یادداشت میں پیرو  ہی سے متعلق پہلی تصاویر محفوظ ہیں۔ میں جس قسم کی ہسپانوی بولتا ہوں، وہ پیرو کی ہسپانوی ہے جو یقیناً ہسپانوی کا حصہ ہے لیکن مخصوص باریکیوں کے ساتھ، ایک مخصوص موسیقی کے ساتھ۔ اور اس لحاظ سے، میں کہہ سکتا ہوں کہ میں پیرو کا لکھاری ہوں، لیکن میں قوم پرست نہیں ہوں، میں ہر قسم کی قوم پرستی کا کھلم کھلا دشمن ہوں۔ لہٰذا، میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ پیرو میں پیدا ہونا، فرانس میں اتنے سال گزارنا، اتنے سال انگلینڈ میں۔ میرے خیال میں وہ تمام جگہیں جہاں جہاں میں رہ چکا ہوں نے جس مصنف کو پیدا کیا ہے وہ میں ہوں۔ ……میرے خیال میں یہ ایک اور بہت اہم علم ہے جو آپ کو مصنف ہونے کے ناطے حاصل ہوتا ہے۔ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ آپ کی شخصیت کو سنوارنے، آپ کی حساسیت تعمیر کرنے میں مدد کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہ قوم پرستی کا نقطہ نظر بہت محدود ہے۔ اتنا عصبیت پسند ہے کہ آپ کو مسائل کا ادراک کرنے، زندگی کو سمجھنے کے لیے ایک تنگ مقام  پر لے آتا ہے جہاں آپ مسائل کا ادراک کر پاتے ہیں  نہ  زندگی کو سمجھ  پاتے ہیں  اور  اس نوع کے عقلی یا قوم پرست نقطہ نظر کی تعمیر پر اپنے آپ کو چھوڑنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کے اس محدود تناظر پر قابو پانے میں ادب آپ کی بہت مدد کرتا ہے۔ آپ کو مختلف زبانوں، مختلف روایات کے مصنفین  کے مطالعےجو کچھ حاصل ہوتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس مقامی، علاقائی، قوم پرست قسم کے نقطہ نظر سے مشترکہ نسب نما بہت زیادہ اہم ہے، کہیں زیادہ بڑا ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو دنیا کا باسی گردانتا ہوں اور میرے خیال میں اس رویے کو اپنانے میں ادب نے میری بہت مدد کی ہے۔ ……(بچپن میں) میرا ایک خواب تھا جو اس وقت بالکل ناممکن لگ رہا تھا، لکھاری بننا۔ کیوں کہ مجھے پڑھنے میں اتنا سرور ملتا تھا کہ میرے خیال میں زندگی محض کہانیاں سنانے، کہانیاں ایجاد کرنے پر مرکوز ہے،اور  یہ یقیناً شان دار چیز ہوگی۔ لیکن یہ ناممکن لگتا تھا  کیونکہ اس وقت زیادہ  لاطینی امریکی صرف  لکھاری نہیں تھے۔ جن ادیبوں کو میں جانتا تھا وہ صرف چھٹیوں یا  ہفتہ وار لکھنے والے تھے۔ وہ پیشہ ور تھے، وکلاء یا ایسے سفارت کار جنھوں نے اپنی زندگیوں کو مکمل طور پر مختلف پیشوں کے لیے وقف کر رکھا تھا اور  ایسے لوگ تھے جو ادب کو ایک مشغلے کے طور پر، ایک حتمی مشغلہ کے طور پر لیتے تھے۔ اور میں صرف اتوار اور چھٹیوں کا مصنف نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس لیے میرا خواب اس وقت لکھاری بننا تھا، لیکن یہ کچھ ناممکن نظر آتا تھا۔ ……لیکن مجھے  ایسی ملازمتیں ملیں جنھوں نے مجھے بہت فارغ وقت دیا تاکہ میں اپنا زیادہ وقت لکھنے کے لیے وقف کر سکوں۔ میں بہت خوش قسمت ثابت ہوا کیوں کہ جس چیز کی خاطر میں بہت چھوٹی عمر سے ترس رہا تھا: کتابیں لکھنا، ناول لکھنا، مختصر کہانیاں لکھنا، ڈرامے لکھنا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ دنیا کی سب سے غیر معمولی سرگرمی ہے۔ ……ادب یقیناً ایک ایسی چیز ہے جو آپ کو بے حد حظ سے نوازتی ہے۔ یہ ضروری بھی ہے۔ اچھا ادب  لطف و تفریح کا ایک غیر معمولی تجربہ ہے، لیکن صرف اتنا  ہی نہیں ہے۔ میرے خیال میں اچھا ادب آپ کی حساسیت، آپ کے تخیل کو بہت مالا مال کرتا ہے اور میرے خیال میں اچھا ادب، عظیم ادب قارئین میں دنیا کے بارے میں تنقیدی رویہ پیدا کرتا ہے۔ جب آپ خوبصورتی، جنگ اور امن کی فراوانی، ڈان کوئجوٹ، وکٹر ہیوگو کے لَیس مائزرایبل (Less Misérables)، ادب کی تمام عظیم دنیاؤں کا تجربہ کرنے کے بعد حقیقی زندگی لوٹتے ہیں، تو مجھے لگتا ہے کہ آپ حقیقی زندگی کی خامیوں اور تمام  غلط کاریوں کے، کیوں کہ وہ غیر منصفانہ، ناحق یا سفاکانہ ہوتی ہیں  کے بارے میں خوب آشنا ہو چکے ہوتے ہیں۔ ……اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ ادب بالخصوص اور ثقافت عمومی طور پر تہذیب و ترقی  میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ……اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جہاں ادب  حصول لذت  کاایک وسیلہ ہے وہیں یہ زندگی میں آگے بڑھنے کا بھی ایک بہت اہم ذریعہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام آمر ہمیشہ ادب کو اپنے اختیار میں رکھنے کے لیے نظام بنانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ ……بہت محنت کریں، جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس سے لطف اٹھائیں۔ میرے خیال میں جب آپ کے پاس ادبی پیشہ ہے تو یہ محسوس کرنا ضروری ہے کہ لکھنےکے پیشے پر عمل کرتے ہوئے آپ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے لیے آپ کو سب سے اہم اعزازات مل رہے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ اس قسم کے احساس کے ساتھ کام کریں گے تو یہ بہت زیادہ ممکن ہے کہ آپ جو لکھیں گے وہ اچھا ادب ہو گا، کہ آپ ایک مصنف کے طور پر کامیاب ہوں گے۔  لیکن اگر آپ میکانکی انداز میں لکھتے ہیں، گویا آپ کسی اور کام یا  مزدوری کی مشق کر رہے ہیں تو میرے خیال میں لکھنا یا کمپوز کرنا یا پینٹنگ کرنا بھی یقیناً ایک کام ہے لیکن یہ ایک بہت ہی خاص قسم کا کام ہے جس میں اس کام کی مشق کرتے ہوئے آپ کو پہلے ہی اپنے کیے کا ایک عالی شان قسم کا انعام مل رہا ہے۔ آپ کچھ ایسا کر رہے ہیں جس میں آپ اپنے آپ کو محسوس کر رہے ہیں، جو بننے کی آپ کی اپنی شخصیت کے لیے نہایت ضروری تھی آپ اُس ضرورت کی تکمیل کر رہے ہیں۔ میں کیسے کہوں کہ اپنے آپ کے ساتھ وفادار ہو جائیں۔ ایک نوجوان مصنف کو میرا مشورہ ہوگا —  آپ جو کرتے ہیں اس سے لطف اندوز ہوں، اپنے آپ پر سخت تنقید کریں اور اس نوع کی داد و تحسین  وصولیں جو آپ کے کیے ہوئے کام سے  اس سے مطابقت رکھتی ہوں ۔‘‘

لٹرل (Literal) میں شائع ہونے والے انٹرویو (ترجمہ) میں انٹرویو کنندہ میگویل اینجل زاپاٹا نے جب ماریو ورگاس یوسا سے سوال کیا: کیاآپ یقینی طور پر کہیں گے کہ ماحول — کسی کا گرد و پیش، فطرت خود — لکھنے اور تخلیق کرنے کے عمل میں معاون ثابت ہوتا ہے؟ تو ماریو کا جواب تھا: بلاشبہ۔ تاہم میرا یہ بھی یقین ہے  کہ جب آپ کسی کہانی کے جنون میں مبتلا ہوتے ہیں تو آپ اپنے آس پاس  سے قطع نظر اسی جنونی حالت میں لکھتے ہیں۔ خوشگوار ماحول، مثال کے طور پر اس طرح کا — مسلسل تبدیلی کا حامل ایک خوب صورت منظر، کیونکہ صبح کے سمے  سمندر ویسا نہیں ہوتا جیسا دھندلکے کے وقت ہوتا ہے نہ ہی ویسا جیسا دھوپیلے دن یا ابر آلود ہونے پر ہوتا ہے — نہ صرف خوش گوار ہوتا ہے بلکہ میرے لیے حوصلہ افزا بھی۔ماریو ورگاس یوسا نے افسانے کے فن پر مزید سوالات کے جواب دیتے ہوئے  کہا: …… میرا معمول ہمیشہ یکساں رہتا ہے: میں صبح سے آغاز لے کر  سہ پہر تک اپنا کام جاری رکھتا ہوں،  اور میرا  یہ بہت معمول طویل عرصےسے تبدیل نہیں ہوا۔ درحقیقت جب لکھنے کے ساتھ ساتھ روزی کمانے کے لیے بھی کام کرنا پڑتا تھا تو وہ ایک الگ کہانی ہے، لیکن جب سے میں نے اپنا سارا وقت لکھنے کے لیے وقف کیا ہے، میرا یہی معمول ہے۔ صبح کے وقت میرا کام زیادہ تخلیقی ہوتا ہے۔ سہ پہر کو میں نظر ثانی اور درستی  کرتا ہوں، اور اگلے روز کے کام کے لیےخاکہ لکھتا ہوں۔ سہ پہر میں ہمیشہ تحقیق کرتا ہوں جو تخلیقی کام کا تکملہ ہوتی ہے۔ میں اس معمول پر سختی سے عمل کرتا ہوں۔ میں ہفتہ بھر اس  کتاب پر کام کرتا ہوں جسے میں تصنیف کر  رہا ہوتا ہوں اور ہفتے کے آخر میں اپنا وقت مضامین لکھنے کے لیے وقف کرتا ہوں۔ مہینے میں ایک دو بار اخباری مضامین لکھتا ہوں۔ — آپ کی تحریر نقطۂ آغاز کیا ہوتا ہے؟—  عام طور پر، نقطۂ آغاز یاد سے ہوتا ہے؛ مجھے یقین ہے کہ میں نے جتنی بھی کہانیاں لکھی ہیں انھوں نے کسی نہ کسی زندہ تجربے سے جنم لیا ہے جو میری یادداشت میں باقی رہا اور جو اپنے ارد گرد ایک پورے ڈھانچے کا تصور کے ساتھ ایک تخیل، زرخیز زمین بن گیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ میں نے اپنی پہلی کہانی کے بعد سے تقریباً ہمیشہ ایک خاکہ کی پیروی کی ہے: میں بے شمار  چیزیں لکھتا ہوں، انڈیکس کارڈ بناتا ہوں، اور لکھنے کا آغاز کرنے سےقبل پلاٹ کے کچھ خاکے ترتیب دیتا ہوں۔ لکھنا شروع کرنے کے لیے مجھے کہانی کے لیے کم از کم ایک ڈھانچہ کی ضرورت ہوتی ہے جو خواہ بہت عام ہو۔ میں تب ہی  کام شروع کر سکتا ہوں۔ میں پہلے ایک مسودہ تیار کرتا ہوں، جو اس کام کا حصہ ہے اور جو میرے لیے سب سے کارِ دشوار ہے۔ جیسے ہی میں یہ مرحلہ طے کر لیتا ہوں تو کام ازحد خوش گوار ہو جاتا ہے۔ میں پُراعتمادی سے، زیادہ مضبوطی سے لکھ سکتا ہوں، کیونکہ میں آگاہ ہوتا ہوں کہ کہانی موجود ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس میں یہ ایک مستقل عمل رہا ہے: تحقیق جو مجھے موضوع، صورتحال، کہانی کے وقوع کے دور سے روشناس کرائے گا۔…… میں ان مقامات کا سفر کرتا ہوں جہاں کہانی وقوع ہوتی ہے۔ شہادتیں جمع کرتا اور اس دور کے اخبارات پڑھتا ہوں،  کسی تاریخی سچائی کو دوبارہ پیش کرنے کے مقصد  کے پیشِ نظر نہیں بلکہ اس ماحول سے آشنائی، انجذاب محسوس کرنے کے لیے جس میں مَیں کرداروں اور کہانی کورقم کرنا چاہتا ہوں۔ پھر میں بہت کچھ درست کرتا، بہت کچھ دوبارہ لکھتا ہوں۔ آپ کو سچ بتاؤں —  میرے لیے یہ وہ چیز ہے جو حوزے ایمیلیو پچیکو نے ایک بار کہی تھی، اور یہ مجھے اپنی حد تک درست معلوم ہوتی ہے —  جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے وہ لکھنا نہیں بلکہ نظر ثانی کرنا ہے۔ یہ قطعی سچ ہے کہ جب میں اپنے  کیے کام کی درستی اور نظر ثانی کرتا ہوں تو مجھے لکھنے میں سب سے زیادہ لطف آتا ہے۔…… اس سوال کہ کیا آپ اپنے شائع شدہ ناول کو غلطیاں تلاش کرنے کی غرض سے مکرر پڑھتے ہیں اور اگر کوئی حصہ پڑھیں تو  اسے تبدیل کرنا چاہیں گے؟ ماریو ورگاس یوسا نے واضح کیا:  نہیں، آخری مرتبہ  میں پروف خوانی کے وقت پڑھتا ہوں اور ممکن ہو تو بہتری کرتا ہوں۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی کہ اسے دوبارہ نہ پڑھوں۔ بعض اوقات جب میں کسی مترجم کے ساتھ کام کرتا ہوں تو میں غلطیوں کو درستی کی خاطر مکرر پڑھنے کا پابند ہوتا ہوں، لیکن عموماً میں اس پر نظر ثانی کرنا پسند نہیں کرتا جو میں نے لکھ کر  شائع کروا لیا ہوتا ہے۔ یقیناً، میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے جس ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں اپنی تخلیق کو اشاعت کے بعد دوبارہ پڑھنا پسند نہیں کرتا۔ ہر بار جب میں اپنے لکھے  کو دوبارہ پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں آیا میں اس کہانی پر کچھ اور کام کر سکتا تھا۔ ……ہاں میں شاعری کا مطالعہ کرتا ہوں۔ میں بے شمار ایسے شعرا کی شاعری دوبارہ پڑھنا پسند کرتا ہوں جنھوں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ روبن ڈاریو سے بات  شروع کرتے ہیں، جسے ان دنوں زیادہ نہیں پڑھا جاتا ہے اور جو میرے خیال میں اب بھی ہسپانوی میں حقیقی شاعری کا باپ اور طلسماتی جوہر کا حامل ہے۔ میں نیرودا کو بھی دوبارہ پڑھتا ہوں جسے میں اپنی جوانی میں پیار کرتا تھا، اور بودیلیئر شاید وہ شاعر  ہے جس کی میں تمام شعرا کی نسبت  سب سے زیادہ تحسین و توصیف کرتا ہوں۔ میں ایلیٹ کو نہ صرف ایک شاعر بلکہ ایک مضمون نگار کے طور پر بھی بہت پسند کرتا ہوں۔ ……میرے ناولوں میں خصوصی طور پر سوانح عمری نہیں ہے۔ بعض اوقات کوئی میرے نام کا لبادہ اوڑھے اور دیگر واسطوں سے میرے تجربات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نمودار ہو جاتا ہے لیکن وہ بھی کسی تناظر میں  اور ایسے زندہ و جاوید تجربات لیے نمودار ہوتا ہے جو میرے تجربات سے نہایت مختلف ہوتے ہیں۔ اس طرح میرا کوئی بھی ناول سوانحی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ بھی نہیں جو سب سے زیادہ سوانحی لگتا ہے یعنی ’آنٹی جولیا‘۔ یقیناً میں نے اس معاملے میں اپنی زندگی کے ایک لمحے کا فائدہ اٹھایا، لیکن ’ورگیٹاس کی کہانی‘ میں بھی، جو ایک لکھاری بننا پسند کرتا، ذاتی یادداشت سے کہیں زیادہ تخیل ہے۔ خود نوشتگی ایک ادبی وسیلہ ہے، جیسا کہ ’ایل ہابلاذور‘ میں ہے۔ —آپ اس پہلو کو کیسے تبدیل کرتے ہیں؛ یعنی آپ سوانح عمری کو ادبی کیسے بناتے ہیں؟— سوانحی حقائق کو تخیل میں سمویا جاتا ہے، یا جیسا کہ آپ کہتے ہیں، حقائق کو بدل دیا جاتا ہے۔ آخر میں، تخیلاتی تصور فاتح قرار پاتا ہے۔ اب، اگر آپ مجھ سے استفسار کریں کہ کیا ادب کا کوئی سوانحی ماخذ ہے، تو میں کہوں گا کہ میں مدد نہیں کر سکتا لیکن یقین کر سکتا ہوں کہ سفر کا نقطۂ آغاز ہمیشہ یادیں ہوتا ہے: یادوں سے تخیل پنپتا ہے، وہ مناظر ملتے ہیں جو آپ کے ساتھ ایک طویل عرصے سے ہیں، اور یہی وہ بنیادی مواد ہے جس کے ساتھ ایک مصنف کام کرتا ہے۔ لیکن یہ بنیادی مواد ہے جس سے آپ ایک جہان تخلیق کرنے کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ تجربہ شاعر کے تجربے سے بہت مختلف ہے۔ شاعر بھی کسی یاد، زندگی کے کسی تجربے، لوگوں، اپنی یادوں تعمیر پانے والی کسی حقیقت سے ہی آغاز لیتا ہے۔

نوبیل اعزاز کی تقریب سے خطاب میں اپنے نوبیل خطبے ’’مدحت در مطالعہ فسانہ(فکشن)‘‘ میں ماریو ورگاس یوسا نے مطالعے کی اہمیت کی یوں مدح سرائی کی: ’’کم و بیش ستر برس بعد بھی مجھے بخوبی یاد ہے کہ لفظوں کو کتابوں میں ڈھالنے کے طلسم نے زمان و مکان کی حدود و قیود کو توڑتے ہوئے میری زندگی کو کس قدر مالا مال کیا۔ …مطالعہ خوابوں کو زندگی میں ڈھالتا ہے اور زندگی کو خوابوں میں اور لڑکپن ہی میں ادب کی کائنات کو میرے سامنے عیاں کر دیا تھا۔ میں نے جب اپنی پہلی کہانیاں لکھیں تو ان کے بارے میں میری ماں نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنی پڑھی ہوئی کہانیاں ہی لکھ دی ہیں۔ اس بات نے مجھے افسردہ کر دیا لیکن میں ان کے انجام بدلنا چاہتا تھا۔ …کہانیاں تخلیق کرنا آسان کام نہیں تھا۔ جب انھیں الفاظ کا رُوپ دیا جاتا تو منصوبہ کاغذ پر دھندلا جاتا اور ناکامی خیالات و تصوّرات کا مقدّر ٹھیرتی۔ پھر انھیں کیسے زندہ کیا جائے؟ خُوش بختی سے ماہرین موجود تھے، اساتذہ تھے جن سے سیکھا اور جن کی پیروی کی جا سکتی تھی۔ فلابرٹ نے مجھے سکھایا کہ صلاحیت غیر تسلیم شدہ نظم و ضبط اور طویل صبرو تحمل ہے۔ فاکنر نے وہ ہیئت— لکھنا اور بُنت کاری— سکھائی جو موضوع کی قدروقیمت میں اضافہ کرتی اور اسے خامیوں سے بچاتی ہے۔ مارٹوریل، سروانٹیس، ڈِکنز، بالزیک، ٹالسٹائی، کونرڈ، تھامس مین نے سکھایا کہ وسعتِ خیال اور اولوالعزمی بھی اسلوبیاتی مہارت اور بیانیے  کی حکمت عملی جتنی اہم ہے۔ …لکھنے کی طرح مطالعہ بھی زندگی کی ادھورگیوں کے خلاف احتجاج ہے۔ …ہم فکشن کے بغیر بسر ہونے والی زندگی کی آزادی سے کم آشنا ہوں گے۔   ادب نہ صرف حسن کے خواب کو ہمارے اندر سرایت کرتا ہے بلکہ ہمیں ہمہ نوع کے ظلم و ستم سے آگاہی بھی دیتا ہے۔ انھیں پُوچھیے کہ اپنے خوف پر قابُو پانے کے لیے حکومتیں شہریوں پر سینسر جیسی پابندیاں کیوں عاید کرتی ہیں؟ …اس لیے کہ وہ تخیلاتی کتابوں میں شتربے مہار آزادی کے خطرات سے آشنا ہیں، جانتی ہیں کہ ترغیب آمیز فکشن شائع ہو کر قارئین تک پہنچتا ہے تو وہ اپنی اصل آزادی اور حقیقی زندگی میں موجود خوف کا موازنہ کرتے ہیں۔…مختلف النسل لوگوں کے درمیان اچھا ادب پُل کا کام کرتا ہے۔…ادب مختلف النوع انسانوں میں بھائی چارہ قائم کرتے ہوئے مردوزن کے بیچ کھڑی سرحدوں کو مٹاتا ہے۔ …اپنے لڑکپن میں فرانسیسی ادب سے متأثر ہو کر میں نے پیرس جانے کا خواب دیکھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہاں اقامت پذیر ہو کر اور اس فضا میں جس میں بالزیک، سٹینڈہال، بودلیئر اور پراؤسٹ سانس لیتے ہیں، وہ مجھے سچا ادیب بننے میں میری مدد کریں گے۔ اور اگر میں پیرو نہ چھوڑتا تو میں محض اتوار اور چھٹی والے دِنوں کا فرضی نام والا لکھاری ہوتا۔ اور یہ سچ ہے کہ میں فرانس اور فرانسیسی ثقافت کے ناقابلِ فراموش اسباق کا مقروض ہوں۔…میں اس زمانے میں فرانس میں رہا جب سارترے اور کامیو حیات تھے اور لکھ رہے تھے۔ …اور ان برسوں میں جدید اور قوّی ادب نمو پا رہا تھا۔ … پیرو ہی کی طرح میں ہسپانیہ سے بھی بہت محبت کرتا ہوں۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہسپانیہ میں بِتائے پانچ برسوں کے دوران میں نے ہسپانوی ثقافت، کتب، جدید خیالات اور فن کی اقدار و اقسام سے بہت کچھ حاصل کیا۔ …ادب کی طرف لوٹتا ہوں۔ …بچپن میں میرے تائے، چاچے، مامے، خالو، ان کے بیٹے بیٹیاں، میرے دوست اور میں مل کر ٹارزن اور سلگائی کی کہانیاں دوبارہ لکھا کرتے تھے۔ …اس زمانے میں لکھنا ہمارا خاندانی کھیل تھا، ایسا کھیل جس میں میرے لیے کشش تھی۔ میرے ابّا  اللہ کو پیارے ہو گئے۔…اسی روز، جب میں گیارہ برس کا تھا، میری شخصیت یکسر تبدیل ہو گئی۔ میری معصومیت کھو گئی اور میرے اندر تنہائی، تحکم، بلوغت اور ہراس نے بسیرا کر لیا۔ میری نجات مطالعے میں تھی، اچھی کتابیں پڑھنے اور لفظوں میں پناہ لینے میں تھی۔ …… جہاں میں دوبارہ آزاد اور مسرور ہو گیا، اور چوری چھپے لکھنے میں جیسے کوئی بولے بغیر اپنا حال بیان کرے۔ اب ادب کھیل نہیں رہا تھا بلکہ مخالف حالات کے خلاف ڈھال، احتجاج، بغاوت، ناقابلِ برداشت سے فرار اور میرے زندہ رہنے کا سبب بن گیا تھا۔ تب سے اب تک ادب میرے لیے سُرنگ کے آخری سِرے پر دِکھائی دینے والی روشنی اور ساحل پر لے جانے والی بیڑی ہے۔ …فلابرٹ نے کہا تھا: ’’لکھنا زندگی کا ایک طور ہے۔‘‘ ہاں، یقینا ًتخیل سے لکھنے کا ایک طور اور حظ اور دماغ میں جلنے والی آگ کی چنگاریاں جو بے قابو الفاظ پر اختیار کی جدوجہد کرتا ہے۔…ادب زندگی کی جھوٹی تصویر ہے جو بہتر زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ …ادب حقیقی زندگی میں ہم پر ہونے والی ناہمواریوں اور پریشانیوں کی تلافی کرتا ہے۔ …میں ہمیشہ یہ تصوّر کر کے متحیر ہوتا تھا کہ قدیم زمانے میں ہمارے اجداد، جو حیوانوں جیسی زندگی بسر کرتے تھے، جنھیں صرف نئی نئی وجود میں آنے والی زبان کی برتری حاصل تھی وہ غاروں میں آگ کے اردگرد دائروں میں بیٹھ کر کہانیاں گھڑتے اور سناتے تھے۔ وہی لمحہ ہماری منزل کا فیصلہ کن لمحہ تھا۔ کیوں کہ وہی دائرے تخیل اور کہانی کی بنیاد بنے، تہذیب کا آغاز ٹھیرے اور طویل سفر کے بعد…آج ہم ستاروں کے سفر پر ہیں۔ کبھی سمجھنے کی کوشش والا یہ عمل تحریر اور کہانیوں کے جنم سے مزید پھلا پُھولا۔ …فکشن تفریح سے بڑھ کر چیز ہے، ایک ذہنی مشقت سے زیادہ جو ہمارے احساسات کو مہمیز کرتا ہے۔ …کیوں کہ ادب کے بغیر دُنیا، خواہشات، نظریات یا توقیر کی دُنیا نہیں ہو گی۔ …ادب انسان سے سچا انسان بناتا ہے، ہمیں اس شے کو پانے کی آس دِلاتا ہے جو ہمارے پاس نہیں؛ وہ ہونے کی امید جگاتا ہے جو ہم نہیں اور ناممکن کو ممکن میں بدلتا ہے۔…‘‘

:::

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

ماریو ورگاس یوسا کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدین احمد کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

افسانے کا فن

مدحت در مطالعۂِ فسانہ (فکشن)

ماریو وَرگاس یوسا

(ہسپانوی تلفظ: مارجو بریاس یوسا)

(Mario Vargas Llosa)

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

نقطہ آغاز ہمیشہ یادیں ہوتا ہے: یادوں سے تخیل پنپتا ہے، وہ مناظر ملتے ہیں جو آپ کے ساتھ ایک طویل عرصے سے ہیں، اور یہی وہ بنیادی مواد ہے جس کے ساتھ ایک مصنف کام کرتا ہے۔

— ماریو ورگاس یوسا

سن ۲۰۱۰ء کے لیے نوبیل انعام برائے ادب وصول پانے والے کے نام کا اعلان کرتے ہوئے سویڈش اکیڈمی نے مؤقف اختیار کیا: ’’۲۰۱۰ء کا نوبیل انعام وَرگاس یوسا کو ان کی بنت کاری کے مضبوط فن اور فرد کی مزاحمت ، بغاوت اور شکست کی مؤثر اور نمایاں تخلیق کاری پر دیا گیا ہے۔‘‘

ماریو وَرگاس یوسا کا نام ہسپانوی روایتی طریقے کے مطابق ہے کہ اصل نام ماریو کے بعد اس کے نام کا پہلا حصّہ (ورگاس) ددھیالی خاندانی اور دوسرا حصّہ( یوسا) ننھیالی خاندانی نام ہے۔ البتّہ ان کا پورا نام جارج ماریو پیڈرو ورگاس ہے۔ مستقبل میں نواب (Marquis) کے خطاب کا اعزاز پانے والا پہلا فرد ماریو ورگاس یوسا ۲۸ مارچ ۱۹۳۶ء کو پیرو کے صوبائی صدر مقام ایرے کیوپا (Arequipa) میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین اَرنیسٹو (Ernesto) وَرگاس مالڈوناڈو (Maldonado) اور ڈورا یوسا کا اکلوتا بچّہ ہیں۔ ان کی پیدائش سے چند ماہ قبل ان کے والدین میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ اپنے والدین میں طلاق ہونے تک ماریو ورگاس یوسا نے ایک برس کا عرصہ اپنے ننھیال میں بسر کیا۔ چوں کہ ان کی والدہ  اور ان کا خاندان ماریو کو بتانا نہیں چاہتے تھے کہ اس کے والدین میں علیحدگی ہو گئی ہے لہٰذا انھوں نے انھیں یقین دلایا کہ ان کے والد فوت ہو چکے ہیں۔ دس برس کی عمر میں ماریو  لیما چلا گئے جہاں پہلی بار ان کی ملاقات اپنے والد سے ہوئی تو ان کے والدین کے آپس میں  تعلّقات دوبارہ بحال ہو گئے۔ سولہ برس کی عمر میں گریجوایشن کرنے سے قبل ہی ماریو نے ایک مقامی اخبار میں بطور صحافی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے ملٹری اکیڈمی چھوڑ کر پیرو سے اپنی تعلیم مکمل کی اور وہاں بھی ایک مقامی اخبار میں کام کرتے رہے۔ ۱۹۵۲ء میں انھوں نے امریکیوں کی قدیم ترین جامعہ، جامعہ سان مارکوس میں داخلہ لیا اور قانون اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ۱۹۵۵ء میں ۱۹ برس کی عمر میں اپنے سے دس برس بڑی اپنی ماموں(خالہ) زاد جولیا یورقوئیدی (Julia Urquidi) سے شادی کی۔ ۱۹۵۸ء میں سان مارکوس کی نیشنل یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کے بعد انھیں ۱۹۶۰ء میں سپین کی کمپلوٹینس (Complutense) یونیورسٹی آف میڈرڈسے تعلیمی وظیفہ مل گیا۔ میڈرڈ کے  وظیفے کی معیاد ختم ہونے پر وہ اس  توقع پر فرانس چلے گئے  کہ انھیں  وہاں بھی تعلیمی وظیفہ مل جائے گا لیکن پیرس پہنچنے پر انھیں انکار کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی حالات خراب ہونے کے باوجود ماریو ورگاس یوسا اور ان کی اہلیہ جولیا نے پیرس ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں یوسا نے بے تحاشا لکھنے کا آغاز کیا۔ انھوں نے  پیرو کی صدارت کے انتخاب میں بھی حصّہ لیا لیکن البرٹو فیوجی موری سے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوئے۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں میکسیکن ٹیلی ویژن پر ایک فقرہ کہا جو دنیا بھر میں محاورہ بن کر معروف ہو گیا: ’’میکسیکو مکمل آمریت ہے۔‘‘ یہ فقرہ بعد کے عشروں میں زبان زدعام ہوا۔

ماریو ورگاس یوسا بہ یک وقت مصنف، سیاست دان، صحافی اور مضمون نگار ہیں۔وہ بشمول ادبی تنقید و صحافت ادب کی ہمہ جہت اصناف میں لکھتے ہیں۔ ان کے ناول مزاح نگاری، پراسرار قتل، تاریخ اور سیاسی ہلچل کو موضوع بناتے ہیں۔  وہ لاطینی امریکا کےنہایت اہم ناول نگار اور اپنی نسل کے نمائندہ لکھاری ہیں۔ کچھ نقادوں کے نزدیک لاطینی امریکا کے دیگر مصنفین سے ان کی بین الاقوامی شہرت کہیں زیادہ ہے۔ ماریو ورگاس یوسا نے اپنے باقاعدہ ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۵۷ء میں اپنے ابتدائی افسانوں ’’قائدین‘‘ (Los Jefes) اور ’’دادا‘‘ (El abuelo) سے کیا۔ ساتھ ہی وہ دو مقامی اخباروں کے لیے بھی کام کرتےرہے۔ انھوں نے سترہ سے زائد ناول اور افسانوں کے مجموعے اور متعدد غیرافسانوی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی افسانوی تصنیفات پر پیرو کے معاشرے کی ان کی اپنی تفہیم اور پیرو کا باسی ہونے کے ناطے ذاتی تجربات کا گہرا اثر ہے۔ تاہم انھوں نے اپنے موضوعات کا احاطہ وسیع کرتے ہوئے دنیا کے دیگر حصّوں کے مسائل کو بھی اپنی تصنیفات میں شامل کیا۔ اپنے مضامین میں ورگاس نے دنیا کے مختلف حصّوں میں قومیت پرستی کو تنقید کا نشانہ بنایا جن میں دیگر ممالک کے علاوہ بوسنیا، کروشیا اور سربیا شامل ہیں۔ ان کے ادبی کیریئر کی سب سے اہم تبدیلی ان کے اسلوب اور سوچ کا جدیدیت سے مابعد جدیدت کی طرف سفر ہے۔

v     

دسمبر ۲۰۱۰ء میں نوبیل انعام کی تقریب  تقسیم کے  وقت سرویجز ٹیلی ویژن اے بی کے شعبہ موسیقی کی سربراہ کیملا لنڈبرگ کو انٹرویو دیتے ہوئے ماریو ورگاس یوسا نے اپنی ناول نگاری کے فن میں بتایا۔ ’’ ہاں، میں بنت کرتا ہوں۔ ہیئت پر بہت زیادہ کام کرتا ہوں۔ میرے خیال میں ساخت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی تحریر، اسلوب۔ کسی ناول کو قائل کرنے کی اِس قوت فراہمی ناول کی کامیابی یا ناکامی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور میرے خیال میں یہ چیز انیسویں صدی میں پائی جاتی ہے، خاص طور پر موسیقی کی ترتیب کاری میں۔ ‘‘

’’پیرس ریویو‘‘ کے انٹرویو کنندگان کے سوالات کے جواب میں ماریو ورگاس یوسا نے افسانے کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’فالکنر وہ پہلا ناول نگار تھا جسے میں نے قلم اور کاغذ ہاتھ میں تھام کر پڑھا کیونکہ اس کی تکنیک نے مجھے دنگ کر دیا تھا۔ وہ پہلا ناول نگار تھا جس کے کام کی میں نے شعوری طور پر کھوج لگا کر دوبارہ لکھنے کا جتن  کیا۔ مثال کے طور پر، وقت کی تنظیم، زمان و مکان کا ملاپ، بیانیے میں وقفے، اور ایک خاص ابہام پیدا کرنے  اور اسے اسے مزید گہرائی دینے کے لیے مختلف نکات سے کہانی سنانے کی صلاحیت۔ ……جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھے یقین ہے کہ موضوع مصنف کا انتخاب کرتا ہے۔ مجھے ہمیشہ یہ احساس رہا ہے کہ بعض کہانیوں نے خود کو مجھ پر مسلط کیا۔ میں ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ  مبہم طور پر ان کا کسی نوع کے بنیادی تجربے سے واسطہ  تھا — میں واقعی یہ نہیں بتا سکتا کہ کیسے۔ ……اب تک، یہ میری تمام کتابوں کے لیے بالکل یکساں رہا ہے۔ مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ میں نے کوئی  کہانی لکھنے کا  شعوری اور  سرد  مہرانہ فیصلہ کیا ہو۔ اس کے برعکس، بعض واقعات یا لوگ، بعض اوقات خواب یا مطالعہ، اپنے آپ کو اچانک مجھ پر  مسلط کر لیتے ہیں اور توجہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ میں ادبی تخلیق کے خالص غیر تعقلی عناصر کی اہمیت کے بارے میں بہت زیادہ بات کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ غیر تعقلی بھی قارئین تک پہنچنا چاہیے۔ میں چاہوں گا کہ میرے ناول بھی  اسی طرح مطالعہ کیے جائیں جیسے میں اپنے پسندیدہ ناول پڑھتا ہوں۔ جن ناولوں نے مجھے سب سے زیادہ اپنا گرویدہ کیا وہ  دانش  یا عقلی ذرائع سے مجھ تک کم ہی پہنچے  جتنا کہ میری مسحوری کے وسیلے سے۔ یہ ایسی کہانیاں ہیں جو میری تمام تنقیدی صلاحیتوں کی کاملاً تعدیم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں کہ میں جہاں کا تہاں عالم حیرت میں ڈوبا رہوں۔ میں اسی قسم کا ناول پڑھنا پسند کرتا اور اسی نوع  کا ناول لکھنا چاہوں گا۔ میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے کہ ایسی کہانیوں میں، جو قاری کو اپنے خیالات سے نہیں بلکہ اپنے رنگ، جذبات سے متاثر کرے، اپنے دنگ کر ڈالنے والے تجسس بھرے  حیرت انگیز عنصر اور اسرار سے جنھیں  وہ جنم دینے کی اہل ہوں،  فکری عنصر، جس کی موجودگی ناول میں ناگزیر ہے، عمل میں گھل مل  جائے۔ میری رائے میں، ناول کی تکنیک بنیادی طور پر اس اثر کو جنم دینے کے لیے موجود ہوتی ہے کہانی اور قاری کے درمیان فاصلے کو کم کرنے اور اگر ممکن ہو تو  اس فاصلے کو مٹانے کے لیے۔ اس لحاظ سے میں انیسویں صدی کا ادیب ہوں۔ میرے لیے ناول اب بھی مہم جوئیوں کا ناول ہے، جسے  ایک خاص انداز میں پڑھا جاتا ہے جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے۔‘‘

ایسمٹوٹ (Asymptote) میں شائع ہونے والے انٹرویو میں انٹرویو کنندہ ہنری ایس نائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے ماریو ورگاس یوسا نے کہا کہ سنجیدہ ادب ہمیشہ روح پرور تفریح ہوتا ہے۔ایسا سنجیدہ ادب، جو قاری سے فکری سعی کا متقاضی ہوتا ہے، بیزار کن نہیں ہوتا۔ بہترین تفریح کے بغیر کوئی بڑا ادب نہیں ہوتا۔ ……کسی ناول کو پڑھنے کے لیے تفریح ایک لازمی شرط ہے، لیکن دوسری طرف، یہ صرف تفریح نہیں ہونا چاہیے۔ بہت فضول ادب بہت سختی سے تفریحی ہوتا ہے۔ ایک اچھے ناول میں، ہمیشہ تفریح کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے — خیالات، دنیا پر تنقید۔ ناول آپ کے وژن کو تقویت بخشتے  ہیں، ان مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کی سوجھ بوجھ عطا کرتے ہیں جن میں آپ گھرے ہوتے ہیں۔ اس سوال ’’آپ تاریخ اور افسانے کے درمیان تعلق کو کیسے دیکھتے ہیں؟‘‘ کا جواب دیتے ہوئے ماریو ورگاس یوسا نے کہا:  میرے خیال میں ادب کے مصنف کو مورخ پر ایک فائدہ ہوتا ہے: وہ جو آپ نہیں جانتے — جو ہم کسی تاریخی واقعے کے بارے میں نہیں جان سکتے — آپ  تخلیق  کر سکتے ہیں۔ بہ ایں ہمہ، اگر آپ تاریخی حقائق پر مبنی ناول لکھتے ہیں تو آپ کو کم از کم تاریخ کے مرکزی واقعات  کو مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ بصورت دیگر آپ خالص فنتاسی لکھ رہے ہوں گے۔ یہ ایک نہایت لطیف توازن ہے جسے تحریری ادب سے حاصل ہونے والی تمام آزادیوں کو استعمال کرنے کے لیے برقرار رکھنا لازم ہے، لیکن اس انداز میں جو قاری کی طرف سے مشتعل ردعمل کو ترغیب نہ دے۔ اتنا  کہنا کافی ہے کہ یہ تاریخی ہے، یا یہ خالص تخیلاتی ہے۔ . یہ ادب کی آزادی اور تاریخی حقائق کے تناظر کے درمیان ایک توازن ہے۔ تمام عظیم تاریخی ناول، مثلاً ’’جنگ اور امن‘‘، یا Les Misérables، تخلیق اور تاریخ کے درمیان اس نوع  کے توازن کو قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

۲۳ مئی ۲۰۱۴ء کو ماریو ورگاس یوسا نے اسٹاک ہوم میں نوبیل میوزیم کا  دورہ کیا۔ اس دوران میں نوبیل آرگنائزیشن نے ان کا ایک انٹرویو کیا جس میں دیگر موضوعات پر سوالات کے ساتھ ساتھ  ان کے افسانوی فن پر بھی ان سے سوالات کیے گئے۔ہم اپنے موضوع کی حد تک محدود رہتے ہوئے یہاں ان کے صرف ان جوابات کا ترجمہ پیش کریں گے جو ان کے افسانے کے فن کی ہمہ جہت تکنیکوں  سے متعلق ہیں۔ ’’ میرے پاس یقیناً عظیم مصنفین بطور عملی نمونہ موجود تھے اور بہت سے …میرے لیے بہت اہم مثال کے طور پر فلوبرٹ کا معاملہ تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان تمام مصنفین کے برعکس، جو اپنے جنم ہی سے نابغہ دکھائی دیتے تھے، فلوبرٹ کو زندگی میں اپنی نابغہ روزگار تخلیقات کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ لہٰذا ان کے معاملے میں صلاحیت ثابت قدمی، نظم و ضبط، اچھا لکھاری بننے کے عزم صمیم کا نتیجہ تھا۔ …میں فلابرٹ کو اس وقت سے پسند کرتا ہوں جب میں نے ان کا پہلا ناول پڑھا تھا، جو مادام بوواری تھا، میں نے ان کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور میں نے دریافت کیا کہ جب انھوں نے لکھنا شروع کیا تو وہ بالکل بھی نابغہ نہیں تھے، بلکہ ایک نہایت عام لکھاری جس نے اپنے عملی نمونوں کے زیر اثر لکھا اور یہ کہ ان کی اصلیت اور واقعی ان کا ہنر وہ چیز ہے جو انھوں نے اپنے نظم و ضبط، بہت محنت اور اپنے کام کے عہد بستگی سے حاصل کیا۔ تو انھوں  نے مجھے لکھنے کا ایک طریقہ دیا جو میرے خیال میں بے حد اہم تھا کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ میں بالکل بھی  نابغہ نہیں تھا اور یہ کہ  میں عمدہ کتابیں لکھنا چاہتا تھا جن کے لیے مجھے محنت کرنا تھی۔ پس فلوبرٹ میرے لیے ایک بہت بڑا فیضان تھے کیونکہ وہ ایک ایسے مصنف تھے جنھوں نے اپنی مطلوبہ صلاحیتیں، اپنی نابغہ روزگاری، بہت محنت اور اپنے پیشہ کے ساتھ بہت گہری وابستگی سے تعمیر کی تھیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنی تخلیقات کی خوبصورتی اور فراوانی سے میری بہت مدد کی بلکہ اس طور بھی کہ وہ پیدائشی نابغہ نہ ہونے کی وجہ سے کوشش، عزم، استقامت، نظم و ضبط کے ذریعے اپنے نابغہ کو بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ……میں سمجھتا ہوں کہ میری پیرو کی جڑیں میرے لیے ازحد اہم ہیں کیونکہ میری یادداشت میں پیرو  ہی سے متعلق پہلی تصاویر محفوظ ہیں۔ میں جس قسم کی ہسپانوی بولتا ہوں، وہ پیرو کی ہسپانوی ہے جو یقیناً ہسپانوی کا حصہ ہے لیکن مخصوص باریکیوں کے ساتھ، ایک مخصوص موسیقی کے ساتھ۔ اور اس لحاظ سے، میں کہہ سکتا ہوں کہ میں پیرو کا لکھاری ہوں، لیکن میں قوم پرست نہیں ہوں، میں ہر قسم کی قوم پرستی کا کھلم کھلا دشمن ہوں۔ لہٰذا، میں سمجھتا ہوں کہ میرے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ پیرو میں پیدا ہونا، فرانس میں اتنے سال گزارنا، اتنے سال انگلینڈ میں۔ میرے خیال میں وہ تمام جگہیں جہاں جہاں میں رہ چکا ہوں نے جس مصنف کو پیدا کیا ہے وہ میں ہوں۔ ……میرے خیال میں یہ ایک اور بہت اہم علم ہے جو آپ کو مصنف ہونے کے ناطے حاصل ہوتا ہے۔ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ آپ کی شخصیت کو سنوارنے، آپ کی حساسیت تعمیر کرنے میں مدد کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہ قوم پرستی کا نقطہ نظر بہت محدود ہے۔ اتنا عصبیت پسند ہے کہ آپ کو مسائل کا ادراک کرنے، زندگی کو سمجھنے کے لیے ایک تنگ مقام  پر لے آتا ہے جہاں آپ مسائل کا ادراک کر پاتے ہیں  نہ  زندگی کو سمجھ  پاتے ہیں  اور  اس نوع کے عقلی یا قوم پرست نقطہ نظر کی تعمیر پر اپنے آپ کو چھوڑنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کے اس محدود تناظر پر قابو پانے میں ادب آپ کی بہت مدد کرتا ہے۔ آپ کو مختلف زبانوں، مختلف روایات کے مصنفین  کے مطالعےجو کچھ حاصل ہوتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس مقامی، علاقائی، قوم پرست قسم کے نقطہ نظر سے مشترکہ نسب نما بہت زیادہ اہم ہے، کہیں زیادہ بڑا ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو دنیا کا باسی گردانتا ہوں اور میرے خیال میں اس رویے کو اپنانے میں ادب نے میری بہت مدد کی ہے۔ ……(بچپن میں) میرا ایک خواب تھا جو اس وقت بالکل ناممکن لگ رہا تھا، لکھاری بننا۔ کیوں کہ مجھے پڑھنے میں اتنا سرور ملتا تھا کہ میرے خیال میں زندگی محض کہانیاں سنانے، کہانیاں ایجاد کرنے پر مرکوز ہے،اور  یہ یقیناً شان دار چیز ہوگی۔ لیکن یہ ناممکن لگتا تھا  کیونکہ اس وقت زیادہ  لاطینی امریکی صرف  لکھاری نہیں تھے۔ جن ادیبوں کو میں جانتا تھا وہ صرف چھٹیوں یا  ہفتہ وار لکھنے والے تھے۔ وہ پیشہ ور تھے، وکلاء یا ایسے سفارت کار جنھوں نے اپنی زندگیوں کو مکمل طور پر مختلف پیشوں کے لیے وقف کر رکھا تھا اور  ایسے لوگ تھے جو ادب کو ایک مشغلے کے طور پر، ایک حتمی مشغلہ کے طور پر لیتے تھے۔ اور میں صرف اتوار اور چھٹیوں کا مصنف نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس لیے میرا خواب اس وقت لکھاری بننا تھا، لیکن یہ کچھ ناممکن نظر آتا تھا۔ ……لیکن مجھے  ایسی ملازمتیں ملیں جنھوں نے مجھے بہت فارغ وقت دیا تاکہ میں اپنا زیادہ وقت لکھنے کے لیے وقف کر سکوں۔ میں بہت خوش قسمت ثابت ہوا کیوں کہ جس چیز کی خاطر میں بہت چھوٹی عمر سے ترس رہا تھا: کتابیں لکھنا، ناول لکھنا، مختصر کہانیاں لکھنا، ڈرامے لکھنا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ دنیا کی سب سے غیر معمولی سرگرمی ہے۔ ……ادب یقیناً ایک ایسی چیز ہے جو آپ کو بے حد حظ سے نوازتی ہے۔ یہ ضروری بھی ہے۔ اچھا ادب  لطف و تفریح کا ایک غیر معمولی تجربہ ہے، لیکن صرف اتنا  ہی نہیں ہے۔ میرے خیال میں اچھا ادب آپ کی حساسیت، آپ کے تخیل کو بہت مالا مال کرتا ہے اور میرے خیال میں اچھا ادب، عظیم ادب قارئین میں دنیا کے بارے میں تنقیدی رویہ پیدا کرتا ہے۔ جب آپ خوبصورتی، جنگ اور امن کی فراوانی، ڈان کوئجوٹ، وکٹر ہیوگو کے لَیس مائزرایبل (Less Misérables)، ادب کی تمام عظیم دنیاؤں کا تجربہ کرنے کے بعد حقیقی زندگی لوٹتے ہیں، تو مجھے لگتا ہے کہ آپ حقیقی زندگی کی خامیوں اور تمام  غلط کاریوں کے، کیوں کہ وہ غیر منصفانہ، ناحق یا سفاکانہ ہوتی ہیں  کے بارے میں خوب آشنا ہو چکے ہوتے ہیں۔ ……اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ ادب بالخصوص اور ثقافت عمومی طور پر تہذیب و ترقی  میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ……اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جہاں ادب  حصول لذت  کاایک وسیلہ ہے وہیں یہ زندگی میں آگے بڑھنے کا بھی ایک بہت اہم ذریعہ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام آمر ہمیشہ ادب کو اپنے اختیار میں رکھنے کے لیے نظام بنانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ ……بہت محنت کریں، جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس سے لطف اٹھائیں۔ میرے خیال میں جب آپ کے پاس ادبی پیشہ ہے تو یہ محسوس کرنا ضروری ہے کہ لکھنےکے پیشے پر عمل کرتے ہوئے آپ جو کچھ کر رہے ہیں اس کے لیے آپ کو سب سے اہم اعزازات مل رہے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ اس قسم کے احساس کے ساتھ کام کریں گے تو یہ بہت زیادہ ممکن ہے کہ آپ جو لکھیں گے وہ اچھا ادب ہو گا، کہ آپ ایک مصنف کے طور پر کامیاب ہوں گے۔  لیکن اگر آپ میکانکی انداز میں لکھتے ہیں، گویا آپ کسی اور کام یا  مزدوری کی مشق کر رہے ہیں تو میرے خیال میں لکھنا یا کمپوز کرنا یا پینٹنگ کرنا بھی یقیناً ایک کام ہے لیکن یہ ایک بہت ہی خاص قسم کا کام ہے جس میں اس کام کی مشق کرتے ہوئے آپ کو پہلے ہی اپنے کیے کا ایک عالی شان قسم کا انعام مل رہا ہے۔ آپ کچھ ایسا کر رہے ہیں جس میں آپ اپنے آپ کو محسوس کر رہے ہیں، جو بننے کی آپ کی اپنی شخصیت کے لیے نہایت ضروری تھی آپ اُس ضرورت کی تکمیل کر رہے ہیں۔ میں کیسے کہوں کہ اپنے آپ کے ساتھ وفادار ہو جائیں۔ ایک نوجوان مصنف کو میرا مشورہ ہوگا —  آپ جو کرتے ہیں اس سے لطف اندوز ہوں، اپنے آپ پر سخت تنقید کریں اور اس نوع کی داد و تحسین  وصولیں جو آپ کے کیے ہوئے کام سے  اس سے مطابقت رکھتی ہوں ۔‘‘

لٹرل (Literal) میں شائع ہونے والے انٹرویو (ترجمہ) میں انٹرویو کنندہ میگویل اینجل زاپاٹا نے جب ماریو ورگاس یوسا سے سوال کیا: کیاآپ یقینی طور پر کہیں گے کہ ماحول — کسی کا گرد و پیش، فطرت خود — لکھنے اور تخلیق کرنے کے عمل میں معاون ثابت ہوتا ہے؟ تو ماریو کا جواب تھا: بلاشبہ۔ تاہم میرا یہ بھی یقین ہے  کہ جب آپ کسی کہانی کے جنون میں مبتلا ہوتے ہیں تو آپ اپنے آس پاس  سے قطع نظر اسی جنونی حالت میں لکھتے ہیں۔ خوشگوار ماحول، مثال کے طور پر اس طرح کا — مسلسل تبدیلی کا حامل ایک خوب صورت منظر، کیونکہ صبح کے سمے  سمندر ویسا نہیں ہوتا جیسا دھندلکے کے وقت ہوتا ہے نہ ہی ویسا جیسا دھوپیلے دن یا ابر آلود ہونے پر ہوتا ہے — نہ صرف خوش گوار ہوتا ہے بلکہ میرے لیے حوصلہ افزا بھی۔ماریو ورگاس یوسا نے افسانے کے فن پر مزید سوالات کے جواب دیتے ہوئے  کہا: …… میرا معمول ہمیشہ یکساں رہتا ہے: میں صبح سے آغاز لے کر  سہ پہر تک اپنا کام جاری رکھتا ہوں،  اور میرا  یہ بہت معمول طویل عرصےسے تبدیل نہیں ہوا۔ درحقیقت جب لکھنے کے ساتھ ساتھ روزی کمانے کے لیے بھی کام کرنا پڑتا تھا تو وہ ایک الگ کہانی ہے، لیکن جب سے میں نے اپنا سارا وقت لکھنے کے لیے وقف کیا ہے، میرا یہی معمول ہے۔ صبح کے وقت میرا کام زیادہ تخلیقی ہوتا ہے۔ سہ پہر کو میں نظر ثانی اور درستی  کرتا ہوں، اور اگلے روز کے کام کے لیےخاکہ لکھتا ہوں۔ سہ پہر میں ہمیشہ تحقیق کرتا ہوں جو تخلیقی کام کا تکملہ ہوتی ہے۔ میں اس معمول پر سختی سے عمل کرتا ہوں۔ میں ہفتہ بھر اس  کتاب پر کام کرتا ہوں جسے میں تصنیف کر  رہا ہوتا ہوں اور ہفتے کے آخر میں اپنا وقت مضامین لکھنے کے لیے وقف کرتا ہوں۔ مہینے میں ایک دو بار اخباری مضامین لکھتا ہوں۔آپ کی تحریر نقطۂ آغاز کیا ہوتا ہے؟—  عام طور پر، نقطۂ آغاز یاد سے ہوتا ہے؛ مجھے یقین ہے کہ میں نے جتنی بھی کہانیاں لکھی ہیں انھوں نے کسی نہ کسی زندہ تجربے سے جنم لیا ہے جو میری یادداشت میں باقی رہا اور جو اپنے ارد گرد ایک پورے ڈھانچے کا تصور کے ساتھ ایک تخیل، زرخیز زمین بن گیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ میں نے اپنی پہلی کہانی کے بعد سے تقریباً ہمیشہ ایک خاکہ کی پیروی کی ہے: میں بے شمار  چیزیں لکھتا ہوں، انڈیکس کارڈ بناتا ہوں، اور لکھنے کا آغاز کرنے سےقبل پلاٹ کے کچھ خاکے ترتیب دیتا ہوں۔ لکھنا شروع کرنے کے لیے مجھے کہانی کے لیے کم از کم ایک ڈھانچہ کی ضرورت ہوتی ہے جو خواہ بہت عام ہو۔ میں تب ہی  کام شروع کر سکتا ہوں۔ میں پہلے ایک مسودہ تیار کرتا ہوں، جو اس کام کا حصہ ہے اور جو میرے لیے سب سے کارِ دشوار ہے۔ جیسے ہی میں یہ مرحلہ طے کر لیتا ہوں تو کام ازحد خوش گوار ہو جاتا ہے۔ میں پُراعتمادی سے، زیادہ مضبوطی سے لکھ سکتا ہوں، کیونکہ میں آگاہ ہوتا ہوں کہ کہانی موجود ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس میں یہ ایک مستقل عمل رہا ہے: تحقیق جو مجھے موضوع، صورتحال، کہانی کے وقوع کے دور سے روشناس کرائے گا۔…… میں ان مقامات کا سفر کرتا ہوں جہاں کہانی وقوع ہوتی ہے۔ شہادتیں جمع کرتا اور اس دور کے اخبارات پڑھتا ہوں،  کسی تاریخی سچائی کو دوبارہ پیش کرنے کے مقصد  کے پیشِ نظر نہیں بلکہ اس ماحول سے آشنائی، انجذاب محسوس کرنے کے لیے جس میں مَیں کرداروں اور کہانی کورقم کرنا چاہتا ہوں۔ پھر میں بہت کچھ درست کرتا، بہت کچھ دوبارہ لکھتا ہوں۔ آپ کو سچ بتاؤں —  میرے لیے یہ وہ چیز ہے جو حوزے ایمیلیو پچیکو نے ایک بار کہی تھی، اور یہ مجھے اپنی حد تک درست معلوم ہوتی ہے —  جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے وہ لکھنا نہیں بلکہ نظر ثانی کرنا ہے۔ یہ قطعی سچ ہے کہ جب میں اپنے  کیے کام کی درستی اور نظر ثانی کرتا ہوں تو مجھے لکھنے میں سب سے زیادہ لطف آتا ہے۔…… اس سوال کہ کیا آپ اپنے شائع شدہ ناول کو غلطیاں تلاش کرنے کی غرض سے مکرر پڑھتے ہیں اور اگر کوئی حصہ پڑھیں تو  اسے تبدیل کرنا چاہیں گے؟ ماریو ورگاس یوسا نے واضح کیا:  نہیں، آخری مرتبہ  میں پروف خوانی کے وقت پڑھتا ہوں اور ممکن ہو تو بہتری کرتا ہوں۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی کہ اسے دوبارہ نہ پڑھوں۔ بعض اوقات جب میں کسی مترجم کے ساتھ کام کرتا ہوں تو میں غلطیوں کو درستی کی خاطر مکرر پڑھنے کا پابند ہوتا ہوں، لیکن عموماً میں اس پر نظر ثانی کرنا پسند نہیں کرتا جو میں نے لکھ کر  شائع کروا لیا ہوتا ہے۔ یقیناً، میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے جس ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں اپنی تخلیق کو اشاعت کے بعد دوبارہ پڑھنا پسند نہیں کرتا۔ ہر بار جب میں اپنے لکھے  کو دوبارہ پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں آیا میں اس کہانی پر کچھ اور کام کر سکتا تھا۔ ……ہاں میں شاعری کا مطالعہ کرتا ہوں۔ میں بے شمار ایسے شعرا کی شاعری دوبارہ پڑھنا پسند کرتا ہوں جنھوں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ روبن ڈاریو سے بات  شروع کرتے ہیں، جسے ان دنوں زیادہ نہیں پڑھا جاتا ہے اور جو میرے خیال میں اب بھی ہسپانوی میں حقیقی شاعری کا باپ اور طلسماتی جوہر کا حامل ہے۔ میں نیرودا کو بھی دوبارہ پڑھتا ہوں جسے میں اپنی جوانی میں پیار کرتا تھا، اور بودیلیئر شاید وہ شاعر  ہے جس کی میں تمام شعرا کی نسبت  سب سے زیادہ تحسین و توصیف کرتا ہوں۔ میں ایلیٹ کو نہ صرف ایک شاعر بلکہ ایک مضمون نگار کے طور پر بھی بہت پسند کرتا ہوں۔ ……میرے ناولوں میں خصوصی طور پر سوانح عمری نہیں ہے۔ بعض اوقات کوئی میرے نام کا لبادہ اوڑھے اور دیگر واسطوں سے میرے تجربات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نمودار ہو جاتا ہے لیکن وہ بھی کسی تناظر میں  اور ایسے زندہ و جاوید تجربات لیے نمودار ہوتا ہے جو میرے تجربات سے نہایت مختلف ہوتے ہیں۔ اس طرح میرا کوئی بھی ناول سوانحی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ بھی نہیں جو سب سے زیادہ سوانحی لگتا ہے یعنی ’آنٹی جولیا‘۔ یقیناً میں نے اس معاملے میں اپنی زندگی کے ایک لمحے کا فائدہ اٹھایا، لیکن ’ورگیٹاس کی کہانی‘ میں بھی، جو ایک لکھاری بننا پسند کرتا، ذاتی یادداشت سے کہیں زیادہ تخیل ہے۔ خود نوشتگی ایک ادبی وسیلہ ہے، جیسا کہ ’ایل ہابلاذور‘ میں ہے۔آپ اس پہلو کو کیسے تبدیل کرتے ہیں؛ یعنی آپ سوانح عمری کو ادبی کیسے بناتے ہیں؟سوانحی حقائق کو تخیل میں سمویا جاتا ہے، یا جیسا کہ آپ کہتے ہیں، حقائق کو بدل دیا جاتا ہے۔ آخر میں، تخیلاتی تصور فاتح قرار پاتا ہے۔ اب، اگر آپ مجھ سے استفسار کریں کہ کیا ادب کا کوئی سوانحی ماخذ ہے، تو میں کہوں گا کہ میں مدد نہیں کر سکتا لیکن یقین کر سکتا ہوں کہ سفر کا نقطۂ آغاز ہمیشہ یادیں ہوتا ہے: یادوں سے تخیل پنپتا ہے، وہ مناظر ملتے ہیں جو آپ کے ساتھ ایک طویل عرصے سے ہیں، اور یہی وہ بنیادی مواد ہے جس کے ساتھ ایک مصنف کام کرتا ہے۔ لیکن یہ بنیادی مواد ہے جس سے آپ ایک جہان تخلیق کرنے کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ تجربہ شاعر کے تجربے سے بہت مختلف ہے۔ شاعر بھی کسی یاد، زندگی کے کسی تجربے، لوگوں، اپنی یادوں تعمیر پانے والی کسی حقیقت سے ہی آغاز لیتا ہے۔

نوبیل اعزاز کی تقریب سے خطاب میں اپنے نوبیل خطبے ’’مدحت در مطالعہ فسانہ(فکشن)‘‘ میں ماریو ورگاس یوسا نے مطالعے کی اہمیت کی یوں مدح سرائی کی: ’’کم و بیش ستر برس بعد بھی مجھے بخوبی یاد ہے کہ لفظوں کو کتابوں میں ڈھالنے کے طلسم نے زمان و مکان کی حدود و قیود کو توڑتے ہوئے میری زندگی کو کس قدر مالا مال کیا۔ …مطالعہ خوابوں کو زندگی میں ڈھالتا ہے اور زندگی کو خوابوں میں اور لڑکپن ہی میں ادب کی کائنات کو میرے سامنے عیاں کر دیا تھا۔ میں نے جب اپنی پہلی کہانیاں لکھیں تو ان کے بارے میں میری ماں نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنی پڑھی ہوئی کہانیاں ہی لکھ دی ہیں۔ اس بات نے مجھے افسردہ کر دیا لیکن میں ان کے انجام بدلنا چاہتا تھا۔ …کہانیاں تخلیق کرنا آسان کام نہیں تھا۔ جب انھیں الفاظ کا رُوپ دیا جاتا تو منصوبہ کاغذ پر دھندلا جاتا اور ناکامی خیالات و تصوّرات کا مقدّر ٹھیرتی۔ پھر انھیں کیسے زندہ کیا جائے؟ خُوش بختی سے ماہرین موجود تھے، اساتذہ تھے جن سے سیکھا اور جن کی پیروی کی جا سکتی تھی۔ فلابرٹ نے مجھے سکھایا کہ صلاحیت غیر تسلیم شدہ نظم و ضبط اور طویل صبرو تحمل ہے۔ فاکنر نے وہ ہیئت— لکھنا اور بُنت کاری— سکھائی جو موضوع کی قدروقیمت میں اضافہ کرتی اور اسے خامیوں سے بچاتی ہے۔ مارٹوریل، سروانٹیس، ڈِکنز، بالزیک، ٹالسٹائی، کونرڈ، تھامس مین نے سکھایا کہ وسعتِ خیال اور اولوالعزمی بھی اسلوبیاتی مہارت اور بیانیے  کی حکمت عملی جتنی اہم ہے۔ …لکھنے کی طرح مطالعہ بھی زندگی کی ادھورگیوں کے خلاف احتجاج ہے۔ …ہم فکشن کے بغیر بسر ہونے والی زندگی کی آزادی سے کم آشنا ہوں گے۔   ادب نہ صرف حسن کے خواب کو ہمارے اندر سرایت کرتا ہے بلکہ ہمیں ہمہ نوع کے ظلم و ستم سے آگاہی بھی دیتا ہے۔ انھیں پُوچھیے کہ اپنے خوف پر قابُو پانے کے لیے حکومتیں شہریوں پر سینسر جیسی پابندیاں کیوں عاید کرتی ہیں؟ …اس لیے کہ وہ تخیلاتی کتابوں میں شتربے مہار آزادی کے خطرات سے آشنا ہیں، جانتی ہیں کہ ترغیب آمیز فکشن شائع ہو کر قارئین تک پہنچتا ہے تو وہ اپنی اصل آزادی اور حقیقی زندگی میں موجود خوف کا موازنہ کرتے ہیں۔…مختلف النسل لوگوں کے درمیان اچھا ادب پُل کا کام کرتا ہے۔…ادب مختلف النوع انسانوں میں بھائی چارہ قائم کرتے ہوئے مردوزن کے بیچ کھڑی سرحدوں کو مٹاتا ہے۔ …اپنے لڑکپن میں فرانسیسی ادب سے متأثر ہو کر میں نے پیرس جانے کا خواب دیکھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہاں اقامت پذیر ہو کر اور اس فضا میں جس میں بالزیک، سٹینڈہال، بودلیئر اور پراؤسٹ سانس لیتے ہیں، وہ مجھے سچا ادیب بننے میں میری مدد کریں گے۔ اور اگر میں پیرو نہ چھوڑتا تو میں محض اتوار اور چھٹی والے دِنوں کا فرضی نام والا لکھاری ہوتا۔ اور یہ سچ ہے کہ میں فرانس اور فرانسیسی ثقافت کے ناقابلِ فراموش اسباق کا مقروض ہوں۔…میں اس زمانے میں فرانس میں رہا جب سارترے اور کامیو حیات تھے اور لکھ رہے تھے۔ …اور ان برسوں میں جدید اور قوّی ادب نمو پا رہا تھا۔ … پیرو ہی کی طرح میں ہسپانیہ سے بھی بہت محبت کرتا ہوں۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ہسپانیہ میں بِتائے پانچ برسوں کے دوران میں نے ہسپانوی ثقافت، کتب، جدید خیالات اور فن کی اقدار و اقسام سے بہت کچھ حاصل کیا۔ …ادب کی طرف لوٹتا ہوں۔ …بچپن میں میرے تائے، چاچے، مامے، خالو، ان کے بیٹے بیٹیاں، میرے دوست اور میں مل کر ٹارزن اور سلگائی کی کہانیاں دوبارہ لکھا کرتے تھے۔ …اس زمانے میں لکھنا ہمارا خاندانی کھیل تھا، ایسا کھیل جس میں میرے لیے کشش تھی۔ میرے ابّا  اللہ کو پیارے ہو گئے۔…اسی روز، جب میں گیارہ برس کا تھا، میری شخصیت یکسر تبدیل ہو گئی۔ میری معصومیت کھو گئی اور میرے اندر تنہائی، تحکم، بلوغت اور ہراس نے بسیرا کر لیا۔ میری نجات مطالعے میں تھی، اچھی کتابیں پڑھنے اور لفظوں میں پناہ لینے میں تھی۔ …… جہاں میں دوبارہ آزاد اور مسرور ہو گیا، اور چوری چھپے لکھنے میں جیسے کوئی بولے بغیر اپنا حال بیان کرے۔ اب ادب کھیل نہیں رہا تھا بلکہ مخالف حالات کے خلاف ڈھال، احتجاج، بغاوت، ناقابلِ برداشت سے فرار اور میرے زندہ رہنے کا سبب بن گیا تھا۔ تب سے اب تک ادب میرے لیے سُرنگ کے آخری سِرے پر دِکھائی دینے والی روشنی اور ساحل پر لے جانے والی بیڑی ہے۔ …فلابرٹ نے کہا تھا: ’’لکھنا زندگی کا ایک طور ہے۔‘‘ ہاں، یقینا ًتخیل سے لکھنے کا ایک طور اور حظ اور دماغ میں جلنے والی آگ کی چنگاریاں جو بے قابو الفاظ پر اختیار کی جدوجہد کرتا ہے۔…ادب زندگی کی جھوٹی تصویر ہے جو بہتر زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ …ادب حقیقی زندگی میں ہم پر ہونے والی ناہمواریوں اور پریشانیوں کی تلافی کرتا ہے۔ …میں ہمیشہ یہ تصوّر کر کے متحیر ہوتا تھا کہ قدیم زمانے میں ہمارے اجداد، جو حیوانوں جیسی زندگی بسر کرتے تھے، جنھیں صرف نئی نئی وجود میں آنے والی زبان کی برتری حاصل تھی وہ غاروں میں آگ کے اردگرد دائروں میں بیٹھ کر کہانیاں گھڑتے اور سناتے تھے۔ وہی لمحہ ہماری منزل کا فیصلہ کن لمحہ تھا۔ کیوں کہ وہی دائرے تخیل اور کہانی کی بنیاد بنے، تہذیب کا آغاز ٹھیرے اور طویل سفر کے بعد…آج ہم ستاروں کے سفر پر ہیں۔ کبھی سمجھنے کی کوشش والا یہ عمل تحریر اور کہانیوں کے جنم سے مزید پھلا پُھولا۔ …فکشن تفریح سے بڑھ کر چیز ہے، ایک ذہنی مشقت سے زیادہ جو ہمارے احساسات کو مہمیز کرتا ہے۔ …کیوں کہ ادب کے بغیر دُنیا، خواہشات، نظریات یا توقیر کی دُنیا نہیں ہو گی۔ …ادب انسان سے سچا انسان بناتا ہے، ہمیں اس شے کو پانے کی آس دِلاتا ہے جو ہمارے پاس نہیں؛ وہ ہونے کی امید جگاتا ہے جو ہم نہیں اور ناممکن کو ممکن میں بدلتا ہے۔…‘‘

:::

 

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

Authors

  • Mario Vergas Llosa - Nobe Prize Laureate 2010 - افسانے کا فن

    سن ۲۰۱۰ء کے لیے نوبیل انعام برائے ادب وصول پانے والے کے نام کا اعلان کرتے ہوئے سویڈش اکیڈمی نے مؤقف اختیار کیا: ’’۲۰۱۰ء کا نوبیل انعام وَرگاس یوسا کو ان کی بنت کاری کے مضبوط فن اور فرد کی مزاحمت ، بغاوت اور شکست کی مؤثر اور نمایاں تخلیق کاری پر دیا گیا ہے۔‘‘ ماریو وَرگاس یوسا کا نام ہسپانوی روایتی طریقے کے مطابق ہے کہ اصل نام ماریو کے بعد اس کے نام کا پہلا حصّہ (ورگاس) ددھیالی خاندانی اور دوسرا حصّہ( یوسا) ننھیالی خاندانی نام ہے۔ البتّہ ان کا پورا نام جارج ماریو پیڈرو ورگاس ہے۔ مستقبل میں نواب (Marquis) کے خطاب کا اعزاز پانے والا پہلا فرد ماریو ورگاس یوسا ۲۸ مارچ ۱۹۳۶ء کو پیرو کے صوبائی صدر مقام ایرے کیوپا (Arequipa) میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین اَرنیسٹو (Ernesto) وَرگاس مالڈوناڈو (Maldonado) اور ڈورا یوسا کا اکلوتا بچّہ ہیں۔ ان کی پیدائش سے چند ماہ قبل ان کے والدین میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ اپنے والدین میں طلاق ہونے تک ماریو ورگاس یوسا نے ایک برس کا عرصہ اپنے ننھیال میں بسر کیا۔ چوں کہ ان کی والدہ اور ان کا خاندان ماریو کو بتانا نہیں چاہتے تھے کہ اس کے والدین میں علیحدگی ہو گئی ہے لہٰذا انھوں نے انھیں یقین دلایا کہ ان کے والد فوت ہو چکے ہیں۔ دس برس کی عمر میں ماریو لیما چلا گئے جہاں پہلی بار ان کی ملاقات اپنے والد سے ہوئی تو ان کے والدین کے آپس میں تعلّقات دوبارہ بحال ہو گئے۔ سولہ برس کی عمر میں گریجوایشن کرنے سے قبل ہی ماریو نے ایک مقامی اخبار میں بطور صحافی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے ملٹری اکیڈمی چھوڑ کر پیرو سے اپنی تعلیم مکمل کی اور وہاں بھی ایک مقامی اخبار میں کام کرتے رہے۔ ۱۹۵۲ء میں انھوں نے امریکیوں کی قدیم ترین جامعہ، جامعہ سان مارکوس میں داخلہ لیا اور قانون اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ۱۹۵۵ء میں ۱۹ برس کی عمر میں اپنے سے دس برس بڑی اپنی ماموں(خالہ) زاد جولیا یورقوئیدی (Julia Urquidi) سے شادی کی۔ ۱۹۵۸ء میں سان مارکوس کی نیشنل یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے کے بعد انھیں ۱۹۶۰ء میں سپین کی کمپلوٹینس (Complutense) یونیورسٹی آف میڈرڈسے تعلیمی وظیفہ مل گیا۔ میڈرڈ کے وظیفے کی معیاد ختم ہونے پر وہ اس توقع پر فرانس چلے گئے کہ انھیں وہاں بھی تعلیمی وظیفہ مل جائے گا لیکن پیرس پہنچنے پر انھیں انکار کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی حالات خراب ہونے کے باوجود ماریو ورگاس یوسا اور ان کی اہلیہ جولیا نے پیرس ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں یوسا نے بے تحاشا لکھنے کا آغاز کیا۔ انھوں نے پیرو کی صدارت کے انتخاب میں بھی حصّہ لیا لیکن البرٹو فیوجی موری سے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوئے۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں میکسیکن ٹیلی ویژن پر ایک فقرہ کہا جو دنیا بھر میں محاورہ بن کر معروف ہو گیا: ’’میکسیکو مکمل آمریت ہے۔‘‘ یہ فقرہ بعد کے عشروں میں زبان زدعام ہوا۔ ماریو ورگاس یوسا بہ یک وقت مصنف، سیاست دان، صحافی اور مضمون نگار ہیں۔وہ بشمول ادبی تنقید و صحافت ادب کی ہمہ جہت اصناف میں لکھتے ہیں۔ ان کے ناول مزاح نگاری، پراسرار قتل، تاریخ اور سیاسی ہلچل کو موضوع بناتے ہیں۔ وہ لاطینی امریکا کےنہایت اہم ناول نگار اور اپنی نسل کے نمائندہ لکھاری ہیں۔ کچھ نقادوں کے نزدیک لاطینی امریکا کے دیگر مصنفین سے ان کی بین الاقوامی شہرت کہیں زیادہ ہے۔ ماریو ورگاس یوسا نے اپنے باقاعدہ ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۵۷ء میں اپنے ابتدائی افسانوں ’’قائدین‘‘ (Los Jefes) اور ’’دادا‘‘ (El abuelo) سے کیا۔ ساتھ ہی وہ دو مقامی اخباروں کے لیے بھی کام کرتےرہے۔ انھوں نے سترہ سے زائد ناول اور افسانوں کے مجموعے اور متعدد غیرافسانوی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی افسانوی تصنیفات پر پیرو کے معاشرے کی ان کی اپنی تفہیم اور پیرو کا باسی ہونے کے ناطے ذاتی تجربات کا گہرا اثر ہے۔ تاہم انھوں نے اپنے موضوعات کا احاطہ وسیع کرتے ہوئے دنیا کے دیگر حصّوں کے مسائل کو بھی اپنی تصنیفات میں شامل کیا۔ اپنے مضامین میں ورگاس نے دنیا کے مختلف حصّوں میں قومیت پرستی کو تنقید کا نشانہ بنایا جن میں دیگر ممالک کے علاوہ بوسنیا، کروشیا اور سربیا شامل ہیں۔ ان کے ادبی کیریئر کی سب سے اہم تبدیلی ان کے اسلوب اور سوچ کا جدیدیت سے مابعد جدیدت کی طرف سفر ہے۔

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top
𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛