انٹرویو
نوبیل انعام یافتہ
جے ایم کوئٹزی
(J. M. Coetzee)
انٹرویو کنندہ: برنا گونزالیز ہاربر
تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد
کئی سالوں کی مشق کے بعد مَیں عمدہ، سادہ، مختصر انگریزی جملے لکھنے لگا ہوں، کافی نحوی لچک کے ساتھ۔ موسیقی کے نقطہِ نظر سے، قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اُنھیں خاصا پرکشش بناتا ہوں۔
—جے ایم کوئٹزی
جنوبی افریقی نوبیل انعام یافتہ ادیب جے ایم کوئٹزی نے، جو لاطینی امریکی ادب کے ایک عظیم ماہر ہیں، اپنے تازہ ترین ناول کی انگریزی میں اشاعت سے پہلے ہسپانوی ترجمہ شائع کیا۔ اُن کا مؤقف ہے کہ یہ اُن کا اینگلو ثقافتی بالادستی کا مقابلہ کرنے کا طریقہ ہے۔
دانتے علیگھیری (Dante Alighierie) نے اپنی پہلی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’ Vida nouvelle ‘‘ ]’’حیاتِ نو (The New Life)‘‘[ (۹۳ـ۱۲۹۲ء) میں محبت ہو جانے کی تعریف ایسے شاعرانہ سادہ انداز میں کی ہے کہ صدیوں بعد بھی اِس کی قدر و منزلت برقرار ہے۔
’’وہ [مجھ پر] آشکار ہوئی…… مَیں سچ کہتا ہوں کہ حقیقی رُوح، جس کا بسیرا دل کے سب سے پوشیدہ گوشے میں ہے، اتنی شدّت سے کانپنے لگی کہ مَیں نے اُسے شدّومد سے محسوس کیا…… تب سے مَیں کہتا ہوں کہ [محبت] میری رُوح پر حکمران ہے ۔‘‘
یہ بیٹریس کے لیے دانتے کا اپنی محبت کے بارے میں صرف ایک متن کی اشتہا انگیزی ہے۔ وہ اطالوی شاعر کے ہمراہ اُن تمام مقاماتِ اعراف اور جنتوں میں گئی جن کا اُس نے اُس سے تذکرہ کِیا۔
جے ایم کوئٹزی نے— جنھیں ۲۰۰۳ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا — ایک ستر سالہ پولستانی پیانونواز اور بارسلونا کی ایک چالیس سالہ خاتون کے درمیان تعلقات کی صورت میں دانتے کے بیڑیس کے لیے جذبے کو مکرر تخلیق اور تازہ کار کِیا ہے۔ اُن کا تازہ ترین ناول ’’قطب‘‘ (The Pole) ارجنٹائن کے ’’ El Hilo de Ariadn‘‘نامی پبلشنگ ہاؤس نے پہلے ہسپانوی زبان میں ’’El polaco‘‘ کے نام سے شائع کِیا۔
’’مَیں نے خاص طور پر اپنے تین تازہ ترین ناول جنوبی نصف کرہ میں شائع کیے ہیں۔‘‘ اُنھوں نے ای میل کے ذریعے EL PAÍS کو وضاحت کی۔ ’’وہ برطانیہ یا امریکا میں [شائع ہونے] سے قبل ارجنٹائن اور آسٹریلیا میں منصۂِ شہود پر آچکے ہیں۔‘‘
انٹرویو کنندہ:
کیا آپ اپنے اِس فیصلے سے خوش ہیں؟
جے ایم کوئٹزی:
مجھے یقین نہیں کہ اِس طریقہ کار پر عمل کرنے کے کوئی عملی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ لیکن شمال سے پہلے جنوب میں اشاعت کی علامت میرے لیے اہمیت کی حامل ہے۔
مصنف نے، جنھوں ۱۹۴۰ء میں کیپ ٹاؤن میں جنم لیا تھا، کبھی اپنے آپ کو جنوبی افریقا کی فی الواقع حقیقت و ماہیت کے مطابق یا محدود نہیں کِیا، اور اِسی بیانیے کی بِناء پر نوبیل انعام حاصل کیا۔ وہ متعدّد مقامات اور معاشرتوں میں قیام پذیر رہ چکے ہیں اور اُن ہی کے مطابق اُن کی تربیت ہوئی ہے: اُنھوں نے انگریزی ادب کے ساتھ ریاضی اور کمپیوٹنگ کی تعلیم بھی حاصل کی۔ وہ برطانیہ، ریاست ہائے متحدہ میں رہ چکے ہیں اور اب آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ اُن کا کام مزیدآگے کا سفر طے کر چکا ہے، اُن کے تنگ نظری اور نسل پرستی کے پھیلاؤ کو بیان کرنے والے اُن ابتدائی ناولوں سے اسپین میں نسلی امتیاز کے منظر نامے میں لکھی گئی اُن کی تازہ ترین کہانی تک وسعت اختیار کر گئے ہیں۔
’’قطب‘‘ میں مرکزی کردار بیٹریس نے پیانو نواز کو بارسلونا میں ایک محفلِ موسیقی کے لیے کہا ہے۔ بعد میں، تکریماً وہ خود— اور زیادہ جوش و خروش کے بغیر— اُسے باہر عشائیے کے لیے لے جاتی ہے۔ ایک بوڑھا جوڑا اُن کا ہمرکاب ہو جاتا ہے، جو قاری کے لیے آئینے کا کام کرتا ہے تاکہ وہ مرکزی کرداروں کو مزید گہرائی سے جان سکے۔ بیٹریس کے لیےوہ تعلق وہیں ختم ہو جاتا ہے— اُس نے محفلِ موسیقی سے حظ نہیں اُٹھایا ہوتا اور وہ چوپِن کی پیانو بجانے کی شہرہ کی حامل صلاحیتوں سے آگاہ نہیں ہو پاتی۔ تاہم، اُس (چوپِن) کے لیے، سب کچھ ابھی شروع ہوا ہے۔
قطب کی شیفتگی— اُس کے دیدار کی خاطر اُس کی کاتالونیا واپسی اور میلورکا کے جزیرے پرجانا— ناول کو، اندھی محبت سے لے کر ہمدردی تک، عدم اعتماد سے لے کر وفاداری تک، احساسات کا ایک لازوال نقش گری فراہم کرتا ہے۔ کوئٹزی کی بہت سی پرتیں ۱۳۸ صفحات کی تراشیدہ تخلیق میں نمایاں طور پر عیاں ہیں۔
انٹرویو کنندہ:
اپنے ناول میں آپ محبت، امن اور ہمدردی کی بات کرتے ہیں۔ دانتے اور بیٹریس کے اُسطورہ کو دوبارہ تخلیق کرتے ہوئے یہ ناول محبت کرنے کے عمدہ اور طریقے بھی بیان کرتا ہے۔ کیا آپ محبت کی اِن شکلوں پر یقین رکھتے ہیں؟
جے ایم کوئٹزی:
محبت کی جو قسم دانتے کے ناول ’’حیاتِ نو ‘‘ میں منائی جاتی ہے— عدالتی محبت کے پروان چڑھائے ہوئے فرقے سے سخت متأ ثر ہے، جو سلسلہ وار کنواری مریم کے فرقے سے ماخوذ ہے — وہ ہمارے موجودہ عہد میں پہلے سے ہی بہت بعید شے ہے، [کیونکہ] اس کے درمیان جو شہوانی اور مذہبی ادغام ہے وہ عملی طور پر ناقابل فہم ہے۔ تاہم، یہ بیٹریس ہے جو شاعردانتے کو اعراف اور جنت کے ذریعے اُس کی الوہی بصیرت کی سمت لے کر جاتی ہے۔
جب اسپین کے بارے میں اُن کے تجربے کے بارے میں دریافت کِیا گیا تو کوئٹزی یاد کرتے ہیں: ’’مَیں نے بارسلونا اور گیرونا میں کچھ وقت گزارا ہے، لیکن مَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں اُن سے اچھی طرح آشنا ہوں۔‘‘
انٹرویو کنندہ:
اور میلورکا؟
جے ایم کوئٹزی:
جزیرے کے بارے میں جو کچھ مَیں جانتا ہوں وہ میرے مطالعے کا نتیجہ ہے۔ مَیں وہاں کبھی نہیں گیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ ناول کا کلیدی حصہ ’’اُس وقت آتا ہے جو ناول نگار جارج سینڈ اور فریڈرک چوپِن نے میلورکا میں ایک ساتھ بِتایا تھا، جہاں [چوپِن نے] اپنی زیادہ تر تمہیدیں موسیقائی تھیں۔‘‘
وہ ۱۸۳۸ء اور ۱۸۳۹ء کا حوالہ دے رہے ہیں، جب محبت کرنے والوں نے جزیرے پر چند ماہ گزارے تھے۔ اِس واقعہ کو سینڈ کے سوانحی ناول ’’ماجورکا میں ایک شب‘‘ (A Winter in Majorca) میں بیان کِیا گیا ہے جس نے کوئٹزی کو ’’قطب‘‘کے لیے ایک اہم پس منظر فراہم کِیا۔ اس کتاب کی کئی پرتوں میں سے ایک میں، یہاں تک کہ ایک بحث یہ بھی ہے کہ چوپِن کی شرح کیسے کی جائے۔
جے ایم کوئٹزی:
مَیں ایک موسیقار کی حیثیت سے چوپِن کو سب سے زیادہ اہم گردانتا ہوں۔ اُس نے مجھے بیتھووَین کے بعد کی نسل کا سب سے مضبوط اور اصل ہنر سمجھا اور کلیدی تختے کی تکنیک پر اُس کا دیرپا اثر رہا۔
کوئٹزی اپنے مرکزی کردار کو— جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں— موسیقی اور شاعری کے بارے میں اپنے خیالات پیش کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے: ’’یہ کیوں ضروری ہے؟‘‘ پیانونواز پوچھتا ہے۔ ’’کیونکہ یہ ہمیں ہمارے بارے میں بتاتی ہے۔ ہماری خواہشات کے بارے میں بتاتی ہے۔ وہ کچھ بتاتی ہے جو ہم سے ماورا ہے۔‘‘اور بیٹریس بھی اِسی کی عکاسی کرتی ہے: ’’موسیقی اپنے آپ میں اچھی ہے، جس طرح محبت اچھی ہے، یا خیرات، یا حسن…… [یہ] لوگوں کو بہتر انسان بنانے کے لیے اچھی ہے۔‘‘
انٹرویو کنندہ:
بطور قاری و مصنف ہسپانوی زبان کے ساتھ آپ کا کیا تجربہ رہا؟
جے ایم کوئٹزی:
ہائی اسکول میں، اور پھر بعد میں کیپ ٹاؤن یونیورسٹی میں، مَیں نے لاطینی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ ایک دن کلاس میں، کسی نے ہمارے پروفیسر سےاستفسار کِیا کہ لاطینی سیکھنے کا کیا فائدہ، کیونکہ یہ ایک مردہ زبان تھی۔ اُنھوں نے جواب دیا: ’’اگر آپ لاطینی گرامر پر عبور حاصل کر لیتے ہیں، تو آپ کو جدید رومانوی زبانوں میں سے کسی کی بھی گرامر پر عبور پاناسہل ہو جائے گا۔‘‘ اُنھوں نے یہ بھی تجویز دی کہ ہم عیسائی انجیل کو اپنے بنیادی متن کے طور پر استعمال کریں، کیونکہ اُس کی زبان عام فہم تھی اور ہم سب اُس کے متن سے آگاہ ہوں گے (یہ بات ۱۹۵۰ء کی دہائی میں درست تھی، شاید اب یہ اتنی درست نہیں)۔ چنانچہ مَیں نے ہسپانوی میں انجیل کے تمام متون پڑھنا شروع کیے، اور درحقیقت مجھے زبان مشکل نہیں لگی بعد کے برسوں میں، مَیں نے ہسپانوی زبان کی بہت سی شاعری پڑھی (مَیں پابلو نیرودا کے فسوں کے سحر کا شکار ہو گیا، جیسا کہ اُس زمانے بے شمار نوجوان شعرا ہوئے تھے)۔ مَیں نے اپنی میری عادت زبان کے پڑھنے کا علم حاصل کِیا، بول چال کا اہل ہوئے بغیر ۔ جب مَیں نے پہلی بار کسی ہسپانوی زبان بولنے والے ملک کا سفر کِیا تو مَیں ادھیڑ عمر تھا۔ تو آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مَیں ہسپانوی زبان کے ادب، خاص طور پر لاطینی امریکہ کے ادب سے (اگرچہ کسی حد تک پرانا) گہری شناسائی رکھتا ہوں، لیکن بحیثیت مصنف قطعی اہلیت نہیں رکھتا۔
انٹرویو کنندہ:
آپ کیوں لکھتے ہیں؟
جے ایم کوئٹزی:
مجھے بچپن سے ہی انگریزی زبان سہل لگتی ہے۔ یہ میرے لیے بھی کچھ اچنبھے کی بات ہے، کیوں کہ مَیں میرے اجداد کا تعلق برطانوی نسل سے نہیں اور مَیں نے سکول میں اپنی تمام تر تعلیم اُن اساتذہ سے حاصل کیں جن کے لیے انگریزی ثانی زبان تھی۔ نوعمری کے زمانے سے ہی مَیں نے نظمیں کہنا شروع کر دیں تھیں، خاص طور پر انگریزی رومانوی شاعروں کی تقلید کرتے ہوئے، اور اپنی عمر کی بیسویں دہائی تک شاعری کرتا رہا۔ تاہم، مَیں نے تیس برس کی عمر میں جان لیا کہ بحیثیت شاعر میرا کوئی مستقبل نہیں، اور مَیں نے نثر سے رجوع کِیا، جو مجھے تب بھی اور اب بھی اپنا دوسرا بہترین انتخاب لگتا ہے۔
انٹرویو کنندہ:
اور آپ اپنے ادب کی تعریف کیسے کریں گے؟
جے ایم کوئٹزی:
مجھے یقین ہے کہ کئی سالوں کی مشق کے بعد مَیں عمدہ، سادہ، مختصر انگریزی جملے لکھنے لگا ہوں، کافی نحوی لچک کے ساتھ۔ موسیقی کے نقطۂِ نظر سے، قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اُنھیں خاصا پرکشش بناتا ہوں۔
:::
]انگریزی متن بشکریہ ’’ایل پائس‘‘ [(EL PAIS)
انٹرویو
نوبیل انعام یافتہ
جے ایم کوئٹزی
(J. M. Coetzee)
انٹرویو کنندہ: برنا گونزالیز ہاربر
تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد
کئی سالوں کی مشق کے بعد مَیں عمدہ، سادہ، مختصر انگریزی جملے لکھنے لگا ہوں، کافی نحوی لچک کے ساتھ۔ موسیقی کے نقطہِ نظر سے، قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اُنھیں خاصا پرکشش بناتا ہوں۔
—جے ایم کوئٹزی
جنوبی افریقی نوبیل انعام یافتہ ادیب جے ایم کوئٹزی نے، جو لاطینی امریکی ادب کے ایک عظیم ماہر ہیں، اپنے تازہ ترین ناول کی انگریزی میں اشاعت سے پہلے ہسپانوی ترجمہ شائع کیا۔ اُن کا مؤقف ہے کہ یہ اُن کا اینگلو ثقافتی بالادستی کا مقابلہ کرنے کا طریقہ ہے۔
دانتے علیگھیری (Dante Alighierie) نے اپنی پہلی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’ Vida nouvelle ‘‘ ]’’حیاتِ نو(The New Life)‘‘[ (۹۳ـ۱۲۹۲ء) میں محبت ہو جانے کی تعریف ایسے شاعرانہ سادہ انداز میں کی ہے کہ صدیوں بعد بھی اِس کی قدر و منزلت برقرار ہے۔
’’وہ [مجھ پر] آشکار ہوئی…… مَیں سچ کہتا ہوں کہ حقیقی رُوح، جس کا بسیرا دل کے سب سے پوشیدہ گوشے میں ہے، اتنی شدّت سے کانپنے لگی کہ مَیں نے اُسے شدّومد سے محسوس کیا…… تب سے مَیں کہتا ہوں کہ [محبت] میری رُوح پر حکمران ہے ۔‘‘
یہ بیٹریس کے لیے دانتے کا اپنی محبت کے بارے میں صرف ایک متن کی اشتہا انگیزی ہے۔ وہ اطالوی شاعر کے ہمراہ اُن تمام مقاماتِ اعراف اور جنتوں میں گئی جن کا اُس نے اُس سے تذکرہ کِیا۔
جے ایم کوئٹزی نے— جنھیں ۲۰۰۳ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا — ایک ستر سالہ پولستانی پیانونواز اور بارسلونا کی ایک چالیس سالہ خاتون کے درمیان تعلقات کی صورت میں دانتے کے بیڑیس کے لیے جذبے کو مکرر تخلیق اور تازہ کار کِیا ہے۔ اُن کا تازہ ترین ناول ’’قطب‘‘ (The Pole) ارجنٹائن کے ’’ El Hilo de Ariadn‘‘نامی پبلشنگ ہاؤس نے پہلے ہسپانوی زبان میں ’’El polaco‘‘ کے نام سے شائع کِیا۔
’’مَیں نے خاص طور پر اپنے تین تازہ ترین ناول جنوبی نصف کرہ میں شائع کیے ہیں۔‘‘ اُنھوں نے ای میل کے ذریعے EL PAÍS کو وضاحت کی۔ ’’وہ برطانیہ یا امریکا میں [شائع ہونے] سے قبل ارجنٹائن اور آسٹریلیا میں منصۂِ شہود پر آچکے ہیں۔‘‘
انٹرویو کنندہ:
کیا آپ اپنے اِس فیصلے سے خوش ہیں؟
جے ایم کوئٹزی:
مجھے یقین نہیں کہ اِس طریقہ کار پر عمل کرنے کے کوئی عملی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ لیکن شمال سے پہلے جنوب میں اشاعت کی علامت میرے لیے اہمیت کی حامل ہے۔
مصنف نے، جنھوں ۱۹۴۰ء میں کیپ ٹاؤن میں جنم لیا تھا، کبھی اپنے آپ کو جنوبی افریقا کی فی الواقع حقیقت و ماہیت کے مطابق یا محدود نہیں کِیا، اور اِسی بیانیے کی بِناء پر نوبیل انعام حاصل کیا۔ وہ متعدّد مقامات اور معاشرتوں میں قیام پذیر رہ چکے ہیں اور اُن ہی کے مطابق اُن کی تربیت ہوئی ہے: اُنھوں نے انگریزی ادب کے ساتھ ریاضی اور کمپیوٹنگ کی تعلیم بھی حاصل کی۔ وہ برطانیہ، ریاست ہائے متحدہ میں رہ چکے ہیں اور اب آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ اُن کا کام مزیدآگے کا سفر طے کر چکا ہے، اُن کے تنگ نظری اور نسل پرستی کے پھیلاؤ کو بیان کرنے والے اُن ابتدائی ناولوں سے اسپین میں نسلی امتیاز کے منظر نامے میں لکھی گئی اُن کی تازہ ترین کہانی تک وسعت اختیار کر گئے ہیں۔
’’قطب‘‘ میں مرکزی کردار بیٹریس نے پیانو نواز کو بارسلونا میں ایک محفلِ موسیقی کے لیے کہا ہے۔ بعد میں، تکریماً وہ خود— اور زیادہ جوش و خروش کے بغیر— اُسے باہر عشائیے کے لیے لے جاتی ہے۔ ایک بوڑھا جوڑا اُن کا ہمرکاب ہو جاتا ہے، جو قاری کے لیے آئینے کا کام کرتا ہے تاکہ وہ مرکزی کرداروں کو مزید گہرائی سے جان سکے۔ بیٹریس کے لیےوہ تعلق وہیں ختم ہو جاتا ہے— اُس نے محفلِ موسیقی سے حظ نہیں اُٹھایا ہوتا اور وہ چوپِن کی پیانو بجانے کی شہرہ کی حامل صلاحیتوں سے آگاہ نہیں ہو پاتی۔ تاہم، اُس (چوپِن) کے لیے، سب کچھ ابھی شروع ہوا ہے۔
قطب کی شیفتگی— اُس کے دیدار کی خاطر اُس کی کاتالونیا واپسی اور میلورکا کے جزیرے پرجانا— ناول کو، اندھی محبت سے لے کر ہمدردی تک، عدم اعتماد سے لے کر وفاداری تک، احساسات کا ایک لازوال نقش گری فراہم کرتا ہے۔ کوئٹزی کی بہت سی پرتیں ۱۳۸ صفحات کی تراشیدہ تخلیق میں نمایاں طور پر عیاں ہیں۔
انٹرویو کنندہ:
اپنے ناول میں آپ محبت، امن اور ہمدردی کی بات کرتے ہیں۔ دانتے اور بیٹریس کے اُسطورہ کو دوبارہ تخلیق کرتے ہوئے یہ ناول محبت کرنے کے عمدہ اور طریقے بھی بیان کرتا ہے۔ کیا آپ محبت کی اِن شکلوں پر یقین رکھتے ہیں؟
جے ایم کوئٹزی:
محبت کی جو قسم دانتے کے ناول ’’حیاتِ نو ‘‘ میں منائی جاتی ہے— عدالتی محبت کے پروان چڑھائے ہوئے فرقے سے سخت متأ ثر ہے، جو سلسلہ وار کنواری مریم کے فرقے سے ماخوذ ہے — وہ ہمارے موجودہ عہد میں پہلے سے ہی بہت بعید شے ہے، [کیونکہ] اس کے درمیان جو شہوانی اور مذہبی ادغام ہے وہ عملی طور پر ناقابل فہم ہے۔ تاہم، یہ بیٹریس ہے جو شاعردانتے کو اعراف اور جنت کے ذریعے اُس کی الوہی بصیرت کی سمت لے کر جاتی ہے۔
جب اسپین کے بارے میں اُن کے تجربے کے بارے میں دریافت کِیا گیا تو کوئٹزی یاد کرتے ہیں: ’’مَیں نے بارسلونا اور گیرونا میں کچھ وقت گزارا ہے، لیکن مَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں اُن سے اچھی طرح آشنا ہوں۔‘‘
انٹرویو کنندہ:
اور میلورکا؟
جے ایم کوئٹزی:
جزیرے کے بارے میں جو کچھ مَیں جانتا ہوں وہ میرے مطالعے کا نتیجہ ہے۔ مَیں وہاں کبھی نہیں گیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ ناول کا کلیدی حصہ ’’اُس وقت آتا ہے جو ناول نگار جارج سینڈ اور فریڈرک چوپِن نے میلورکا میں ایک ساتھ بِتایا تھا، جہاں [چوپِن نے] اپنی زیادہ تر تمہیدیں موسیقائی تھیں۔‘‘
وہ ۱۸۳۸ء اور ۱۸۳۹ء کا حوالہ دے رہے ہیں، جب محبت کرنے والوں نے جزیرے پر چند ماہ گزارے تھے۔ اِس واقعہ کو سینڈ کے سوانحی ناول ’’ماجورکا میں ایک شب‘‘ (A Winter in Majorca) میں بیان کِیا گیا ہے جس نے کوئٹزی کو ’’قطب‘‘کے لیے ایک اہم پس منظر فراہم کِیا۔ اس کتاب کی کئی پرتوں میں سے ایک میں، یہاں تک کہ ایک بحث یہ بھی ہے کہ چوپِن کی شرح کیسے کی جائے۔
جے ایم کوئٹزی:
مَیں ایک موسیقار کی حیثیت سے چوپِن کو سب سے زیادہ اہم گردانتا ہوں۔ اُس نے مجھے بیتھووَین کے بعد کی نسل کا سب سے مضبوط اور اصل ہنر سمجھا اور کلیدی تختے کی تکنیک پر اُس کا دیرپا اثر رہا۔
کوئٹزی اپنے مرکزی کردار کو— جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں— موسیقی اور شاعری کے بارے میں اپنے خیالات پیش کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے: ’’یہ کیوں ضروری ہے؟‘‘ پیانونواز پوچھتا ہے۔ ’’کیونکہ یہ ہمیں ہمارے بارے میں بتاتی ہے۔ ہماری خواہشات کے بارے میں بتاتی ہے۔ وہ کچھ بتاتی ہے جو ہم سے ماورا ہے۔‘‘اور بیٹریس بھی اِسی کی عکاسی کرتی ہے: ’’موسیقی اپنے آپ میں اچھی ہے، جس طرح محبت اچھی ہے، یا خیرات، یا حسن…… [یہ] لوگوں کو بہتر انسان بنانے کے لیے اچھی ہے۔‘‘
انٹرویو کنندہ:
بطور قاری و مصنف ہسپانوی زبان کے ساتھ آپ کا کیا تجربہ رہا؟
جے ایم کوئٹزی:
ہائی اسکول میں، اور پھر بعد میں کیپ ٹاؤن یونیورسٹی میں، مَیں نے لاطینی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ ایک دن کلاس میں، کسی نے ہمارے پروفیسر سےاستفسار کِیا کہ لاطینی سیکھنے کا کیا فائدہ، کیونکہ یہ ایک مردہ زبان تھی۔ اُنھوں نے جواب دیا: ’’اگر آپ لاطینی گرامر پر عبور حاصل کر لیتے ہیں، تو آپ کو جدید رومانوی زبانوں میں سے کسی کی بھی گرامر پر عبور پاناسہل ہو جائے گا۔‘‘ اُنھوں نے یہ بھی تجویز دی کہ ہم عیسائی انجیل کو اپنے بنیادی متن کے طور پر استعمال کریں، کیونکہ اُس کی زبان عام فہم تھی اور ہم سب اُس کے متن سے آگاہ ہوں گے (یہ بات ۱۹۵۰ء کی دہائی میں درست تھی، شاید اب یہ اتنی درست نہیں)۔ چنانچہ مَیں نے ہسپانوی میں انجیل کے تمام متون پڑھنا شروع کیے، اور درحقیقت مجھے زبان مشکل نہیں لگی بعد کے برسوں میں، مَیں نے ہسپانوی زبان کی بہت سی شاعری پڑھی (مَیں پابلو نیرودا کے فسوں کے سحر کا شکار ہو گیا، جیسا کہ اُس زمانے بے شمار نوجوان شعرا ہوئے تھے)۔ مَیں نے اپنی میری عادت زبان کے پڑھنے کا علم حاصل کِیا، بول چال کا اہل ہوئے بغیر ۔ جب مَیں نے پہلی بار کسی ہسپانوی زبان بولنے والے ملک کا سفر کِیا تو مَیں ادھیڑ عمر تھا۔ تو آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مَیں ہسپانوی زبان کے ادب، خاص طور پر لاطینی امریکہ کے ادب سے (اگرچہ کسی حد تک پرانا) گہری شناسائی رکھتا ہوں، لیکن بحیثیت مصنف قطعی اہلیت نہیں رکھتا۔
انٹرویو کنندہ:
آپ کیوں لکھتے ہیں؟
جے ایم کوئٹزی:
مجھے بچپن سے ہی انگریزی زبان سہل لگتی ہے۔ یہ میرے لیے بھی کچھ اچنبھے کی بات ہے، کیوں کہ مَیں میرے اجداد کا تعلق برطانوی نسل سے نہیں اور مَیں نے سکول میں اپنی تمام تر تعلیم اُن اساتذہ سے حاصل کیں جن کے لیے انگریزی ثانی زبان تھی۔ نوعمری کے زمانے سے ہی مَیں نے نظمیں کہنا شروع کر دیں تھیں، خاص طور پر انگریزی رومانوی شاعروں کی تقلید کرتے ہوئے، اور اپنی عمر کی بیسویں دہائی تک شاعری کرتا رہا۔ تاہم، مَیں نے تیس برس کی عمر میں جان لیا کہ بحیثیت شاعر میرا کوئی مستقبل نہیں، اور مَیں نے نثر سے رجوع کِیا، جو مجھے تب بھی اور اب بھی اپنا دوسرا بہترین انتخاب لگتا ہے۔
انٹرویو کنندہ:
اور آپ اپنے ادب کی تعریف کیسے کریں گے؟
جے ایم کوئٹزی:
مجھے یقین ہے کہ کئی سالوں کی مشق کے بعد مَیں عمدہ، سادہ، مختصر انگریزی جملے لکھنے لگا ہوں، کافی نحوی لچک کے ساتھ۔ موسیقی کے نقطۂِ نظر سے، قاری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اُنھیں خاصا پرکشش بناتا ہوں۔
:::
]انگریزی متن بشکریہ ’’ایل پائس‘‘ [(EL PAIS)
Authors
-
۲۰۰۳ء کے نوبیل انعام سے جنوبی افریقا کے معروف ناول نگار، افسانہ نویس، مضمون نگار، نقاد، ماہرِ لسانیات اور مترجم جے۔ایم کوئٹزی کو، جن کا پُورا نام جان میکس ویل کوئٹزی ہے، نوازا گیا۔ وہ آج کل آسٹریلیا کے شہری ہیں اور جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈا میں مقیم ہیں۔ نوبیل انعام ۲۰۰۳ء کے لیے جے ایم کوئٹزی کے نام کا اعلان کرتے ہوے نوبیل کمیٹی نے مؤقف اختیار کیا۔ ’’کوئٹزی بے شمار بہروپوں میں اجنبیوں کی ششدر کر ڈالنے والی شمولیت ڈالتے ہیں۔‘‘ اور ’’وہ نہایت ہی ہنرمند بُنت کار، زرخیز مکالمہ نگار اور تجزیاتی تعقل کے حامل ہیں۔‘‘ نوبیل انعام پانے سے قبل کوئٹزی دو بار بُکرپرائز جیت چکے تھے۔ جے۔ایم کوئٹزی ۰۹ فروری ۱۹۴۰ء کو یونین آف ساؤتھ افریقا، صوبہ کیپ (اب مغربی کیپ)، کے شہر کیپ ٹاؤن میں افریقا نِیر نسل کے جوڑے کے ہاں پیدا ہوے۔ اُن کے والد، زاچا رِیاس کوئٹزی، ایک جزوقتی وکیل اور سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ بھیڑوں کا باڑا چلاتے تھے جب کہ اُن کی والدہ، ویرا وہیمیئر کوئٹزی، ایک سکول میں استاذ تھیں۔ اُن کے گھر میں انگریزی بولی جاتی تھی لیکن عزیزواقارب کے ہم رَاہ افریقی زبان میں بات چیت ہوتی تھی۔ جے۔ایم کوئٹزی سترھویں صدی کے جرمن مہاجرین کی اولاد اور ننھیال کی طرف سے پولش خاندان سے ہیں۔ بالٹا زار ڈوبیل اُن کا نانا تھا۔ جے۔ایم کوئٹزی کی ابتدائی زندگی کا زیادہ عرصہ کیپ ٹاؤن اور ایک نزدیکی قصبے وُور سیسٹر میں گُزرا کیوں کہ اُن کے والد کی ملازمت ختم ہونے کے بعد اُن کا خاندان وُور سیسٹر منتقل ہو گیا تھا۔ کوئٹزی نے کیپ ٹاؤن کے سینٹ جوزف کالج نامی کیتھولک فرقے کے سکول اور جامعہ کیپ ٹاؤن سے تعلیم حاصل کی۔ جے۔ایم کوئٹزی نے برطانیہ میں کمپیوٹر پروگرامر کی حیثیت سے کام کرنے کے دوران ۱۹۶۳ء میں جامعہ کیپ ٹاؤن سے فورڈ میڈوکس کے ناولوں پر مقالہ لکھ کر ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ وہ ۱۹۶۵ء میں آسٹن کی جامعہ ٹیکساس، امریکا میں فُل برائٹ پروگرام کے تحت چلے گئے۔ جہاں سے اُنھوں نے ۱۹۶۹ء میں لسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پھر بفالو کی جامعہ نیویارک میں ادب پڑھانے لگے۔ وہ وہاں ۱۹۷۱ء تک رہے۔ ۱۹۷۱ء ہی میں کوئٹزی نے امریکی شہریت کے لیے درخواست دی جسے اِس بِناء پر مسترد کر دیا گیا کہ وہ ویت نام جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں شامل رہے ہیں۔ وہ واپس جنوبی افریقا لوٹ آئے اور جامعہ کیپ ٹاؤن میں انگریزی ادب پڑھانے لگے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایڈیلیڈا، آسٹریلیا چلے آئے اور جامعہ ایڈیلیڈا کے شعبہ انگریزی میں ریسرچ فیلو کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ ۰۶ مارچ ۲۰۰۶ء کو جے۔ایم کوئٹزی نے آسٹریلیا کی شہریت اختیار کر لی۔ اُنھوں نے جامعہ شکاگو میں بھی معلم کی حیثیت سے کام کیا۔ کوئٹزی نے ۱۹۶۳ء میں فِلپا جُوبّر سے شادی کی جو طلاق پر منتج ہوئی جس سے اُن کا ایک بیٹا نکولس اور ایک بیٹی جِسیلا پیدا ہوے۔ نکولس ۲۳ برس کی عمر میں ایک حادثے میں چل بسا۔ ۱۹۶۹ء میں لسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران اُنھوں نے لکھنے کا آغاز کیا۔ اِسی دوران اُنھوں نے اپنا ناول ’’ڈَسک لینڈز‘‘ شروع کیا جو ۱۹۷۴ء میں جنوبی افریقا سے منصہ ٔشہود پر آیا۔ اُن کا دوسرا ناول ’’اِن دی ہارٹ آف سٹی‘‘ ۱۹۷۷ء میں اشاعت پذیر ہوا جس نے اپنے عہد کا سب سے اہم جنوبی افریقن ادبی ایوارڈ، سی این اے ایوارڈ، جیتا۔ یہ ناول بعد برطانیہ اور امریکا سے بھی شائع ہوا۔اِس کے بعد بھی کوئٹزی نے ناول لکھے لیکن۱۹۸۳ء میں چھپنے والے ناول ’’لائف اینڈ ٹائمز آف مائیکل کے‘‘نے کوئٹزی کی شہرت پر مہر ثبت کر دی۔ اِس ناول کو برطانوی ادبی اعزاز ’’بُکر پرائز‘‘ سے نوازا گیا جس کا اُس وقت آغاز ہوا ہی تھا۔ یُوں کوئٹزی ’’بُکر پرائز‘‘ حاصل کرنے والے دُنیا کے پہلے ادیب ہیں۔ ۱۹۹۹ء میں ’’ڈِسگریس‘‘ منظر عام پر آیا تو کوئٹزی ایک بار پھر ’’بُکر پرائز‘‘ کے اہل قرار پائے۔ کوئٹزی نے جرمن اور افریقی ادب کے تراجم بھی کیے جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے کتابوں پر تبصرے بھی لکھے۔ اُن کے پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنائے گئے۔ جے۔ایم کوئٹزی اِس قدر عزلت نشین اور عام لوگوں سے دُور رہنے والے ادیب ہیں کہ اُنھوں نے اپنے دونوں بُکر پرائز تک خُود وصول نہیں کیے۔ مصنف آتھر رِیان مالان کے بقول: ’’کوئٹزی بے حد راہبانہ، اُصول پسند اور کام سے کام رکھنے والے ہیں۔ وہ شراب پیتے ہیں نہ سگریٹ اور نہ ہی گوشت کھاتے ہیں۔ اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کے لیے میلوں سائیکل چلاتے ہیں اور ہفتے کے ساتوں دِنوں صبح سویرے کم از کم ایک گھنٹا اپنی لکھنے کی میز پر بیٹھتے ہیں۔ اُن کے ساتھ پندرہ سال تک کام کرنے والے ایک ساتھی نے بتایا کہ اُس نے اِتنے طویل عرصے میں اُنھیں صرف ایک مرتبہ ہنستے ہوے دیکھا۔ اُنھوں نے ایک شناسا کی متعدّد زیافتوں میں شرکت کی لیکن کبھی ایک لفظ تک نہیں بولے۔‘‘ اگرچہ کوئٹزی کی شہرت تقریب انعامات میں شرکت نہ کرنے والے کی رہی لیکن اُنھیں بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ ۱۹۸۷ء میں یروشلم ایوارڈ وصولتے ہوے اُس نے اپنی تقریر میں جنوبی افریقن ادب پر یُوں رائے زنی کی: ’’جنوبی افریقا کا ادب پابندیوں کا ادب ہے۔ یہ انسانی ادب سے کم تر درجے کا ہے۔ درحقیقت یہ ویسا ادب ہے جیسا آپ پابندِ سلاسل ادیب سے لکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘
View all posts -
نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔
View all posts
تراجم عالمی ادب
2 thoughts on “جے ایم کوئٹزی”
Kamaal ka Interview
Zabrdast interview