تراجم عالمی ادب

انٹرویو

شہرت یافتہ

ہاروکی مورا کامی

(Haruki Murakami)

انٹرویوکنندہ: جان رے

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

 

میں اپنے طور پر حقیقت نگاری کے اسلوب کو پسند نہیں کرتا۔ تخیلاتی اسلوب …— ہاروکی مورا کامی ۔ ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: ہاروکی مورا کامی

ہاروکی مورا کامی انگریزی میں ترجمہ ہونے والا نہ صرف تجرباتی بلکہ نہایت معروف جاپانی ناول نویس بھی ہیں کہ دنیا بھر میں اس کی کتب کی فروخت لاکھوں میں ہے۔ ان کے بہترین ناول حقائق نگاری اور حکایت، انجام تک قاتل کو پردۂ راز میں رکھنے والی سِری کہانی اور سائنس فکشن کی دہلیز پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرHard-Boiled Wonderland and the End of the World ایک ایسے کردار کو پیش کرتا ہے جو حقیقتاً دو دماغ رکھتا ہے اور The Wind-Up Bird Chronicles کا، جسے شاید جاپان سے باہر سب سے زیادہ پذیرائی ملی ہے،  اعلیٰ نثر سے آغاز ہوتا ہے ایک شخص کی اپنی گُم شدہ بیوی کی تلاش سے پھر یکایک ناول ایک عجب نوع کے میل دار بیانیے میں بدل جاتا ہے۔ یہ ناول لارنس سٹرن کے ناول Tristran Shandy کے بعد پہلی بار اس طرح لکھے جانے والا ناول ہے۔ مورا کامی کی دنیا شناسا علامات سے بُنی ہوئی ایک مثالی دنیا ہے ایک خالی کنواں، ایک زیرِ زمین شہر لیکن ان علامات کے آخر تک مہر بند مفاہیم برقرار رہتے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے معروف ثقافت سے (اور بالخصوص امریکی پاپ (pop) ثقافت) سے یہ مستعار لیا ہے  تاہم کے بارے میں دلیل دی جا سکتی ہے کہ کسی اَور مصنف کے کام کی تجسیم کبھی اس قدر ذاتی نہیں رہی۔

مورا کامی قومی ثقافت کی خلقی دِلچسپی لیے ۱۹۴۹ء میں جاپان کے پُرانے دارالخلافہ کیوٹو (Kyoto) میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جاپانی ادب کے معلّم تھے اور ان کے دادا ایک بُدھ بھکشو۔ جب وہ دو برس کا تھے تو ان کا خاندان کوبے (Kobe) چلا آیا اور یہی وہ شہر ہے جس نے، جہاں مسلسل غیر ملکیوں کا اژدحام رہتا تھا (خاص طور پر امریکی کشتی رانوں کا)، ان کی حساسیت کو جِلا بخشی۔ مورا کامی نے چھوٹی سی عمر ہی میں جاپانی ادب، فن اور موسیقی کو ردّ کرتے ہوئے نہایت باریک بینی سے جاپان سے باہر کی دنیا کو دریافت کِیا، ایک ایسی دنیا جس سے وہ صرف جاز موسیقی، ہالی وُڈ کی فلموں اور سستی دکانوں کے کاغذی ڈبّوں کے ذریعے آشنا تھا۔

ساٹھ کی دہائی کے آخر میں جب مورا کامی ایک طالب علم تھے تو ان میں مابعد جدید افسانوی ادب کا ذوق پیدا ہوا جب کہ وہ خاموشی اور ہمدردی سے احتجاجی تحریک کو عروج تک پہنچتے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے تیئس برس کی عمر میں شادی کی اور ٹوکیو میں ’’پیٹر کیٹ‘‘ نامی جاز موسیقی کا کلب کئی برسوں تک چلایا اور اپنے پہلے ناول کی اشاعت سے قبل اس امر کو یقینی بنایا کہ انھیں ادب سے آمدن ہو۔ ناول Hear the Wing Sing نے، جو انگریزی میں ترجمہ تو ہوا لیکن مصنف کی اپنی استدعا پر جاپان سے باہر دستیاب نہیں ہے، اسے کثیر رقمی Gunzo Literature Prize دِلوایا اور قارئین حاصل کرنے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ پھر ہر آنے والی کتاب سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ جے ڈی سِنگر کے ’’اسّی کی دہائی کا جاپانی ادب‘‘ کے مطابق ۱۹۸۷ء میں ان کے پہلے حقیقت نگاری والے  ناول’’ناوویجین‘‘ نے انھیں ادب کے بلند ترین مقام پر براجمان کر اور ’’اپنی نسل کی حقیقی آواز‘‘ بنا دیا۔ صرف جاپان میں اس ناول کے بیس لاکھ نسخے فروخت ہوئے جو ٹوکیو میں گھروں کی تعداد کے برابر ہے۔

اس کے بعد مورا کامی اپنے آبائی وطن میں قیام سے گریزاں ہو کر برسوں سے دیارِ غیر میں بستے ہوئے اپنی مقبولیت کو دنیا بھر میں قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ یورپ اور امریکا میں رہے۔ حتّٰی کہ وہ اپنا ناول ’’دی وائنڈ اَپ کرونیکلز‘‘ کو پرنسٹن اور ٹُفٹس میں معلّم کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ضبطِ تحریر میں لائے۔ گو وہ  ’’ناوویجین ووڈ‘‘ جیسے براہِ راست ردھم کو تو دوبارہ نہیں پہنچ سکا لیکن ان کے ناولوں کو ہر بار پہلے سے زیادہ قارئین کی تعداد میسر آئی ان کے نئے ناول Kafka on the Shore کے اب تک جاپان میں تین ہزار نسخے فروخت ہو چکے ہیں اور اسی برس انگریزی میں جاپان سے باہر بھی دستیاب ہو گا۔ (نوٹ: یہ ناول انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے اورناچیز نے ہی اسے ’’کافکا بر لبِ ساحل‘‘ کے عنوان سے  اُردو قالب میں ڈھالا ہے۔ مترجم)۔ عالمی سطح پر اس وقت مورا کامی اپنی نسل کےوسیع پیمانے پر پڑھےجانے والے جاپانی ناول نویس ہیں۔ وہ جاپان کا ہر اعزاز حاصل کر چکے ہیں جن میں جاپان کا اعلیٰ ترین اعزاز Yomiuri Literary Prize بھی شامل ہے۔ وہ نہایت متحرک مترجم بھی ہیں۔ انھوں نے ریمنڈ کاروَر، ٹِم اوبرائن اور ایف سکاٹ فٹز جیرالڈ کی مانند نوع بہ نوع لکھاریوں کو جاپانی قارئین سے متعارف کروایا جن میں سے اکثریت ان کی ہے جو پہلی مرتبہ جاپانی میں ترجمہ ہوئے ہیں۔

مورا کامی کا دفتر نیویارک شہر کے سَوہَو جیسے بوتیکوں سے بھرے ٹوکیو کے علاقے آیوما کی مرکزی سڑک کے بالکل ساتھ واقع ہے۔ اس کی عمارت نیچی اور قدیم دِکھائی دیتی ہے گویا قرب و جوار میں تبدیلیاں اس عمارت کی منشا کے بغیر ظہور پذیر ہوئی ہوں۔ اس عمارت کی چھٹی منزل پر مورا کامی کی ایک درمیانے حجم کی کرائے پر لی ہوئی رہائش گاہ ہے اور اس کے کمرے کچھ اس طرح کا تأثر چھوڑتے ہیں: سادہ چوبی الماریاں، گھومنے والی کُرسیاں، حرارت جذب کرنے والے پلاسٹک سے ڈھنپی میزیں مختصر سا دفتری فرنیچر۔  تزئین و آرائش بہ ایں ہمہ ایک لکھاری کے سٹوڈیو جیسی ہے بھی اور نہیں بھی۔ ان کے کردار اکثر ایسے ہی روزمرّہ ماحول میں ہوتے ہیں جب خواب کی دنیا پہلی بار ان پر روشن ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ وہاں کم ہی لکھتے ہیں، تاہم وہ دفتر مورا کامی کے لیے کاروباری کیریئر کے نقطۂ نظر سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں سے ہَوا دِھیمی آواز سے گُزرتی رہتی ہے۔ دو دبے قدموں چلنے والے مدد گاروں کے علاوہ وہاں کوئی نہیں آتا۔

درج ذیل تمام انٹرویو کے دوران، جو دو مسلسل سہ پہروں کو کیا گیا، وہ ہر وقت قہقہے لگانے کے لیے تیار نظر آئے، جو دفتر میں رَوا رکھی جانی والی خاموشی کے برعکس خوش گوار تھے۔ وہ نہایت معروف اور ان کے اپنے اعتراف کے مطابق گفتگو سے پرہیز کرنے والے شخص ہیں لیکن جب ایک بار سنجیدہ بات چیت شروع ہوئی تو میں نے انھیں ہمہ  تن گوش اور تیار پایا۔ انھوں نے رواں گفتگو کی لیکن طویل طویل وقفوں والی اور اس امر کا خاص دھیان رکھا کہ ممکن حد تک درست جواب دیں۔ جب بات چیت کا رُخ جاز یا میراتھن دوڑ کی سمت مُڑا تو، جو ان کے شدّید شوق ہیں، وہ کبھی بیس سالہ نوجوان لگے تو کبھی پندرہ سالہ لڑکا۔

v    

 

انٹرویو کنندہ:

میں نے حال ہی میں آپ کی کہانیوں کا تازہ مجموعہ ’’زلزلے کے بعد‘‘ (After the Quake) پڑھا ہے اور مجھے یہ دِلچسپ لگا کہ ہمارے خیال میں آپ نے کس آسانی سے اپنے ناول ’’ناوویجین ووڈ‘‘ کے مانند حقیقت نگاری کو کہانی میں ضم کر دیا۔ جب کہ دِیگر لوگوں کا خیال ہے کہ ان کہانیوں کا اسلوب ’’دی وائنڈ اَپ کرونیکلز‘‘ یا پھر ’’ہارڈ بوائلڈ ونڈر لینڈ اینڈ دی اَینڈ آف دی ورلڈ‘‘ کے زیادہ قریب ہے۔ کیا آپ ان دونوں میں کوئی بنیادی فرق پاتے ہیں؟

مورا کامی:

میرا اسلوب، جسے میں اپنا اسلوب سمجھتا ہوں، ’’ہارڈ بوائلڈ ونڈرلینڈ اینڈ دی اَینڈ آف دی ورلڈ‘‘کے نہایت قریب ہے۔ میں اپنے طور پر حقیقت نگاری کے اسلوب کو پسند نہیں کرتا۔ میں تخیلاتی (surrealistic) اسلوب کو زیادہ ترجیح دیتا ہوں۔ لیکن ’’نارویجین ووڈ‘‘ کے معاملے میں میں نے اپنا ذہن بنایا کہ میں مکمل طور پر حقیقت نگاری والا ناول لکھوں گا۔ مجھے اس تجربے کی ضرورت تھی۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ اس کتاب کو اسلوب میں کوئی مشق سمجھتے ہیں یا آپ کے پاس کوئی خاص کہانی تھی جسے آپ نے حقیقت نگاری میں بیان کرنا بہترین خیال کیا؟

مورا کامی:

اگر میں تخیلاتی ناول لکھتا رہتا تو میں ایک لکیر کا فقیر لکھاری ہی رہتا۔ لیکن میں مرکزی دھارے میں شمولیت چاہتا تھا۔ اس لیے مجھے ثابت کرنا تھا میں ایک حقیقت نگاری والا ناول بھی لکھ سکتا ہوں۔ پس میں نے وہ کتاب لکھی۔ میں جاپان کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ادیب تھا اور مجھے اس کی توقع بھی تھی۔

انٹرویو کنندہ:

تو یہ حقیقتاً ایک حکمتِ عملی کے تحت انتخاب تھا؟

مورا کامی:

یہ درست ہے۔’’نارویجین ووڈ‘‘ کو پڑھنا اور سمجھنا نہایت آسان ہے۔ اس کتاب کو بہت سے لوگوں نے پسند کیا۔ جو دوسری تحریروں میں بھی دِلچسپی رکھتے ہیں یہ ان کے لیے مددگار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

اس کا مطلب ہے کہ جاپانی قارئین بھی امریکی قارئین کی مانند ہیں؟ وہ ایک آسان کہانی چاہتے ہیں۔

مورا کامی:

میری تازہ ترین کتاب ’’کافکا آن دی شور‘‘کے تین ہزار سیٹ بکے آپ جانتے ہیں کہ وہ دو جلدوں میں ہے میں حیران رہ گیا کہ وہ اس قدر فروخت ہوئی۔ کہانی نہایت پیچیدہ اور سمجھنا مشکل ہے۔ لیکن میرا اسلوب، میری نثر نہایت آسان ہے۔ اس میں ایک مزاح ہے، یہ ڈرامائی ہے اور ایسی ہے کہ ورق پر ورق پلٹتے جائیے۔ ان دونوں عوامل میں ایک طلسماتی توازن ہے جو شاید میری کامیابی کا ایک اَور سبب ہے۔ یہ تاحال حیرت انگیز ہے۔ میں تین چار سال میں ایک ناول لکھتا ہوں اور لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک بار میں نے جان ایونگ کا انٹرویو کِیا کہ ایک اچھی کتاب کا مطالعہ ہی شاہراہ ہے۔ ایک بار جب لوگ عادی ہو جائیں تو انتظار کرتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ اپنا قارئین کو  اس لت کا عادی بنانا چاہتے ہیں؟

مورا کامی:

جان ایونگ نے یہی کہا تھا۔

انٹرویو کنندہ:

وہ دونوں عوامل ایک راست، بہ آسانی سمجھ میں آنے والی بیانیہ آواز جو اکثر ایک حیران کن پلاٹ سے منسلک ہو کیا دانستہ انتخاب ہیں؟

مورا کامی:

نہیں، ایسا نہیں ہے۔ جب میں لکھنا شروع کرتا ہوں تو میرے ذہن میں کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ میں بس کہانی کی آمد کا انتظار کرتا ہوں۔ میں یہ انتخاب نہیں کرتا کہ وہ کس قسم کی کہانی ہے یا کیا ہونے والا ہے۔ میں صرف انتظار کرتا ہوں۔ Norwegian Wood کا معاملہ مختلف ہے کیوں کہ اسے میں نے حقیقت نگاری کے اسلوب میں لکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن بنیادی طور پر میں انتخاب نہیں کر سکتا۔

انٹرویو کنندہ:

لیکن آپ اس آواز کا انتخاب کرتے ہیں، وہ سپاٹ آواز جس میں کہانی بیان کی جاتی ہے، بہ آسانی سمجھ میں آنے والی؟ کیا آپ اسے منتخب کرتے ہیں؟

مورا کامی:

مجھ پر کچھ تخیلات نازل ہوتے ہیں اور میں ایک ٹکڑے کو دوسرے سے جوڑتا ہوں۔ یہ کہانی کی سمت ہے۔ پھر میں کہانی کی سمت کی قاری کو تشریح کرتا ہوں۔ جب آپ کسی چیز کی شرح کریں تو آپ کو شفیق ہونا چاہیے۔ اگر آپ یہ سمجھیں کہ یہ ٹھیک ہے؛ مجھے معلوم ہے کہ یہ نہایت متکبرشے ہے۔ آسان الفاظ اور اچھے استعارات، اچھی تمثال نگاری ۔ تو میں یہ کرتا ہوں۔ میں نہایت احتیاط سے اور واضح انداز میں تشریح کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا یہ قدرتی طور پر ہوتا ہے؟

مورا کامی:

میں ذہین نہیں ہوں۔ میں متکبر بھی نہیں ہوں۔ میں اپنے قارئین جیسا ایک عام سا انسان ہوں۔ میں ایک جاز کلب چلاتا رہا ہوں اور میں مرکب مشروبات اور سینڈ وِچ بناتا رہا ہوں۔ میرا ارادہ لکھاری بننے کا قطعاً نہیں تھا۔ بس بن گیا آپ سمجھتے ہیں نا کہ یہ ایک طرح سے خدا کی طرف سے ودیعت ہے– پس میرا خیال ہے کہ مجھے نہایت عاجز بندہ ہونا چاہیے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کس عمر میں لکھاری بنے؟ کیا یہ آپ کے لیے تعجب انگیز واقعہ تھا؟

مورا کامی:

جب میں انتیس برس کا تھا۔ اوہ ہاں، یہ واقعی تعجب انگیز تھا۔ لیکن میں فوراً ہی اس کا عادی ہو گیا۔

انٹرویو کنندہ:

فوراً ہی؟ اپنے لکھنے کے پہلے ہی دِن سے آپ اطمینان محسوس کرنے لگے تھے؟

مورا کامی:        

میں نے آدھی شب کے بعد باورچی خانے کی میز پر لکھنا شروع کیا۔ اپنی پہلی کتاب ختم کرنے میں مجھے دس ماہ کا عرصہ لگا۔ میں نے اسے ناشر کو بھیجا اور کسی قسم کا انعام بھی ملا جو ایک خواب جیسا تھا– مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ ہو رہا ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے میں نے سوچا کہ میں ادیب بن گیا ہوں۔ کیوں نہیں؟ یہ سادہ سی بات ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی بیوی نے آپ کے ادیب بننے کے فیصلے کو کس طرح لیا؟

مورا کامی:

اس نے قطعاً کچھ نہیں کہا اور جب میں نے اسے بتایا کہ میں مصنف بن گیا ہوں تو وہ حیران رہ گئی بلکہ ایک طرح سے پریشان ہو گئی تھی۔

انٹرویو کنندہ:    

وہ پریشان کیوں ہو گئی تھیں؟ کیا ان کا خیال تھا کہ آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے؟

مورا کامی:

مصنف بننے کا مطلب ایک طرح کا چشمِ زدن میں ہونے والے واقعہ کی مانند ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کے لیے مثالی شخصیات کون سی تھیں؟ کون کون سے جاپانی مصنف آپ پر اثر انداز ہوئے؟

مورا کامی:

اپنے بچپن حتّٰی کہ جوانی میں بھی میں نے زیادہ جاپانی مصنفین کو نہیں پڑھا۔ میں اس ثقافت سے فرار چاہتا تھا۔ مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ بیزارکن ہے، سخت ناگوار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ کے والد جاپانی ادب کے استاذ نہیں تھے؟

مورا کامی:

درست۔ اس طرح یہ بھی باپ بیٹے کے درمیان ایک رشتہ تھا۔ بس اِتنا ہوا کہ میں مغربی ثقافت کی جانب چلا گیا: جاز موسیقی، دوستوفسکی، کافکا اور ریمنڈ چانڈلر۔ وہ میری اپنی دنیا تھی، میری اپنی تخیلاتی سرزمین۔ میں چاہتا تو سینٹ پیٹرس برگ یا مغربی ہالی وڈ چلا جاتا۔ یہی ناول کی طاقت ہے آپ کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ اب، ریاست ہائے متّحدہ جانا آسان ہے کوئی بھی دنیا بھر میں جہاں چاہے جا سکتا ہے لیکن ۱۹۶۰ء میں یہ تقریباً ناممکن تھا۔ پس میں نے صرف پڑھا، موسیقی سنی اور جہاں چاہا چلا گیا۔ یہ ایک نوع کی ذہنی کیفیّت تھی، خواب جیسی۔

انٹرویو کنندہ:

اور اس سے آپ لکھنے کے مرحلے تک پہنچے؟

مورا کامی:

درست۔ جب میں انتیس برس کا تھا تو میں نے ناگہاں ایک ناول لکھنا شروع کیا۔ میں کچھ لکھنا چاہتا تھا لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیسے لکھوں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ جاپانی زبان میں کیسے لکھا جاتا ہے سو میں نے اپنی پڑھی ہوئی کتابوں سے امریکی یا مغربی کتابوں سے اسلوب، ہیئت اور ہر شے ادھار لی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میرا اپنا ایک حقیقی اسلوب بن گیا۔ تو اس طرح آغاز ہوا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی پہلی کتاب شائع ہوئی، آپ نے انعام جیتا اور اپنے لیے کچھ نہ کچھ راہ ہموار کر لی۔ کیا آپ نے دِیگر لکھاریوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کیا؟

مورا کامی:

نہیں، بالکل نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ کا کوئی دوست بھی اس وقت لکھاری نہیں تھا؟

مورا کامی:

ایک بھی نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا بعد میں آپ کی کسی ایسے مصنف سے ملاقات ہوئی جو آپ کا دوست یا ساتھی بن گیا ہو؟

مورا کامی:

نہیں، بالکل نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

آج تک آپ کا ایک بھی ایسا دوست نہیں جو مصنف بھی ہو؟

مورا کامی:

نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا کوئی ایسا شخص بھی نہیں جسے آپ لکھنے کے دوران اپنی نگارش دِکھاتے ہوں؟

مورا کامی:

بالکل بھی نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

اپنی بیوی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

مورا کامی:

خوب، میں نے اپنے پہلے ناول کا مسودہ اسے دِکھایا تھا لیکن وہ کہتی ہے کہ اس نے اسے پڑھا ہی نہیں! اس لیے میرا خیال ہے کہ اس کے بھی کوئی تأثرات نہیں ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

وہ متأثر نہیں ہوئیں؟

مورا کامی:

نہیں۔ البتہ وہ پہلا مسودہ تھا اور انتہائی خوف ناک تھا۔ میں نے اسے بار بار لکھا۔

انٹرویو کنندہ:

اب جب آپ کسی تخلیق پر کام کر رہے ہوں تو وہ متجسس نہیں ہوتی کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں؟

مورا کامی:

وہ میری ہر کتاب کی میری سب سے پہلی قاری ہے۔ میں اس پر انحصار کرتا ہوں۔ایک طرح سے وہ میری شریکِ کار ہے۔ یہ سکاٹ جیرالڈ فٹز جیسا معاملہ ہے زیلڈا اس کی پہلی قاری ہوتی تھی۔

انٹرویو کنندہ:    

گویا آپ نے اپنے کیریئر میں کبھی نہیں سمجھا کہ آپ لکھاریوں کے کسی طبقے کا حصّہ ہیں؟

مورا کامی:

میں تنہائی پسند ہوں۔ میں گروہ بازی، دبستانوں، ادبی حلقوں کو پسند نہیں کرتا۔ پرنسٹن میں ظہرانہ یا کسی قسم کی کوئی دعوت تھی جہاں میں بھی مدعو تھا۔ وہاں جوائس کیرول اوایٹس اور ٹونی موریسن بھی موجود تھے۔ ان کی موجودگی سے میں اس قدر خوف زدہ ہو گیا کہ ایک لقمہ تک نہیں کھا پایا! وہیں قریب قریب میری ہم عمر مَیری مورِس بھی تھی، جو ایک عمدہ شخصیت ہیں، اور میں کہوں گا کہ ہم دوست بن گئے۔ لیکن کوئی جاپانی لکھاری میرا دوست نہیں ہے کیوں کہ میں… فاصلہ رکھنا چاہتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے The Wind-Up Birds Chronicles کا ایک بڑا حصّہ رہاست ہائے متحدہ امریکا میں تحریر کیا۔ کیا وہاں کے قیام کے اس عرصے کے  اثرات آپ کے لکھنے کے عمل پر یا مسودے پر مرتب ہوئے؟

مورا کامی:

The Wind-Up Birds Chronicles کو ضبطِ تحریر میں لانے کے چار برس کے عرصے کے دوران میں امریکا میں ایک اجنبی کی حیثیت سے قیام پذیر تھا۔ وہ ’’اجنبیت‘‘ ہمیشہ سایے کی مانند میرے تعاقب میں رہتی تھی اور یہی کچھ ناول کے مرکزی کردار کے ساتھ بھی ہوا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر میں نے اسے جاپان میں لکھا ہوتا تو وہ قطعی مختلف ہوتا۔

امریکا میں قیام کے دوران اجنبیت اس اجنبیت سے مختلف تھی جو مجھے جاپان میں محسوس ہوتی۔ یہ اجنبیت نہایت واضح اور        براہِ راست تھی جس مجھے اپنی زیادہ واضح شناخت دی۔ اس ناول کو لکھنے کا عمل ایک طرح سے اپنے آپ کو ننگا کرنے کے مترادف تھا۔

انٹرویو کنندہ:

کیا اس وقت جاپان میں ایسے مصنف موجود ہیں جن کی تخلیقات پڑھ کر آپ ان سے حظ اُٹھاتے ہوں۔

مورا کامی:

ہاں، چند ایک۔ ریو مورا کامی، بانانا یوشی موتو جن کی کچھ تخلیقات مجھے پسند آئی ہیں۔ لیکن میں تبصرے یا تنقید نہیں لکھتا اور      نہ ہی اس میں پڑنا چاہتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

 کیوں؟

مورا کامی:

میرے خیال میں یہ لوگوں اور دنیا کے مشاہدے کا کام ہے نہ کہ ان پر حَکم جاری کرنے کا۔ میں ہمیشہ اپنے آپ کو ایسے نام نہاد نتائج سے دور رکھتا ہوں۔ میں ہر چیز کو دنیا کے ممکنات کے رُوبرو کھلا چھوڑ دینے کا قائل ہوں۔

میں تنقید کے ترجمے کو ترجیح دیتا ہوں کیوں کہ ترجمہ کرتے ہوئے کسی شے پر حَکم جاری کرنے کی شاذ ہی ضرورت پیش آتی ہے۔ میں اپنی پسندیدہ نگارش کو سطر در سطر اپنے دماغ اور رُوح میں سرایت کرنے دیتا ہوں۔ یقینا اس میدان میں ناقدین کی ضرورت ہے لیکن تنقید میرا کام نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی اپنی تخلیقات کی طرف واپس آتے ہیں: یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ hard-boiled امریکی سری ادب ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ آپ کے سامنے یہ سرمایہ سب سے پہلے کب آیا اور کس نے رکھا؟

مورا کامی:

جب میں ہائی سکول کا طالب علم تھا تو میں جرائم پر مبنی ناولوں کا شیدائی ہو گیا۔ میں کوبے میں رہتا تھا جو بندرگاہ والا شہر ہے جہاں بہت سے غیر ملکی اور کشتی ران آتے اور اپنی باریک گتّے کی جِلد والی پُرانی کتابیں بیچتے تھے۔ میں غریب تھا لیکن کم قیمت میں وہ کتابیں خرید سکتا تھا۔ میں نے ان کتابوں سے انگریزی سیکھی اور وہ نہایت پرانگیخت تجربہ تھا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے انگریزی میں کون سی پہلی کتاب پڑھی تھی؟

مورا کامی:

روس میکڈونلڈ کی The Name is Archer۔ میں نے ان کتابوں سے بہت کچھ سیکھا۔ جب میں ایک بار پڑھنا شروع کر دیتا تو ختم کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ٹالسٹائی اور دوستوفسکی کو بھی والہانہ پڑھتا تھا۔ وہ ایسی کتابیں ہیں کہ بس ورق پلٹتے جائیے۔ وہ طویل ضرور ہیں لیکن میں نے انھیں کبھی ادھورا نہیں چھوڑا۔ تو میرے لیے دوستوفسکی اور رَیمنڈ چانڈلر برابر ہیں۔ اب بھی افسانہ لکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ میں اپنی تحریر میں دوستوفسکی اور چانڈلر دونوں کو رکھ دوں۔ یہی میرا مقصد ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے کس عمر میں کافکا کو پہلی بار پڑھا؟

مورا کامی:

جب میں پندرہ برس کا تھا تو میں نے The Castle پڑھا۔ وہ عظیم تخلیق ہے۔ اور پھر The Trial۔

انٹرویو کنندہ:

یہ دلچسپ بات ہے۔ لیکن وہ نامکمل ناول ہیں جس کا واضح مطلب ہے کہ بِلا شبہ وہ کبھی انجام تک نہیں پہنچتے؛ آپ کے ناولوں کا انجام بھیخاص طور پر آپ کے The Wind-Up Chronicles جیسے ناول اس سے اکثر برعکس ہوتا ہے جس کی قاری توقع کر رہا ہوتا ہے۔

مورا کامی:

صرف یہ اکیلے ہی نہیں۔ آپ نے یقینا ریمنڈ چانڈلر کو پڑھا ہو گا۔ اس کی تخلیقات حقیقی انجام پیش نہیں کرتیں۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ وہ قاتل ہے لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ وہ قاتل کون ہے۔ ہاورڈ ہاکس نے The Big Sleep میں نہایت دِلچسپ واقعے لکھے ہیں۔ ہاکس کو معلوم نہیں تھا کہ شوفر کو کس نے قتل کیا۔ پس اس نے چانڈلر سے رابطہ کیا اور اس سے پوچھا تو چانڈلر نے جواب دیا: مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ یہی معاملہ میرے ساتھ ہے۔ انجام کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔ مجھے پرواہ نہیں ہے کہ The Brohers Karamazov میں قاتل کون ہے۔

انٹرویو کنندہ:

اس کے باوجود بھی یہ جاننے کی تمنّا کہ شوفر کو کس نے قتل کیا تھا The Big Sleep کو پڑھواتی ہے۔

مورا کامی:        

چوں کہ میں خود بھی ایک لکھاری ہوں لیکن اس کے باوجود میں نہیں جانتا کہ اسے کس نے قتل کیا۔ میں اور قارئین اس معاملے میں ایک ہی جیسے ہیں۔ جب میں کوئی کہنا لکھنا شروع کرتا ہوں تو مجھے خود انجام معلوم نہیں ہوتابلکہ مجھے تو یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ آگے کیا ہو گا۔ اگر آغاز ہی میں قتل ہو جائے تو مجھے بھی نہیں علم ہوتا کہ قاتل کون ہے۔ میں لکھتا ہی اس لیے ہوں کہ دریافت کر سکوں۔ اگر میں قاتل کے بارے میں جانتا ہوں تو کہانی لکھنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا اس سلسلے میں کہیں یہ احساس بھی کارفرما ہے کہ اپنی تخلیقات کی شرح بیان نہ کی جائے بالکل ایسے ہی جیسے جب ایک خواب کی تعبیر جاننے کی کوشش کی جاتی ہے تو اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے۔

مورا کامی:

تخلیق کرنے کی سب اچھی بات یہ ہے کہ جاگتے میں خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ حقیقی خواب کے دوران آپ کا اس پر اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن تخلیق کے دوران آپ جاگ رہے ہوتے ہیں؛ آپ وقت، دورانیے، حتّٰی کہ ہر چیز کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ میں صبح کے وقت چار سے پانچ گھنٹے تک لکھتا ہوں اور جب یہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو میں کام بند کر دیتا ہوں۔ پھر میں اگلے روز کام کرتا ہوں۔ اگر یہی حقیقی خواب ہو تو یہ نہیں کیا جا سکتا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کا کہنا ہے کہ کہانی لکھتے ہوئے آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ قاتل کون ہے لیکن میرے خیال میں استثنیٰ موجود ہے: Dance Dance Dance میں گوٹانڈا کو کردار۔ ناول میں ایک خاص نوع کی بنت موجود ہے جو اس لمحے کی طرف لے جاتی ہے جس لمحے گوٹانڈا جرائم کے کلاسیک ناولوں کے انداز میں اعتراف کرتا ہے۔ اسے ہمارے سامنے آخری مشتبہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کیا آپ کو پہلے سے علم نہیں تھا کہ گوٹانڈا مجرم ہے؟

مورا کامی:

پہلے مسودے کے دوران مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجرم گوٹانڈا ہے۔ لیکن انجام کے قریبکم و بیش دو تہائی حصّے کے بعد مجھے معلوم ہوا۔ جب میں نے نظر ثانی کرتے ہوئے دوسرا مسودہ لکھا تو میں نے، یہ جانتے ہوئے کہ گوٹانڈا قاتل ہے، اس کے مناظر لکھے۔

انٹرویو کنندہ:

پھر کیا نظر ثانی کی یہی بڑی وجہ ہے  کہ آپ نے پہلے مسودے کی تکمیل سے سیکھ کر جو حاصل کیا ہے اس کے پہلے سے لکھے ہوئے حصّوں پر دوبارہ کام کر کے ناگزیریت کا ایک خاص احساس دے سکیں؟

مورا کامی:

یہ درست ہے۔ پہلا مسودہ ابتر حالت میں ہوتا ہے۔ میں بار بار نظر ثانی کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ ایک مسودے کی عام طور پر کتنی بار نظر ثانی کرتے ہیں؟

مورا کامی:

چار یا پانچ بار۔ چھے ماہ پہلا مسودہ لکھنے میں صرف ہوتے ہیں اور پھر نظر ثانی میں سات آٹھ ماہ۔

انٹرویو کنندہ:

آپ بڑی تیزی سے کام کرتے ہیں۔

مورا کامی:

میں محنتی شخص ہوں۔ اپنے کام پر بھرپور توّجہ دیتا ہوں۔ پس آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ میرے لیے آسان کام ہے۔ اور پھر یہ کہ میں لکھنے کے دوران کسی اَور چیز پر دھیان نہیں دیتا۔

انٹرویو کنندہ:

 آپ کے کام والے عمومی دِن کا خاکہ کیا ہے؟

مورا کامی:

جب لکھنے کے لیے میری طبیعت موزوں ہوتی ہے تو میں صبح چار بجے اٹھتا ہوں اور پانچ چھے گھنٹے کام کرتا ہوں۔ سہ پہر کو میں دس کلومیٹر کی دوڑ لگاتا ہوں یا پھر پندرہ سو گز کی پیراکی کرتا ہوں (یا دونوں ہی کام کرتا ہوں)، پھر میں تھوڑا بہت مطالعہ کرتا ہوں اور موسیقی سنتا ہوں۔ رات نو بجے بستر پر چلا جاتا ہوں۔ میں اپنے ان روزمرہ معمولات کو بدلتا نہیں۔ تکرار بذاتِ خود اہم شے بن جاتی ہے؛ یہ بھی میسمیریزم کی ایک قسم ہے۔ میں ذہن کی اتھاہ گہرائیوں تک رسائی کے لیے اپنے آپ کو میسمیریزم کرتا ہوں۔ لیکن اس قدر طویل تکرار کو برقرار رکھنے کے لیے چھے ماہ سے ایک سال تک کی خوب ذہنی اور جسمانی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ایک طویل ناول لکھنا ایک طرح سے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی تربیت مترادف ہے۔ جسمانی قوّت بھی فن کارانہ حساسیت جتنی ہی ضروری ہے۔

انٹرویو کنندہ:

میں آپ کے کرداروں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ جب آپ لکھ رہے ہوں تو وہ کس قدر حقیقی بن جاتے ہیں؟ کیا یہ بات آپ کے لیے اہمیت کی حامل ہے کہ وہ بیانیے میں اپنی آزادانہ زندگی رکھتے ہوں؟

مورا کامی:        

اپنی تخلیقات میں کرداروں کی بُنت کاری کرنے سے پہلے میں اپنی زندگی کے حقیقی لوگوں کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ مجھے زیادہ باتیں کرنا پسند نہیں؛ مجھے دوسرے لوگوں کی کہانیاں سننا اچھا لگتا ہے۔ میں یہ فیصلہ نہیں کرتا کہ وہ کس قسم کے لوگ ہیں؛ میں تو بس یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں، ان کے اعمال کیا ہیں۔ میں کسی مرد کچھ خصوصیات لیتا ہوں تو کسی عورت سے کچھ خصوصیات۔ مجھے نہیں معلوم یہ ’’حقیقی‘‘ ہے یا ’’غیر حقیقی‘‘ لیکن میرے نزدیک میرے کردار حقیقی لوگوں سے زیادہ حقیقی ہوتے ہیں۔ میرے لکھنے کے چھے یا سات ماہ کے عرصے کے دوران وہ لوگ میرے لاشعور میں موجود رہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی کائنات ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کے مرکزی کردار آپ کے بیانیے کی تخیلاتی دنیا میں آپ کے اپنے نقطۂ نظر کی ترویج کرتے نظر آتے ہیں یعنی خواب میں خواب دیکھنے والے۔

مورا کامی:

براہِ مہربانی اس نکتے کو اس طرح دیکھیے : میرا ایک جڑواں بھائی ہے۔ جب میں دو برس کا تھا تو ہم میں سے ایک  میرا دوسرا بھائی  اغواء کر لیا گیا۔ اس کی پرورش ایک دوردراز مقام پر ہوئی اور اس کے اغواء کے بعد سے ہم کبھی ملے نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا مرکزی کردار وہ ہے۔ میرے وجود ہی کا ایک حصّہ ہے، لیکن وہ میں نہیں ہوں، اور ہم طویل عرصے سے ایک دوسرے سے ملے بھی نہیں۔ یہ میری شخصیت کا دوسرا رُخ ہے۔ ڈی این اے کے لحاظ سے ہم ایک ہیں لیکن ہمارے ماحول مختلف ہیں۔ پس ہمارے سوچنے سمجھنے کا انداز بھی مختلف ہو گا۔ ہر بار جب میں کوئی کتاب لکھتا ہوں تو کسی اَور کے قالب میں چلا جاتا ہوں۔ کیوں کہ بعض اوقات میں اپنے آپ سے بھی اُکتا گیا ہوتا ہوں۔ اس طرح میں فرار حاصل کرتا ہوں۔ یہ خواب  ہے۔ اگر آپ خواب نہیں دیکھ سکتے تو آپ کے پاس کتاب لکھنے کے لیے کون سا نقطہ بچتا ہے؟

انٹرویو کنندہ:

Hard-Boiled Wonderland کے بارے میں ایک اَور سوال۔ اس میں ایک خاص نوع کی ہم آہنگی، ایک خاص قسم کی رسمی خوبی اور عزم کا ایک احساس بھی ہے، جو اسے بعد کی کتابوں سے، مثلاً The Wind-Up Bird Chronicles، الگ کرتے ہیں۔ کیا کسی مقام پر آکر ناول کے افعال اور اس کی بنت کی اہمیت کے بارے میں تبدیل ہو گئے تھے؟

مورا کامی:

ہاں۔ میری پہلی دونوں کتابیں جاپان سے باہر شائع نہیں ہوئیں نہ میں انھیں شائع کروانا چاہتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ ناپختہ تحریریں ہیں اور بہت چھوٹی کتابیں۔ اگر یہ لفظ مناسب ہے تو میں کہوں گا کہ وہ کھوکھلی تھیں۔

انٹرویو کنندہ:

ان میں کیا خامیاں تھیں؟

مورا کامی:

میں اپنے پہلے دونوں ناولوں میں روایتی جاپانی ناول کی تجرید کی کوشش کر رہا تھا۔ تجرید سے میری مُراد صرف چوکھٹے کو رکھتے ہوئے ان کے اندر کی ہر شے کو ہٹانا ہے۔ پھر میں نے کوشش کی اس چوکھٹے میں ہر چیز تازہ اور اصیل ڈالی جائے۔ میں یہ اس کام کو کامیابی سے کرنے کا اہل ۱۹۸۲ء میں اپنے تیسرے ناول A Wild Sleep Chase کے بعد ہوا۔ پہلے دونوں ناول اس عمل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوئے اس سے زیادہ نہیں میرا خیال ہے کہ A Wild Sleep Chase سے میرے اسلوب کا حقیقی آغاز ہوا تھا۔

چوں کہ میرے ناول خاصے ضخیم ہوتے ہیں لہٰذا ان کی بنت بھی خاصی پیچیدہ ہوتی ہے۔ ہر بار نئی تخلیق کرتے ہوئے میں اپنے پچھلے بنت کو ختم کرنے کا متمنّی ہوتا ہوں تاکہ ایک نئی چیز بنا سکوں۔ اور ہمیشہ نئی تخلیق میں نیا موضوع یا کوئی نئی پابندی یا کوئی نیا زخیال لانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں ہمیشہ بنت کے بارے میں محتاط رہتا ہوں۔ اگر میں بنت تبدیل کرتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے اپنا اسلوب تبدیل کرنا پڑتا ہے اور اسی طرح کردار نگاری بھی۔ اگر میں ایک ہی چیز دہراتا رہوں تو میں اُکتا جاؤں گا، بیزار ہو جاؤں گا۔

انٹرویو کنندہ:

اور پھر بھی آپ کی اسلوب کے کچھ عناصر تبدیل ہونے کے باوجود کچھ چیزیں برقرار رہی ہیں۔ آپ کے ناول ہمیشہ واحد متکلّم میں ہوتے ہیں۔ ان سب میں ایک شخص عورتوں کے ساتھ جنسی تعلّقات کے لیے گھن چکّر بنا ہوتا ہے۔ وہ عموماً انفعالی ہوتا ہے اور عورتیں بھی جو اس کے خوف اور خوابوں کے مظہر کے طور پر عمل کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔

مورا کامی:

میرے ناولوں اور کہانیوں میں ایک لحاظ سے عورتیں واسطے ہیں؛ واسطے کا کام کسی واقعے کو جنم دینا ہوتا ہے۔ یہ نظام کی وہ قسم ہے جس کا تجربہ ہونا چاہیے۔ واسطہ  مرکزی کردار کی ہمیشہ کسی سمت رہنمائی کرتا ہے اور وہ وہی شے دیکھتا ہے جو اسے واسطہ دِکھاتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

وکٹورین سوجھ بوجھ کے واسطے؟ نفسیاتی واسطے ؟

مورا کامی:

میرا خیال ہے کہ جنسیت رُوح کی ذمّہ داری نبھانے کا  ایک عمل ہے… ایک قسم ہے۔ اگر جنسی عمل اچھا ہے تو آپ کا زخم بھر جائے گا، آپ کا تخیل قوی ہو جائے گا۔ یہ اعلیٰ مقام کی سمت، بہتر مقام کی طرف جانے والا ایک راستہ ہے۔ اس صُورتِ حال میں، میری کہانیوں میں عورتیں واسطے ہیں آنے والی دنیا کی نقیب۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میرے مرکزی کردار کی طرف رجوع کرتی ہیں، وہ ان سے رجوع نہیں کرتا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کے ناولوں میں دو مختلف قسم کی عورتیں پائی جاتی ہیں: وہ جن کے ساتھ مرکزی کردار کے بنیادی طور پر سنجیدہ تعلّقات ہوتے ہیں اکثر یہ وہ عورت ہوتی ہے جو غائب ہو جاتی ہے اور جس کی یاد اسے ستاتی ہے اور دوسری قسم کی عورتیں وہ ہیں جو بعد میں نمودار ہوتی ہیں اور اس کی تلاش میں اس کی مدد کرتی ہیں یا اس کے برعکس کردار ادا کرتی ہیں پچھلی عورت کو بُھلا ڈالتی ہیں۔ عورت کی یہ قسم کھری کھری باتیں کرنے والی، سنکی اور جنسی عمل میں کھلے پن والی ہوتی ہیں اور مرکزی کردار کھو جانے والی عورت کی نسبت، جس سے کبھی اِتنا تعلّق نہیں بنا پایا تھا، اس کے ساتھ نہایت گرم جوشی اور زیادہ دِلچسپ تعلّق رکھتا ہے۔ دونوں انواع کی یہ عورتیں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟

مورا کامی:

میرا مرکزی کردار بیشتر رُوحانی اور حقیقی دنیا میں پھنسا ہوتا ہے۔ رُوحانی دنیا میں عورتیں یا مرد خاموش طبع، ذہین ،نرم مزاج اور فطین ہوتی ہیں۔ حقیقی دنیا میں، آپ جانتے ہیں کہ، عورتیں زیادہ خوش باش اور مثبت ہوتی ہیں۔ ان کے پاس مزاح کی حس ہوتی ہے۔ مرکزی کردار کا ذہن دو دنیاؤں میں بٹا ہوتا ہے اور وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ دونوں میں سے کسے منتخب کرے۔ میرا خیال ہے کہ میرے کام میں یہی مرکزی تحرک ہے۔ Hard-Boiled Wonderland میں یہ نہایت نمایاں ہے۔ اس ناول میں مرکزی کردار کا دماغ حقیقتاً، عملاً تقسیم ہو جاتا ہے۔ Norwegian Wood میں بھی دو لڑکیاں ہیں اور مرکزی کردار ناول کے آغاز سے آخر تک ان میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ پر نہیں پہنچ پاتا۔

انٹرویو کنندہ:

میری ہمدردیاں ہمیشہ حسِ مزاح رکھنے والی لڑکی کے ساتھ ہوتی ہیں۔ قاری کی دِلچسپی کو اس تعلّق میں قائم رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے جس میں مزاح کی چاشنی بنیادی اہمیت رکھتی ہو بہ نسبت ایک محبت بھرے تعلّق کے حقیقی بیانیے کے ۔ Norweigian Wood میں میں ہمہ وقت مِیڈوری (Midori) سے   جڑا رہا۔

مورا کامی:

میرا بھی یہی خیال ہے کہ اکثر قارئین یہی کہیں گے۔ اکثریت میڈوری ہی کو چنے گی۔ اور مرکزی کردار، بے شک، وہ اسے ناول کے آخر میں منتخب کرے گا۔ لیکن اس کا (مرکزی کردار کا) کا کچھ حصّہ دوسری دنیا میں ہے جسے وہ ترک نہیں کر سکتا۔ وہ اس کا (مرکزی کردار کا)  حصّہ ہے، ایک لازمی حصّہ۔ تمام انسانوں کو کوئی نہ کوئی دماغی بیماری ہوتی ہے۔ وہ خلا ان کا  حصّہ ہوتا ہے۔ ہمارے دماغ میں ایک حصّہ عقل و دانش والا اور دوسرا جنون کا ہوتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ ہمارا ان دونوں حصّوں سے مکالمہ رہتا ہے۔ میں اپنے جنونی حصّے کو اس وقت خاص طور پر دیکھ سکتا ہوں جب میں لکھ رہا ہوتا ہوں  جنون درست لفظ نہیں ہے۔ اسے غیر معمولی، غیر حقیقی کہا جا سکتا ہے۔ بِلا شبہ، مجھے حقیقی دنیا میں لوٹنا اور اپنے عقل ودانش والے حصّے کو منتخب کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر میرا جنون والا حصّہ، بیمار حصّہ نہ ہوتا تو میں یہاں نہ ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں، مرکزی کردار کی دو عورتیں مدد کرتی ہیں۔ دونوں ہی کے بغیر وہ نہیں چل سکتا۔ اس لحاظ سے، میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کی Norwegian Wood نہایت راست مثال ہے۔

……باقی انٹرویو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو

شہرت یافتہ

ہاروکی مورا کامی

(Haruki Murakami)

انٹرویوکنندہ:جان رے

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

میں اپنے طور پر حقیقت نگاری کے اسلوب کو پسند نہیں کرتا۔ تخیلاتی اسلوب …— ہاروکی مورا کامی ۔ ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: ہاروکی مورا کامی

ہاروکی مورا کامی انگریزی میں ترجمہ ہونے والا نہ صرف تجرباتی بلکہ نہایت معروف جاپانی ناول نویس بھی ہیں کہ دنیا بھر میں اس کی کتب کی فروخت لاکھوں میں ہے۔ ان کے بہترین ناول حقائق نگاری اور حکایت، انجام تک قاتل کو پردۂ راز میں رکھنے والی سِری کہانی اور سائنس فکشن کی دہلیز پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پرHard-Boiled Wonderland and the End of the World ایک ایسے کردار کو پیش کرتا ہے جو حقیقتاً دو دماغ رکھتا ہے اور The Wind-Up Bird Chronicles کا، جسے شاید جاپان سے باہر سب سے زیادہ پذیرائی ملی ہے،  اعلیٰ نثر سے آغاز ہوتا ہے ایک شخص کی اپنی گُم شدہ بیوی کی تلاش سے پھر یکایک ناول ایک عجب نوع کے میل دار بیانیے میں بدل جاتا ہے۔ یہ ناول لارنس سٹرن کے ناول Tristran Shandy کے بعد پہلی بار اس طرح لکھے جانے والا ناول ہے۔ مورا کامی کی دنیا شناسا علامات سے بُنی ہوئی ایک مثالی دنیا ہے ایک خالی کنواں، ایک زیرِ زمین شہر لیکن ان علامات کے آخر تک مہر بند مفاہیم برقرار رہتے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے معروف ثقافت سے (اور بالخصوص امریکی پاپ (pop) ثقافت) سے یہ مستعار لیا ہے  تاہم کے بارے میں دلیل دی جا سکتی ہے کہ کسی اَور مصنف کے کام کی تجسیم کبھی اس قدر ذاتی نہیں رہی۔

مورا کامی قومی ثقافت کی خلقی دِلچسپی لیے ۱۹۴۹ء میں جاپان کے پُرانے دارالخلافہ کیوٹو (Kyoto) میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جاپانی ادب کے معلّم تھے اور ان کے دادا ایک بُدھ بھکشو۔ جب وہ دو برس کا تھے تو ان کا خاندان کوبے (Kobe) چلا آیا اور یہی وہ شہر ہے جس نے، جہاں مسلسل غیر ملکیوں کا اژدحام رہتا تھا (خاص طور پر امریکی کشتی رانوں کا)، ان کی حساسیت کو جِلا بخشی۔ مورا کامی نے چھوٹی سی عمر ہی میں جاپانی ادب، فن اور موسیقی کو ردّ کرتے ہوئے نہایت باریک بینی سے جاپان سے باہر کی دنیا کو دریافت کِیا، ایک ایسی دنیا جس سے وہ صرف جاز موسیقی، ہالی وُڈ کی فلموں اور سستی دکانوں کے کاغذی ڈبّوں کے ذریعے آشنا تھا۔

ساٹھ کی دہائی کے آخر میں جب مورا کامی ایک طالب علم تھے تو ان میں مابعد جدید افسانوی ادب کا ذوق پیدا ہوا جب کہ وہ خاموشی اور ہمدردی سے احتجاجی تحریک کو عروج تک پہنچتے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے تیئس برس کی عمر میں شادی کی اور ٹوکیو میں ’’پیٹر کیٹ‘‘ نامی جاز موسیقی کا کلب کئی برسوں تک چلایا اور اپنے پہلے ناول کی اشاعت سے قبل اس امر کو یقینی بنایا کہ انھیں ادب سے آمدن ہو۔ ناول Hear the Wing Sing نے، جو انگریزی میں ترجمہ تو ہوا لیکن مصنف کی اپنی استدعا پر جاپان سے باہر دستیاب نہیں ہے، اسے کثیر رقمی Gunzo Literature Prize دِلوایا اور قارئین حاصل کرنے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ پھر ہر آنے والی کتاب سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ جے ڈی سِنگر کے ’’اسّی کی دہائی کا جاپانی ادب‘‘ کے مطابق ۱۹۸۷ء میں ان کے پہلے حقیقت نگاری والے  ناول’’ناوویجین‘‘ نے انھیں ادب کے بلند ترین مقام پر براجمان کر اور ’’اپنی نسل کی حقیقی آواز‘‘ بنا دیا۔ صرف جاپان میں اس ناول کے بیس لاکھ نسخے فروخت ہوئے جو ٹوکیو میں گھروں کی تعداد کے برابر ہے۔

اس کے بعد مورا کامی اپنے آبائی وطن میں قیام سے گریزاں ہو کر برسوں سے دیارِ غیر میں بستے ہوئے اپنی مقبولیت کو دنیا بھر میں قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ یورپ اور امریکا میں رہے۔ حتّٰی کہ وہ اپنا ناول ’’دی وائنڈ اَپ کرونیکلز‘‘ کو پرنسٹن اور ٹُفٹس میں معلّم کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ضبطِ تحریر میں لائے۔ گو وہ  ’’ناوویجین ووڈ‘‘ جیسے براہِ راست ردھم کو تو دوبارہ نہیں پہنچ سکا لیکن ان کے ناولوں کو ہر بار پہلے سے زیادہ قارئین کی تعداد میسر آئی ان کے نئے ناول Kafka on the Shore کے اب تک جاپان میں تین ہزار نسخے فروخت ہو چکے ہیں اور اسی برس انگریزی میں جاپان سے باہر بھی دستیاب ہو گا۔ (نوٹ: یہ ناول انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے اورناچیز نے ہی اسے ’’کافکا بر لبِ ساحل‘‘ کے عنوان سے  اُردو قالب میں ڈھالا ہے۔ مترجم)۔ عالمی سطح پر اس وقت مورا کامی اپنی نسل کےوسیع پیمانے پر پڑھےجانے والے جاپانی ناول نویس ہیں۔ وہ جاپان کا ہر اعزاز حاصل کر چکے ہیں جن میں جاپان کا اعلیٰ ترین اعزاز Yomiuri Literary Prize بھی شامل ہے۔ وہ نہایت متحرک مترجم بھی ہیں۔ انھوں نے ریمنڈ کاروَر، ٹِم اوبرائن اور ایف سکاٹ فٹز جیرالڈ کی مانند نوع بہ نوع لکھاریوں کو جاپانی قارئین سے متعارف کروایا جن میں سے اکثریت ان کی ہے جو پہلی مرتبہ جاپانی میں ترجمہ ہوئے ہیں۔

مورا کامی کا دفتر نیویارک شہر کے سَوہَو جیسے بوتیکوں سے بھرے ٹوکیو کے علاقے آیوما کی مرکزی سڑک کے بالکل ساتھ واقع ہے۔ اس کی عمارت نیچی اور قدیم دِکھائی دیتی ہے گویا قرب و جوار میں تبدیلیاں اس عمارت کی منشا کے بغیر ظہور پذیر ہوئی ہوں۔ اس عمارت کی چھٹی منزل پر مورا کامی کی ایک درمیانے حجم کی کرائے پر لی ہوئی رہائش گاہ ہے اور اس کے کمرے کچھ اس طرح کا تأثر چھوڑتے ہیں: سادہ چوبی الماریاں، گھومنے والی کُرسیاں، حرارت جذب کرنے والے پلاسٹک سے ڈھنپی میزیں مختصر سا دفتری فرنیچر۔  تزئین و آرائش بہ ایں ہمہ ایک لکھاری کے سٹوڈیو جیسی ہے بھی اور نہیں بھی۔ ان کے کردار اکثر ایسے ہی روزمرّہ ماحول میں ہوتے ہیں جب خواب کی دنیا پہلی بار ان پر روشن ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ وہاں کم ہی لکھتے ہیں، تاہم وہ دفتر مورا کامی کے لیے کاروباری کیریئر کے نقطۂ نظر سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں سے ہَوا دِھیمی آواز سے گُزرتی رہتی ہے۔ دو دبے قدموں چلنے والے مدد گاروں کے علاوہ وہاں کوئی نہیں آتا۔

درج ذیل تمام انٹرویو کے دوران، جو دو مسلسل سہ پہروں کو کیا گیا، وہ ہر وقت قہقہے لگانے کے لیے تیار نظر آئے، جو دفتر میں رَوا رکھی جانی والی خاموشی کے برعکس خوش گوار تھے۔ وہ نہایت معروف اور ان کے اپنے اعتراف کے مطابق گفتگو سے پرہیز کرنے والے شخص ہیں لیکن جب ایک بار سنجیدہ بات چیت شروع ہوئی تو میں نے انھیں ہمہ  تن گوش اور تیار پایا۔ انھوں نے رواں گفتگو کی لیکن طویل طویل وقفوں والی اور اس امر کا خاص دھیان رکھا کہ ممکن حد تک درست جواب دیں۔ جب بات چیت کا رُخ جاز یا میراتھن دوڑ کی سمت مُڑا تو، جو ان کے شدّید شوق ہیں، وہ کبھی بیس سالہ نوجوان لگے تو کبھی پندرہ سالہ لڑکا۔

v    

 

انٹرویو کنندہ:

میں نے حال ہی میں آپ کی کہانیوں کا تازہ مجموعہ ’’زلزلے کے بعد‘‘ (After the Quake) پڑھا ہے اور مجھے یہ دِلچسپ لگا کہ ہمارے خیال میں آپ نے کس آسانی سے اپنے ناول ’’ناوویجین ووڈ‘‘ کے مانند حقیقت نگاری کو کہانی میں ضم کر دیا۔ جب کہ دِیگر لوگوں کا خیال ہے کہ ان کہانیوں کا اسلوب ’’دی وائنڈ اَپ کرونیکلز‘‘ یا پھر ’’ہارڈ بوائلڈ ونڈر لینڈ اینڈ دی اَینڈ آف دی ورلڈ‘‘ کے زیادہ قریب ہے۔ کیا آپ ان دونوں میں کوئی بنیادی فرق پاتے ہیں؟

مورا کامی:

میرا اسلوب، جسے میں اپنا اسلوب سمجھتا ہوں، ’’ہارڈ بوائلڈ ونڈرلینڈ اینڈ دی اَینڈ آف دی ورلڈ‘‘کے نہایت قریب ہے۔ میں اپنے طور پر حقیقت نگاری کے اسلوب کو پسند نہیں کرتا۔ میں تخیلاتی (surrealistic) اسلوب کو زیادہ ترجیح دیتا ہوں۔ لیکن ’’نارویجین ووڈ‘‘ کے معاملے میں میں نے اپنا ذہن بنایا کہ میں مکمل طور پر حقیقت نگاری والا ناول لکھوں گا۔ مجھے اس تجربے کی ضرورت تھی۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ اس کتاب کو اسلوب میں کوئی مشق سمجھتے ہیں یا آپ کے پاس کوئی خاص کہانی تھی جسے آپ نے حقیقت نگاری میں بیان کرنا بہترین خیال کیا؟

مورا کامی:

اگر میں تخیلاتی ناول لکھتا رہتا تو میں ایک لکیر کا فقیر لکھاری ہی رہتا۔ لیکن میں مرکزی دھارے میں شمولیت چاہتا تھا۔ اس لیے مجھے ثابت کرنا تھا میں ایک حقیقت نگاری والا ناول بھی لکھ سکتا ہوں۔ پس میں نے وہ کتاب لکھی۔ میں جاپان کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ادیب تھا اور مجھے اس کی توقع بھی تھی۔

انٹرویو کنندہ:

تو یہ حقیقتاً ایک حکمتِ عملی کے تحت انتخاب تھا؟

مورا کامی:

یہ درست ہے۔’’نارویجین ووڈ‘‘ کو پڑھنا اور سمجھنا نہایت آسان ہے۔ اس کتاب کو بہت سے لوگوں نے پسند کیا۔ جو دوسری تحریروں میں بھی دِلچسپی رکھتے ہیں یہ ان کے لیے مددگار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

اس کا مطلب ہے کہ جاپانی قارئین بھی امریکی قارئین کی مانند ہیں؟ وہ ایک آسان کہانی چاہتے ہیں۔

مورا کامی:

میری تازہ ترین کتاب ’’کافکا آن دی شور‘‘کے تین ہزار سیٹ بکے آپ جانتے ہیں کہ وہ دو جلدوں میں ہے میں حیران رہ گیا کہ وہ اس قدر فروخت ہوئی۔ کہانی نہایت پیچیدہ اور سمجھنا مشکل ہے۔ لیکن میرا اسلوب، میری نثر نہایت آسان ہے۔ اس میں ایک مزاح ہے، یہ ڈرامائی ہے اور ایسی ہے کہ ورق پر ورق پلٹتے جائیے۔ ان دونوں عوامل میں ایک طلسماتی توازن ہے جو شاید میری کامیابی کا ایک اَور سبب ہے۔ یہ تاحال حیرت انگیز ہے۔ میں تین چار سال میں ایک ناول لکھتا ہوں اور لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک بار میں نے جان ایونگ کا انٹرویو کِیا کہ ایک اچھی کتاب کا مطالعہ ہی شاہراہ ہے۔ ایک بار جب لوگ عادی ہو جائیں تو انتظار کرتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ اپنا قارئین کو  اس لت کا عادی بنانا چاہتے ہیں؟

مورا کامی:

جان ایونگ نے یہی کہا تھا۔

انٹرویو کنندہ:

وہ دونوں عوامل ایک راست، بہ آسانی سمجھ میں آنے والی بیانیہ آواز جو اکثر ایک حیران کن پلاٹ سے منسلک ہو کیا دانستہ انتخاب ہیں؟

مورا کامی:

نہیں، ایسا نہیں ہے۔ جب میں لکھنا شروع کرتا ہوں تو میرے ذہن میں کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ میں بس کہانی کی آمد کا انتظار کرتا ہوں۔ میں یہ انتخاب نہیں کرتا کہ وہ کس قسم کی کہانی ہے یا کیا ہونے والا ہے۔ میں صرف انتظار کرتا ہوں۔ Norwegian Wood کا معاملہ مختلف ہے کیوں کہ اسے میں نے حقیقت نگاری کے اسلوب میں لکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن بنیادی طور پر میں انتخاب نہیں کر سکتا۔

انٹرویو کنندہ:

لیکن آپ اس آواز کا انتخاب کرتے ہیں، وہ سپاٹ آواز جس میں کہانی بیان کی جاتی ہے، بہ آسانی سمجھ میں آنے والی؟ کیا آپ اسے منتخب کرتے ہیں؟

مورا کامی:

مجھ پر کچھ تخیلات نازل ہوتے ہیں اور میں ایک ٹکڑے کو دوسرے سے جوڑتا ہوں۔ یہ کہانی کی سمت ہے۔ پھر میں کہانی کی سمت کی قاری کو تشریح کرتا ہوں۔ جب آپ کسی چیز کی شرح کریں تو آپ کو شفیق ہونا چاہیے۔ اگر آپ یہ سمجھیں کہ یہ ٹھیک ہے؛ مجھے معلوم ہے کہ یہ نہایت متکبرشے ہے۔ آسان الفاظ اور اچھے استعارات، اچھی تمثال نگاری ۔ تو میں یہ کرتا ہوں۔ میں نہایت احتیاط سے اور واضح انداز میں تشریح کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا یہ قدرتی طور پر ہوتا ہے؟

مورا کامی:

میں ذہین نہیں ہوں۔ میں متکبر بھی نہیں ہوں۔ میں اپنے قارئین جیسا ایک عام سا انسان ہوں۔ میں ایک جاز کلب چلاتا رہا ہوں اور میں مرکب مشروبات اور سینڈ وِچ بناتا رہا ہوں۔ میرا ارادہ لکھاری بننے کا قطعاً نہیں تھا۔ بس بن گیا آپ سمجھتے ہیں نا کہ یہ ایک طرح سے خدا کی طرف سے ودیعت ہے– پس میرا خیال ہے کہ مجھے نہایت عاجز بندہ ہونا چاہیے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کس عمر میں لکھاری بنے؟ کیا یہ آپ کے لیے تعجب انگیز واقعہ تھا؟

مورا کامی:

جب میں انتیس برس کا تھا۔ اوہ ہاں، یہ واقعی تعجب انگیز تھا۔ لیکن میں فوراً ہی اس کا عادی ہو گیا۔

انٹرویو کنندہ:

فوراً ہی؟ اپنے لکھنے کے پہلے ہی دِن سے آپ اطمینان محسوس کرنے لگے تھے؟

مورا کامی: 

میں نے آدھی شب کے بعد باورچی خانے کی میز پر لکھنا شروع کیا۔ اپنی پہلی کتاب ختم کرنے میں مجھے دس ماہ کا عرصہ لگا۔ میں نے اسے ناشر کو بھیجا اور کسی قسم کا انعام بھی ملا جو ایک خواب جیسا تھا– مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ ہو رہا ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے میں نے سوچا کہ میں ادیب بن گیا ہوں۔ کیوں نہیں؟ یہ سادہ سی بات ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی بیوی نے آپ کے ادیب بننے کے فیصلے کو کس طرح لیا؟

مورا کامی:

اس نے قطعاً کچھ نہیں کہا اور جب میں نے اسے بتایا کہ میں مصنف بن گیا ہوں تو وہ حیران رہ گئی بلکہ ایک طرح سے پریشان ہو گئی تھی۔

انٹرویو کنندہ:             

وہ پریشان کیوں ہو گئی تھیں؟ کیا ان کا خیال تھا کہ آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے؟

مورا کامی:

مصنف بننے کا مطلب ایک طرح کا چشمِ زدن میں ہونے والے واقعہ کی مانند ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کے لیے مثالی شخصیات کون سی تھیں؟ کون کون سے جاپانی مصنف آپ پر اثر انداز ہوئے؟

مورا کامی:

اپنے بچپن حتّٰی کہ جوانی میں بھی میں نے زیادہ جاپانی مصنفین کو نہیں پڑھا۔ میں اس ثقافت سے فرار چاہتا تھا۔ مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ بیزارکن ہے، سخت ناگوار ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ کے والد جاپانی ادب کے استاذ نہیں تھے؟

مورا کامی:

درست۔ اس طرح یہ بھی باپ بیٹے کے درمیان ایک رشتہ تھا۔ بس اِتنا ہوا کہ میں مغربی ثقافت کی جانب چلا گیا: جاز موسیقی، دوستوفسکی، کافکا اور ریمنڈ چانڈلر۔ وہ میری اپنی دنیا تھی، میری اپنی تخیلاتی سرزمین۔ میں چاہتا تو سینٹ پیٹرس برگ یا مغربی ہالی وڈ چلا جاتا۔ یہی ناول کی طاقت ہے آپ کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ اب، ریاست ہائے متّحدہ جانا آسان ہے کوئی بھی دنیا بھر میں جہاں چاہے جا سکتا ہے لیکن ۱۹۶۰ء میں یہ تقریباً ناممکن تھا۔ پس میں نے صرف پڑھا، موسیقی سنی اور جہاں چاہا چلا گیا۔ یہ ایک نوع کی ذہنی کیفیّت تھی، خواب جیسی۔

انٹرویو کنندہ:

اور اس سے آپ لکھنے کے مرحلے تک پہنچے؟

مورا کامی:

درست۔ جب میں انتیس برس کا تھا تو میں نے ناگہاں ایک ناول لکھنا شروع کیا۔ میں کچھ لکھنا چاہتا تھا لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیسے لکھوں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ جاپانی زبان میں کیسے لکھا جاتا ہے سو میں نے اپنی پڑھی ہوئی کتابوں سے امریکی یا مغربی کتابوں سے اسلوب، ہیئت اور ہر شے ادھار لی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میرا اپنا ایک حقیقی اسلوب بن گیا۔ تو اس طرح آغاز ہوا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی پہلی کتاب شائع ہوئی، آپ نے انعام جیتا اور اپنے لیے کچھ نہ کچھ راہ ہموار کر لی۔ کیا آپ نے دِیگر لکھاریوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کیا؟

مورا کامی:

نہیں، بالکل نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا آپ کا کوئی دوست بھی اس وقت لکھاری نہیں تھا؟

مورا کامی:

ایک بھی نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

کیا بعد میں آپ کی کسی ایسے مصنف سے ملاقات ہوئی جو آپ کا دوست یا ساتھی بن گیا ہو؟

مورا کامی:

نہیں، بالکل نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

آج تک آپ کا ایک بھی ایسا دوست نہیں جو مصنف بھی ہو؟

مورا کامی:

نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا کوئی ایسا شخص بھی نہیں جسے آپ لکھنے کے دوران اپنی نگارش دِکھاتے ہوں؟

مورا کامی:

بالکل بھی نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

اپنی بیوی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

مورا کامی:

خوب، میں نے اپنے پہلے ناول کا مسودہ اسے دِکھایا تھا لیکن وہ کہتی ہے کہ اس نے اسے پڑھا ہی نہیں! اس لیے میرا خیال ہے کہ اس کے بھی کوئی تأثرات نہیں ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

وہ متأثر نہیں ہوئیں؟

مورا کامی:

نہیں۔ البتہ وہ پہلا مسودہ تھا اور انتہائی خوف ناک تھا۔ میں نے اسے بار بار لکھا۔

انٹرویو کنندہ:

اب جب آپ کسی تخلیق پر کام کر رہے ہوں تو وہ متجسس نہیں ہوتی کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں؟

مورا کامی:

وہ میری ہر کتاب کی میری سب سے پہلی قاری ہے۔ میں اس پر انحصار کرتا ہوں۔ایک طرح سے وہ میری شریکِ کار ہے۔ یہ سکاٹ جیرالڈ فٹز جیسا معاملہ ہے زیلڈا اس کی پہلی قاری ہوتی تھی۔

انٹرویو کنندہ:             

گویا آپ نے اپنے کیریئر میں کبھی نہیں سمجھا کہ آپ لکھاریوں کے کسی طبقے کا حصّہ ہیں؟

مورا کامی:

میں تنہائی پسند ہوں۔ میں گروہ بازی، دبستانوں، ادبی حلقوں کو پسند نہیں کرتا۔ پرنسٹن میں ظہرانہ یا کسی قسم کی کوئی دعوت تھی جہاں میں بھی مدعو تھا۔ وہاں جوائس کیرول اوایٹس اور ٹونی موریسن بھی موجود تھے۔ ان کی موجودگی سے میں اس قدر خوف زدہ ہو گیا کہ ایک لقمہ تک نہیں کھا پایا! وہیں قریب قریب میری ہم عمر مَیری مورِس بھی تھی، جو ایک عمدہ شخصیت ہیں، اور میں کہوں گا کہ ہم دوست بن گئے۔ لیکن کوئی جاپانی لکھاری میرا دوست نہیں ہے کیوں کہ میں… فاصلہ رکھنا چاہتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے The Wind-Up Birds Chronicles کا ایک بڑا حصّہ رہاست ہائے متحدہ امریکا میں تحریر کیا۔ کیا وہاں کے قیام کے اس عرصے کے  اثرات آپ کے لکھنے کے عمل پر یا مسودے پر مرتب ہوئے؟

مورا کامی:

The Wind-Up Birds Chronicles کو ضبطِ تحریر میں لانے کے چار برس کے عرصے کے دوران میں امریکا میں ایک اجنبی کی حیثیت سے قیام پذیر تھا۔ وہ ’’اجنبیت‘‘ ہمیشہ سایے کی مانند میرے تعاقب میں رہتی تھی اور یہی کچھ ناول کے مرکزی کردار کے ساتھ بھی ہوا۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر میں نے اسے جاپان میں لکھا ہوتا تو وہ قطعی مختلف ہوتا۔

امریکا میں قیام کے دوران اجنبیت اس اجنبیت سے مختلف تھی جو مجھے جاپان میں محسوس ہوتی۔ یہ اجنبیت نہایت واضح اور   براہِ راست تھی جس مجھے اپنی زیادہ واضح شناخت دی۔ اس ناول کو لکھنے کا عمل ایک طرح سے اپنے آپ کو ننگا کرنے کے مترادف تھا۔

انٹرویو کنندہ:

کیا اس وقت جاپان میں ایسے مصنف موجود ہیں جن کی تخلیقات پڑھ کر آپ ان سے حظ اُٹھاتے ہوں۔

مورا کامی:

ہاں، چند ایک۔ ریو مورا کامی، بانانا یوشی موتو جن کی کچھ تخلیقات مجھے پسند آئی ہیں۔ لیکن میں تبصرے یا تنقید نہیں لکھتا اور               نہ ہی اس میں پڑنا چاہتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

 کیوں؟

مورا کامی:

میرے خیال میں یہ لوگوں اور دنیا کے مشاہدے کا کام ہے نہ کہ ان پر حَکم جاری کرنے کا۔ میں ہمیشہ اپنے آپ کو ایسے نام نہاد نتائج سے دور رکھتا ہوں۔ میں ہر چیز کو دنیا کے ممکنات کے رُوبرو کھلا چھوڑ دینے کا قائل ہوں۔

میں تنقید کے ترجمے کو ترجیح دیتا ہوں کیوں کہ ترجمہ کرتے ہوئے کسی شے پر حَکم جاری کرنے کی شاذ ہی ضرورت پیش آتی ہے۔ میں اپنی پسندیدہ نگارش کو سطر در سطر اپنے دماغ اور رُوح میں سرایت کرنے دیتا ہوں۔ یقینا اس میدان میں ناقدین کی ضرورت ہے لیکن تنقید میرا کام نہیں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کی اپنی تخلیقات کی طرف واپس آتے ہیں: یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ hard-boiled امریکی سری ادب ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ آپ کے سامنے یہ سرمایہ سب سے پہلے کب آیا اور کس نے رکھا؟

مورا کامی:

جب میں ہائی سکول کا طالب علم تھا تو میں جرائم پر مبنی ناولوں کا شیدائی ہو گیا۔ میں کوبے میں رہتا تھا جو بندرگاہ والا شہر ہے جہاں بہت سے غیر ملکی اور کشتی ران آتے اور اپنی باریک گتّے کی جِلد والی پُرانی کتابیں بیچتے تھے۔ میں غریب تھا لیکن کم قیمت میں وہ کتابیں خرید سکتا تھا۔ میں نے ان کتابوں سے انگریزی سیکھی اور وہ نہایت پرانگیخت تجربہ تھا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے انگریزی میں کون سی پہلی کتاب پڑھی تھی؟

مورا کامی:

روس میکڈونلڈ کی The Name is Archer۔ میں نے ان کتابوں سے بہت کچھ سیکھا۔ جب میں ایک بار پڑھنا شروع کر دیتا تو ختم کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ٹالسٹائی اور دوستوفسکی کو بھی والہانہ پڑھتا تھا۔ وہ ایسی کتابیں ہیں کہ بس ورق پلٹتے جائیے۔ وہ طویل ضرور ہیں لیکن میں نے انھیں کبھی ادھورا نہیں چھوڑا۔ تو میرے لیے دوستوفسکی اور رَیمنڈ چانڈلر برابر ہیں۔ اب بھی افسانہ لکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ میں اپنی تحریر میں دوستوفسکی اور چانڈلر دونوں کو رکھ دوں۔ یہی میرا مقصد ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے کس عمر میں کافکا کو پہلی بار پڑھا؟

مورا کامی:

جب میں پندرہ برس کا تھا تو میں نے The Castle پڑھا۔ وہ عظیم تخلیق ہے۔ اور پھر The Trial۔

انٹرویو کنندہ:

یہ دلچسپ بات ہے۔ لیکن وہ نامکمل ناول ہیں جس کا واضح مطلب ہے کہ بِلا شبہ وہ کبھی انجام تک نہیں پہنچتے؛ آپ کے ناولوں کا انجام بھیخاص طور پر آپ کے The Wind-Up Chronicles جیسے ناول اس سے اکثر برعکس ہوتا ہے جس کی قاری توقع کر رہا ہوتا ہے۔

مورا کامی:

صرف یہ اکیلے ہی نہیں۔ آپ نے یقینا ریمنڈ چانڈلر کو پڑھا ہو گا۔ اس کی تخلیقات حقیقی انجام پیش نہیں کرتیں۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ وہ قاتل ہے لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ وہ قاتل کون ہے۔ ہاورڈ ہاکس نے The Big Sleep میں نہایت دِلچسپ واقعے لکھے ہیں۔ ہاکس کو معلوم نہیں تھا کہ شوفر کو کس نے قتل کیا۔ پس اس نے چانڈلر سے رابطہ کیا اور اس سے پوچھا تو چانڈلر نے جواب دیا: مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ یہی معاملہ میرے ساتھ ہے۔ انجام کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔ مجھے پرواہ نہیں ہے کہ The Brohers Karamazov میں قاتل کون ہے۔

انٹرویو کنندہ:

اس کے باوجود بھی یہ جاننے کی تمنّا کہ شوفر کو کس نے قتل کیا تھا The Big Sleep کو پڑھواتی ہے۔

مورا کامی: 

چوں کہ میں خود بھی ایک لکھاری ہوں لیکن اس کے باوجود میں نہیں جانتا کہ اسے کس نے قتل کیا۔ میں اور قارئین اس معاملے میں ایک ہی جیسے ہیں۔ جب میں کوئی کہنا لکھنا شروع کرتا ہوں تو مجھے خود انجام معلوم نہیں ہوتابلکہ مجھے تو یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ آگے کیا ہو گا۔ اگر آغاز ہی میں قتل ہو جائے تو مجھے بھی نہیں علم ہوتا کہ قاتل کون ہے۔ میں لکھتا ہی اس لیے ہوں کہ دریافت کر سکوں۔ اگر میں قاتل کے بارے میں جانتا ہوں تو کہانی لکھنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

کیا اس سلسلے میں کہیں یہ احساس بھی کارفرما ہے کہ اپنی تخلیقات کی شرح بیان نہ کی جائے بالکل ایسے ہی جیسے جب ایک خواب کی تعبیر جاننے کی کوشش کی جاتی ہے تو اپنی طاقت کھو بیٹھتا ہے۔

مورا کامی:

تخلیق کرنے کی سب اچھی بات یہ ہے کہ جاگتے میں خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ حقیقی خواب کے دوران آپ کا اس پر اختیار نہیں ہوتا۔ لیکن تخلیق کے دوران آپ جاگ رہے ہوتے ہیں؛ آپ وقت، دورانیے، حتّٰی کہ ہر چیز کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ میں صبح کے وقت چار سے پانچ گھنٹے تک لکھتا ہوں اور جب یہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو میں کام بند کر دیتا ہوں۔ پھر میں اگلے روز کام کرتا ہوں۔ اگر یہی حقیقی خواب ہو تو یہ نہیں کیا جا سکتا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کا کہنا ہے کہ کہانی لکھتے ہوئے آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ قاتل کون ہے لیکن میرے خیال میں استثنیٰ موجود ہے: Dance Dance Dance میں گوٹانڈا کو کردار۔ ناول میں ایک خاص نوع کی بنت موجود ہے جو اس لمحے کی طرف لے جاتی ہے جس لمحے گوٹانڈا جرائم کے کلاسیک ناولوں کے انداز میں اعتراف کرتا ہے۔ اسے ہمارے سامنے آخری مشتبہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کیا آپ کو پہلے سے علم نہیں تھا کہ گوٹانڈا مجرم ہے؟

مورا کامی:

پہلے مسودے کے دوران مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجرم گوٹانڈا ہے۔ لیکن انجام کے قریبکم و بیش دو تہائی حصّے کے بعد مجھے معلوم ہوا۔ جب میں نے نظر ثانی کرتے ہوئے دوسرا مسودہ لکھا تو میں نے، یہ جانتے ہوئے کہ گوٹانڈا قاتل ہے، اس کے مناظر لکھے۔

انٹرویو کنندہ:

پھر کیا نظر ثانی کی یہی بڑی وجہ ہے  کہ آپ نے پہلے مسودے کی تکمیل سے سیکھ کر جو حاصل کیا ہے اس کے پہلے سے لکھے ہوئے حصّوں پر دوبارہ کام کر کے ناگزیریت کا ایک خاص احساس دے سکیں؟

مورا کامی:

یہ درست ہے۔ پہلا مسودہ ابتر حالت میں ہوتا ہے۔ میں بار بار نظر ثانی کرتا ہوں۔

انٹرویو کنندہ:

آپ ایک مسودے کی عام طور پر کتنی بار نظر ثانی کرتے ہیں؟

مورا کامی:

چار یا پانچ بار۔ چھے ماہ پہلا مسودہ لکھنے میں صرف ہوتے ہیں اور پھر نظر ثانی میں سات آٹھ ماہ۔

انٹرویو کنندہ:

آپ بڑی تیزی سے کام کرتے ہیں۔

مورا کامی:

میں محنتی شخص ہوں۔ اپنے کام پر بھرپور توّجہ دیتا ہوں۔ پس آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ میرے لیے آسان کام ہے۔ اور پھر یہ کہ میں لکھنے کے دوران کسی اَور چیز پر دھیان نہیں دیتا۔

انٹرویو کنندہ:

 آپ کے کام والے عمومی دِن کا خاکہ کیا ہے؟

مورا کامی:

جب لکھنے کے لیے میری طبیعت موزوں ہوتی ہے تو میں صبح چار بجے اٹھتا ہوں اور پانچ چھے گھنٹے کام کرتا ہوں۔ سہ پہر کو میں دس کلومیٹر کی دوڑ لگاتا ہوں یا پھر پندرہ سو گز کی پیراکی کرتا ہوں (یا دونوں ہی کام کرتا ہوں)، پھر میں تھوڑا بہت مطالعہ کرتا ہوں اور موسیقی سنتا ہوں۔ رات نو بجے بستر پر چلا جاتا ہوں۔ میں اپنے ان روزمرہ معمولات کو بدلتا نہیں۔ تکرار بذاتِ خود اہم شے بن جاتی ہے؛ یہ بھی میسمیریزم کی ایک قسم ہے۔ میں ذہن کی اتھاہ گہرائیوں تک رسائی کے لیے اپنے آپ کو میسمیریزم کرتا ہوں۔ لیکن اس قدر طویل تکرار کو برقرار رکھنے کے لیے چھے ماہ سے ایک سال تک کی خوب ذہنی اور جسمانی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ایک طویل ناول لکھنا ایک طرح سے اپنے آپ کو قائم رکھنے کی تربیت مترادف ہے۔ جسمانی قوّت بھی فن کارانہ حساسیت جتنی ہی ضروری ہے۔

انٹرویو کنندہ:

میں آپ کے کرداروں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ جب آپ لکھ رہے ہوں تو وہ کس قدر حقیقی بن جاتے ہیں؟ کیا یہ بات آپ کے لیے اہمیت کی حامل ہے کہ وہ بیانیے میں اپنی آزادانہ زندگی رکھتے ہوں؟

مورا کامی: 

اپنی تخلیقات میں کرداروں کی بُنت کاری کرنے سے پہلے میں اپنی زندگی کے حقیقی لوگوں کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ مجھے زیادہ باتیں کرنا پسند نہیں؛ مجھے دوسرے لوگوں کی کہانیاں سننا اچھا لگتا ہے۔ میں یہ فیصلہ نہیں کرتا کہ وہ کس قسم کے لوگ ہیں؛ میں تو بس یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں، ان کے اعمال کیا ہیں۔ میں کسی مرد کچھ خصوصیات لیتا ہوں تو کسی عورت سے کچھ خصوصیات۔ مجھے نہیں معلوم یہ ’’حقیقی‘‘ ہے یا ’’غیر حقیقی‘‘ لیکن میرے نزدیک میرے کردار حقیقی لوگوں سے زیادہ حقیقی ہوتے ہیں۔ میرے لکھنے کے چھے یا سات ماہ کے عرصے کے دوران وہ لوگ میرے لاشعور میں موجود رہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی کائنات ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کے مرکزی کردار آپ کے بیانیے کی تخیلاتی دنیا میں آپ کے اپنے نقطۂ نظر کی ترویج کرتے نظر آتے ہیں یعنی خواب میں خواب دیکھنے والے۔

مورا کامی:

براہِ مہربانی اس نکتے کو اس طرح دیکھیے : میرا ایک جڑواں بھائی ہے۔ جب میں دو برس کا تھا تو ہم میں سے ایک  میرا دوسرا بھائی  اغواء کر لیا گیا۔ اس کی پرورش ایک دوردراز مقام پر ہوئی اور اس کے اغواء کے بعد سے ہم کبھی ملے نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا مرکزی کردار وہ ہے۔ میرے وجود ہی کا ایک حصّہ ہے، لیکن وہ میں نہیں ہوں، اور ہم طویل عرصے سے ایک دوسرے سے ملے بھی نہیں۔ یہ میری شخصیت کا دوسرا رُخ ہے۔ ڈی این اے کے لحاظ سے ہم ایک ہیں لیکن ہمارے ماحول مختلف ہیں۔ پس ہمارے سوچنے سمجھنے کا انداز بھی مختلف ہو گا۔ ہر بار جب میں کوئی کتاب لکھتا ہوں تو کسی اَور کے قالب میں چلا جاتا ہوں۔ کیوں کہ بعض اوقات میں اپنے آپ سے بھی اُکتا گیا ہوتا ہوں۔ اس طرح میں فرار حاصل کرتا ہوں۔ یہ خواب  ہے۔ اگر آپ خواب نہیں دیکھ سکتے تو آپ کے پاس کتاب لکھنے کے لیے کون سا نقطہ بچتا ہے؟

انٹرویو کنندہ:

Hard-Boiled Wonderland کے بارے میں ایک اَور سوال۔ اس میں ایک خاص نوع کی ہم آہنگی، ایک خاص قسم کی رسمی خوبی اور عزم کا ایک احساس بھی ہے، جو اسے بعد کی کتابوں سے، مثلاً The Wind-Up Bird Chronicles، الگ کرتے ہیں۔ کیا کسی مقام پر آکر ناول کے افعال اور اس کی بنت کی اہمیت کے بارے میں تبدیل ہو گئے تھے؟

مورا کامی:

ہاں۔ میری پہلی دونوں کتابیں جاپان سے باہر شائع نہیں ہوئیں نہ میں انھیں شائع کروانا چاہتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ ناپختہ تحریریں ہیں اور بہت چھوٹی کتابیں۔ اگر یہ لفظ مناسب ہے تو میں کہوں گا کہ وہ کھوکھلی تھیں۔

انٹرویو کنندہ:

ان میں کیا خامیاں تھیں؟

مورا کامی:

میں اپنے پہلے دونوں ناولوں میں روایتی جاپانی ناول کی تجرید کی کوشش کر رہا تھا۔ تجرید سے میری مُراد صرف چوکھٹے کو رکھتے ہوئے ان کے اندر کی ہر شے کو ہٹانا ہے۔ پھر میں نے کوشش کی اس چوکھٹے میں ہر چیز تازہ اور اصیل ڈالی جائے۔ میں یہ اس کام کو کامیابی سے کرنے کا اہل ۱۹۸۲ء میں اپنے تیسرے ناول A Wild Sleep Chase کے بعد ہوا۔ پہلے دونوں ناول اس عمل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوئے اس سے زیادہ نہیں میرا خیال ہے کہ A Wild Sleep Chase سے میرے اسلوب کا حقیقی آغاز ہوا تھا۔

چوں کہ میرے ناول خاصے ضخیم ہوتے ہیں لہٰذا ان کی بنت بھی خاصی پیچیدہ ہوتی ہے۔ ہر بار نئی تخلیق کرتے ہوئے میں اپنے پچھلے بنت کو ختم کرنے کا متمنّی ہوتا ہوں تاکہ ایک نئی چیز بنا سکوں۔ اور ہمیشہ نئی تخلیق میں نیا موضوع یا کوئی نئی پابندی یا کوئی نیا زخیال لانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں ہمیشہ بنت کے بارے میں محتاط رہتا ہوں۔ اگر میں بنت تبدیل کرتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے اپنا اسلوب تبدیل کرنا پڑتا ہے اور اسی طرح کردار نگاری بھی۔ اگر میں ایک ہی چیز دہراتا رہوں تو میں اُکتا جاؤں گا، بیزار ہو جاؤں گا۔

انٹرویو کنندہ:

اور پھر بھی آپ کی اسلوب کے کچھ عناصر تبدیل ہونے کے باوجود کچھ چیزیں برقرار رہی ہیں۔ آپ کے ناول ہمیشہ واحد متکلّم میں ہوتے ہیں۔ ان سب میں ایک شخص عورتوں کے ساتھ جنسی تعلّقات کے لیے گھن چکّر بنا ہوتا ہے۔ وہ عموماً انفعالی ہوتا ہے اور عورتیں بھی جو اس کے خوف اور خوابوں کے مظہر کے طور پر عمل کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔

مورا کامی:

میرے ناولوں اور کہانیوں میں ایک لحاظ سے عورتیں واسطے ہیں؛ واسطے کا کام کسی واقعے کو جنم دینا ہوتا ہے۔ یہ نظام کی وہ قسم ہے جس کا تجربہ ہونا چاہیے۔ واسطہ  مرکزی کردار کی ہمیشہ کسی سمت رہنمائی کرتا ہے اور وہ وہی شے دیکھتا ہے جو اسے واسطہ دِکھاتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

وکٹورین سوجھ بوجھ کے واسطے؟ نفسیاتی واسطے ؟

مورا کامی:

میرا خیال ہے کہ جنسیت رُوح کی ذمّہ داری نبھانے کا  ایک عمل ہے… ایک قسم ہے۔ اگر جنسی عمل اچھا ہے تو آپ کا زخم بھر جائے گا، آپ کا تخیل قوی ہو جائے گا۔ یہ اعلیٰ مقام کی سمت، بہتر مقام کی طرف جانے والا ایک راستہ ہے۔ اس صُورتِ حال میں، میری کہانیوں میں عورتیں واسطے ہیں آنے والی دنیا کی نقیب۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میرے مرکزی کردار کی طرف رجوع کرتی ہیں، وہ ان سے رجوع نہیں کرتا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ کے ناولوں میں دو مختلف قسم کی عورتیں پائی جاتی ہیں: وہ جن کے ساتھ مرکزی کردار کے بنیادی طور پر سنجیدہ تعلّقات ہوتے ہیں اکثر یہ وہ عورت ہوتی ہے جو غائب ہو جاتی ہے اور جس کی یاد اسے ستاتی ہے اور دوسری قسم کی عورتیں وہ ہیں جو بعد میں نمودار ہوتی ہیں اور اس کی تلاش میں اس کی مدد کرتی ہیں یا اس کے برعکس کردار ادا کرتی ہیں پچھلی عورت کو بُھلا ڈالتی ہیں۔ عورت کی یہ قسم کھری کھری باتیں کرنے والی، سنکی اور جنسی عمل میں کھلے پن والی ہوتی ہیں اور مرکزی کردار کھو جانے والی عورت کی نسبت، جس سے کبھی اِتنا تعلّق نہیں بنا پایا تھا، اس کے ساتھ نہایت گرم جوشی اور زیادہ دِلچسپ تعلّق رکھتا ہے۔ دونوں انواع کی یہ عورتیں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟

مورا کامی:

میرا مرکزی کردار بیشتر رُوحانی اور حقیقی دنیا میں پھنسا ہوتا ہے۔ رُوحانی دنیا میں عورتیں یا مرد خاموش طبع، ذہین ،نرم مزاج اور فطین ہوتی ہیں۔ حقیقی دنیا میں، آپ جانتے ہیں کہ، عورتیں زیادہ خوش باش اور مثبت ہوتی ہیں۔ ان کے پاس مزاح کی حس ہوتی ہے۔ مرکزی کردار کا ذہن دو دنیاؤں میں بٹا ہوتا ہے اور وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ دونوں میں سے کسے منتخب کرے۔ میرا خیال ہے کہ میرے کام میں یہی مرکزی تحرک ہے۔ Hard-Boiled Wonderland میں یہ نہایت نمایاں ہے۔ اس ناول میں مرکزی کردار کا دماغ حقیقتاً، عملاً تقسیم ہو جاتا ہے۔ Norwegian Wood میں بھی دو لڑکیاں ہیں اور مرکزی کردار ناول کے آغاز سے آخر تک ان میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ پر نہیں پہنچ پاتا۔

انٹرویو کنندہ:

میری ہمدردیاں ہمیشہ حسِ مزاح رکھنے والی لڑکی کے ساتھ ہوتی ہیں۔ قاری کی دِلچسپی کو اس تعلّق میں قائم رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے جس میں مزاح کی چاشنی بنیادی اہمیت رکھتی ہو بہ نسبت ایک محبت بھرے تعلّق کے حقیقی بیانیے کے ۔ Norweigian Wood میں میں ہمہ وقت مِیڈوری (Midori) سے   جڑا رہا۔

مورا کامی:

میرا بھی یہی خیال ہے کہ اکثر قارئین یہی کہیں گے۔ اکثریت میڈوری ہی کو چنے گی۔ اور مرکزی کردار، بے شک، وہ اسے ناول کے آخر میں منتخب کرے گا۔ لیکن اس کا (مرکزی کردار کا) کا کچھ حصّہ دوسری دنیا میں ہے جسے وہ ترک نہیں کر سکتا۔ وہ اس کا (مرکزی کردار کا)  حصّہ ہے، ایک لازمی حصّہ۔ تمام انسانوں کو کوئی نہ کوئی دماغی بیماری ہوتی ہے۔ وہ خلا ان کا  حصّہ ہوتا ہے۔ ہمارے دماغ میں ایک حصّہ عقل و دانش والا اور دوسرا جنون کا ہوتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ ہمارا ان دونوں حصّوں سے مکالمہ رہتا ہے۔ میں اپنے جنونی حصّے کو اس وقت خاص طور پر دیکھ سکتا ہوں جب میں لکھ رہا ہوتا ہوں  جنون درست لفظ نہیں ہے۔ اسے غیر معمولی، غیر حقیقی کہا جا سکتا ہے۔ بِلا شبہ، مجھے حقیقی دنیا میں لوٹنا اور اپنے عقل ودانش والے حصّے کو منتخب کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر میرا جنون والا حصّہ، بیمار حصّہ نہ ہوتا تو میں یہاں نہ ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں، مرکزی کردار کی دو عورتیں مدد کرتی ہیں۔ دونوں ہی کے بغیر وہ نہیں چل سکتا۔ اس لحاظ سے، میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کی Norwegian Wood نہایت راست مثال ہے۔

……باقی انٹرویو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Authors

  • ۱۲ جنوری ۱۹۴۹ء کو کیوٹو میں پیدا ہونے والے ہاروکی موراکامی جاپان کا معروف مصنف اور ترجمہ نگار ہیں۔ گارڈین نے ان کا شمار عظیم ترین حیات ناول نگاروں میں کیا ہے۔ ہاروکی موراکامی کی جوانی شوکوگاوا (نشنومیا)، آشیا اور کوبے میں بسر ہوئی جہاں ان کے ماں باپ دونوں جاپانی ادب کے استاذ تھے۔ ہاروکی موراکامی بچپن ہی سے مغربی ثقافت بالخصوص مغربی ادب و موسیقی سے بہت متأثر تھے۔ وہ متعدد امریکی ادیبوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بڑے ہوئے۔ یہی مغربی اثر انھیں بہت سے دیگر جاپانی ادیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ٹوکیو میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کی ملاقات اپنی ہونے والی بیوی یوکو سے ہوئی۔ تعلیم ختم ہونے سے کچھ عرصہ قبل اُنھوں نے پیٹر کیٹ کے نام سے کوکوبُنجی ٹوکیو میں ایک کافی ہاؤس اور موسیقی گھر کھول لیا جسے دونوں میاں بیوی ۱۹۷۴ء سے ۱۹۸۴ء تک چلاتے رہے۔ موراکامی نے انتیس برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس سے قبل میں نے کبھی کچھ نہیں لکھا تھا۔ میں ایک عام آدمی تھا اور جاز بار چلاتا تھا۔ میں نے کبھی کوئی چیز تخلیق نہیں کی تھی۔‘‘ انھیں اپنے پہلے ناول ’’ہوا کا گیت سنو‘‘ کی، جو ۱۹۷۹ء میں اشاعت پذیر ہوا، تحریک ۱۹۷۸ء میں بیس بال کا ایک میچ دیکھتے ہوئے ملی۔ وہ گھر گئے اور اُنھوں نے اسی رات لکھنا شروع کر دیا۔ مورا کامی نے اس ناول پر سات ماہ تک کام کیا۔ وہ دن میں بار میں کام کرتے اور رات کو تھوڑا تھوڑا کر کے ناول کو لکھتے۔ ناول مکمل کر کے انھوں نے ناول کو اس واحد ادبی مقابلے میں بھیج دیا جو اتنی ضخامت کے ناول قبول کرتا تھا جتنی کا یہ ناول ہے۔ ناول نے پہلا انعام حاصل کر لیا۔ اس کامیابی نے انھیں مزید لکھنے کا حوصلہ عطا کیا اور انھوں نے متعدد ناول لکھے۔ ان کے ابتدائی دو غیر مطبوعہ ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ شائع ہوا۔ موراکامی نے ان ناولوں کو کمزور قرار دیا ہے اور وہ ان کے انگریزی میں ترجمے کے حق میں نہیں تھے۔ ۱۹۸۵ء میں ’’ہارڈ بوائلڈ ونڈرلینڈ اینڈ دی اَینڈ آف دی ورلڈ‘‘ تحریر کیا جس میں خواب جیسی ایک فینتاسی ہے۔ یہی فینتاسی بعد میں موراکامی کے عروج تک پہنچتے پہنچتے ان کی تحریروں میں انتہائی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ مورا کامی کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے والا ناول ’’نارویجین وڈ‘‘تھا جو ۱۹۸۷ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس ناول کی کہانی خسارے اور جنس پرستی کا ناستالجیا ہے۔ یہ ناول نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہوا اور اس نے ان کی جاپان میں شہرت بام عروج پر پہنچا دی۔ یہ ناول سبز اور سرخ دو جلدوں میں شائع کیا گیا جو اکٹھی فروخت کی جاتی تھیں۔ یوں اس کی فروخت کی تعداد دوگنا رہی اور اس طرح اس کے لاکھوں نسخے فروخت ہوئے۔ ۱۹۸۶ء میں مورا کامی جاپان سے نکلے اور پورا یورپ گھومنے کے بعد امریکا میں قیام پذیر ہو گئے۔ جہاں انھوں نے امریکا کی پرنسٹن اور ٹُفٹس یونیورسٹیوں میں بطور ’’رائٹنگ فیلو‘‘ کام کیا۔ اسی دوران انھوں نے ’’ویسٹ آف دی سن، ساؤتھ آف دی بارڈر‘‘ اور ’’دی وائنڈ اپ کرونیکل‘‘ تحریر کیے۔ ۱۹۹۵ء میں اُنھوں نے ’’دی وائنڈ اپ کرونیکل‘‘ شائع کروایا جو ایک ایسا ناول ہے جس میں حقیقت اور فینتاسی کو مدغم کیا گیا ہے اور جسمانی تشدد کے عنصر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ ناول ان کے سابقہ ناولوں کی نسبت زیادہ سماجی آگاہی رکھتا ہے۔ جزوی طور پر اس میں مانچوکو (شمال مشرقی چین) کے جنگی جرائم کے مشکل موضوع کو برتا گیا ہے۔ اس ناول پر انھیں جاپان کے ادبی انعام Yomiuri سے نوازا گیا جو انھیں ۱۹۹۴ء کے نوبیل انعام یافتہ ادیب کینزا بورو اوئے نے دیا جو کسی زمانے میں ان کا سخت نقاد رہا تھا۔ اس ناول کی تکمیل کے بعد ہاروکی موراکامی واپس جاپان لوٹ آئے۔ اب ان کی تحریروں کا اہم موضوع شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے نفسیاتی صدمات بن گئے تھے۔ ’’سپوتنک سویٹ ہارٹ‘‘ پہلی بار ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا اور ’’کافکا آن دی شور‘‘ ۲۰۰۲ء، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۰۵ء میں ہوا۔ ’’کافکا آن دی شور‘‘کو ۲۰۰۶ء میں ناولوں کا ورلڈ فینتاسی ایوارڈ دیا گیا۔ ’’آفٹر ڈارک ‘‘ کا انگریزی روپ ۲۰۰۷ء میں سامنے آیا جسے نیویارک ٹائمز نے ’’سال کی قابلِ ذکر کتاب‘‘ قرار دیا۔ ۲۰۰۵ء کے آخیر میں موراکامی نے مختصر کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’ٹوکیو کتان شو‘‘ کے نام سے شائع کروایا جس کا ڈھیلا ڈھالا ترجمہ ’’مسٹریز آف ٹوکیو‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ ان کی چوبیس کہانیوں کے ترجمے کا مجموعہ اگست ۲۰۰۶ء میں ’’بلائنڈ ولوز، سلیپنگ وومن‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ جس میں موراکامی کے ۱۹۸۰ء کی دہائی سے لے کر تازہ ترین کہانیوں کا انتخاب شامل کیا گیا جن میں ’’ٹوکیو کتان شو‘‘ کی پانچوں کہانیاں بھی شامل ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں انھوں نے ’’برتھ ڈے سٹوریز‘‘ شائع کروائیں جو تمام کی تمام سالگرہ کے موضوع پر ہیں۔ اس مجموعے میں دیگر انگریزی مصنفین کے ساتھ ساتھ موراکامی کی اپنی کہانی بھی شامل ہے۔ ۲۹ مئی ۲۰۰۹ء کو ’’آئی کیو۸۴ ‘‘ شائع ہوا۔ جاپانی زبان ’’کیو ‘‘ ۹ کے ہندسے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِس طرح ’’آئی کیو۸۴ ‘‘ سے ۱۹۸۴ بنتا ہے۔ اس ضخیم ناول نے خریداری کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس ناول کو ۲۰۱۱ء کو ’’مین ایشین لٹریری پرائز ‘‘کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔ موراکامی کی ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۰ء کے بیچ لکھے جانے والی متعدد کہانیاں انگریزی میں ’’دی ایلیفینٹ وینیشز ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ ہو چکی ہیں۔ موراکامی نے بھی متعدد ادیبوں مثلاً ایف سکاٹ فٹز جیرالڈ، ریمنڈ کارور، ٹرومین کیپوٹ، جان اِروِنگ اور پال تھیراؤکس کے ڈھیر سارے ادبی کام کو جاپانی زبان میں منتقل کیا ہے۔ موراکامی کی اپنی تحریروں کے بھی پچاس سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ان کے متعدد ناولوں اور افسانوں کو فلمایا بھی جا چکا ہے۔ موراکامی کو ملنے والے انعامات و اعزازت کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے دو کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ وہ چیک ری پبلک کا قابل قدر انعام ’’فرانز کافکا پرائز‘‘ پانے والے چھٹے ادیب ہیں جو انھیں ان کے ناول ’’کافکا آن دی شور‘‘ پر ۲۰۰۶ء میں دیا گیا۔ نیز دیگر انعامات و اعزازات بھی اس طویل فہرست میں شامل ہیں۔ جنوری ۲۰۰۹ء میں انھیں اسرائیل کے یروشلم پرائز کا حقدار ٹھیرایا گیا۔ فروری ۲۰۰۹ء میں یہ انعام وصول کرنے کی تقریب کے وقت نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر میں ہر جگہ انھیں اپنے خلاف شدید احتجاج اور کتابوں کے بائیکاٹ کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اسی عرصے میں اسرائیل نے غزہ میں وحشیانہ بمباری کی تھی۔ لیکن موراکامی نے تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا اور انھوں نے تقریب کے شرکاء اور اسرائیلی اعلیٰ عہدیداران سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی پالیسیوں کو شدّید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ۲۰۱۱ء میں ’’انٹرنیشنل کاتالیونیا پرائز‘‘سے حاصل ہونے والی ۰۰۰،۸۰ یورو کی خطیر رقم اُنھوں نے ۱۱؍ مارچ کو زلزلے اور سونامی کے متأثرین اور فیوکو شیما کے نیوکلیائی حادثے کے شکار لوگوں کے لیے وقف کر دی۔ انعام وصولی کی تقریب سے تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ’’ یہ دُوسرا بڑا نیوکلیائی سانحہ ہے جسے جاپانی عوام کو سہنا پڑا ہے…… لیکن اِس بار بم ہم پر نہیں گرایا گیا بلکہ ہمارے اپنے ہاتھوں غلطی ہوئی ہے۔‘‘ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

1 thought on “ہاروکی مورا کامی”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *