تراجم عالمی ادب

انٹرویو

شہرت یافتہ

ہاروکی مورا کامی

(Haruki Murakami)

انٹرویوکنندہ: جان رے

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

میں نے جن تمام لوگوں کا ترجمہ کیا ہے انھوں نے وہ کتابیں لکھی ہیں جن سے… — ہاروکی مورا کامی ۔ ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: ہاروکی مورا کامی

)دوسرا اور آخری حصہ(

انٹرویو کنندہ:

اس تناظر میں Norwegian Wood کا کردار ریکو (Reiko) دِلچسپ ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس (لڑکی) کو کس خانے میں رکھوں۔ اس کے قدم دونوں دنیاؤں میں دِکھائی دیتے ہیں۔

مورا کامی:

وہ آدھی پاگل ہے، دماغی طور پر آدھی جنونی۔ یونانی کہاوت کے مطابق: اگر آپ اسے ایک رخ سے لیں تو وہ ایک المیائی کردار ہے اور اگر آپ اسے دوسرے رُخ سے لیں تو وہ مزاحیہ کردار ہے۔ وہ نہایت علامتی ہے۔ مجھے یہ کردار بہت پسند ہے۔ میں اسے لکھ کر نہایت مسرور ہوا تھا، رِیکو سان (Reiko-San

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ کو اپنے مزاحیہ کرداروں سے زیادہ چاہت محسوس ہوتی ہے جیسے کہ ناؤکوس (Naokos) کی بجائے مِیڈوری اور مے کاساہاراس (May Kasaharas

مورا کامی:        

میں طربیہ مکالمے لکھنا پسند کرتا ہوں۔ اس سے حظ ملتا ہے۔ لیکن اگر میرے سارے ہی کردارمزاحیہ ہو جائیں تو وہ بیزاری کا سبب بنیں گے۔ وہ طربیہ کردار میرے ذہن کو ایک طرح سے استحکام بخشنے کا باعث بنتے ہیں؛ حسِ مزاح بہت مستحکم شے ہے۔ بذلہ سنج ہونے کے لیے آپ کا ٹھنڈے مزاج کا ہونا چاہیے۔ جب آپ سنجیدہ ہوتے ہیں تو آپ غیر مستحکم ہو سکتے ہیں؛ سنجیدگی کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ لیکن جب آپ بذلہ سنج ہوں تو آپ مستحکم ہوتے ہیں۔ لیکن آپ مُسکراتے ہوئے تو جنگ نہیں لڑ سکتے۔

انٹرویو کنندہ:

چند ناولوں میں اَوہام کو نہایت دِلچسپ انداز میں لکھا اور بار بار لکھا گیا ہے۔ Hard-Boiled Wonderland، Dance Dance Dance، The Wind-Up Chronicles اور Sputnick Sweetheart ایک ہی موضوع پر تبدل(variation) کے ساتھ قرأت تقریباً تقاضا کرتے ہیں: ایک شخص کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، یا وہ کسی طرح گُم ہو گیا ہے، اس کی تمنّا کا مقصد اور اس کی متوازی دنیا میں بھی اسے (لڑکی کو)  نہ بُھول سکنے کی کمزوری جو اسے دوبارہ پانے کا امکان ظاہر کرتی ہے جسے وہ کھو چکا ہے، ایک ایسا امکان جس کے بارے میں وہ (اور قاری بھی) جانتا ہے کہ زندگی اسے دوبارہ نہیں دے گی۔ کیا آپ اس کردار نگاری سے متفق ہیں؟

مورا کامی:

ہاں۔

انٹرویو کنندہ:

یہ اَوہام آپ کے افسانے کا مرکز کیوں ہے؟

مورا کامی:

مجھے نہیں معلوم میں یہ چیزیں کیوں لکھتا رہتا ہوں۔ جان اِروِنگ (John Irving) کی نگارشات میں، اس کی ہر نگارش میں، مجھے کوئی نہ کوئی ایسا شخص ملتا ہے جس کے جسم کا کوئی حصّہ ضائع ہوتا ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ کیوں ان ضائع حصّوں کے بارے میں لکھتا رہتا ہے۔ غالباً وہ خود بھی یہ نہ جانتا ہو۔ میرے بھی یہی معاملہ ہے۔ میرے مرکزی کردار کی بھی ہمیشہ کوئی نہ کوئی شے کھو جاتی ہے اور وہ اس گُم شدہ چیز کی تلاش میں ہوتا ہے۔ یہ ہولی گریل (Holy Grail) یا فلپ مارلو (Philip Marlowe) ہی کی طرح کا معاملہ ہے۔

انٹرویو کنندہ:

جب تک کوئی شے گُم نہ ہو آپ سراغ رسانی نہیں کر سکتے؟

مورا کامی:

درست۔ جب میرے مرکزی کردار کی کوئی چیز گُم ہوتی ہے تو وہ اسے ڈھونڈنے لگتا ہے۔ وہ اوڈی سس (Odysseus) کی مانند ہوتا ہے۔ اپنی تلاش کے دوران اسے بہت سی عجیب و غریب چیزوں کا تجربہ ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

جاننے کے عمل کی سعی کے دوران؟

مورا کامی:

اسے اپنے تجربات کو زندہ رکھنا پڑتا ہے اور بالآخر وہ جس چیز کی تلاش میں ہوتا ہے اسے پا لیتا ہے۔ لیکن اسے یقین نہیں ہوتا کہ یہ وہی چیز ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہی میرے ناولوں کا تحرک ہے۔ وہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ وہ مجھے مناسب لگتی ہیں۔ وہ میری کہانیوں کی سرگرم طاقتیں ہیں: گُم شدگی، تلاش اور ملنا۔ اور مایوسی، دنیا کے بارے میں ایک نئی آگاہی۔

انٹرویو کنندہ:    

مایوسی بطور رسم مرور؟

مورا کامی:

یہ درست ہے۔ تجربہ بذاتِ خود معنی رکھتا ہے۔ مرکزی کردار اپنے تجربات کے دوران تبدیل ہو چکا ہوتا ہے  یہی اصل چیز ہے۔ یہ نہیں کہ اس نے کیا پایا بلکہ یہ کہ وہ کس قدر تبدیل ہوا۔

انٹرویو کنندہ:

میں آپ کی کتب کے تراجم کے عمل کے بارے میں جاننا چاہوں گا۔ خود بھی ایک مترجم کی حیثیت سے آپ درپیش خطرات سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ آپ نے اپنے مترجم کیسے منتخب کیے؟

مورا کامی:

میرے تین مترجم ہیں  الفریڈ بِرن بوم (Alfred Brinbaum)، فلپ گیبریل (Philip Gabriel)، جے رُوبِن (Jay Rubin)  اور اصول یہ ہے کہ ’’پہلے آئیے پہلے پائیے۔‘‘ ہم دوست ہیں، اس لیے وہ نہایت دیانت دار ہیں۔ وہ میری کتابیں پڑھتے ہیں اور ان میں سے ایک ان پر غور کرتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے! میں خود بھی یہی کرنا پسند کرتا ہوں۔ تو وہ کتاب لے لیتا ہے۔ بحیثیت ترجمہ نگار کے میں جانتا ہوں کہ اچھے ترجمے کے لیے پرجوش ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی اچھا مترجم ہے لیکن وہ کسی کتاب کو زیادہ پسند نہیں کرتا تو سمجھو کہانی ختم۔ ترجمہ نگاری نہایت محنت طلب کام ہے اور یہ وقت لیتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا مترجمین کتابوں پر جھگڑتے نہیں؟

مورا کامی:

نہیں، بالکل نہیں۔ ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ وہ مختلف کرداروں کے حامل مختلف لوگ ہیں۔ Kafka on the Shore کو فِل نے پسند کیا اور ترجمے کے لیے لے لیا۔ جے اس کے بارے میں زیادہ  پرجوش نہیں تھا۔ فِل نہایت معتدل مزاج اور نرم خو شخص ہے اور جے نہایت باریک بیں اور عین مین ترجمہ نگار ہے۔ وہ مضبوط کردار کا حامل ہے۔ الفریڈ رِند مَشرب قسم کا ہے؛ مجھے نہیں پتا کہ وہ آج کل کہاں ہے۔ اس نے میانمار کی ایک عورت سے شادی کر لی تھی جو حریت پسند تھی۔ اسے حکومت نے گرفتار بھی کر لیا تھا۔ تو وہ ایسا آدمی ہے۔ وہ آزاد رو مترجم ہے؛ بعض اوقات تو وہ نثر تک تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ اس کا طریقہ کار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ اپنے مترجمین کے ساتھ کیسے تعاون کرتے ہیں؟ اصل میں یہ کام کیسے کیا جاتا ہے؟

مورا کامی:

ترجمہ کرتے ہوئے وہ مجھ سے بہت سے باتیں دریافت کرتے رہتے ہیں اور جب پہلا مسودہ مکمل ہو جاتا ہے تو میں اسے پڑھتا ہوں۔ بعض اوقات میں انھیں کچھ تجاویز بھی دے دیتا ہوں۔ میری تخلیقات کا انگریزی قالب نہایت اہم ہے؛ کروشیا اور سلووینیا جیسے چھوٹے ممالک ان کا ترجمہ جاپانی کی بجائے انگریزی سے کرتے ہی۔ پس انگریزی ترجمہ نہایت درست ہونا چاہیے۔ لیکن اکثر ممالک اصل جاپانی متن سے ترجمہ کرتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ خود بھی ترجمہ کرنے کے لیے حقیقت نگاروں کو ترجیح دیتے ہیں  مثلاً کارور (Carver)، فٹزجیرالڈ (Fitzgerald)، اِروِنگ (Irving)۔ کیا اس سے بحیثیت قاری کے آپ کے ذوق کی جھلک ملتی ہے، یا پھر یہ چیز آپ کو کسی طور اپنی تحریروں کو مختلف انداز میں ڈھالنے کے لیے ممدو و معاون ثابت ہوتی ہے؟

مورا کامی:

میں نے جن تمام لوگوں کا ترجمہ کیا ہے انھوں نے وہ کتابیں لکھی ہیں جن سے میں کچھ سیکھا ہے۔ اصل بات ہی یہ ہے۔ میں نے  حقیقت نگاروں  سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کے کام کو ترجمہ کرنے کے لیے نہایت باریک بینی سے ان کے مطالعہ کی ضرورت ہے اور اسی طرح میں ان میں مستور محاسن تک پہنچ سکتا تھا۔ اگر میں ڈان ڈیللو (Don DeLilo)، جان بارتھ (John Barth)، یا تھامس پِنچون (Thomas Pynchon) جیسے مابعد جدید مصنفین کا ترجمہ کرتا تو ایک متصادم فضا پیدا ہو جاتی  میرے اور ان کے جنون کے مابین۔ بِلاشبہ، میں ان کے کام کی تعریف کرتا ہوں لیکن میں نے ترجمے کے لیے  حقیقت نگار منتخب کیے۔

انٹرویو کنندہ:

اکثر آپ کی تحریروں کے بارے میں کہا جاتا ہے امریکی قارئین کے لیے جاپانی ادب تک رسائی کا بہت بڑا ذریعہ اس لحاظ سے ہیں کہ آپ کی ذات کو معاصر جاپانی لکھاریوں کا نہایت مغرب زدہ مصنف بیان کیا جاتا ہے۔ آپ جاپانی ثقافت کے ساتھ اپنے تعلّق کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

مورا کامی:

میں دیارِ غیر میں بیٹھ کر غیروں کے بارے میں لکھنا نہیں چاہتا، میں ہمارے اپنے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ میں جاپان کے متعلّق لکھنا چاہتا ہوں، ہماری جاپانی زندگی کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ یہی بات میرے لیے اہم ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میرا اسلوب مغرب والوں کے لیے آسان فہم والا ہے؛ یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن میری کہانیاں میری اپنی ہیں اور مغرب زدہ نہیں ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

اور بے شمار حوالہ جات امریکیوں کو مغربی لگتے ہیں  مثال کے طور پر  the Beatles (لیور پول سے تعلق رکھنے والا راک اور پاپ موسیقی کا ایک معروف طائفہ جس نے ۱۹۶۲ء میں اپنے پہلے گیت Love Me Do ہی سے شہرت پا لی تھی: مترجم)  جو جاپانی ثقافت کا بھی ایک اہم جزو ہیں۔

مورا کامی:

جب میں میکڈونلڈ کا ہیم برگر کھانے والے لوگوں کے بارے میں لکھتا ہوں تو امریکی حیران ہو تے ہیں کہ یہ کردرار ٹوفو (سویابین سے بنی پنیر: مترجم)  کی بجائے ہَیم برگر کیوں کھا رہا ہے؟ لیکن ہَیم برگر کھانا ہمارے لیے نہایت فطری بات ہے کیوں کہ یہ ہماری روزمرہ کی چیز ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ یہ کہیں گے کہ آپ کے ناول معاصر شہری جاپانی زندگی کے عکاس ہیں؟

مورا کامی:         لوگوں کے افعال،ردِّ عمل، بات چیت اور سوچنے کا انداز خالصتاً جاپانی ہے۔ کسی بھی جاپانی قاری نے  ایک بھی جاپانی قاری نے  شکایت نہیں کی کہ میری کہانیاں ہماری زندگی سے مختلف ہیں۔ میں جاپانیوں کے بارے میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں یہ لکھنا چاہتا ہوں کہ ہم کیا ہیں، کہاں جا رہے ہیں اور یہاں کیوں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی میرا موضوع ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے The Wind-UP Chronicles کا حوالہ دیتے ہوئے کہیں فرمایا تھا کہ آپ کو اپنے والد سے، ان کے ساتھ اور ان کی نسل کے ساتھ جو کچھ ہوا میں بہت دِلچسپی تھی لیکن اس ناول میں باپ کا کوئی کردار نہیں بلکہ تقریباً آپ کے تمام افسانوں ہی میں نہیں ہے۔ اس کتاب میں آپ کی یہ دِلچسپی کہاں ظاہر ہوتی ہے؟

مورا کامی:

میرے تقریباً سبھی ناول واحد متکلم میں لکھے گئے ہیں۔ میرے مرکزی کردار کا کام اپنے آس پاس ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کرنا ہوتا ہے۔ وہ مناسب وقت پر وہی دیکھتا ہے جو اسے دیکھنا چاہیے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ وہ The Great Gatsby میں نک کاراوے (Nick Carraway) سے مشابہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ غیر جانب دار ہے اور اسے اپنی غیر جانب داری برقرار رکھنے کے لیے اقارب داری سے، کسی بھی نوع کے عمودی خاندانی نظام سے پاک صاف ہونا چاہیے۔

اس سے یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ میرا جواب اس سچائی کی جانب ہے کہ ’’خاندان‘‘ نے روایتی جاپانی ادب میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں اپنے مرکزی کردار کو خودمختار اور مطلق دکھانا چاہتا تھا۔ اس معاملے میں اس کا شہری ہونے کا مرتبہ ضروری تھا۔ وہ ایسی قسم کا فرد ہے جو قرابت داری اور ذاتی تعلقات کی بجائے آزاد ی اور تنہائی منتخب کرتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی کہانیوں کی تازہ کتاب ’’Super-Frog Saves Tokyo‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے، جن میں ٹوکیو کے نیچے بسنے والے ایک عظیم الجثہ زیرِ زمین رہنے والے کیڑے کا بیان ہے کہ وہ ٹوکیو کو تباہ و برباد کرنے والا ہے، میں manga (جاپان کی کارٹونوں اور مزاح کی صنف جس میں سائنس فکشن یا ماورائی تخیلاتی موضوعات اور بعض اوقات جسمانی اور جنسی تشدّد کا کھلا کھلم بیان ہوتا ہے: مترجم) یا جاپان کی پُرانی فلموں کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکا۔ پھر ٹوکیو کی خلیج میں سوئے ہوئے ایک اور روایتی دیو مالائی عفریت کا ذکر ہے، جو روایت کے مطابق ہر پچاس سال بعد جاگتا ہے اور زلزلہ لاتا ہے۔ کیا آپ کو ان دونوں میں تعلق کا احساس ہے؟ مثلاً، مانگا (manga) کے بارے میں آپ کا کیا احساس ہے؟ کیا آپ اپنے اس کام اور ان میں کوئی تعلق دیکھتے ہیں؟

مورا کامی:      

نہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میں بہت زیادہ مضحکہ خیزیوں کا مداح نہیں ہوں۔ میں ان چیزوں سے بالکل بھی متأثر نہیں ہوا تھا۔

انٹرویو کنندہ:

جاپانی لوک داستانوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

مورا کامی:

بچپن میں مجھے بہت سی جاپانی لوک داستانیں اور قدیم کہانیاں سننے کو ملی تھیں۔ جب آپ بڑے ہو رہے ہوں تو ایسی کہانیاں نازک ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اس مافوق الفطرت مینڈک کا وجود کہانیوں کے اس ذخیرے سے برآمد ہو سکتا ہے۔ آپ کا امریکی لوک داستانوں کا اپنا ذخیرہ ہے، جرمنوں کو اپنا اور روسیوں کا اپنا۔ لیکن ایک مشترکہ ذخیرہ ہم The Litte Price، McDonald’s یا the Beatles سے اخذ کر سکتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

عالمی پاپ ثقافتی ذخیرہ۔

مورا کامی:

فی زمانہ لکھی جانے والی کتابوں میں بیانیہ بہت اہم ہے۔ میں نظریات کی پروا نہیں کرتا۔ میں ذخیرہ الفاظ کی بھی پروا نہیں کرتا۔ اہم چیز یہ ہے کہ بیانیہ اچھا ہے یا بُرا۔ انٹرنیٹ کے نتیجے میں ہمارے پاس ایک نئی قسم کی لوک داستانیں ہیں۔ یہ قسم استعارے (metaphor) کی ہے۔ The Matrix  ایک معاصر ذہن کی ایک لوک داستان ہے۔ لیکن ہر شخص نے کہ یہ بیزار کن ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ نے ہایاؤ میازاکی (Hayao Miazaki) کی فلم Spirited Away دیکھی ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ اس میں اور آپ کی تخلیقات میں کچھ چیزیں مشابہ ہیں۔ اس میں وہ بھی لوک داستانوں کے مواد کو ہم عصر بنا کر خوش اسلوبی سے پیش کرتا ہے۔ کیا آپ اس کی فلمیں پسند کرتے ہیں؟

مورا کامی:

نہیں، میں مصنوعی جان داروں کی فلمیں پسند نہیں کرتا۔ میں نے اس فلم کا بہت تھوڑا حصّہ دیکھا ہے لیکن وہ میرے اسلوب میں نہیں ہے۔ میں ایسی چیزوں میں دِلچسپی نہیں رکھتا۔ اپنی کاوشیں ضبط تحریر میں لاتے ہوئے میرا اپنا ایک تصوّر ہوتا ہے اور وہ تصوّر بہت قوی ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ اکثر فلمیں دیکھنے جاتے ہیں؟

مورا کامی:

اوہ، ہاں۔ اکثر و بیشتر۔ میرا پسندیدہ ہدایت کار فِن لینڈ کا ہے  آکی کوریسماکی (Aki Kaurismaki)۔ مجھے اس کی ہر فلم پسند آئی۔ وہ غیرمعمولی ہدایت کار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

اور مزاحیہ۔

مورا کامی:

بے حد مزاحیہ۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے پہلے بتایا ہے کہ مزاح مستحکم کرتا ہے۔ کیا اس کے دیگر فوائد بھی ہیں؟

مورا کامی:

بعض اوقات میں چاہتا ہوں کہ میری قاری قہقہے لگائیں۔ جاپان میں میرے بہت سے قارئین نے ٹرین پر سفر کے دوران میری کتابیں پڑھتے ہیں۔ عام تنخواہ دار رَوزانہ دو گھنٹے سفر میں خرچ کرتا ہے اور وہ دونوں گھنٹے وہ پڑھتے ہوئے گُزارتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری ضخیم کتب دو حصّوں میں شائع کی جاتی ہیں کیوں کہ ایک حصّے کی صورت میں وہ بہت وزنی ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ مجھے خط لکھ کر شکایت کرتے ہیں کہ دوران سفر وہ میری کتابیں پڑھتے ہوئے قہقہے لگانے لگتے ہیں۔ یہ بات ان کے لیے بہت پریشانی کا باعث ہے۔ مجھے ایسے خط بہت پسند آتے ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ میرے کتابیں پڑھتے ہوئے وہ ہنس رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ میں ہر دس صفحات کے بعد لوگوں کو ہنسانا پسند کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا یہ آپ کا کوئی خفیہ فارمولا ہے؟

مورا کامی:

مجھے یہ تو نہیں پتا لیکن اگر میں یہ کرنے میں کامیاب رہتا ہوں تو یہ اچھی بات ہے۔ جب میں کالج کا طالب علم تھا تو مجھے کرٹ وونیگیٹ (Kurt Vonnegut) اور رچرڈ براٹی گین (Richard Brautigan) کو پڑھنا پسند تھا۔ ان کے ہاں حس مزاح ہے؛ با ایں ہمہ وہ جس بارے میں لکھتے تھے وہ سنجیدہ بھی ہوتا تھا۔ مجھے اس قسم کی کتابیں پسند ہیں۔ پہلی بار میں نے  کرٹ وونیگیٹ اور رِچرڈ براٹی گین کو پڑھا تو یہ دیکھ کر سن ہو کر رہ گیا کہ وہ ایسی کتب تھیں! وہ جیسے ایک دنیا کی دریافت تھی۔

انٹرویو کنندہ:    

لیکن آپ نے تو کبھی اس نوع کی کوئی نگارش تحریر نہیں کی؟

مورا کامی:        

میرا خیال ہے کہ یہ دنیا، یہ شہری زندگی بذاتِ خود ایک دِلچسپ شے ہے۔ ٹی وی کے پچاس چینل، احمق حکومتی لوگ  یہ  دلچسپ ہی تو ہے۔ پس میں سنجیدہ رہنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میں جتنی زیادہ سعی کرتا ہوں میں اتنا ہی مزاح نگار ہو جاتا ہوں۔ ۱۹۶۸ء اور ۱۹۶۹ء میں جب میں انیس برس کا تھا تو ہم لوگ نہایت ہی سنجیدہ ہوتے تھے۔ وہ متانت کا زمانہ تھا اور لوگ نہایت اصول پرست ہوتے تھے۔

انٹرویو کنندہ:

یہ امر نہایت دلچسپ ہے کہ Norwegian Wood، جو اس زمانے کا احاطہ کرتی ہے، شاید آپ کی کتابوں میں سب سے زیادہ مزاحیہ کتاب ہے۔

مورا کامی:

اس تناظر میں ہماری نسل سنجیدہ نسل ہے۔ لیکن اب جب میں ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں تو وہ سب مجھے انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے۔ وہ ابہامی دور تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسی لیے ہم– ہماری نسل– اس کے عادی ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

طلسماتی حقیقت نگاری کا ایک اہم؍بنیادی اصول کہانی کے تخیلاتی عناصر کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ تاہم، آپ نے اس اصول سے انحراف کیا: آپ کے کردار اکثر کہانی کے عجیب و غریب ہونے پر نہ صرف گفتگو کرتے ہیں بلکہ قاری کی بھی اس طرف توّجہ دِلاتے ہیں۔ اس سے کیا مقصد حاصل ہوتا ہے؟ اور کیوں؟

مورا کامی:

یہ نہایت دلچسپ سوال ہے۔ مجھے اس پر غور کرنا پڑے گا… خوب، میرا خیال ہے کہ یہ میرا دیانت دارانہ مشاہدہ ہے کہ دنیا کس قدر عجیب ہے۔ میرے مرکزی کردار اسی تجربے سے گُزرتے ہیں جو لکھتے ہوئے مجھے ہوتا ہے اور جو قاری کو پڑھتے ہوئے ہوتا ہے۔ کافکا اور گارشیا مارکیز نے جو کچھ لگا وہ کلاسیکی لحاظ سے زیادہ ادب ہے۔ میری کہانیاں زیادہ اصلی، زیادہ معاصر اور زیادہ مابعد جدیدیت کے تجربات ہیں۔ فلم کے ایک منظر کے بارے میں سوچیں جہاں ہر سجی ہوئی ہر چیز سارے ستون، دِیوار گیر الماری میں کتابیں، الماریاں  سب کچھ مصنوعی ہوتا ہے۔ دِیواری کاغذی ہوتی ہیں۔ کلاسیکی طلسماتی حقیقت نگاری  میں دِیواریں اور کتابیں حقیقی ہوتی ہیں۔ اگر میرے افسانے میں کوئی شے مصنوعی ہوتی ہے تو میں اسے مصنوعی ہی بتانا پسند کرتا ہوں۔ میں اسے اصل دِکھانے کی کوشش نہیں کرتا۔

انٹرویو کنندہ:

فلم والے سیٹ کے استعارے کی بات جاری رکھتے ہیں۔ شاید کیمرے کو پس منظر میں رکھنے کی وجہ سٹوڈیو کا کام دکھانا ہو؟

مورا کامی:

میں قاری کو قائل نہیں کرنا چاہتا کہ یہ حقیقی چیز ہے۔ جو ہے، میں اسے وہی دِکھانا چاہتا ہوں۔ ایک طرح سے  میں انھیں بتاتا ہوں کہ یہ محض ایک کہانی ہے  ایک من گھڑت بات۔ لیکن جب مصنوعی کو حقیقی دِکھانے کا تجربہ کیا جاتا ہے تو وہ حقیقی ہو بھی سکتا ہے۔ اس کی وضاحت آسان نہیں ہے۔

انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز میں، لکھاری حقیقی چیزیں لکھتے تھے؛ یہی ان کا مقصد ہوتا تھا۔ War and Peace میں ٹالسٹائی میدانِ جنگ کو اِتنی باریک بینی سے دِکھاتا ہے کہ قارئین نے یقین کر لیا کہ وہ حقیقی ہے۔ لیکن میں یہ نہیں کرتا۔ میں مصنوعی چیزوں کو حقیقی دِکھانے کی حیلہ سازی نہیں کرتا۔ ہم مصنوعی دنیا میں جی رہے ہیں، شام کی مصنوعی خبریں دیکھ رہے ہیں، مصنوعی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہماری حکومت مصنوعی ہے۔ لیکن ہمیں اسی مصنوعی دنیا میں حقیقت ملتی ہے۔ پس ہماری کہانیاں بھی ایسی ہی ہیں؛ ہم مصنوعی مناظر میں چلتے پھرتے ہیں لیکن ان مصنوعی مناظر میں چلتے پھرتے ہم لوگ حقیقی ہیں۔ صُورتِ حال اس لحاظ سے حقیقی ہے کہ یہ ذمّہ داری ہے، ایک سچا تعلّق ہے۔ میں یہ کچھ لکھنا پسند کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

اپنی تحریروں میں آپ بار بار دنیا کی جانب پلٹتے ہیں۔

مورا کامی:

مجھے جزئیات نگاری پسند ہے۔ ٹالسٹائی مکمل منظر نگاری پسند کرتا تھا لیکن میری منظر نگاری چھوٹے سے حصّے پر مرتکز ہوتی ہے۔ جب چھوٹی چھوٹی چیزوں یا واقعات کی جزئیات بیان کی جاتی ہیں تو مرکزِ نگاہ قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور صورتِ حال ٹالسٹائی کے برعکس واقع ہوتی ہے  زیادہ غیر حقیقی ہو جاتی ہے۔ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

اس قدر مرکز نگاہی جس سے آپ حقیقت نگار کے خطے سے گزرتے ہیں اور ہر روز گزرتے ہیں تویہ بار بار کا معمول عجیب و غریب بن جاتا ہے؟

مورا کامی:

جتنی باریک بینی سے دیکھا جائے، چیز اُتنی ہی غیر حقیقی ہوتی جاتی ہے۔ یہی میرا اسلوب ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے بتایا ہے کہ آپ کی تحریروں کے برعکس گارشیا مارکیز اور کافکا ادب لکھنے والے ہیں۔ کیا آپ اپنے آپ کو ادب کا لکھاری نہیں سمجھتے؟

مورا کامی:

میں معاصر ادب کا لکھاری ہوں جو مختلف ہے۔ جس زمانے میں کافکا لکھ رہا تھا صرف موسیقی، کتابیں اور تھیٹر ہوتے تھے؛ اب انٹرنیٹ، فلموں، کرائے پر دستیاب ویڈیوز اور نجانے کیا کیا کچھ ہے۔ اب مقابلہ سخت ہے۔ اصل مسئلہ زمانے کا ہے: انیسویں صدی میں لوگ میں فارغ البال طبقے کی بات کر رہا ہوں کے پاس صرف کرنے کے لیے بہت وقت تھا،اس لیے وہ ضخیم کتابیں پڑھتے تھے۔  اِس لیے وہ ضخیم کتابیں پڑھتے تھے۔ وہ اوپیرا جاتے اور وہاں تین چار گھنٹے بیٹھے رہتے تھے۔ لیکن اب ہر شخص مصروف ہے اور اصل میں کسی طبقے کو فرصت نہیں ہے۔ موبی ڈِک یا دوستوفسکی کو پڑھنا اچھی بات ہے لیکن لوگ مصروف ہی بہت ہیں۔ پس افسانے نے خود کو خطرناک حد تک تبدیل کر لیا ہمیں لوگوں کو گردن سے پکڑ کر ادب کی طرف لانا پڑتا ہے۔معاصر ادیب دِیگر میدانوں کی تکنیکیں استعمال کر رہے ہیں جاز، بصری کھیل (video games) ، اور ہر چیز۔ میرا خیال ہے کہ فی زمانہ بصری کھیل، دیگر ان کے مقابلے میں، افسانے کے زیادہ نزدیک ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

 بصری کھیل؟

مورا کامی:

ہاں۔ میں خود تو بصری کھیل کھیلنا پسند نہیں کرتا لیکن میں نے مماثلت محسوس کی ہے۔ بعض اوقات لکھتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں بہ یک وقت بصری کھیل بنانے والا اور اس کا کھلاڑی بھی ہوں۔ میں پروگرام ترتیب دیتا ہوں اور اب میں کھیل کے وسط میں ہوں؛ بایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ دایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے۔ یہ ایک طرح کی علیحدگی ہے۔ ٹوٹ جانے کا ایک احساس۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ آپ کو کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ آگے آپ کیا لکھیں گے لیکن آپ کا دوسرا حصّہ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟

مورا کامی:

میرا خیال ہے کہ لاشعوری طور پر۔ جب میں دنیا و مافیہا سے بے خبر لکھ رہا ہوتا ہوں تو مجھے پتا ہوتا ہے کہ مصنف کیا محسوس کر رہا ہے اور قاری کیا محسوس کر رہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے اس سے میرے لکھنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ میں بھی قاری ہی کی مانند مشتاق ہوتا ہوں کہ آگے کیا ہو گا۔ لیکن بعض اوقات واقعات کو تھامنا پڑتا ہے۔ اگر بہت جلد ہو جائے تو لوگ اُکتا اور بیزار ہو جائیں گے۔ ایک خاص مقام پر انھیں روکنا پڑتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:    

اور یہ کام آپ کس طرح کرتے ہیں؟

مورا کامی:

بس مجھے محسوس ہو جاتا ہے۔ مجھے پتا چل جاتا ہے کہ اب ٹھیرنے کا مقام ہے۔

انٹرویو کنندہ:

جاز اور موسیقی پر آپ کی عمومی رائے کیا ہے؟ یہ آپ کے کام کے لیے کس طرح مفید ہیں؟

مورا کامی:

میں تیرہ چودہ برس کی عمر سے جاز سن رہا ہوں۔ موسیقی نہایت قوی اثرات رکھتی ہے: لکھتے ہوئے موسیقی، دھنیں، ردھم اور سروں کے احساسات میرے لیے بہت مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ میں ایک موسیقار بننا چاہتا تھا لیکن میں آلات موسیقی بہ خوبی استعمال نہیں کر سکتا تھا، اس لیے میں مصنف بن گیا۔ لکھنا بھی موسیقی بجانے کے مترادف ہے: پہلے میں موضوع کو بجاتا ہوں، پھر میں نغمہ سرائی کرتا ہوں اور پھر کوئی نہ کوئی انجام دے دیتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

روایتی جاز موسیقی میں ابتدائی موضوع اپنی جانب لوٹ کر انجام کو پہنچتاہے۔ کیا آپ اپنے آپ کی طرف لوٹتے ہیں؟

مورا کامی:

بعض اوقات۔ جاز میرے لیے ایک سفر، ایک ذہنی سفر کی مانند ہے۔ اس میں اور لکھنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کون کون سے جاز موسیقار آپ کو پسند ہیں؟

مورا کامی:

بہت سے ہیں! سٹان گیٹز (Stan Getz) اور جیری مُلیگین (Gerry Mulligan) میرے پسندیدہ ہیں۔ جب میں نوجوان تھا تو سدابہار نہایت سکون بخش موسیقار تھے۔ بے شک مجھے مائلز ڈیوس (Miles Davis) اور چارلی پارکر (Charlie Parker) بھی پسند ہیں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں کس کو سب سے زیادہ نیا موڑ دینے والا سمجھتا ہوں تو میرا جواب ہو گا کہ پچاس سے ساٹھ کی دہائی میں مائلز۔ مائلز ہمیشہ کوئی نہ کوئی نئی اختراع کرتا رہتا تھا۔ وہ ایک موسیقار تھا جس کے اپنے انقلاب تھےمیں اس کی بے حد تحسین کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ کولٹرین (Coltrane) کو پسند کرتے ہیں؟

مورا کامی:

اوہ، کچھ کچھ۔ بعض اوقات تو وہ بہت اچھی موسیقی دیتا ہے، نہایت اثر پذیر۔

انٹرویو کنندہ:

موسیقی کی دوسری قِسموں کے بارے میں کیا کہیں گے؟

مورا کامی:

مجھے کلاسیکی موسیقی بھی پسند ہے، خاص طور پر baroque موسیقی (سترھویں اور اٹھارہویں صدی کی یورپی موسیقی۔ نیز اس دور کے دیگر فنونِ لطیفہ کو بھی baroque کہا جاتا ہے:مترجم)۔ میری نئی کتاب Kafka on the Shore کا مرکزی کردار، لڑکا، ریڈیوہیڈ (Radiohead) اور پرنس (Prince) کو سنتا ہے۔ میں جان کر بہت حیرت زدہ ہوا کہ ریڈیوہیڈ کا کوئی رکن میری کتابیں پسند کرتا ہے!

انٹرویو کنندہ:

میں حیران نہیں ہوا۔

مورا کامی:

میں نے گزشتہ روز Kid A کے لیے جاپانی ادب پر تبصرہ سنا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے میری کتابیں بہت پسند ہیں تو مجھے نہایت فخر محسوس ہوا۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ مجھے Kafka on the Shore کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟

مورا کامی:

یہ میرے ناولوں میں سب سے زیادہ پیچیدہ ہے، The Wind-Up Chronicles سے بھی زیادہ پیچیدہ۔ اسے سمجھانا تقریباً ناممکن ہے۔

اس میں دو کہانیاں متوازی چلتی ہیں۔ میرا مرکزی کردار ایک پندرہ سالہ لڑکا ہے۔ اس کا نام، اس کے نام کا پہلا حصّہ کافکا ہے۔ دوسری کہانی میں مرکزی کردار ایک ساٹھ سالہ بوڑھا شخص ہے جو پڑھ لکھ نہیں سکتا۔ وہ ایک سادہ شخص ہے لیکن وہ بلیوں سے بات چیت کر سکتا ہے۔ اس لڑکے کافکا کو اس کے باپ نے لعنت ملامت کی۔ اوڈیپل (Oedipal) قسم کی لعنت ملامت: تم مجھے، اپنے باپ کو مار ڈالو گے۔ تم اپنی ماں سے عشق لڑاؤ گے۔ وہ اپنے باپ کے پاس سے بھاگ نکلتا ہے تاکہ اپنے باپ کی بددعا سے فرار پا سکے۔ وہ ایک دور دراز مقام پر چلا جاتا ہے لیکن اس کا واسطہ نہایت عجیب و غریب دنیا، نہایت غیر حقیقی اور خواب جیسے حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

بنت کے لحاظ سے یہ Hard-Boiled Wonderland and the End of World سے مماثل ہے، جس میں ناول باب در باب آگے پیچھے بڑھتا ہوا ایک کہانی سے دوسری کی سمت جاتا ہے؟

مورا کامی:

درست۔ شروع میں میں نے اسے Hard-Boiled Wonderland کے نقشِ ثانی کے طور پر لکھنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اسے مکمل طور پر ایک مختلف کہانی لکھا جائے۔ لیکن اسلوب نہایت مماثل ہے۔ اس کی روح نہایت مماثل ہے۔ موضوع بھی یہ دنیا اور وہ دنیا ہے کہ دونوں میں کیسے آیا جایا جا سکتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

میں یہ سن کر نہایت پُرجوش ہو گیا ہوں کیوں کہ آپ کی Hard-Boiled Wonderland میری پسندیدہ کتاب ہے۔

مورا کامی:

میری بھی۔ وہ بہت اُولوالعزمی کی حامل کتاب ہے اور نئی طرح کی بھی کیوں کہ میری کتابوں میں ہمیشہ مرکزی کردار اپنی عمر کی بیسیویں یا تیسویں دہائی میں ہوتے ہیں لیکن اس بار پندرہ سالہ لڑکا مرکزی کردار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

زیادہ ہولڈن کول فیلڈ (Holden Caulfield)کی طرح؟

مورا کامی:

یہ درست ہے۔ اسے لکھتے ہوئے میں بھی ایک طرح کے جوش میں مبتلا ہو گیا تھا۔ جب میں لڑکے کے بارے میں لکھ رہا تھا تو مجھے یاد آرہا تھا کہ پندرہ برس کی عمر میں میں خود کیسا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یادیں انسان کا نہایت اہم اثاثہ ہیں۔ یہ ایک طرح کا ایندھن ہیں جو جلاتی بھی ہیں اور گرم بھی رکھتی ہیں۔ میری یادیں الماری کی مانند ہیں جس میں بہت سے دراز ہیں۔ جب میں پندرہ سالہ لڑکا بننا چاہتا ہوں تو ایک خاص دراز کھولتا ہوں اور میرے سامنے وہ مناظر ہوتے ہیں جب میں کوبے میں ایک لڑکا ہوا کرتا تھا۔ میں وہاں کی فضا میں سانس لے سکتا ہوں، اس زمین کو چُھو سکتا ہوں اور درختوں کی ہریالی دیکھ سکتا ہوں۔ یہ وجہ ہے کہ میں ایک کتاب لکھنا چاہتا تھا۔

انٹرویو کنندہ:    

ان پندرہ سالوں کے ادراک تک رسائی کے لیے؟

مورا کامی:

کہہ سکتے ہیں۔ ہاں۔

انٹرویو کنندہ:

جاپان میں کسی اور جگہ کی بجائے کوبے میں پلنا بڑھنا آپ کے اسلوب کی تشکیل کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے؟ کوبے کی شہرت ایک دنیا دار اور ممکنہ حد تک کچھ نہ کچھ منحرف المرکز قصبے کی بھی ہے۔

مورا کامی:

کوبے کی نسبت کیوٹو کے لوگ عجیب و غریب ہیں! وہ پہاڑوں میں گھِرے ہوئے لوگ ہیں۔ اسی لیے ان کی ذہنیت بھی مختلف ہے۔

انٹرویو کنندہ:

لیکن آپ تو کیوٹو میں پیدا ہوئے تھے؟ کیا یہ درست ہے؟

مورا کامی:

ہاں، لیکن جب میں دو برس کا تھا تو ہم کوبے چلے آئے تھے۔ وہاں سے بس میرا اتنا ہی تعلق ہے۔ کوبے ایک طرح کی پٹّی پر سمندر کے کنارے اور پہاڑوں کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔ مجھے ٹوکیو پسند نہیں کیوں کہ یہ نہایت سپاٹ اوربہت وسیع و عریض ہے۔ میں یہاں رہنا پسند نہیں کرتا۔

انٹرویو کنندہ:

لیکن آپ یہاں رہتے ہیں! مجھے یقین ہے کہ آپ جہاں چاہیں قیام رکھ سکتے ہیں۔

مورا کامی:

میں یہاں اس رہتا ہوں کہ یہاں میں گُم نام رہ سکتا ہوں۔ یہی صُورتِ حال نیویارک کی ہے۔ کوئی مجھے پہچانتا نہیں اور میں جہاں چاہوں جا سکتا ہوں۔ میں ٹرین پر بھی سفر کروں تو کوئی مجھے تنگ نہیں کرے گا۔ ٹوکیو کے مضافات میں میرا اَیک چھوٹا سا گھر ہے اور وہاں کا ہر شخص مجھے جانتا ہے۔ میں جب بھی سیر کے لیے باہر نکلتا ہوں تو شناخت کر لیا جاتا ہوں۔ بعض اوقات تو اس صُورتِ حال پر برہم بھی ہو جاتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے قبل ازیں ریو مُوراکامی کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کا بہ طور مصنف نہایت مختلف ایجنڈا دِکھائی دیتا ہے۔     

مورا کامی:

میرا اسلوب مابعد جدیدیت والا ہے لیکن اس کا ویسا ہی جیسا سب لکھ رہے ہیں۔ لیکن جب میں نے پہلی بار Coin Locker Babies پڑھی تو میں سکتے میں آگیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی ایسا ہی ایک ناول لکھوں گا۔ تب میں نے A Wild Sheep Chase لکھنا شروع کیا۔ یہ ایک طرح کی رقابت ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ دونوں دوست ہیں؟

مورا کامی:

ہمارے بہت اچھے تعلّقات ہیں۔ کم ازکم ہم دشمن ہر گز نہیں ہیں۔ وہ خِلقی اور نہایت قوّی صلاحیت کا حامل ہے جیسے بالکل سطح زمین کے عین نیچے تیل کا کنواں ہو۔ لیکن میرے معاملے میں تیل بہت ہی نیچے تھا کہ مجھے خوب خوب کھود کر نکالنا پڑا۔ یہ واقعی سخت محنت کا کام تھا اور مجھے یہاں تک پہنچنے میں بہت عرصہ لگا۔ میں طاقت وَر اور پُراعتماد تھا۔ میری زندگی ایک ضابطہ کار سے جُڑی تھی۔ میرے لیے کھود کھود کر نکالنا ہی بہتر تھا۔

:::

]انگریزی متن بشکریہ ’’دی پیرس ریویو‘‘ [(The Paris Review)

انٹرویو

شہرت یافتہ

ہاروکی مورا کامی

(Haruki Murakami)

انٹرویوکنندہ:جان رے

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

میں نے جن تمام لوگوں کا ترجمہ کیا ہے انھوں نے وہ کتابیں لکھی ہیں جن سے… — ہاروکی مورا کامی ۔ ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: ہاروکی مورا کامی

)دوسرا اور آخری حصہ(

انٹرویو کنندہ:

اس تناظر میں Norwegian Wood کا کردار ریکو (Reiko) دِلچسپ ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس (لڑکی) کو کس خانے میں رکھوں۔ اس کے قدم دونوں دنیاؤں میں دِکھائی دیتے ہیں۔

مورا کامی:

وہ آدھی پاگل ہے، دماغی طور پر آدھی جنونی۔ یونانی کہاوت کے مطابق: اگر آپ اسے ایک رخ سے لیں تو وہ ایک المیائی کردار ہے اور اگر آپ اسے دوسرے رُخ سے لیں تو وہ مزاحیہ کردار ہے۔ وہ نہایت علامتی ہے۔ مجھے یہ کردار بہت پسند ہے۔ میں اسے لکھ کر نہایت مسرور ہوا تھا، رِیکو سان (Reiko-San

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ کو اپنے مزاحیہ کرداروں سے زیادہ چاہت محسوس ہوتی ہے جیسے کہ ناؤکوس (Naokos) کی بجائے مِیڈوری اور مے کاساہاراس (May Kasaharas

مورا کامی: 

میں طربیہ مکالمے لکھنا پسند کرتا ہوں۔ اس سے حظ ملتا ہے۔ لیکن اگر میرے سارے ہی کردارمزاحیہ ہو جائیں تو وہ بیزاری کا سبب بنیں گے۔ وہ طربیہ کردار میرے ذہن کو ایک طرح سے استحکام بخشنے کا باعث بنتے ہیں؛ حسِ مزاح بہت مستحکم شے ہے۔ بذلہ سنج ہونے کے لیے آپ کا ٹھنڈے مزاج کا ہونا چاہیے۔ جب آپ سنجیدہ ہوتے ہیں تو آپ غیر مستحکم ہو سکتے ہیں؛ سنجیدگی کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ لیکن جب آپ بذلہ سنج ہوں تو آپ مستحکم ہوتے ہیں۔ لیکن آپ مُسکراتے ہوئے تو جنگ نہیں لڑ سکتے۔

انٹرویو کنندہ:

چند ناولوں میں اَوہام کو نہایت دِلچسپ انداز میں لکھا اور بار بار لکھا گیا ہے۔ Hard-Boiled Wonderland، Dance Dance Dance، The Wind-Up Chronicles اور Sputnick Sweetheart ایک ہی موضوع پر تبدل(variation) کے ساتھ قرأت تقریباً تقاضا کرتے ہیں: ایک شخص کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، یا وہ کسی طرح گُم ہو گیا ہے، اس کی تمنّا کا مقصد اور اس کی متوازی دنیا میں بھی اسے (لڑکی کو)  نہ بُھول سکنے کی کمزوری جو اسے دوبارہ پانے کا امکان ظاہر کرتی ہے جسے وہ کھو چکا ہے، ایک ایسا امکان جس کے بارے میں وہ (اور قاری بھی) جانتا ہے کہ زندگی اسے دوبارہ نہیں دے گی۔ کیا آپ اس کردار نگاری سے متفق ہیں؟

مورا کامی:

ہاں۔

انٹرویو کنندہ:

یہ اَوہام آپ کے افسانے کا مرکز کیوں ہے؟

مورا کامی:

مجھے نہیں معلوم میں یہ چیزیں کیوں لکھتا رہتا ہوں۔ جان اِروِنگ (John Irving) کی نگارشات میں، اس کی ہر نگارش میں، مجھے کوئی نہ کوئی ایسا شخص ملتا ہے جس کے جسم کا کوئی حصّہ ضائع ہوتا ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ کیوں ان ضائع حصّوں کے بارے میں لکھتا رہتا ہے۔ غالباً وہ خود بھی یہ نہ جانتا ہو۔ میرے بھی یہی معاملہ ہے۔ میرے مرکزی کردار کی بھی ہمیشہ کوئی نہ کوئی شے کھو جاتی ہے اور وہ اس گُم شدہ چیز کی تلاش میں ہوتا ہے۔ یہ ہولی گریل (Holy Grail) یا فلپ مارلو (Philip Marlowe) ہی کی طرح کا معاملہ ہے۔

انٹرویو کنندہ:

جب تک کوئی شے گُم نہ ہو آپ سراغ رسانی نہیں کر سکتے؟

مورا کامی:

درست۔ جب میرے مرکزی کردار کی کوئی چیز گُم ہوتی ہے تو وہ اسے ڈھونڈنے لگتا ہے۔ وہ اوڈی سس (Odysseus) کی مانند ہوتا ہے۔ اپنی تلاش کے دوران اسے بہت سی عجیب و غریب چیزوں کا تجربہ ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

جاننے کے عمل کی سعی کے دوران؟

مورا کامی:

اسے اپنے تجربات کو زندہ رکھنا پڑتا ہے اور بالآخر وہ جس چیز کی تلاش میں ہوتا ہے اسے پا لیتا ہے۔ لیکن اسے یقین نہیں ہوتا کہ یہ وہی چیز ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہی میرے ناولوں کا تحرک ہے۔ وہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ وہ مجھے مناسب لگتی ہیں۔ وہ میری کہانیوں کی سرگرم طاقتیں ہیں: گُم شدگی، تلاش اور ملنا۔ اور مایوسی، دنیا کے بارے میں ایک نئی آگاہی۔

انٹرویو کنندہ:             

مایوسی بطور رسم مرور؟

مورا کامی:

یہ درست ہے۔ تجربہ بذاتِ خود معنی رکھتا ہے۔ مرکزی کردار اپنے تجربات کے دوران تبدیل ہو چکا ہوتا ہے  یہی اصل چیز ہے۔ یہ نہیں کہ اس نے کیا پایا بلکہ یہ کہ وہ کس قدر تبدیل ہوا۔

انٹرویو کنندہ:

میں آپ کی کتب کے تراجم کے عمل کے بارے میں جاننا چاہوں گا۔ خود بھی ایک مترجم کی حیثیت سے آپ درپیش خطرات سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ آپ نے اپنے مترجم کیسے منتخب کیے؟

مورا کامی:

میرے تین مترجم ہیں  الفریڈ بِرن بوم (Alfred Brinbaum)، فلپ گیبریل (Philip Gabriel)، جے رُوبِن (Jay Rubin)  اور اصول یہ ہے کہ ’’پہلے آئیے پہلے پائیے۔‘‘ ہم دوست ہیں، اس لیے وہ نہایت دیانت دار ہیں۔ وہ میری کتابیں پڑھتے ہیں اور ان میں سے ایک ان پر غور کرتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے! میں خود بھی یہی کرنا پسند کرتا ہوں۔ تو وہ کتاب لے لیتا ہے۔ بحیثیت ترجمہ نگار کے میں جانتا ہوں کہ اچھے ترجمے کے لیے پرجوش ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی اچھا مترجم ہے لیکن وہ کسی کتاب کو زیادہ پسند نہیں کرتا تو سمجھو کہانی ختم۔ ترجمہ نگاری نہایت محنت طلب کام ہے اور یہ وقت لیتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا مترجمین کتابوں پر جھگڑتے نہیں؟

مورا کامی:

نہیں، بالکل نہیں۔ ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ وہ مختلف کرداروں کے حامل مختلف لوگ ہیں۔ Kafka on the Shore کو فِل نے پسند کیا اور ترجمے کے لیے لے لیا۔ جے اس کے بارے میں زیادہ  پرجوش نہیں تھا۔ فِل نہایت معتدل مزاج اور نرم خو شخص ہے اور جے نہایت باریک بیں اور عین مین ترجمہ نگار ہے۔ وہ مضبوط کردار کا حامل ہے۔ الفریڈ رِند مَشرب قسم کا ہے؛ مجھے نہیں پتا کہ وہ آج کل کہاں ہے۔ اس نے میانمار کی ایک عورت سے شادی کر لی تھی جو حریت پسند تھی۔ اسے حکومت نے گرفتار بھی کر لیا تھا۔ تو وہ ایسا آدمی ہے۔ وہ آزاد رو مترجم ہے؛ بعض اوقات تو وہ نثر تک تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ اس کا طریقہ کار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ اپنے مترجمین کے ساتھ کیسے تعاون کرتے ہیں؟ اصل میں یہ کام کیسے کیا جاتا ہے؟

مورا کامی:

ترجمہ کرتے ہوئے وہ مجھ سے بہت سے باتیں دریافت کرتے رہتے ہیں اور جب پہلا مسودہ مکمل ہو جاتا ہے تو میں اسے پڑھتا ہوں۔ بعض اوقات میں انھیں کچھ تجاویز بھی دے دیتا ہوں۔ میری تخلیقات کا انگریزی قالب نہایت اہم ہے؛ کروشیا اور سلووینیا جیسے چھوٹے ممالک ان کا ترجمہ جاپانی کی بجائے انگریزی سے کرتے ہی۔ پس انگریزی ترجمہ نہایت درست ہونا چاہیے۔ لیکن اکثر ممالک اصل جاپانی متن سے ترجمہ کرتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ خود بھی ترجمہ کرنے کے لیے حقیقت نگاروں کو ترجیح دیتے ہیں  مثلاً کارور (Carver)، فٹزجیرالڈ (Fitzgerald)، اِروِنگ (Irving)۔ کیا اس سے بحیثیت قاری کے آپ کے ذوق کی جھلک ملتی ہے، یا پھر یہ چیز آپ کو کسی طور اپنی تحریروں کو مختلف انداز میں ڈھالنے کے لیے ممدو و معاون ثابت ہوتی ہے؟

مورا کامی:

میں نے جن تمام لوگوں کا ترجمہ کیا ہے انھوں نے وہ کتابیں لکھی ہیں جن سے میں کچھ سیکھا ہے۔ اصل بات ہی یہ ہے۔ میں نے  حقیقت نگاروں  سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کے کام کو ترجمہ کرنے کے لیے نہایت باریک بینی سے ان کے مطالعہ کی ضرورت ہے اور اسی طرح میں ان میں مستور محاسن تک پہنچ سکتا تھا۔ اگر میں ڈان ڈیللو (Don DeLilo)، جان بارتھ (John Barth)، یا تھامس پِنچون (Thomas Pynchon) جیسے مابعد جدید مصنفین کا ترجمہ کرتا تو ایک متصادم فضا پیدا ہو جاتی  میرے اور ان کے جنون کے مابین۔ بِلاشبہ، میں ان کے کام کی تعریف کرتا ہوں لیکن میں نے ترجمے کے لیے  حقیقت نگار منتخب کیے۔

انٹرویو کنندہ:

اکثر آپ کی تحریروں کے بارے میں کہا جاتا ہے امریکی قارئین کے لیے جاپانی ادب تک رسائی کا بہت بڑا ذریعہ اس لحاظ سے ہیں کہ آپ کی ذات کو معاصر جاپانی لکھاریوں کا نہایت مغرب زدہ مصنف بیان کیا جاتا ہے۔ آپ جاپانی ثقافت کے ساتھ اپنے تعلّق کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

مورا کامی:

میں دیارِ غیر میں بیٹھ کر غیروں کے بارے میں لکھنا نہیں چاہتا، میں ہمارے اپنے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ میں جاپان کے متعلّق لکھنا چاہتا ہوں، ہماری جاپانی زندگی کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ یہی بات میرے لیے اہم ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میرا اسلوب مغرب والوں کے لیے آسان فہم والا ہے؛ یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن میری کہانیاں میری اپنی ہیں اور مغرب زدہ نہیں ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

اور بے شمار حوالہ جات امریکیوں کو مغربی لگتے ہیں  مثال کے طور پر  the Beatles (لیور پول سے تعلق رکھنے والا راک اور پاپ موسیقی کا ایک معروف طائفہ جس نے ۱۹۶۲ء میں اپنے پہلے گیت Love Me Do ہی سے شہرت پا لی تھی: مترجم)   جو جاپانی ثقافت کا بھی ایک اہم جزو ہیں۔

مورا کامی:

جب میں میکڈونلڈ کا ہیم برگر کھانے والے لوگوں کے بارے میں لکھتا ہوں تو امریکی حیران ہو تے ہیں کہ یہ کردرار ٹوفو (سویابین سے بنی پنیر: مترجم)  کی بجائے ہَیم برگر کیوں کھا رہا ہے؟ لیکن ہَیم برگر کھانا ہمارے لیے نہایت فطری بات ہے کیوں کہ یہ ہماری روزمرہ کی چیز ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ یہ کہیں گے کہ آپ کے ناول معاصر شہری جاپانی زندگی کے عکاس ہیں؟

مورا کامی:  لوگوں کے افعال،ردِّ عمل، بات چیت اور سوچنے کا انداز خالصتاً جاپانی ہے۔ کسی بھی جاپانی قاری نے  ایک بھی جاپانی قاری نے  شکایت نہیں کی کہ میری کہانیاں ہماری زندگی سے مختلف ہیں۔ میں جاپانیوں کے بارے میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں یہ لکھنا چاہتا ہوں کہ ہم کیا ہیں، کہاں جا رہے ہیں اور یہاں کیوں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی میرا موضوع ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے The Wind-UP Chronicles کا حوالہ دیتے ہوئے کہیں فرمایا تھا کہ آپ کو اپنے والد سے، ان کے ساتھ اور ان کی نسل کے ساتھ جو کچھ ہوا میں بہت دِلچسپی تھی لیکن اس ناول میں باپ کا کوئی کردار نہیں بلکہ تقریباً آپ کے تمام افسانوں ہی میں نہیں ہے۔ اس کتاب میں آپ کی یہ دِلچسپی کہاں ظاہر ہوتی ہے؟

مورا کامی:

میرے تقریباً سبھی ناول واحد متکلم میں لکھے گئے ہیں۔ میرے مرکزی کردار کا کام اپنے آس پاس ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کرنا ہوتا ہے۔ وہ مناسب وقت پر وہی دیکھتا ہے جو اسے دیکھنا چاہیے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ وہ The Great Gatsby میں نک کاراوے (Nick Carraway) سے مشابہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ غیر جانب دار ہے اور اسے اپنی غیر جانب داری برقرار رکھنے کے لیے اقارب داری سے، کسی بھی نوع کے عمودی خاندانی نظام سے پاک صاف ہونا چاہیے۔

اس سے یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ میرا جواب اس سچائی کی جانب ہے کہ ’’خاندان‘‘ نے روایتی جاپانی ادب میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں اپنے مرکزی کردار کو خودمختار اور مطلق دکھانا چاہتا تھا۔ اس معاملے میں اس کا شہری ہونے کا مرتبہ ضروری تھا۔ وہ ایسی قسم کا فرد ہے جو قرابت داری اور ذاتی تعلقات کی بجائے آزاد ی اور تنہائی منتخب کرتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی کہانیوں کی تازہ کتاب ’’Super-Frog Saves Tokyo‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے، جن میں ٹوکیو کے نیچے بسنے والے ایک عظیم الجثہ زیرِ زمین رہنے والے کیڑے کا بیان ہے کہ وہ ٹوکیو کو تباہ و برباد کرنے والا ہے، میں manga (جاپان کی کارٹونوں اور مزاح کی صنف جس میں سائنس فکشن یا ماورائی تخیلاتی موضوعات اور بعض اوقات جسمانی اور جنسی تشدّد کا کھلا کھلم بیان ہوتا ہے: مترجم) یا جاپان کی پُرانی فلموں کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکا۔ پھر ٹوکیو کی خلیج میں سوئے ہوئے ایک اور روایتی دیو مالائی عفریت کا ذکر ہے، جو روایت کے مطابق ہر پچاس سال بعد جاگتا ہے اور زلزلہ لاتا ہے۔ کیا آپ کو ان دونوں میں تعلق کا احساس ہے؟ مثلاً، مانگا (manga) کے بارے میں آپ کا کیا احساس ہے؟ کیا آپ اپنے اس کام اور ان میں کوئی تعلق دیکھتے ہیں؟

مورا کامی:

نہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میں بہت زیادہ مضحکہ خیزیوں کا مداح نہیں ہوں۔ میں ان چیزوں سے بالکل بھی متأثر نہیں ہوا تھا۔

انٹرویو کنندہ:

جاپانی لوک داستانوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

مورا کامی:

بچپن میں مجھے بہت سی جاپانی لوک داستانیں اور قدیم کہانیاں سننے کو ملی تھیں۔ جب آپ بڑے ہو رہے ہوں تو ایسی کہانیاں نازک ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اس مافوق الفطرت مینڈک کا وجود کہانیوں کے اس ذخیرے سے برآمد ہو سکتا ہے۔ آپ کا امریکی لوک داستانوں کا اپنا ذخیرہ ہے، جرمنوں کو اپنا اور روسیوں کا اپنا۔ لیکن ایک مشترکہ ذخیرہ ہم The Litte Price، McDonald’s یا the Beatles سے اخذ کر سکتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

عالمی پاپ ثقافتی ذخیرہ۔

مورا کامی:

فی زمانہ لکھی جانے والی کتابوں میں بیانیہ بہت اہم ہے۔ میں نظریات کی پروا نہیں کرتا۔ میں ذخیرہ الفاظ کی بھی پروا نہیں کرتا۔ اہم چیز یہ ہے کہ بیانیہ اچھا ہے یا بُرا۔ انٹرنیٹ کے نتیجے میں ہمارے پاس ایک نئی قسم کی لوک داستانیں ہیں۔ یہ قسم استعارے (metaphor) کی ہے۔ The Matrix  ایک معاصر ذہن کی ایک لوک داستان ہے۔ لیکن ہر شخص نے کہ یہ بیزار کن ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ نے ہایاؤ میازاکی (Hayao Miazaki) کی فلم Spirited Away دیکھی ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ اس میں اور آپ کی تخلیقات میں کچھ چیزیں مشابہ ہیں۔ اس میں وہ بھی لوک داستانوں کے مواد کو ہم عصر بنا کر خوش اسلوبی سے پیش کرتا ہے۔ کیا آپ اس کی فلمیں پسند کرتے ہیں؟

مورا کامی:

نہیں، میں مصنوعی جان داروں کی فلمیں پسند نہیں کرتا۔ میں نے اس فلم کا بہت تھوڑا حصّہ دیکھا ہے لیکن وہ میرے اسلوب میں نہیں ہے۔ میں ایسی چیزوں میں دِلچسپی نہیں رکھتا۔ اپنی کاوشیں ضبط تحریر میں لاتے ہوئے میرا اپنا ایک تصوّر ہوتا ہے اور وہ تصوّر بہت قوی ہوتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ اکثر فلمیں دیکھنے جاتے ہیں؟

مورا کامی:

اوہ، ہاں۔ اکثر و بیشتر۔ میرا پسندیدہ ہدایت کار فِن لینڈ کا ہے  آکی کوریسماکی (Aki Kaurismaki)۔ مجھے اس کی ہر فلم پسند آئی۔ وہ غیرمعمولی ہدایت کار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

اور مزاحیہ۔

مورا کامی:

بے حد مزاحیہ۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے پہلے بتایا ہے کہ مزاح مستحکم کرتا ہے۔ کیا اس کے دیگر فوائد بھی ہیں؟

مورا کامی:

بعض اوقات میں چاہتا ہوں کہ میری قاری قہقہے لگائیں۔ جاپان میں میرے بہت سے قارئین نے ٹرین پر سفر کے دوران میری کتابیں پڑھتے ہیں۔ عام تنخواہ دار رَوزانہ دو گھنٹے سفر میں خرچ کرتا ہے اور وہ دونوں گھنٹے وہ پڑھتے ہوئے گُزارتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری ضخیم کتب دو حصّوں میں شائع کی جاتی ہیں کیوں کہ ایک حصّے کی صورت میں وہ بہت وزنی ہو جاتی ہیں۔ کچھ لوگ مجھے خط لکھ کر شکایت کرتے ہیں کہ دوران سفر وہ میری کتابیں پڑھتے ہوئے قہقہے لگانے لگتے ہیں۔ یہ بات ان کے لیے بہت پریشانی کا باعث ہے۔ مجھے ایسے خط بہت پسند آتے ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ میرے کتابیں پڑھتے ہوئے وہ ہنس رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ میں ہر دس صفحات کے بعد لوگوں کو ہنسانا پسند کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا یہ آپ کا کوئی خفیہ فارمولا ہے؟

مورا کامی:

مجھے یہ تو نہیں پتا لیکن اگر میں یہ کرنے میں کامیاب رہتا ہوں تو یہ اچھی بات ہے۔ جب میں کالج کا طالب علم تھا تو مجھے کرٹ وونیگیٹ (Kurt Vonnegut) اور رچرڈ براٹی گین (Richard Brautigan) کو پڑھنا پسند تھا۔ ان کے ہاں حس مزاح ہے؛ با ایں ہمہ وہ جس بارے میں لکھتے تھے وہ سنجیدہ بھی ہوتا تھا۔ مجھے اس قسم کی کتابیں پسند ہیں۔ پہلی بار میں نے  کرٹ وونیگیٹ اور رِچرڈ براٹی گین کو پڑھا تو یہ دیکھ کر سن ہو کر رہ گیا کہ وہ ایسی کتب تھیں! وہ جیسے ایک دنیا کی دریافت تھی۔

انٹرویو کنندہ:             

لیکن آپ نے تو کبھی اس نوع کی کوئی نگارش تحریر نہیں کی؟

مورا کامی: 

میرا خیال ہے کہ یہ دنیا، یہ شہری زندگی بذاتِ خود ایک دِلچسپ شے ہے۔ ٹی وی کے پچاس چینل، احمق حکومتی لوگ  یہ  دلچسپ ہی تو ہے۔ پس میں سنجیدہ رہنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میں جتنی زیادہ سعی کرتا ہوں میں اتنا ہی مزاح نگار ہو جاتا ہوں۔ ۱۹۶۸ء اور ۱۹۶۹ء میں جب میں انیس برس کا تھا تو ہم لوگ نہایت ہی سنجیدہ ہوتے تھے۔ وہ متانت کا زمانہ تھا اور لوگ نہایت اصول پرست ہوتے تھے۔

انٹرویو کنندہ:

یہ امر نہایت دلچسپ ہے کہ Norwegian Wood، جو اس زمانے کا احاطہ کرتی ہے، شاید آپ کی کتابوں میں سب سے زیادہ مزاحیہ کتاب ہے۔

مورا کامی:

اس تناظر میں ہماری نسل سنجیدہ نسل ہے۔ لیکن اب جب میں ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں تو وہ سب مجھے انتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے۔ وہ ابہامی دور تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسی لیے ہم– ہماری نسل– اس کے عادی ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

طلسماتی حقیقت نگاری کا ایک اہم؍بنیادی اصول کہانی کے تخیلاتی عناصر کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ تاہم، آپ نے اس اصول سے انحراف کیا: آپ کے کردار اکثر کہانی کے عجیب و غریب ہونے پر نہ صرف گفتگو کرتے ہیں بلکہ قاری کی بھی اس طرف توّجہ دِلاتے ہیں۔ اس سے کیا مقصد حاصل ہوتا ہے؟ اور کیوں؟

مورا کامی:

یہ نہایت دلچسپ سوال ہے۔ مجھے اس پر غور کرنا پڑے گا… خوب، میرا خیال ہے کہ یہ میرا دیانت دارانہ مشاہدہ ہے کہ دنیا کس قدر عجیب ہے۔ میرے مرکزی کردار اسی تجربے سے گُزرتے ہیں جو لکھتے ہوئے مجھے ہوتا ہے اور جو قاری کو پڑھتے ہوئے ہوتا ہے۔ کافکا اور گارشیا مارکیز نے جو کچھ لگا وہ کلاسیکی لحاظ سے زیادہ ادب ہے۔ میری کہانیاں زیادہ اصلی، زیادہ معاصر اور زیادہ مابعد جدیدیت کے تجربات ہیں۔ فلم کے ایک منظر کے بارے میں سوچیں جہاں ہر سجی ہوئی ہر چیز سارے ستون، دِیوار گیر الماری میں کتابیں، الماریاں  سب کچھ مصنوعی ہوتا ہے۔ دِیواری کاغذی ہوتی ہیں۔ کلاسیکی طلسماتی حقیقت نگاری  میں دِیواریں اور کتابیں حقیقی ہوتی ہیں۔ اگر میرے افسانے میں کوئی شے مصنوعی ہوتی ہے تو میں اسے مصنوعی ہی بتانا پسند کرتا ہوں۔ میں اسے اصل دِکھانے کی کوشش نہیں کرتا۔

انٹرویو کنندہ:

فلم والے سیٹ کے استعارے کی بات جاری رکھتے ہیں۔ شاید کیمرے کو پس منظر میں رکھنے کی وجہ سٹوڈیو کا کام دکھانا ہو؟

مورا کامی:

میں قاری کو قائل نہیں کرنا چاہتا کہ یہ حقیقی چیز ہے۔ جو ہے، میں اسے وہی دِکھانا چاہتا ہوں۔ ایک طرح سے  میں انھیں بتاتا ہوں کہ یہ محض ایک کہانی ہے  ایک من گھڑت بات۔ لیکن جب مصنوعی کو حقیقی دِکھانے کا تجربہ کیا جاتا ہے تو وہ حقیقی ہو بھی سکتا ہے۔ اس کی وضاحت آسان نہیں ہے۔

انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز میں، لکھاری حقیقی چیزیں لکھتے تھے؛ یہی ان کا مقصد ہوتا تھا۔ War and Peace میں ٹالسٹائی میدانِ جنگ کو اِتنی باریک بینی سے دِکھاتا ہے کہ قارئین نے یقین کر لیا کہ وہ حقیقی ہے۔ لیکن میں یہ نہیں کرتا۔ میں مصنوعی چیزوں کو حقیقی دِکھانے کی حیلہ سازی نہیں کرتا۔ ہم مصنوعی دنیا میں جی رہے ہیں، شام کی مصنوعی خبریں دیکھ رہے ہیں، مصنوعی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہماری حکومت مصنوعی ہے۔ لیکن ہمیں اسی مصنوعی دنیا میں حقیقت ملتی ہے۔ پس ہماری کہانیاں بھی ایسی ہی ہیں؛ ہم مصنوعی مناظر میں چلتے پھرتے ہیں لیکن ان مصنوعی مناظر میں چلتے پھرتے ہم لوگ حقیقی ہیں۔ صُورتِ حال اس لحاظ سے حقیقی ہے کہ یہ ذمّہ داری ہے، ایک سچا تعلّق ہے۔ میں یہ کچھ لکھنا پسند کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

اپنی تحریروں میں آپ بار بار دنیا کی جانب پلٹتے ہیں۔

مورا کامی:

مجھے جزئیات نگاری پسند ہے۔ ٹالسٹائی مکمل منظر نگاری پسند کرتا تھا لیکن میری منظر نگاری چھوٹے سے حصّے پر مرتکز ہوتی ہے۔ جب چھوٹی چھوٹی چیزوں یا واقعات کی جزئیات بیان کی جاتی ہیں تو مرکزِ نگاہ قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور صورتِ حال ٹالسٹائی کے برعکس واقع ہوتی ہے  زیادہ غیر حقیقی ہو جاتی ہے۔ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

اس قدر مرکز نگاہی جس سے آپ حقیقت نگار کے خطے سے گزرتے ہیں اور ہر روز گزرتے ہیں تویہ بار بار کا معمول عجیب و غریب بن جاتا ہے؟

مورا کامی:

جتنی باریک بینی سے دیکھا جائے، چیز اُتنی ہی غیر حقیقی ہوتی جاتی ہے۔ یہی میرا اسلوب ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے بتایا ہے کہ آپ کی تحریروں کے برعکس گارشیا مارکیز اور کافکا ادب لکھنے والے ہیں۔ کیا آپ اپنے آپ کو ادب کا لکھاری نہیں سمجھتے؟

مورا کامی:

میں معاصر ادب کا لکھاری ہوں جو مختلف ہے۔ جس زمانے میں کافکا لکھ رہا تھا صرف موسیقی، کتابیں اور تھیٹر ہوتے تھے؛ اب انٹرنیٹ، فلموں، کرائے پر دستیاب ویڈیوز اور نجانے کیا کیا کچھ ہے۔ اب مقابلہ سخت ہے۔ اصل مسئلہ زمانے کا ہے: انیسویں صدی میں لوگ میں فارغ البال طبقے کی بات کر رہا ہوں کے پاس صرف کرنے کے لیے بہت وقت تھا،اس لیے وہ ضخیم کتابیں پڑھتے تھے۔  اِس لیے وہ ضخیم کتابیں پڑھتے تھے۔ وہ اوپیرا جاتے اور وہاں تین چار گھنٹے بیٹھے رہتے تھے۔ لیکن اب ہر شخص مصروف ہے اور اصل میں کسی طبقے کو فرصت نہیں ہے۔ موبی ڈِک یا دوستوفسکی کو پڑھنا اچھی بات ہے لیکن لوگ مصروف ہی بہت ہیں۔ پس افسانے نے خود کو خطرناک حد تک تبدیل کر لیا ہمیں لوگوں کو گردن سے پکڑ کر ادب کی طرف لانا پڑتا ہے۔معاصر ادیب دِیگر میدانوں کی تکنیکیں استعمال کر رہے ہیں جاز، بصری کھیل (video games) ، اور ہر چیز۔ میرا خیال ہے کہ فی زمانہ بصری کھیل، دیگر ان کے مقابلے میں، افسانے کے زیادہ نزدیک ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

 بصری کھیل؟

مورا کامی:

ہاں۔ میں خود تو بصری کھیل کھیلنا پسند نہیں کرتا لیکن میں نے مماثلت محسوس کی ہے۔ بعض اوقات لکھتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں بہ یک وقت بصری کھیل بنانے والا اور اس کا کھلاڑی بھی ہوں۔ میں پروگرام ترتیب دیتا ہوں اور اب میں کھیل کے وسط میں ہوں؛ بایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ دایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے۔ یہ ایک طرح کی علیحدگی ہے۔ ٹوٹ جانے کا ایک احساس۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ آپ کو کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ آگے آپ کیا لکھیں گے لیکن آپ کا دوسرا حصّہ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟

مورا کامی:

میرا خیال ہے کہ لاشعوری طور پر۔ جب میں دنیا و مافیہا سے بے خبر لکھ رہا ہوتا ہوں تو مجھے پتا ہوتا ہے کہ مصنف کیا محسوس کر رہا ہے اور قاری کیا محسوس کر رہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے اس سے میرے لکھنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ میں بھی قاری ہی کی مانند مشتاق ہوتا ہوں کہ آگے کیا ہو گا۔ لیکن بعض اوقات واقعات کو تھامنا پڑتا ہے۔ اگر بہت جلد ہو جائے تو لوگ اُکتا اور بیزار ہو جائیں گے۔ ایک خاص مقام پر انھیں روکنا پڑتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:             

اور یہ کام آپ کس طرح کرتے ہیں؟

مورا کامی:

بس مجھے محسوس ہو جاتا ہے۔ مجھے پتا چل جاتا ہے کہ اب ٹھیرنے کا مقام ہے۔

انٹرویو کنندہ:

جاز اور موسیقی پر آپ کی عمومی رائے کیا ہے؟ یہ آپ کے کام کے لیے کس طرح مفید ہیں؟

مورا کامی:

میں تیرہ چودہ برس کی عمر سے جاز سن رہا ہوں۔ موسیقی نہایت قوی اثرات رکھتی ہے: لکھتے ہوئے موسیقی، دھنیں، ردھم اور سروں کے احساسات میرے لیے بہت مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ میں ایک موسیقار بننا چاہتا تھا لیکن میں آلات موسیقی بہ خوبی استعمال نہیں کر سکتا تھا، اس لیے میں مصنف بن گیا۔ لکھنا بھی موسیقی بجانے کے مترادف ہے: پہلے میں موضوع کو بجاتا ہوں، پھر میں نغمہ سرائی کرتا ہوں اور پھر کوئی نہ کوئی انجام دے دیتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

روایتی جاز موسیقی میں ابتدائی موضوع اپنی جانب لوٹ کر انجام کو پہنچتاہے۔ کیا آپ اپنے آپ کی طرف لوٹتے ہیں؟

مورا کامی:

بعض اوقات۔ جاز میرے لیے ایک سفر، ایک ذہنی سفر کی مانند ہے۔ اس میں اور لکھنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کون کون سے جاز موسیقار آپ کو پسند ہیں؟

مورا کامی:

بہت سے ہیں! سٹان گیٹز (Stan Getz) اور جیری مُلیگین (Gerry Mulligan) میرے پسندیدہ ہیں۔ جب میں نوجوان تھا تو سدابہار نہایت سکون بخش موسیقار تھے۔ بے شک مجھے مائلز ڈیوس (Miles Davis) اور چارلی پارکر (Charlie Parker) بھی پسند ہیں۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں کس کو سب سے زیادہ نیا موڑ دینے والا سمجھتا ہوں تو میرا جواب ہو گا کہ پچاس سے ساٹھ کی دہائی میں مائلز۔ مائلز ہمیشہ کوئی نہ کوئی نئی اختراع کرتا رہتا تھا۔ وہ ایک موسیقار تھا جس کے اپنے انقلاب تھےمیں اس کی بے حد تحسین کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ کولٹرین (Coltrane) کو پسند کرتے ہیں؟

مورا کامی:

اوہ، کچھ کچھ۔ بعض اوقات تو وہ بہت اچھی موسیقی دیتا ہے، نہایت اثر پذیر۔

انٹرویو کنندہ:

موسیقی کی دوسری قِسموں کے بارے میں کیا کہیں گے؟

مورا کامی:

مجھے کلاسیکی موسیقی بھی پسند ہے، خاص طور پر baroque موسیقی (سترھویں اور اٹھارہویں صدی کی یورپی موسیقی۔ نیز اس دور کے دیگر فنونِ لطیفہ کو بھی baroque کہا جاتا ہے:مترجم)۔ میری نئی کتاب Kafka on the Shore کا مرکزی کردار، لڑکا، ریڈیوہیڈ (Radiohead) اور پرنس (Prince) کو سنتا ہے۔ میں جان کر بہت حیرت زدہ ہوا کہ ریڈیوہیڈ کا کوئی رکن میری کتابیں پسند کرتا ہے!

انٹرویو کنندہ:

میں حیران نہیں ہوا۔

مورا کامی:

میں نے گزشتہ روز Kid A کے لیے جاپانی ادب پر تبصرہ سنا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے میری کتابیں بہت پسند ہیں تو مجھے نہایت فخر محسوس ہوا۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ مجھے Kafka on the Shore کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟

مورا کامی:

یہ میرے ناولوں میں سب سے زیادہ پیچیدہ ہے، The Wind-Up Chronicles سے بھی زیادہ پیچیدہ۔ اسے سمجھانا تقریباً ناممکن ہے۔

اس میں دو کہانیاں متوازی چلتی ہیں۔ میرا مرکزی کردار ایک پندرہ سالہ لڑکا ہے۔ اس کا نام، اس کے نام کا پہلا حصّہ کافکا ہے۔ دوسری کہانی میں مرکزی کردار ایک ساٹھ سالہ بوڑھا شخص ہے جو پڑھ لکھ نہیں سکتا۔ وہ ایک سادہ شخص ہے لیکن وہ بلیوں سے بات چیت کر سکتا ہے۔ اس لڑکے کافکا کو اس کے باپ نے لعنت ملامت کی۔ اوڈیپل (Oedipal) قسم کی لعنت ملامت: تم مجھے، اپنے باپ کو مار ڈالو گے۔ تم اپنی ماں سے عشق لڑاؤ گے۔ وہ اپنے باپ کے پاس سے بھاگ نکلتا ہے تاکہ اپنے باپ کی بددعا سے فرار پا سکے۔ وہ ایک دور دراز مقام پر چلا جاتا ہے لیکن اس کا واسطہ نہایت عجیب و غریب دنیا، نہایت غیر حقیقی اور خواب جیسے حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

بنت کے لحاظ سے یہ Hard-Boiled Wonderland and the End of World سے مماثل ہے، جس میں ناول باب در باب آگے پیچھے بڑھتا ہوا ایک کہانی سے دوسری کی سمت جاتا ہے؟

مورا کامی:

درست۔ شروع میں میں نے اسے Hard-Boiled Wonderland کے نقشِ ثانی کے طور پر لکھنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اسے مکمل طور پر ایک مختلف کہانی لکھا جائے۔ لیکن اسلوب نہایت مماثل ہے۔ اس کی روح نہایت مماثل ہے۔ موضوع بھی یہ دنیا اور وہ دنیا ہے کہ دونوں میں کیسے آیا جایا جا سکتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

میں یہ سن کر نہایت پُرجوش ہو گیا ہوں کیوں کہ آپ کی Hard-Boiled Wonderland میری پسندیدہ کتاب ہے۔

مورا کامی:

میری بھی۔ وہ بہت اُولوالعزمی کی حامل کتاب ہے اور نئی طرح کی بھی کیوں کہ میری کتابوں میں ہمیشہ مرکزی کردار اپنی عمر کی بیسیویں یا تیسویں دہائی میں ہوتے ہیں لیکن اس بار پندرہ سالہ لڑکا مرکزی کردار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

زیادہ ہولڈن کول فیلڈ (Holden Caulfield)کی طرح؟

مورا کامی:

یہ درست ہے۔ اسے لکھتے ہوئے میں بھی ایک طرح کے جوش میں مبتلا ہو گیا تھا۔ جب میں لڑکے کے بارے میں لکھ رہا تھا تو مجھے یاد آرہا تھا کہ پندرہ برس کی عمر میں میں خود کیسا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یادیں انسان کا نہایت اہم اثاثہ ہیں۔ یہ ایک طرح کا ایندھن ہیں جو جلاتی بھی ہیں اور گرم بھی رکھتی ہیں۔ میری یادیں الماری کی مانند ہیں جس میں بہت سے دراز ہیں۔ جب میں پندرہ سالہ لڑکا بننا چاہتا ہوں تو ایک خاص دراز کھولتا ہوں اور میرے سامنے وہ مناظر ہوتے ہیں جب میں کوبے میں ایک لڑکا ہوا کرتا تھا۔ میں وہاں کی فضا میں سانس لے سکتا ہوں، اس زمین کو چُھو سکتا ہوں اور درختوں کی ہریالی دیکھ سکتا ہوں۔ یہ وجہ ہے کہ میں ایک کتاب لکھنا چاہتا تھا۔

انٹرویو کنندہ:             

ان پندرہ سالوں کے ادراک تک رسائی کے لیے؟

مورا کامی:

کہہ سکتے ہیں۔ ہاں۔

انٹرویو کنندہ:

جاپان میں کسی اور جگہ کی بجائے کوبے میں پلنا بڑھنا آپ کے اسلوب کی تشکیل کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے؟ کوبے کی شہرت ایک دنیا دار اور ممکنہ حد تک کچھ نہ کچھ منحرف المرکز قصبے کی بھی ہے۔

مورا کامی:

کوبے کی نسبت کیوٹو کے لوگ عجیب و غریب ہیں! وہ پہاڑوں میں گھِرے ہوئے لوگ ہیں۔ اسی لیے ان کی ذہنیت بھی مختلف ہے۔

انٹرویو کنندہ:

لیکن آپ تو کیوٹو میں پیدا ہوئے تھے؟ کیا یہ درست ہے؟

مورا کامی:

ہاں، لیکن جب میں دو برس کا تھا تو ہم کوبے چلے آئے تھے۔ وہاں سے بس میرا اتنا ہی تعلق ہے۔ کوبے ایک طرح کی پٹّی پر سمندر کے کنارے اور پہاڑوں کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔ مجھے ٹوکیو پسند نہیں کیوں کہ یہ نہایت سپاٹ اوربہت وسیع و عریض ہے۔ میں یہاں رہنا پسند نہیں کرتا۔

انٹرویو کنندہ:

لیکن آپ یہاں رہتے ہیں! مجھے یقین ہے کہ آپ جہاں چاہیں قیام رکھ سکتے ہیں۔

مورا کامی:

میں یہاں اس رہتا ہوں کہ یہاں میں گُم نام رہ سکتا ہوں۔ یہی صُورتِ حال نیویارک کی ہے۔ کوئی مجھے پہچانتا نہیں اور میں جہاں چاہوں جا سکتا ہوں۔ میں ٹرین پر بھی سفر کروں تو کوئی مجھے تنگ نہیں کرے گا۔ ٹوکیو کے مضافات میں میرا اَیک چھوٹا سا گھر ہے اور وہاں کا ہر شخص مجھے جانتا ہے۔ میں جب بھی سیر کے لیے باہر نکلتا ہوں تو شناخت کر لیا جاتا ہوں۔ بعض اوقات تو اس صُورتِ حال پر برہم بھی ہو جاتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے قبل ازیں ریو مُوراکامی کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کا بہ طور مصنف نہایت مختلف ایجنڈا دِکھائی دیتا ہے۔   

مورا کامی:

میرا اسلوب مابعد جدیدیت والا ہے لیکن اس کا ویسا ہی جیسا سب لکھ رہے ہیں۔ لیکن جب میں نے پہلی بار Coin Locker Babies پڑھی تو میں سکتے میں آگیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی ایسا ہی ایک ناول لکھوں گا۔ تب میں نے A Wild Sheep Chase لکھنا شروع کیا۔ یہ ایک طرح کی رقابت ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ دونوں دوست ہیں؟

مورا کامی:

ہمارے بہت اچھے تعلّقات ہیں۔ کم ازکم ہم دشمن ہر گز نہیں ہیں۔ وہ خِلقی اور نہایت قوّی صلاحیت کا حامل ہے جیسے بالکل سطح زمین کے عین نیچے تیل کا کنواں ہو۔ لیکن میرے معاملے میں تیل بہت ہی نیچے تھا کہ مجھے خوب خوب کھود کر نکالنا پڑا۔ یہ واقعی سخت محنت کا کام تھا اور مجھے یہاں تک پہنچنے میں بہت عرصہ لگا۔ میں طاقت وَر اور پُراعتماد تھا۔ میری زندگی ایک ضابطہ کار سے جُڑی تھی۔ میرے لیے کھود کھود کر نکالنا ہی بہتر تھا۔

:::

 

]انگریزی متن بشکریہ ’’دی پیرس ریویو‘‘ [(The Paris Review)

Authors

  • ۱۲ جنوری ۱۹۴۹ء کو کیوٹو میں پیدا ہونے والے ہاروکی موراکامی جاپان کا معروف مصنف اور ترجمہ نگار ہیں۔ گارڈین نے ان کا شمار عظیم ترین حیات ناول نگاروں میں کیا ہے۔ ہاروکی موراکامی کی جوانی شوکوگاوا (نشنومیا)، آشیا اور کوبے میں بسر ہوئی جہاں ان کے ماں باپ دونوں جاپانی ادب کے استاذ تھے۔ ہاروکی موراکامی بچپن ہی سے مغربی ثقافت بالخصوص مغربی ادب و موسیقی سے بہت متأثر تھے۔ وہ متعدد امریکی ادیبوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بڑے ہوئے۔ یہی مغربی اثر انھیں بہت سے دیگر جاپانی ادیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ٹوکیو میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کی ملاقات اپنی ہونے والی بیوی یوکو سے ہوئی۔ تعلیم ختم ہونے سے کچھ عرصہ قبل اُنھوں نے پیٹر کیٹ کے نام سے کوکوبُنجی ٹوکیو میں ایک کافی ہاؤس اور موسیقی گھر کھول لیا جسے دونوں میاں بیوی ۱۹۷۴ء سے ۱۹۸۴ء تک چلاتے رہے۔ موراکامی نے انتیس برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس سے قبل میں نے کبھی کچھ نہیں لکھا تھا۔ میں ایک عام آدمی تھا اور جاز بار چلاتا تھا۔ میں نے کبھی کوئی چیز تخلیق نہیں کی تھی۔‘‘ انھیں اپنے پہلے ناول ’’ہوا کا گیت سنو‘‘ کی، جو ۱۹۷۹ء میں اشاعت پذیر ہوا، تحریک ۱۹۷۸ء میں بیس بال کا ایک میچ دیکھتے ہوئے ملی۔ وہ گھر گئے اور اُنھوں نے اسی رات لکھنا شروع کر دیا۔ مورا کامی نے اس ناول پر سات ماہ تک کام کیا۔ وہ دن میں بار میں کام کرتے اور رات کو تھوڑا تھوڑا کر کے ناول کو لکھتے۔ ناول مکمل کر کے انھوں نے ناول کو اس واحد ادبی مقابلے میں بھیج دیا جو اتنی ضخامت کے ناول قبول کرتا تھا جتنی کا یہ ناول ہے۔ ناول نے پہلا انعام حاصل کر لیا۔ اس کامیابی نے انھیں مزید لکھنے کا حوصلہ عطا کیا اور انھوں نے متعدد ناول لکھے۔ ان کے ابتدائی دو غیر مطبوعہ ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ شائع ہوا۔ موراکامی نے ان ناولوں کو کمزور قرار دیا ہے اور وہ ان کے انگریزی میں ترجمے کے حق میں نہیں تھے۔ ۱۹۸۵ء میں ’’ہارڈ بوائلڈ ونڈرلینڈ اینڈ دی اَینڈ آف دی ورلڈ‘‘ تحریر کیا جس میں خواب جیسی ایک فینتاسی ہے۔ یہی فینتاسی بعد میں موراکامی کے عروج تک پہنچتے پہنچتے ان کی تحریروں میں انتہائی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ مورا کامی کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے والا ناول ’’نارویجین وڈ‘‘تھا جو ۱۹۸۷ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس ناول کی کہانی خسارے اور جنس پرستی کا ناستالجیا ہے۔ یہ ناول نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہوا اور اس نے ان کی جاپان میں شہرت بام عروج پر پہنچا دی۔ یہ ناول سبز اور سرخ دو جلدوں میں شائع کیا گیا جو اکٹھی فروخت کی جاتی تھیں۔ یوں اس کی فروخت کی تعداد دوگنا رہی اور اس طرح اس کے لاکھوں نسخے فروخت ہوئے۔ ۱۹۸۶ء میں مورا کامی جاپان سے نکلے اور پورا یورپ گھومنے کے بعد امریکا میں قیام پذیر ہو گئے۔ جہاں انھوں نے امریکا کی پرنسٹن اور ٹُفٹس یونیورسٹیوں میں بطور ’’رائٹنگ فیلو‘‘ کام کیا۔ اسی دوران انھوں نے ’’ویسٹ آف دی سن، ساؤتھ آف دی بارڈر‘‘ اور ’’دی وائنڈ اپ کرونیکل‘‘ تحریر کیے۔ ۱۹۹۵ء میں اُنھوں نے ’’دی وائنڈ اپ کرونیکل‘‘ شائع کروایا جو ایک ایسا ناول ہے جس میں حقیقت اور فینتاسی کو مدغم کیا گیا ہے اور جسمانی تشدد کے عنصر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ ناول ان کے سابقہ ناولوں کی نسبت زیادہ سماجی آگاہی رکھتا ہے۔ جزوی طور پر اس میں مانچوکو (شمال مشرقی چین) کے جنگی جرائم کے مشکل موضوع کو برتا گیا ہے۔ اس ناول پر انھیں جاپان کے ادبی انعام Yomiuri سے نوازا گیا جو انھیں ۱۹۹۴ء کے نوبیل انعام یافتہ ادیب کینزا بورو اوئے نے دیا جو کسی زمانے میں ان کا سخت نقاد رہا تھا۔ اس ناول کی تکمیل کے بعد ہاروکی موراکامی واپس جاپان لوٹ آئے۔ اب ان کی تحریروں کا اہم موضوع شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے نفسیاتی صدمات بن گئے تھے۔ ’’سپوتنک سویٹ ہارٹ‘‘ پہلی بار ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا اور ’’کافکا آن دی شور‘‘ ۲۰۰۲ء، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۰۵ء میں ہوا۔ ’’کافکا آن دی شور‘‘کو ۲۰۰۶ء میں ناولوں کا ورلڈ فینتاسی ایوارڈ دیا گیا۔ ’’آفٹر ڈارک ‘‘ کا انگریزی روپ ۲۰۰۷ء میں سامنے آیا جسے نیویارک ٹائمز نے ’’سال کی قابلِ ذکر کتاب‘‘ قرار دیا۔ ۲۰۰۵ء کے آخیر میں موراکامی نے مختصر کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’ٹوکیو کتان شو‘‘ کے نام سے شائع کروایا جس کا ڈھیلا ڈھالا ترجمہ ’’مسٹریز آف ٹوکیو‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ ان کی چوبیس کہانیوں کے ترجمے کا مجموعہ اگست ۲۰۰۶ء میں ’’بلائنڈ ولوز، سلیپنگ وومن‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ جس میں موراکامی کے ۱۹۸۰ء کی دہائی سے لے کر تازہ ترین کہانیوں کا انتخاب شامل کیا گیا جن میں ’’ٹوکیو کتان شو‘‘ کی پانچوں کہانیاں بھی شامل ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں انھوں نے ’’برتھ ڈے سٹوریز‘‘ شائع کروائیں جو تمام کی تمام سالگرہ کے موضوع پر ہیں۔ اس مجموعے میں دیگر انگریزی مصنفین کے ساتھ ساتھ موراکامی کی اپنی کہانی بھی شامل ہے۔ ۲۹ مئی ۲۰۰۹ء کو ’’آئی کیو۸۴ ‘‘ شائع ہوا۔ جاپانی زبان ’’کیو ‘‘ ۹ کے ہندسے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِس طرح ’’آئی کیو۸۴ ‘‘ سے ۱۹۸۴ بنتا ہے۔ اس ضخیم ناول نے خریداری کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس ناول کو ۲۰۱۱ء کو ’’مین ایشین لٹریری پرائز ‘‘کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔ موراکامی کی ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۰ء کے بیچ لکھے جانے والی متعدد کہانیاں انگریزی میں ’’دی ایلیفینٹ وینیشز ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ ہو چکی ہیں۔ موراکامی نے بھی متعدد ادیبوں مثلاً ایف سکاٹ فٹز جیرالڈ، ریمنڈ کارور، ٹرومین کیپوٹ، جان اِروِنگ اور پال تھیراؤکس کے ڈھیر سارے ادبی کام کو جاپانی زبان میں منتقل کیا ہے۔ موراکامی کی اپنی تحریروں کے بھی پچاس سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ان کے متعدد ناولوں اور افسانوں کو فلمایا بھی جا چکا ہے۔ موراکامی کو ملنے والے انعامات و اعزازت کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے دو کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ وہ چیک ری پبلک کا قابل قدر انعام ’’فرانز کافکا پرائز‘‘ پانے والے چھٹے ادیب ہیں جو انھیں ان کے ناول ’’کافکا آن دی شور‘‘ پر ۲۰۰۶ء میں دیا گیا۔ نیز دیگر انعامات و اعزازات بھی اس طویل فہرست میں شامل ہیں۔ جنوری ۲۰۰۹ء میں انھیں اسرائیل کے یروشلم پرائز کا حقدار ٹھیرایا گیا۔ فروری ۲۰۰۹ء میں یہ انعام وصول کرنے کی تقریب کے وقت نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر میں ہر جگہ انھیں اپنے خلاف شدید احتجاج اور کتابوں کے بائیکاٹ کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اسی عرصے میں اسرائیل نے غزہ میں وحشیانہ بمباری کی تھی۔ لیکن موراکامی نے تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا اور انھوں نے تقریب کے شرکاء اور اسرائیلی اعلیٰ عہدیداران سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی پالیسیوں کو شدّید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ۲۰۱۱ء میں ’’انٹرنیشنل کاتالیونیا پرائز‘‘سے حاصل ہونے والی ۰۰۰،۸۰ یورو کی خطیر رقم اُنھوں نے ۱۱؍ مارچ کو زلزلے اور سونامی کے متأثرین اور فیوکو شیما کے نیوکلیائی حادثے کے شکار لوگوں کے لیے وقف کر دی۔ انعام وصولی کی تقریب سے تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ’’ یہ دُوسرا بڑا نیوکلیائی سانحہ ہے جسے جاپانی عوام کو سہنا پڑا ہے…… لیکن اِس بار بم ہم پر نہیں گرایا گیا بلکہ ہمارے اپنے ہاتھوں غلطی ہوئی ہے۔‘‘ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

1 thought on “ہاروکی مورا کامی”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *