𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

بانو مشتاق  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو

بُکر انعام یافتہ

بانو مشتاق

Banu Mushtaq

انٹرویوکنندہ: بُکر فاؤنڈیشن

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

Urdue Translation of Interview Banu Mushtaq Writer Booker Prize 2025

’’ میں اپنے آپ کو  لمبی چوڑی تحقیق میں نہیں  الجھاتی؛ میرا دل خود میرے مطالعے کا میدان ہے۔‘‘

بانو مشتاق

ہم نے بانو مشتاق سے کتاب کے  محرکات اور ترجمہ کیوں ایک فطری عمل ہے پر  بات چیت کی ،جو  ’’دل چراغ‘‘ کے لیے بین الاقوامی بکر انعام   ۲۰۲۵ء  کی فاتح ہیں۔

……

’’دل چراغ‘‘  کے پیچھے محرکات، اور میں نے اسے کیسے لکھا؟

میرے افسانے   عورتوں کے بارے میں ہوتے  ہیں — کس طرح مذہب، معاشرہ اور سیاست ان سے بلاحجت و دلیل اطاعت کا  تقاضا کرتے ہیں، اوریہ  کرتے ہوئے ان پر غیر انسانی امظالم ڈھاتے ہوئے انھیں محض  اطاعت گزاروں میں منقلب  کر کے رکھ دیتے ہیں۔ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے روزمرہ  واقعات اور جو ذاتی تجربات  میں نے خود سہے  ہیں میرے لیے تحریک کا باعث رہے ہیں۔ ان عورتوں کے دکھ، تکالیف اور بے بس و بے کس  زندگی میرے اندر ایک گہرا جذباتی ردعمل پیدا کر کے مجھے لکھنے پر  اکساتی رہیں۔

’’دل چراغ‘‘  کے لیے  ۱۹۹۰ء  اور بعد میں لکھے گئے کہانیوں کے چھے مجموعوں میں شامل لگ بھگ ۵۰  افسانوں  میں سے انتخاب کیا گیا۔ عموماً ، ایک ہی مسودہ ہوتا  ہےاور دوسرا حتمی ۔ میں  اپنے آپ کو لمبی چوڑی تحقیق میں  نہیں  الجھاتی؛ میرا دل خود میرے مطالعے کا میدان ہے۔جتنی شدت سے  کوئی  واقعہ مجھ پر اپنا اثر چھوڑتا ہے میں اتنی ہی گہرائی اور جذباتیت سے لکھتی ہوں۔

وہ کتاب جس نے مجھے مطالعے کے عشق میں گرفتار کیا۔

کسی ایک کتاب کا نام  لینے کے بجائے ، میں بے شمار کتابوں سے متاثر ہوئی ہوں۔ جب بچپن میں، میں نے حروف تہجی لکھنا سیکھے میں تب  ہی سے میں لکھ رہی ہوں۔

وہ کتاب جس نے مجھے مجبور  کیا  کہ مجھے لکھاری بننا چاہیے۔

۱۹۷۰ء  کی دہائی کرناٹک میں تحریکوں کی دہائی تھی —  دلت تحریک، کسانوں کی تحریک، زبان کی تحریک، بغاوت کی تحریک، خواتین کی جدوجہد، ماحولیاتی  تحریک، اور تھیٹر۔   ان تحاریک  نے مجھ پر گہرے اثرات  مرتب کیے۔ پسماندہ طبقات، عورتوں اور نظر انداز لوگوں کی، جن کے   اظہارِ خیالات نے، زندگیوں کے ساتھ میری بلاواسطہ وابستگی نے مجھے لکھنے کی قوت عطا کی۔ کرناٹک کے سماجی حالات نے بحیثیت مجموعی  میری تشکیل کی۔

وہ کتاب جس نے دنیا کے بارے میں میرے سوچنے کا طور بدل ڈالا۔

کسی ایک کتاب نے میری زندگی اور میری لکھتوں کی رہنمائی نہیں کی۔ بلکہ بے شمار کتب اور تجربات نے مجھے زندگی کے ایک نئے احساس سے روشناس کروایا۔

:::

 

]انگریزی متن بشکریہ’’بُکر پرائز فاؤنڈیشن‘‘[

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

بانو مشتاق  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو

بُکر انعام یافتہ

بانو مشتاق

Banu Mushtaq

انٹرویوکنندہ: بُکر فاؤنڈیشن

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

’’ میں اپنے آپ کو  لمبی چوڑی تحقیق میں نہیں  الجھاتی؛ میرا دل خود میرے مطالعے کا میدان ہے۔‘‘

بانو مشتاق

ہم نے بانو مشتاق سے کتاب کے  محرکات اور ترجمہ کیوں ایک فطری عمل ہے پر  بات چیت کی ،جو  ’’دل چراغ‘‘ کے لیے بین الاقوامی بکر انعام   ۲۰۲۵ء  کی فاتح ہیں۔

……

’’دل چراغ‘‘  کے پیچھے محرکات، اور میں نے اسے کیسے لکھا؟

میرے افسانے   عورتوں کے بارے میں ہوتے  ہیں — کس طرح مذہب، معاشرہ اور سیاست ان سے بلاحجت و دلیل اطاعت کا  تقاضا کرتے ہیں، اوریہ  کرتے ہوئے ان پر غیر انسانی امظالم ڈھاتے ہوئے انھیں محض  اطاعت گزاروں میں منقلب  کر کے رکھ دیتے ہیں۔ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے روزمرہ  واقعات اور جو ذاتی تجربات  میں نے خود سہے  ہیں میرے لیے تحریک کا باعث رہے ہیں۔ ان عورتوں کے دکھ، تکالیف اور بے بس و بے کس  زندگی میرے اندر ایک گہرا جذباتی ردعمل پیدا کر کے مجھے لکھنے پر  اکساتی رہیں۔

’’دل چراغ‘‘  کے لیے  ۱۹۹۰ء  اور بعد میں لکھے گئے کہانیوں کے چھے مجموعوں میں شامل لگ بھگ ۵۰  افسانوں  میں سے انتخاب کیا گیا۔ عموماً ، ایک ہی مسودہ ہوتا  ہےاور دوسرا حتمی ۔ میں  اپنے آپ کو لمبی چوڑی تحقیق میں  نہیں  الجھاتی؛ میرا دل خود میرے مطالعے کا میدان ہے۔جتنی شدت سے  کوئی  واقعہ مجھ پر اپنا اثر چھوڑتا ہے میں اتنی ہی گہرائی اور جذباتیت سے لکھتی ہوں۔

وہ کتاب جس نے مجھے مطالعے کے عشق میں گرفتار کیا۔

کسی ایک کتاب کا نام  لینے کے بجائے ، میں بے شمار کتابوں سے متاثر ہوئی ہوں۔ جب بچپن میں، میں نے حروف تہجی لکھنا سیکھے میں تب  ہی سے میں لکھ رہی ہوں۔

وہ کتاب جس نے مجھے مجبور  کیا  کہ مجھے لکھاری بننا چاہیے۔

۱۹۷۰ء  کی دہائی کرناٹک میں تحریکوں کی دہائی تھی —  دلت تحریک، کسانوں کی تحریک، زبان کی تحریک، بغاوت کی تحریک، خواتین کی جدوجہد، ماحولیاتی  تحریک، اور تھیٹر۔   ان تحاریک  نے مجھ پر گہرے اثرات  مرتب کیے۔ پسماندہ طبقات، عورتوں اور نظر انداز لوگوں کی، جن کے   اظہارِ خیالات نے، زندگیوں کے ساتھ میری بلاواسطہ وابستگی نے مجھے لکھنے کی قوت عطا کی۔ کرناٹک کے سماجی حالات نے بحیثیت مجموعی  میری تشکیل کی۔

وہ کتاب جس نے دنیا کے بارے میں میرے سوچنے کا طور بدل ڈالا۔

کسی ایک کتاب نے میری زندگی اور میری لکھتوں کی رہنمائی نہیں کی۔ بلکہ بے شمار کتب اور تجربات نے مجھے زندگی کے ایک نئے احساس سےروشناس کروایا۔

:::

 

]انگریزی متن بشکریہ’’بُکر پرائز فاؤنڈیشن‘‘[

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

Authors

  • Banu_Mushtaq_ Booker_Prize_Winner_2025

    بانو مشتاق ۱۹۴۸ء میں ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے شہر حسن میں  ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک مصنف،  سماجی کارکن اور وکیل ہیں۔ انھیں آٹھ برس کی عمر میں کنڑ زبان کے شواس موگا مشنری سکول میں اس شرط پر داخلہ ملا کہ  وہ چھے ماہ کے اندر کنڑ زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھیں گی لیکن انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر محض چند ایام  میں ہی کنڑ زبان میں لکھنے کا آغاز کر دیا۔  بعد ازاں، مخالفتوں کے باوجود انھوں نہ صرف جامعہ کی تعلیم حاصل کی بلکہ ۲۶ برس کی عمر میں محبت کی شادی بھی کی۔ وہ کنڑ، ہندی، دکنی اردو اور انگریزی زبانیں جانتی ہیں۔ انھوں  نے اپنے کیریئر کا آغاز ’’لنکش پیتریک‘‘ نامی اخبار میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے کیا۔ پھر انھوں نے چند ماہ کے لیے آل انڈیا بنگلور میں بھی کام کیا۔ یوں تو بانو مشتاق کو بچپن ہی لکھنے پڑھنے سے شغف تھا لیکن وہ اپنی ۲۹ برس کی عمر میں اپنا پہلا افسانہ لکھ کر باقاعدہ مصنف بنیں اور انھوں نے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی  دہائیوں میں جنوب مغربی ہندوستان کے ترقی پسند احتجاجی ادبی حلقوں میں لکھنے کا آغاز کیا۔ ذات پات اور طبقاتی نظام کی ناقد بندایا ساہتیہ تحریک نے بااثر دلت اور مسلمان مصنفین کو جنم دیا، جن میں چند خواتین میں سے ایک بانو مشاق تھیں۔ وہ چھے افسانوی مجموعوں، ایک ناول، مضامین کے ایک  اور ایک  شعری مجموعے کی مصنفہ ہیں۔ وہ کنڑ میں لکھتی ہیں اور اپنے ادبی کاموں  پر قابلِ قدر اعزازات جیت چکی ہیں، جن میں کرناٹک ساہتیہ اکیڈمی اور دانا چنتامانی اتیمبے ایوارڈز شامل ہیں۔ ان کی بین الاقوامی بکر پرائز 2025 جیتنے والی کتاب  ’’دل چراغ‘‘ ان کے ادبی  کاموں میں سے بارہ منتخب افسانوں  کا انگریزی میں ترجمہ ہونے والی پہلی کتاب ہے۔  اس انگریزی ترجمے کی وساطت سے کچھ افسانوں کا اردو، ہندی، تامل اور ملیالم میں ترجمہ کیا  جا چکا ہے۔ ان کے پہلے افسانے کا موضوع نئی نئی ماں بننے والی ایک ایسی عورت ہےجو زچگی کے ڈپریشن کو سہتی ہے۔ یہیں سے بانو مشتاق نے  اپنے احساسات و تجربات کے اظہار کو اپنی تحریروں کے موضوعات بنایا۔ اس طرح ان کے افسانے نسوانی مسائل کا بیانیہ ہیں۔ ان کے افسانوں کی مترجم دیپا  بھاستھی نے ان کے ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۳ء کے درمیان شائع ہونے والے افسانوں میں بارہ ایسی کہانیوں کا انتخاب کیا جن کے مرکزی کردار مسلم گھرانوں کی خواتین تھیں اور دیپا  بھاستھی نے اپنے تراجم کا آغاز ۲۰۲۲ء میں کر کے فروری ۲۰۲۵ء میں کتاب کو پینگوئین رینڈم، بھارت سے شائع کروایا۔ اس  سے قبل دیپا بھاستی بانو مشتاق کے چھے افسانوں کے ایک انتخاب ’’حسینہ اور دوسری کہانیاں‘‘ کے عنوان سے کیا تھا ، جسے  پین ایوارڈ ۲۰۲۴ء سے نوازا گیا تھا جب کہ ’’دل چراغ‘‘بکر پرائز ۲۰۲۵ء جیتنے میں کامیاب رہی۔  صرف یہی نہیں بلکہ بانو مشتاق تمام مرد و زن مسلمان مصنفین میں پہلی مسلمان  خاتون مصنف  بلکہ کنڑ زبان کے تمام مرد و زن ادیبوں میں بھی پہلی مصنف ہیں جنھیں بکر انعام سے سرفراز کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ امر بھی قابلِ تذکرہ ہے کہ دیپا بھاستھی بھی پہلی ہندوستانی مترجم (جملہ مرد و زن مترجمین میں) ہیں جو اس انعام کی شریک بنی ہیں۔ بانو مشتاق قبل ازیں کرناٹک ساہتیہ ایوارڈ ۱۹۹۹ء اور  دانا چنتامنی اتیمبے ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

Leave a Comment

𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛