تراجم عالمی ادب

ہن کانگ  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو

بُکر انعام یافتہ

ہن کانگ

Han Kang

انٹرویوکنندہ: بُکر فاؤنڈیشن

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

میں نے کبھی تصور بھی نہیں کِیا تھا کہ’سبزی خور‘ کو۔۔۔— ہان کانگ– بُکرونوبیل انعام یافتہ شاعرہ و مصنفہ- ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: ہان کانگ

’’میں  نے کبھی تصور بھی نہیں کِیا تھا کہسبزی خور کو اتنے قارئین ملیں گے۔‘‘

ہن کانگ

(نوٹ: یہ انٹرویو ۲۰۲۳ء میں لیا گیا تھا اور بین الاقوامی بُکر پرائز فاؤنڈیشن کی سائٹ پر ۲۸ جولائی، ۲۰۲۳ء  کو شائع کیا گیا۔ اکتوبر ۱۰، ۲۰۲۴ء کو ہن کانگ کو ادب کے نوبیل انعام برائے ادب ۲۰۲۴ء کا فاتح  قرار دیا گیا۔ ’’سبزی خور‘‘ کی مصنفہ بین الاقوامی بُکر انعام جیتنے کے اثرات کے بارے میں بتاتی ہیں کہ اس ناول کو دنیا بھر میں کیسے پذیرائی ملی ہے —  اور سوال اُٹھاتی ہیں کہ انسان ہونے کا کیا مطلب ہے؟)

انٹرویو کنندہ:

۲۰۱۶ء سے بین الاقوامی بُکر انعام کے قوانین میں تبدیلی کے بعد آپ بین الاقوامی بکر پرائز کی پہلے فاتح تھیں۔یہ فتح آپ کو کیسی لگی تھی، اور آپ کے لیے کیا معنی رکھتی تھی؟

ہن کانگ:

مَیں نے ’’سبزی خور‘‘ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء کے وسطی عرصے دوران میں قلم بند کِیا، اور اِسے مکمل طوالت کے حامل ناول کے طور پر ۲۰۰۷ء میں شائع کِیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دہائی سے بھی  زیادہ عرصے قبل ۲۰۱۶ء  کا بین الاقوامی بُکر انعام جیتنے کے بارے میں (اچھے طریقے سے) سوچنا بھی  عجب بات تھی۔ انعام جیتنے کے بعد سے میری دِیگر تخلیقات بشمول ’’انسانی افعال‘‘، ’’سفید کتاب‘‘، اور ’’یونانی اسباق‘‘ کے ساتھ ساتھ میرے سب سے حالیہ ناول، ’’ہم جدا نہیں ہوتے‘‘ کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کِیا گیا ہے یا کِیا جا رہا ہے۔ مَیں شکر گزار ہوں کہ بین الاقوامی بُکر انعام نے میرے کاموں کو مختلف ثقافتوں میں وسیع قارئین تک پہنچنے میں قابلِ قدر مدد کی۔

انٹرویو کنندہ:

 

آپ پہلی کوریائی بھی تھیں جنھیں اِس اعزاز کے لیے نامزد کِیا گیا اور آپ نے اِسے جیت بھی لیا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی جیت کے نتیجے میں کورین فکشن کی زیادہ پہچان بنی، یا پھر یہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ دکھائی دے رہا تھا؟

 

مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے درمیان تشریح میں لطیف فرق کو دیکھنا دلچسپ ہے، لیکن مجھے جو چیز زیادہ  متاثر کرتی ہے وہ ناول کو  بالمثل عمومی پذیرائی کو ملنے کا انداز ہے ۔ مثال کے طور پر، اسے ہر جگہ خواتین قارئین نے زیادہ قبول کِیا اور سمجھا ہے۔

 

  ہن کانگ

ہن کانگ:

اُس وقت، پہلے سے ہی بہترین کوریائی شاعر اور ادیب موجود تھے —  جیسے کِم ہئی سُون —  جن کی تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا تھا۔ اب، کوریائی مصنفین کے زیادہ سے زیادہ کاموں کا بیرون ملک ترجمہ کر کے شائع کِیا  جا رہا ہے۔  حالیہ برسوں میں، کوریائی ادب پر کام کرنے والے مترجمین کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے

 —  ایک ایسا رجحان جس سے کوریائی سنیما اور پاپ میوزک کی عالمی کامیابی سے بھی گہرا  ربط لگتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

یہ ناول آپ کے ۱۹۹۷ء کے افسانے’’میری عورت کا ثمر‘‘  پر مبنی تھا۔ کس چیز نے آپ کو اِسے ایک مکمل طوالت کے حامل ناول، یا تین حصوں پر مشتمل قصہ بنانے کی ترغیب دی؟

ہن کانگ:

’’میری عورت کا ثمر‘‘ لکھنے کے بعد مجھے توقع تھی کہ ایک نہ ایک روز مَیں اِس کہانی پر کوئی تبدیل شدہ شے لکھوں گی۔ دو مکمل طوالت کے حامل ناول لکھنے کے بعد ہی مَیں اپنے تیسرے ناول ’’سبزی خور‘‘  میں ایسا کرنے میں کامیاب ہو پائی۔ بالخصوص ’’سبزی خور‘‘ کا پہلا حصہ اصل افسانے کے بہت سے رسمی نشانات کو برقرار رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، شوہر ایک ناقابلِ اعتبار راوی کا کردار ادا کرتا ہے، اور مرکزی کردار خاتون کی آواز محض جزوی طور پر، خوابوں میں یا  خود کلامی  میں اپنی ماں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ظاہر ہوتی ہے۔ ایک عورت کے، جو وہ بنتی ہے — یا بننا چاہتی ہے — بارے میں  اِن دونوں کہانیوں کے مابین فرق تاریکی، جذبے اور شدّت کی سطح میں ایک پودے کا وجود ہے۔ ’’سبزی خور‘‘  زیادہ گہرا، زیادہ شدید اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اِس میں ’’میری عورت کا ثمر‘‘ جیسا کچھ بھی  مافوق الفطرت ہوتا، اور ظالمانہ حقیقت کے درمیان کردار اپنے ہی عذاب بھوگ رہے ہوتے ہیں۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ ناول کے مرکزی کردار کی ایک بہن ہے، جو اپنی شناخت کا ایک عجیب سا احساس پیدا کرتی ہے۔

انٹرویو کنندہ:

’’سبزی خور‘‘  کا ۲۰ سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ کیا مختلف ممالک میں اِس ناول پر مختلف ردِّعمل رہا اور کیا اُن میں سے کوئی ردِّعمل آپ کے لیے تحیر زا رہا؟ کیا اِس نے مختلف مقامات پر مختلف قارئین (مثلاً نوجوان قارئین) کو اپنی طرف متوجہ کِیا ہے یا مختلف طریقوں سے گونج رہا ہے؟

ہن کانگ:

مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے درمیان تشریح میں لطیف فرق کو دیکھنا دلچسپ ہے، لیکن مجھے اس سے بھی زیادہ جو چیز  متاثر کرتی ہے وہ ہے ناول کو  بالمثل عمومی پذیرائی کو ملنے کا طریقہ۔ مثال کے طور پر، اسے ہر جگہ خواتین قارئین نے زیادہ قبول کِیا اور سمجھا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

انگریزی ایڈیشن کے لیے، آپ نے کتاب کی مترجم ڈیبورا سمتھ کے ساتھ کام کیا (سمتھ نے کوریائی زبان سیکھی اور یہ ناول اُن کا پہلی کتاب تھا)۔ دیگر زبانوں کے تراجم کے مقابلے میں یہ تجربہ کیسا تھا؟ اور جب ترجمہ کے ارد گرد تنازعات کی سطح تھی تو یہ کیسا لگ رہا تھا؟

ہن کانگ:

بہت سے لوگوں کی طرف سے ظاہر کیے گئے خدشات کے برعکس، میں تسلیم نہیں کرتی کہ مترجم نے جان بوجھ کر اصل متن کو مجروح کیا ہے، نہ ہی مجھے یہ یقین ہے کہ اُس نے کوئی نئی تخلیق کی ہے جو اصل سے یکسر مختلف ہے۔ اغلاط کو درست کر دیا گیا ہے اور ترجمہ اپنی نوعیت میں ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ عمل ہے جس میں مضر اور دریافت شامل ہوتے ہیں۔ گیت، تال، شاعرانہ تناؤ، باریک بینی، تہہ دار مفاہیم، ترجمہ ہونے والی زبان کا گہرا ثقافتی سیاق و سباق — وہ سب کچھ جو صرف اس زبان میں ممکن ہے —  جس زبان میں ترجمہ ہورہا ہو اُس میں لامحالہ کھو جاتا ہے۔ کسی بھی مترجم کے لیے مشکل کام اس ضرر رساں و تاریک سرنگ میں سے گزرنا اور اصل متن سے ممکنہ حد تک وفادار رہنے کے لیے قریب ترین الفاظ یا تشبیہات تلاش کرنا ہے۔

مجھے پہلی مرتبہ ’’سبزی خور‘‘ کا انگریزی ترجمہ اس وقت ملا جب گرانٹا بکس نے مجھے ابتدائی پروف خوانی کی فائل بھیجی۔ میں اس وقت ’’افعالِ انسانی ‘‘ لکھنے میں اس قدر مشغول تھی کہ دیانت داری سے بتاؤں تو میں نے لغت میں سے الفاظ تلاش کیے بغیر مسودے کے مطالعے میں لگ بھگ تین چار گھنٹے لگائے۔ دورانِ سفر ہی میں نے کئی غلطیاں پائیں تو میں نے ڈیبورا کے ساتھ ان کے بارے میں چند ای میلز کا تبادلہ کیا۔ ’’سبزی خور‘‘ کے ترجمے میں میری شمولیت بس اتنی ہی تھی۔ تاہم، ۲۰۱۵ء  میں، جب ڈیبورا ’’افعالِ انسانی‘‘ پر کام کر رہی تھی، چوں کہ میں کچھ اور نہیں لکھ رہی تھی پس مجھے اس کے ساتھ گہرائی میں جار گفتگو کرنے کی ذہنی فرصت حاصل تھی۔ جب ڈیبورا نے ۲۰۱۷ء  میں ’’ کتابِ ابیض ‘‘کا ترجمہ کیا تو ہم دونوں نے مسودے کا موازنہ اصل متن کے ایک ایک جملے سے کیا۔ بعد میں، جب ’’سبزی خور‘‘ کے ترجمے پر ایک گرما گرم بحث چھڑی تو میں سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ کاش میں نے ترجمے کا جائزہ لینے میں اتنا ہی وقت صرف کیا ہوتا جتنا ’’افعالِ انسانی‘‘ کے لیے صرف کیا تھا۔ درحقیقت، شاید مجھے اس کے ترجمے کے ایک ایک جملے کے اصل متن کے ساتھ موازنے کے لیے کسی ماہر کو مقرر کرنا چاہیے تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ بحث دو دلائل کا الجھن میں ڈالنے والا ایک مبہم ادغام ہے۔ پہلا غلط ترجمہ ہے کیوں کہ غلطیاں کی گئی تھیں ۔ فاعل کو جملوں سے خارج کر کے  چینی کرداروں کا غلط ترجمہ اور سیاق و سباق کے بارے میں غلط مفہوم لیے گئے تھے — جیسا کہ اکثر کوریائی زبان میں ہوتا ہے۔ ۲۰۱۷ء میں، ڈیبورا نے اٹھائے گئے مختلف نکات کی بنیاد پر ۶۷ درستیاں کیں۔ ’’سبزی خور‘‘ کے برطانیہ اور امریکا کی طباعتوں پر، جو ۲۰۱۸ء میں دوبارہ اور ساتھ ہی انگریزی کے ذریعے ترجمہ کیے گئے لسانی طباعتیں بھی شائع کی گئی تھیں، ان درستیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نظر ثانی کی گئی۔ میں اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنھوں نے ترجمے میں غلطیاں پائی اور مجھے ای میل کیں۔

 

جب میں افسانہ لکھتی ہوں تو حسیات پر بہت زور دیتی ہوں۔ میں سماعت اور لمس جیسے وشد حواس بشمول  بصری تصاویر  کی ترسیل چاہتی ہوں۔ میں ان احساسات کو اپنے جملوں میں برقی رو کے مانند دوڑاتی ہوں۔

 ہن کانگ

اختلاف کا دوسرا نکتہ ترجمے کا اصل متن سے کس حد تک ہٹنا ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ غلط ترجمے کو اس دلیل کی شہادت کے طور پر برتا گیا۔ مثال کے طور پر، کورین لفظ cheohyeong سے مراد کسی کی بیوی کی بڑی بہن ہے، لیکن چونکہ لفظ (cheo) کے پہلے حصے کا معنی ’بیوی’ اور بڑی بہن ہے، لیکن چونکہ لفظ (cheo) کے 

پہلے حصے کا معنی ’بیوی اور دوسرے حصے (hyeong) کا معنی ’بڑا بھائی‘ ہے اس لیے یہ کسی بھی مبتدی کے لیے الجھن کا باعث بن سکتا ہے، جو اس کا معنی بیوی کا بڑا بھائی لے سکتا ہے۔ نتیجے میں ہونے والی غلطی سے اس غلط فہمی نے جنم لیا کہ مترجم نے کرداروں  کو تبدیل کر دیا۔ اس کے علاوہ، انگریزی ترجمے میں اصل متن کا تقریباً نصف صفحہ غائب ہے، جسے میں سمجھتی ہوں کہ ناشر کا ادارتی فیصلہ تھا۔ مترجم نے ہر جملے کا بڑی تندہی سے ترجمہ کیا تھا۔

انٹرویو کنندہ:

’’سبزی خور‘‘ خوبصورتی کو خوف کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو بعض اوقات سفاکانہ اور پریشان کن ہوتی ہے، جس میں جسمانی اور جنسی تشدد کے مناظر، زبردستی کھانا کھلانا، اور موت کی پیش خیمگی احساس در آتا ہے۔ کیا چیز آپ کو تاریک موضوعات اور انسانی اعمال کے بارے میں لکھنے کی طرف راغب کرتی ہے؟

ہن کانگ:

میں تین حصوں میں دنیا اور انسانیت کے بارے میں اپنے سوالات سے نمٹنا چاہتی تھی۔ دو بہنیں  جو  خاموشی سے پکار رہی ہیں: ایک وہ جو گوشت کھانے سے انکار کرتے ہوئے نسل انسانی کا حصہ بننا چھوڑنا چاہتی ہے، اور وہ یہ اس یقین کی حامل ہوگئی ہے کہ وہ درخت  میں بدل گئی ہے۔ اور دوسری جو اپنے آپ کو مصائب و آلام میں ڈال کر اپنی بہن کو موت سے بچانا چاہتی ہے۔ جب میں ناولیں لکھتی ہوں، تو اپنے آپ کو سوال کے آخر تک پہنچنے کی کوشش کرتا پاتی ہوں — جواب تک نہیں — جس نے ابتدا میں مجھے اسے لکھنے کی تحریک دی تھی۔ انسان ہونے کے معنی پر اپنے سوالات کی تہہ میں اترنے کے لیے میرے لیے اس نوع کے شدید مناظر اور منظر کشی سے گزرنا ناگزیر تھا۔

انٹرویو کنندہ:

کہانی بصری نقاشی اور بار بار دہرائے گئے بنیادی خیالات سے مالا مال ہے۔ کیا آپ ان کو کہانی میں لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، یا وہ قدرتی طور پر تیار ہوئے؟ کہانی کے یہ بصری عناصر کتنے اہم ہیں؟

ہن کانگ:

جب میں افسانہ لکھتی ہوں تو حسیات پر بہت زور دیتی ہوں۔ میں سماعت اور لمس جیسے وشد حواس بشمول بصری تصاویر کی ترسیل چاہتی ہوں۔ میں ان احساسات کو اپنے جملوں میں برقی رو کے مانند دوڑاتی ہوں، اور پھر عجب امر یہ کہ قاری اس رَو کو سمجھتا ہے۔ اس تعلق کا تجربہ میرے لیے ہر بار غیر معمولی رہا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے ۲۰۰۷ء میں ’’سبزی خور‘‘ لکھا، اور جب ۲۰۱۵ء میں انگریزی میں ترجمہ کیا گیا، تو بہت سے قارئین اور جائزہ لینے والوں نے محسوس کیا کہ یہ ایک ایسی تمثیل ہے جو کوریائی آداب اور معاشرے کے ساتھ ساتھ پدرانہ اصولوں پر ایک حد سے متجاوز تبصرہ ہے۔ اب  ۱۶ سال بعد، آپ کو یہ کیسا لگتا ہے؟

ہن کانگ:

میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ ناول کو پدرانہ نظام کے خلاف ایک تمثیل کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ تاہم، میں نہیں سمجھتی کہ یہ کوریائی معاشرے کے لیے کوئی نایاب شے ہے۔ درجے میں فرق ہو سکتا ہے، لیکن کیا یہ عالمگیر نہیں ہوگا؟ میری منزل خاص طور پر کوریائی معاشرے کو مصور کرنا نہیں  تھا۔

’’سبزی خور‘‘ روایتی بیانیہ ڈھانچے کو چیلنج کرتا ہے۔ ییونگ ہئی کی کہانی تین راوی سناتے ہیں، پھر بھی اسے شاذ و نادر ہی بولنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے اپنے مرکزی کردار کو اس انداز میں لکھنے کا انتخاب کیوں کیا؟

ہن کانگ:

ییونگ ہئی ایک بنیاد پرست اور مضبوط کردار ہے۔ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایک پودا بننے کے لیے پرعزم ہے۔  بلاشبہ، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی کوششیں اسے موت کے قریب لے آتی ہیں۔ ییونگ ہئی کو براہ راست راوی بننے دینے کے بجائے، میں دوسرے راوی کرداروں کی وساطت سے یہ دکھانا چاہتی تھی کہ اُسے کس طرح پرکھا، اس سے نفرت، اسے غلط سمجھا، اس پر ترس کھایا اور معترض ہوا جاتا ہے۔ میں نے ان لمحات کا تصور کیا جب قارئین ان غلط فہمیوں سے ابھر کر سامنے آنے والی اس کی سچائی تک رسائی پاتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے کے ساتھ ساتھ تنقیدی پذیرائی حاصل کرتے اور ’سال کی بہترین کتب‘ کی کئی فہرستوں میں شامل ہوتے ہوئے، ’’سبزی خور‘‘  یی سانگ لٹریری پرائز (Yi Sang Literary Prize) کا حقدار بھی پایا۔ دنیا بھر پذیرائی پانے والی کتاب لکھنے پر کیسا لگا؟ اِس سےانعام پانے کے بعد کے برسوں میں آپ کے کیریئر پر کیا اثر پڑا؟

ہن کانگ:

میں نے ’’سبزی خور‘‘ لکھنے میں میں نے جو تین برس کا عرصہ لگایا وہ میرے لیے ایک کڑا وقت تھا، اور مجھے کبھی خیال تک  بھی نہیں گزرا تھا  کہ ایک روز اسے اس قدر قارئین مل جائیں گے۔ اس وقت تو مجھے یقین بھی نہیں تھا کہ میں اس  ناول کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکوں گی، یا بطور ایک مصنف زندہ بھی رہوں گی۔ میں اپنی انگلیوں کے جوڑوں میں شدید درد میں مبتلا تھی، اس لیے میں نے پہلے دو حصے، ایک رواں نِب والے قلم کا استعمال کرتے ہوئے جو کاغذ پر آسانی سے سرکتا تھا، آرام سے لکھے، اور پھر آخری حصہ دو بال پوائنٹ قلموں کو الٹا پکڑ کر ٹائپ کیا۔ آج بھی جب میں ناول کی ’کامیابی‘ کے بارے میں سنتے ہوں تو مجھے عجیب لگتا ہے، خاص طور پر چونکہ مرکزی کردار، ییونگ ہئ، کا لفظ’کامیابی‘  پر اطلاق نہیں ہوتا۔

کسی نہ کسی طرح، میں نے اپنی زندگی کے اس دور سے گزر کر ناول مکمل کیا۔ اس کے بعد ہی میں اگلا ناول لکھنے کے قابل ہوئی۔ ’’سبزی خور‘‘ کے آخری منظر میں، ییونگ ہئی کی بہن ایمبولینس کی کھڑکی سے باہر یوں تک رہی ہے ’گویا جواب کے منتظر ہو۔ گویا کسی چیز کے خلاف احتجاج کر رہی ہو۔ درحقیقت مجھے لگتا ہے جیسے پورا ناول ہی جواب کا منتظر ہے اور کسی چیز کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ عام طور پر، ناول لکھنے کے بعد میرے پاس جو سوالات بچ جاتے ہیں وہی مجھے اگلے ناول کی دھکیل کر لے جاتے ہیں، پس میں نے اپنا چوتھا ناول لکھا جس کا آغاز ’’سبزی خور‘‘ کے آخری سین میں سوال سے ہوتا ہے: ہم انسانی زندگی کے ساتھ کیسے موافقت کرتے ہیں؟ جو کیا بہ ایں ہمہ بے حدخوب صورت اور نہایت متشدد ہے؟ پھر میرے چوتھے ناول کے انجام کا سوال میرے نئے کام کا نقطۂ آغاز بن گیا۔ تو میں نے اب تک اسی طرح لکھا ہے۔ میں نے اسی موسم گرما میں ایک نیا ناول قلم بند کرنا شروع کیا ہے جس میں، میں اس سوال  تک پہنچنے کی منتظر  ہوں جو مجھے ناول کے انجام میں ملے گا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ قارئین کو ترجمہ شدہ کوریائی فکشن کے کون سے تین کاموں کے مطالعے کی سفارش کریں گی، اور کیوں؟

ہن کانگ:

میں ہوانگ جونجیون کے ’’یک صد سایوں‘‘کی سفارش کرنا چاہوں گی، جس کا ترجمہ جنگ یوون نے کیا ہے۔ جیمی چانگ کا ترجمہ کیا ہوا کِم ہائے جِن کا میری بیٹی‘؛ اور بورا چنگ کا ’کم بخت بنی‘، جس کا ترجمہ انتون ہور نے کیا ہے۔  یہ تینوں اپنی نگاہیں نہیں چرائے بغیر براہ راست دنیا اور انسانی باطن کو دیکھتے ہیں۔

:::

]انگریزی متن بشکریہ’’بُکر پرائز فاؤنڈیشن‘‘[

ھن کانگ   کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو

بُکر انعام یافتہ

ہن کانگ

Han Kang

انٹرویوکنندہ: بُکر فاؤنڈیشن

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

میں نے کبھی تصور بھی نہیں کِیا تھا کہ’سبزی خور‘ کو۔۔۔— ہان کانگ– بُکرونوبیل انعام یافتہ شاعرہ و مصنفہ- ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: ہان کانگ

’’میں  نے کبھی تصور بھی نہیں کِیا تھا کہسبزی خور کو اتنے قارئین ملیں گے۔‘‘

ہن کانگ

(نوٹ: یہ انٹرویو ۲۰۲۳ء میں لیا گیا تھا اور بین الاقوامی بُکر پرائز فاؤنڈیشن کی سائٹ پر ۲۸ جولائی، ۲۰۲۳ء  کو شائع کیا گیا۔ اکتوبر ۱۰، ۲۰۲۴ء کو ہن کانگ کو ادب کے نوبیل انعام برائے ادب ۲۰۲۴ء کا فاتح  قرار دیا گیا۔ ’’سبزی خور‘‘ کی مصنفہ بین الاقوامی بُکر انعام جیتنے کے اثرات کے بارے میں بتاتی ہیں کہ اس ناول کو دنیا بھر میں کیسے پذیرائی ملی ہے —  اور سوال اُٹھاتی ہیں کہ انسان ہونے کا کیا مطلب ہے؟)

انٹرویو کنندہ:

۲۰۱۶ء سے بین الاقوامی بُکر انعام کے قوانین میں تبدیلی کے بعد آپ بین الاقوامی بکر پرائز کی پہلے فاتح تھیں۔یہ فتح آپ کو کیسی لگی تھی، اور آپ کے لیے کیا معنی رکھتی تھی؟

ہن کانگ:

مَیں نے ’’سبزی خور‘‘ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۵ء کے وسطی عرصے دوران میں قلم بند کِیا، اور اِسے مکمل طوالت کے حامل ناول کے طور پر ۲۰۰۷ء میں شائع کِیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دہائی سے بھی  زیادہ عرصے قبل ۲۰۱۶ء  کا بین الاقوامی بُکر انعام جیتنے کے بارے میں (اچھے طریقے سے) سوچنا بھی  عجب بات تھی۔ انعام جیتنے کے بعد سے میری دِیگر تخلیقات بشمول ’’انسانی افعال‘‘، ’’سفید کتاب‘‘، اور ’’یونانی اسباق‘‘ کے ساتھ ساتھ میرے سب سے حالیہ ناول، ’’ہم جدا نہیں ہوتے‘‘ کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کِیا گیا ہے یا کِیا جا رہا ہے۔ مَیں شکر گزار ہوں کہ بین الاقوامی بُکر انعام نے میرے کاموں کو مختلف ثقافتوں میں وسیع قارئین تک پہنچنے میں قابلِ قدر مدد کی۔

انٹرویو کنندہ:

آپ پہلی کوریائی بھی تھیں جنھیں اِس اعزاز کے لیے نامزد کِیا گیا اور آپ نے اِسے جیت بھی لیا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی جیت کے نتیجے میں کورین فکشن کی زیادہ پہچان بنی، یا پھر یہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ دکھائی دے رہا تھا؟

مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے درمیان تشریح میں لطیف فرق کو دیکھنا دلچسپ ہے، لیکن مجھے جو چیز زیادہ  متاثر کرتی ہے وہ ناول کو  بالمثل عمومی پذیرائی کو ملنے کا انداز ہے ۔ مثال کے طور پر، اسے ہر جگہ خواتین قارئین نے زیادہ قبول کِیا اور سمجھا ہے۔

  ہن کانگ

ہن کانگ:

اُس وقت، پہلے سے ہی بہترین کوریائی شاعر اور ادیب موجود تھے —  جیسے کِم ہئی سُون —  جن کی تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا تھا۔ اب، کوریائی مصنفین کے زیادہ سے زیادہ کاموں کا بیرون ملک ترجمہ کر کے شائع کِیا  جا رہا ہے۔  حالیہ برسوں میں، کوریائی ادب پر کام کرنے والے مترجمین کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے  —  

ایک ایسا رجحان جس سے کوریائی سنیما اور پاپ میوزک کی عالمی کامیابی سے بھی گہرا  ربط لگتا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

یہ ناول آپ کے ۱۹۹۷ء کے افسانے’’میری عورت کا ثمر‘‘  پر مبنی تھا۔ کس چیز نے آپ کو اِسے ایک مکمل طوالت کے حامل ناول، یا تین حصوں پر مشتمل قصہ بنانے کی ترغیب دی؟

ہن کانگ:

’’میری عورت کا ثمر‘‘ لکھنے کے بعد مجھے توقع تھی کہ ایک نہ ایک روز مَیں اِس کہانی پر کوئی تبدیل شدہ شے لکھوں گی۔ دو مکمل طوالت کے حامل ناول لکھنے کے بعد ہی مَیں اپنے تیسرے ناول ’’سبزی خور‘‘  میں ایسا کرنے میں کامیاب ہو پائی۔ بالخصوص ’’سبزی خور‘‘ کا پہلا حصہ اصل افسانے کے بہت سے رسمی نشانات کو برقرار رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، شوہر ایک ناقابلِ اعتبار راوی کا کردار ادا کرتا ہے، اور مرکزی کردار خاتون کی آواز محض جزوی طور پر، خوابوں میں یا  خود کلامی  میں اپنی ماں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ظاہر ہوتی ہے۔ ایک عورت کے، جو وہ بنتی ہے — یا بننا چاہتی ہے — بارے میں  اِن دونوں کہانیوں کے مابین فرق تاریکی، جذبے اور شدّت کی سطح میں ایک پودے کا وجود ہے۔ ’’سبزی خور‘‘  زیادہ گہرا، زیادہ شدید اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اِس میں ’’میری عورت کا ثمر‘‘ جیسا کچھ بھی  مافوق الفطرت ہوتا، اور ظالمانہ حقیقت کے درمیان کردار اپنے ہی عذاب بھوگ رہے ہوتے ہیں۔ ایک اور فرق یہ ہے کہ ناول کے مرکزی کردار کی ایک بہن ہے، جو اپنی شناخت کا ایک عجیب سا احساس پیدا کرتی ہے۔

انٹرویو کنندہ:

’’سبزی خور‘‘  کا ۲۰ سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ کیا مختلف ممالک میں اِس ناول پر مختلف ردِّعمل رہا اور کیا اُن میں سے کوئی ردِّعمل آپ کے لیے تحیر زا رہا؟ کیا اِس نے مختلف مقامات پر مختلف قارئین (مثلاً نوجوان قارئین) کو اپنی طرف متوجہ کِیا ہے یا مختلف طریقوں سے گونج رہا ہے؟

ہن کانگ:

مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے درمیان تشریح میں لطیف فرق کو دیکھنا دلچسپ ہے، لیکن مجھے اس سے بھی زیادہ جو چیز  متاثر کرتی ہے وہ ہے ناول کو  بالمثل عمومی پذیرائی کو ملنے کا طریقہ۔ مثال کے طور پر، اسے ہر جگہ خواتین قارئین نے زیادہ قبول کِیا اور سمجھا ہے۔

انٹرویو کنندہ:

انگریزی ایڈیشن کے لیے، آپ نے کتاب کی مترجم ڈیبورا سمتھ کے ساتھ کام کیا (سمتھ نے کوریائی زبان سیکھی اور یہ ناول اُن کا پہلی کتاب تھا)۔ دیگر زبانوں کے تراجم کے مقابلے میں یہ تجربہ کیسا تھا؟ اور جب ترجمہ کے ارد گرد تنازعات کی سطح تھی تو یہ کیسا لگ رہا تھا؟

ہن کانگ:

بہت سے لوگوں کی طرف سے ظاہر کیے گئے خدشات کے برعکس، میں تسلیم نہیں کرتی کہ مترجم نے جان بوجھ کر اصل متن کو مجروح کیا ہے، نہ ہی مجھے یہ یقین ہے کہ اُس نے کوئی نئی تخلیق کی ہے جو اصل سے یکسر مختلف ہے۔ اغلاط کو درست کر دیا گیا ہے اور ترجمہ اپنی نوعیت میں ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ عمل ہے جس میں مضر اور دریافت شامل ہوتے ہیں۔ گیت، تال، شاعرانہ تناؤ، باریک بینی، تہہ دار مفاہیم، ترجمہ ہونے والی زبان کا گہرا ثقافتی سیاق و سباق — وہ سب کچھ جو صرف اس زبان میں ممکن ہے —  جس زبان میں ترجمہ ہورہا ہو اُس میں لامحالہ کھو جاتا ہے۔ کسی بھی مترجم کے لیے مشکل کام اس ضرر رساں و تاریک سرنگ میں سے گزرنا اور اصل متن سے ممکنہ حد تک وفادار رہنے کے لیے قریب ترین الفاظ یا تشبیہات تلاش کرنا ہے۔

مجھے پہلی مرتبہ ’’سبزی خور‘‘ کا انگریزی ترجمہ اس وقت ملا جب گرانٹا بکس نے مجھے ابتدائی پروف خوانی کی فائل بھیجی۔ میں اس وقت ’’افعالِ انسانی ‘‘ لکھنے میں اس قدر مشغول تھی کہ دیانت داری سے بتاؤں تو میں نے لغت میں سے الفاظ تلاش کیے بغیر مسودے کے مطالعے میں لگ بھگ تین چار گھنٹے لگائے۔ دورانِ سفر ہی میں نے کئی غلطیاں پائیں تو میں نے ڈیبورا کے ساتھ ان کے بارے میں چند ای میلز کا تبادلہ کیا۔ ’’سبزی خور‘‘ کے ترجمے میں میری شمولیت بس اتنی ہی تھی۔ تاہم، ۲۰۱۵ء  میں، جب ڈیبورا ’’افعالِ انسانی‘‘ پر کام کر رہی تھی، چوں کہ میں کچھ اور نہیں لکھ رہی تھی پس مجھے اس کے ساتھ گہرائی میں جار گفتگو کرنے کی ذہنی فرصت حاصل تھی۔ جب ڈیبورا نے ۲۰۱۷ء  میں ’’ کتابِ ابیض ‘‘کا ترجمہ کیا تو ہم دونوں نے مسودے کا موازنہ اصل متن کے ایک ایک جملے سے کیا۔ بعد میں، جب ’’سبزی خور‘‘ کے ترجمے پر ایک گرما گرم بحث چھڑی تو میں سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ کاش میں نے ترجمے کا جائزہ لینے میں اتنا ہی وقت صرف کیا ہوتا جتنا ’’افعالِ انسانی‘‘ کے لیے صرف کیا تھا۔ درحقیقت، شاید مجھے اس کے ترجمے کے ایک ایک جملے کے اصل متن کے ساتھ موازنے کے لیے کسی ماہر کو مقرر کرنا چاہیے تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ بحث دو دلائل کا الجھن میں ڈالنے والا ایک مبہم ادغام ہے۔ پہلا غلط ترجمہ ہے کیوں کہ غلطیاں کی گئی تھیں ۔ فاعل کو جملوں سے خارج کر کے  چینی کرداروں کا غلط ترجمہ اور سیاق و سباق کے بارے میں غلط مفہوم لیے گئے تھے — جیسا کہ اکثر کوریائی زبان میں ہوتا ہے۔ ۲۰۱۷ء میں، ڈیبورا نے اٹھائے گئے مختلف نکات کی بنیاد پر ۶۷ درستیاں کیں۔ ’’سبزی خور‘‘ کے برطانیہ اور امریکا کی طباعتوں پر، جو ۲۰۱۸ء میں دوبارہ اور ساتھ ہی انگریزی کے ذریعے ترجمہ کیے گئے لسانی طباعتیں بھی شائع کی گئی تھیں، ان درستیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نظر ثانی کی گئی۔ میں اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنھوں نے ترجمے میں غلطیاں پائی اور مجھے ای میل کیں۔

جب میں افسانہ لکھتی ہوں تو حسیات پر بہت زور دیتی ہوں۔ میں سماعت اور لمس جیسے وشد حواس بشمول  بصری تصاویر  کی ترسیل چاہتی ہوں۔ میں ان احساسات کو اپنے جملوں میں برقی رو کے مانند دوڑاتی ہوں۔

 

 ہن کانگ

اختلاف کا دوسرا نکتہ ترجمے
کا اصل متن سے کس حد تک ہٹنا ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ غلط ترجمے کو اس دلیل کی
شہادت کے طور پر برتا گیا۔ مثال کے طور پر، کورین لفظ
cheohyeong
سے مراد کسی کی بیوی کی بڑی بہن ہے، لیکن چونکہ لفظ (
cheo) کے پہلے حصے

کا معنی ’بیوی اور دوسرے حصے (hyeong) کا معنی ’بڑا بھائی‘ ہے اس لیے یہ کسی بھی مبتدی کے لیے الجھن کا باعث بن سکتا ہے، جو اس کا معنی بیوی کا بڑا بھائی لے سکتا ہے۔ نتیجے میں ہونے والی غلطی سے اس غلط فہمی نے جنم لیا کہ مترجم نے کرداروں  کو تبدیل کر دیا۔ اس کے علاوہ، انگریزی ترجمے میں اصل متن کا تقریباً نصف صفحہ غائب ہے، جسے میں سمجھتی ہوں کہ ناشر کا ادارتی فیصلہ تھا۔ مترجم نے ہر جملے کا بڑی تندہی سے ترجمہ کیا تھا۔

انٹرویو کنندہ:

’’سبزی خور‘‘ خوبصورتی کو خوف کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو بعض اوقات سفاکانہ اور پریشان کن ہوتی ہے، جس میں جسمانی اور جنسی تشدد کے مناظر، زبردستی کھانا کھلانا، اور موت کی پیش خیمگی احساس در آتا ہے۔ کیا چیز آپ کو تاریک موضوعات اور انسانی اعمال کے بارے میں لکھنے کی طرف راغب کرتی ہے؟

ہن کانگ:

میں تین حصوں میں دنیا اور انسانیت کے بارے میں اپنے سوالات سے نمٹنا چاہتی تھی۔ دو بہنیں  جو  خاموشی سے پکار رہی ہیں: ایک وہ جو گوشت کھانے سے انکار کرتے ہوئے نسل انسانی کا حصہ بننا چھوڑنا چاہتی ہے، اور وہ یہ اس یقین کی حامل ہوگئی ہے کہ وہ درخت  میں بدل گئی ہے۔ اور دوسری جو اپنے آپ کو مصائب و آلام میں ڈال کر اپنی بہن کو موت سے بچانا چاہتی ہے۔ جب میں ناولیں لکھتی ہوں، تو اپنے آپ کو سوال کے آخر تک پہنچنے کی کوشش کرتا پاتی ہوں — جواب تک نہیں — جس نے ابتدا میں مجھے اسے لکھنے کی تحریک دی تھی۔ انسان ہونے کے معنی پر اپنے سوالات کی تہہ میں اترنے کے لیے میرے لیے اس نوع کے شدید مناظر اور منظر کشی سے گزرنا ناگزیر تھا۔

انٹرویو کنندہ:

کہانی بصری نقاشی اور بار بار دہرائے گئے بنیادی خیالات سے مالا مال ہے۔ کیا آپ ان کو کہانی میں لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، یا وہ قدرتی طور پر تیار ہوئے؟ کہانی کے یہ بصری عناصر کتنے اہم ہیں؟

ہن کانگ:

جب میں افسانہ لکھتی ہوں تو حسیات پر بہت زور دیتی ہوں۔ میں سماعت اور لمس جیسے وشد حواس بشمول بصری تصاویر کی ترسیل چاہتی ہوں۔ میں ان احساسات کو اپنے جملوں میں برقی رو کے مانند دوڑاتی ہوں، اور پھر عجب امر یہ کہ قاری اس رَو کو سمجھتا ہے۔ اس تعلق کا تجربہ میرے لیے ہر بار غیر معمولی رہا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے ۲۰۰۷ء میں ’’سبزی خور‘‘ لکھا، اور جب ۲۰۱۵ء میں انگریزی میں ترجمہ کیا گیا، تو بہت سے قارئین اور جائزہ لینے والوں نے محسوس کیا کہ یہ ایک ایسی تمثیل ہے جو کوریائی آداب اور معاشرے کے ساتھ ساتھ پدرانہ اصولوں پر ایک حد سے متجاوز تبصرہ ہے۔ اب  ۱۶ سال بعد، آپ کو یہ کیسا لگتا ہے؟

ہن کانگ:

میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ ناول کو پدرانہ نظام کے خلاف ایک تمثیل کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ تاہم، میں نہیں سمجھتی کہ یہ کوریائی معاشرے کے لیے کوئی نایاب شے ہے۔ درجے میں فرق ہو سکتا ہے، لیکن کیا یہ عالمگیر نہیں ہوگا؟ میری منزل خاص طور پر کوریائی معاشرے کو مصور کرنا نہیں  تھا۔

’’سبزی خور‘‘ روایتی بیانیہ ڈھانچے کو چیلنج کرتا ہے۔ ییونگ ہئی کی کہانی تین راوی سناتے ہیں، پھر بھی اسے شاذ و نادر ہی بولنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

انٹرویو کنندہ:

آپ نے اپنے مرکزی کردار کو اس انداز میں لکھنے کا انتخاب کیوں کیا؟

ہن کانگ:

ییونگ ہئی ایک بنیاد پرست اور مضبوط کردار ہے۔ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایک پودا بننے کے لیے پرعزم ہے۔  بلاشبہ، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی کوششیں اسے موت کے قریب لے آتی ہیں۔ ییونگ ہئی کو براہ راست راوی بننے دینے کے بجائے، میں دوسرے راوی کرداروں کی وساطت سے یہ دکھانا چاہتی تھی کہ اُسے کس طرح پرکھا، اس سے نفرت، اسے غلط سمجھا، اس پر ترس کھایا اور معترض ہوا جاتا ہے۔ میں نے ان لمحات کا تصور کیا جب قارئین ان غلط فہمیوں سے ابھر کر سامنے آنے والی اس کی سچائی تک رسائی پاتے ہیں۔

انٹرویو کنندہ:

بین الاقوامی بکر پرائز جیتنے کے ساتھ ساتھ تنقیدی پذیرائی حاصل کرتے اور ’سال کی بہترین کتب‘ کی کئی فہرستوں میں شامل ہوتے ہوئے، ’’سبزی خور‘‘  یی سانگ لٹریری پرائز (Yi Sang Literary Prize) کا حقدار بھی پایا۔ دنیا بھر پذیرائی پانے والی کتاب لکھنے پر کیسا لگا؟ اِس سےانعام پانے کے بعد کے برسوں میں آپ کے کیریئر پر کیا اثر پڑا؟

ہن کانگ:

میں نے ’’سبزی خور‘‘ لکھنے میں میں نے جو تین برس کا عرصہ لگایا وہ میرے لیے ایک کڑا وقت تھا، اور مجھے کبھی خیال تک  بھی نہیں گزرا تھا  کہ ایک روز اسے اس قدر قارئین مل جائیں گے۔ اس وقت تو مجھے یقین بھی نہیں تھا کہ میں اس  ناول کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکوں گی، یا بطور ایک مصنف زندہ بھی رہوں گی۔ میں اپنی انگلیوں کے جوڑوں میں شدید درد میں مبتلا تھی، اس لیے میں نے پہلے دو حصے، ایک رواں نِب والے قلم کا استعمال کرتے ہوئے جو کاغذ پر آسانی سے سرکتا تھا، آرام سے لکھے، اور پھر آخری حصہ دو بال پوائنٹ قلموں کو الٹا پکڑ کر ٹائپ کیا۔ آج بھی جب میں ناول کی ’کامیابی‘ کے بارے میں سنتے ہوں تو مجھے عجیب لگتا ہے، خاص طور پر چونکہ مرکزی کردار، ییونگ ہئ، کا لفظ’کامیابی‘  پر اطلاق نہیں ہوتا۔

کسی نہ کسی طرح، میں نے اپنی زندگی کے اس دور سے گزر کر ناول مکمل کیا۔ اس کے بعد ہی میں اگلا ناول لکھنے کے قابل ہوئی۔ ’’سبزی خور‘‘ کے آخری منظر میں، ییونگ ہئی کی بہن ایمبولینس کی کھڑکی سے باہر یوں تک رہی ہے ’گویا جواب کے منتظر ہو۔ گویا کسی چیز کے خلاف احتجاج کر رہی ہو۔ درحقیقت مجھے لگتا ہے جیسے پورا ناول ہی جواب کا منتظر ہے اور کسی چیز کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ عام طور پر، ناول لکھنے کے بعد میرے پاس جو سوالات بچ جاتے ہیں وہی مجھے اگلے ناول کی دھکیل کر لے جاتے ہیں، پس میں نے اپنا چوتھا ناول لکھا جس کا آغاز ’’سبزی خور‘‘ کے آخری سین میں سوال سے ہوتا ہے: ہم انسانی زندگی کے ساتھ کیسے موافقت کرتے ہیں؟ جو کیا بہ ایں ہمہ بے حدخوب صورت اور نہایت متشدد ہے؟ پھر میرے چوتھے ناول کے انجام کا سوال میرے نئے کام کا نقطۂ آغاز بن گیا۔ تو میں نے اب تک اسی طرح لکھا ہے۔ میں نے اسی موسم گرما میں ایک نیا ناول قلم بند کرنا شروع کیا ہے جس میں، میں اس سوال  تک پہنچنے کی منتظر  ہوں جو مجھے ناول کے انجام میں ملے گا۔

انٹرویو کنندہ:

آپ قارئین کو ترجمہ شدہ کوریائی فکشن کے کون سے تین کاموں کے مطالعے کی سفارش کریں گی، اور کیوں؟

ہن کانگ:

میں ہوانگ جونجیون کے ’’یک صد سایوں‘‘کی سفارش کرنا چاہوں گی، جس کا ترجمہ جنگ یوون نے کیا ہے۔ جیمی چانگ کا ترجمہ کیا ہوا کِم ہائے جِن کا میری بیٹی‘؛ اور بورا چنگ کا ’کم بخت بنی‘، جس کا ترجمہ انتون ہور نے کیا ہے۔  یہ تینوں اپنی نگاہیں نہیں چرائے بغیر براہ راست دنیا اور انسانی باطن کو دیکھتے ہیں۔

:::

]انگریزی متن بشکریہ’’بُکر پرائز فاؤنڈیشن‘‘[

Authors

  • ادب کے نوبیل انعام ۲۰۲۴ء کا اعلان کرتے ہوئے منصفین نے ہن کانگ کو نوبیل انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کِیا: ’’اُن کی پُرزور شاعرانہ نثر کے لیے جو تاریخی صدمات کا مقابلہ کرتی ہے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی کو عیاں کرتی ہے۔‘‘ وہ نوبیل انعام پانے والی پہلی کوریائی شاعرہ/ مصنفہ ہیں جب کہ کل نوبیل جیتنے والے کل ۱۱۹ شعرا و ادبا میں سترھویں خاتون ہیں — اُن سے قبل ۱۶ خواتین یہ اعزاز حاصل کر چکی ہیں — اور ایشیا سے نوبیل انعام کے فاتحین میں اُن کا نمبر نواں ہے۔ ہن کانگ ۲۷ نومبر، ۱۹۷۰ء کو جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں پیدا ہوئیں مگر نو سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سیول منتقل ہو گئی تھیں۔ اُن کا اپنا ایک ادبی پس منظر ہے۔ اُن کے والد ایک نامور ناول نویس تھے۔ اپنے لکھنے پڑھنے کے کام کے ساتھ ساتھ، اُنھوں نے اپنے آپ کو فنونِ لطیفہ اور موسیقی کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے، جس کی عکاسی اُن کے تمام ادبی کاموں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ہن کانگ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۹۳ء میں ’’ادب اور معاشرہ‘‘ نامی کوریائی میگزین میں متعدد نظموں کی اشاعت سے کیا۔ اُن کی نثر کی شروعات ۱۹۹۵ء میں افسانوی مجموعے ’’یوہسُو کی محبت‘‘ سے ہوئی (یوہسُو ، جنوبی کوریا کا ایک ساحلی شہر)۔ جس کے فوراً بعد اُن کے بہت سے نثری کام، ناول اور افسانوں کے مجموعے منصۂ شہود پر آئے۔ جن میں سے قابل ذکر ناول ’’تمھارے یخ ہاتھ‘‘ ۲۰۰۲ء ہے۔ اِس میں فنونِ لطیفہ میں ہن کانگ کی دلچسپی کے واضح آثار موجود ہیں۔ یہ ناول ایک لاپتہ مجسمہ ساز کے، جو خواتین کے بدنوں کےمجسمے پلاسٹر آف پیرس سے بنانے کا جنونی ہے، اپنے پیچھے چھوڑے گئے ایک مخطوطہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اِس میں انسانی علم الاعضا اور شخصیت و تجربے کےمابین کھیل کا استغراق ہے، جہاں مجسمہ ساز کے کام میں ایک تنازع جنم لیتا ہے کہ جسم کیا ظاہر کرتا اور کیا چھپاتا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے آخر میں ایک جملہ واضح اصرار کرتا ہے: ’’زندگی ایک پاتال پر تنی ہوئی چادر ہے، اور ہم اِس پر نقاب پوش بازی گروں کے مانندرہتے ہیں۔‘‘ ہن کانگ کو نمایاں بین الاقوامی شہرت ۲۰۰۷ء میں اشاعت پذیر ہونے والے اُن کے ناول ’’سبزی خور‘‘ سے ملی جس کا ۲۰۱۵ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ ’’دی ویجیٹیرین‘‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ تین حصوں پر مشتمل اِس ناول میں اُن متشدد عواقب کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اُس وقت رونما ہوتے ہیں جب ناول کی مرکزی کردار ییونگ ہائے کھانا کھانے کی مروجہ اقدار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ اس کے گوشت نہ کھانے کے فیصلے پر مختلف، یکسر مختلف رد ِّعمل سامنے آتے ہیں۔ اُس کے رویے کو اُس کا شوہر اور جابر باپ دونوں سختی سے مسترد کر دیتے ہیں، اور اُس کے بصری فنکار (ویڈیو آرٹسٹ) بہنوئی کے ہاتھوں اُس کا شہوانی و جمالیاتی استحصال ہوتا ہے جو اُس کے غیر فعال جسم کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بالآخر، اُسے ایک نفسیاتی علاج گاہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے، جہاں اُس کی بہن اُسے بچانے اور اُسے ’’معمول کی زندگی‘‘ میں واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم ییونگ ہائے ایک گہری نفسیاتی کیفیت میں مزید ڈوب چکی ہوتی ہے جس کا اظہار ’’بھڑکتے ہوئے درختوں‘‘ (درختوں کی ایک قسم، جس کے پتے گہرے سرخ اور بڑے ہوتے ہیں جس سے یوں لگتا ہے جیسے اُس میں آگ بھڑکی ہوئی ہو۔ یہ درختوں کی سلطنت کے بادشاہی کی علامت بھی ہے اور یہ جتنا دلکش دکھائی دیتا ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہوتا ہے۔) کی علامت کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ایک اور پلاٹ پر مبنی کتاب ’’ہَوا چلتی ہے، جاؤ‘‘ہے، جو ۲۰۱۰ء میں منظرِ عام پر آئی اور دوستی اور فن کے بارے میں ایک ضخیم اور پیچیدہ ناول ہے، جس میں دُکھ اور تبدیلی کی آرزو اپنی بھرپور شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہن کانگ کی کہانیوں میں زندگی کی شدتوں کو سہتے جسموں سے ہمدردی کی تصویر کشی کےلیے اُنھیں اپنے بے حد قوی استعاراتی انداز سے تقویت ملتی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ’’یونانی اسباق‘‘- ۲۰۲۳ء، دو غیر محفوظ افراد کے درمیان غیر معمولی تعلق کی ایک دلکش تصویر کشی ہے۔ ایک نوجوان عورت، جو کئی تکلیف دہ تجربات کے بعد اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے،ازمنۂ قدیم کے یونان میں اپنی استاذ سے رابطہ کرتی ہے، جو خود اپنی بینائی کھو رہی ہے۔ اُن کی اِن اپنی خامیوں سے، ایک سوختہ و خستہ محبت پروان چڑھتی ہے۔یہ ناول خسارے، قربت اور زبان کے حتمی حال و قال کے چوگرد ایک خوبصورت مراقبہ ہے۔ کوریائی زبان میں ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والے ناول ’’انسانی افعال‘‘، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۶ء میں ’’ہیومن ایکٹس‘‘کے عنوان سے ہوا، میں اِس مرتبہ ہن کانگ نے اپنی سیاسی بنیاد کو برتتے ہوئے ایک تاریخی واقعہ پیش کِیا جو گوانگجو شہر میں پیش آیا تھا، جہاں وہ خود پلی بڑھی اور جہاں سینکڑوں طلبہ اور غیر مسلح شہریوں کا ۱۹۸۰ء میں جنوبی کوریا کی فوج نے قتلِ عام کِیا تھا۔ تاریخ کے متأثرین کی آواز بننے کی کاوش میں، وہ اپنے اِس ناول میں اِس واقعہ کو سفاکانہ حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کرتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، ادبی گواہی کی صنف تک پہنچتی ہیں۔ ہن کانگ کا انداز، جتنا بصیرت آمیز ہے اُتنا ہی جامع و مختصر بھی۔ اس کے باوجود ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا جس کی خاص مصلحت یہ ہے کہ مُردوں کی روحوں کو اُن کے بدنوں سے جدا ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی فنا کا خود مشاہدہ کر سکیں۔ کچھ خاص مقامات پر، ناقابلِ شناخت لاشوں کے نظر آنے پر جنھیں کفن دفن نصیب نہیں ہوا ہوتا، متن سوفوکلس کے اینٹی گون کے مرکزی خیال سے رجوع کرتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ہن کانگ کا اگلا پڑاؤ تھا: ’’سفید کتاب‘‘۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں اگلے ہی برس ۲۰۱۷ء میں ’’سفید کتاب‘‘ کے عنوان سے ہو گیا۔اِس ناول میں ایک بار پھر ہن کانگ کا شاعرانہ اندازحاوی نظر آیا۔ یہ کتاب اُس شخص کے نام انتساب کی گئی ہے جو اپنی بڑی بہن کا خود بیانیہ ہو سکتا تھا، لیکن وہ تو پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی چل بسی تھی۔ مختصر وضاحتوں کی ترتیب میں، جو تمام تر سفید اشیاء کے بارے میں ہیں جنھیں ایک لڑی میں پرویا گیا ہے کہ سفید رنگ غم و حزن کا رنگ ہے۔ یہی چیز اِسے ایک ناول کم اور ایک قسم کی ’’سیکولر دعائیہ کتاب‘‘ کا درجہ دیتی ہے، جیسا کہ یہی بیان بھی کیا گیا ہے۔ اگر راوی کی، یہ توجیہ راوی ہی پیش کرتا ہے، خیالی بہن کو زندہ رہنے دیا جاتا تو وہ خود بھی اپنے آپ کو وجود میں نہ آنے دیتی۔ مرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ، جس پر کتاب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے: ’’اُس سفید کے اندر، اُن تمام سفید چیزوں میں، مَیں اپنی آخری سانس اُس سانس میں لوں گا جو تم نے خارج کی تھی۔‘‘ ہن کانگ کی ایک اور خاص تخلیق اُن کا ۲۰۲۱ء میں منصۂ شہود پر آنے والا تازہ ترین ناول ’’ ہم جدا نہیں ہوتے ‘‘ الم و حزن کی تصویر کشی کے حوالے سے گہرے طور پر ’’ سفید کتاب ‘‘سے جڑی ہوئی ہے۔اِس کی کہانی ۱۹۴۰ء کی دہائی کے اواخر میں جنوبی کوریا کے جزیرے جیجو پر ہونے والے ایک قتل عام کو سامنے لاتی ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کو، جن میں بچّے اور بوڑھے بھی شامل تھے، محض ساتھی ہونے کے شبہ میں گولی مار دی گئی۔ اِس ناول میں راوی اور اُس کے دوست اِنسیون کی مشترکہ سوگ منانے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ دونوں اِس سانحے کے کافی عرصے بعد تک اپنےعزیز و اقارب کی بربادی کے صدمے کو برداشت کرتے ہیں۔ تخیل کے ساتھ، جو کہانی کے عین اُتنا ہی مطابق ہے جتنا کہ کثیف، ہن کانگ نہ صرف ماضی کی طاقت کو حال پر منتج کرتی ہیں بلکہ اتنی ہی قوت کے ساتھ وہ دوستوں کی اُن بے لوث کوششوں کو منظر عام پر لانے کے لیےکھوج بھی لگاتی ہیں جو اجتماعی غفلت کا شکار ہوئیں۔ اِس طرح یہ اُن دونوں دوستوں کا ایک مشترکہ آرٹ پروجیکٹ میں صدمہ بن جاتا ہے، جو کتاب کو اِس کا عنوان فراہم کرتا ہے۔ دوستی کی گہری ترین شکل کی صورت میں یہ ناول جتنا وراثتی المیے کو بیان کرتا ہے اُتنا ہی ڈراونے خوابوں کو بھی اور ادبی گواہی کی حق گوئی کے رجحان کے درمیان بڑی اصلیت کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ ہن کانگ کے تمام کام کی خصوصیت الم و حزن کی ایسی دوہری تصویر کشی عبارت ہے جو مشرقی سوچ سے قریبی تعلق کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی اذیت کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ۲۰۱۳ء کے ناول ’’رُوبہ صحت‘‘ میں ٹانگ کا السر شامل ہے جو ٹھیک ہونے سے انکار کرتا ہے، اور مرکزی کردار اور اس کی مردہ بہن کے مابین ایک تکلیف دہ رشتہ۔ کوئی حقیقی صحت یابی کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتی، اور درد ایک بنیادی وجودی تجربے کے طور پر ابھرتا ہے جسے کسی گزرتے ہوئے عذاب میں کسی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔ ’’سبزی خور‘‘ جیسے ناول میں بھی کوئی سادہ سی وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔ جب کہ اِس ناول میں منحرف عمل اچانک اور دھماکہ خیز طور پر صاف انکار کی صورت میں ہوتا ہے، جس میں مرکزی کردار خاموش رہتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کی مختصر کہانی، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۹ء میں ’’یوروپا‘‘کے عنوان سے ہوتا ہے، ایک ایسے مرد راوی کو سامنے لاتی ہے جو اپنے آپ کو عورت کے بھیس میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایک چیستاں عورت کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے جو ایک ناممکن شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ بیانیہ خود تو چپ رہتا ہے لیکن جب اُس کی محبوبہ دریافت کرتی ہے: ’’اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوتے تو آپ اپنی زندگی کا کیا کرتے؟‘‘ لیکن یہاں تکمیل یا کفارہ کی کوئی گنجائش نہیں ملتی۔ ہن کانگ اپنی تخلیقات میں، تاریخی سانحات اور پوشیدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ مبارزت اور اپنی ہر لکھت میں انسانی زندگی کی بے ثباتی کو کھول کر بیان کرتی ہیں۔ وہ جسم اور روح، زندہ اور مردہ کے درمیان رشتے کے بارے میں ایک منفرد آگہی رکھتی ہیں، اوراُنھوں نے اپنے آپ کو اپنے شاعرانہ اور تجرباتی انداز میں عصری نثر میں ایک اختراعی کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *