مَویان کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
ریحان اسلام کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
چینی ناولچہ
گاجر
مَویان
(Mo Yan)
تعارف و ترجمہ:ریحان اسلام

باب اوّل
خزاں کی ایک صبح ،ہوا بہت زیادہ مرطوب تھی ۔ شبنم کے شفاف قطرے گھاس اور چھتوں کی ٹائلوں پرجمے ہوئے تھے۔ چینی سکالر درخت کے پتے پیلے ہو چکے تھے اور اس درخت کی شاخ سے لٹکی زنگ آلود گھنٹی پر شبنم جمی ہوئی تھی۔ پیداواری گروہ کے سربراہ نے ایک گرم جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ ہاتھ میں مکئی کی روٹی اور سبز پیاز تھامے ہوئے تھا۔ گھنٹی تک پہنچتے پہنچتے وہ سارا کھانا اپنے منہ میں ٹھونس چکا تھا۔ اس نے اپنی پوری قوت سے گھنٹی کوبجایا۔ گھنٹی کی گونج چاروں اطراف میں پھیل گئی۔ بوڑھے اور نوجوان ہر عمرکے لوگ گھنٹی کے نیچے جمع ہو گئے۔ کٹھ پتلیوں کی طرح ان کی نظریں گروہ کے سربراہ پرجمی ہوئی تھیں۔ اس نے زبردستی سارا لقمہ نگل لیا اور اپنی آستینوں سے منہ کو صاف کیا۔ لقمہ حلق سے اترتے ہی اس نے لعن طعن کرنا شروع کر دی۔ ’’اگر کمیون والوں نے ہمارے دو مستریوں اور دوبڑھئیوں کا انتخاب نہ کیا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔‘‘ پھر وہ ایک دراز قد اور کشادہ سینے والے نوجوان سے مخاطب ہوا۔ ’’کمیون والوں کو گاؤں کے پیچھے والے دریا کے سیلابی دروازوں کو وسیع کرنے کے لیے مستری اور غیر تربیت یافتہ مزدور چاہیے۔ بہتر ہے کہ تم بھی جاؤ۔‘‘ اس خوبصورت نوجوان مستری کی سیاہ بھنویں اور سفید دانت تھے۔ اسی لیے وہ سب سے الگ دکھائی دے رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے اثبات میں سر ہلایا تو اس کے پیشانی پر بکھرے ہوئے بال پیچھے کی جانب چلے گئے۔ اس نے ہچکچاہٹ سے پوچھا کہ اس کے ساتھ جانے والے غیر تربیت یافتہ مزدورکون ہوں گے ۔ گروہ کے سربراہ نے سردی سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سینے پرباندھ لیے اور اپنی آنکھیں دائیں بائیں گھمانا شروع کر دیں۔ ’’عورتیں اس کام کے لیے موزوں ہیں۔ ‘‘ اس نے الجھن کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن ان کے ذمے کپاس چننا ہے اور کسی مرد کو اس کام کے لیے بھیجنے کا مطلب افرادی قوت کو ضائع کرنا ہے ۔ ‘‘ اس نے ہرطرف نظر گھمائی ۔ کونے میں دیوار کے ساتھ ایک دس سالہ بچہ کھڑا تھا۔ وہ ننگے پاؤں اور بغیر قمیض کے تھا۔ اس نے صرف نیکر پہنا ہو ا تھا۔ جس پر گھاس اورخون کے دھبے تھے ۔ نیکر کے نیچے اس کے گھٹنوں پر زخم کے نشان واضح تھے۔ اس کا نام خئی ہائے[1] تھا ۔ ’’خئی ہائے ! نامراد ! تم ابھی تک یہاں ہو۔ ‘‘ گروہ کے سربراہ نے اس کے کمزور جسم کو دیکھتے ہوئے کہا مجھے تو لگا تھا کہ تم اب تک لقمہ اجل بن چکے ہوگے۔ کیا تمھاری کپکپی دور ہوگئی؟‘‘
بچہ کوئی جواب دیے بغیر گروہ کے سربراہ کو گھورتا رہا۔ وہ اتنا کمزور تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی بھی لمحے اس کی گردن اس کے سر کے بوجھ سے ٹوٹ جائے گی۔
’’تو تم کمانا چاہتے ہو؟مجھے نہیں لگتا کہ تم کمبخت کوئی کام کر سکتے ہو۔ تم تو ہوا کے جھونکے سے ہی اڑ جاؤگے۔ تم ایسا کرو کہ مستری کے ساتھ سیلابی دروازے پر جاؤ! بلکہ ایسا کرو کہ گھر جاؤاور ہتھوڑا لے آؤتاکہ تم پتھروں کو توڑ سکو۔ تاریخ گواہ رہے گی کہ کمیون کی طرف سے دیے گئے کام صرف غیر ملکی نقادوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ہیں ۔ ‘‘
یہ سن کر بچہ مستری کے ساتھ جا کھڑا ہو اور اس کو جیکٹ سے پکڑ لیا ۔ مستری نے دوستانہ انداز میں اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔’’گھر جا کر اپنی سوتیلی ما ں سے ایک ہتھوڑا لے آؤ،میں تمھیں پُل کے سرے پر ملوں گا۔ ‘‘
بچے نے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ اتنا کمزور تھا کہ اس کے ہاتھ ہوا میں ایسے لہرا رہے تھے جیسے کھیت میں پرندوں کو ڈرانے والے پتلے کے ہاتھ تیز ہوامیں لہراتے ہیں۔ سب اس کی جانب دیکھ رہے تھے ۔ اس کی برہنہ کمر سردی کی شدت میں اضافہ کر رہی تھی ۔ گروہ کے سربراہ نے اپنی جیکٹ کو درست کرتے ہوئے آواز لگائی۔ ’’بھکاری بچے ،اپنی سوتیلی ماں سے کوئی قمیض یاجیکٹ لے لینا ! ‘‘ وہ خاموشی سے گھر میں داخل ہوا ،گھر کے کچے صحن میں اس کاسوتیلا چھوٹا بھائی کھیل رہا تھا۔جس کے پیشاب سے وہاں کیچڑ بن گیا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی بچے نے اپنے ہاتھ پھیلا دیے اور کہنے لگا۔ ’’بھیا — بھیا— مجھے اٹھا لو۔‘‘ خئی ہائے نیچے جھکا اور زمین پر پڑے آڑو کے پتے سے اپنے بھائی کی ناک صاف کی۔ اس کے بعد اس نے پتے کو سامنے دیوار پر دے مارا ۔ اس کے بعد وہ چپکے سے کمرے میں داخل ہوا ۔ ہتھوڑا اٹھایا اور تیز ی سے باہر نکل آیا۔ اس کے بھائی نے پھر سے آوازلگائی۔ ا س بار اس نے ایک چھڑی اٹھا کر بھائی کے گرد دائرہ لگایا اور چھڑی کو ہوا میں اچھال دیا۔ اس کے بعد اس نے گاؤں کے عقب میں دوڑ لگادی۔ جہاں ایک درمیانے درجے کا دریا بہتا تھااور اس کے اوپر نو محرابوں والا پل تھا۔ موسم گرما میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے دریا کے بند پر لاتعداد ایشیائی وِلّو[2] اگ آئے تھے ۔ اس کے علاوہ وہاں سرخ جنگلی جڑی بوٹیاں بھی پرورش پا رہی تھیں۔ وِلّوکے پتے پیلے ہو کر دریا میں گر رہے تھے جنہیں پانی اپنے ساتھ بہالے جا رہا تھا۔ دریا پرموجود بطخیں کنارے پر اگی ہوئی گھاس میں کھانا تلاش کر رہی تھیں۔ خدا جانے انہیں وہاں کچھ ملا یا نہیں۔
جب بچہ بند پر پہنچا تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے سینے میں کوئی مرغی بول رہی ہے ۔
’’جلدی کرو خئی ہائے ! ‘‘ مستری پل پر سے چلایا ۔ خئی ہائے بظاہر دوڑتا ہوا مستری کے پاس پہنچا۔
’’کیا تمھیں سردی محسوس نہیں ہوتی ؟‘‘ مستری نے سوال کیا۔ خئی ہائے نے منہ کھولا پر کچھ نہ کہا۔ مستری اپنے کام والے کپڑوں میں ملبوس تھا۔ اس نے پینٹ اور کھیل والی شرٹ کے اوپر جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ سرخ شرٹ کا کالر واضح نظر آ رہا تھا۔ بچے نے کارلر کو ایسے دیکھا جیسے کہ آگ کو دیکھ رہا ہو۔
’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ مستری نے بچے کے سرپر ہلکی لیکن آواز پیدا کرنے والی چپت لگاتے ہوئے پوچھا۔ ’’تمھاری سوتیلی ماں نے تمھاری کھوپڑی کو خالی کر دیا ہے ۔ ‘‘ اس نے مزید کہا۔
پل کی جانب چلتے ہوئے مستری سیٹی بجا رہا تھا اورساتھ ساتھ بچے کے سر پر طبلہ بجا رہا تھا۔ بچہ آرام آرام سے چل رہا تھااور مستری اپنی انگلیاں کسی ڈنڈے کی طرح اس کے سر پر برسا رہا تھا۔ وہ اس تکلیف کو خاموشی سے برداشت کرتا رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ مستری سیٹی بجا کر کسی بھی آواز کی نقل اتار سکتا ہے۔ اسی دوران اس نے سیٹی بجا کر کھیت میں بیٹھی چڑیوں کو اڑا دیا۔ آدھے لِی[3] کی مسافت طے کر کے انہوں نے دریا کے پل اور سیلابی بند کوعبور کیا اورمغربی سیلابی دروازے کی جانب بڑھ گئے ۔ سیلابی دروازہ پل کی طرح دکھتا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس میں تختہ لگا ہوا تھا جس کی مدد سے پانی کے بہاؤکو قابو کیا جا سکتا ہے ۔ بند کی ڈھلوان پروں والی دریائی ٹڈیوں سے ڈھکی ہوئی تھی ۔ ٹڈیوں کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے ریتلے بند پر جنگلی گھاس اگی ہوئی ہے ۔ بند کے پار تاحد نگاہ کھلے وسیع میدان دیکھے جا سکتے تھے ۔ جن کی مٹی سیلابی ریلے گزرنے کے بعد زرخیز ہو چکی تھی۔ گزشتہ سیلاب حجم میں ذرا کم تھا اسی لیے بند محفوظ رہااور سیلابی دروازہ کھولنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی۔ سیلابی میدانوں میں بنگالی پٹ سن کے گھنے جنگل اُگ آئے تھے۔ اس صبح کھیتوں میں کافی نمی موجود تھی جو کہ دکھنے میں سمند ر معلوم ہوتی تھی۔
جب مستری اور خئی ہائے سیلابی دروازے پر پہنچے تو وہاں دو گروہ انتظار میں تھے ۔ ایک گروہ مردوں کا تھا اور ایک عورتوں کا ۔ دونوں گروہوں کے درمیان کمیون کا ایک نمائندہ موجود تھاجو کہ ہاتھ میں ایک روزنامچہ تھامے ہوئے تھا۔ وہ کافی اونچی آواز میں اور ہاتھوں کے اشارے سے ہدایات دے رہا تھا۔ خئی ہائے مستری کی رہنمائی میں سیلابی دروازوں کے پاس سے گزر کر اس شخص تک پہنچا ۔ مستری نے کہا’’ڈپٹی ڈائریکٹر لیو! ہم اپنے گاؤں کی جانب سے کام کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ‘‘ مستری، ڈائریکٹر لیو کو پہلے سے جانتا تھا کیونکہ وہ پہلے کبھی ڈائریکٹر کی نگرانی میں ہونے والے کاموںکا حصہ رہ چکا۔
خئی ہائے ڈائریکٹر لیو کے بڑے چہرے کو گھور رہا تھا۔ ایسے دیکھتے ہیں! ڈائریکٹر نے چلا کر کہا ’’بھگوڑے ! تم پھر سے آ گئے۔ تمھارے گاؤں والے بہت چالاک ہیں۔ انہوں نے ایک ایسے مزدور کو بھیجا ہے جو کسی بھی سوراخ سے گزر کر بھاگ سکتا ہے ۔ خیر کوئی بات نہیں۔ تمھارا معاون کدھر ہے ؟‘‘
خئی ہائے نے پھر سے مستری کی انگلیاں اپنے سر پر محسوس کیں۔
’’وہ ؟‘‘ ڈائریکٹر لیونے اپنے ہاتھ خئی ہائے کی گردن کے گرد لپیٹ کر ایسے جھنجھوڑا کہ وہ قریب قریب زمین سے اوپر اٹھ گیا اور غرا کر کہا ۔’’اس کمزور بندر کو یہاں کیوں بھیجا گیا ہے ؟ یہ تو ایک ہتھوڑا بھی نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
مستری نے خئی ہائے کے سر سے ڈائریکٹر کا ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا ۔ ’’چلو خیر ہے، اشتراکیت کی خوبصورتی یہ ہے کہ سب کو کھانے کے لیے ملتا ہے۔ خئی ہائے کا خاندان تین نسلوں سے کھیتی باڑی سے منسلک ہے۔ اگر اشتراکیت اس کا خیال نہیں رکھے گی تو کون رکھے گا؟ستم بالائے ستم یہ کہ اس کی ماں بھی نہیں رہی ۔ یہ اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہتا ہے ۔ اس کا باپ تین برس پہلے شمال مغرب میں کام کی غرض سے گیا تھا اور کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ شاید اب تک اس کو کسی ریچھ یا بھیڑیے نے کھا لیا ہوگا۔ آپ کا طبقاتی شعور کدھر ہے ڈائریکٹر لیو؟‘‘آخری جملہ اس نے ذرا دھیمے لہجے میں کہا۔
ڈائریکٹر کے جھنجھوڑنے کی وجہ سے خئی ہائے کو چکر آ رہے تھے ۔ اسے ڈائریکٹر کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی طبیعت مزید خراب ہو گئی تھی ۔۔ اس کی سوتیلی ماں میں سے بھی ایسی ہی بو آتی تھی، جب سے اس کا باپ غائب ہو اتھا۔ اس کی سوتیلی ماں اکثر اس کو دوکان پربھیج کر خشک اروی کے بدلے شراب منگواتی۔ وہ تب تک شراب پیتی رہتی جب تک مدہوش نہ ہو جاتی اور مدہوشی کی حالت میں وہ خئی ہائے کو مارتی پیٹتی تھی۔
’’ایک کمزور بند ر! ‘‘ ڈائریکٹر نے تھوکتے ہوئے کہا اور پھر دوسروں کو سمجھانا شروع کر دیا۔
ہاتھ میں ہتھوڑا لیے خئی ہائے سیلابی دروازے پر دوڑنے لگا۔ سیلابی دروازہ سو میٹر سے زیادہ چوڑا اور درجن بھر میٹر اونچا تھا۔دروازے کے سامنے اسی لمبائی کا ایک پانی کا تالاب بھی تھا۔ لڑکا پتھر کی دیوار کے سہارے سیلابی دروازے پر کھڑا ہو گیااور پانی میں پتھر کے درمیا ن چھوٹی کالی مچھلیوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ اسی دوران اس نے اچانک پتھر کی دیوار پر ضرب لگائی جس سے دیوار اور ہتھوڑا گھنٹی کی طرح بجنے لگے ۔ اس آواز کو سنتے سنتے وہ ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔ دریا کے بند کے پار پٹ سن کے کھیت پر سورج کی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ وہ پودوں کے درمیان دھند کودیکھ سکتا تھا۔ کھیت اتنے گہرے تھے کہ پودوں کی شاخیں اور پتے ایک دوسرے سے بغل گیرہوتے دکھائی دیتے تھے۔ اس کے بعد وہ مغرب کی جانب دیکھنے لگا جہاں شکر قندی کے کھیت تھے اور ان کے پتے چمک رہے تھے۔ خئی ہائے جانتا تھا کہ یہ ایک نئی قسم کی شکرقندی ہے جس کی جسامت بڑی ہے اور مقابلتاً زیادہ میٹھی ہے۔ ان کی جلد سفید ہے اور گودہ سرخ ۔ شکر قندی کے کھیت کے شمال میں سبزی کا کھیت تھا۔ اب یہ ساری زمین کمیون کی ملکیت تھی اور پیداوار ی گروہ یہاں سبزیاں اگاتا تھا۔ خئی ہائے کو معلوم تھا کہ یہ سارے کھیت پانچ لی (اڑھائی کلومیٹر) کی مسافت پر واقع ایک گاؤں کا حصہ ہیں۔ یہ ایک امیر گاؤں تھا۔ سبزیوں کے کھیت میں گوبھی اور گاجر اگائی گئی تھیں۔ جن کے پتے گہرے سبز تھے ۔ انہی کھیتوں کے درمیان ایک دو کمروں پر مشتمل کوارٹر تھا۔ جس میں ایک بوڑھا اکیلا رہتا تھا۔ لڑکا یہ سب جانتا تھا۔ کھیتوں کے شمال میں جہاں بھی نگاہ جاتی تھی ۔ وہاں پٹ سن کے کھیت تھے۔ مغرب کی جانب بھی ایسا ہی تھا۔ تین اطراف میں پٹ سن کے کھیت اور ایک جانب دریا کا بند اور ان کے درمیان مربع شکل کے کھیت ایک کنویں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔
ڈائریکٹر لیو ابھی تک مزدوروں کو بھاشن دے رہا تھا۔ اس نے کہا ’’اگر تا چائے کمیون ماڈل ‘‘ کی پیروی کرتے ہوئے زراعت کو ترقی دینی ہے تو جان لو کہ آبی نظام اس کی شہ رگ ہے ۔ اس کے بغیر زراعت ایسے ہی ہے جیسے بن ماں کا بچہ ۔ پھر زراعت کا وہی حال ہوگا جو اس کے بچے کا ہے۔ (اس نے خئی ہائے کی طرف اشارہ کیا) مزید یہ کہ سیلابی دروازہ بہت تنگ ہے جس کی وجہ سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے ۔ اسی لیے کمیٹی نے جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ دروازے کو کشادہ کیا جائے ۔ اسی لیے ہم نے کل ملا کر 200مزدوروں کو اکٹھا کیا ہے ۔ یہ پہلا مرحلہ ہے۔ لڑکیاں، عورتیں، بوڑھے، جوان سب بشمول یہ چھوٹا بندر (اس نے ایک بار پھر خئی ہائے کی طرف اشارہ کیا) پانچ سو مربع میٹر کے اندر پتھروں کو توڑیں گے پھر مستری ان پتھروں کو مناسب شکل میں ڈھالیں گے۔ یہ دو لوہاراوزارو ں کی مرمت کریں گے۔ (اس نے دو سیاہ رنگت والے آدمیوں کی طرف اشارہ کیا۔ ایک دراز قد اور بوڑھا تھا جبکہ دوسرا پست قامت اور جوان تھا) جو لوگ قریب رہتے ہیں وہ اپنے گھر جا کر کھانا کھائیں گے اور جو دور سے آئے ہیں وہ قریبی گاؤں کے عوامی باورچی خانے میں کھانا کھائیں گے۔یہی ترتیب رات کو سونے کے لیے بھی ہے۔ جو لوگ دور سے آئے ہیں وہ پل کے دہانے پر سوئیں گے ۔ عورتیں مشرق سے مغرب کی جانب اور مرد مغرب سے مشرق کی جانب ۔ بستر کی جگہ زمین پر گھاس پھوس پھیلایا جائے گا جو تم جیسوں کے لیے کسی گدے سے کم نہیں۔ ‘‘
’’کیا تم بھی پل کے نیچے رات بسر کرو گے ڈائریکٹر؟‘‘
’’میں یہاں انچارج ہو ں ۔ میرے پاس سائیکل ہے اور تمھارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ میں کہاں رات بسر کروں گا ۔ کیا سپاہیوں کو اس لیے گھوڑے پر بٹھا دیں کہ افسر کو بھی میسر ہے؟اب دفع ہو جاؤاور اپنے کام پر دھیان دو۔ سب کو معاوضہ ملے گا اور جو کام نہیں کرنا چاہتا وہ دفع ہو جائے۔ اس چھوٹے بندر کو بھی معاوضہ اور راشن ملے گا۔ ‘‘
خئی ہائے کچھ نہ سمجھ سکا کہ ڈائریکٹر نے کیا کہا ہے ۔ اس کا سارا دھیان پرندوں کی چہچہاہٹ اور پٹ سن کے کھیتوں میں سے آنے والی کیڑوں کی آواز پر تھا۔ گھاس کا ٹڈا اپنی ٹانگیں پروں پر مسل رہا تھا۔ اس کی آواز ایسے تھی جیسے ٹرین پل پر سے گزر رہی ہو۔ اس نے ایک بار خواب میں ٹرین دیکھی تھی۔ گھوڑے سے بھی تیز جیسے کوئی ایک آنکھ والی بلا دوڑ رہی ہو۔ کیسا لگتا اگر ٹرین عمودی حالت میں دوڑتی۔ وہ ابھی خواب دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کی سوتیلی ماں نے جھاڑو کے وار سے اسے اٹھا دیا۔ اس نے اسے حکم دیا کہ دریا سے پانی بھر کر لائے۔ اس نے اپنے کندھے پر بانس رکھ کر اس کے دونو ں سروں پر بالٹیوں کولٹکایا ہوا تھا۔ اس کی پسلیاں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔ وہ ہڈیوں کی آواز سن سکتا تھا۔ دریا سے واپسی پر بالٹیاں بید کے درخت سے ٹکرا کرگر گئیں۔ ان کے پانی سے ڈھلوان پر پھسلن ہو گئی اور خئی ہائے منہ کے بل جا گرا۔اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھاجسے وہ نگل گیا ۔
’’خئی ہائے!‘‘
’’خئی ہائے!‘‘
آواز سنتے ہی وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آگیا۔ مچھلیاں غائب ہو چکی تھیں۔ اس کے ہاتھ سے ہتھوڑاپھسل کر نیچے کائی زدہ پانی میں جا گرا۔
ڈائریکٹر لیو نے دروازے پر چڑھ کر خئی ہائے کو کان سے پکڑا اور چلایا ’’پتا نہیں کس دنیا میں گم رہتے ہو۔ جاؤاور جاکر پتھر توڑو۔ شاید کوئی عورت ترس کھاکر تمھیں اپنا بیٹا بنا لے ۔ ‘‘
مستری بھی وہاں آ چکا تھا۔ اس نے لڑکے کے سر کو سہلایا۔’’جاؤــ‘‘ اس نے کہا’’اپنا ہتھوڑا ڈھونڈ کر پتھر توڑو،اس کے بعد تم کھیل سکتے ہو۔ ‘‘
’’اگر تم نے کام چوری کی تو تمھارے کان کاٹ کر کھا جاؤں گا۔ ‘‘ ڈائریکٹر لیو نے دھمکی لگائی۔
خئی ہائے کانپ اٹھا، وہ وہاں سے چل کر پل کے نیچے ستونوں سے لٹک گیا ۔
’’تم خود کو مار لو گے ‘‘ مستری نے خبردار کر دینے والے انداز میں آواز لگائی اور نیچے جھک کر لڑکے کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی لیکن خئی ہائے اس کی طرف دھیان دیے بغیر ایک ڈنڈے کے سہارے چھپکلی کی طرح نیچے کی طرف پھسلتا ہوا چلا گیا۔ اس نے اپنا ہتھوڑا اٹھایا اور پل کے نیچے غائب ہو گیا۔
’’کمبخت بندر ! ‘‘ ڈائریکٹر نے اپنی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا۔
جب خئی ہائے پتھر توڑنے والی جگہ پر پہنچا تو عورتیں ہنس بول رہی تھیں اور واہیات لطیفوں سے محظوظ ہو رہی تھیں۔ جیسے ہی وہ پہنچا عورتوں کو سانپ سونگھ گیا۔ کچھ لمحوں بعد انہوں نے کھسر پھسر شروع کر دی ۔تاہم جلد ہی خئی ہائے کی لاپرواہی دیکھ کر ان کی آوازیںدوبارہ بلند ہو گئیں۔
’’اس بیچارے کو دیکھو اتنی سردی میں ننگ دھڑنگ گھوم رہا ہے۔ ‘‘
’’کوئی ماں سوتیلے بچے کو پیار نہیں کرتی ۔ ‘‘
’’میں نے سنا ہے کہ وہ گھر پر— تم تو جانتے ہی ہو—‘‘
خئی ہائے نے ان کی جانب کوئی دھیان نہ دیا اور دریا کی جانب دیکھنے لگا۔ دریا کی سطح کہیں پر سرخ تھی تو کہیں پر زرد ۔ اس کے جنوبی کنارے پر بیدکے درختوں پر بھنبھیریاں اپنے پر پھڑ پھڑا رہی تھیں۔
ایک نوجوان لڑکی جس نے ارغوانی رومال باندھا ہو اتھا۔ اس کے عقب میں آئی اور نرمی سے پوچھا ’’بیٹا تمھارا گاؤں کدھر ہے؟‘‘
خئی ہائے نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا ۔ اس کے بالائی ہونٹ پر گرد جمی تھی اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں نیندسے بوجھل تھیں۔
’’تمھارا نام کیاہے بچے ؟‘‘
خئی ہائے ریت سے کھیل رہا تھا۔
اسے کھیلتا دیکھ کر وہ ہنس دی۔ ’’تم تو بہت قابل ہو کالے بچے، تمھارے پاؤں گھوڑے کی طرح ہیں۔ تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟‘‘اس نے خئی ہائے کے کندھے کوہلایا ۔ ’’کیا تمھیں سنائی دے رہا ہے ؟میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔‘‘
خئی ہائے نے اپنی پشت پر کندھے کے نیچے زخم پر اس کی انگلیو ں کو محسوس کیا۔
’’او میرے خدا! یہ زخم کیسے لگا؟‘‘
اس کے کان پھڑکنے لگے، جس کی وجہ سے لڑکی کا دھیان اس کے کانوں کی طرف ہو گیا۔
’’تو تم اپنے کان ہلا سکتے ہو بالکل ایک خرگوش کی طرح۔ ‘‘
اب وہ اس کے کانو ں کو چھو رہی تھی۔
’’مجھے ان زخموں کے بارے میں بتاؤکیا تمھیں کتے نے کاٹاـ؟ یا گرم پانی ؟ یا درخت پرچڑھتے ہوئے زخمی ہوئے؟‘‘اس نے خئی ہائے کو اپنی طرف موڑ کر پوچھا۔
وہ اس کی ٹھوڑی کو گھورنے لگا۔
’’کیا تم اسے گود لینے لگی ہو جوزی؟‘‘
ایک بھاری بھرکم اور گول چہرے والی عورت نے چلا کر پوچھا ۔
خئی ہائے آنکھیں گھما کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ ’’میرا نام جوزی ہے۔‘‘ اس نے اسے بتایا ۔ ’’میں دس لی دور ایک گاؤں میں رہتی ہوں۔ اگر تم بات کرنا چاہو تو مجھے آپا جوزی کہہ سکتے ہو۔‘‘
’’کیا تمھیں شوہر چاہیے جوزی ؟ لگتا ہے مل گیا ۔ لیکن اس کے ساتھ سونے کے لیے ابھی تمھیں کچھ سال انتظار کرنا ہوگا۔ ‘‘ ایک اور عورت نے کہا ۔
’’بڑھیا تم ہمیشہ بکواس ہی کرتی ہو۔ ‘‘ جوزی نے غصے سے کہا ۔ وہ خئی ہائے کو توڑنے والے پتھروں کے ڈھیر کے پاس لے گئی اور اسے ایک چپٹے پتھر پر بٹھا دیا۔
خئی ہائے کی آنکھیں پتھرو ں پر گڑی ہوئی تھیں۔ لیکن جلد ہی اس کی توجہ دریا کی جانب ہو گئی جہاں سے عجیب وغریب آوازیں آرہی تھیں۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ وہ پتھر توڑ رہا ہے ۔ اس نے دیکھا کہ دریا کے اوپر ایک سفید بادل آیا ہوا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اس بے دھیانی میں اس نے ہتھوڑے سے اپنی شہادت کی انگلی زخمی کر ڈالی۔ اس کا ناخن ٹوٹ چکا تھا اور پتھروں پر خون بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ سے درد بھری آہ نکلی ۔
’’کیا تمھاری انگلی ٹوٹ گئی ہے ؟‘‘ جوزی تیزی سے آئی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔ ’’دیکھو یہ کیا کیا تم نے، ایسے کون کرتا ہے ، پتا نہیں کن خیالوں میں گم رہتے ہو۔‘‘
جب وہ اسے ڈانٹ رہی تھی تو اس نے ایک مٹھی میں مٹی اٹھائی اور زخمی انگلی پر ڈال دی ۔
’’کیا تم پاگل ہو گئے ہوئے خئی ہائے؟ ‘‘ وہ اسے کھینچ کر دریا تک لے گئی۔ ’’مٹی میں جراثیم ہوتے ہیں۔‘‘ وہ دریا کے کنارے جھک کربیٹھ گئی اور لڑکی نے اس کی زخمی انگلی پانی میں ڈبو دی۔ پانی میں اس کا ناخن ایک ٹوٹے ہوئے موتی کی طرح نظر آ رہا تھا۔
’’کیا تمھیں درد ہو رہا ہے؟‘‘
اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ دریا کی تہہ میں شرنک مچھلیوں کو گھو ررہا تھا۔
لڑکی نے ایک رومال نکالا جس پر کڑاھی کر کے ایک پھول بنایا گیا تھا اور اسے خئی ہائے کی زخمی انگلی پرلپیٹ دیا ہو، اسے واپس پتھروں کے ڈھیر کے پاس لے گئی ۔ ’’یہاں بیٹھو اور آرام کرو کوئی تمھیں تنگ نہیں کرے گا۔ ‘‘
خئی ہائے خاموشی سے بیٹھ گیا اور رومال پر بنے سرخ پھول کو دیکھنے لگا۔ اس کا خون رومال پر اس طرح پھیل گیا جیسے کہ ایک اور پھول بن گیا ہو۔ اس نے اپنے دانتوں سے رومال کھول دیا اور پھر سے زخم پر مٹی ڈال دی۔ جوزی کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ اس نے پھر سے رومال کو انگلی پرلپیٹ لیا۔ جوزی نے پھر سے پتھروں کو توڑنا شروع کر دیا۔ ہتھوڑے کی ضرب سے پتھروں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں جنہیں سورج کی موجودگی کے باوجود بھی دیکھا جا سکتا تھا۔
دوپہر کو ڈائریکٹر اپنی سائیکل پر سوار ہو کر آیا اور سیٹی بجا کر کھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔ لڑکی اور خئی ہائے کے علاوہ سب کھانے کے لیے دوڑے۔
’’تمھارا گھر کتنا دور ہے خئی ہائے ؟ـ‘‘
خئی ہائے نے اسے نظر انداز کیا اوراپنا سر دائیں بائیں گھمانے لگا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ جوزی نے بھی سر گھمانا شروع کر دیا۔ اس دوران اس کی آنکھیں کچھ لمحے کے لیے سامنے کھڑے مستری سے چار ہوئیں۔
’’کھانے کا وقت ہو گیا ہے خئی ہائے۔ ‘‘ مستری نے آوا ز لگائی ۔ ‘‘چلو گھر چلتے ہیں بدقسمتی سے ہم یہاں کھانا نہیں کھا سکتے ‘‘
’’تم دونوں ایک ہی گاؤں سے ہو؟‘‘ لڑکی نے مستری سے پوچھا ۔
فرطِ جذبات سے اٹکتے ہوئے اس نے اپنے گاؤں کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ وہ اور خئی ہائے ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کافی دیر تک گرم جوشی سے بات چیت کرتے رہے ۔
وہ تینوں وہاںسے چل دیے ۔ خئی ہائے کی رفتار ذرا دھیمی تھی ۔جب وہ پل کے پاس پہنچے تو ڈائریکٹر لیو بھی سائیکل پر سوار وہاں آگیا۔ پل اتنا تنگ تھا کہ اسے سائیکل سے اتر کر گزرناپڑا۔
’’تم کہاں آوارہ گردی کر رہے ہو چھوٹے بندر؟ تمھارے پنجے کو کیا ہوا؟‘‘ ڈائریکٹر نے پوچھا۔
’’یہ سب ہتھوڑے کا کمال ہے ۔‘‘ مستری نے بتایا۔
’’ کمبخت ! سنو مستری، اپنے گروہ کے لیڈر کو کہو کہ اس کی جگہ کسی اور کو بھیجے ۔ اگر یہ یہاں مارا گیا تو میں ذمہ دار نہ ہوں گا۔ ‘‘
’’یہ زخم کام کے دوران ہو اہے ۔ ‘‘ لڑکی نے شکایت کرتے ہوئے کہا ۔ ’’تم ایسا نہیں کر سکتے ۔ ‘‘
’’ ہم ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہیں۔ ڈائریکٹر لیو‘‘ مستری نے کہا۔ ’’اتنے بڑے منصوبے کے لیے ایک بچے کی ضرورت کیو ں ہے ؟زخمی ہاتھ سے وہ کیسے کام کرے گا؟‘‘
’’ بھاڑ میں جاؤ بندر ‘‘ ڈائریکٹر نے جھنجھلا کر کہا ۔ ’’میں تمھیں کوئی اور کام دیتا ہوں۔ میرے خیال سے تم دھونکنی چلا کر لوہار کی مدد کر سکتے ہو۔ کیا تم یہ کر پاؤگے؟‘‘
لڑکے نے سوالیہ نگاہوں سے مستری اور لڑکی کو دیکھا ۔ ’’بتاؤکیا تم کر لو گے ؟‘‘لیو نے پھر پوچھا ۔ ’’جوزی نے اثبات میں سر ہلا کر خئی ہائے کی طرف سے رضا مندی کا اظہار کیا۔
باب دوم
خئی ہائے کو دھونکنی چلاتے ہوئے پانچ رو ز ہو چکے تھے اور اس کی جلد پر دھوئیں کی تہہ جم چکی تھی۔ صرف اس کے دانت اور آنکھیں سفید دکھائی دیتی تھیں اور اس کی آنکھیں مزید واضح ہو چکی تھیں۔ جو بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتا اس کا دل زخمی ہو جاتا۔ اب ہر کوئی اسے کالا بچہ کہہ کر پکارتا تھا۔ لیکن وہ ہر کسی کو نظر انداز کر دیا کرتا۔ وہ صرف جوزی یا مستری کی باتوں کا اپنی آنکھوں سے جواب دیتا۔ ایک رو ز پہلے کھانے کے وقفے کے دوران لوہار کی ہتھوڑی اور سٹیل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی بالٹی چوری ہو گئی ۔ ڈائریکٹر لیو نے سیلابی دروازے پر کھڑے ہو کر آدھے گھنٹے تک بھاشن دیا اور اس کے بعد خئی ہائے کے ذمے ایک اور کام لگا دیا کہ ہر روز کھانے کے وقفے کے دوران وہ اوزاروں کا دھیان رکھے گا۔ لوہار اس کے لیے وہیں کھانا لے آئے گا۔ اس نے کہا کہ مفت خورے کو بلا معاوضہ کھانا ملے گا۔
خئی ہائے بھاگ کر وہاں چلا گیا جہاں عورتیں پتھر توڑ رہی تھیں ۔ وہ جس چپٹے پتھر پر بیٹھا کرتا تھا وہ اب غائب تھا۔ وہ لا پرواہی سے چلتا ہوا وہاں جا پہنچا جہاں جوزی چھ کناروں والے ہتھوڑے سے کام کر رہی تھی۔ وہ ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور بے چینی سے ہلنے لگا اور بار بار پہلو بدلنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ پل کو سہارا دیے ساتویں ستون کو واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔
دوپہر ہوتے ہی وہ بھاگ کر سیلابی دروازے کے پاس چلا گیا اور مغربی دہانے کے ساتھ اکڑوں بیٹھ گیا ۔ وہ بغور معائنہ کر رہا تھا کہ تمام اوزار موجود ہیں یا نہیں، جیسے ہی مزدوروں کے آنے کا وقت قریب ہو ا،اس نے بیلچے سے بھٹی میں کوئلہ ڈال کر دھونکنی سے ہوا دینا شروع کردی۔ دھویں کی وجہ سے وہ مسلسل اپنی آنکھیں مسل رہا تھا۔ اسی دوران وہاںایک نوجوان لوہار آ گیا۔ اس کے چہرے پر موہاسے تھے اورناک چپٹی تھی ۔ اس نے آتے ہی خئی ہائے کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ’’یہاں سے دفع ہو جاؤاور جا کر پتھر توڑو۔‘‘ خئی ہائے اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا جبکہ وہ پھر سے بھٹی کوجلانے کے لیے کام کرنے لگا۔ اس نے گند م کے پودوں کی باقیات بھٹی میں ٹھونس دی ۔ آگ لگائی اور دھونکنی سے ہوا دینے لگا۔ اس نے دھونکنی کو روکے بغیر بیلچے سے گیلے کوئلے کی ایک تہہ بھٹی میں ڈال دی۔ اس کے بعد وہ مسلسل کوئلہ ڈالتا رہا جس سے کافی بڑی آگ دہک اٹھی ۔
خئی ہائے نے خوشی سے چیخ ماری۔
’’بد بخت تم ابھی ادھر ہی ہو ؟‘‘
’’اسی دوران بوڑھا لوہار وہاں داخل ہوا۔ مجھے لگا تھا اب تک آگ تیار ہوگی۔ ‘‘وہ نوجوان لوہار سے مخاطب ہوا۔ ’’تم نے یہ دوبارہ کیوں جلائی ہے ؟‘‘ اس کی آوا ز بیٹھی ہوئی اور لفظ ٹوٹے پھوٹے معلوم ہوتے تھے جیسے کہ وہ بولنے کے لیے بہت زیادہ زور لگا رہا ہو۔
’’یہ اس چھوٹے شیطان کا کام ہے ۔ ‘‘ اس نے بیلچے سے خئی ہائے کی طرف اشارہ کیا۔
’’اسے دھونکنی چلانے دو۔‘‘ بوڑھے نے حکم دیا۔ اس نے اپنی کمر اور ٹخنوں کے گرد حفاظتی کپڑا باندھا جس میں جگہ جگہ سوراخ تھے۔
’’اسے دھونکنی چلانے دو اور تم ہتھوڑے پر دھیان دو۔ اس طرح تم مزید مشقت سے بچ جاؤگے ۔ ‘‘
’’ بھٹی اسے جلا کر راکھ کر دے گی۔ ‘‘ نوجوان لوہار غصے سے بڑ بڑایا۔
ڈائریکٹر لیو شدید غصے کی حالت میں وہاں داخل ہوا۔ ’’اب کیا مسئلہ ہے ؟ تم نے ہی کہا تھا کہ دھونکنی کے لیے معاون کی ضرورت ہے؟‘‘
’’چاہیے پر ایسا نہیں ! اسے دیکھو ڈائریکٹر صاحب یہ اتنا کمزور ہے کہ بیلچہ بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اسے یہاں بھیجنا ایسے ہی ہے کہ دسترخوان کو بھرنے کے لیے باسی کھانا رکھ دیا جائے ۔ ‘‘
’’میں خوب سمجھتا ہوں کہ تمھارے شیطانی دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔ تمھیں لگا تھا کہ میں یہاں کسی خوبصورت لڑکی کو مدد کے لیے بھیجوں گا۔ مجھے پتا ہے تمھاری نظریں ارغوانی رومال والی لڑکی پر ہیں۔ اپنی اوقات میں رہو ! —خئی ہائے دھونکنی چلاتے رہو۔‘‘ پھر وہ لوہار سے مخاطب ہوا۔ ’’جیسے تیسے اسے کام سکھاؤ۔‘‘
کچھ دیر بعد وہاں مستری اور جوزی آ گئے ۔ مستری نے مرمت کی غرض سے لائی گئی چھینی وہاں رکھ دی ۔جوزی نے اپنا رومال گردن کے گرد لپیٹا ہوا تھا جس سے اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہورہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی نوجوان لوہارکی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگے۔ اس کی آنکھیں بھی خئی ہائے کی طرح بڑی بڑی تھیں لیکن وہ صرف بائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کا سر ذرا دائیں جانب جھکا رہتا تھا۔ وہ اپنی بائیں آنکھ سے جوزی کے گلابی چہرے کو تک رہا تھا۔
بھٹی میں سے اٹھنے والا کالا دھواں پل کو چھورہا تھا۔ دھویں کی وجہ سے خئی ہائے کھانسنے لگا۔ بوڑھے نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر چمڑے کی تھیلی میں سے بیڑی نکالی ۔ بھٹی کی آگ سے اسے سلگایا اور کش لگانے لگا۔ بیڑی کا سفید دھواں بھٹی کے کالے دھویں میں شامل ہو گیا۔ اس نے مستری اور جوزی پر طائرانہ نظر ڈالی اور پھر خئی ہائے سے مخاطب ہوا ’’کوئلہ اتنا زیادہ نہیں ہے لیکن آگ ٹھیک ہے۔‘‘
لڑکا دیوانہ وار دھونکنی چلا رہا تھا۔ اس کے سینے پر پسینے میں آگ کا عکس نظر آ رہا تھا ۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا جیسے کہ کوئی چوہا پنجرے سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ’’دھیمی رفتار سے چلاؤ‘‘ بوڑھے نے کہا۔
خئی ہائے کے زیریں ہونٹ پر خون دیکھ کر جوزی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’خئی ہائے ‘‘وہ چلائی۔ ’’یہ کام چھوڑو اور میرے ساتھ پتھر توڑو‘‘ وہ بھٹی کے قریب آگئی اور اسے بازؤں سے پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کرنے لگی ۔ اس نے پوری قوت سے اپنے بازو چھڑائے اور بھوکے کتے کی طرح غرانے لگا۔ اس کا وزن اتنا کم تھا کہ جوزی اسے بآسانی باہر کی جانب گھسیٹ لائی ۔ وہ پتھریلی زمین پر اپنے پاؤں رگڑ رہا تھا۔
’’خئی ہائے ‘‘ وہ اسے زمین پر بٹھا کر مخاطب ہوئی ۔ ’’ادھر کام مت کرو۔ اتنا دھواں تمھارے لیے اچھا نہیں۔ کمزوری سے تم بالکل سوکھ چکے ہو۔ میرے ساتھ آؤپتھر توڑنا آسان کام ہے ۔ ‘‘ اس نے اسے پھر سے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔ اس کے ہاتھ نرم اور مضبوط تھے ۔خئی ہائے نے پھر سے پتھریلی زمین پر پاؤں رگڑنا شروع کر دیے۔ ’’بس کرو بے وقوف لڑکے ۔‘‘ وہ ٹھہر کر بولی ’’میرے ساتھ چلو ‘‘ خئی ہائے نے اچانک اسکی کلائی پر اپنے دانت گاڑ دیے اور بھاگ کر پل کے نیچے چلا گیا۔
اس کے تیز دھار دانتوں نے جوزی کی کلائی پر دو سوراخ کر دیے تھے جن سے خون رس رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر مستری وہاں دوڑکر آیا اور ایک سلوٹ زدہ رومال اس کی کلائی پرباندھ دیا۔ جوزی نے مستری کو دیکھے بغیر اسے ہاتھ کے اشارے سے پیچھے کیا اور زمین سے مٹی اٹھا کر زخم پر ڈال دی۔
’’اس میں جراثیم ہیں۔ ‘‘ مستری حیران ہو کر چلایا۔
وہ مڑی اور پتھروں کے ڈھیر کے پاس بیٹھ کر دریا کی لہروں کو تکنے لگی۔ وہاں موجود عورتیں کھسر پھسر کرنے لگیں۔
’’یہ لو ، ایک اور گئی کام سے ۔ ‘‘
’’لگتا ہے خئی ہائے نے اس پر کالا جادو کروا دیا ہے ۔ ‘‘
’’ذرا ادھر آؤچھوٹے شیطان‘‘ مستری چلاتا ہو اپل کی جانب چل دیا۔ ’’ایک رحمدل انسان کو کاٹتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آئی؟‘‘
عین اسی وقت کسی نے مستری کے چہرے پر گرم اور آلودہ پانی پھینک دیا۔ اتفاق سے وہ وہیں کھڑا تھا جہاں پانی پھینکا گیا تھا وہ سر تا پاؤں بھیگ چکا تھا۔
’’کیا تم اندھے ہو؟‘‘ وہ چلایا’’ جس نے بھی یہ کیا ہے سامنے آئے۔‘‘
کوئی جواب نہ آیا۔ بوڑھا لوہار ایک گرم چھینی پر ہتھوڑے برسا رہا تھا جس کی وجہ سے چنگاریاں پیدا ہو رہی تھیں۔ اس نے چھینی کو سندان[4] پر رکھ کر اس کے کنارے بنانا شروع کر دیے۔ اس نے چھینی کو ایک شکنجے سے پکڑا ہوا تھا۔ کانا لوہار اس کی مدد کر رہا تھا۔
’’پانی کس نے پھینکا تھا؟‘‘ مستری نوجوان لوہار کی طرف دیکھ کر چلایا۔
’’میں نے ، کیا کر لوگے ؟‘‘ لوہارنے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیا تم اندھے ہو ؟‘‘
’’صرف ایک آنکھ سے۔ جیسے ہی میں نے پانی پھینکا تم اندر چلے آئے۔ تمھاری قسمت ‘‘
’’یہ کیابکواس ہے ؟ ‘‘
’’آج کل جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ اس نے اپنے بازوؤں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’پھر دو دو ہاتھ ہو جائیں کانے شیطان۔ تمھاری دوسری آنکھ کا بھی کام تمام کرتا ہوں۔ ‘‘ مستری نے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔ لوہار نے یہ سنتے ہی مستری سے لڑنا شروع کر دیا۔ بوڑھے لوہار نے لاپرواہی سے دیکھا اور گانا گانے لگا۔ گانا گاتے گاتے وہ وہاں سے غائب ہو گیا۔
تین دن پہلے بوڑھا لوہار چھٹی لے کرگھر چلا گیا تھا۔ جب وہ پاس آیا تواپنے ساتھ پیوند شدہ کپڑے اور بسترلے کر آیا۔وہ کہتا تھا کہ بڑھاپے میں ٹانگوں کا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے، اسی لیے وہ روزانہ گھر نہیں جا تا۔ وہ اپنا بستر بھٹی کے قریب لگائے گا تاکہ رات کو ٹھنڈ نہ لگے۔ بوڑھے کی غیر موجودگی میں نوجوان لوہار وہاں کا مالک تھا۔ اس صبح جب وہ کام پر آیا تو اس نے اعلان کیا کہ ’’آگ جلاؤخئی ہائے ۔ بوڑھا جا چکا ہے اور اب ہم مزے کریں گے ۔ ‘‘
خئی ہائے اسے گھورنے لگا۔
’’کیا دیکھ رہے ہو شیطان ؟ تمھیں لگتا ہے کہ مجھے کام نہیں آتا؟ میں تین سال سے بوڑھے کے ساتھ ہوں اور سارے داؤپیچ جانتا ہوں۔‘‘
خئی ہائے نے بے دلی سے آگ جلانا شروع کی جبکہ نوجوان لوہار گنگناتا رہا ۔ اس نے سٹیل کے ٹکڑے بھٹی میں ڈالنا شروع کر دیے ۔ آگ کے شعلوں کے عکس سے خئی ہائے کا چہرہ سرخ نظر آ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر لوہار ہنسنے لگا’’تمھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ سرخ فوج کے سپاہی ہو ‘‘ وہ چلا کر بولا۔
لڑکے نے اور زور سے دھونکنی کو چلانا شروع کر دیا۔
’’تمھاری وہ چالاک سوتیلی ماں تم سے ملنے کیوں نہیں آئی؟ شاید وہ تم پر غصہ ہے کیونکہ تم نے اسے کاٹ لیا تھا۔ ویسے اس کے بازو کا ذائقہ کیسا تھا؟ کڑوا یا میٹھا؟ تم بہت چالاک ہو۔ اگر اس کا بازو میرے ہاتھ میں آ جائے تو کھیرا سمجھ کر کھا جاؤں۔‘‘
خئی ہائے نے شکنجے کی مدد سے دہکتے ہوئے سٹیل کے ٹکڑوں کو اٹھا کر سندان پر رکھ دیا۔
’’تم سیکھ رہے ہو لڑکے!‘‘ لوہار نے ایک درمیانے درجے کا ہتھوڑا اٹھایا اور سٹیل پر برسانا شروع کر دیا۔
نوجوان لوہار تیزی سے کام کر رہا تھا اور کچھ دیر میں اس نے کافی ساری چھینی بنا ڈالی۔ اس کے بعد وہ فخریہ انداز میں بوڑھے لوہار کی کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگا لی۔ ’’تم نے دیکھا؟ ہم بوڑھے کے بغیر بھی کام کر سکتے ہیں۔‘‘
مستری جو کہ نئی چھینیاں لے گیا تھا پھر سے وہاں آ گیا۔
’’تم کتنی بے کار چھینی بناتے ہو۔ یا تو ان کی نوک ٹوٹ جاتی ہے یا مڑجاتی ہے ۔ ہم نے ان سے پتھر توڑنے ہیں لکڑی نہیں۔ بوڑھے کا انتظار کرو اور ہماری چھینیاں خراب مت کرو۔‘‘ مستری نے تبصرہ کیا۔
اس نے چھینیاں وہیں گرا دیں اور چلا گیا۔ لوہار کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ اس نے چلا کر خئی ہائے کو حکم دیا کہ پھر سے آگ جلا کر چھینیاں بھٹی میں ڈال دے۔ ان کی مرمت کرنے کے بعد وہ خود انہیں کام والی جگہ پر لے گیا۔ ابھی وہ واپس پل کے نیچے آیا ہی تھا کہ مستری اس کے پیچھے وہاں آ گئے اور خراب چھینیاں پھینک کر برا بھلا کہنے لگے۔ ’’تم نے ہماری ناک میں دم کر کے رکھا ہے۔ ایسے کام کرتے ہیں؟ہر چھینی کی نوک ٹوٹ چکی ہے !‘‘
’’بکواس!‘‘لوہار نے کہا۔’’خئی ہائے، پھر سے کام پر لگ جاؤ۔‘‘
خئی ہائے نے کاہلی سے دھونکنی کو چلاناشروع کیا ۔ لوہار مسلسل اسے گالیاں دے رہا تھا لیکن اس نے توجہ نہ دی۔ اس بار اس نے اپنے استاد کی طرح آہستہ آہستہ چھینی کو پانی میں ٹھنڈا کرنے کی بجائے اسے ایک ہی دفعہ میں پانی کی بالٹی میں ڈبو دیا۔ بالٹی سے پانی کے بخارات اڑنے لگے۔ اس کے بعد اس نے جیسے ہی اسے سندان پر رکھ کر ضرب لگائی تو اس کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔ اس نے غصے میں اسے دور اچھال دیا۔
’’جاؤ! اسے اٹھا کر لاؤ۔‘‘ اس نے غراکر کہا۔ خئی ہائے کویوں محسوس ہوا جیسے اس کی ٹانگیں جامد ہو چکی ہیں۔ لوہار نے اسے ایک لات رسید کی اور پھر سے چلایا’’جاؤاور لے کر آؤ۔‘‘
خئی ہائے سرجھکا کر اٹھا اور اس طرف چل دیا ۔ جیسے ہی اس نے چھینی اٹھائی اس کا ہاتھ جل گیا اور چھینی زمین پر گر گئی۔
لوہار نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا ’’میں بتانا بھول گیا کہ یہ ابھی بھی گرم ہے ۔ تمھاری انگلیوں کی تو تکہ بوٹی بن گئی ہے چلو کھاتے ہیں!‘‘
خئی ہائے لوہار کو نظر انداز کرتے ہوئے پل کے نیچے گیا اور اپنا ہاتھ بالٹی میں ڈال دیا۔
’’تم وہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ لوہار چیخا۔ اس نے دیکھا کہ خئی ہائے نے پھر سے چھینی کو اٹھایا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ وہ بلی کی طرح چلا کر بولا’’اسے گر ا دو چھوٹے شیطان!‘‘
خئی ہائے لوہار کے سامنے اکڑوں بیٹھ گیا اور چھینی کو اس کے قدموں میں پھینک دیا۔
’’میری طرف دیکھنا بند کرو حرامی !‘‘ لوہار کانپ رہا تھا۔ اس نے نظریں پھیر لیں۔ خئی ہائے وہاں سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔
وہ سوچ سوچ کر تھک چکا تھا۔ اس کے دماغ میں خیالوں کی بھنبھناہٹ تھی وہ بوڑھے لوہار کے بستر پر جاکر لیٹ گیا اور اس کی جیکٹ پر سر رکھ لیا۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ کوئی اس کے چہرے اور ہاتھوں کو سہلا رہا ہے ۔
’’اٹھوخئی ہائے اور کچھ کھالو۔‘‘ جوزی نے کہا۔
’’یہ لو‘‘ اس نے اپنا رومال کھولتے ہوئے کہا۔ اس میں دو مکئی کی روٹیاں، کھیرے کا ٹکڑا اور سبز پیاز تھی۔
’’چلو اب کھالو‘‘ اس نے اس کی گردن سہلاتے ہوئے کہا۔
کھانا کھاتے ہوئے وہ جوزی کو دیکھتا رہا۔
’’تمھارا ہاتھ کیسے جل گیا؟ کیا یہ اس ایک آنکھ والے اژدھے نے کیا ہے ؟ تم اب مجھ کاٹو گے تونہیں؟ تمھارے دانت بہت تیز ہیں۔‘‘
بچے کے کان پنکھے کی طرح ہلنے لگے۔ اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں روٹی اٹھالی اور دائیں ہاتھ میں پیاز اور کھیرا اور اپنا چہرہ چھپا لیا۔
:::
باب سوم
اس رات گرج چمک کے ساتھ بارش ہوئی۔ اگلی صبح جب مزدور کام کے لیے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ تمام پتھر دھل کر صاف ہو چکے تھے اور ریتلی زمین ہموار ہو چکی تھی۔ تالاب میں پانی دو گنا ہو چکا تھا اور پانی میں کچھ آوارہ بادلوں کا عکس دیکھا جا سکتا تھا۔ خزاں کی ٹھنڈی ہوا پٹ سن کے کھیتوں میں شور پیدا کر رہی تھی اور سردی کی شدت میں اضافہ کر رہی تھی۔ بوڑھے لوہار کی پیوند شدہ جیکٹ کسی ڈھال کی طرح چمک رہی تھی لیکن اس کے بٹن ٹوٹ چکے تھے۔ اسی لیے سردی سے بچنے کے لیے اس نے جیکٹ کی کاج میں بجلی کی تار ڈال کر اسے بند کیا ہوا تھا۔ خئی ہائے ابھی بھی نیکر میں گھوم رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سردی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس کے بال اب کافی بڑھ چکے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے خار پشت کی پیٹھ پر کانٹے اُگے ہوئے ہیں۔ مزدور اب اسے ہمدردی اور تعریف کے انداز میں دیکھتے۔
’’تمھیں سردی نہیں لگتی؟‘‘ بوڑھے لوہار نے پوچھا۔
خئی ہائے نے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے اسے سوال کی سمجھ نہ آئی ہو۔
’’میں پوچھ رہا ہوں تمھیں سردی نہیں لگ رہی ؟‘‘ بوڑھے نے سوال دہرایا ۔خئی ہائے سر جھکا کر بھٹی میں آ گ جلانے لگا ۔ وہ بائیں ہاتھ سے دھونکنی چلا رہا تھا اور دائیں ہاتھ میں بیلچہ پکڑا ہو ا تھا۔ اس کا دھیان جلتے ہوئے گندم کے خوشوں کی طرف تھا ۔ بوڑھے نے اپنے بستر سے میلی کچیلی جیکٹ اٹھائی اورخئی ہائے کی کمر پر ڈال دی۔ خئی ہائے الجھن محسوس کر رہا تھا۔ جیسے ہی بوڑھا وہاں سے گیا اس نے جیکٹ اتار کر بوڑھے کے بستر پر ڈال دی۔ بوڑھا سر ہلاتا ہوا ایک طر ف بیٹھ گیا اور بیڑی پینے لگا۔
’’اب میں سمجھا کہ تم بھٹی کے پاس کیوں بیٹھے رہتے ہو‘‘ بوڑھے نے جماہی لیتے ہوئے کہا۔ ’’اس طرح تم خود کو ٹھنڈ سے بچاتے ہو۔ بہت ہی شاطر ہو تم۔ ‘‘
ڈائریکٹر لیو نے سیٹی بجا کر تمام مزدوروں کو اکٹھا کر لیا۔ وہ سب سیلابی دروازے کے سامنے سوراخ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ ڈائریکٹر نے کہا کہ سردی بڑھ رہی ہے ۔ اس لیے ہمیں کام کا دورانیہ بڑھانا ہے تاکہ درجہ حرارت نقطہ انجماد تک پہنچنے سے پہلے بنیادوں میں کنکریٹ بھر اجا سکے ۔ آج سے کام کے اوقات صبح سات سے رات دس بجے تک ہوں گے۔ اس کے بدلے سب کو روزانہ آدھا کلو اناج اور بیس سکے ملیں گے۔ وہاں دو سو سے زائدمزدور موجود تھے ۔سب کے چہروں پر مختلف تاثرات تھے لیکن کسی نے شکایت نہ کی۔ ان کے چہروں پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔
اس رات کام والی جگہ پر تین، گیس سے جلنے والی روشنیاں لگا دی گئی تھیں۔ ایک روشنی وہاں لگائی گئی جہاں مستری کام کر رہے تھے اور دوسری وہاں جہاں عورتیں پتھر توڑ رہی تھیں۔ اکثر عورتین معمول کے اوقات کے مطابق گھر چلی گئی تھیں۔ کیونکہ انہوں نے گھر پر بچوں کی دیکھ بھال کرنا تھی ۔ وہاں اب بمشکل ایک درجن عورتیں رہ گئی تھیں۔ تیسری روشنی وہاں لگائی گئی تھی جہاں بھٹی تھی۔
جوزی نے اپنا ہتھوڑا رکھا اور دریا کی طرف چہل قدمی شروع کر دی۔ ریتلی زمین پر اس کا لمبا سایہ پڑ رہا تھا۔ ’’احتیاط سے کہیں کوئی کنوارہ تم پر جھپٹ نہ پڑے‘‘ عقب سے ایک عورت نے آواز لگائی ۔ وہ جلد ہی روشنی کے حصار سے نکل گئی۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ خئی ہائے کی خبر لی جائے۔ وہ روشنی سے بچتی ہوئی پل کے پہلے ستون کے پاس جا پہنچی۔
آخر کاراس نے خئی ہائے کو ڈھونڈ لیا۔ وہ کسی بھوت کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا جسم آگ کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ اس کی جلد کسی مضبوط ربڑ کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ وہ پہلے سے صحت مند دکھائی دیتا تھا کیونکہ اب ا س کی جلد اور پسلیوں کے درمیان گوشت چڑھ آیا تھا۔ وہ اسے روزانہ عوامی باورچی خانے سے دوپہر کا کھانا لا کر دیا کرتی تھی۔ خئی ہائے اب شاذ و نادر ہی رات کو گھر واپس جا یا کرتا تھا۔جوزی نے دیکھا کہ وہ تینوں دل جمعی سے کام میں مصروف تھے اور دیوار پر ان کے سائے ناچ رہے تھے ۔ دھاتوں کے ٹکرانے کی آواز آ رہی تھی۔
جوزی نوجوان لوہار کی مہارت دیکھ کر حیران ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی وہ خئی ہائے پر بھی نظر رکھے ہوئے تھی۔ جب دونوں لوہار چھینی کو زندان پر رکھ کر ہتھوڑے برساتے تو خئی ہائے خاموشی سے دیکھتا رہتا۔
جب چھینی بن گئی تو بوڑھے نے اسے پانی میں ڈال دیا۔ اسی دوران اس نے نوجوان لوہار کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ بوڑھا بار بار چھینی کو آنکھوں کے قریب لا کر غور سے دیکھتا جیسے کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے لگا ہو ۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اپنے کام سے مطمئن ہے ۔ جب چھینی تیار ہو گئی تو دوسری چھینی بنانے کے لیے پھر سے یہ عمل دہرانے لگے۔ جیسے ہی بوڑھا دہکتی ہوئی چھینی کو پانی میں ڈالنے لگا ،نوجوان لوہار نے اپنا ہاتھ بالٹی کے منہ پر رکھ دیا۔ بغیر کچھ سوچے بوڑھے نے چھینی نوجوان کی کلائی پر دے ماری جس کی وجہ سے آس پاس گوشت کے جلنے کی بوپھیل گئی۔
نوجوان لوہار درد سے بلبلا اٹھااور چلایا ’’تین سال ہو گئے ہیں استاد!‘‘
بوڑھے نے چھینی کو پانی میں ڈبویاجس سے پانی میں سے بھاپ اٹھنے لگی۔ جوزی کو ان کے چہرے واضح نظر نہیں آ رہے تھے لیکن اس نے بوڑھے کو کہتے ہوئے سنا’’یہ سبق یاد رکھنا!‘‘
جوزی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے الٹے پاؤں دوڑی۔ جیسے ہی وہ پتھر کے ڈھیر کے پاس پہنچی، ایک عورت نے اسے چھیڑا’’تم اتنی دیرسے غائب تھیں۔ کہیں اس لڑکے کے ساتھ پٹ سن کے کھیت میں تو نہیں گئی تھیں ؟‘‘ جوزی نے جواب نہ دیا۔
کام کے اختتام کی سیٹی بجی۔ جوزی تین گھنٹوں سے اپنے خیالوں میں گم تھی۔ ’’کس کے خیالوں میں گم ہو؟ آؤ واپس چلیں۔ ‘‘ عورتوں نے کہا لیکن وہ وہیں بیٹھی انہیں جاتاہوا دیکھتی رہی۔
’’جوزی۔‘‘ نوجوان مستری نے آواز دی۔ ’’تمھاری کزن نے پیغام بھیجا ہے کہ تم رات اس کے گھر گزارو۔ میں تمھیں وہاں چھوڑ آؤں گا۔ ‘‘
’’چھوڑ آؤں گا؟تم کس سے بات کر رہے ہو؟‘‘
’’تم سے ۔تمھارا دھیان کدھر ہے ؟‘‘
’’کس کا دھیان؟‘‘
’’میں تم سے بات کر رہا ہوں‘‘
’’مت کرو۔‘‘
’’چلیں؟‘‘
’’ٹھیک ہے ۔‘‘
پل کے نیچے دریاکا پانی شور کرتا ہو ابہہ رہا تھا ۔ جوزی رک گئی۔ مستری چند قدم پیچھے تھا۔ اس نے یکھاکہ بھٹی کے پاس ابھی بھی ایک روشنی جل رہی تھی جبکہ باقی کی دو بجھا دی گئی تھیں۔ وہ سیلابی دروازے کی طرف چلنا شروع ہو گئی۔
’’خئی ہائے کو ڈھونڈ رہی ہو؟‘‘
’’مجھے اس سے ملنا ہے ۔‘‘
’’آؤساتھ چلتے ہیں۔ چھوٹا شیطان۔ دھیان سے ۔ گر نہ جانا۔‘‘
جوزی کو محسوس ہوا کہ مستری اس کے بالکل پیچھے ہے کیونکہ وہ اس کے سانس لینے کی آوا زسن سکتی تھی ۔ اس نے چلتے چلتے اپنا سر مستری کے کندھے پر رکھ دیا۔ مستری نے اسے پیچھے کی جانب سے گلے لگا لیا اور اپنے ہاتھ اس کی چھاتیوں پر رکھ دیے۔ وہ جوزی کے دل کی تیز دھڑکن محسوس کر سکتا تھا۔ وہ پھر سے دروازے کی جانب چلنے لگے۔ روشنی کے پا س پہنچ کر اس نے مستری کا ہاتھ اپنی چھاتی سے ہٹایا اور آواز لگائی ’’خئی ہائے!‘‘
’’خئی ہائے !‘‘ مستری نے بھی آواز لگائی۔
نوجوان لوہار ان دونوں کو بغور دیکھنے لگا۔ اس کے گال پھڑ پھڑائے۔ بوڑھا لوہار اپنے بستر پر بیٹھا تھا اوراس نے ہاتھ میں بیڑی کو ایسے تھاما ہوا تھا جیسے بندو ق پکڑی ہوئی ہو۔ اس نے دونوں کو ایک نظر دیکھا اور تھکی ہوئی لیکن شفقت بھری آواز میں کہا’’بیٹھ جاؤ، وہ آتا ہی ہوگا۔ ‘‘
ہاتھ میں خالی بالٹی لیے خئی ہائے بند پر چڑھ گیا۔ اس روزجب کام کا اختتام ہوا تھا تو نوجوان لوہار نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا’’خئی ہائے ! میں بھوک سے مر رہا ہوں۔ ایک بالٹی لو اور شمال میں کھیتوں سے شکر قندی اور گاجر لے آؤتاکہ رات کو کھا سکیں۔ ‘‘
خئی ہائے نے نیند بھری آنکھوں سے بوڑھے کی طرف دیکھا جو ایک ہارے ہوئے مرغے کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔
’’کیا دیکھ رہے ہو حرامزادے!‘‘ نوجوان نے حکم دیتے ہوئے کہا’’جیسا کہہ رہا ہوں ویسا کرو۔‘‘
خئی ہائے خالی بالٹی لے کر چلاگیا ۔ جیسے ہی وہ پل کے نیچے سے باہر آیا تو ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اب آسمان کا رنگ بدل چکا تھا کیونکہ اب وہ واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ بند پر دریائی پودوں کی جڑیں اور شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ ہاتھ سے انہیں ہٹاتا ہوا ڈھلوان کے اوپری سرے پر پہنچ گیا۔ اس کے بازو گیلے پتوں کے چھونے کی وجہ سے گیلے ہو چکے تھے اور شاخوں کی کڑوی بُو اسے ناگوار گزر رہی تھی۔ اس کا پاؤں کسی نرم و گرم چیز سے ٹکرایا اور چوں چوں کی آواز آنے لگی۔ یہ ایک تیتر تھا۔ وہ اڑا اور پٹ سن کے کھیت میں جا بیٹھا۔ اس نے سنا کہ جوزی اور مستری اس کا نام پکاررہے ہیں ۔ وہ اندھیرے میں دریا کے بہنے کی آواز اور دور گاؤں میں الو کے بولنے کی آواز بھی سن سکتا تھا۔ اس کی سوتیلی ماں دو چیزوں سے بہت زیادہ ڈرتی تھی : بادلوں کی گرج اور الو کی آواز ۔ وہ دعا کرتا تھا کہ ہر روز بادل گرجیں اور ہر رات اس کی ماں کی کھڑکی میں اُلو بولے ۔ کھیت میں پہنچ کر اس نے بالٹی میں شکر قندی اور چھ گاجریں بھر لیں۔ اس نے ان کے پتے توڑ کر وہیں پھینک دیے ۔ اسی دوران اس کا ٹوٹا ہوا ناخن انگلی سے الگ ہو کر گر گیا۔
’’تم نے خئی ہائے کے ساتھ کیا کیا ؟‘‘ مستری نے نوجوان لوہار سے غصیلے انداز میں پوچھا۔
’’تم کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ کیا وہ تمھارا بیٹا ہے ؟‘‘
’’کہاں ہے وہ ؟‘‘ جوزی نے لوہار کو گھورتے ہوئے پوچھا ۔ ’’صبر کرو۔ وہ شکر قندی لینے گیا ہے ۔ جب وہ آئے گا تو بھون کر کھائیں گے۔ ‘‘ لوہار نے پیار بھرے انداز میں جواب دیا۔
’’تم نے اسے چوری کرنے بھیجا ہے ۔ ؟‘‘
’’کیا مطلب چوری ؟ ہم کون سا گھر لے کرجائیں گے ‘‘ لوہار نے وضاحت پیش کی۔
’’تو تم خود کیوں نہیں گئے پھر ؟‘‘
’’میں اس کا استاد ہوں۔‘‘
’’بکواس!‘‘
’’ایسے تو پھر ایسے ہی سہی ‘‘ لوہار نے کہا۔ اسی دوران خئی ہائے پل کے دہانے پر نظر آیا۔ ’’کہاں چلے گئے تھے تم ؟ البانیہ ؟‘‘
خئی ہائے مڑے ہوئے کندھوں کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے بالٹی اٹھائے آ رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر آ رہا ہے ۔
’’میں نے کہا تھا تھوڑی سی لانا۔ تم تو پوری بالٹی بھر لائے ۔ ‘‘ لوہار نے شکایت کی ۔ ’’جاؤاور تالاب سے گاجریں دھوکر لے آؤ۔‘‘
’’نہیں ‘‘ جوزی نے مداخلت کی ۔ ’’اسے حکم دینا بند کرو ،شکر قندی پکاؤ، میں گاجریں دھو کر لاتی ہوں۔
لوہار نے بھٹی میں آ گ جلاکر وہاں شکر قندی کا ڈھیر لگا دیا۔ جوزی نے گاجریں دھو کر ایک پتھر پر رکھ دیں۔ ایک گاجر نیچے گر گئی۔
’’میں اسے پھر سے دھوکر لاتی ہوں۔ ‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں۔ پانچ بڑی گاجریں کافی ہیں۔‘‘ مستری نے خراب گاجر کو سندان پر رکھتے ہوئے کہا۔ بھُنی ہوئی شکر قندیوں کی مہک ہر طرف پھیل رہی تھی۔ وہ شکنجے سے شکر قندیوں کو پلٹ رہا تھا۔ انہوں نے خوب مزے لے کر شکر قندی اور گاجر کھائی ۔ نوجوان لوہار نے ایک گاجر اور دو شکر قندیاں کھائیں۔ بوڑھے لوہار نے کچھ نہ کھایا اور چپ چاپ بیٹھا رہا۔
’’تم گھر جاؤگے خئی ہائے ؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔ خئی ہائے اپنے ہونٹوں پر لگی شکر قندی کی باقیات پر زبان پھیر رہا تھا۔ اس کے پیٹ سے آواز آئی ’’کیا تمھاری ماں نے دروازہ کھلا رکھا ہوگا؟مستری نے پوچھا تم ادھر ہی گھاس پھوس پرسو سکتے ہو تو گھر کیوں جاتے ہو ؟ ‘‘نوجوان لو ہارنے کہا’’میرے شاگرد بن جاؤ،ہم ساری دنیاکی سیر کریں گے ۔ اچھا کھانا کھائیں گے اور بڑھیا شراب پییں گے!‘‘
اس دوران بوڑھے نے پھر سے وہ ہی گانا گنگنانا شروع کر دیا:
تمھاری محبت تلوار ہے
بن تمھارے زندگی دشوار ہے
چاہے کوئی کچھ بھی کہے
مجھے تم سے پیار ہے
جوزی اور مستری وہاں سے روانہ ہو گئے۔ مستری نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ اس کے گر د لپیٹ کر اس کی چھاتی پر رکھ دیا۔
نوجوان لوہار انگڑائیاں لے رہا تھا۔ اس نے بوڑھے کی ڈکار سن کر ناگواری کا اظہار کیا لیکن جلد ہی اس کا دھیان کسی اور طرف تھا ۔ اس نے مستری کوجوزی کے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھاتھا۔ یہ منظر اس کے دل پر تیر بن کر برس رہا تھا۔ اس کے نتھنوں سے آگ نکل رہی تھی اور وہ مسلسل اپنے دانت پیس رہا تھا۔
خئی ہائے ابھی بھی دھونکنی چلا رہا تھا۔ مٹی میں کچھ کچھ نیلے پیلے شعلے باقی تھے۔ اسی دوران اس کی نظر سندان پر رکھی گاجر پر پڑی۔ اس کی آنکھیں سرچ لائٹ کی طرح گاجر پر اٹک کر رہ گئیں ۔ اسے یہ ایک امرود کی طرح دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کی دم تھی ۔ اس کا ریشہ ریشہ سنہری اون کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ روشنی کی وجہ سے گاجر چمک رہی تھی۔ جیسے ہی خئی ہائے سنہری دکھنے والی گاجر کی جانب بڑھا ،نوجوان لوہار نے بجلی کی سی تیزی سے گاجر اٹھا لی۔ اسی دوران اس کا پاؤں الٹی بالٹی سے ٹکرایا جس سے بوڑھے کا بستر بھیگ گیا ۔ ’’گلی کے کتے ! حرامی ! تم کیا سوچ کر گاجر اٹھا رہے تھے ؟ میرے بد ن میں لگی آگ کو یہ گاجر ہی بجھا سکتی ہے ۔ !’’لوہار نے خئی ہائے کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ جیسے ہی اس نے گاجر کھانے کے لیے منہ کھولا، خئی ہائے نے اچھل کر اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جس سے گاجر دور جاگری ۔ لوہار نے اس کی کمر پر لات رسید کی اور وہ جوزی کے بازوؤں میں جا گرا(اسی دوران جوزی اور مستری واپس آ چکے تھے) مستری نے خئی ہائے کو سہارا دیا۔
بوڑھے لوہار نے گانا بند کیا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔ جوزی اور مستری بھی کھڑے ہو گئے۔ وہ تینوں نوجوان لوہار کو گھور رہے تھے۔ خئی ہائے کا سر چکرا رہا تھا اور اسے ہر چیز گھومتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ نوجوان لوہار گاجر کھا رہاہے۔ اس نے ایک مٹھی میں کوئلہ اٹھایا اور اس کی طرح اچھال دیا جو ا س کے گال کو چھوتا ہوا بوڑھے کے بستر پر جا گرا۔
’’میں تمھیں مار مار کر سیدھا کر دوں گا ‘‘لوہار دھاڑا ’’ہاتھ تو لگا کر دکھاؤ‘‘ مستری نے مداخلت کی۔
’’گاجر واپس کرو ‘‘ جوزی نے کہا۔
’’واپس کردوں؟ کبھی نہیں ۔‘‘ لوہار پل کے نیچے سے بھاگ کر باہر چلا گیا اور پوری قوت سے گاجر کو دور پھینک دیا۔ یہ ہوا میں لہراتی ہوئی دریا میں جا گری ۔
خئی ہائے کی آنکھ میں ایک سنہری دھنک بن گئی اور وہ وہیں لڑکھڑا کر گر گیا۔
……ناولچے کا دوسرا اور آخری حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
چینی ناولچہ
گاجر
مَویان
(Mo Yan)
تعارف و ترجمہ:ریحان اسلام

باب اوّل
خزاں کی ایک صبح ،ہوا بہت زیادہ مرطوب تھی ۔ شبنم کے شفاف قطرے گھاس اور چھتوں کی ٹائلوں پرجمے ہوئے تھے۔ چینی سکالر درخت کے پتے پیلے ہو چکے تھے اور اس درخت کی شاخ سے لٹکی زنگ آلود گھنٹی پر شبنم جمی ہوئی تھی۔ پیداواری گروہ کے سربراہ نے ایک گرم جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ ہاتھ میں مکئی کی روٹی اور سبز پیاز تھامے ہوئے تھا۔ گھنٹی تک پہنچتے پہنچتے وہ سارا کھانا اپنے منہ میں ٹھونس چکا تھا۔ اس نے اپنی پوری قوت سے گھنٹی کوبجایا۔ گھنٹی کی گونج چاروں اطراف میں پھیل گئی۔ بوڑھے اور نوجوان ہر عمرکے لوگ گھنٹی کے نیچے جمع ہو گئے۔ کٹھ پتلیوں کی طرح ان کی نظریں گروہ کے سربراہ پرجمی ہوئی تھیں۔ اس نے زبردستی سارا لقمہ نگل لیا اور اپنی آستینوں سے منہ کو صاف کیا۔ لقمہ حلق سے اترتے ہی اس نے لعن طعن کرنا شروع کر دی۔ ’’اگر کمیون والوں نے ہمارے دو مستریوں اور دوبڑھئیوں کا انتخاب نہ کیا تو میں برباد ہو جاؤں گا۔‘‘ پھر وہ ایک دراز قد اور کشادہ سینے والے نوجوان سے مخاطب ہوا۔ ’’کمیون والوں کو گاؤں کے پیچھے والے دریا کے سیلابی دروازوں کو وسیع کرنے کے لیے مستری اور غیر تربیت یافتہ مزدور چاہیے۔ بہتر ہے کہ تم بھی جاؤ۔‘‘ اس خوبصورت نوجوان مستری کی سیاہ بھنویں اور سفید دانت تھے۔ اسی لیے وہ سب سے الگ دکھائی دے رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے اثبات میں سر ہلایا تو اس کے پیشانی پر بکھرے ہوئے بال پیچھے کی جانب چلے گئے۔ اس نے ہچکچاہٹ سے پوچھا کہ اس کے ساتھ جانے والے غیر تربیت یافتہ مزدورکون ہوں گے ۔ گروہ کے سربراہ نے سردی سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھ سینے پرباندھ لیے اور اپنی آنکھیں دائیں بائیں گھمانا شروع کر دیں۔ ’’عورتیں اس کام کے لیے موزوں ہیں۔ ‘‘ اس نے الجھن کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن ان کے ذمے کپاس چننا ہے اور کسی مرد کو اس کام کے لیے بھیجنے کا مطلب افرادی قوت کو ضائع کرنا ہے ۔ ‘‘ اس نے ہرطرف نظر گھمائی ۔ کونے میں دیوار کے ساتھ ایک دس سالہ بچہ کھڑا تھا۔ وہ ننگے پاؤں اور بغیر قمیض کے تھا۔ اس نے صرف نیکر پہنا ہو ا تھا۔ جس پر گھاس اورخون کے دھبے تھے ۔ نیکر کے نیچے اس کے گھٹنوں پر زخم کے نشان واضح تھے۔ اس کا نام خئی ہائے[1] تھا ۔ ’’خئی ہائے ! نامراد ! تم ابھی تک یہاں ہو۔ ‘‘ گروہ کے سربراہ نے اس کے کمزور جسم کو دیکھتے ہوئے کہا مجھے تو لگا تھا کہ تم اب تک لقمہ اجل بن چکے ہوگے۔ کیا تمھاری کپکپی دور ہوگئی؟‘‘
بچہ کوئی جواب دیے بغیر گروہ کے سربراہ کو گھورتا رہا۔ وہ اتنا کمزور تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی بھی لمحے اس کی گردن اس کے سر کے بوجھ سے ٹوٹ جائے گی۔
’’تو تم کمانا چاہتے ہو؟مجھے نہیں لگتا کہ تم کمبخت کوئی کام کر سکتے ہو۔ تم تو ہوا کے جھونکے سے ہی اڑ جاؤگے۔ تم ایسا کرو کہ مستری کے ساتھ سیلابی دروازے پر جاؤ! بلکہ ایسا کرو کہ گھر جاؤاور ہتھوڑا لے آؤتاکہ تم پتھروں کو توڑ سکو۔ تاریخ گواہ رہے گی کہ کمیون کی طرف سے دیے گئے کام صرف غیر ملکی نقادوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ہیں ۔ ‘‘
یہ سن کر بچہ مستری کے ساتھ جا کھڑا ہو اور اس کو جیکٹ سے پکڑ لیا ۔ مستری نے دوستانہ انداز میں اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔’’گھر جا کر اپنی سوتیلی ما ں سے ایک ہتھوڑا لے آؤ،میں تمھیں پُل کے سرے پر ملوں گا۔ ‘‘
بچے نے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ اتنا کمزور تھا کہ اس کے ہاتھ ہوا میں ایسے لہرا رہے تھے جیسے کھیت میں پرندوں کو ڈرانے والے پتلے کے ہاتھ تیز ہوامیں لہراتے ہیں۔ سب اس کی جانب دیکھ رہے تھے ۔ اس کی برہنہ کمر سردی کی شدت میں اضافہ کر رہی تھی ۔ گروہ کے سربراہ نے اپنی جیکٹ کو درست کرتے ہوئے آواز لگائی۔ ’’بھکاری بچے ،اپنی سوتیلی ماں سے کوئی قمیض یاجیکٹ لے لینا ! ‘‘ وہ خاموشی سے گھر میں داخل ہوا ،گھر کے کچے صحن میں اس کاسوتیلا چھوٹا بھائی کھیل رہا تھا۔جس کے پیشاب سے وہاں کیچڑ بن گیا تھا۔ اس کو دیکھتے ہی بچے نے اپنے ہاتھ پھیلا دیے اور کہنے لگا۔ ’’بھیا — بھیا— مجھے اٹھا لو۔‘‘ خئی ہائے نیچے جھکا اور زمین پر پڑے آڑو کے پتے سے اپنے بھائی کی ناک صاف کی۔ اس کے بعد اس نے پتے کو سامنے دیوار پر دے مارا ۔ اس کے بعد وہ چپکے سے کمرے میں داخل ہوا ۔ ہتھوڑا اٹھایا اور تیز ی سے باہر نکل آیا۔ اس کے بھائی نے پھر سے آوازلگائی۔ ا س بار اس نے ایک چھڑی اٹھا کر بھائی کے گرد دائرہ لگایا اور چھڑی کو ہوا میں اچھال دیا۔ اس کے بعد اس نے گاؤں کے عقب میں دوڑ لگادی۔ جہاں ایک درمیانے درجے کا دریا بہتا تھااور اس کے اوپر نو محرابوں والا پل تھا۔ موسم گرما میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے دریا کے بند پر لاتعداد ایشیائی وِلّو[2] اگ آئے تھے ۔ اس کے علاوہ وہاں سرخ جنگلی جڑی بوٹیاں بھی پرورش پا رہی تھیں۔ وِلّوکے پتے پیلے ہو کر دریا میں گر رہے تھے جنہیں پانی اپنے ساتھ بہالے جا رہا تھا۔ دریا پرموجود بطخیں کنارے پر اگی ہوئی گھاس میں کھانا تلاش کر رہی تھیں۔ خدا جانے انہیں وہاں کچھ ملا یا نہیں۔
جب بچہ بند پر پہنچا تو اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے سینے میں کوئی مرغی بول رہی ہے ۔
’’جلدی کرو خئی ہائے ! ‘‘ مستری پل پر سے چلایا ۔ خئی ہائے بظاہر دوڑتا ہوا مستری کے پاس پہنچا۔
’’کیا تمھیں سردی محسوس نہیں ہوتی ؟‘‘ مستری نے سوال کیا۔ خئی ہائے نے منہ کھولا پر کچھ نہ کہا۔ مستری اپنے کام والے کپڑوں میں ملبوس تھا۔ اس نے پینٹ اور کھیل والی شرٹ کے اوپر جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ سرخ شرٹ کا کالر واضح نظر آ رہا تھا۔ بچے نے کارلر کو ایسے دیکھا جیسے کہ آگ کو دیکھ رہا ہو۔
’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ مستری نے بچے کے سرپر ہلکی لیکن آواز پیدا کرنے والی چپت لگاتے ہوئے پوچھا۔ ’’تمھاری سوتیلی ماں نے تمھاری کھوپڑی کو خالی کر دیا ہے ۔ ‘‘ اس نے مزید کہا۔
پل کی جانب چلتے ہوئے مستری سیٹی بجا رہا تھا اورساتھ ساتھ بچے کے سر پر طبلہ بجا رہا تھا۔ بچہ آرام آرام سے چل رہا تھااور مستری اپنی انگلیاں کسی ڈنڈے کی طرح اس کے سر پر برسا رہا تھا۔ وہ اس تکلیف کو خاموشی سے برداشت کرتا رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ مستری سیٹی بجا کر کسی بھی آواز کی نقل اتار سکتا ہے۔ اسی دوران اس نے سیٹی بجا کر کھیت میں بیٹھی چڑیوں کو اڑا دیا۔ آدھے لِی[3] کی مسافت طے کر کے انہوں نے دریا کے پل اور سیلابی بند کوعبور کیا اورمغربی سیلابی دروازے کی جانب بڑھ گئے ۔ سیلابی دروازہ پل کی طرح دکھتا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس میں تختہ لگا ہوا تھا جس کی مدد سے پانی کے بہاؤکو قابو کیا جا سکتا ہے ۔ بند کی ڈھلوان پروں والی دریائی ٹڈیوں سے ڈھکی ہوئی تھی ۔ ٹڈیوں کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے ریتلے بند پر جنگلی گھاس اگی ہوئی ہے ۔ بند کے پار تاحد نگاہ کھلے وسیع میدان دیکھے جا سکتے تھے ۔ جن کی مٹی سیلابی ریلے گزرنے کے بعد زرخیز ہو چکی تھی۔ گزشتہ سیلاب حجم میں ذرا کم تھا اسی لیے بند محفوظ رہااور سیلابی دروازہ کھولنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی۔ سیلابی میدانوں میں بنگالی پٹ سن کے گھنے جنگل اُگ آئے تھے۔ اس صبح کھیتوں میں کافی نمی موجود تھی جو کہ دکھنے میں سمند ر معلوم ہوتی تھی۔
جب مستری اور خئی ہائے سیلابی دروازے پر پہنچے تو وہاں دو گروہ انتظار میں تھے ۔ ایک گروہ مردوں کا تھا اور ایک عورتوں کا ۔ دونوں گروہوں کے درمیان کمیون کا ایک نمائندہ موجود تھاجو کہ ہاتھ میں ایک روزنامچہ تھامے ہوئے تھا ۔وہ کافی اونچی آواز میں اور ہاتھوں کے اشارے سے ہدایات دے رہا تھا۔ خئی ہائے مستری کی رہنمائی میں سیلابی دروازوں کے پاس سے گزر کر اس شخص تک پہنچا ۔ مستری نے کہا’’ڈپٹی ڈائریکٹر لیو! ہم اپنے گاؤں کی جانب سے کام کرنے کے لیے آئے ہیں۔ ‘‘ مستری، ڈائریکٹر لیو کو پہلے سے جانتا تھا کیونکہ وہ پہلے کبھی ڈائریکٹر کی نگرانی میں ہونے والے کاموںکا حصہ رہ چکا۔
خئی ہائے ڈائریکٹر لیو کے بڑے چہرے کو گھور رہا تھا۔ ایسے دیکھتے ہیں! ڈائریکٹر نے چلا کر کہا ’’بھگوڑے ! تم پھر سے آ گئے۔ تمھارے گاؤں والے بہت چالاک ہیں۔ انہوں نے ایک ایسے مزدور کو بھیجا ہے جو کسی بھی سوراخ سے گزر کر بھاگ سکتا ہے ۔ خیر کوئی بات نہیں۔ تمھارا معاون کدھر ہے ؟‘‘
خئی ہائے نے پھر سے مستری کی انگلیاں اپنے سر پر محسوس کیں۔
’’وہ ؟‘‘ ڈائریکٹر لیونے اپنے ہاتھ خئی ہائے کی گردن کے گرد لپیٹ کر ایسے جھنجھوڑا کہ وہ قریب قریب زمین سے اوپر اٹھ گیا اور غرا کر کہا ۔’’اس کمزور بندر کو یہاں کیوں بھیجا گیا ہے ؟ یہ تو ایک ہتھوڑا بھی نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
مستری نے خئی ہائے کے سر سے ڈائریکٹر کا ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا ۔ ’’چلو خیر ہے، اشتراکیت کی خوبصورتی یہ ہے کہ سب کو کھانے کے لیے ملتا ہے۔ خئی ہائے کا خاندان تین نسلوں سے کھیتی باڑی سے منسلک ہے۔ اگر اشتراکیت اس کا خیال نہیں رکھے گی تو کون رکھے گا؟ستم بالائے ستم یہ کہ اس کی ماں بھی نہیں رہی ۔ یہ اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہتا ہے ۔ اس کا باپ تین برس پہلے شمال مغرب میں کام کی غرض سے گیا تھا اور کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ شاید اب تک اس کو کسی ریچھ یا بھیڑیے نے کھا لیا ہوگا۔ آپ کا طبقاتی شعور کدھر ہے ڈائریکٹر لیو؟‘‘آخری جملہ اس نے ذرا دھیمے لہجے میں کہا۔
ڈائریکٹر کے جھنجھوڑنے کی وجہ سے خئی ہائے کو چکر آ رہے تھے ۔ اسے ڈائریکٹر کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی طبیعت مزید خراب ہو گئی تھی ۔۔ اس کی سوتیلی ماں میں سے بھی ایسی ہی بو آتی تھی، جب سے اس کا باپ غائب ہو اتھا۔ اس کی سوتیلی ماں اکثر اس کو دوکان پربھیج کر خشک اروی کے بدلے شراب منگواتی۔ وہ تب تک شراب پیتی رہتی جب تک مدہوش نہ ہو جاتی اور مدہوشی کی حالت میں وہ خئی ہائے کو مارتی پیٹتی تھی۔
’’ایک کمزور بند ر! ‘‘ ڈائریکٹر نے تھوکتے ہوئے کہا اور پھر دوسروں کو سمجھانا شروع کر دیا۔
ہاتھ میں ہتھوڑا لیے خئی ہائے سیلابی دروازے پر دوڑنے لگا۔ سیلابی دروازہ سو میٹر سے زیادہ چوڑا اور درجن بھر میٹر اونچا تھا۔دروازے کے سامنے اسی لمبائی کا ایک پانی کا تالاب بھی تھا۔ لڑکا پتھر کی دیوار کے سہارے سیلابی دروازے پر کھڑا ہو گیااور پانی میں پتھر کے درمیا ن چھوٹی کالی مچھلیوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ اسی دوران اس نے اچانک پتھر کی دیوار پر ضرب لگائی جس سے دیوار اور ہتھوڑا گھنٹی کی طرح بجنے لگے ۔ اس آواز کو سنتے سنتے وہ ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔ دریا کے بند کے پار پٹ سن کے کھیت پر سورج کی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ وہ پودوں کے درمیان دھند کودیکھ سکتا تھا۔ کھیت اتنے گہرے تھے کہ پودوں کی شاخیں اور پتے ایک دوسرے سے بغل گیرہوتے دکھائی دیتے تھے۔ اس کے بعد وہ مغرب کی جانب دیکھنے لگا جہاں شکر قندی کے کھیت تھے اور ان کے پتے چمک رہے تھے۔ خئی ہائے جانتا تھا کہ یہ ایک نئی قسم کی شکرقندی ہے جس کی جسامت بڑی ہے اور مقابلتاً زیادہ میٹھی ہے۔ ان کی جلد سفید ہے اور گودہ سرخ ۔ شکر قندی کے کھیت کے شمال میں سبزی کا کھیت تھا۔ اب یہ ساری زمین کمیون کی ملکیت تھی اور پیداوار ی گروہ یہاں سبزیاں اگاتا تھا۔ خئی ہائے کو معلوم تھا کہ یہ سارے کھیت پانچ لی (اڑھائی کلومیٹر) کی مسافت پر واقع ایک گاؤں کا حصہ ہیں۔ یہ ایک امیر گاؤں تھا۔ سبزیوں کے کھیت میں گوبھی اور گاجر اگائی گئی تھیں۔ جن کے پتے گہرے سبز تھے ۔ انہی کھیتوں کے درمیان ایک دو کمروں پر مشتمل کوارٹر تھا۔ جس میں ایک بوڑھا اکیلا رہتا تھا۔ لڑکا یہ سب جانتا تھا۔ کھیتوں کے شمال میں جہاں بھی نگاہ جاتی تھی ۔ وہاں پٹ سن کے کھیت تھے۔ مغرب کی جانب بھی ایسا ہی تھا۔ تین اطراف میں پٹ سن کے کھیت اور ایک جانب دریا کا بند اور ان کے درمیان مربع شکل کے کھیت ایک کنویں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔
ڈائریکٹر لیو ابھی تک مزدوروں کو بھاشن دے رہا تھا۔ اس نے کہا ’’اگر تا چائے کمیون ماڈل ‘‘ کی پیروی کرتے ہوئے زراعت کو ترقی دینی ہے تو جان لو کہ آبی نظام اس کی شہ رگ ہے ۔ اس کے بغیر زراعت ایسے ہی ہے جیسے بن ماں کا بچہ ۔ پھر زراعت کا وہی حال ہوگا جو اس کے بچے کا ہے۔ (اس نے خئی ہائے کی طرف اشارہ کیا) مزید یہ کہ سیلابی دروازہ بہت تنگ ہے جس کی وجہ سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے ۔ اسی لیے کمیٹی نے جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ دروازے کو کشادہ کیا جائے ۔ اسی لیے ہم نے کل ملا کر 200مزدوروں کو اکٹھا کیا ہے ۔ یہ پہلا مرحلہ ہے۔ لڑکیاں، عورتیں، بوڑھے، جوان سب بشمول یہ چھوٹا بندر (اس نے ایک بار پھر خئی ہائے کی طرف اشارہ کیا) پانچ سو مربع میٹر کے اندر پتھروں کو توڑیں گے پھر مستری ان پتھروں کو مناسب شکل میں ڈھالیں گے۔ یہ دو لوہاراوزارو ں کی مرمت کریں گے۔ (اس نے دو سیاہ رنگت والے آدمیوں کی طرف اشارہ کیا۔ ایک دراز قد اور بوڑھا تھا جبکہ دوسرا پست قامت اور جوان تھا) جو لوگ قریب رہتے ہیں وہ اپنے گھر جا کر کھانا کھائیں گے اور جو دور سے آئے ہیں وہ قریبی گاؤں کے عوامی باورچی خانے میں کھانا کھائیں گے۔یہی ترتیب رات کو سونے کے لیے بھی ہے۔ جو لوگ دور سے آئے ہیں وہ پل کے دہانے پر سوئیں گے ۔ عورتیں مشرق سے مغرب کی جانب اور مرد مغرب سے مشرق کی جانب ۔ بستر کی جگہ زمین پر گھاس پھوس پھیلایا جائے گا جو تم جیسوں کے لیے کسی گدے سے کم نہیں۔ ‘‘
’’کیا تم بھی پل کے نیچے رات بسر کرو گے ڈائریکٹر؟‘‘
’’میں یہاں انچارج ہو ں ۔ میرے پاس سائیکل ہے اور تمھارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ میں کہاں رات بسر کروں گا ۔ کیا سپاہیوں کو اس لیے گھوڑے پر بٹھا دیں کہ افسر کو بھی میسر ہے؟اب دفع ہو جاؤاور اپنے کام پر دھیان دو۔ سب کو معاوضہ ملے گا اور جو کام نہیں کرنا چاہتا وہ دفع ہو جائے۔ اس چھوٹے بندر کو بھی معاوضہ اور راشن ملے گا۔ ‘‘
خئی ہائے کچھ نہ سمجھ سکا کہ ڈائریکٹر نے کیا کہا ہے ۔ اس کا سارا دھیان پرندوں کی چہچہاہٹ اور پٹ سن کے کھیتوں میں سے آنے والی کیڑوں کی آواز پر تھا۔ گھاس کا ٹڈا اپنی ٹانگیں پروں پر مسل رہا تھا۔ اس کی آواز ایسے تھی جیسے ٹرین پل پر سے گزر رہی ہو۔ اس نے ایک بار خواب میں ٹرین دیکھی تھی۔ گھوڑے سے بھی تیز جیسے کوئی ایک آنکھ والی بلا دوڑ رہی ہو۔ کیسا لگتا اگر ٹرین عمودی حالت میں دوڑتی۔ وہ ابھی خواب دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کی سوتیلی ماں نے جھاڑو کے وار سے اسے اٹھا دیا۔ اس نے اسے حکم دیا کہ دریا سے پانی بھر کر لائے۔ اس نے اپنے کندھے پر بانس رکھ کر اس کے دونو ں سروں پر بالٹیوں کولٹکایا ہوا تھا۔ اس کی پسلیاں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔ وہ ہڈیوں کی آواز سن سکتا تھا۔ دریا سے واپسی پر بالٹیاں بید کے درخت سے ٹکرا کرگر گئیں۔ ان کے پانی سے ڈھلوان پر پھسلن ہو گئی اور خئی ہائے منہ کے بل جا گرا۔اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھاجسے وہ نگل گیا ۔
’’خئی ہائے!‘‘
’’خئی ہائے!‘‘
آواز سنتے ہی وہ خیالوں کی دنیا سے باہر آگیا۔ مچھلیاں غائب ہو چکی تھیں۔ اس کے ہاتھ سے ہتھوڑاپھسل کر نیچے کائی زدہ پانی میں جا گرا۔
ڈائریکٹر لیو نے دروازے پر چڑھ کر خئی ہائے کو کان سے پکڑا اور چلایا ’’پتا نہیں کس دنیا میں گم رہتے ہو۔ جاؤاور جاکر پتھر توڑو۔ شاید کوئی عورت ترس کھاکر تمھیں اپنا بیٹا بنا لے۔‘‘
مستری بھی وہاں آ چکا تھا۔ اس نے لڑکے کے سر کو سہلایا۔’’جاؤــ‘‘ اس نے کہا’’اپنا ہتھوڑا ڈھونڈ کر پتھر توڑو،اس کے بعد تم کھیل سکتے ہو۔ ‘‘
’’اگر تم نے کام چوری کی تو تمھارے کان کاٹ کر کھا جاؤں گا۔ ‘‘ ڈائریکٹر لیو نے دھمکی لگائی۔
خئی ہائے کانپ اٹھا، وہ وہاں سے چل کر پل کے نیچے ستونوں سے لٹک گیا ۔
’’تم خود کو مار لو گے ‘‘ مستری نے خبردار کر دینے والے انداز میں آواز لگائی اور نیچے جھک کر لڑکے کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی لیکن خئی ہائے اس کی طرف دھیان دیے بغیر ایک ڈنڈے کے سہارے چھپکلی کی طرح نیچے کی طرف پھسلتا ہوا چلا گیا۔ اس نے اپنا ہتھوڑا اٹھایا اور پل کے نیچے غائب ہو گیا۔
’’کمبخت بندر ! ‘‘ ڈائریکٹر نے اپنی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا۔
جب خئی ہائے پتھر توڑنے والی جگہ پر پہنچا تو عورتیں ہنس بول رہی تھیں اور واہیات لطیفوں سے محظوظ ہو رہی تھیں۔ جیسے ہی وہ پہنچا عورتوں کو سانپ سونگھ گیا۔ کچھ لمحوں بعد انہوں نے کھسر پھسر شروع کر دی ۔تاہم جلد ہی خئی ہائے کی لاپرواہی دیکھ کر ان کی آوازیںدوبارہ بلند ہو گئیں۔
’’اس بیچارے کو دیکھو اتنی سردی میں ننگ دھڑنگ گھوم رہا ہے۔ ‘‘
’’کوئی ماں سوتیلے بچے کو پیار نہیں کرتی ۔ ‘‘
’’میں نے سنا ہے کہ وہ گھر پر— تم تو جانتے ہی ہو—‘‘
خئی ہائے نے ان کی جانب کوئی دھیان نہ دیا اور دریا کی جانب دیکھنے لگا۔ دریا کی سطح کہیں پر سرخ تھی تو کہیں پر زرد ۔ اس کے جنوبی کنارے پر بیدکے درختوں پر بھنبھیریاں اپنے پر پھڑ پھڑا رہی تھیں۔
ایک نوجوان لڑکی جس نے ارغوانی رومال باندھا ہو اتھا۔ اس کے عقب میں آئی اور نرمی سے پوچھا ’’بیٹا تمھارا گاؤں کدھر ہے؟‘‘
خئی ہائے نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا ۔ اس کے بالائی ہونٹ پر گرد جمی تھی اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں نیندسے بوجھل تھیں۔
’’تمھارا نام کیاہے بچے ؟‘‘
خئی ہائے ریت سے کھیل رہا تھا۔
اسے کھیلتا دیکھ کر وہ ہنس دی۔ ’’تم تو بہت قابل ہو کالے بچے، تمھارے پاؤں گھوڑے کی طرح ہیں۔ تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟‘‘اس نے خئی ہائے کے کندھے کوہلایا ۔ ’’کیا تمھیں سنائی دے رہا ہے ؟میں کچھ پوچھ رہی ہوں۔‘‘
خئی ہائے نے اپنی پشت پر کندھے کے نیچے زخم پر اس کی انگلیو ں کو محسوس کیا۔
’’او میرے خدا! یہ زخم کیسے لگا؟‘‘
اس کے کان پھڑکنے لگے، جس کی وجہ سے لڑکی کا دھیان اس کے کانوں کی طرف ہو گیا۔
’’تو تم اپنے کان ہلا سکتے ہو بالکل ایک خرگوش کی طرح۔ ‘‘
اب وہ اس کے کانو ں کو چھو رہی تھی۔
’’مجھے ان زخموں کے بارے میں بتاؤکیا تمھیں کتے نے کاٹاـ؟ یا گرم پانی ؟ یا درخت پرچڑھتے ہوئے زخمی ہوئے؟‘‘اس نے خئی ہائے کو اپنی طرف موڑ کر پوچھا۔
وہ اس کی ٹھوڑی کو گھورنے لگا۔
’’کیا تم اسے گود لینے لگی ہو جوزی؟‘‘
ایک بھاری بھرکم اور گول چہرے والی عورت نے چلا کر پوچھا ۔
خئی ہائے آنکھیں گھما کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ ’’میرا نام جوزی ہے۔‘‘ اس نے اسے بتایا ۔ ’’میں دس لی دور ایک گاؤں میں رہتی ہوں۔ اگر تم بات کرنا چاہو تو مجھے آپا جوزی کہہ سکتے ہو۔‘‘
’’کیا تمھیں شوہر چاہیے جوزی ؟ لگتا ہے مل گیا ۔ لیکن اس کے ساتھ سونے کے لیے ابھی تمھیں کچھ سال انتظار کرنا ہوگا۔ ‘‘ ایک اور عورت نے کہا ۔
’’بڑھیا تم ہمیشہ بکواس ہی کرتی ہو۔ ‘‘ جوزی نے غصے سے کہا ۔ وہ خئی ہائے کو توڑنے والے پتھروں کے ڈھیر کے پاس لے گئی اور اسے ایک چپٹے پتھر پر بٹھا دیا۔
خئی ہائے کی آنکھیں پتھرو ں پر گڑی ہوئی تھیں۔ لیکن جلد ہی اس کی توجہ دریا کی جانب ہو گئی جہاں سے عجیب وغریب آوازیں آرہی تھیں۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ وہ پتھر توڑ رہا ہے ۔ اس نے دیکھا کہ دریا کے اوپر ایک سفید بادل آیا ہوا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اس بے دھیانی میں اس نے ہتھوڑے سے اپنی شہادت کی انگلی زخمی کر ڈالی۔ اس کا ناخن ٹوٹ چکا تھا اور پتھروں پر خون بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ سے درد بھری آہ نکلی ۔
’’کیا تمھاری انگلی ٹوٹ گئی ہے ؟‘‘ جوزی تیزی سے آئی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔ ’’دیکھو یہ کیا کیا تم نے، ایسے کون کرتا ہے ، پتا نہیں کن خیالوں میں گم رہتے ہو۔‘‘
جب وہ اسے ڈانٹ رہی تھی تو اس نے ایک مٹھی میں مٹی اٹھائی اور زخمی انگلی پر ڈال دی ۔
’’کیا تم پاگل ہو گئے ہوئے خئی ہائے؟ ‘‘ وہ اسے کھینچ کر دریا تک لے گئی۔ ’’مٹی میں جراثیم ہوتے ہیں۔‘‘ وہ دریا کے کنارے جھک کربیٹھ گئی اور لڑکی نے اس کی زخمی انگلی پانی میں ڈبو دی۔ پانی میں اس کا ناخن ایک ٹوٹے ہوئے موتی کی طرح نظر آ رہا تھا۔
’’کیا تمھیں درد ہو رہا ہے؟‘‘
اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ دریا کی تہہ میں شرنک مچھلیوں کو گھو ررہا تھا۔
لڑکی نے ایک رومال نکالا جس پر کڑاھی کر کے ایک پھول بنایا گیا تھا اور اسے خئی ہائے کی زخمی انگلی پرلپیٹ دیا ہو، اسے واپس پتھروں کے ڈھیر کے پاس لے گئی ۔ ’’یہاں بیٹھو اور آرام کرو کوئی تمھیں تنگ نہیں کرے گا۔ ‘‘
خئی ہائے خاموشی سے بیٹھ گیا اور رومال پر بنے سرخ پھول کو دیکھنے لگا۔ اس کا خون رومال پر اس طرح پھیل گیا جیسے کہ ایک اور پھول بن گیا ہو۔ اس نے اپنے دانتوں سے رومال کھول دیا اور پھر سے زخم پر مٹی ڈال دی۔ جوزی کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ اس نے پھر سے رومال کو انگلی پرلپیٹ لیا۔ جوزی نے پھر سے پتھروں کو توڑنا شروع کر دیا۔ ہتھوڑے کی ضرب سے پتھروں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں جنہیں سورج کی موجودگی کے باوجود بھی دیکھا جا سکتا تھا۔
دوپہر کو ڈائریکٹر اپنی سائیکل پر سوار ہو کر آیا اور سیٹی بجا کر کھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔ لڑکی اور خئی ہائے کے علاوہ سب کھانے کے لیے دوڑے۔
’’تمھارا گھر کتنا دور ہے خئی ہائے ؟ـ‘‘
خئی ہائے نے اسے نظر انداز کیا اوراپنا سر دائیں بائیں گھمانے لگا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ جوزی نے بھی سر گھمانا شروع کر دیا۔ اس دوران اس کی آنکھیں کچھ لمحے کے لیے سامنے کھڑے مستری سے چار ہوئیں۔
’’کھانے کا وقت ہو گیا ہے خئی ہائے۔ ‘‘ مستری نے آوا ز لگائی ۔ ‘‘چلو گھر چلتے ہیں بدقسمتی سے ہم یہاں کھانا نہیں کھا سکتے ‘‘
’’تم دونوں ایک ہی گاؤں سے ہو؟‘‘ لڑکی نے مستری سے پوچھا ۔
فرطِ جذبات سے اٹکتے ہوئے اس نے اپنے گاؤں کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ وہ اور خئی ہائے ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کافی دیر تک گرم جوشی سے بات چیت کرتے رہے ۔
وہ تینوں وہاںسے چل دیے ۔ خئی ہائے کی رفتار ذرا دھیمی تھی ۔جب وہ پل کے پاس پہنچے تو ڈائریکٹر لیو بھی سائیکل پر سوار وہاں آگیا۔ پل اتنا تنگ تھا کہ اسے سائیکل سے اتر کر گزرناپڑا۔
’’تم کہاں آوارہ گردی کر رہے ہو چھوٹے بندر؟ تمھارے پنجے کو کیا ہوا؟‘‘ ڈائریکٹر نے پوچھا۔
’’یہ سب ہتھوڑے کا کمال ہے ۔‘‘ مستری نے بتایا۔
’’ کمبخت ! سنو مستری، اپنے گروہ کے لیڈر کو کہو کہ اس کی جگہ کسی اور کو بھیجے ۔ اگر یہ یہاں مارا گیا تو میں ذمہ دار نہ ہوں گا۔ ‘‘
’’یہ زخم کام کے دوران ہو اہے ۔ ‘‘ لڑکی نے شکایت کرتے ہوئے کہا ۔ ’’تم ایسا نہیں کر سکتے ۔ ‘‘
’’ ہم ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہیں۔ ڈائریکٹر لیو‘‘ مستری نے کہا۔ ’’اتنے بڑے منصوبے کے لیے ایک بچے کی ضرورت کیو ں ہے ؟زخمی ہاتھ سے وہ کیسے کام کرے گا؟‘‘
’’ بھاڑ میں جاؤ بندر ‘‘ ڈائریکٹر نے جھنجھلا کر کہا ۔ ’’میں تمھیں کوئی اور کام دیتا ہوں۔ میرے خیال سے تم دھونکنی چلا کر لوہار کی مدد کر سکتے ہو۔ کیا تم یہ کر پاؤگے؟‘‘
لڑکے نے سوالیہ نگاہوں سے مستری اور لڑکی کو دیکھا ۔ ’’بتاؤکیا تم کر لو گے ؟‘‘لیو نے پھر پوچھا ۔ ’’جوزی نے اثبات میں سر ہلا کر خئی ہائے کی طرف سے رضا مندی کا اظہار کیا۔
باب دوم
خئی ہائے کو دھونکنی چلاتے ہوئے پانچ رو ز ہو چکے تھے اور اس کی جلد پر دھوئیں کی تہہ جم چکی تھی۔ صرف اس کے دانت اور آنکھیں سفید دکھائی دیتی تھیں اور اس کی آنکھیں مزید واضح ہو چکی تھیں۔ جو بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتا اس کا دل زخمی ہو جاتا۔ اب ہر کوئی اسے کالا بچہ کہہ کر پکارتا تھا۔ لیکن وہ ہر کسی کو نظر انداز کر دیا کرتا۔ وہ صرف جوزی یا مستری کی باتوں کا اپنی آنکھوں سے جواب دیتا۔ ایک رو ز پہلے کھانے کے وقفے کے دوران لوہار کی ہتھوڑی اور سٹیل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی بالٹی چوری ہو گئی ۔ ڈائریکٹر لیو نے سیلابی دروازے پر کھڑے ہو کر آدھے گھنٹے تک بھاشن دیا اور اس کے بعد خئی ہائے کے ذمے ایک اور کام لگا دیا کہ ہر روز کھانے کے وقفے کے دوران وہ اوزاروں کا دھیان رکھے گا۔ لوہار اس کے لیے وہیں کھانا لے آئے گا۔ اس نے کہا کہ مفت خورے کو بلا معاوضہ کھانا ملے گا۔
خئی ہائے بھاگ کر وہاں چلا گیا جہاں عورتیں پتھر توڑ رہی تھیں ۔ وہ جس چپٹے پتھر پر بیٹھا کرتا تھا وہ اب غائب تھا۔ وہ لا پرواہی سے چلتا ہوا وہاں جا پہنچا جہاں جوزی چھ کناروں والے ہتھوڑے سے کام کر رہی تھی۔ وہ ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور بے چینی سے ہلنے لگا اور بار بار پہلو بدلنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ پل کو سہارا دیے ساتویں ستون کو واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔
دوپہر ہوتے ہی وہ بھاگ کر سیلابی دروازے کے پاس چلا گیا اور مغربی دہانے کے ساتھ اکڑوں بیٹھ گیا ۔ وہ بغور معائنہ کر رہا تھا کہ تمام اوزار موجود ہیں یا نہیں، جیسے ہی مزدوروں کے آنے کا وقت قریب ہو ا،اس نے بیلچے سے بھٹی میں کوئلہ ڈال کر دھونکنی سے ہوا دینا شروع کردی۔ دھویں کی وجہ سے وہ مسلسل اپنی آنکھیں مسل رہا تھا۔ اسی دوران وہاںایک نوجوان لوہار آ گیا۔ اس کے چہرے پر موہاسے تھے اورناک چپٹی تھی ۔ اس نے آتے ہی خئی ہائے کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ’’یہاں سے دفع ہو جاؤاور جا کر پتھر توڑو۔‘‘ خئی ہائے اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا جبکہ وہ پھر سے بھٹی کوجلانے کے لیے کام کرنے لگا۔ اس نے گند م کے پودوں کی باقیات بھٹی میں ٹھونس دی ۔ آگ لگائی اور دھونکنی سے ہوا دینے لگا۔ اس نے دھونکنی کو روکے بغیر بیلچے سے گیلے کوئلے کی ایک تہہ بھٹی میں ڈال دی۔ اس کے بعد وہ مسلسل کوئلہ ڈالتا رہا جس سے کافی بڑی آگ دہک اٹھی ۔
خئی ہائے نے خوشی سے چیخ ماری۔
’’بد بخت تم ابھی ادھر ہی ہو ؟‘‘
’’اسی دوران بوڑھا لوہار وہاں داخل ہوا۔ مجھے لگا تھا اب تک آگ تیار ہوگی۔ ‘‘وہ نوجوان لوہار سے مخاطب ہوا۔ ’’تم نے یہ دوبارہ کیوں جلائی ہے ؟‘‘ اس کی آوا ز بیٹھی ہوئی اور لفظ ٹوٹے پھوٹے معلوم ہوتے تھے جیسے کہ وہ بولنے کے لیے بہت زیادہ زور لگا رہا ہو۔
’’یہ اس چھوٹے شیطان کا کام ہے ۔ ‘‘ اس نے بیلچے سے خئی ہائے کی طرف اشارہ کیا۔
’’اسے دھونکنی چلانے دو۔‘‘ بوڑھے نے حکم دیا۔ اس نے اپنی کمر اور ٹخنوں کے گرد حفاظتی کپڑا باندھا جس میں جگہ جگہ سوراخ تھے۔
’’اسے دھونکنی چلانے دو اور تم ہتھوڑے پر دھیان دو۔ اس طرح تم مزید مشقت سے بچ جاؤگے ۔ ‘‘
’’ بھٹی اسے جلا کر راکھ کر دے گی۔ ‘‘ نوجوان لوہار غصے سے بڑ بڑایا۔
ڈائریکٹر لیو شدید غصے کی حالت میں وہاں داخل ہوا۔ ’’اب کیا مسئلہ ہے ؟ تم نے ہی کہا تھا کہ دھونکنی کے لیے معاون کی ضرورت ہے؟‘‘
’’چاہیے پر ایسا نہیں ! اسے دیکھو ڈائریکٹر صاحب یہ اتنا کمزور ہے کہ بیلچہ بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اسے یہاں بھیجنا ایسے ہی ہے کہ دسترخوان کو بھرنے کے لیے باسی کھانا رکھ دیا جائے۔‘‘
’’میں خوب سمجھتا ہوں کہ تمھارے شیطانی دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔ تمھیں لگا تھا کہ میں یہاں کسی خوبصورت لڑکی کو مدد کے لیے بھیجوں گا۔ مجھے پتا ہے تمھاری نظریں ارغوانی رومال والی لڑکی پر ہیں۔ اپنی اوقات میں رہو ! —خئی ہائے دھونکنی چلاتے رہو۔‘‘ پھر وہ لوہار سے مخاطب ہوا۔ ’’جیسے تیسے اسے کام سکھاؤ۔‘‘
کچھ دیر بعد وہاں مستری اور جوزی آ گئے ۔ مستری نے مرمت کی غرض سے لائی گئی چھینی وہاں رکھ دی ۔جوزی نے اپنا رومال گردن کے گرد لپیٹا ہوا تھا جس سے اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہورہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی نوجوان لوہارکی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگے۔ اس کی آنکھیں بھی خئی ہائے کی طرح بڑی بڑی تھیں لیکن وہ صرف بائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کا سر ذرا دائیں جانب جھکا رہتا تھا۔ وہ اپنی بائیں آنکھ سے جوزی کے گلابی چہرے کو تک رہا تھا۔
بھٹی میں سے اٹھنے والا کالا دھواں پل کو چھورہا تھا۔ دھویں کی وجہ سے خئی ہائے کھانسنے لگا۔ بوڑھے نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر چمڑے کی تھیلی میں سے بیڑی نکالی ۔ بھٹی کی آگ سے اسے سلگایا اور کش لگانے لگا۔ بیڑی کا سفید دھواں بھٹی کے کالے دھویں میں شامل ہو گیا۔ اس نے مستری اور جوزی پر طائرانہ نظر ڈالی اور پھر خئی ہائے سے مخاطب ہوا ’’کوئلہ اتنا زیادہ نہیں ہے لیکن آگ ٹھیک ہے۔‘‘
لڑکا دیوانہ وار دھونکنی چلا رہا تھا۔ اس کے سینے پر پسینے میں آگ کا عکس نظر آ رہا تھا ۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا جیسے کہ کوئی چوہا پنجرے سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ’’دھیمی رفتار سے چلاؤ‘‘ بوڑھے نے کہا۔
خئی ہائے کے زیریں ہونٹ پر خون دیکھ کر جوزی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’خئی ہائے ‘‘وہ چلائی۔ ’’یہ کام چھوڑو اور میرے ساتھ پتھر توڑو‘‘ وہ بھٹی کے قریب آگئی اور اسے بازؤں سے پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کرنے لگی ۔ اس نے پوری قوت سے اپنے بازو چھڑائے اور بھوکے کتے کی طرح غرانے لگا۔ اس کا وزن اتنا کم تھا کہ جوزی اسے بآسانی باہر کی جانب گھسیٹ لائی ۔ وہ پتھریلی زمین پر اپنے پاؤں رگڑ رہا تھا۔
’’خئی ہائے ‘‘ وہ اسے زمین پر بٹھا کر مخاطب ہوئی ۔ ’’ادھر کام مت کرو۔ اتنا دھواں تمھارے لیے اچھا نہیں۔ کمزوری سے تم بالکل سوکھ چکے ہو۔ میرے ساتھ آؤپتھر توڑنا آسان کام ہے ۔ ‘‘ اس نے اسے پھر سے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔ اس کے ہاتھ نرم اور مضبوط تھے ۔خئی ہائے نے پھر سے پتھریلی زمین پر پاؤں رگڑنا شروع کر دیے۔ ’’بس کرو بے وقوف لڑکے ۔‘‘ وہ ٹھہر کر بولی ’’میرے ساتھ چلو ‘‘ خئی ہائے نے اچانک اسکی کلائی پر اپنے دانت گاڑ دیے اور بھاگ کر پل کے نیچے چلا گیا۔
اس کے تیز دھار دانتوں نے جوزی کی کلائی پر دو سوراخ کر دیے تھے جن سے خون رس رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر مستری وہاں دوڑکر آیا اور ایک سلوٹ زدہ رومال اس کی کلائی پرباندھ دیا۔ جوزی نے مستری کو دیکھے بغیر اسے ہاتھ کے اشارے سے پیچھے کیا اور زمین سے مٹی اٹھا کر زخم پر ڈال دی۔
’’اس میں جراثیم ہیں۔ ‘‘ مستری حیران ہو کر چلایا۔
وہ مڑی اور پتھروں کے ڈھیر کے پاس بیٹھ کر دریا کی لہروں کو تکنے لگی۔ وہاں موجود عورتیں کھسر پھسر کرنے لگیں۔
’’یہ لو ، ایک اور گئی کام سے ۔ ‘‘
’’لگتا ہے خئی ہائے نے اس پر کالا جادو کروا دیا ہے ۔ ‘‘
’’ذرا ادھر آؤچھوٹے شیطان‘‘ مستری چلاتا ہو اپل کی جانب چل دیا۔ ’’ایک رحمدل انسان کو کاٹتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آئی؟‘‘
عین اسی وقت کسی نے مستری کے چہرے پر گرم اور آلودہ پانی پھینک دیا۔ اتفاق سے وہ وہیں کھڑا تھا جہاں پانی پھینکا گیا تھا وہ سر تا پاؤں بھیگ چکا تھا۔
’’کیا تم اندھے ہو؟‘‘ وہ چلایا’’ جس نے بھی یہ کیا ہے سامنے آئے۔‘‘
کوئی جواب نہ آیا۔ بوڑھا لوہار ایک گرم چھینی پر ہتھوڑے برسا رہا تھا جس کی وجہ سے چنگاریاں پیدا ہو رہی تھیں۔ اس نے چھینی کو سندان[4] پر رکھ کر اس کے کنارے بنانا شروع کر دیے۔ اس نے چھینی کو ایک شکنجے سے پکڑا ہوا تھا۔ کانا لوہار اس کی مدد کر رہا تھا۔
’’پانی کس نے پھینکا تھا؟‘‘ مستری نوجوان لوہار کی طرف دیکھ کر چلایا۔
’’میں نے ، کیا کر لوگے ؟‘‘ لوہارنے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیا تم اندھے ہو ؟‘‘
’’صرف ایک آنکھ سے۔ جیسے ہی میں نے پانی پھینکا تم اندر چلے آئے۔ تمھاری قسمت ‘‘
’’یہ کیابکواس ہے ؟ ‘‘
’’آج کل جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ اس نے اپنے بازوؤں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’پھر دو دو ہاتھ ہو جائیں کانے شیطان۔ تمھاری دوسری آنکھ کا بھی کام تمام کرتا ہوں۔ ‘‘ مستری نے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔ لوہار نے یہ سنتے ہی مستری سے لڑنا شروع کر دیا۔ بوڑھے لوہار نے لاپرواہی سے دیکھا اور گانا گانے لگا۔ گانا گاتے گاتے وہ وہاں سے غائب ہو گیا۔
تین دن پہلے بوڑھا لوہار چھٹی لے کرگھر چلا گیا تھا۔ جب وہ پاس آیا تواپنے ساتھ پیوند شدہ کپڑے اور بسترلے کر آیا۔وہ کہتا تھا کہ بڑھاپے میں ٹانگوں کا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے، اسی لیے وہ روزانہ گھر نہیں جا تا۔ وہ اپنا بستر بھٹی کے قریب لگائے گا تاکہ رات کو ٹھنڈ نہ لگے۔ بوڑھے کی غیر موجودگی میں نوجوان لوہار وہاں کا مالک تھا۔ اس صبح جب وہ کام پر آیا تو اس نے اعلان کیا کہ ’’آگ جلاؤخئی ہائے ۔ بوڑھا جا چکا ہے اور اب ہم مزے کریں گے ۔ ‘‘
خئی ہائے اسے گھورنے لگا۔
’’کیا دیکھ رہے ہو شیطان ؟ تمھیں لگتا ہے کہ مجھے کام نہیں آتا؟ میں تین سال سے بوڑھے کے ساتھ ہوں اور سارے داؤپیچ جانتا ہوں۔‘‘
خئی ہائے نے بے دلی سے آگ جلانا شروع کی جبکہ نوجوان لوہار گنگناتا رہا ۔ اس نے سٹیل کے ٹکڑے بھٹی میں ڈالنا شروع کر دیے ۔ آگ کے شعلوں کے عکس سے خئی ہائے کا چہرہ سرخ نظر آ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر لوہار ہنسنے لگا’’تمھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ سرخ فوج کے سپاہی ہو ‘‘ وہ چلا کر بولا۔
لڑکے نے اور زور سے دھونکنی کو چلانا شروع کر دیا۔
’’تمھاری وہ چالاک سوتیلی ماں تم سے ملنے کیوں نہیں آئی؟ شاید وہ تم پر غصہ ہے کیونکہ تم نے اسے کاٹ لیا تھا۔ ویسے اس کے بازو کا ذائقہ کیسا تھا؟ کڑوا یا میٹھا؟ تم بہت چالاک ہو۔ اگر اس کا بازو میرے ہاتھ میں آ جائے تو کھیرا سمجھ کر کھا جاؤں۔‘‘
خئی ہائے نے شکنجے کی مدد سے دہکتے ہوئے سٹیل کے ٹکڑوں کو اٹھا کر سندان پر رکھ دیا۔
’’تم سیکھ رہے ہو لڑکے!‘‘ لوہار نے ایک درمیانے درجے کا ہتھوڑا اٹھایا اور سٹیل پر برسانا شروع کر دیا۔
نوجوان لوہار تیزی سے کام کر رہا تھا اور کچھ دیر میں اس نے کافی ساری چھینی بنا ڈالی۔ اس کے بعد وہ فخریہ انداز میں بوڑھے لوہار کی کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگا لی۔ ’’تم نے دیکھا؟ ہم بوڑھے کے بغیر بھی کام کر سکتے ہیں۔‘‘
مستری جو کہ نئی چھینیاں لے گیا تھا پھر سے وہاں آ گیا۔
’’تم کتنی بے کار چھینی بناتے ہو۔ یا تو ان کی نوک ٹوٹ جاتی ہے یا مڑجاتی ہے ۔ ہم نے ان سے پتھر توڑنے ہیں لکڑی نہیں۔ بوڑھے کا انتظار کرو اور ہماری چھینیاں خراب مت کرو۔‘‘ مستری نے تبصرہ کیا۔
اس نے چھینیاں وہیں گرا دیں اور چلا گیا۔ لوہار کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ اس نے چلا کر خئی ہائے کو حکم دیا کہ پھر سے آگ جلا کر چھینیاں بھٹی میں ڈال دے۔ ان کی مرمت کرنے کے بعد وہ خود انہیں کام والی جگہ پر لے گیا۔ ابھی وہ واپس پل کے نیچے آیا ہی تھا کہ مستری اس کے پیچھے وہاں آ گئے اور خراب چھینیاں پھینک کر برا بھلا کہنے لگے۔ ’’تم نے ہماری ناک میں دم کر کے رکھا ہے۔ ایسے کام کرتے ہیں؟ہر چھینی کی نوک ٹوٹ چکی ہے !‘‘
’’بکواس!‘‘لوہار نے کہا۔’’خئی ہائے، پھر سے کام پر لگ جاؤ۔‘‘
خئی ہائے نے کاہلی سے دھونکنی کو چلاناشروع کیا ۔ لوہار مسلسل اسے گالیاں دے رہا تھا لیکن اس نے توجہ نہ دی۔ اس بار اس نے اپنے استاد کی طرح آہستہ آہستہ چھینی کو پانی میں ٹھنڈا کرنے کی بجائے اسے ایک ہی دفعہ میں پانی کی بالٹی میں ڈبو دیا۔ بالٹی سے پانی کے بخارات اڑنے لگے۔ اس کے بعد اس نے جیسے ہی اسے سندان پر رکھ کر ضرب لگائی تو اس کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔ اس نے غصے میں اسے دور اچھال دیا۔
’’جاؤ! اسے اٹھا کر لاؤ۔‘‘ اس نے غراکر کہا۔ خئی ہائے کویوں محسوس ہوا جیسے اس کی ٹانگیں جامد ہو چکی ہیں۔ لوہار نے اسے ایک لات رسید کی اور پھر سے چلایا’’جاؤاور لے کر آؤ۔‘‘
خئی ہائے سرجھکا کر اٹھا اور اس طرف چل دیا ۔ جیسے ہی اس نے چھینی اٹھائی اس کا ہاتھ جل گیا اور چھینی زمین پر گر گئی۔
لوہار نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا ’’میں بتانا بھول گیا کہ یہ ابھی بھی گرم ہے ۔ تمھاری انگلیوں کی تو تکہ بوٹی بن گئی ہے چلو کھاتے ہیں!‘‘
خئی ہائے لوہار کو نظر انداز کرتے ہوئے پل کے نیچے گیا اور اپنا ہاتھ بالٹی میں ڈال دیا۔
’’تم وہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ لوہار چیخا۔ اس نے دیکھا کہ خئی ہائے نے پھر سے چھینی کو اٹھایا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ وہ بلی کی طرح چلا کر بولا’’اسے گر ا دو چھوٹے شیطان!‘‘
خئی ہائے لوہار کے سامنے اکڑوں بیٹھ گیا اور چھینی کو اس کے قدموں میں پھینک دیا۔
’’میری طرف دیکھنا بند کرو حرامی !‘‘ لوہار کانپ رہا تھا۔ اس نے نظریں پھیر لیں۔ خئی ہائے وہاں سے اٹھا اور باہر چلا گیا۔
وہ سوچ سوچ کر تھک چکا تھا۔ اس کے دماغ میں خیالوں کی بھنبھناہٹ تھی وہ بوڑھے لوہار کے بستر پر جاکر لیٹ گیا اور اس کی جیکٹ پر سر رکھ لیا۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ کوئی اس کے چہرے اور ہاتھوں کو سہلا رہا ہے ۔
’’اٹھوخئی ہائے اور کچھ کھالو۔‘‘ جوزی نے کہا۔
’’یہ لو‘‘ اس نے اپنا رومال کھولتے ہوئے کہا۔ اس میں دو مکئی کی روٹیاں، کھیرے کا ٹکڑا اور سبز پیاز تھی۔
’’چلو اب کھالو‘‘ اس نے اس کی گردن سہلاتے ہوئے کہا۔
کھانا کھاتے ہوئے وہ جوزی کو دیکھتا رہا۔
’’تمھارا ہاتھ کیسے جل گیا؟ کیا یہ اس ایک آنکھ والے اژدھے نے کیا ہے ؟ تم اب مجھ کاٹو گے تونہیں؟ تمھارے دانت بہت تیز ہیں۔‘‘
بچے کے کان پنکھے کی طرح ہلنے لگے۔ اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں روٹی اٹھالی اور دائیں ہاتھ میں پیاز اور کھیرا اور اپنا چہرہ چھپا لیا۔
باب سوم
اس رات گرج چمک کے ساتھ بارش ہوئی۔ اگلی صبح جب مزدور کام کے لیے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ تمام پتھر دھل کر صاف ہو چکے تھے اور ریتلی زمین ہموار ہو چکی تھی۔ تالاب میں پانی دو گنا ہو چکا تھا اور پانی میں کچھ آوارہ بادلوں کا عکس دیکھا جا سکتا تھا۔ خزاں کی ٹھنڈی ہوا پٹ سن کے کھیتوں میں شور پیدا کر رہی تھی اور سردی کی شدت میں اضافہ کر رہی تھی۔ بوڑھے لوہار کی پیوند شدہ جیکٹ کسی ڈھال کی طرح چمک رہی تھی لیکن اس کے بٹن ٹوٹ چکے تھے۔ اسی لیے سردی سے بچنے کے لیے اس نے جیکٹ کی کاج میں بجلی کی تار ڈال کر اسے بند کیا ہوا تھا۔ خئی ہائے ابھی بھی نیکر میں گھوم رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سردی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس کے بال اب کافی بڑھ چکے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے خار پشت کی پیٹھ پر کانٹے اُگے ہوئے ہیں۔ مزدور اب اسے ہمدردی اور تعریف کے انداز میں دیکھتے۔
’’تمھیں سردی نہیں لگتی؟‘‘ بوڑھے لوہار نے پوچھا۔
خئی ہائے نے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے اسے سوال کی سمجھ نہ آئی ہو۔
’’میں پوچھ رہا ہوں تمھیں سردی نہیں لگ رہی ؟‘‘ بوڑھے نے سوال دہرایا ۔خئی ہائے سر جھکا کر بھٹی میں آ گ جلانے لگا ۔ وہ بائیں ہاتھ سے دھونکنی چلا رہا تھا اور دائیں ہاتھ میں بیلچہ پکڑا ہو ا تھا۔ اس کا دھیان جلتے ہوئے گندم کے خوشوں کی طرف تھا ۔ بوڑھے نے اپنے بستر سے میلی کچیلی جیکٹ اٹھائی اورخئی ہائے کی کمر پر ڈال دی۔ خئی ہائے الجھن محسوس کر رہا تھا۔ جیسے ہی بوڑھا وہاں سے گیا اس نے جیکٹ اتار کر بوڑھے کے بستر پر ڈال دی۔ بوڑھا سر ہلاتا ہوا ایک طر ف بیٹھ گیا اور بیڑی پینے لگا۔
’’اب میں سمجھا کہ تم بھٹی کے پاس کیوں بیٹھے رہتے ہو‘‘ بوڑھے نے جماہی لیتے ہوئے کہا۔ ’’اس طرح تم خود کو ٹھنڈ سے بچاتے ہو۔ بہت ہی شاطر ہو تم۔ ‘‘
ڈائریکٹر لیو نے سیٹی بجا کر تمام مزدوروں کو اکٹھا کر لیا۔ وہ سب سیلابی دروازے کے سامنے سوراخ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ ڈائریکٹر نے کہا کہ سردی بڑھ رہی ہے ۔ اس لیے ہمیں کام کا دورانیہ بڑھانا ہے تاکہ درجہ حرارت نقطہ انجماد تک پہنچنے سے پہلے بنیادوں میں کنکریٹ بھر اجا سکے ۔ آج سے کام کے اوقات صبح سات سے رات دس بجے تک ہوں گے۔ اس کے بدلے سب کو روزانہ آدھا کلو اناج اور بیس سکے ملیں گے۔ وہاں دو سو سے زائدمزدور موجود تھے ۔سب کے چہروں پر مختلف تاثرات تھے لیکن کسی نے شکایت نہ کی۔ ان کے چہروں پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔
اس رات کام والی جگہ پر تین، گیس سے جلنے والی روشنیاں لگا دی گئی تھیں۔ ایک روشنی وہاں لگائی گئی جہاں مستری کام کر رہے تھے اور دوسری وہاں جہاں عورتیں پتھر توڑ رہی تھیں۔ اکثر عورتین معمول کے اوقات کے مطابق گھر چلی گئی تھیں۔ کیونکہ انہوں نے گھر پر بچوں کی دیکھ بھال کرنا تھی ۔ وہاں اب بمشکل ایک درجن عورتیں رہ گئی تھیں۔ تیسری روشنی وہاں لگائی گئی تھی جہاں بھٹی تھی۔
جوزی نے اپنا ہتھوڑا رکھا اور دریا کی طرف چہل قدمی شروع کر دی۔ ریتلی زمین پر اس کا لمبا سایہ پڑ رہا تھا۔ ’’احتیاط سے کہیں کوئی کنوارہ تم پر جھپٹ نہ پڑے‘‘ عقب سے ایک عورت نے آواز لگائی ۔ وہ جلد ہی روشنی کے حصار سے نکل گئی۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ خئی ہائے کی خبر لی جائے۔ وہ روشنی سے بچتی ہوئی پل کے پہلے ستون کے پاس جا پہنچی۔
آخر کاراس نے خئی ہائے کو ڈھونڈ لیا۔ وہ کسی بھوت کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا جسم آگ کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ اس کی جلد کسی مضبوط ربڑ کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ وہ پہلے سے صحت مند دکھائی دیتا تھا کیونکہ اب ا س کی جلد اور پسلیوں کے درمیان گوشت چڑھ آیا تھا۔ وہ اسے روزانہ عوامی باورچی خانے سے دوپہر کا کھانا لا کر دیا کرتی تھی۔ خئی ہائے اب شاذ و نادر ہی رات کو گھر واپس جا یا کرتا تھا۔جوزی نے دیکھا کہ وہ تینوں دل جمعی سے کام میں مصروف تھے اور دیوار پر ان کے سائے ناچ رہے تھے ۔ دھاتوں کے ٹکرانے کی آواز آ رہی تھی۔
جوزی نوجوان لوہار کی مہارت دیکھ کر حیران ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی وہ خئی ہائے پر بھی نظر رکھے ہوئے تھی۔ جب دونوں لوہار چھینی کو زندان پر رکھ کر ہتھوڑے برساتے تو خئی ہائے خاموشی سے دیکھتا رہتا۔
جب چھینی بن گئی تو بوڑھے نے اسے پانی میں ڈال دیا۔ اسی دوران اس نے نوجوان لوہار کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ بوڑھا بار بار چھینی کو آنکھوں کے قریب لا کر غور سے دیکھتا جیسے کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے لگا ہو ۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اپنے کام سے مطمئن ہے ۔ جب چھینی تیار ہو گئی تو دوسری چھینی بنانے کے لیے پھر سے یہ عمل دہرانے لگے۔ جیسے ہی بوڑھا دہکتی ہوئی چھینی کو پانی میں ڈالنے لگا ،نوجوان لوہار نے اپنا ہاتھ بالٹی کے منہ پر رکھ دیا۔ بغیر کچھ سوچے بوڑھے نے چھینی نوجوان کی کلائی پر دے ماری جس کی وجہ سے آس پاس گوشت کے جلنے کی بوپھیل گئی۔
نوجوان لوہار درد سے بلبلا اٹھااور چلایا ’’تین سال ہو گئے ہیں استاد!‘‘
بوڑھے نے چھینی کو پانی میں ڈبویاجس سے پانی میں سے بھاپ اٹھنے لگی۔ جوزی کو ان کے چہرے واضح نظر نہیں آ رہے تھے لیکن اس نے بوڑھے کو کہتے ہوئے سنا’’یہ سبق یاد رکھنا!‘‘
جوزی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے الٹے پاؤں دوڑی۔ جیسے ہی وہ پتھر کے ڈھیر کے پاس پہنچی، ایک عورت نے اسے چھیڑا’’تم اتنی دیرسے غائب تھیں۔ کہیں اس لڑکے کے ساتھ پٹ سن کے کھیت میں تو نہیں گئی تھیں ؟‘‘ جوزی نے جواب نہ دیا۔
کام کے اختتام کی سیٹی بجی۔ جوزی تین گھنٹوں سے اپنے خیالوں میں گم تھی۔ ’’کس کے خیالوں میں گم ہو؟ آؤ واپس چلیں۔ ‘‘ عورتوں نے کہا لیکن وہ وہیں بیٹھی انہیں جاتاہوا دیکھتی رہی۔
’’جوزی۔‘‘ نوجوان مستری نے آواز دی۔ ’’تمھاری کزن نے پیغام بھیجا ہے کہ تم رات اس کے گھر گزارو۔ میں تمھیں وہاں چھوڑ آؤں گا۔ ‘‘
’’چھوڑ آؤں گا؟تم کس سے بات کر رہے ہو؟‘‘
’’تم سے ۔تمھارا دھیان کدھر ہے ؟‘‘
’’کس کا دھیان؟‘‘
’’میں تم سے بات کر رہا ہوں‘‘
’’مت کرو۔‘‘
’’چلیں؟‘‘
’’ٹھیک ہے ۔‘‘
پل کے نیچے دریاکا پانی شور کرتا ہو ابہہ رہا تھا ۔ جوزی رک گئی۔ مستری چند قدم پیچھے تھا۔ اس نے یکھاکہ بھٹی کے پاس ابھی بھی ایک روشنی جل رہی تھی جبکہ باقی کی دو بجھا دی گئی تھیں۔ وہ سیلابی دروازے کی طرف چلنا شروع ہو گئی۔
’’خئی ہائے کو ڈھونڈ رہی ہو؟‘‘
’’مجھے اس سے ملنا ہے ۔‘‘
’’آؤساتھ چلتے ہیں۔ چھوٹا شیطان۔ دھیان سے ۔ گر نہ جانا۔‘‘
جوزی کو محسوس ہوا کہ مستری اس کے بالکل پیچھے ہے کیونکہ وہ اس کے سانس لینے کی آوا زسن سکتی تھی ۔ اس نے چلتے چلتے اپنا سر مستری کے کندھے پر رکھ دیا۔ مستری نے اسے پیچھے کی جانب سے گلے لگا لیا اور اپنے ہاتھ اس کی چھاتیوں پر رکھ دیے۔ وہ جوزی کے دل کی تیز دھڑکن محسوس کر سکتا تھا۔ وہ پھر سے دروازے کی جانب چلنے لگے۔ روشنی کے پا س پہنچ کر اس نے مستری کا ہاتھ اپنی چھاتی سے ہٹایا اور آواز لگائی ’’خئی ہائے!‘‘
’’خئی ہائے !‘‘ مستری نے بھی آواز لگائی۔
نوجوان لوہار ان دونوں کو بغور دیکھنے لگا۔ اس کے گال پھڑ پھڑائے۔ بوڑھا لوہار اپنے بستر پر بیٹھا تھا اوراس نے ہاتھ میں بیڑی کو ایسے تھاما ہوا تھا جیسے بندو ق پکڑی ہوئی ہو۔ اس نے دونوں کو ایک نظر دیکھا اور تھکی ہوئی لیکن شفقت بھری آواز میں کہا’’بیٹھ جاؤ، وہ آتا ہی ہوگا۔ ‘‘
ہاتھ میں خالی بالٹی لیے خئی ہائے بند پر چڑھ گیا۔ اس روزجب کام کا اختتام ہوا تھا تو نوجوان لوہار نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا’’خئی ہائے ! میں بھوک سے مر رہا ہوں۔ ایک بالٹی لو اور شمال میں کھیتوں سے شکر قندی اور گاجر لے آؤتاکہ رات کو کھا سکیں۔ ‘‘
خئی ہائے نے نیند بھری آنکھوں سے بوڑھے کی طرف دیکھا جو ایک ہارے ہوئے مرغے کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔
’’کیا دیکھ رہے ہو حرامزادے!‘‘ نوجوان نے حکم دیتے ہوئے کہا’’جیسا کہہ رہا ہوں ویسا کرو۔‘‘
خئی ہائے خالی بالٹی لے کر چلاگیا ۔ جیسے ہی وہ پل کے نیچے سے باہر آیا تو ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اب آسمان کا رنگ بدل چکا تھا کیونکہ اب وہ واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ بند پر دریائی پودوں کی جڑیں اور شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ ہاتھ سے انہیں ہٹاتا ہوا ڈھلوان کے اوپری سرے پر پہنچ گیا۔ اس کے بازو گیلے پتوں کے چھونے کی وجہ سے گیلے ہو چکے تھے اور شاخوں کی کڑوی بُو اسے ناگوار گزر رہی تھی۔ اس کا پاؤں کسی نرم و گرم چیز سے ٹکرایا اور چوں چوں کی آواز آنے لگی۔ یہ ایک تیتر تھا۔ وہ اڑا اور پٹ سن کے کھیت میں جا بیٹھا۔ اس نے سنا کہ جوزی اور مستری اس کا نام پکاررہے ہیں ۔ وہ اندھیرے میں دریا کے بہنے کی آواز اور دور گاؤں میں الو کے بولنے کی آواز بھی سن سکتا تھا۔ اس کی سوتیلی ماں دو چیزوں سے بہت زیادہ ڈرتی تھی : بادلوں کی گرج اور الو کی آواز ۔ وہ دعا کرتا تھا کہ ہر روز بادل گرجیں اور ہر رات اس کی ماں کی کھڑکی میں اُلو بولے ۔ کھیت میں پہنچ کر اس نے بالٹی میں شکر قندی اور چھ گاجریں بھر لیں۔ اس نے ان کے پتے توڑ کر وہیں پھینک دیے ۔ اسی دوران اس کا ٹوٹا ہوا ناخن انگلی سے الگ ہو کر گر گیا۔
’’تم نے خئی ہائے کے ساتھ کیا کیا ؟‘‘ مستری نے نوجوان لوہار سے غصیلے انداز میں پوچھا۔
’’تم کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ کیا وہ تمھارا بیٹا ہے ؟‘‘
’’کہاں ہے وہ ؟‘‘ جوزی نے لوہار کو گھورتے ہوئے پوچھا ۔ ’’صبر کرو۔ وہ شکر قندی لینے گیا ہے ۔ جب وہ آئے گا تو بھون کر کھائیں گے۔ ‘‘ لوہار نے پیار بھرے انداز میں جواب دیا۔
’’تم نے اسے چوری کرنے بھیجا ہے ۔ ؟‘‘
’’کیا مطلب چوری ؟ ہم کون سا گھر لے کرجائیں گے ‘‘ لوہار نے وضاحت پیش کی۔
’’تو تم خود کیوں نہیں گئے پھر ؟‘‘
’’میں اس کا استاد ہوں۔‘‘
’’بکواس!‘‘
’’ایسے تو پھر ایسے ہی سہی ‘‘ لوہار نے کہا۔ اسی دوران خئی ہائے پل کے دہانے پر نظر آیا۔ ’’کہاں چلے گئے تھے تم ؟ البانیہ ؟‘‘
خئی ہائے مڑے ہوئے کندھوں کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے بالٹی اٹھائے آ رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر آ رہا ہے ۔
’’میں نے کہا تھا تھوڑی سی لانا۔ تم تو پوری بالٹی بھر لائے ۔ ‘‘ لوہار نے شکایت کی ۔ ’’جاؤاور تالاب سے گاجریں دھوکر لے آؤ۔‘‘
’’نہیں ‘‘ جوزی نے مداخلت کی ۔ ’’اسے حکم دینا بند کرو ،شکر قندی پکاؤ، میں گاجریں دھو کر لاتی ہوں۔
لوہار نے بھٹی میں آ گ جلاکر وہاں شکر قندی کا ڈھیر لگا دیا۔ جوزی نے گاجریں دھو کر ایک پتھر پر رکھ دیں۔ ایک گاجر نیچے گر گئی۔
’’میں اسے پھر سے دھوکر لاتی ہوں۔ ‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں۔ پانچ بڑی گاجریں کافی ہیں۔‘‘ مستری نے خراب گاجر کو سندان پر رکھتے ہوئے کہا۔ بھُنی ہوئی شکر قندیوں کی مہک ہر طرف پھیل رہی تھی۔ وہ شکنجے سے شکر قندیوں کو پلٹ رہا تھا۔ انہوں نے خوب مزے لے کر شکر قندی اور گاجر کھائی ۔ نوجوان لوہار نے ایک گاجر اور دو شکر قندیاں کھائیں۔ بوڑھے لوہار نے کچھ نہ کھایا اور چپ چاپ بیٹھا رہا۔
’’تم گھر جاؤگے خئی ہائے ؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔ خئی ہائے اپنے ہونٹوں پر لگی شکر قندی کی باقیات پر زبان پھیر رہا تھا۔ اس کے پیٹ سے آواز آئی ’’کیا تمھاری ماں نے دروازہ کھلا رکھا ہوگا؟مستری نے پوچھا تم ادھر ہی گھاس پھوس پرسو سکتے ہو تو گھر کیوں جاتے ہو ؟ ‘‘نوجوان لو ہارنے کہا’’میرے شاگرد بن جاؤ،ہم ساری دنیاکی سیر کریں گے ۔ اچھا کھانا کھائیں گے اور بڑھیا شراب پییں گے!‘‘
اس دوران بوڑھے نے پھر سے وہ ہی گانا گنگنانا شروع کر دیا:
تمھاری محبت تلوار ہے
بن تمھارے زندگی دشوار ہے
چاہے کوئی کچھ بھی کہے
مجھے تم سے پیار ہے
جوزی اور مستری وہاں سے روانہ ہو گئے۔ مستری نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ اس کے گر د لپیٹ کر اس کی چھاتی پر رکھ دیا۔
نوجوان لوہار انگڑائیاں لے رہا تھا۔ اس نے بوڑھے کی ڈکار سن کر ناگواری کا اظہار کیا لیکن جلد ہی اس کا دھیان کسی اور طرف تھا ۔ اس نے مستری کوجوزی کے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھاتھا۔ یہ منظر اس کے دل پر تیر بن کر برس رہا تھا۔ اس کے نتھنوں سے آگ نکل رہی تھی اور وہ مسلسل اپنے دانت پیس رہا تھا۔
خئی ہائے ابھی بھی دھونکنی چلا رہا تھا۔ مٹی میں کچھ کچھ نیلے پیلے شعلے باقی تھے۔ اسی دوران اس کی نظر سندان پر رکھی گاجر پر پڑی۔ اس کی آنکھیں سرچ لائٹ کی طرح گاجر پر اٹک کر رہ گئیں ۔ اسے یہ ایک امرود کی طرح دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کی دم تھی ۔ اس کا ریشہ ریشہ سنہری اون کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ روشنی کی وجہ سے گاجر چمک رہی تھی۔ جیسے ہی خئی ہائے سنہری دکھنے والی گاجر کی جانب بڑھا ،نوجوان لوہار نے بجلی کی سی تیزی سے گاجر اٹھا لی۔ اسی دوران اس کا پاؤں الٹی بالٹی سے ٹکرایا جس سے بوڑھے کا بستر بھیگ گیا ۔ ’’گلی کے کتے ! حرامی ! تم کیا سوچ کر گاجر اٹھا رہے تھے ؟ میرے بد ن میں لگی آگ کو یہ گاجر ہی بجھا سکتی ہے ۔ !’’لوہار نے خئی ہائے کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ جیسے ہی اس نے گاجر کھانے کے لیے منہ کھولا، خئی ہائے نے اچھل کر اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جس سے گاجر دور جاگری ۔ لوہار نے اس کی کمر پر لات رسید کی اور وہ جوزی کے بازوؤں میں جا گرا(اسی دوران جوزی اور مستری واپس آ چکے تھے) مستری نے خئی ہائے کو سہارا دیا۔
بوڑھے لوہار نے گانا بند کیا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔ جوزی اور مستری بھی کھڑے ہو گئے۔ وہ تینوں نوجوان لوہار کو گھور رہے تھے۔ خئی ہائے کا سر چکرا رہا تھا اور اسے ہر چیز گھومتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ نوجوان لوہار گاجر کھا رہاہے۔ اس نے ایک مٹھی میں کوئلہ اٹھایا اور اس کی طرح اچھال دیا جو ا س کے گال کو چھوتا ہوا بوڑھے کے بستر پر جا گرا۔
’’میں تمھیں مار مار کر سیدھا کر دوں گا ‘‘لوہار دھاڑا ’’ہاتھ تو لگا کر دکھاؤ‘‘ مستری نے مداخلت کی۔
’’گاجر واپس کرو ‘‘ جوزی نے کہا۔
’’واپس کردوں؟ کبھی نہیں ۔‘‘ لوہار پل کے نیچے سے بھاگ کر باہر چلا گیا اور پوری قوت سے گاجر کو دور پھینک دیا۔ یہ ہوا میں لہراتی ہوئی دریا میں جا گری ۔
خئی ہائے کی آنکھ میں ایک سنہری دھنک بن گئی اور وہ وہیں لڑکھڑا کر گر گیا۔
……ناولچے کا دوسرا اور آخری حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
Authors
-
نوبیل انعام برائے ادب۔۲۰۱۲ء سے چینی النسل ناول نگار اور افسانہ نگار مَویان کو نوازا گیا کہ’’ وہ اپنی تحریروں میں تخیّلاتی حقائق نگاری کا ادغام فوک داستانوں، تاریخ اور عصرِ حاضر سے کرتے ہیں۔‘‘ سویڈش اکیڈمی کے سربراہ پیٹر این گلنڈ کے مطابق: ’’اُن کا اسلوب اِس قدر لاثانی ہے کہ آدھا صفحہ پڑھتے ہی آپ کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ مَویان ہیں۔‘‘ گیارہ اَکتوبر ۲۰۱۲ء کو سویڈش اکیڈمی کے اعلان کے بعد مَویان یہ انعام جیتنے والے دُنیا کے یک صد نویں اور چین کے دُوسرے ادیب ہیں لیکن چین ہی میں قیام پذیر پہلے ادیب ہیں۔ مَویان سے قبل ۲۰۰۰ء میں ایک چینی ادیب گاؤ چنگ جیان کو یہ انعام مل چکا ہے لیکن وہ فرانس کے شہری تھے۔ مَو یان کا اصل نام گُوآن مَوئے ہے۔ گُوآن اُن کا خاندانی نام ہے جب کہ گھر میں اُنھیں صرف مَو کہہ کر پُکارا جاتا ہے لیکن دُنیا بھر میں اُن کی شہرت اُن کے قلمی نام مَویان سے ہے۔ مَویان کا چینی زبان میں مطلب ہے: ’’چُپ یا خاموش رہو۔‘‘ نیشنل انڈوومنٹ فار ہیومینیٹیز کے چیئرمین جِم لِیچ کو انٹرویو دیتے ہوے گُوان مَوئے نے بتایا کہ یہ نام اُن کے ذہن میں اپنے ماں باپ کی تنبیہہ سے آیا تھا کہ گھر سے باہر اپنے دِل کی بات زبان پر مت لاؤ کیوں کہ اُن کے لڑکپن میں ۱۹۵۰ء سے چین میں سیاسی انقلاب کی صُورتِ حال تھی۔ اُن کے قلمی نام مَویان کا اُن کی تحریروں سے گہرا تعلّق ہے جو چین کی سیاسی اور جنسی زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔ گُوان مَوئے ۱۷ - فروری ۱۹۵۵ء کو مَویان شندونگ صوبے کے گاؤمی ضلع کے دیہی علاقے ڈالان (جسے اُنھوں نے اپنے ناولوں میں گاؤمی ضلع کے ’’شمال مشرقی قصبہ‘‘ کا نام دیا ہے) میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوے۔ ثقافتی انقلاب کے دوران وہ سکول چھوڑ کر پٹرولیم مصنوعات کی ایک فیکٹری میں کام کرنے لگے۔ انقلاب کے بعد وہ پیپلز لِبریشن آرمی میں بھرتی ہوے اور فوج کی ملازمت کے دوران ہی اُنھوں نے لکھنا شروع کر دیا۔ تین سال بعد اُنھیں پیپلز لِبریشن آرمی کی اکادمی برائے فن و ادب کے شعبۂِ ادب میں استاد کی نشست مل گئی جہاں سے ۱۹۸۴ء میں اُنھوں نے اپنا ناولچہ ناول ’’ایک شفاف مولی‘‘ شائع کیا۔ اُنھوں نے ادب میں ماسٹر ڈگری بیجنگ نارمل یونیورسٹی سے حاصل کی۔ مَویان نے بطور مصنف اپنے کیریئر کا آغاز چینی زبان میں اصلاح اور ایک نئے عہد کا آغاز کرنے والی ہزاروں کہانیاں اور ناول لکھ کر کیا۔ اُن کا پہلا ناول ’’موسمِ بہار کی رات کو برف باری‘‘ ۱۹۸۱ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اُن کے لاتعداد ناولوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اُن کے ناول ’’سرخ جوار‘‘ پر اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی۔ توانائی سے بھرپُور مَویان نے اپنا ناول ’’حیات و موت مجھے نوچ رہی ہیں‘‘ صرف ۴۲ دِنوں میں ہاتھ سے لکھ کر مکمل کیا ۔ وہ اپنے ناولوں کو ٹائپ کرنے کی بجائے ہاتھ ہی سے لکھنے پر ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ اُن کا خیال ہے کہ ٹائپ ’’ ذخیرۂِ الفاظ کو محدود کردیتی ہے۔ ویان بین الاقوامی ادب کے تراجم کا مطالعہ کرتے ہیں (کیوں کہ مَویان کی تصانیف کو انگریزی میں ترجمہ کرنے والے ہاورڈ گولڈ بلیٹ کے بقول اُنھیں چینی کے علاوہ کوئی اَور زبان نہیں آتی)اور دُنیا بھر کے ادب کے مطالعے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ اُنھوں نے فرینکفرٹ بُک فیئر ۲۰۰۹ء کی افتتاحی تقریر میں گوئٹے کے نظریے کو یہ کہتے ہوے بیان کیا: ’’ادب ملکوں اور قوموں کے درمیان موجود سرحدوں پر غلبہ پا سکتا ہے۔‘‘مَویان کی تحریریں رزمیہ تاریخی اُسلُوب رکھتی ہیں جس میں تخیّلاتی حقائق نگاری اورمزاح کی پُرکاری کی آمیزش موجود ہے۔ اُنھوں نے انسانی حرص و طمع اور بدعنوانی کو اپنا مستقل موضوع بنایا ہے۔ مَویان کو ملنے والے انعامات و اعزازت کی طویل فہرست ہے ۔ جن میں کِری یاما۔۲۰۰۵ء، ڈاکٹر آف لیٹرز۔۲۰۰۵ء، فیوکوکا ایشین کلچر پرائز۔XVII، نیومین پرائز برائے چینی ادب۔۲۰۰۹، آنریری فیلو ماڈرن لینگوایج ایسوسی ایشن۔۲۰۱۰ء، ماؤ ڈن لٹریچر پرائز۔۲۰۱۱ء اور نوبیل انعام برائے ادب۔۲۰۱۲ء شامل ہیں۔
View all posts -
محمد ریحان، جو ریحان اسلام کو اپنے قلمی نام کے طور پر استعمال کرتے ہیں، کا تعلق ملتان، پاکستان سے ہے۔ انگریزی ادب میں ایم فل کرنے کے بعد، ریحان نے چین میں دو سال تک چینی زبان، ثقافت اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔ واپسی کے بعد اُنھوں نے کچھ عرصہ چینی ترجمان کے طور پر کام کیا۔ اس وقت وہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج، دنیا پور، پنجاب میں انگریزی کے لیکچرار ہیں ۔ اُنھوں نے چینی نوبل انعام یافتہ مو یان کی کہانیوں کے تراجم کا بعنوان ترجمہ ’’مو یان کی کہانیاں ‘‘اور جاپانی ناول نگار ہاروکی موراکامی کے ناول ’’ ساؤتھ آف دی بارڈر، ویسٹ آف دی سن‘‘ کا اردو میں ترجمہ ’’سرحد سے پار، سورج سے پرے‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ ریحان اسلام نے مختلف انگریزی افسانوں کے بھی اردو میں تراجم کیے ہیں جو موقر اردو ادبی جرائد کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔ وہ اردو سے انگریزی میں بھی افسانوں کے تراجم کرتے ہیں جو مختلف قومی و بین الاقوامی جرائد میں اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں۔
View all posts
5 thoughts on “گاجر (پہلاحصہ)”
I am thankful to this platform.
I think this is a great work. He introduced a writer to the general reader whom we have not read before. The story was very lively and did not feel as if it was a translation. I think this is its merit. . And also the argument that Rehan Sahib has access to language.
Congratulations from the bottom of my heart. God bless the pen and more
Great Nawalcha
Great work 👍
So proud of you rehan ❤️
Zabardast lovely