تراجم عالمی ادب

انٹرویو

شہرت یافتہ

میلان کنڈیرا

(Milan Kundera)

انٹرویوکنندہ: کرسچن سالومن

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

’’ناول متعدّد بنیادی الفاظ پر تعمیر ہوتا ہے۔‘‘— میلان کنڈیرا ، شہرت یافتہ چیک ؍فرانسیسی ادیب۔ ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: میلان کنڈیرا

’’ناول متعدّد بنیادی الفاظ پر تعمیر ہوتا ہے۔‘‘

میلان کنڈیرا

معروف چیک (Czech) افسانہ، ناول و ڈراما نگار میلان کنڈیرا فرانس کے شہر پیرس میں مونٹپارناسے (Montparnasse) کے قریب ایک بالائی اپارٹمنٹ میں جِلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اپنے اپارٹمنٹ ہی کے ایک تنگ کمرے کو وہ بطور دفتر استعمال کرتا ہے۔ فلسفے اور علمِ موسیقی کی کتب سے بھری الماریوں، ایک پرانی ٹائپ رائٹر اور ایک میز سے بھرا ہؤا وہ کمرہ دنیا کے معروف مصنّف کی بجائے کسی طالب علم کا کمرہ لگتا ہے۔ کمرے کی ایک دیوار پر ساتھ ساتھ دو فوٹو ٹنگے ہیں: ایک اس کے والد کا اور دُوسرا کنڈیرا کے نہایت پسندیدہ ایک چیک موسیقار لیوس جینا سیک کا۔

کنڈیرا کو اچانک ملنے والی شہرت بے چین کر دیتی ہے کہ وہ میلکم لوری کے نظریے: ’’کامیابی خوف ناک سانحے کی ماند اور گھر کو لگی آگ سے زیادہ خطرناک ہے۔ شہرت رُوح کے گھر کو چاٹ جاتی ہے۔‘‘ کا قائل ہے۔

کنڈیرا اَپنے بارے میں گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا جو لکھاری کے کام کی بجائے اکثر ناقدین کا اس کی شخصیت، سیاست اور نجی زندگی کے مطالعے کے رحجان کے خلاف کنڈیرا کا جبلّی ردِّ عمل ہے۔ کنڈیرا نے لی نول آبزرویٹر (Le Nouvel Observateur) نامی میگزین کو بتایا: ’’اپنے آپ کے بارے میں گفتگو پر لعنت کہ یہ تغزّل سے مملو صلاحیت کو ناولائی صلاحیت سے ممیز کرتا ہے۔‘‘ اپنے بارے میں گفتگو سے انکار ادبی کام اور ادب کی ہیئتوں کو مرکزِ نگاہ بنانا اور ناول پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ہے۔

v     

انٹرویو کنندہ:   

آپ نے بتایا کہ آپ اپنے آپ کو جدید ادب میں ویانائی ناول نگار رَابرٹ مُسل (Robert Musil) اور ہرمن بروچ (Hermann Broch) کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔ بروچ کے خیال میں— جیسا کہ آپ کرتے ہیں— نفسیاتی ناولوں کا دور ختم ہو چکا۔ وہ اس کی بجائے ناول کی اس نوع پر یقین رکھتا ہے جسے وہ ’’کثیر تاریخی‘‘ ناول کہتا ہے۔

میلان کنڈیرا:

مُسل اور بروچ دونوں نے ناول پر بھاری ذمّہ داریاں عاید کیں۔ انھوں نے اسے عظیم مُدَمّغ مرکب کے طور پر دیکھا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں انسان اب بھی دنیا کے سامنے اجمالاً سوالات رکھ سکتا ہے۔انھیں یقین تھا کہ ناول کے پاس جوڑنے کی بہت زیادہ طاقت ہے کہ یہ شاعری بھی ہو سکتا ہے، فنتاسی بھی، فلسفہ، جوامع الکلام (ضرب المثل) اور مضمون بھی، سب اس میں سما سکتے ہیں۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ اس نے اپنے مدعا کو ’’کثیر تاریخی‘‘ کی غلط اصطلاح منتخب کر کے ابہام میں ڈال دیا۔ درحقیقت یہ بروچ کا ہم وطن آسٹروی نثر کا ایک کلاسیک ایڈالبرٹ سٹفٹر (Adalbert Stifter)تھا جس نے اپنے ۱۸۵۷ء میں شائع ہونے والے ’’ہندوستانی موسمِ گرما‘‘ (Der Nochsommer)کی صورت میں ایک حقیقی کثیر تاریخی ناول تخلیق کیا تھا۔ ناول معروف ہے: نطشے نے اسے جرمن ادب کی چار بڑی تخلیقات میں سے ایک قرار دیا۔ آج یہ ناقابلِ مطالعہ ہے۔ اس میں علم الارضیات، نباتیات، حیوانیات، دست کاری، مصوّری اور علم الآثاریات کے انبار ہیں لیکن یہ عظیم الشان اور سربلند کرنے والا قاموس علوم خود انسان اور اس کے حالات کے ذکر سے خالی ہے۔ بلا کم و کاست ، اس لیے کہ یہ کثیر تاریخی ہے۔ ’’ہندوستانی موسمِ گرما‘‘ اس عنصر سے مکمل طور پر عاری ہے جو ناول کو خاص بناتا ہے۔ اس کے برعکس بروچ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔ اس نے وہ دریافت کرنے کی سعی کی جو ’’ناول اکیلا ہی دریافت کر سکتا ہے۔‘‘ خاص مقصد، جسے بروچ نے ’’ناولائی علم‘‘ کہنا پسند کیا ہے، بود کا ہونا ہے۔ میرے خیال میں کثیر تاریخی کی تعریف یوں کی جانا چاہیے: ’’وہ جو علم کی ہر ترکیب اور ہیئت کو بود پر روشنی ڈالنے کے لیے جوڑتا ہے۔‘‘ ہاں، میں خود کو اس طرح کی رسائی کے قریب سمجھتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:   

آپ نے رسالے لی ناول آبزرویٹر میں ایک طویل مضمون تحریر کیا جس سے فرانسیسیوں نے بروچ کو دوبارہ دریافت کیا۔ آپ اس کی نہایت تعریف و توصیف کرتے ہیں لیکن آپ اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ مضمون کے اختتام پر آپ نے لکھا ہے: ’’تمام عظیم تخلیقات (کیوں کہ وہ عظیم ہیں) جزوی طور پر نامکمل ہوتی ہیں۔‘‘

کنڈیرا:

بروچ محض اپنے حاصل کیے ہوئے اہداف کی بِنا پر ہی ہمارے لیے تخلیقی تحریک کا باعث نہیں ہے  بلکہ اس بِنا پر بھی ہے کہ اس نے جس کا قصد کیا اسے حاصل نہیں کر پایا۔ اس کی تخلیقات کی یہی عدم تکمیل فن کی نئی ہیئتوں کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے، جس میں شامل ہیں: (۱) غیر ضروریات سے بنیادی گریز پائی (جدد دُنیا میں بود کی پیچیدگی کو، علم العمارات کی شفافیت کو کھوئے بِنا، حصار میں لینا)؛ (۲) ’’ناولائی رِدھم‘‘ (فلسفے، بیان اور خواب کو ایک موسیقائی لڑی میں پرونا)؛ (۳) بالخصوص ناولائی مضمون (بہ الفاظِ دیگر، کسی واضح پیغام کی ترسیل کے دعوے کی بجائے منطقی مفروضاتی، کھلواڑ، یا مزاحیہ رہنا)

انٹرویو کنندہ:   

لگتا ہے کہ آپ کے فن کا تمام پروگرام ان ہی تین نکات کے حصار میں ہے۔

کنڈیرا:

ناول کو بود کی کثیر تاریخی روشنی میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ توضیحی الفاظ کے استعمال سے گریز پائی کی تکنیک، اختصار کے فن کے ماہر ہوں بصورتِ دیگر آپ غیر مختتم طوالت کے جال میں پھنس جائیں گے۔ مُسل کا ’’بے صلاحیت آدمی‘‘ ان دو تین ناولوں میں سے ہے جنھیں میں بہت پسند کرتا ہوں۔ لیکن مجھ سے اس کی عظیم الشّان غیر مختتم طوالت کی تعریف کے لیے مت کہنا! ایک نہایت وسیع و عریض قلعے کا تصور کریں کہ جس کا پہلی نظر میں آنکھ مکمل احاطہ نہ کر پائے۔چار (کتابوں کے) ایک ایسے سلسلے کے بارے میں سوچیں جو نو گھنٹوں میں اختتام پذیر ہو۔ یہاں بشریاتی حدود ہیں— انسانی تناسب— جنھیں توڑنا نہیں چاہیے، جیسے یادداشت کی حد۔ جب ہم مطالعہ ختم کریں تو بھی آغاز یاد رکھنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اگر نہیں تو ناول اپنی شکل کھو دیتا ہے، اس کی ’’عمارت کی شفافیت‘‘ دھندلا جاتی ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

’’قہقہے اور نسیان کی کتاب‘‘ سات جِلدوں پر مشتمل ہے۔ اگر آپانھیں  توضیحی الفاظ سے گریز پائی کے طریقے میں کم کر کے لکھتے تو آپ مکمل طوالت کے حامل سات ناول لکھ سکتے تھے۔

کنڈیرا:

لیکن اگر میں سات مکمل ناول لکھتا تو میں اہم چیز کھو بیٹھتا: میں ایک کتاب میں ’’جدید دُنیا میں انسانی وجود کی پیچیدگی‘‘ کو قابو کرنے کا اہل نہ رہتا۔  توضیحی الفاظ سے گریز پائی کا فن یقینا اہم ہے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ سیدھا چیزوں کی رُوح میں جایا جائے۔ اس معاملے میں مَیں نے ہمیشہ اس چیک موسیقار کے بارے میں سوچا ہے جسے میں بچپن ہی سے پسند کرتا آیا ہوں: لیوس جینا سیک (Leos Janacek)۔ وہ جدید موسیقی کے مہان استادوں میں ہے۔ اس کی سٹرپ میوزک (strip music)  کے لوازم کے لیے تحدید انقلاب انگیز تھی۔ بِلا شبہ، ہر دھن میں بے شمار تکنیکیں استعمال ہوتی ہیں: موضوع کا اظہار،  عروج، انتار چڑھاؤ، کثرتِ صوتیات (اکثر نہایت خود کار)، سازوں میں سُروں کا بھرنا، تغیّر وغیرہم۔ آج کوئی بھی کمپیوٹر کے ذریعے موسیقی ترتیب دے سکتا ہے لیکن موسیقار کے دماغ میں ہمیشہ کمپیوٹر نصب ہوتا ہے— اگر چاہیں تو موسیقار بِلا اصل خیال کے محض ’’صوتیاتی علم‘‘ کے سہارے موسیقی کے قواعد و ضوابط کا دائرہِ عمل وسیع کرتے ہوے سانیٹ کہہ ڈالیں۔ جینا سیک کا مقصد بھی اس کمپیوٹر کو تباہ و برباد کرنا تھا! تغیر پذیری کی بجائے وحشیانہ تضادات؛ تنوع کی بجائے تکرار— اور ہمیشہ سیدھی چیزوں کے مرکز کی طرف: محض ضروری بات کی ادائیگی کے وجود کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ تقریباً یہی بات ناول کے ساتھ ہے؛ یہ بھی ’’تکنیک‘‘ کا، قواعد کا پابند ہوتا ہے جو اس کے لیے مصنّف کا کام کرتے ہیں: ایک کردار پیش کرتے ہیں، ایک معاشرتی ماحول پیش کرتے ہیں، عمل کو تاریخی منظر میں لاتے ہیں، فضول طوالت سے گریز کرتے ہوے کرداروں کو ابدی بناتے ہیں۔ منظر کی ہر تبدیلی نئے اظہاریے، بیانیے اور وضاحتوں کا تقاضا کرتی ہے۔ میرا مقصد جینا سیک جیسا ہے: ناول کو ناولائی تکنیکوں کی خود کاری، ناولائی الفاظ کا بار بار گھومنے سے نجات دلانا۔

انٹرویو کنندہ:   

آپ نے دُوسری قسم ’’ناولائی رِدھم‘‘ کا ذکر کیا تھا۔      

کنڈیرا:

بحیثیت ایک عظیم مُدَمّغ مرکب کے ناول کا آئیڈیا از خود ’’فلسفے‘‘ کے مسئلے کو انٹھاتا ہے۔ یہ مسئلہ اب بھی حل طلب ہے۔ بروچ کے ناول کے تیسرے حِصّے ’’خواب میں چلنے والے‘‘ کو لے لیں، یہ پانچ متنوع عناصر پر مشتمل ہے: (۱) ’’ناولائی‘‘ بیانیے کی بنیاد تین کرداروں پر ہے: پیسنو، ایش، ہُگینو؛ (۲) ہانا وینڈلِنگ کی ذاتی کہانی (۳) ایک فوجی ہسپتال میں زندگی کی حقیقی عکاسی (۴) سالویشن آرمی کی لڑکی کا (جزوی طور پر نظمیہ) بیانیہ (۵) اقدار کی ناقدری پر (سائنسفائی زبان میں لکھا ہؤا) ایک فلسفیانہ مضمون۔ ہر حِصّہ شاندار ہے۔ تاہم باوجود اس حقیقت کے کہانھیں بہ یک وقت مسلسل تبدیلی کرتے ہوے استعمال کیا گیا ہے (بہ الفاظِ دیگر صوتی طور پر) لیکن پانچوں عناصر جدا رہتے ہیں— بہ الفاظِ دیگر وہ ’’کثرتِ صوتیات‘‘ قائم نہیں کرتے۔

انٹرویو کنندہ:   

کیا کثرتِ صوتیات کا استعارہ استعمال اور اسے ادب پر لاگو کر کے آپ درحقیقت ناول سے وہ تقاضے نہیں کر رہے جنھیں وہ پُورا نہیں کرسکتا؟

کنڈیرا:

ناول بیرونی عناصر کو دو طرح سے اپنے اندر شامل کر سکتا ہے۔ اپنے سفر کے دوران ڈان قُوئیژوٹ کی مختلف کرداروں سے ملاقات ہوتی ہے جو اسے اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ اس طرح، جداگانہ کہانی ایک کُل میں گھسیڑکر ناول کے چوکھٹے میں کَس دی جاتی ہیں۔ اس قسم کی تراکیب سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے ناولوں میں اکثر پائی جاتی ہیں۔ بروچ نے، تاہم، ایش اور ہُگینو کی مرکزی کہانی میں ہان وینڈلِنگ کی کہانی کو موزوں کرنے کی بجائے ان دونوں کہ بہ یک وقت اسے دریافت کرنے دیا۔ سارترے (’’مہلت‘‘ میں) اور اس سے بھی پہلے ڈاس پاسوس نے بھی بہ ایں ہمہ اس تکنیک کو استعمال کیا۔ لیکن ان کا مقصد مختلف ناولائی کہانیوں کو اکٹھّا کرنا تھا۔ بہ الفاظِ دیگر ہم متجانس نہ کہ غیر متجانس عناصر کو جیسا کہ بروچ کے معاملے میں ہے۔ مزید براں، ان کا اس تکنیک کا استعمال مجھے بہت زیادہ مشینی اور شاعری سے عاری لگتا ہے۔ میرے پاس ایسی بنت کے لیے ’’کثرتِ صوت‘‘ اور ’’رِدھم‘‘ سے زیادہ بہتر اصطلاحیں نہیں ہیں اور یہ بھی کہ موسیقائی تشبیہہ مفید تشبیہہ ہے۔ مثال کے طور پر، مجھے ’’خواب میں چلنے والے‘‘ کے بارے میں جو پہلی چیز دِق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ پانچوں عناصر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ جب کہ موسیقائی ادغام میں تمام آوازوں کا ہم آہنگ ہونا بنیادی انصول ہے، شرطِ اوّلین۔ بروچ کے کام میں پہلا عنصر (ایش اور ہُگینو کا ناولائی بیانیہ ) دُوسرے عناصر کی نسبت بہت زیادہ جگہ گھیرتا ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ اسے اتنی مراعات دی گئی ہیں کہ یہ ناول کے پچھلے دو حِصّوں سے منسلک  ہے اور اس طرحانھیں جوڑنے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ اس طرح یہ زیادہ توجہ کھینچتا ہے اور دُوسرے عناصر کو محض ہمراہی میں تبدیل کرنے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ دُوسری چیز جو مجھے دِق کرتی ہے وہ یہ کہ اگرچہ بروچ کا اسلوب ان میں ایک بھی آواز کے نہ ہونے پر کچھ نہیں کر سکتا، ہانا وینڈلِنگ کی کہانی یا اقدار کی زوال پذیری جدا کام کی حیثیت میں بہت اچھے طور پر اپنا مقام بنا سکتی ہیں۔ الگ الگ لیے جانے پر بھی وہ نہ اپنے مفہوم میں کچھ کھوئیں گی اور نہ اپنا معیار۔

میرے خیال میں ناولائی رِدھم کے لیے بنیادی تقاضے یہ ہیں: (۱) مختلف عناصر کی ہم آہنگی؛ (۲) کُل کی ناقابلِ تقسیم پذیری۔ مجھے وہ دِن یاد ہے جب میں نے ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کے تیسرے حِصّے ’’فرشتے‘‘ کوختم کیا تو مجھے اپنے آپ پر بے انتہا فخر تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے کہانی کہنے کے اطوار کو اکٹّھا کرنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔ اسلوب ان عناصر سے تشکیل دیا گیا تھا: (۱) دو طالبات کے  چلبلے پن کی حکایت؛ (۲) ایک آپ بیتیانیہ اندازِ ؛بیاں (۳) ایک نسوانی کتاب پر ایک تنقیدی مضمون؛ (۴) ایک فرشتے اور شیطان کا فسانہ؛ (۵) پال ایلؤارڈ کا پراگ کے انوپر پرواز کا افسانوی بیان۔ ان میں سے کوئی بھی عنصر دُوسرے کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا تھا، ہر ایک دِیگران پر روشنی ڈالتا اور ان کی توضیح کرتا ہے کہ وہ تمام ایک ہی موضوع کو کھولتے ہیں اور ایک ہی سوال کرتے ہیں: ’’فرشتہ کیا ہے؟‘‘

چھٹا حِصّہ، جس کا عنوان ’’فرشتے‘‘ بھی ہے، کی ترکیب یہ ہے: (۱) تامینہ کی موت کا ایک خوابیدہ بیانیہ؛ (۲) میرے والد کی وفات کا خُود نوشتی بیانیہ؛ (۳) موسیقائی اظہاریے؛ (۴) وَبا کو بھلانے کا بیان جو پراگ کو تباہ کرتی ہے۔ میرے والد اور تامینہ کی بچّوں کے ہاتھوں اذیّت میں کیا قدرِ مشترک ہے؟ یہ ایک مرکزی خیال کی میز پر ’’ایک سلائی مشین اور ایک چھتری کا ملنا‘‘، لَوترے مونٹ کے مشہور و معروف تصویری خاکے کو ادھار لینا ہے۔  ناولائی فلسفہ تیکنیک سے کہیں بہت زیادہ شاعری ہے۔ مجھے اس نوع کی کثیر صوتی شاعری کی مثال ادب میں کہیں نہیں ملتی، لیکن میں الائن ریسنیلز کی تازہ ترین فلموں سے بہت زیادہ حیران ہؤا ہوں۔ اس کا  فن کا استعمال قابلِ تحسین ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

رِدھم ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ میں کم ظاہر ہوئی ہے۔

کنڈیرا:

وہ میرا مطلوب تھا۔ مَیں اس میں خواب، بیانیے اور اظہاریے کو ساتھ ساتھ اکٹھّے لیکن مکمل طور پر ناقابلِ تقسیم اور فطری بہاؤ میں دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن چھٹے حِصّے میں ناول کا کثیر صوتی کردار نہایت بھونچکا ڈالنے والا ہے۔ سٹالن کے بیٹے کی کہانی، مذہبی اظہاریہ، ایشیا کا ایک سیاسی واقعہ، بینکاک میں فرانز کی موت اور بوہیما میں ٹامَس کا جنازہ تمام کے تمام ایک ابدی سوال سے جڑے ہوے ہیں: ’’جذباتیت کیا ہے؟‘‘ کثیر صوتی طریقہ، ایک ایسا ستون ہے جس پر ناول کا تمام ڈھانچا کھڑا ہے۔ یہی اس کی تعمیر کے راز کی کلید ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

’’بالخصوص ناولائی مضمون‘‘ کہہ کر آپ نے ’’خواب میں چلنے والے‘‘ میں سامنے آنے والی اقدارکی ناقدری کے مضمون پر معتد بہ تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

کنڈیرا:

یہ دہشت ناک مضمون ہے!

انٹرویو کنندہ:   

آپ کو اسے اس طرح ناول میں شامل کیے جانے پر شکوک ہیں۔ بروچ اپنی کسی سائنسفائی زبان کو یوں نہیں چھوڑتا، وہ اپنے خیالات کا اظہار اپنے کسی کردار کے عقب میں چھپے بغیر براہِ راست کرتا ہے… جس طرح مَن یا مُسل کریں گے۔ کیا یہ بروچ کا حقیقی  حِصّہ، اس کی مبارزت کی نئی دعوت نہیں؟

کنڈیرا:

یہ سچ ہے اور وہ اپنے حوصلے سے بخوبی آشنا تھا۔ لیکن اس میں بھی ایک خطرہ ہے: اس کے مضمون کو بطور ناول کی نظریاتی کلید کے طور پر پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے، بطور اس کی ’’سچائی‘‘ کے اور یہ چیز بقیہ ناول کو محض ایک خیال کی تشریح میں بدل سکتی ہے۔ تب ناول کا توازن بگڑ جاتا ہے، مضمون کی سچائی نہایت انکتا دینے والی ہو جاتی ہے اور ناول کا لطیف ڈھانچہ بکھر جانے کے خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ایسا ناول جس کا مطمعِٔ نظر کسی فلسفیانہ نظریے کی تفسیر نہیں ہوتا (بروچ اس قسم کے ناول سے متنفّر تھا!) حقیقتاً اس طور کے مطالعے کو ختم کر دیتا ہے جس طور کا مطالعہ ہونا چاہیے۔ کوئی مضمون کو ناول میں کس طرح شامل کرتا ہے؟ اس کے لیے ذہن میں ایک بنیادی حقیقت کو بِٹھا لینا چاہیے: اظہار کا حقیقی جوہر اسی لمحے تبدیل ہو جاتا ہے جس لمحے وہ ناول میں شامل ہوتا ہے۔ ناول سے باہر مصنّف دعوٰی جات کی راجدھانی میں ہوتا ہے، ہر ایک کے لیے فلسفی، سیاست دان، دربان— اپنے کہے کے بارے میں پُر یقین۔ تاہم، ناول ایک ایسی سرزمین ہے جہاں کوئی دعوے نہیں کرتا، یہ کھیل اور مفروضات کی سرزمین ہے۔ ناول میں اظہاریہ اپنے حقیقی جوہر میں مفروضاتی ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

لیکن ایک ناول نگار کیوں چاہے گا کہ وہ اپنے ناول میں اپنے فلسفے کو کھلم کھلا اور پُر زور طور پر بیان کرنے سے اپنے آپ کو محروم کر لے؟

کنڈیرا:

کیوں کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ لوگ اکثر چیخوف یا کافکا یا مُسل کے فلسفے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ لیکن وہ ان کی تحریروں میں محض مربوط فلسفہ تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں! حتّٰی کہ جب وہ اپنی نوٹ بُکوں میں ان کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، وہ خیالات جو ذہنی مشقت کا نتیجہ ہوتے ہیں، تو وہ فلسفے پر زور دینے کی بجائے متضاد اقوال سے کھیل یا فی البدیہہ گھڑ رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ فلاسفر جو ناول لکھتے ہیں جعلی ناول نگاروں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جو ناول کی ہیئت کو اپنے خیالات بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ والٹئیر یا کیمس دونوں ہی کبھی دریافت نہیں کر پائے ’’کہ ناول اکیلا ہی دریافت کر سکتا ہے۔‘‘ میں صرف ایک استثنا سے آشنا ہوں اور وہ ہے ڈِڈیروٹ (Diderot) کا جیکؤس لی فیٹالسٹے (Jacques le fataliste)۔ کیا معجزہ ہے! ناول کی سرحدیں پار کرتے ہوے سنجیدہ فلسفی ایک زندہ دِل مفکر بن گیا۔ ناول میں ایک بھی سنجیدہ فقرہ نہیں ہے— اس میں ہر چیز ایک کھیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس میں اس ناول کے معیار کو ظالمانہ اور شرمناک حد تک گھٹا کر پیش کیا گیا۔ بِلا شبہ، لی فیٹالِسٹے (le fataliste) میں وہ سب کچھ ہے جسے فرانس کھو چکا ہے اور دوبارہ دریافت کرنے سے منکر ہے۔ فرانس میں کام سے زیادہ آئیڈیاز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جیکس لی فیٹالِسٹے کو آئیڈیاز کی زبان میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور اسی لیے اسے سرزمینِ آئیڈیاز میں سمجھا بھی نہیں جا سکتا۔

انٹرویو کنندہ:   

’’مذاق‘‘ (Joke) میں جاروسلاف ہے جو موسیقائی نظریے کو نشو و نما دیتا ہے۔ اس طرح اس کی سو چ کا مفروضاتی کردار ظاہر ہے۔ لیکن ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں مصنّف یعنی آپ کا اپنی موسیقائی استغراق ہے۔ پھر میںانھیں کس طرح سمجھوں کہ وہ مفروضاتی ہیں یا پُرزور بیانیے؟

کنڈیرا:

اس سب کا انحصار اسلوب پر ہے۔ ابتدائی الفاظ ہی سے میرا ارادہ ان میں پُرمزاح، استہزا، اشتعال انگیزی، تجرباتی عکاسی یا استفہامیہ اسلوب ہے۔ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ (’’عظیم جلوس‘‘)کے تمام چھے کے چھے حِصّے جذباتیت کے مضمون پر ہیں جو ایک مرکزی نظریہ پیش کرتے ہیں: جذباتیت غلاظت کے وجود کا مطلق انکار ہے۔جذباتیت پر میرا یہ استغراق میرے لیے نہایت اہمیّت کا حامل ہے۔ اس کی بنیاد بے حد سوچ بچار، تجربے، مطالعے اور حتّٰی کہ جذبے پر ہے۔ تاہم لہجہ کہیں بھی سنجیدہ نہیں بلکہ ترغیبی ہے۔ ناول سے باہر موضوع پر سوچا بھی نہیں جا سکتا؛ یہی حقیقی ناولائی استغراق ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

آپ کے ناولوں کی کثیر صوتی میں ایک اَور عنصر بھی شامل ہے، بیانیۂ خواب۔ یہ ’’زندگی کہیں اَور ہے‘‘ کے سارے کے سارے دُوسرے حِصّے پر چھایا ہؤا ہے، یہ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کے چھٹے حِصّے کی بنیاد ہے اور یہ تیرازا کے خوابوں کے ذریعے ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ میں بھی رواں ہے۔

کنڈیرا:

عبارت کے یہ ٹکڑے غلط مفہوم نکالنے کے لیے نہایت آسان ہدف ہیں، کیوں کہ لوگ ان میں کسی علامتی پیغام کی تمنّائی ہیں۔ تیرازا کے خوابوں میں تلاش کرنے کے لیے کوئی رمز نہیں ہے۔ وہ موت کے بارے میں نظمیں ہیں۔ ان کا مفہوم ان کے حسن میں مرموز ہے، جو تیرازا کو مسمریزم کر دیتا ہے۔ خیر، کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ لوگ سیدھے سادے انداز میں کافکا کو پڑھنا نہیں جانتے کیوں کہ وہ اس کی رمزیت آشکار کرنا چاہتے ہیں؟ وہ اپنے آپ کو خیال کے ساتھ بہے جانے کی بجائے مثالیے تلاشتے ہیں اور ان کے ہاتھ کلیشوں کے سوا کچھ نہیں آتا: زندگی لغو ہے (یا پھر نہیں ہے)، خُدا رسائی سے باہر ہے (یا پھر رسائی میں ہے) وغیرہم۔ آپ فن کے متعلّق کچھ نہیں سمجھ پاتے، بالخصوص جدید فن کے بارے میں، اگر آپ یہ نہیں سمجھتے کہ تصور بذاتِ خُود اہم ہے۔ نووالِس یہ جانتا تھا جب اس نے خوابوں کی تعریف کی۔ وہ ’’ہمیں زندگی کی یکسانیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا تھا، وہ ’’ہمیں اپنے کھلنڈرے پن کی مسرت سے تشاویش سے آزادی دیتے ہیں۔‘‘ وہ پہلا شخص تھا جو خوابوں اور خواب نما تصور کے ناول میں کردار کو سمجھ پایا تھا۔ اس نے اپنے ہَینرچ وان آفٹرڈنجن (Heinrich von Ofterdingen) کا دوسرا حِصّہ ایسے بیانیے میں لکھنے کا ارادہ کیا جس میں خواب اور حقیقت ایک دُوسرے میں اس قدر انلجھی ہوں کہ ایک دُوسرے سے جُدا ہو کر بیان کے قابل نہ رہے۔ بدقسمتی سے اس دُوسرے حِصّے کی بس وہی یادداشتیں دستیاب ہیں جن میں نووالِس اپنے جمالیاتی ذوق کے ارادے کو بیان کرتا ہے۔ ایک صدی بعد، اس کی تمنّا کافکا نے پُوری کی۔ کافکا کے ناول خواب اور حقیقت کا ادغام ہیں؛ یعنی وہ خواب ہیں نہ حقیقت۔ کسی بھی شے سے زیادہ کافکا ایک جمالیاتی انقلاب ، ایک جمالیاتی معجزے کا باعث بنا۔ بِلا شبہ، کوئی بھی اپنے کیے کو دُھرا نہیں سکتا۔ لیکن میں ناول میں خوابوں اور خوابوں کے تصور کو لانے کے لیے اس کے اور نووالِس کے ساتھ شریک ہوتا ہوں ۔ میرا یہ کرنے کا طریق خواب اور حقیقت کو مدغم کرنے کی بجائے کثیر صوتی تصادم کی صورت میں ہے۔ بیانیۂ خواب رِدھم کے عناصر میں سے ایک ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کے آخری حِصّے میں ذرا کثیر صوتی نہیں ہے اور پھر بھی غالباً وہ کتاب کا سب سے دِلچسپ حِصّہ ہے۔ یہ چودہ ابواب پر مشتمل ہے جو ایک شخص— جان— کے شہوانی حالات بیان کرتا ہے۔

کنڈیرا:

ایک اَور موسیقائی اصطلاح: یہ بیانیہ ’’انتار چڑھاؤ کے ساتھ مرکزی خیال‘‘ ہے۔ مرکزی خیال ان چیزوں کے درمیان سرحد ہے جو اپنا مفہوم کھو بیٹھتی ہیں۔ ہماری زندگی اس سرحد کے نہایت قرب وجوار میں اپنی تہیں کھولتی ہے، اور ہم کسی بھی لمحے اس سرحد کو پار کرنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ چودہ ابواب ایک ہی شہوانی صورتِ حال کے تفہیم اور عدم تفہیم کی سرحد پر چودہ انتار چڑھاؤ ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کو ’’انتار چڑھاؤ والا ناول‘‘ قرار دیا ہے۔ کیا یہ اب بھی ناول ہے؟

کنڈیرا:

اس میں عمل کی وحدت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ناول نہیں لگتا۔ لوگ اس وحدت کے بغیر ناول کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حتّٰی کہ نووو رومن (nouveau roman) کی بنیاد بھی وحدتِ عمل (یاغیر عملیت) پر ہوتی تھی۔ سٹرن (Sterne)اورڈِڈیروٹ نے انتہائی کمزور وحدت سے مسرت حاصل کی۔ جیکس اور اس کے آقا کا سفر میں جیکس لی فیٹالِسٹ کا حِصّہ کم ہے، جو مزاحیہ حیلہ سازی زیادہ کچھ نہیں جس میں حکایات، کہانیوں اور خیالات کو جڑا گیا ہے۔ باایں ہمہ، یہ حیلہ سازی، یہ ’’چوکھٹا‘‘ ناول کو ناول بنانے کے لیے ضروری ہے۔ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں ایسی کوئی حیلہ سازی نہیں ہے۔ یہ موضوعات کی وحدت اور ان کا انتار چڑھاؤ ہی ہے جو کُل میں ربط بخشتا ہے۔ کیا یہ ناول ہے؟ ہاں۔ ایک ناول بود پر غور وخوض ہوتا ہے جسے تصوراتی کرداروں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہیئت لامحدود طور پر آزاد ہے۔ اپنی تاریخ میں ناول اپنے لامختتم امکانات سے فائدہ انٹھاتا نظر نہیں آتا۔ اس نے یہ موقع کھویا ہی ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

لیکن ماسوائے ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘  آپ کے ناولوں کی بنیاد بھی وحدتِ عمل ہے، اگرچہ بِلا شبہ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ میں اس کا بے حد ڈھیلا تنوع ہے۔

کنڈیرا:

ہاں، لیکن وحدت کے دیگر اہم درجےانھیں مکمل بناتے ہے: یکساں مابعد الطبیعاتی سوالوں، یکساں مرکزی خیال اور پھر انتار چڑھاؤ کی وحدت (مثلاً ’’الوداعی دعوت‘‘ میں پدریت کا مرکزی خیال)۔ لیکن میں ان سب سے زیادہ اس پر زور دوں گا کہ ناول متعدّد بنیادی الفاظ پر تعمیر ہوتا ہے، جیسے سکوئن برگ کے نوٹس کی سیریز۔ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں درج ذیل سیریز ہے: نسیان، قہقہے، فرشتے، ’’litost‘‘، سرحد۔ ناول میں ان پانچ کلیدی الفاظ: مطالعہ، تعریف، مکرر تعریف اور پھر اس طور پر وجودیت کے درجات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح ان پانچ درجات پر تعمیر ہوتا ہے جیسے ایک مکان ستونوں پر۔ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ کے ستون ہیں: بوجھل پن، لطافت، رُوح، بدن، درجہ بہ درجہ کردار، ان الفاظ کی جگہ مترادفات نہیں لے سکتے۔ اس کی مترجمین کو بار بار وضاحت کی جاتی ہے، جو— اپنے ’’اچھے اسلوب‘‘ کی خاطر— تکرار سے بچنے کی سعی کرتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:   

بُنت کی وضاحت کے لیے، میں یہ دیکھ کر نہایت حیرت زدہ ہؤا کہ آپ کے ایک ناول کے علاوہ باقی تمام سات سات حِصّوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔

کنڈیرا:

جب میں نے اپنا پہلا ناول ’’مذاق‘‘ ختم کیا تو حیرت کی کوئی بات نہیں تھی کہ اس کے سات حِصّے تھے۔ پھر میں نے ’’زندگی کہیں اَور ہے‘‘ تحریر کیا۔ ناول قریب قریب مکمل ہو گیا اور اس کے چھے حِصّے تھے۔ میں مطمئن نہیں تھا۔ اچانک مجھے ایک کہانی شامل کرنے کا خیال آیا جو ہیرو کی موت کے تین سال بعد ظہور پذیر ہوتی ہے— بہ الفاظِ دیگر ناول کے دورانیے سے باہر۔ اب یہ سات حِصّوں میں سے چھٹا بن گیا، جس کا عنوان تھا ’’وسطی عمر کا شخص۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ناول کی عمارت مکمل ہو گئی۔ بعد میں، مجھے محسوس ہؤا کہ یہ چھٹا حِصّہ ’’مذاق‘‘ کے چھٹے حِصّے (’’کوستکا‘‘)سے عجیب طور پر مماثل ہے، جو ایک بیرونی کردار کا تعارف کرواتا اور ناول کی دِیوار میں ایک خفیہ کھڑکی بھی وَا کرتا ہے۔ ’’پُرمزاح محبتیں‘‘ آغاز میں دس کہانیاں تھیں۔ جن کا حتمی مجموعہ تشکیل دیتے ہوے میں نے تین نکال دیں۔ یُوں یہ مجموعہ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘  سے بہت زیادہ قریب اور اس کانقیب بن گیا۔ ایک کردار، ڈاکٹر ہَیوَل، چوتھی اور چھٹی کہانی آپس میں باندھتا ہے۔ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں بھی چوتھا اور چھٹا حِصّہ ایک شخص نے جوڑے ہوے ہیں: تامینہ۔ جب میں نے  ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ تحریر کیا تو میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں سات کی تعداد توڑ ڈالوں گا۔ میں نے بہت پہلے چھے حِصّوں کا خاکہ تعین کر لیا تھا۔ لیکن پہلا حِصّہ مجھے اپنی بے شکلی سے حیران کرتا ہے۔ حتماً میں سمجھ گیا کہ درحقیقت یہ دو حِصّوں سے بنا ہؤا ہے۔ آپس میں جڑے ہوے دو جڑواں نومولود بچّوں کی طرحانھیں نفیس جرّاحی کے ذریعے الگ کیا جانا تھا۔ میں اس سب کی وجہ یہ بیان کرتا ہوں کہ میں طلسماتی اعداد کی کسی توّہم پرستی کا شکار ہوں نہ میں نے ان کی کوئی دانستہ منطقی تعداد مقرر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ میں ایک گہری، لاشعوری، ناقابلِ تفہیم ضرورت اور ایک رسمی معروف نوع میں بہتا چلا گیا جس سے مفر میرے لیے ناممکن تھا۔ میرے تمام ناول تعمیر کا تنوع ہیں جن کی بنیاد سات کا عدد ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

صاف طور پر سات کے حِصّوں میں تقسیم کے استعمال نے یقینا قریب ترین ایک ہی نوع کے عناصر کو ایک کُل میں ڈھالنے کا عمل آپ کے مقصد سے جڑا ہؤا ہے۔ آپ کے ناولوں کا ہر حِصّہ اپنے اندر اپنی ایک دُنیا سمائے ہوئے ہے اور اپنی خاص ہیئت کی بِنا پر دُوسروں سے مختلف ہے۔ لیکن اگر ناول کو سات حِصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تو ان حِصّوں کو اعداد لگا کر ابواب میں کیوں تقسیم کیا جاتا ہے؟

کنڈیرا:

ابواب کو بھی اپنی ایک چھوٹی سی دُنیا تخلیق کرنا چاہیے؛ ان کی نسبتاً جُدا گانہ حیثیت بھی ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے پبلشروں کے ناک میں دم کیے رکھتا ہوں کہ وہ اعداد کو نمایاں کرنے کو یقینی بنائیں اور یہ کہ ابواب بھی بخوبی الگ کیے گئے ہیں۔ ابواب موسیقی کے ماتروں کی ماند ہیں! ایسے حِصّے بھی ہیں جہاں ماترے (ابواب) طویل ہیں، کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بے قاعدہ طوالت کے حامل۔ ہر حِصّے میں ردھم کے رحجان کی نشانیاں ہو سکتی ہیں:معتدل، ہاؤ ہو، دِھیما پن وغیرہم۔ ’’زندگی کہیں اَور ہے‘‘ کا چھٹا حِصّہ دِھیما پن لیے ہوے ہے: دِھیمے اور مالیخولیائی انداز میں۔ یہ ہمیں ایک وسطی عمر کے مرد اور ایک ایسی نوجوان لڑکی کے مابین ملاقات کے بارے میں بتاتا ہے جو حال ہی میں جیل سے رہا ہوئی ہوتی ہے۔ آخری حِصّہ انتہائی تیز رفتار ہے؛ یہ نہایت مختصر ابواب میں لکھا گیا ہے اور جیرومِل سے ختم ہوتی ہیئت میں رِم بوڈ، لیرمونٹوف اور پشکن تک   چھلانگ لگا تا ہے۔ پہلے میں نے سوچا کہ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ موسیقائی طرز میں ہے۔ مجھے علم ہے کہ آخری حِصّے کو لطیف اور دِھیما ہونا چاہیے تھا: لیکن یہ اختصار، ناشُدنی واقعات کے دورانیے، ایک ہی مقام پر مرتکز ہے اور اس کا انداز ساکت ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس حِصّے کو ہاؤ ہو سے پہلے ہونا چاہیے تھا: وہ حِصّہ جس کا عنوان ’’عظیم جلوس ‘‘ ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

سات کے ہندسے کے انصول سے استثنا بھی ہے۔ ’’الواداعی دعوت‘‘ کے صرف پانچ حِصّے ہیں۔

کنڈیرا:

’’الوداعی دعوت‘‘ ایک اَور طرح کی رسمی معروف نوع میں ہے: یہ مطلقاً متجانس ہے؛ ایک ہی موضوع پر ہے، ایک ہی لَے میں بیان ہؤا ہے، بہت زیادہ ڈرامائی اور انشاء پرداز ہے۔ یہ اپنی شکل ایک مضحکہ خیز صُورتِ حال سے تشکیل دیتا ہے۔ ’’پُرمزاح محبتیں‘‘ میں کہانی ’’محفل‘‘ (Symposium) بھی بالکل اسی طرز پر لکھی گئی ہے— پانچ ایکٹوں کی ایک مضحکہ خیز صُورتِ حال۔

انٹرویو کنندہ:   

مضحکہ خیز گفتگو سے آپ کی کیا مراد ہے؟

کنڈیرا:

میرا مطلب ہے کہ پلاٹ پر اور اس کے تمام تر لوازمات کے غیر متوقع اور ناقابلِ یقین اتفاقات پر زور۔ ناول میں پلاٹ اور اس کے مبالغہ آمیز ڈھونگ سے زیادہ کوئی شے بھی مشکوک، مضحکہ خیز، پرانے رواج والی، فرسودہ اور بے مزہ نہیں ہوئی۔ فلابرٹ سے لے کر آج تک ناول نگاروں نے پلاٹ میں ہنرمندی کو ختم کرنے کی سعی کی ہے۔ اور اس سے ناول بے کیف ترین زندگیوں سے زیادہ بے لطف ہو گیا ہے۔ لیکن ناول کے پلاٹ سے مشکوکی اور گھسے پٹے پہلو سے گریز کا ایک راستہ ہے اور وہ ہے اس کی مشابہی تقاضوں سے آزادی۔ آپ ایک قطعی بعید از قیاس کہانی سناتے ہیں تو وہ بعید از قیاس انداز ہی میں منتخب ہوتی ہے! بالکل اسی طرح کافکا نے امریکا (Amerika) کو سوچا۔ کافکا پہلی بار اپنی ’’سر۔رئیل‘‘ (sur-real) کائنات میں، اپنے پہلے ’’خواب اور حقیقت کے ادغام‘‘ میں پلاٹ کی مضحکہ خیز نقل کے ساتھ مضحکہ خیزی کے دروازے سے داخل ہو گیا۔

انٹرویو کنندہ:   

لیکن آپ نے مضحکہ خیز صورتِ حال کو اس ناول کے لیے کیوں منتخب کیا جو تفریحِ طبع کے لیے نہیں ہے؟

کنڈیرا:

لیکن وہ تفریح ہے! مجھے فرانسیسیوں کا تفریح کو حقارت کی نظر سے دیکھنا سمجھ نہیں آتا، وہ ’’تفریح‘‘ کے لفظ سے اِتنے شرمندہ کیوں ہیں۔ وہ تفریح کے لیے بیزار ہونے کی نسبت کم خطرہ مول لیتے ہیں۔ اور وہ جذباتیت کی خاطر خطرہ مول لینے کو کیوں دوڑتے ہیں، وہ جذباتیت جو میٹھی، زیب و زینت سے آراستہ، گلابی رنگ کی روشنی جو ایلؤارڈ کی شاعری جیسے جدید کام یا ایٹورے سکولا کی تازہ ترین فلم لے بال (Le Bal) ، جس کا ضمنی عنوان ’’فرانسیسی تاریخ کی جذباتیت‘‘ ہو سکتا ہے، کو غسل دیتی ہے۔ جی، تفریح نہیں جذباتیت ایک حقیقی جمالیاتی مرض ہے! عظیم یورپی ناول کا آغاز بطور تفریح ہؤا، اور ہر سچا ناول نگار اس کی ہڑک رکھتا ہے۔ درحقیقت، ان عظیم تفریحوں کے موضوع خوف ناک حد تک سنجیدہ ہیں— سروانٹس (Cervantes) کے بارے میں سوچیے! ’’الوداعی دعوت‘‘ میں یہ سوال ہے کہ کیا انسان زمین پر رہنے کے قابل ہے؟ کیا کسی کو ’’اس سیارے کو انسان کے شکنجے سے آزاد نہیں کروانا چاہیے‘‘؟ عمر بھر میری تمنّا رہی ہے کہ انتہائی تشویشناک سوال کو انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں مدغم کر دوں۔ کیا یہ خالصتاً ایک فن کارانہ تمنّا نہیں ہے؟ معمولی ہیئت اور سنجیدہ موضوع کی جڑت فوراً ہی ہمارے ڈراموں کی حقیقت (ان تمام ڈراموں کی جو ہمارے بستر پر وقوع پذیر ہوتے ہیں اور جو ہم تاریخ کے عظیم سٹیج پر کھیلتے ہیں) اور ان کی نہایت غیراہمیّتی کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ ہمیں بود کی ناقابلِ برداشت لطافت کا تجربہ ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

تو آپ نے اس لیے اپنے تازہ ترین ناول کا عنوان ’’الوداعی دعوت‘‘ رکھا ہے؟

کنڈیرا:

میرے ہر ناول کو ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ یا ’’مذاق‘‘ یا ’’پُرمزاح محبتیں‘‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے، عنوانات ادل بدل پذیر ہیں۔ ان میں بہت کم ایسی چیزیں ہیں جو میرے لیے باعثِ اندیشہ ہوں، میری تعریف کرتی ہوں اور بدقسمتی سے مجھ پر قدغن لگاتی ہوں۔ ان چیزوں کے علاوہ میرے پاس کہنے یا لکھنے کو کچھ نہیں ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

اس طرح آپ کے ناول میں دو رسمی معروف قسمیں ہیں: (۱) کثیر صوتی، جو سات کے عدد کی بنیاد پر مختلف النوع عناصر کو ایک عمارت میں یکجا کرتی ہے؛ (۲) مضحکہ خیز صُورتِ حال، جو متجانس، ڈرامائی اور بعید از قیاس کے مضافات میں ہے۔ کیا کنڈیرا ان دونوں معروف اقسام سے باہر بھی کہیں ہے؟ 

کنڈیرا:

میں نے ہمیشہ کسی انتہائی غیر متوقع بغاوت کا خواب دیکھا ہے۔ لیکن میں اب تک اپنی اس دہری ریاست سے باہر نہیں نکل پایا۔

:::

]انگریزی متن بشکریہ ’’دی پیرس ریویو‘‘ [(The Paris Review)معروف چیک (Czech) افسانہ، ناول و ڈراما نگار میلان کنڈیرا فرانس کے شہر پیرس میں مونٹپارناسے (Montparnasse) کے قریب ایک بالائی اپارٹمنٹ میں جِلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اپنے اپارٹمنٹ ہی کے ایک تنگ کمرے کو وہ بطور دفتر استعمال کرتا ہے۔ فلسفے اور علمِ موسیقی کی کتب سے بھری الماریوں، ایک پرانی ٹائپ رائٹر اور ایک میز سے بھرا ہؤا وہ کمرہ دنیا کے معروف مصنّف کی بجائے کسی طالب علم کا کمرہ لگتا ہے۔ کمرے کی ایک دیوار پر ساتھ ساتھ دو فوٹو ٹنگے ہیں: ایک اس کے والد کا اور دُوسرا کنڈیرا کے نہایت پسندیدہ ایک چیک موسیقار لیوس جینا سیک کا۔

کنڈیرا کو اچانک ملنے والی شہرت بے چین کر دیتی ہے کہ وہ میلکم لوری کے نظریے: ’’کامیابی خوف ناک سانحے کی ماند اور گھر کو لگی آگ سے زیادہ خطرناک ہے۔ شہرت رُوح کے گھر کو چاٹ جاتی ہے۔‘‘ کا قائل ہے۔

کنڈیرا اَپنے بارے میں گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا جو لکھاری کے کام کی بجائے اکثر ناقدین کا اس کی شخصیت، سیاست اور نجی زندگی کے مطالعے کے رحجان کے خلاف کنڈیرا کا جبلّی ردِّ عمل ہے۔ کنڈیرا نے لی نول آبزرویٹر (Le Nouvel Observateur) نامی میگزین کو بتایا: ’’اپنے آپ کے بارے میں گفتگو پر لعنت کہ یہ تغزّل سے مملو صلاحیت کو ناولائی صلاحیت سے ممیز کرتا ہے۔‘‘ اپنے بارے میں گفتگو سے انکار ادبی کام اور ادب کی ہیئتوں کو مرکزِ نگاہ بنانا اور ناول پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ہے۔

v     

انٹرویو کنندہ:   

آپ نے بتایا کہ آپ اپنے آپ کو جدید ادب میں ویانائی ناول نگار رَابرٹ مُسل (Robert Musil) اور ہرمن بروچ (Hermann Broch) کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔ بروچ کے خیال میں— جیسا کہ آپ کرتے ہیں— نفسیاتی ناولوں کا دور ختم ہو چکا۔ وہ اس کی بجائے ناول کی اس نوع پر یقین رکھتا ہے جسے وہ ’’کثیر تاریخی‘‘ ناول کہتا ہے۔

میلان کنڈیرا:

مُسل اور بروچ دونوں نے ناول پر بھاری ذمّہ داریاں عاید کیں۔ انھوں نے اسے عظیم مُدَمّغ مرکب کے طور پر دیکھا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں انسان اب بھی دنیا کے سامنے اجمالاً سوالات رکھ سکتا ہے۔انھیں یقین تھا کہ ناول کے پاس جوڑنے کی بہت زیادہ طاقت ہے کہ یہ شاعری بھی ہو سکتا ہے، فنتاسی بھی، فلسفہ، جوامع الکلام (ضرب المثل) اور مضمون بھی، سب اس میں سما سکتے ہیں۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ اس نے اپنے مدعا کو ’’کثیر تاریخی‘‘ کی غلط اصطلاح منتخب کر کے ابہام میں ڈال دیا۔ درحقیقت یہ بروچ کا ہم وطن آسٹروی نثر کا ایک کلاسیک ایڈالبرٹ سٹفٹر (Adalbert Stifter)تھا جس نے اپنے ۱۸۵۷ء میں شائع ہونے والے ’’ہندوستانی موسمِ گرما‘‘ (Der Nochsommer)کی صورت میں ایک حقیقی کثیر تاریخی ناول تخلیق کیا تھا۔ ناول معروف ہے: نطشے نے اسے جرمن ادب کی چار بڑی تخلیقات میں سے ایک قرار دیا۔ آج یہ ناقابلِ مطالعہ ہے۔ اس میں علم الارضیات، نباتیات، حیوانیات، دست کاری، مصوّری اور علم الآثاریات کے انبار ہیں لیکن یہ عظیم الشان اور سربلند کرنے والا قاموس علوم خود انسان اور اس کے حالات کے ذکر سے خالی ہے۔ بلا کم و کاست ، اس لیے کہ یہ کثیر تاریخی ہے۔ ’’ہندوستانی موسمِ گرما‘‘ اس عنصر سے مکمل طور پر عاری ہے جو ناول کو خاص بناتا ہے۔ اس کے برعکس بروچ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔ اس نے وہ دریافت کرنے کی سعی کی جو ’’ناول اکیلا ہی دریافت کر سکتا ہے۔‘‘ خاص مقصد، جسے بروچ نے ’’ناولائی علم‘‘ کہنا پسند کیا ہے، بود کا ہونا ہے۔ میرے خیال میں کثیر تاریخی کی تعریف یوں کی جانا چاہیے: ’’وہ جو علم کی ہر ترکیب اور ہیئت کو بود پر روشنی ڈالنے کے لیے جوڑتا ہے۔‘‘ ہاں، میں خود کو اس طرح کی رسائی کے قریب سمجھتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:   

آپ نے رسالے لی ناول آبزرویٹر میں ایک طویل مضمون تحریر کیا جس سے فرانسیسیوں نے بروچ کو دوبارہ دریافت کیا۔ آپ اس کی نہایت تعریف و توصیف کرتے ہیں لیکن آپ اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ مضمون کے اختتام پر آپ نے لکھا ہے: ’’تمام عظیم تخلیقات (کیوں کہ وہ عظیم ہیں) جزوی طور پر نامکمل ہوتی ہیں۔‘‘

کنڈیرا:

بروچ محض اپنے حاصل کیے ہوئے اہداف کی بِنا پر ہی ہمارے لیے تخلیقی تحریک کا باعث نہیں ہے  بلکہ اس بِنا پر بھی ہے کہ اس نے جس کا قصد کیا اسے حاصل نہیں کر پایا۔ اس کی تخلیقات کی یہی عدم تکمیل فن کی نئی ہیئتوں کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے، جس میں شامل ہیں: (۱) غیر ضروریات سے بنیادی گریز پائی (جدد دُنیا میں بود کی پیچیدگی کو، علم العمارات کی شفافیت کو کھوئے بِنا، حصار میں لینا)؛ (۲) ’’ناولائی رِدھم‘‘ (فلسفے، بیان اور خواب کو ایک موسیقائی لڑی میں پرونا)؛ (۳) بالخصوص ناولائی مضمون (بہ الفاظِ دیگر، کسی واضح پیغام کی ترسیل کے دعوے کی بجائے منطقی مفروضاتی، کھلواڑ، یا مزاحیہ رہنا)

انٹرویو کنندہ:   

لگتا ہے کہ آپ کے فن کا تمام پروگرام ان ہی تین نکات کے حصار میں ہے۔

کنڈیرا:

ناول کو بود کی کثیر تاریخی روشنی میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ توضیحی الفاظ کے استعمال سے گریز پائی کی تکنیک، اختصار کے فن کے ماہر ہوں بصورتِ دیگر آپ غیر مختتم طوالت کے جال میں پھنس جائیں گے۔ مُسل کا ’’بے صلاحیت آدمی‘‘ ان دو تین ناولوں میں سے ہے جنھیں میں بہت پسند کرتا ہوں۔ لیکن مجھ سے اس کی عظیم الشّان غیر مختتم طوالت کی تعریف کے لیے مت کہنا! ایک نہایت وسیع و عریض قلعے کا تصور کریں کہ جس کا پہلی نظر میں آنکھ مکمل احاطہ نہ کر پائے۔چار (کتابوں کے) ایک ایسے سلسلے کے بارے میں سوچیں جو نو گھنٹوں میں اختتام پذیر ہو۔ یہاں بشریاتی حدود ہیں— انسانی تناسب— جنھیں توڑنا نہیں چاہیے، جیسے یادداشت کی حد۔ جب ہم مطالعہ ختم کریں تو بھی آغاز یاد رکھنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اگر نہیں تو ناول اپنی شکل کھو دیتا ہے، اس کی ’’عمارت کی شفافیت‘‘ دھندلا جاتی ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

’’قہقہے اور نسیان کی کتاب‘‘ سات جِلدوں پر مشتمل ہے۔ اگر آپانھیں  توضیحی الفاظ سے گریز پائی کے طریقے میں کم کر کے لکھتے تو آپ مکمل طوالت کے حامل سات ناول لکھ سکتے تھے۔

کنڈیرا:

لیکن اگر میں سات مکمل ناول لکھتا تو میں اہم چیز کھو بیٹھتا: میں ایک کتاب میں ’’جدید دُنیا میں انسانی وجود کی پیچیدگی‘‘ کو قابو کرنے کا اہل نہ رہتا۔  توضیحی الفاظ سے گریز پائی کا فن یقینا اہم ہے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ سیدھا چیزوں کی رُوح میں جایا جائے۔ اس معاملے میں مَیں نے ہمیشہ اس چیک موسیقار کے بارے میں سوچا ہے جسے میں بچپن ہی سے پسند کرتا آیا ہوں: لیوس جینا سیک (Leos Janacek)۔ وہ جدید موسیقی کے مہان استادوں میں ہے۔ اس کی سٹرپ میوزک (strip music)  کے لوازم کے لیے تحدید انقلاب انگیز تھی۔ بِلا شبہ، ہر دھن میں بے شمار تکنیکیں استعمال ہوتی ہیں: موضوع کا اظہار،  عروج، انتار چڑھاؤ، کثرتِ صوتیات (اکثر نہایت خود کار)، سازوں میں سُروں کا بھرنا، تغیّر وغیرہم۔ آج کوئی بھی کمپیوٹر کے ذریعے موسیقی ترتیب دے سکتا ہے لیکن موسیقار کے دماغ میں ہمیشہ کمپیوٹر نصب ہوتا ہے— اگر چاہیں تو موسیقار بِلا اصل خیال کے محض ’’صوتیاتی علم‘‘ کے سہارے موسیقی کے قواعد و ضوابط کا دائرہِ عمل وسیع کرتے ہوے سانیٹ کہہ ڈالیں۔ جینا سیک کا مقصد بھی اس کمپیوٹر کو تباہ و برباد کرنا تھا! تغیر پذیری کی بجائے وحشیانہ تضادات؛ تنوع کی بجائے تکرار— اور ہمیشہ سیدھی چیزوں کے مرکز کی طرف: محض ضروری بات کی ادائیگی کے وجود کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ تقریباً یہی بات ناول کے ساتھ ہے؛ یہ بھی ’’تکنیک‘‘ کا، قواعد کا پابند ہوتا ہے جو اس کے لیے مصنّف کا کام کرتے ہیں: ایک کردار پیش کرتے ہیں، ایک معاشرتی ماحول پیش کرتے ہیں، عمل کو تاریخی منظر میں لاتے ہیں، فضول طوالت سے گریز کرتے ہوے کرداروں کو ابدی بناتے ہیں۔ منظر کی ہر تبدیلی نئے اظہاریے، بیانیے اور وضاحتوں کا تقاضا کرتی ہے۔ میرا مقصد جینا سیک جیسا ہے: ناول کو ناولائی تکنیکوں کی خود کاری، ناولائی الفاظ کا بار بار گھومنے سے نجات دلانا۔

انٹرویو کنندہ:   

آپ نے دُوسری قسم ’’ناولائی رِدھم‘‘ کا ذکر کیا تھا۔      

کنڈیرا:

بحیثیت ایک عظیم مُدَمّغ مرکب کے ناول کا آئیڈیا از خود ’’فلسفے‘‘ کے مسئلے کو انٹھاتا ہے۔ یہ مسئلہ اب بھی حل طلب ہے۔ بروچ کے ناول کے تیسرے حِصّے ’’خواب میں چلنے والے‘‘ کو لے لیں، یہ پانچ متنوع عناصر پر مشتمل ہے: (۱) ’’ناولائی‘‘ بیانیے کی بنیاد تین کرداروں پر ہے: پیسنو، ایش، ہُگینو؛ (۲) ہانا وینڈلِنگ کی ذاتی کہانی (۳) ایک فوجی ہسپتال میں زندگی کی حقیقی عکاسی (۴) سالویشن آرمی کی لڑکی کا (جزوی طور پر نظمیہ) بیانیہ (۵) اقدار کی ناقدری پر (سائنسفائی زبان میں لکھا ہؤا) ایک فلسفیانہ مضمون۔ ہر حِصّہ شاندار ہے۔ تاہم باوجود اس حقیقت کے کہانھیں بہ یک وقت مسلسل تبدیلی کرتے ہوے استعمال کیا گیا ہے (بہ الفاظِ دیگر صوتی طور پر) لیکن پانچوں عناصر جدا رہتے ہیں— بہ الفاظِ دیگر وہ ’’کثرتِ صوتیات‘‘ قائم نہیں کرتے۔

انٹرویو کنندہ:   

کیا کثرتِ صوتیات کا استعارہ استعمال اور اسے ادب پر لاگو کر کے آپ درحقیقت ناول سے وہ تقاضے نہیں کر رہے جنھیں وہ پُورا نہیں کرسکتا؟

کنڈیرا:

ناول بیرونی عناصر کو دو طرح سے اپنے اندر شامل کر سکتا ہے۔ اپنے سفر کے دوران ڈان قُوئیژوٹ کی مختلف کرداروں سے ملاقات ہوتی ہے جو اسے اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ اس طرح، جداگانہ کہانی ایک کُل میں گھسیڑکر ناول کے چوکھٹے میں کَس دی جاتی ہیں۔ اس قسم کی تراکیب سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے ناولوں میں اکثر پائی جاتی ہیں۔ بروچ نے، تاہم، ایش اور ہُگینو کی مرکزی کہانی میں ہان وینڈلِنگ کی کہانی کو موزوں کرنے کی بجائے ان دونوں کہ بہ یک وقت اسے دریافت کرنے دیا۔ سارترے (’’مہلت‘‘ میں) اور اس سے بھی پہلے ڈاس پاسوس نے بھی بہ ایں ہمہ اس تکنیک کو استعمال کیا۔ لیکن ان کا مقصد مختلف ناولائی کہانیوں کو اکٹھّا کرنا تھا۔ بہ الفاظِ دیگر ہم متجانس نہ کہ غیر متجانس عناصر کو جیسا کہ بروچ کے معاملے میں ہے۔ مزید براں، ان کا اس تکنیک کا استعمال مجھے بہت زیادہ مشینی اور شاعری سے عاری لگتا ہے۔ میرے پاس ایسی بنت کے لیے ’’کثرتِ صوت‘‘ اور ’’رِدھم‘‘ سے زیادہ بہتر اصطلاحیں نہیں ہیں اور یہ بھی کہ موسیقائی تشبیہہ مفید تشبیہہ ہے۔ مثال کے طور پر، مجھے ’’خواب میں چلنے والے‘‘ کے بارے میں جو پہلی چیز دِق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ پانچوں عناصر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ جب کہ موسیقائی ادغام میں تمام آوازوں کا ہم آہنگ ہونا بنیادی انصول ہے، شرطِ اوّلین۔ بروچ کے کام میں پہلا عنصر (ایش اور ہُگینو کا ناولائی بیانیہ ) دُوسرے عناصر کی نسبت بہت زیادہ جگہ گھیرتا ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ اسے اتنی مراعات دی گئی ہیں کہ یہ ناول کے پچھلے دو حِصّوں سے منسلک  ہے اور اس طرحانھیں جوڑنے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ اس طرح یہ زیادہ توجہ کھینچتا ہے اور دُوسرے عناصر کو محض ہمراہی میں تبدیل کرنے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ دُوسری چیز جو مجھے دِق کرتی ہے وہ یہ کہ اگرچہ بروچ کا اسلوب ان میں ایک بھی آواز کے نہ ہونے پر کچھ نہیں کر سکتا، ہانا وینڈلِنگ کی کہانی یا اقدار کی زوال پذیری جدا کام کی حیثیت میں بہت اچھے طور پر اپنا مقام بنا سکتی ہیں۔ الگ الگ لیے جانے پر بھی وہ نہ اپنے مفہوم میں کچھ کھوئیں گی اور نہ اپنا معیار۔

میرے خیال میں ناولائی رِدھم کے لیے بنیادی تقاضے یہ ہیں: (۱) مختلف عناصر کی ہم آہنگی؛ (۲) کُل کی ناقابلِ تقسیم پذیری۔ مجھے وہ دِن یاد ہے جب میں نے ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کے تیسرے حِصّے ’’فرشتے‘‘ کوختم کیا تو مجھے اپنے آپ پر بے انتہا فخر تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے کہانی کہنے کے اطوار کو اکٹّھا کرنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔ اسلوب ان عناصر سے تشکیل دیا گیا تھا: (۱) دو طالبات کے  چلبلے پن کی حکایت؛ (۲) ایک آپ بیتیانیہ اندازِ ؛بیاں (۳) ایک نسوانی کتاب پر ایک تنقیدی مضمون؛ (۴) ایک فرشتے اور شیطان کا فسانہ؛ (۵) پال ایلؤارڈ کا پراگ کے انوپر پرواز کا افسانوی بیان۔ ان میں سے کوئی بھی عنصر دُوسرے کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا تھا، ہر ایک دِیگران پر روشنی ڈالتا اور ان کی توضیح کرتا ہے کہ وہ تمام ایک ہی موضوع کو کھولتے ہیں اور ایک ہی سوال کرتے ہیں: ’’فرشتہ کیا ہے؟‘‘

چھٹا حِصّہ، جس کا عنوان ’’فرشتے‘‘ بھی ہے، کی ترکیب یہ ہے: (۱) تامینہ کی موت کا ایک خوابیدہ بیانیہ؛ (۲) میرے والد کی وفات کا خُود نوشتی بیانیہ؛ (۳) موسیقائی اظہاریے؛ (۴) وَبا کو بھلانے کا بیان جو پراگ کو تباہ کرتی ہے۔ میرے والد اور تامینہ کی بچّوں کے ہاتھوں اذیّت میں کیا قدرِ مشترک ہے؟ یہ ایک مرکزی خیال کی میز پر ’’ایک سلائی مشین اور ایک چھتری کا ملنا‘‘، لَوترے مونٹ کے مشہور و معروف تصویری خاکے کو ادھار لینا ہے۔  ناولائی فلسفہ تیکنیک سے کہیں بہت زیادہ شاعری ہے۔ مجھے اس نوع کی کثیر صوتی شاعری کی مثال ادب میں کہیں نہیں ملتی، لیکن میں الائن ریسنیلز کی تازہ ترین فلموں سے بہت زیادہ حیران ہؤا ہوں۔ اس کا  فن کا استعمال قابلِ تحسین ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

رِدھم ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ میں کم ظاہر ہوئی ہے۔

کنڈیرا:

وہ میرا مطلوب تھا۔ مَیں اس میں خواب، بیانیے اور اظہاریے کو ساتھ ساتھ اکٹھّے لیکن مکمل طور پر ناقابلِ تقسیم اور فطری بہاؤ میں دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن چھٹے حِصّے میں ناول کا کثیر صوتی کردار نہایت بھونچکا ڈالنے والا ہے۔ سٹالن کے بیٹے کی کہانی، مذہبی اظہاریہ، ایشیا کا ایک سیاسی واقعہ، بینکاک میں فرانز کی موت اور بوہیما میں ٹامَس کا جنازہ تمام کے تمام ایک ابدی سوال سے جڑے ہوے ہیں: ’’جذباتیت کیا ہے؟‘‘ کثیر صوتی طریقہ، ایک ایسا ستون ہے جس پر ناول کا تمام ڈھانچا کھڑا ہے۔ یہی اس کی تعمیر کے راز کی کلید ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

’’بالخصوص ناولائی مضمون‘‘ کہہ کر آپ نے ’’خواب میں چلنے والے‘‘ میں سامنے آنے والی اقدارکی ناقدری کے مضمون پر معتد بہ تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

کنڈیرا:

یہ دہشت ناک مضمون ہے!

انٹرویو کنندہ:   

آپ کو اسے اس طرح ناول میں شامل کیے جانے پر شکوک ہیں۔ بروچ اپنی کسی سائنسفائی زبان کو یوں نہیں چھوڑتا، وہ اپنے خیالات کا اظہار اپنے کسی کردار کے عقب میں چھپے بغیر براہِ راست کرتا ہے… جس طرح مَن یا مُسل کریں گے۔ کیا یہ بروچ کا حقیقی  حِصّہ، اس کی مبارزت کی نئی دعوت نہیں؟

کنڈیرا:

یہ سچ ہے اور وہ اپنے حوصلے سے بخوبی آشنا تھا۔ لیکن اس میں بھی ایک خطرہ ہے: اس کے مضمون کو بطور ناول کی نظریاتی کلید کے طور پر پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے، بطور اس کی ’’سچائی‘‘ کے اور یہ چیز بقیہ ناول کو محض ایک خیال کی تشریح میں بدل سکتی ہے۔ تب ناول کا توازن بگڑ جاتا ہے، مضمون کی سچائی نہایت انکتا دینے والی ہو جاتی ہے اور ناول کا لطیف ڈھانچہ بکھر جانے کے خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ایسا ناول جس کا مطمعِٔ نظر کسی فلسفیانہ نظریے کی تفسیر نہیں ہوتا (بروچ اس قسم کے ناول سے متنفّر تھا!) حقیقتاً اس طور کے مطالعے کو ختم کر دیتا ہے جس طور کا مطالعہ ہونا چاہیے۔ کوئی مضمون کو ناول میں کس طرح شامل کرتا ہے؟ اس کے لیے ذہن میں ایک بنیادی حقیقت کو بِٹھا لینا چاہیے: اظہار کا حقیقی جوہر اسی لمحے تبدیل ہو جاتا ہے جس لمحے وہ ناول میں شامل ہوتا ہے۔ ناول سے باہر مصنّف دعوٰی جات کی راجدھانی میں ہوتا ہے، ہر ایک کے لیے فلسفی، سیاست دان، دربان— اپنے کہے کے بارے میں پُر یقین۔ تاہم، ناول ایک ایسی سرزمین ہے جہاں کوئی دعوے نہیں کرتا، یہ کھیل اور مفروضات کی سرزمین ہے۔ ناول میں اظہاریہ اپنے حقیقی جوہر میں مفروضاتی ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

لیکن ایک ناول نگار کیوں چاہے گا کہ وہ اپنے ناول میں اپنے فلسفے کو کھلم کھلا اور پُر زور طور پر بیان کرنے سے اپنے آپ کو محروم کر لے؟

کنڈیرا:

کیوں کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ لوگ اکثر چیخوف یا کافکا یا مُسل کے فلسفے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ لیکن وہ ان کی تحریروں میں محض مربوط فلسفہ تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں! حتّٰی کہ جب وہ اپنی نوٹ بُکوں میں ان کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، وہ خیالات جو ذہنی مشقت کا نتیجہ ہوتے ہیں، تو وہ فلسفے پر زور دینے کی بجائے متضاد اقوال سے کھیل یا فی البدیہہ گھڑ رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ فلاسفر جو ناول لکھتے ہیں جعلی ناول نگاروں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جو ناول کی ہیئت کو اپنے خیالات بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ والٹئیر یا کیمس دونوں ہی کبھی دریافت نہیں کر پائے ’’کہ ناول اکیلا ہی دریافت کر سکتا ہے۔‘‘ میں صرف ایک استثنا سے آشنا ہوں اور وہ ہے ڈِڈیروٹ (Diderot) کا جیکؤس لی فیٹالسٹے (Jacques le fataliste)۔ کیا معجزہ ہے! ناول کی سرحدیں پار کرتے ہوے سنجیدہ فلسفی ایک زندہ دِل مفکر بن گیا۔ ناول میں ایک بھی سنجیدہ فقرہ نہیں ہے— اس میں ہر چیز ایک کھیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس میں اس ناول کے معیار کو ظالمانہ اور شرمناک حد تک گھٹا کر پیش کیا گیا۔ بِلا شبہ، لی فیٹالِسٹے (le fataliste) میں وہ سب کچھ ہے جسے فرانس کھو چکا ہے اور دوبارہ دریافت کرنے سے منکر ہے۔ فرانس میں کام سے زیادہ آئیڈیاز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جیکس لی فیٹالِسٹے کو آئیڈیاز کی زبان میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور اسی لیے اسے سرزمینِ آئیڈیاز میں سمجھا بھی نہیں جا سکتا۔

انٹرویو کنندہ:   

’’مذاق‘‘ (Joke) میں جاروسلاف ہے جو موسیقائی نظریے کو نشو و نما دیتا ہے۔ اس طرح اس کی سو چ کا مفروضاتی کردار ظاہر ہے۔ لیکن ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں مصنّف یعنی آپ کا اپنی موسیقائی استغراق ہے۔ پھر میںانھیں کس طرح سمجھوں کہ وہ مفروضاتی ہیں یا پُرزور بیانیے؟

کنڈیرا:

اس سب کا انحصار اسلوب پر ہے۔ ابتدائی الفاظ ہی سے میرا ارادہ ان میں پُرمزاح، استہزا، اشتعال انگیزی، تجرباتی عکاسی یا استفہامیہ اسلوب ہے۔ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ (’’عظیم جلوس‘‘)کے تمام چھے کے چھے حِصّے جذباتیت کے مضمون پر ہیں جو ایک مرکزی نظریہ پیش کرتے ہیں: جذباتیت غلاظت کے وجود کا مطلق انکار ہے۔جذباتیت پر میرا یہ استغراق میرے لیے نہایت اہمیّت کا حامل ہے۔ اس کی بنیاد بے حد سوچ بچار، تجربے، مطالعے اور حتّٰی کہ جذبے پر ہے۔ تاہم لہجہ کہیں بھی سنجیدہ نہیں بلکہ ترغیبی ہے۔ ناول سے باہر موضوع پر سوچا بھی نہیں جا سکتا؛ یہی حقیقی ناولائی استغراق ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

آپ کے ناولوں کی کثیر صوتی میں ایک اَور عنصر بھی شامل ہے، بیانیۂ خواب۔ یہ ’’زندگی کہیں اَور ہے‘‘ کے سارے کے سارے دُوسرے حِصّے پر چھایا ہؤا ہے، یہ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کے چھٹے حِصّے کی بنیاد ہے اور یہ تیرازا کے خوابوں کے ذریعے ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ میں بھی رواں ہے۔

کنڈیرا:

عبارت کے یہ ٹکڑے غلط مفہوم نکالنے کے لیے نہایت آسان ہدف ہیں، کیوں کہ لوگ ان میں کسی علامتی پیغام کی تمنّائی ہیں۔ تیرازا کے خوابوں میں تلاش کرنے کے لیے کوئی رمز نہیں ہے۔ وہ موت کے بارے میں نظمیں ہیں۔ ان کا مفہوم ان کے حسن میں مرموز ہے، جو تیرازا کو مسمریزم کر دیتا ہے۔ خیر، کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ لوگ سیدھے سادے انداز میں کافکا کو پڑھنا نہیں جانتے کیوں کہ وہ اس کی رمزیت آشکار کرنا چاہتے ہیں؟ وہ اپنے آپ کو خیال کے ساتھ بہے جانے کی بجائے مثالیے تلاشتے ہیں اور ان کے ہاتھ کلیشوں کے سوا کچھ نہیں آتا: زندگی لغو ہے (یا پھر نہیں ہے)، خُدا رسائی سے باہر ہے (یا پھر رسائی میں ہے) وغیرہم۔ آپ فن کے متعلّق کچھ نہیں سمجھ پاتے، بالخصوص جدید فن کے بارے میں، اگر آپ یہ نہیں سمجھتے کہ تصور بذاتِ خُود اہم ہے۔ نووالِس یہ جانتا تھا جب اس نے خوابوں کی تعریف کی۔ وہ ’’ہمیں زندگی کی یکسانیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا تھا، وہ ’’ہمیں اپنے کھلنڈرے پن کی مسرت سے تشاویش سے آزادی دیتے ہیں۔‘‘ وہ پہلا شخص تھا جو خوابوں اور خواب نما تصور کے ناول میں کردار کو سمجھ پایا تھا۔ اس نے اپنے ہَینرچ وان آفٹرڈنجن (Heinrich von Ofterdingen) کا دوسرا حِصّہ ایسے بیانیے میں لکھنے کا ارادہ کیا جس میں خواب اور حقیقت ایک دُوسرے میں اس قدر انلجھی ہوں کہ ایک دُوسرے سے جُدا ہو کر بیان کے قابل نہ رہے۔ بدقسمتی سے اس دُوسرے حِصّے کی بس وہی یادداشتیں دستیاب ہیں جن میں نووالِس اپنے جمالیاتی ذوق کے ارادے کو بیان کرتا ہے۔ ایک صدی بعد، اس کی تمنّا کافکا نے پُوری کی۔ کافکا کے ناول خواب اور حقیقت کا ادغام ہیں؛ یعنی وہ خواب ہیں نہ حقیقت۔ کسی بھی شے سے زیادہ کافکا ایک جمالیاتی انقلاب ، ایک جمالیاتی معجزے کا باعث بنا۔ بِلا شبہ، کوئی بھی اپنے کیے کو دُھرا نہیں سکتا۔ لیکن میں ناول میں خوابوں اور خوابوں کے تصور کو لانے کے لیے اس کے اور نووالِس کے ساتھ شریک ہوتا ہوں ۔ میرا یہ کرنے کا طریق خواب اور حقیقت کو مدغم کرنے کی بجائے کثیر صوتی تصادم کی صورت میں ہے۔ بیانیۂ خواب رِدھم کے عناصر میں سے ایک ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کے آخری حِصّے میں ذرا کثیر صوتی نہیں ہے اور پھر بھی غالباً وہ کتاب کا سب سے دِلچسپ حِصّہ ہے۔ یہ چودہ ابواب پر مشتمل ہے جو ایک شخص— جان— کے شہوانی حالات بیان کرتا ہے۔

کنڈیرا:

ایک اَور موسیقائی اصطلاح: یہ بیانیہ ’’انتار چڑھاؤ کے ساتھ مرکزی خیال‘‘ ہے۔ مرکزی خیال ان چیزوں کے درمیان سرحد ہے جو اپنا مفہوم کھو بیٹھتی ہیں۔ ہماری زندگی اس سرحد کے نہایت قرب وجوار میں اپنی تہیں کھولتی ہے، اور ہم کسی بھی لمحے اس سرحد کو پار کرنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ چودہ ابواب ایک ہی شہوانی صورتِ حال کے تفہیم اور عدم تفہیم کی سرحد پر چودہ انتار چڑھاؤ ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کو ’’انتار چڑھاؤ والا ناول‘‘ قرار دیا ہے۔ کیا یہ اب بھی ناول ہے؟

کنڈیرا:

اس میں عمل کی وحدت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ناول نہیں لگتا۔ لوگ اس وحدت کے بغیر ناول کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حتّٰی کہ نووو رومن (nouveau roman) کی بنیاد بھی وحدتِ عمل (یاغیر عملیت) پر ہوتی تھی۔ سٹرن (Sterne)اورڈِڈیروٹ نے انتہائی کمزور وحدت سے مسرت حاصل کی۔ جیکس اور اس کے آقا کا سفر میں جیکس لی فیٹالِسٹ کا حِصّہ کم ہے، جو مزاحیہ حیلہ سازی زیادہ کچھ نہیں جس میں حکایات، کہانیوں اور خیالات کو جڑا گیا ہے۔ باایں ہمہ، یہ حیلہ سازی، یہ ’’چوکھٹا‘‘ ناول کو ناول بنانے کے لیے ضروری ہے۔ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں ایسی کوئی حیلہ سازی نہیں ہے۔ یہ موضوعات کی وحدت اور ان کا انتار چڑھاؤ ہی ہے جو کُل میں ربط بخشتا ہے۔ کیا یہ ناول ہے؟ ہاں۔ ایک ناول بود پر غور وخوض ہوتا ہے جسے تصوراتی کرداروں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہیئت لامحدود طور پر آزاد ہے۔ اپنی تاریخ میں ناول اپنے لامختتم امکانات سے فائدہ انٹھاتا نظر نہیں آتا۔ اس نے یہ موقع کھویا ہی ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

لیکن ماسوائے ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘  آپ کے ناولوں کی بنیاد بھی وحدتِ عمل ہے، اگرچہ بِلا شبہ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ میں اس کا بے حد ڈھیلا تنوع ہے۔

کنڈیرا:

ہاں، لیکن وحدت کے دیگر اہم درجےانھیں مکمل بناتے ہے: یکساں مابعد الطبیعاتی سوالوں، یکساں مرکزی خیال اور پھر انتار چڑھاؤ کی وحدت (مثلاً ’’الوداعی دعوت‘‘ میں پدریت کا مرکزی خیال)۔ لیکن میں ان سب سے زیادہ اس پر زور دوں گا کہ ناول متعدّد بنیادی الفاظ پر تعمیر ہوتا ہے، جیسے سکوئن برگ کے نوٹس کی سیریز۔ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں درج ذیل سیریز ہے: نسیان، قہقہے، فرشتے، ’’litost‘‘، سرحد۔ ناول میں ان پانچ کلیدی الفاظ: مطالعہ، تعریف، مکرر تعریف اور پھر اس طور پر وجودیت کے درجات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح ان پانچ درجات پر تعمیر ہوتا ہے جیسے ایک مکان ستونوں پر۔ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ کے ستون ہیں: بوجھل پن، لطافت، رُوح، بدن، درجہ بہ درجہ کردار، ان الفاظ کی جگہ مترادفات نہیں لے سکتے۔ اس کی مترجمین کو بار بار وضاحت کی جاتی ہے، جو— اپنے ’’اچھے اسلوب‘‘ کی خاطر— تکرار سے بچنے کی سعی کرتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:   

بُنت کی وضاحت کے لیے، میں یہ دیکھ کر نہایت حیرت زدہ ہؤا کہ آپ کے ایک ناول کے علاوہ باقی تمام سات سات حِصّوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔

کنڈیرا:

جب میں نے اپنا پہلا ناول ’’مذاق‘‘ ختم کیا تو حیرت کی کوئی بات نہیں تھی کہ اس کے سات حِصّے تھے۔ پھر میں نے ’’زندگی کہیں اَور ہے‘‘ تحریر کیا۔ ناول قریب قریب مکمل ہو گیا اور اس کے چھے حِصّے تھے۔ میں مطمئن نہیں تھا۔ اچانک مجھے ایک کہانی شامل کرنے کا خیال آیا جو ہیرو کی موت کے تین سال بعد ظہور پذیر ہوتی ہے— بہ الفاظِ دیگر ناول کے دورانیے سے باہر۔ اب یہ سات حِصّوں میں سے چھٹا بن گیا، جس کا عنوان تھا ’’وسطی عمر کا شخص۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ناول کی عمارت مکمل ہو گئی۔ بعد میں، مجھے محسوس ہؤا کہ یہ چھٹا حِصّہ ’’مذاق‘‘ کے چھٹے حِصّے (’’کوستکا‘‘)سے عجیب طور پر مماثل ہے، جو ایک بیرونی کردار کا تعارف کرواتا اور ناول کی دِیوار میں ایک خفیہ کھڑکی بھی وَا کرتا ہے۔ ’’پُرمزاح محبتیں‘‘ آغاز میں دس کہانیاں تھیں۔ جن کا حتمی مجموعہ تشکیل دیتے ہوے میں نے تین نکال دیں۔ یُوں یہ مجموعہ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘  سے بہت زیادہ قریب اور اس کانقیب بن گیا۔ ایک کردار، ڈاکٹر ہَیوَل، چوتھی اور چھٹی کہانی آپس میں باندھتا ہے۔ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں بھی چوتھا اور چھٹا حِصّہ ایک شخص نے جوڑے ہوے ہیں: تامینہ۔ جب میں نے  ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ تحریر کیا تو میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں سات کی تعداد توڑ ڈالوں گا۔ میں نے بہت پہلے چھے حِصّوں کا خاکہ تعین کر لیا تھا۔ لیکن پہلا حِصّہ مجھے اپنی بے شکلی سے حیران کرتا ہے۔ حتماً میں سمجھ گیا کہ درحقیقت یہ دو حِصّوں سے بنا ہؤا ہے۔ آپس میں جڑے ہوے دو جڑواں نومولود بچّوں کی طرحانھیں نفیس جرّاحی کے ذریعے الگ کیا جانا تھا۔ میں اس سب کی وجہ یہ بیان کرتا ہوں کہ میں طلسماتی اعداد کی کسی توّہم پرستی کا شکار ہوں نہ میں نے ان کی کوئی دانستہ منطقی تعداد مقرر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ میں ایک گہری، لاشعوری، ناقابلِ تفہیم ضرورت اور ایک رسمی معروف نوع میں بہتا چلا گیا جس سے مفر میرے لیے ناممکن تھا۔ میرے تمام ناول تعمیر کا تنوع ہیں جن کی بنیاد سات کا عدد ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

صاف طور پر سات کے حِصّوں میں تقسیم کے استعمال نے یقینا قریب ترین ایک ہی نوع کے عناصر کو ایک کُل میں ڈھالنے کا عمل آپ کے مقصد سے جڑا ہؤا ہے۔ آپ کے ناولوں کا ہر حِصّہ اپنے اندر اپنی ایک دُنیا سمائے ہوئے ہے اور اپنی خاص ہیئت کی بِنا پر دُوسروں سے مختلف ہے۔ لیکن اگر ناول کو سات حِصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تو ان حِصّوں کو اعداد لگا کر ابواب میں کیوں تقسیم کیا جاتا ہے؟

کنڈیرا:

ابواب کو بھی اپنی ایک چھوٹی سی دُنیا تخلیق کرنا چاہیے؛ ان کی نسبتاً جُدا گانہ حیثیت بھی ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے پبلشروں کے ناک میں دم کیے رکھتا ہوں کہ وہ اعداد کو نمایاں کرنے کو یقینی بنائیں اور یہ کہ ابواب بھی بخوبی الگ کیے گئے ہیں۔ ابواب موسیقی کے ماتروں کی ماند ہیں! ایسے حِصّے بھی ہیں جہاں ماترے (ابواب) طویل ہیں، کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بے قاعدہ طوالت کے حامل۔ ہر حِصّے میں ردھم کے رحجان کی نشانیاں ہو سکتی ہیں:معتدل، ہاؤ ہو، دِھیما پن وغیرہم۔ ’’زندگی کہیں اَور ہے‘‘ کا چھٹا حِصّہ دِھیما پن لیے ہوے ہے: دِھیمے اور مالیخولیائی انداز میں۔ یہ ہمیں ایک وسطی عمر کے مرد اور ایک ایسی نوجوان لڑکی کے مابین ملاقات کے بارے میں بتاتا ہے جو حال ہی میں جیل سے رہا ہوئی ہوتی ہے۔ آخری حِصّہ انتہائی تیز رفتار ہے؛ یہ نہایت مختصر ابواب میں لکھا گیا ہے اور جیرومِل سے ختم ہوتی ہیئت میں رِم بوڈ، لیرمونٹوف اور پشکن تک   چھلانگ لگا تا ہے۔ پہلے میں نے سوچا کہ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ موسیقائی طرز میں ہے۔ مجھے علم ہے کہ آخری حِصّے کو لطیف اور دِھیما ہونا چاہیے تھا: لیکن یہ اختصار، ناشُدنی واقعات کے دورانیے، ایک ہی مقام پر مرتکز ہے اور اس کا انداز ساکت ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس حِصّے کو ہاؤ ہو سے پہلے ہونا چاہیے تھا: وہ حِصّہ جس کا عنوان ’’عظیم جلوس ‘‘ ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

سات کے ہندسے کے انصول سے استثنا بھی ہے۔ ’’الواداعی دعوت‘‘ کے صرف پانچ حِصّے ہیں۔

کنڈیرا:

’’الوداعی دعوت‘‘ ایک اَور طرح کی رسمی معروف نوع میں ہے: یہ مطلقاً متجانس ہے؛ ایک ہی موضوع پر ہے، ایک ہی لَے میں بیان ہؤا ہے، بہت زیادہ ڈرامائی اور انشاء پرداز ہے۔ یہ اپنی شکل ایک مضحکہ خیز صُورتِ حال سے تشکیل دیتا ہے۔ ’’پُرمزاح محبتیں‘‘ میں کہانی ’’محفل‘‘ (Symposium) بھی بالکل اسی طرز پر لکھی گئی ہے— پانچ ایکٹوں کی ایک مضحکہ خیز صُورتِ حال۔

انٹرویو کنندہ:   

مضحکہ خیز گفتگو سے آپ کی کیا مراد ہے؟

کنڈیرا:

میرا مطلب ہے کہ پلاٹ پر اور اس کے تمام تر لوازمات کے غیر متوقع اور ناقابلِ یقین اتفاقات پر زور۔ ناول میں پلاٹ اور اس کے مبالغہ آمیز ڈھونگ سے زیادہ کوئی شے بھی مشکوک، مضحکہ خیز، پرانے رواج والی، فرسودہ اور بے مزہ نہیں ہوئی۔ فلابرٹ سے لے کر آج تک ناول نگاروں نے پلاٹ میں ہنرمندی کو ختم کرنے کی سعی کی ہے۔ اور اس سے ناول بے کیف ترین زندگیوں سے زیادہ بے لطف ہو گیا ہے۔ لیکن ناول کے پلاٹ سے مشکوکی اور گھسے پٹے پہلو سے گریز کا ایک راستہ ہے اور وہ ہے اس کی مشابہی تقاضوں سے آزادی۔ آپ ایک قطعی بعید از قیاس کہانی سناتے ہیں تو وہ بعید از قیاس انداز ہی میں منتخب ہوتی ہے! بالکل اسی طرح کافکا نے امریکا (Amerika) کو سوچا۔ کافکا پہلی بار اپنی ’’سر۔رئیل‘‘ (sur-real) کائنات میں، اپنے پہلے ’’خواب اور حقیقت کے ادغام‘‘ میں پلاٹ کی مضحکہ خیز نقل کے ساتھ مضحکہ خیزی کے دروازے سے داخل ہو گیا۔

انٹرویو کنندہ:   

لیکن آپ نے مضحکہ خیز صورتِ حال کو اس ناول کے لیے کیوں منتخب کیا جو تفریحِ طبع کے لیے نہیں ہے؟

کنڈیرا:

لیکن وہ تفریح ہے! مجھے فرانسیسیوں کا تفریح کو حقارت کی نظر سے دیکھنا سمجھ نہیں آتا، وہ ’’تفریح‘‘ کے لفظ سے اِتنے شرمندہ کیوں ہیں۔ وہ تفریح کے لیے بیزار ہونے کی نسبت کم خطرہ مول لیتے ہیں۔ اور وہ جذباتیت کی خاطر خطرہ مول لینے کو کیوں دوڑتے ہیں، وہ جذباتیت جو میٹھی، زیب و زینت سے آراستہ، گلابی رنگ کی روشنی جو ایلؤارڈ کی شاعری جیسے جدید کام یا ایٹورے سکولا کی تازہ ترین فلم لے بال (Le Bal) ، جس کا ضمنی عنوان ’’فرانسیسی تاریخ کی جذباتیت‘‘ ہو سکتا ہے، کو غسل دیتی ہے۔ جی، تفریح نہیں جذباتیت ایک حقیقی جمالیاتی مرض ہے! عظیم یورپی ناول کا آغاز بطور تفریح ہؤا، اور ہر سچا ناول نگار اس کی ہڑک رکھتا ہے۔ درحقیقت، ان عظیم تفریحوں کے موضوع خوف ناک حد تک سنجیدہ ہیں— سروانٹس (Cervantes) کے بارے میں سوچیے! ’’الوداعی دعوت‘‘ میں یہ سوال ہے کہ کیا انسان زمین پر رہنے کے قابل ہے؟ کیا کسی کو ’’اس سیارے کو انسان کے شکنجے سے آزاد نہیں کروانا چاہیے‘‘؟ عمر بھر میری تمنّا رہی ہے کہ انتہائی تشویشناک سوال کو انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں مدغم کر دوں۔ کیا یہ خالصتاً ایک فن کارانہ تمنّا نہیں ہے؟ معمولی ہیئت اور سنجیدہ موضوع کی جڑت فوراً ہی ہمارے ڈراموں کی حقیقت (ان تمام ڈراموں کی جو ہمارے بستر پر وقوع پذیر ہوتے ہیں اور جو ہم تاریخ کے عظیم سٹیج پر کھیلتے ہیں) اور ان کی نہایت غیراہمیّتی کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ ہمیں بود کی ناقابلِ برداشت لطافت کا تجربہ ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

تو آپ نے اس لیے اپنے تازہ ترین ناول کا عنوان ’’الوداعی دعوت‘‘ رکھا ہے؟

کنڈیرا:

میرے ہر ناول کو ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ یا ’’مذاق‘‘ یا ’’پُرمزاح محبتیں‘‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے، عنوانات ادل بدل پذیر ہیں۔ ان میں بہت کم ایسی چیزیں ہیں جو میرے لیے باعثِ اندیشہ ہوں، میری تعریف کرتی ہوں اور بدقسمتی سے مجھ پر قدغن لگاتی ہوں۔ ان چیزوں کے علاوہ میرے پاس کہنے یا لکھنے کو کچھ نہیں ہے۔

انٹرویو کنندہ:   

اس طرح آپ کے ناول میں دو رسمی معروف قسمیں ہیں: (۱) کثیر صوتی، جو سات کے عدد کی بنیاد پر مختلف النوع عناصر کو ایک عمارت میں یکجا کرتی ہے؛ (۲) مضحکہ خیز صُورتِ حال، جو متجانس، ڈرامائی اور بعید از قیاس کے مضافات میں ہے۔ کیا کنڈیرا ان دونوں معروف اقسام سے باہر بھی کہیں ہے؟ 

کنڈیرا:

میں نے ہمیشہ کسی انتہائی غیر متوقع بغاوت کا خواب دیکھا ہے۔ لیکن میں اب تک اپنی اس دہری ریاست سے باہر نہیں نکل پایا۔

:::

]انگریزی متن بشکریہ ’’دی پیرس ریویو‘‘ [(The Paris Review)

انٹرویو

شہرت یافتہ

میلان کنڈیرا

(Milan Kundera)

انٹرویوکنندہ: کرسچن سالومن

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

’’ناول متعدّد بنیادی الفاظ پر تعمیر ہوتا ہے۔‘‘— میلان کنڈیرا ، شہرت یافتہ چیک ؍فرانسیسی ادیب۔ ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: میلان کنڈیرا

’’ناول متعدّد بنیادی الفاظ پر تعمیر ہوتا ہے۔‘‘ میلان کنڈیرا

معروف چیک (Czech) افسانہ، ناول و ڈراما نگار میلان کنڈیرا فرانس کے شہر پیرس میں مونٹپارناسے (Montparnasse) کے قریب ایک بالائی اپارٹمنٹ میں جِلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اپنے اپارٹمنٹ ہی کے ایک تنگ کمرے کو وہ بطور دفتر استعمال کرتا ہے۔ فلسفے اور علمِ موسیقی کی کتب سے بھری الماریوں، ایک پرانی ٹائپ رائٹر اور ایک میز سے بھرا ہؤا وہ کمرہ دنیا کے معروف مصنّف کی بجائے کسی طالب علم کا کمرہ لگتا ہے۔ کمرے کی ایک دیوار پر ساتھ ساتھ دو فوٹو ٹنگے ہیں: ایک اس کے والد کا اور دُوسرا کنڈیرا کے نہایت پسندیدہ ایک چیک موسیقار لیوس جینا سیک کا۔

کنڈیرا کو اچانک ملنے والی شہرت بے چین کر دیتی ہے کہ وہ میلکم لوری کے نظریے: ’’کامیابی خوف ناک سانحے کی ماند اور گھر کو لگی آگ سے زیادہ خطرناک ہے۔ شہرت رُوح کے گھر کو چاٹ جاتی ہے۔‘‘ کا قائل ہے۔

کنڈیرا اَپنے بارے میں گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا جو لکھاری کے کام کی بجائے اکثر ناقدین کا اس کی شخصیت، سیاست اور نجی زندگی کے مطالعے کے رحجان کے خلاف کنڈیرا کا جبلّی ردِّ عمل ہے۔ کنڈیرا نے لی نول آبزرویٹر (Le Nouvel Observateur) نامی میگزین کو بتایا: ’’اپنے آپ کے بارے میں گفتگو پر لعنت کہ یہ تغزّل سے مملو صلاحیت کو ناولائی صلاحیت سے ممیز کرتا ہے۔‘‘ اپنے بارے میں گفتگو سے انکار ادبی کام اور ادب کی ہیئتوں کو مرکزِ نگاہ بنانا اور ناول پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ہے۔

v     

انٹرویو کنندہ:            

آپ نے بتایا کہ آپ اپنے آپ کو جدید ادب میں ویانائی ناول نگار رَابرٹ مُسل (Robert Musil) اور ہرمن بروچ (Hermann Broch) کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔ بروچ کے خیال میں— جیسا کہ آپ کرتے ہیں— نفسیاتی ناولوں کا دور ختم ہو چکا۔ وہ اس کی بجائے ناول کی اس نوع پر یقین رکھتا ہے جسے وہ ’’کثیر تاریخی‘‘ ناول کہتا ہے۔

میلان کنڈیرا:

مُسل اور بروچ دونوں نے ناول پر بھاری ذمّہ داریاں عاید کیں۔ انھوں نے اسے عظیم مُدَمّغ مرکب کے طور پر دیکھا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں انسان اب بھی دنیا کے سامنے اجمالاً سوالات رکھ سکتا ہے۔انھیں یقین تھا کہ ناول کے پاس جوڑنے کی بہت زیادہ طاقت ہے کہ یہ شاعری بھی ہو سکتا ہے، فنتاسی بھی، فلسفہ، جوامع الکلام (ضرب المثل) اور مضمون بھی، سب اس میں سما سکتے ہیں۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ اس نے اپنے مدعا کو ’’کثیر تاریخی‘‘ کی غلط اصطلاح منتخب کر کے ابہام میں ڈال دیا۔ درحقیقت یہ بروچ کا ہم وطن آسٹروی نثر کا ایک کلاسیک ایڈالبرٹ سٹفٹر (Adalbert Stifter)تھا جس نے اپنے ۱۸۵۷ء میں شائع ہونے والے ’’ہندوستانی موسمِ گرما‘‘ (Der Nochsommer)کی صورت میں ایک حقیقی کثیر تاریخی ناول تخلیق کیا تھا۔ ناول معروف ہے: نطشے نے اسے جرمن ادب کی چار بڑی تخلیقات میں سے ایک قرار دیا۔ آج یہ ناقابلِ مطالعہ ہے۔ اس میں علم الارضیات، نباتیات، حیوانیات، دست کاری، مصوّری اور علم الآثاریات کے انبار ہیں لیکن یہ عظیم الشان اور سربلند کرنے والا قاموس علوم خود انسان اور اس کے حالات کے ذکر سے خالی ہے۔ بلا کم و کاست ، اس لیے کہ یہ کثیر تاریخی ہے۔ ’’ہندوستانی موسمِ گرما‘‘ اس عنصر سے مکمل طور پر عاری ہے جو ناول کو خاص بناتا ہے۔ اس کے برعکس بروچ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔ اس نے وہ دریافت کرنے کی سعی کی جو ’’ناول اکیلا ہی دریافت کر سکتا ہے۔‘‘ خاص مقصد، جسے بروچ نے ’’ناولائی علم‘‘ کہنا پسند کیا ہے، بود کا ہونا ہے۔ میرے خیال میں کثیر تاریخی کی تعریف یوں کی جانا چاہیے: ’’وہ جو علم کی ہر ترکیب اور ہیئت کو بود پر روشنی ڈالنے کے لیے جوڑتا ہے۔‘‘ ہاں، میں خود کو اس طرح کی رسائی کے قریب سمجھتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:            

آپ نے رسالے لی ناول آبزرویٹر میں ایک طویل مضمون تحریر کیا جس سے فرانسیسیوں نے بروچ کو دوبارہ دریافت کیا۔ آپ اس کی نہایت تعریف و توصیف کرتے ہیں لیکن آپ اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ مضمون کے اختتام پر آپ نے لکھا ہے: ’’تمام عظیم تخلیقات (کیوں کہ وہ عظیم ہیں) جزوی طور پر نامکمل ہوتی ہیں۔‘‘

کنڈیرا:     

بروچ محض اپنے حاصل کیے ہوئے اہداف کی بِنا پر ہی ہمارے لیے تخلیقی تحریک کا باعث نہیں ہے  بلکہ اس بِنا پر بھی ہے کہ اس نے جس کا قصد کیا اسے حاصل نہیں کر پایا۔ اس کی تخلیقات کی یہی عدم تکمیل فن کی نئی ہیئتوں کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے، جس میں شامل ہیں: (۱) غیر ضروریات سے بنیادی گریز پائی (جدد دُنیا میں بود کی پیچیدگی کو، علم العمارات کی شفافیت کو کھوئے بِنا، حصار میں لینا)؛ (۲) ’’ناولائی رِدھم‘‘ (فلسفے، بیان اور خواب کو ایک موسیقائی لڑی میں پرونا)؛ (۳) بالخصوص ناولائی مضمون (بہ الفاظِ دیگر، کسی واضح پیغام کی ترسیل کے دعوے کی بجائے منطقی مفروضاتی، کھلواڑ، یا مزاحیہ رہنا)

انٹرویو کنندہ:            

لگتا ہے کہ آپ کے فن کا تمام پروگرام ان ہی تین نکات کے حصار میں ہے۔

کنڈیرا:

ناول کو بود کی کثیر تاریخی روشنی میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ توضیحی الفاظ کے استعمال سے گریز پائی کی تکنیک، اختصار کے فن کے ماہر ہوں بصورتِ دیگر آپ غیر مختتم طوالت کے جال میں پھنس جائیں گے۔ مُسل کا ’’بے صلاحیت آدمی‘‘ ان دو تین ناولوں میں سے ہے جنھیں میں بہت پسند کرتا ہوں۔ لیکن مجھ سے اس کی عظیم الشّان غیر مختتم طوالت کی تعریف کے لیے مت کہنا! ایک نہایت وسیع و عریض قلعے کا تصور کریں کہ جس کا پہلی نظر میں آنکھ مکمل احاطہ نہ کر پائے۔چار (کتابوں کے) ایک ایسے سلسلے کے بارے میں سوچیں جو نو گھنٹوں میں اختتام پذیر ہو۔ یہاں بشریاتی حدود ہیں— انسانی تناسب— جنھیں توڑنا نہیں چاہیے، جیسے یادداشت کی حد۔ جب ہم مطالعہ ختم کریں تو بھی آغاز یاد رکھنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اگر نہیں تو ناول اپنی شکل کھو دیتا ہے، اس کی ’’عمارت کی شفافیت‘‘ دھندلا جاتی ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

’’قہقہے اور نسیان کی کتاب‘‘ سات جِلدوں پر مشتمل ہے۔ اگر آپ انھیں  توضیحی الفاظ سے گریز پائی کے طریقے میں کم کر کے لکھتے تو آپ مکمل طوالت کے حامل سات ناول لکھ سکتے تھے۔

کنڈیرا:

لیکن اگر میں سات مکمل ناول لکھتا تو میں اہم چیز کھو بیٹھتا: میں ایک کتاب میں ’’جدید دُنیا میں انسانی وجود کی پیچیدگی‘‘ کو قابو کرنے کا اہل نہ رہتا۔  توضیحی الفاظ سے گریز پائی کا فن یقینا اہم ہے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ سیدھا چیزوں کی رُوح میں جایا جائے۔ اس معاملے میں مَیں نے ہمیشہ اس چیک موسیقار کے بارے میں سوچا ہے جسے میں بچپن ہی سے پسند کرتا آیا ہوں: لیوس جینا سیک (Leos Janacek)۔ وہ جدید موسیقی کے مہان استادوں میں ہے۔ اس کی سٹرپ میوزک (strip music)  کے لوازم کے لیے تحدید انقلاب انگیز تھی۔ بِلا شبہ، ہر دھن میں بے شمار تکنیکیں استعمال ہوتی ہیں: موضوع کا اظہار،  عروج، انتار چڑھاؤ، کثرتِ صوتیات (اکثر نہایت خود کار)، سازوں میں سُروں کا بھرنا، تغیّر وغیرہم۔ آج کوئی بھی کمپیوٹر کے ذریعے موسیقی ترتیب دے سکتا ہے لیکن موسیقار کے دماغ میں ہمیشہ کمپیوٹر نصب ہوتا ہے— اگر چاہیں تو موسیقار بِلا اصل خیال کے محض ’’صوتیاتی علم‘‘ کے سہارے موسیقی کے قواعد و ضوابط کا دائرہِ عمل وسیع کرتے ہوے سانیٹ کہہ ڈالیں۔ جینا سیک کا مقصد بھی اس کمپیوٹر کو تباہ و برباد کرنا تھا! تغیر پذیری کی بجائے وحشیانہ تضادات؛ تنوع کی بجائے تکرار— اور ہمیشہ سیدھی چیزوں کے مرکز کی طرف: محض ضروری بات کی ادائیگی کے وجود کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ تقریباً یہی بات ناول کے ساتھ ہے؛ یہ بھی ’’تکنیک‘‘ کا، قواعد کا پابند ہوتا ہے جو اس کے لیے مصنّف کا کام کرتے ہیں: ایک کردار پیش کرتے ہیں، ایک معاشرتی ماحول پیش کرتے ہیں، عمل کو تاریخی منظر میں لاتے ہیں، فضول طوالت سے گریز کرتے ہوے کرداروں کو ابدی بناتے ہیں۔ منظر کی ہر تبدیلی نئے اظہاریے، بیانیے اور وضاحتوں کا تقاضا کرتی ہے۔ میرا مقصد جینا سیک جیسا ہے: ناول کو ناولائی تکنیکوں کی خود کاری، ناولائی الفاظ کا بار بار گھومنے سے نجات دلانا۔

انٹرویو کنندہ:            

آپ نے دُوسری قسم ’’ناولائی رِدھم‘‘ کا ذکر کیا تھا۔         

کنڈیرا:

بحیثیت ایک عظیم مُدَمّغ مرکب کے ناول کا آئیڈیا از خود ’’فلسفے‘‘ کے مسئلے کو انٹھاتا ہے۔ یہ مسئلہ اب بھی حل طلب ہے۔ بروچ کے ناول کے تیسرے حِصّے ’’خواب میں چلنے والے‘‘ کو لے لیں، یہ پانچ متنوع عناصر پر مشتمل ہے: (۱) ’’ناولائی‘‘ بیانیے کی بنیاد تین کرداروں پر ہے: پیسنو، ایش، ہُگینو؛ (۲) ہانا وینڈلِنگ کی ذاتی کہانی (۳) ایک فوجی ہسپتال میں زندگی کی حقیقی عکاسی (۴) سالویشن آرمی کی لڑکی کا (جزوی طور پر نظمیہ) بیانیہ (۵) اقدار کی ناقدری پر (سائنسفائی زبان میں لکھا ہؤا) ایک فلسفیانہ مضمون۔ ہر حِصّہ شاندار ہے۔ تاہم باوجود اس حقیقت کے کہ انھیں بہ یک وقت مسلسل تبدیلی کرتے ہوے استعمال کیا گیا ہے (بہ الفاظِ دیگر صوتی طور پر) لیکن پانچوں عناصر جدا رہتے ہیں— بہ الفاظِ دیگر وہ ’’کثرتِ صوتیات‘‘ قائم نہیں کرتے۔

انٹرویو کنندہ:            

کیا کثرتِ صوتیات کا استعارہ استعمال اور اسے ادب پر لاگو کر کے آپ درحقیقت ناول سے وہ تقاضے نہیں کر رہے جنھیں وہ پُورا نہیں کرسکتا؟

کنڈیرا:

ناول بیرونی عناصر کو دو طرح سے اپنے اندر شامل کر سکتا ہے۔ اپنے سفر کے دوران ڈان قُوئیژوٹ کی مختلف کرداروں سے ملاقات ہوتی ہے جو اسے اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ اس طرح، جداگانہ کہانی ایک کُل میں گھسیڑکر ناول کے چوکھٹے میں کَس دی جاتی ہیں۔ اس قسم کی تراکیب سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے ناولوں میں اکثر پائی جاتی ہیں۔ بروچ نے، تاہم، ایش اور ہُگینو کی مرکزی کہانی میں ہان وینڈلِنگ کی کہانی کو موزوں کرنے کی بجائے ان دونوں کہ بہ یک وقت اسے دریافت کرنے دیا۔ سارترے (’’مہلت‘‘ میں) اور اس سے بھی پہلے ڈاس پاسوس نے بھی بہ ایں ہمہ اس تکنیک کو استعمال کیا۔ لیکن ان کا مقصد مختلف ناولائی کہانیوں کو اکٹھّا کرنا تھا۔ بہ الفاظِ دیگر ہم متجانس نہ کہ غیر متجانس عناصر کو جیسا کہ بروچ کے معاملے میں ہے۔ مزید براں، ان کا اس تکنیک کا استعمال مجھے بہت زیادہ مشینی اور شاعری سے عاری لگتا ہے۔ میرے پاس ایسی بنت کے لیے ’’کثرتِ صوت‘‘ اور ’’رِدھم‘‘ سے زیادہ بہتر اصطلاحیں نہیں ہیں اور یہ بھی کہ موسیقائی تشبیہہ مفید تشبیہہ ہے۔ مثال کے طور پر، مجھے ’’خواب میں چلنے والے‘‘ کے بارے میں جو پہلی چیز دِق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ پانچوں عناصر ہم آہنگ نہیں ہیں۔ جب کہ موسیقائی ادغام میں تمام آوازوں کا ہم آہنگ ہونا بنیادی انصول ہے، شرطِ اوّلین۔ بروچ کے کام میں پہلا عنصر (ایش اور ہُگینو کا ناولائی بیانیہ ) دُوسرے عناصر کی نسبت بہت زیادہ جگہ گھیرتا ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ اسے اتنی مراعات دی گئی ہیں کہ یہ ناول کے پچھلے دو حِصّوں سے منسلک  ہے اور اس طرحانھیں جوڑنے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ اس طرح یہ زیادہ توجہ کھینچتا ہے اور دُوسرے عناصر کو محض ہمراہی میں تبدیل کرنے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ دُوسری چیز جو مجھے دِق کرتی ہے وہ یہ کہ اگرچہ بروچ کا اسلوب ان میں ایک بھی آواز کے نہ ہونے پر کچھ نہیں کر سکتا، ہانا وینڈلِنگ کی کہانی یا اقدار کی زوال پذیری جدا کام کی حیثیت میں بہت اچھے طور پر اپنا مقام بنا سکتی ہیں۔ الگ الگ لیے جانے پر بھی وہ نہ اپنے مفہوم میں کچھ کھوئیں گی اور نہ اپنا معیار۔

میرے خیال میں ناولائی رِدھم کے لیے بنیادی تقاضے یہ ہیں: (۱) مختلف عناصر کی ہم آہنگی؛ (۲) کُل کی ناقابلِ تقسیم پذیری۔ مجھے وہ دِن یاد ہے جب میں نے ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کے تیسرے حِصّے ’’فرشتے‘‘ کوختم کیا تو مجھے اپنے آپ پر بے انتہا فخر تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میں نے کہانی کہنے کے اطوار کو اکٹّھا کرنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔ اسلوب ان عناصر سے تشکیل دیا گیا تھا: (۱) دو طالبات کے  چلبلے پن کی حکایت؛ (۲) ایک آپ بیتیانیہ اندازِ ؛بیاں (۳) ایک نسوانی کتاب پر ایک تنقیدی مضمون؛ (۴) ایک فرشتے اور شیطان کا فسانہ؛ (۵) پال ایلؤارڈ کا پراگ کے انوپر پرواز کا افسانوی بیان۔ ان میں سے کوئی بھی عنصر دُوسرے کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا تھا، ہر ایک دِیگران پر روشنی ڈالتا اور ان کی توضیح کرتا ہے کہ وہ تمام ایک ہی موضوع کو کھولتے ہیں اور ایک ہی سوال کرتے ہیں: ’’فرشتہ کیا ہے؟‘‘

چھٹا حِصّہ، جس کا عنوان ’’فرشتے‘‘ بھی ہے، کی ترکیب یہ ہے: (۱) تامینہ کی موت کا ایک خوابیدہ بیانیہ؛ (۲) میرے والد کی وفات کا خُود نوشتی بیانیہ؛ (۳) موسیقائی اظہاریے؛ (۴) وَبا کو بھلانے کا بیان جو پراگ کو تباہ کرتی ہے۔ میرے والد اور تامینہ کی بچّوں کے ہاتھوں اذیّت میں کیا قدرِ مشترک ہے؟ یہ ایک مرکزی خیال کی میز پر ’’ایک سلائی مشین اور ایک چھتری کا ملنا‘‘، لَوترے مونٹ کے مشہور و معروف تصویری خاکے کو ادھار لینا ہے۔  ناولائی فلسفہ تیکنیک سے کہیں بہت زیادہ شاعری ہے۔ مجھے اس نوع کی کثیر صوتی شاعری کی مثال ادب میں کہیں نہیں ملتی، لیکن میں الائن ریسنیلز کی تازہ ترین فلموں سے بہت زیادہ حیران ہؤا ہوں۔ اس کا  فن کا استعمال قابلِ تحسین ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

رِدھم ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ میں کم ظاہر ہوئی ہے۔

کنڈیرا:

وہ میرا مطلوب تھا۔ مَیں اس میں خواب، بیانیے اور اظہاریے کو ساتھ ساتھ اکٹھّے لیکن مکمل طور پر ناقابلِ تقسیم اور فطری بہاؤ میں دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن چھٹے حِصّے میں ناول کا کثیر صوتی کردار نہایت بھونچکا ڈالنے والا ہے۔ سٹالن کے بیٹے کی کہانی، مذہبی اظہاریہ، ایشیا کا ایک سیاسی واقعہ، بینکاک میں فرانز کی موت اور بوہیما میں ٹامَس کا جنازہ تمام کے تمام ایک ابدی سوال سے جڑے ہوے ہیں: ’’جذباتیت کیا ہے؟‘‘ کثیر صوتی طریقہ، ایک ایسا ستون ہے جس پر ناول کا تمام ڈھانچا کھڑا ہے۔ یہی اس کی تعمیر کے راز کی کلید ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

’’بالخصوص ناولائی مضمون‘‘ کہہ کر آپ نے ’’خواب میں چلنے والے‘‘ میں سامنے آنے والی اقدارکی ناقدری کے مضمون پر معتد بہ تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

کنڈیرا:

یہ دہشت ناک مضمون ہے!

انٹرویو کنندہ:            

آپ کو اسے اس طرح ناول میں شامل کیے جانے پر شکوک ہیں۔ بروچ اپنی کسی سائنسفائی زبان کو یوں نہیں چھوڑتا، وہ اپنے خیالات کا اظہار اپنے کسی کردار کے عقب میں چھپے بغیر براہِ راست کرتا ہے… جس طرح مَن یا مُسل کریں گے۔ کیا یہ بروچ کا حقیقی  حِصّہ، اس کی مبارزت کی نئی دعوت نہیں؟

کنڈیرا:

یہ سچ ہے اور وہ اپنے حوصلے سے بخوبی آشنا تھا۔ لیکن اس میں بھی ایک خطرہ ہے: اس کے مضمون کو بطور ناول کی نظریاتی کلید کے طور پر پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے، بطور اس کی ’’سچائی‘‘ کے اور یہ چیز بقیہ ناول کو محض ایک خیال کی تشریح میں بدل سکتی ہے۔ تب ناول کا توازن بگڑ جاتا ہے، مضمون کی سچائی نہایت انکتا دینے والی ہو جاتی ہے اور ناول کا لطیف ڈھانچہ بکھر جانے کے خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ایسا ناول جس کا مطمعِٔ نظر کسی فلسفیانہ نظریے کی تفسیر نہیں ہوتا (بروچ اس قسم کے ناول سے متنفّر تھا!) حقیقتاً اس طور کے مطالعے کو ختم کر دیتا ہے جس طور کا مطالعہ ہونا چاہیے۔ کوئی مضمون کو ناول میں کس طرح شامل کرتا ہے؟ اس کے لیے ذہن میں ایک بنیادی حقیقت کو بِٹھا لینا چاہیے: اظہار کا حقیقی جوہر اسی لمحے تبدیل ہو جاتا ہے جس لمحے وہ ناول میں شامل ہوتا ہے۔ ناول سے باہر مصنّف دعوٰی جات کی راجدھانی میں ہوتا ہے، ہر ایک کے لیے فلسفی، سیاست دان، دربان— اپنے کہے کے بارے میں پُر یقین۔ تاہم، ناول ایک ایسی سرزمین ہے جہاں کوئی دعوے نہیں کرتا، یہ کھیل اور مفروضات کی سرزمین ہے۔ ناول میں اظہاریہ اپنے حقیقی جوہر میں مفروضاتی ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

لیکن ایک ناول نگار کیوں چاہے گا کہ وہ اپنے ناول میں اپنے فلسفے کو کھلم کھلا اور پُر زور طور پر بیان کرنے سے اپنے آپ کو محروم کر لے؟

کنڈیرا:

کیوں کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ لوگ اکثر چیخوف یا کافکا یا مُسل کے فلسفے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ لیکن وہ ان کی تحریروں میں محض مربوط فلسفہ تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں! حتّٰی کہ جب وہ اپنی نوٹ بُکوں میں ان کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، وہ خیالات جو ذہنی مشقت کا نتیجہ ہوتے ہیں، تو وہ فلسفے پر زور دینے کی بجائے متضاد اقوال سے کھیل یا فی البدیہہ گھڑ رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ فلاسفر جو ناول لکھتے ہیں جعلی ناول نگاروں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جو ناول کی ہیئت کو اپنے خیالات بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ والٹئیر یا کیمس دونوں ہی کبھی دریافت نہیں کر پائے ’’کہ ناول اکیلا ہی دریافت کر سکتا ہے۔‘‘ میں صرف ایک استثنا سے آشنا ہوں اور وہ ہے ڈِڈیروٹ (Diderot) کا جیکؤس لی فیٹالسٹے (Jacques le fataliste)۔ کیا معجزہ ہے! ناول کی سرحدیں پار کرتے ہوے سنجیدہ فلسفی ایک زندہ دِل مفکر بن گیا۔ ناول میں ایک بھی سنجیدہ فقرہ نہیں ہے— اس میں ہر چیز ایک کھیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس میں اس ناول کے معیار کو ظالمانہ اور شرمناک حد تک گھٹا کر پیش کیا گیا۔ بِلا شبہ، لی فیٹالِسٹے (le fataliste) میں وہ سب کچھ ہے جسے فرانس کھو چکا ہے اور دوبارہ دریافت کرنے سے منکر ہے۔ فرانس میں کام سے زیادہ آئیڈیاز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جیکس لی فیٹالِسٹے کو آئیڈیاز کی زبان میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا اور اسی لیے اسے سرزمینِ آئیڈیاز میں سمجھا بھی نہیں جا سکتا۔

انٹرویو کنندہ:            

’’مذاق‘‘ (Joke) میں جاروسلاف ہے جو موسیقائی نظریے کو نشو و نما دیتا ہے۔ اس طرح اس کی سو چ کا مفروضاتی کردار ظاہر ہے۔ لیکن ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں مصنّف یعنی آپ کا اپنی موسیقائی استغراق ہے۔ پھر میںانھیں کس طرح سمجھوں کہ وہ مفروضاتی ہیں یا پُرزور بیانیے؟

کنڈیرا:

اس سب کا انحصار اسلوب پر ہے۔ ابتدائی الفاظ ہی سے میرا ارادہ ان میں پُرمزاح، استہزا، اشتعال انگیزی، تجرباتی عکاسی یا استفہامیہ اسلوب ہے۔ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ (’’عظیم جلوس‘‘)کے تمام چھے کے چھے حِصّے جذباتیت کے مضمون پر ہیں جو ایک مرکزی نظریہ پیش کرتے ہیں: جذباتیت غلاظت کے وجود کا مطلق انکار ہے۔جذباتیت پر میرا یہ استغراق میرے لیے نہایت اہمیّت کا حامل ہے۔ اس کی بنیاد بے حد سوچ بچار، تجربے، مطالعے اور حتّٰی کہ جذبے پر ہے۔ تاہم لہجہ کہیں بھی سنجیدہ نہیں بلکہ ترغیبی ہے۔ ناول سے باہر موضوع پر سوچا بھی نہیں جا سکتا؛ یہی حقیقی ناولائی استغراق ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

آپ کے ناولوں کی کثیر صوتی میں ایک اَور عنصر بھی شامل ہے، بیانیۂ خواب۔ یہ ’’زندگی کہیں اَور ہے‘‘ کے سارے کے سارے دُوسرے حِصّے پر چھایا ہؤا ہے، یہ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کے چھٹے حِصّے کی بنیاد ہے اور یہ تیرازا کے خوابوں کے ذریعے ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ میں بھی رواں ہے۔

کنڈیرا:

عبارت کے یہ ٹکڑے غلط مفہوم نکالنے کے لیے نہایت آسان ہدف ہیں، کیوں کہ لوگ ان میں کسی علامتی پیغام کی تمنّائی ہیں۔ تیرازا کے خوابوں میں تلاش کرنے کے لیے کوئی رمز نہیں ہے۔ وہ موت کے بارے میں نظمیں ہیں۔ ان کا مفہوم ان کے حسن میں مرموز ہے، جو تیرازا کو مسمریزم کر دیتا ہے۔ خیر، کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ لوگ سیدھے سادے انداز میں کافکا کو پڑھنا نہیں جانتے کیوں کہ وہ اس کی رمزیت آشکار کرنا چاہتے ہیں؟ وہ اپنے آپ کو خیال کے ساتھ بہے جانے کی بجائے مثالیے تلاشتے ہیں اور ان کے ہاتھ کلیشوں کے سوا کچھ نہیں آتا: زندگی لغو ہے (یا پھر نہیں ہے)، خُدا رسائی سے باہر ہے (یا پھر رسائی میں ہے) وغیرہم۔ آپ فن کے متعلّق کچھ نہیں سمجھ پاتے، بالخصوص جدید فن کے بارے میں، اگر آپ یہ نہیں سمجھتے کہ تصور بذاتِ خُود اہم ہے۔ نووالِس یہ جانتا تھا جب اس نے خوابوں کی تعریف کی۔ وہ ’’ہمیں زندگی کی یکسانیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا تھا، وہ ’’ہمیں اپنے کھلنڈرے پن کی مسرت سے تشاویش سے آزادی دیتے ہیں۔‘‘ وہ پہلا شخص تھا جو خوابوں اور خواب نما تصور کے ناول میں کردار کو سمجھ پایا تھا۔ اس نے اپنے ہَینرچ وان آفٹرڈنجن (Heinrich von Ofterdingen) کا دوسرا حِصّہ ایسے بیانیے میں لکھنے کا ارادہ کیا جس میں خواب اور حقیقت ایک دُوسرے میں اس قدر انلجھی ہوں کہ ایک دُوسرے سے جُدا ہو کر بیان کے قابل نہ رہے۔ بدقسمتی سے اس دُوسرے حِصّے کی بس وہی یادداشتیں دستیاب ہیں جن میں نووالِس اپنے جمالیاتی ذوق کے ارادے کو بیان کرتا ہے۔ ایک صدی بعد، اس کی تمنّا کافکا نے پُوری کی۔ کافکا کے ناول خواب اور حقیقت کا ادغام ہیں؛ یعنی وہ خواب ہیں نہ حقیقت۔ کسی بھی شے سے زیادہ کافکا ایک جمالیاتی انقلاب ، ایک جمالیاتی معجزے کا باعث بنا۔ بِلا شبہ، کوئی بھی اپنے کیے کو دُھرا نہیں سکتا۔ لیکن میں ناول میں خوابوں اور خوابوں کے تصور کو لانے کے لیے اس کے اور نووالِس کے ساتھ شریک ہوتا ہوں ۔ میرا یہ کرنے کا طریق خواب اور حقیقت کو مدغم کرنے کی بجائے کثیر صوتی تصادم کی صورت میں ہے۔ بیانیۂ خواب رِدھم کے عناصر میں سے ایک ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کے آخری حِصّے میں ذرا کثیر صوتی نہیں ہے اور پھر بھی غالباً وہ کتاب کا سب سے دِلچسپ حِصّہ ہے۔ یہ چودہ ابواب پر مشتمل ہے جو ایک شخص— جان— کے شہوانی حالات بیان کرتا ہے۔

کنڈیرا:

ایک اَور موسیقائی اصطلاح: یہ بیانیہ ’’انتار چڑھاؤ کے ساتھ مرکزی خیال‘‘ ہے۔ مرکزی خیال ان چیزوں کے درمیان سرحد ہے جو اپنا مفہوم کھو بیٹھتی ہیں۔ ہماری زندگی اس سرحد کے نہایت قرب وجوار میں اپنی تہیں کھولتی ہے، اور ہم کسی بھی لمحے اس سرحد کو پار کرنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ چودہ ابواب ایک ہی شہوانی صورتِ حال کے تفہیم اور عدم تفہیم کی سرحد پر چودہ انتار چڑھاؤ ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ کو ’’انتار چڑھاؤ والا ناول‘‘ قرار دیا ہے۔ کیا یہ اب بھی ناول ہے؟

کنڈیرا:

اس میں عمل کی وحدت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ناول نہیں لگتا۔ لوگ اس وحدت کے بغیر ناول کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حتّٰی کہ نووو رومن (nouveau roman) کی بنیاد بھی وحدتِ عمل (یاغیر عملیت) پر ہوتی تھی۔ سٹرن (Sterne)اورڈِڈیروٹ نے انتہائی کمزور وحدت سے مسرت حاصل کی۔ جیکس اور اس کے آقا کا سفر میں جیکس لی فیٹالِسٹ کا حِصّہ کم ہے، جو مزاحیہ حیلہ سازی زیادہ کچھ نہیں جس میں حکایات، کہانیوں اور خیالات کو جڑا گیا ہے۔ باایں ہمہ، یہ حیلہ سازی، یہ ’’چوکھٹا‘‘ ناول کو ناول بنانے کے لیے ضروری ہے۔ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں ایسی کوئی حیلہ سازی نہیں ہے۔ یہ موضوعات کی وحدت اور ان کا انتار چڑھاؤ ہی ہے جو کُل میں ربط بخشتا ہے۔ کیا یہ ناول ہے؟ ہاں۔ ایک ناول بود پر غور وخوض ہوتا ہے جسے تصوراتی کرداروں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہیئت لامحدود طور پر آزاد ہے۔ اپنی تاریخ میں ناول اپنے لامختتم امکانات سے فائدہ انٹھاتا نظر نہیں آتا۔ اس نے یہ موقع کھویا ہی ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

لیکن ماسوائے ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘  آپ کے ناولوں کی بنیاد بھی وحدتِ عمل ہے، اگرچہ بِلا شبہ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ میں اس کا بے حد ڈھیلا تنوع ہے۔

کنڈیرا:

ہاں، لیکن وحدت کے دیگر اہم درجےانھیں مکمل بناتے ہے: یکساں مابعد الطبیعاتی سوالوں، یکساں مرکزی خیال اور پھر انتار چڑھاؤ کی وحدت (مثلاً ’’الوداعی دعوت‘‘ میں پدریت کا مرکزی خیال)۔ لیکن میں ان سب سے زیادہ اس پر زور دوں گا کہ ناول متعدّد بنیادی الفاظ پر تعمیر ہوتا ہے، جیسے سکوئن برگ کے نوٹس کی سیریز۔ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں درج ذیل سیریز ہے: نسیان، قہقہے، فرشتے، ’’litost‘‘، سرحد۔ ناول میں ان پانچ کلیدی الفاظ: مطالعہ، تعریف، مکرر تعریف اور پھر اس طور پر وجودیت کے درجات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح ان پانچ درجات پر تعمیر ہوتا ہے جیسے ایک مکان ستونوں پر۔ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ کے ستون ہیں: بوجھل پن، لطافت، رُوح، بدن، درجہ بہ درجہ کردار، ان الفاظ کی جگہ مترادفات نہیں لے سکتے۔ اس کی مترجمین کو بار بار وضاحت کی جاتی ہے، جو— اپنے ’’اچھے اسلوب‘‘ کی خاطر— تکرار سے بچنے کی سعی کرتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:            

بُنت کی وضاحت کے لیے، میں یہ دیکھ کر نہایت حیرت زدہ ہؤا کہ آپ کے ایک ناول کے علاوہ باقی تمام سات سات حِصّوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔

کنڈیرا:

جب میں نے اپنا پہلا ناول ’’مذاق‘‘ ختم کیا تو حیرت کی کوئی بات نہیں تھی کہ اس کے سات حِصّے تھے۔ پھر میں نے ’’زندگی کہیں اَور ہے‘‘ تحریر کیا۔ ناول قریب قریب مکمل ہو گیا اور اس کے چھے حِصّے تھے۔ میں مطمئن نہیں تھا۔ اچانک مجھے ایک کہانی شامل کرنے کا خیال آیا جو ہیرو کی موت کے تین سال بعد ظہور پذیر ہوتی ہے— بہ الفاظِ دیگر ناول کے دورانیے سے باہر۔ اب یہ سات حِصّوں میں سے چھٹا بن گیا، جس کا عنوان تھا ’’وسطی عمر کا شخص۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ناول کی عمارت مکمل ہو گئی۔ بعد میں، مجھے محسوس ہؤا کہ یہ چھٹا حِصّہ ’’مذاق‘‘ کے چھٹے حِصّے (’’کوستکا‘‘)سے عجیب طور پر مماثل ہے، جو ایک بیرونی کردار کا تعارف کرواتا اور ناول کی دِیوار میں ایک خفیہ کھڑکی بھی وَا کرتا ہے۔ ’’پُرمزاح محبتیں‘‘ آغاز میں دس کہانیاں تھیں۔ جن کا حتمی مجموعہ تشکیل دیتے ہوے میں نے تین نکال دیں۔ یُوں یہ مجموعہ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘  سے بہت زیادہ قریب اور اس کانقیب بن گیا۔ ایک کردار، ڈاکٹر ہَیوَل، چوتھی اور چھٹی کہانی آپس میں باندھتا ہے۔ ’’قہقہوں اور نسیان کی کتاب‘‘ میں بھی چوتھا اور چھٹا حِصّہ ایک شخص نے جوڑے ہوے ہیں: تامینہ۔ جب میں نے  ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ تحریر کیا تو میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں سات کی تعداد توڑ ڈالوں گا۔ میں نے بہت پہلے چھے حِصّوں کا خاکہ تعین کر لیا تھا۔ لیکن پہلا حِصّہ مجھے اپنی بے شکلی سے حیران کرتا ہے۔ حتماً میں سمجھ گیا کہ درحقیقت یہ دو حِصّوں سے بنا ہؤا ہے۔ آپس میں جڑے ہوے دو جڑواں نومولود بچّوں کی طرحانھیں نفیس جرّاحی کے ذریعے الگ کیا جانا تھا۔ میں اس سب کی وجہ یہ بیان کرتا ہوں کہ میں طلسماتی اعداد کی کسی توّہم پرستی کا شکار ہوں نہ میں نے ان کی کوئی دانستہ منطقی تعداد مقرر کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ میں ایک گہری، لاشعوری، ناقابلِ تفہیم ضرورت اور ایک رسمی معروف نوع میں بہتا چلا گیا جس سے مفر میرے لیے ناممکن تھا۔ میرے تمام ناول تعمیر کا تنوع ہیں جن کی بنیاد سات کا عدد ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

صاف طور پر سات کے حِصّوں میں تقسیم کے استعمال نے یقینا قریب ترین ایک ہی نوع کے عناصر کو ایک کُل میں ڈھالنے کا عمل آپ کے مقصد سے جڑا ہؤا ہے۔ آپ کے ناولوں کا ہر حِصّہ اپنے اندر اپنی ایک دُنیا سمائے ہوئے ہے اور اپنی خاص ہیئت کی بِنا پر دُوسروں سے مختلف ہے۔ لیکن اگر ناول کو سات حِصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے تو ان حِصّوں کو اعداد لگا کر ابواب میں کیوں تقسیم کیا جاتا ہے؟

کنڈیرا:

ابواب کو بھی اپنی ایک چھوٹی سی دُنیا تخلیق کرنا چاہیے؛ ان کی نسبتاً جُدا گانہ حیثیت بھی ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے پبلشروں کے ناک میں دم کیے رکھتا ہوں کہ وہ اعداد کو نمایاں کرنے کو یقینی بنائیں اور یہ کہ ابواب بھی بخوبی الگ کیے گئے ہیں۔ ابواب موسیقی کے ماتروں کی ماند ہیں! ایسے حِصّے بھی ہیں جہاں ماترے (ابواب) طویل ہیں، کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بے قاعدہ طوالت کے حامل۔ ہر حِصّے میں ردھم کے رحجان کی نشانیاں ہو سکتی ہیں:معتدل، ہاؤ ہو، دِھیما پن وغیرہم۔ ’’زندگی کہیں اَور ہے‘‘ کا چھٹا حِصّہ دِھیما پن لیے ہوے ہے: دِھیمے اور مالیخولیائی انداز میں۔ یہ ہمیں ایک وسطی عمر کے مرد اور ایک ایسی نوجوان لڑکی کے مابین ملاقات کے بارے میں بتاتا ہے جو حال ہی میں جیل سے رہا ہوئی ہوتی ہے۔ آخری حِصّہ انتہائی تیز رفتار ہے؛ یہ نہایت مختصر ابواب میں لکھا گیا ہے اور جیرومِل سے ختم ہوتی ہیئت میں رِم بوڈ، لیرمونٹوف اور پشکن تک   چھلانگ لگا تا ہے۔ پہلے میں نے سوچا کہ ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ موسیقائی طرز میں ہے۔ مجھے علم ہے کہ آخری حِصّے کو لطیف اور دِھیما ہونا چاہیے تھا: لیکن یہ اختصار، ناشُدنی واقعات کے دورانیے، ایک ہی مقام پر مرتکز ہے اور اس کا انداز ساکت ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس حِصّے کو ہاؤ ہو سے پہلے ہونا چاہیے تھا: وہ حِصّہ جس کا عنوان ’’عظیم جلوس ‘‘ ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

سات کے ہندسے کے انصول سے استثنا بھی ہے۔ ’’الواداعی دعوت‘‘ کے صرف پانچ حِصّے ہیں۔

کنڈیرا:

’’الوداعی دعوت‘‘ ایک اَور طرح کی رسمی معروف نوع میں ہے: یہ مطلقاً متجانس ہے؛ ایک ہی موضوع پر ہے، ایک ہی لَے میں بیان ہؤا ہے، بہت زیادہ ڈرامائی اور انشاء پرداز ہے۔ یہ اپنی شکل ایک مضحکہ خیز صُورتِ حال سے تشکیل دیتا ہے۔ ’’پُرمزاح محبتیں‘‘ میں کہانی ’’محفل‘‘ (Symposium) بھی بالکل اسی طرز پر لکھی گئی ہے— پانچ ایکٹوں کی ایک مضحکہ خیز صُورتِ حال۔

انٹرویو کنندہ:            

مضحکہ خیز گفتگو سے آپ کی کیا مراد ہے؟

کنڈیرا:

میرا مطلب ہے کہ پلاٹ پر اور اس کے تمام تر لوازمات کے غیر متوقع اور ناقابلِ یقین اتفاقات پر زور۔ ناول میں پلاٹ اور اس کے مبالغہ آمیز ڈھونگ سے زیادہ کوئی شے بھی مشکوک، مضحکہ خیز، پرانے رواج والی، فرسودہ اور بے مزہ نہیں ہوئی۔ فلابرٹ سے لے کر آج تک ناول نگاروں نے پلاٹ میں ہنرمندی کو ختم کرنے کی سعی کی ہے۔ اور اس سے ناول بے کیف ترین زندگیوں سے زیادہ بے لطف ہو گیا ہے۔ لیکن ناول کے پلاٹ سے مشکوکی اور گھسے پٹے پہلو سے گریز کا ایک راستہ ہے اور وہ ہے اس کی مشابہی تقاضوں سے آزادی۔ آپ ایک قطعی بعید از قیاس کہانی سناتے ہیں تو وہ بعید از قیاس انداز ہی میں منتخب ہوتی ہے! بالکل اسی طرح کافکا نے امریکا (Amerika) کو سوچا۔ کافکا پہلی بار اپنی ’’سر۔رئیل‘‘ (sur-real) کائنات میں، اپنے پہلے ’’خواب اور حقیقت کے ادغام‘‘ میں پلاٹ کی مضحکہ خیز نقل کے ساتھ مضحکہ خیزی کے دروازے سے داخل ہو گیا۔

انٹرویو کنندہ:            

لیکن آپ نے مضحکہ خیز صورتِ حال کو اس ناول کے لیے کیوں منتخب کیا جو تفریحِ طبع کے لیے نہیں ہے؟

کنڈیرا:

لیکن وہ تفریح ہے! مجھے فرانسیسیوں کا تفریح کو حقارت کی نظر سے دیکھنا سمجھ نہیں آتا، وہ ’’تفریح‘‘ کے لفظ سے اِتنے شرمندہ کیوں ہیں۔ وہ تفریح کے لیے بیزار ہونے کی نسبت کم خطرہ مول لیتے ہیں۔ اور وہ جذباتیت کی خاطر خطرہ مول لینے کو کیوں دوڑتے ہیں، وہ جذباتیت جو میٹھی، زیب و زینت سے آراستہ، گلابی رنگ کی روشنی جو ایلؤارڈ کی شاعری جیسے جدید کام یا ایٹورے سکولا کی تازہ ترین فلم لے بال (Le Bal) ، جس کا ضمنی عنوان ’’فرانسیسی تاریخ کی جذباتیت‘‘ ہو سکتا ہے، کو غسل دیتی ہے۔ جی، تفریح نہیں جذباتیت ایک حقیقی جمالیاتی مرض ہے! عظیم یورپی ناول کا آغاز بطور تفریح ہؤا، اور ہر سچا ناول نگار اس کی ہڑک رکھتا ہے۔ درحقیقت، ان عظیم تفریحوں کے موضوع خوف ناک حد تک سنجیدہ ہیں— سروانٹس (Cervantes) کے بارے میں سوچیے! ’’الوداعی دعوت‘‘ میں یہ سوال ہے کہ کیا انسان زمین پر رہنے کے قابل ہے؟ کیا کسی کو ’’اس سیارے کو انسان کے شکنجے سے آزاد نہیں کروانا چاہیے‘‘؟ عمر بھر میری تمنّا رہی ہے کہ انتہائی تشویشناک سوال کو انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں مدغم کر دوں۔ کیا یہ خالصتاً ایک فن کارانہ تمنّا نہیں ہے؟ معمولی ہیئت اور سنجیدہ موضوع کی جڑت فوراً ہی ہمارے ڈراموں کی حقیقت (ان تمام ڈراموں کی جو ہمارے بستر پر وقوع پذیر ہوتے ہیں اور جو ہم تاریخ کے عظیم سٹیج پر کھیلتے ہیں) اور ان کی نہایت غیراہمیّتی کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ ہمیں بود کی ناقابلِ برداشت لطافت کا تجربہ ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

تو آپ نے اس لیے اپنے تازہ ترین ناول کا عنوان ’’الوداعی دعوت‘‘ رکھا ہے؟

کنڈیرا:

میرے ہر ناول کو ’’بود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ یا ’’مذاق‘‘ یا ’’پُرمزاح محبتیں‘‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے، عنوانات ادل بدل پذیر ہیں۔ ان میں بہت کم ایسی چیزیں ہیں جو میرے لیے باعثِ اندیشہ ہوں، میری تعریف کرتی ہوں اور بدقسمتی سے مجھ پر قدغن لگاتی ہوں۔ ان چیزوں کے علاوہ میرے پاس کہنے یا لکھنے کو کچھ نہیں ہے۔

انٹرویو کنندہ:            

اس طرح آپ کے ناول میں دو رسمی معروف قسمیں ہیں: (۱) کثیر صوتی، جو سات کے عدد کی بنیاد پر مختلف النوع عناصر کو ایک عمارت میں یکجا کرتی ہے؛ (۲) مضحکہ خیز صُورتِ حال، جو متجانس، ڈرامائی اور بعید از قیاس کے مضافات میں ہے۔ کیا کنڈیرا ان دونوں معروف اقسام سے باہر بھی کہیں ہے؟ 

کنڈیرا:   

میں نے ہمیشہ کسی انتہائی غیر متوقع بغاوت کا خواب دیکھا ہے۔ لیکن میں اب تک اپنی اس دہری ریاست سے باہر نہیں نکل پایا۔

:::

 

]انگریزی متن بشکریہ ’’دی پیرس ریویو‘‘ [(The Paris Review)

Authors

  • میلان کنڈیراجمہوریہ چَیک کے نہایت معروف ادیب ہیں جو ۱۹۷۵ء سے فرانس میں ہجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انھیں ۱۹۸۱ء میں فرانس کی باقاعدہ شہریت مل چکی ہے۔ وہ اپنے آپ کو فرانسیسی مصنّف سمجھتا ہیں اور اصرار کرتا ہیں کہ ان کے کام کو فرانسیسی ادب کے طور پر پڑھا جائے اور ان کی کتب کو کتب خانوں میں فرانسیسی ادب کے لیے مخصوص خانوں میں رکھا جائے۔ وہ تنہائی پسند ہیں اور شاذ ہی میڈیا سے بات چیت کرتے ہیں۔ میلان کنڈیرا یکم اپریل ۱۹۲۹ء کو چیکوسلواکیہ کے شہر برنو، ۶۔ پُرکی نوفا یُولِس سٹریٹ ، میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ میلان نے پیانو نوازی کی تربیت اپنے والد لُدوِک کنڈیرا سے حاصل کی، جو ایک موسیقار اور پیانو نواز تھے۔ موسیقائی اثرات اور حوالہ جات ان کی تمام تخلیقات میں موجود ہیں۔ انھوں نے پراگ کی چارلس یونیورسٹی کے شعبہ آرٹس سے ادب اور جمالیات کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۵۰ء میں ان کی تعلیم کا سلسلہ سیاسی وجوہات کی بِناء پر منقطع ہو گیا۔ لیکن جلد ہی یہ سلسلہ بحال ہونے پر انھوں نے ۱۹۵۲ء میں گریجوایٹ کر لیا تو فلم فیکلٹی نے ان کی بطور لیکچرار برائے عالمی ادب تعیناتی کر دی۔ دیگر مصلح کمیونسٹ ادباء کے، مثلاً پاول کوہاؤٹ، ہمراہ کنڈیرا بھی ۱۹۶۸ء کی ’’پراگ سپرنگ‘‘ میں ملوث تھے۔ وہ قائل تھے : ’’ہر ایک کو شانت رہنا چاہیے۔‘‘ اور ’’کسی کو اس کی رائے پر پابندِ سلاسل نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ اور ’’خزاںِ پراگ‘‘ کی اہمیت ’’بہارِ پراگ‘‘ سے کہیں زیادہ ممکن ہے۔‘‘ بالآخر کنڈیرا نے اپنے اصلاحی خوابوں کو ترک کیا اور ۱۹۷۵ء میں فرانس چلا گئے۔ وہ چند برسوں تک یونیورسٹی آف رَینَیس میں معلم رہے۔ ۱۹۷۹ء میں ان کی چیکو سلواکیہ کی شہریت ختم کر دی گئی۔ تا ہم ان کے اب تک اپنے وطن چَیک اور سلوواک کے لکھاریوں سے روابط ہیں لیکن وہ وہاں شاذ و نادر ہی جاتے ہیں۔ چیکو سلواکیہ کی کمیونسٹ حکومتوں کے دوران کنڈیرا کی کتب پر ۱۹۸۹ء تک پابندی لگی رہی۔ تاہم وہ ’’نوبیل انعام برائے ادب‘‘ کے مستقل مبارز ہیں اور اس انعام کے لیے ان کی متعدّد بار نامزدگی ہو چکی ہے۔ کنڈیرا کی بہترین تصنیف ’’ہستی(بود) کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ ہے۔ کنڈیرا کے ناول نظریاتی تقسیم سے دُور ہیں۔ کنڈیرا نے بارہا اصرار کیا ہے کہ انھیں ایک سیاسی یا مزاحمتی لکھاری کی بجائے صرف ایک ناول نگار سمجھا جائے۔ کنڈیرا کا اسلوب، فلسفیانہ اثرات کے تجاوز کے ساتھ، رابرٹ مُسل کے ناولوں اور نطشے کے فلسفے سے متأثر ہے۔ وہ نہ صرف نشاطِ ثانیہ کے مصنفین بلکہ شاید نہایت اہم طور پر میگویل ڈی سروانٹس سے تحرک حاصل کرتے ہیں۔ کنڈیرا نے لکھنے کا آغاز چَیک زبان سے کیا لیکن ۱۹۹۳ء سے وہ فرانسیسی میں ناول لکھ رہے ہیں۔ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۷ء کے دوران انھوں نے اپنے ابتدائی کام کے فرانسیسی ترجمے کی نظر ثانی کی۔ اس طرح فرانسیسی میں ان کی تمام کتب حقیقی حیثیت اختیار کر گئیں۔ ان کی کتب کا متعدّد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ کنڈیرا نے ادب و سخن کی ہر صنف میں لکھا ہے۔ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

4 thoughts on “میلان کنڈیرا”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Authors

  • میلان کنڈیراجمہوریہ چَیک کے نہایت معروف ادیب ہیں جو ۱۹۷۵ء سے فرانس میں ہجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انھیں ۱۹۸۱ء میں فرانس کی باقاعدہ شہریت مل چکی ہے۔ وہ اپنے آپ کو فرانسیسی مصنّف سمجھتا ہیں اور اصرار کرتا ہیں کہ ان کے کام کو فرانسیسی ادب کے طور پر پڑھا جائے اور ان کی کتب کو کتب خانوں میں فرانسیسی ادب کے لیے مخصوص خانوں میں رکھا جائے۔ وہ تنہائی پسند ہیں اور شاذ ہی میڈیا سے بات چیت کرتے ہیں۔ میلان کنڈیرا یکم اپریل ۱۹۲۹ء کو چیکوسلواکیہ کے شہر برنو، ۶۔ پُرکی نوفا یُولِس سٹریٹ ، میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ میلان نے پیانو نوازی کی تربیت اپنے والد لُدوِک کنڈیرا سے حاصل کی، جو ایک موسیقار اور پیانو نواز تھے۔ موسیقائی اثرات اور حوالہ جات ان کی تمام تخلیقات میں موجود ہیں۔ انھوں نے پراگ کی چارلس یونیورسٹی کے شعبہ آرٹس سے ادب اور جمالیات کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۵۰ء میں ان کی تعلیم کا سلسلہ سیاسی وجوہات کی بِناء پر منقطع ہو گیا۔ لیکن جلد ہی یہ سلسلہ بحال ہونے پر انھوں نے ۱۹۵۲ء میں گریجوایٹ کر لیا تو فلم فیکلٹی نے ان کی بطور لیکچرار برائے عالمی ادب تعیناتی کر دی۔ دیگر مصلح کمیونسٹ ادباء کے، مثلاً پاول کوہاؤٹ، ہمراہ کنڈیرا بھی ۱۹۶۸ء کی ’’پراگ سپرنگ‘‘ میں ملوث تھے۔ وہ قائل تھے : ’’ہر ایک کو شانت رہنا چاہیے۔‘‘ اور ’’کسی کو اس کی رائے پر پابندِ سلاسل نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ اور ’’خزاںِ پراگ‘‘ کی اہمیت ’’بہارِ پراگ‘‘ سے کہیں زیادہ ممکن ہے۔‘‘ بالآخر کنڈیرا نے اپنے اصلاحی خوابوں کو ترک کیا اور ۱۹۷۵ء میں فرانس چلا گئے۔ وہ چند برسوں تک یونیورسٹی آف رَینَیس میں معلم رہے۔ ۱۹۷۹ء میں ان کی چیکو سلواکیہ کی شہریت ختم کر دی گئی۔ تا ہم ان کے اب تک اپنے وطن چَیک اور سلوواک کے لکھاریوں سے روابط ہیں لیکن وہ وہاں شاذ و نادر ہی جاتے ہیں۔ چیکو سلواکیہ کی کمیونسٹ حکومتوں کے دوران کنڈیرا کی کتب پر ۱۹۸۹ء تک پابندی لگی رہی۔ تاہم وہ ’’نوبیل انعام برائے ادب‘‘ کے مستقل مبارز ہیں اور اس انعام کے لیے ان کی متعدّد بار نامزدگی ہو چکی ہے۔ کنڈیرا کی بہترین تصنیف ’’ہستی(بود) کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ ہے۔ کنڈیرا کے ناول نظریاتی تقسیم سے دُور ہیں۔ کنڈیرا نے بارہا اصرار کیا ہے کہ انھیں ایک سیاسی یا مزاحمتی لکھاری کی بجائے صرف ایک ناول نگار سمجھا جائے۔ کنڈیرا کا اسلوب، فلسفیانہ اثرات کے تجاوز کے ساتھ، رابرٹ مُسل کے ناولوں اور نطشے کے فلسفے سے متأثر ہے۔ وہ نہ صرف نشاطِ ثانیہ کے مصنفین بلکہ شاید نہایت اہم طور پر میگویل ڈی سروانٹس سے تحرک حاصل کرتے ہیں۔ کنڈیرا نے لکھنے کا آغاز چَیک زبان سے کیا لیکن ۱۹۹۳ء سے وہ فرانسیسی میں ناول لکھ رہے ہیں۔ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۷ء کے دوران انھوں نے اپنے ابتدائی کام کے فرانسیسی ترجمے کی نظر ثانی کی۔ اس طرح فرانسیسی میں ان کی تمام کتب حقیقی حیثیت اختیار کر گئیں۔ ان کی کتب کا متعدّد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ کنڈیرا نے ادب و سخن کی ہر صنف میں لکھا ہے۔ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts