تراجم عالمی ادب

پرتگالی ناول کا باب

وہی نام سارے

حوزے سارا ماگو

(Jose Saramago)

ترجمہ: خالد فتح محمد

تین دنوں کے بجائے جناب حوزے کے بُخار کو اور کھانسی کو ٹھیک ہونے میں پورا ہفتہ لگا۔نرس روزانہ اُسے ٹیکہ لگانے اور کچھ کھانے کے لیے لے کر آتا،ڈاکٹر ایک دِن کے وقفے کے بعد آتا لیکن اِسے ڈاکٹر کااحساسِ ذمہ داری نہیں کہا جاسکتااور نہ ہی محکمہ صحت کے حکام کی کسی تخیلاتی فوری نتیجے میں عمدہ کارروائی پر مامور کیا جاسکتاہے کیوں کہ یہ رجسٹری کے سربراہ کی طرف سے واضح حکم تھا،ڈاکٹر،اِس مریض کا ایسے علاج کرو جیسے کہ تم میرا کررہے ہو،وہ ایک اہم آدمی ہے،ڈاکٹر کو اِس خصوصی توجہ کی وجہ جو اُسے دی جارہی تھی سمجھ میں نہیں آئی اور کیے گئے فیصلے میں معروضیت کی کمی تھی،وہ پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں کئی بار ڈائریکٹر کے گھر گیاتھا،اور اُس نے اُس کازندگی کرنے کا مہذب انداز دیکھا تھا،ایک باطنی دنیا جس کا اِس جاہل قسم کے ،جو داڑھی بھی وقت پر نہیں مونڈتا،کوئی تعلق نہیں،اتنا جاہل کہ اُس نے بستر کی چادر بھی نہیں بدلی۔جناب حوزے کے پاس بستر کی فالتو چادر یں تھیں،وہ اِتنا غریب بھی نہیں تھا،لیکن اُسے خود بھی وجہ معلوم نہیں تھی،اُس نے نرس کی گدے کو دھوپ لگوانے اور بستر کی چادر جن میں پسینے اور بخار کی بدبو تھی،تبدیل کرنے کی پیش کش ردّ کر دی۔صرف پانچ منٹ میں بستر نئے جیسا لگے گا۔ میری فکر مت کرو، میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ جناب حوزے کسی کو یہ نہیں بتا سکتاتھاکہ گدے اور پلنگ کے درمیان میں اُس نے کسی اجنبی عورت کا ریکارڈ اور ایک نوٹ بُک رکھی ہوئی ہے  جس میں اُس سکول میں غیر قانونی طور پر گھسنے کی کہانی ہے جہاں جب وہ بچی اور بعد میں ایک جوان لڑکی تھی، پڑھا کرتی تھی۔اُنھیں کہیں اور رکھنا،مثال کے طور پر اُن فائلوں میں رکھ دینا جن میں اُس نے مشہور لوگوں کے تراشے رکھے ہوئے تھے، فوری طور پر مسئلے کو حل کر دے گا،لیکن ایک راز کی اپنے جسم کے ساتھ حفاظت کرنا خاصا اہم اور سنسنی خیز تھا اور جناب حوزے کے لیے یہ نہ کرنا خاصا مشکل تھا۔نرس اور ڈکٹر کے ساتھ اِس مسئلے پر تبادلہ ٔ خیال نہ کرنا پڑے،جب کہ وہ شکن زدہ چادروں کو تنقیدی نظر سے دیکھ چکے تھے اور ڈاکٹر نے بو پر ناک بھوں  بھی چڑھائی تھی۔جناب حوزے ایک رات اُٹھا اور اُس نے ہمت کرکے بستر کی چادریں تبدیل کیں۔یہ اُس نے اِس لیے کیا کہ ڈاکٹر یا نرس کو اِس موضوع کو اُٹھانے موقع نہ ملے اور کسی وقت وہ ڈائریکٹر کو کلرک کی ناقابل ِ اصلاح ہائیجینی کمی کی اطلاع دے دیں،وہ غسل خانے میں گیا اور داڑھی مونڈی، اچھی طرح سے منہ دھویااور پرانا مگر صاف قمیص اور پائجامہ اوربستر پر جاکے لیٹ گیا۔وہ اپنے آپ کو  خوش اور صحت مند محسوس کر رہاتھا،جیسے کوئی اپنے آپ سے آنکھ مچولی کھیل رہا ہو،اُس نے نوٹ بک میں اپنی اُن ہائیجینی تیاریوں اور علاج کے جس عمل میں سے وہ گزرا تھا کو تفصیلاً لکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ رو بہ صحت ہو رہاتھا جیسا کہ ڈاکٹر نے رجسٹرار کو بتایا،آدمی صحت یاب ہوچکا ہے، بیماری کے دوبارہ حملہ آور ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، اور وہ  دو روز کے بعد کام پر واپس جا سکتا ہے۔رجسٹرار نے صرف اچھا کہا،جیسے وہ کچھ اور سوچ رہا ہو۔

جناب حوزے صحت مند ہو چکا تھا لیکن اُس کے وزن میں کافی کمی ہو گئی تھی،گرچہ نرس باقاعدگی سے کھانا لاتا رہاتھا، دِن میں صرف ایک بارجو ایک بالغ جسم کے لیے،  جو کسی قسم کی ورزش نہ کرتا ہو، کافی تھا۔ یہ ذہن نشین رہے کہ کمزوری اور موٹاپے کے ریشوںپر بخار اور مسلسل پسینے  کے اثرات، خاص کر اِس معاملے میں، کوئی ایسا قابل ِذکر مسئلہ نہیں تھا۔سینٹرل رجسٹری میں ذاتی آرا پسند نہیں کی جاتی تھیں،خاص کر اگر وہ لوگوں کی صحت کے بارے میں ہوں، اِسی لیے جناب حوزے کی جسمانی کمزوری پر نہ تو اُس کے رفقا اور نہ ہی بالا افسران نے کوئی رائے دی،جس نظر سے وہ اُسے دیکھ رہے تھے وہ خاصی فصیح تھی اورجو جارحانہ قسم کی ہمدردی لیے ہوئے تھی،جو لوگ اِس دفتر کے دستور سے شناسائی نہیں رکھتے تھے،وہ اِسے ایک بے صدا سی ناپسندیدگی سمجھیں گے۔لوگ محسوس کریں گے کہ چند دِنوں کی غیر حاضری کے سبب وہ کتنا پریشان تھا،جناب حوزے رجسٹری میں داخلے کی قطار میں سب سے آگے تھا۔سب کو نئے ڈپٹی کا انتظار تھا جو ہرصبح رجسٹری کھولتا اور دِن کے اختتام پر بند کرتا تھا۔اصل چابی جو بُراق قسم کی منقش کندہ گری کرنے والے کے فن کا نمونہ تھااور یہ ایک طرح سے حاکمیت کی بھی نشانی تھی، ایک کم ترنقل جورجسٹرار کے پاس تھی،گو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا،وزن یا دیزائن کی پیچیدگی کی وجہ سے،یا پھر کسی غیر تحریر شدہ پروٹوکول کے مطابق،ایک دستور ِ کہن کی رو سے،وہ عمارت میں داخل ہونے والا آخری آدمی ہوتا ہے، سینٹرل رجسٹری کی زندگی کے اسراروں کے بارے میں کھوجنے کی ضرورت ہوتی اگر ہماری توجہ جناب حوزے اور نا معلوم عورت کی طرف مبذول نہ ہوجاتی،کہ سٹاف کیسے شہر میں ٹریفک کی رکاوٹوں کے باوجودہمیشہ اُسی ترتیب سے دفتر پہنچتا،پہلے کلرک ملازمت کی طوالت کے باوجود،پھر ڈپٹی جو دروازہ کھولتا،سینئر کلرک،ترتیب کے مطابق،پھر سب سے پرانا ڈپٹی اور آخر کار رجسٹرار،تب پہنچتا جب اُس نے پہنچنا ہوتا اور وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔بہرحال یہ حقائق ریکارڈ پر آگئے ہیں۔

ذاتی نوعیت کی ہمدردی  نے جس کے بارے میں ہم بات کر چکے ہیں، جناب حوزے کا استقبال کیا جو رجسٹرار کے آنے تک قائم رہی، رجسٹرار کے دفتر کھلنے کے آدھا گھنٹا بعد میں ہمیشہ آتا تھا، جو فوری طور پر حسد کے احساس میں تبدیل ہوگیا،اُن حالات میں جو قابل ِ قبول بھی تھا،لیکن جو الفاظ یا اعمال سے عیاں نہیں ہو رہاتھا۔اور کیا  توقع کی جا سکتی تھی،انسان کی فطرت جیسی کہ ہے،گو ہم سب کچھ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔سینٹرل رجسٹری میں ایک افواہ گردش میں تھی،پچھلے دروازوں میں سے داخل ہوتے ہوئے،اور اگر سچ کہا جائے ،کونوں کھدروں میں سرگوشیاں ہو رہی تھیں، رجسٹرار کو غیر معمولی طور پر جناب حوزے کے فلو کی پریشانی تھی، یہاں تک کہ نرس کو اُس کے لیے کھانا لے جانے کی بھی ہدایات تھیں،اور کم از کم ایک بار اُسے کمرے میں سب کے سامنے خود ملنے بھی گیا،وہ بھی دفتر کے اوقات میں، اور سب کی موجودگی میں،کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ دوبارہ بھی گیا ہو۔وہاں کام کرنے والے ہر کسی کی مخفی ناپسندیدگی کا اندازہ لگانامشکل نہیں،جب رجسٹرار اپنے ڈیسک پر جانے سے پہلے، جناب حوزے کے پاس اُس کی صحت کے بارے میں جاننے کے لیے رکااور پوچھاکہ کیا وہ اب مکمل طور پر صحت مند ہے۔ ناراضی کی اور وجہ بھی تھی کہ یہ دوسری بار تھاکہ ایسا ہوا تھا۔سب کو اچھی طرح یاد تھاکہ پہلی بار اُس نے جناب حوزے سے پوچھا تھاکہ اُس کی بے خوابی کچھ بہتر ہوئی،جیسے جناب حوزے کی بے خوابی سینٹرل رجسٹری کے معمولات کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہو۔جو سنا اُس کو ہضم کرنا مشکل تھا،سٹاف نے جیسے دو ہم مرتبہ لوگوں کے درمیان میں گفتگو سنی،اگر غور کیاجائے تو مکمل طور پر لایعنی،جناب حوزے رجسٹرار کا اُس کی عنایات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے،یہاں تک کہ اُس نے کھانے کا بھی ذکر کیا،سینٹرل رجسٹری کے سخت ماحول میں جو،ایک طرح سے اُس کی بے حرمتی اور بے ہودگی تھی،رجسٹرار صفائی دے رہا تھاکہ وہ اُسے ایک مجرد آدمی کے مقدر کے کیسے حوالے کرسکتا تھاجسے سوپ کا پیالہ دینے یا بستر کی شکنیں دور کرنے والا میسر نہ ہو،رجسٹرار نے سنجیدگی سے بات جاری رکھی،جناب حوزے،تنہائی کبھی اچھی صحبت ثابت نہیں ہوتی،گہری اُداسی،بڑے لالچ اور غلطیاں زندگی میں اکیلے ہونے کی پیداوار ہیں،جب ہم معمول سے ہٹی ہوئی کسی اُلجھن کا شکار ہوں تومشورہ دینے کے لیے کوئی محتاط دوست نہ ہوتومسائل پیدا ہوتے ہیں۔جناب میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں اُداس ہوں،میں فطرتاً تنہائی پسند ہوں،جسے کبھی بھی طرح ایک کمی نہیں کہاجا سکتا،جہاں تک لالچ کا تعلق ہے تو اپنی عمر اور حالات کی مطابقت سے میرا اُس طرف اتنا رجحان نہیں ہے،میرا مطلب ہے کہ میں اُن کا متلاشی نہیں اور وہ بھی میرے کھوج میں نہیں۔غلطیوں کے بارے میں کیا خیال ہے،جناب ،کیا آپ کام کی غلطیوں کی بات کر رہے ہیں،نہیں ،میں زندگی میں ہونے والی عمومی غلطیوں کی بات کر رہاہوں،کام کی غلطیاں تو محکمانہ ہیں جن کا تدارک محکمہ خود کر لیتا ہے،میں بس اِتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، کم از کم جان بوجھ کر نہیں،اپنے خلاف کی گئی غلطیوں کے بارے میں کیا خیال ہے،وہ مجھ سے بہت سرزد ہوئی ہوں گی،شایداِسی لیے میں اکیلا ہوں تاکہ مزید غلطیاں کر سکوں،اور وہ غلطیاں تنہائی کی پیداوار ہوں گی۔جیسا کہ اس  کا فرض تھا ،جیسے ہی رجسٹرار نزدیک پہنچا، جناب حوزے اُٹھ کھڑا ہوا،اُس کی ٹانگیں اُس کے لیے بھاری ہو گئیں، اور اُس کا سارا جسم پسینے میں نہا گیا۔ اُس کا رنگ زرد ہوگیا اور کھڑا رہنے کے لیے اُس کے ہاتھوں نے ڈیسک کا سہاراڈھونڈا جو کافی نہیں تھا، جناب حوزے کو معاف کیجے جناب،  معاف کیجے جناب، بُڑبڑاتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھنا پڑا۔ رجسٹرار  چند سیکنڈ کے لیے اُسے غصیلی نظر سے دیکھتے ہوئے اپنے ڈیسک پر چلا گیا۔  اُس نے جناب حوزے کے سیکشن کے ذمہ دار ڈپٹی کو بلایا اور اُسے ایک دبا دبا ساحکم دیا،اور پھر بلند آواز میں کہا،سرکاری باقاعدگیوں میں سے گزرنے کی ضرورت نہیں،اِس کا مطلب تھاکہ ایک کلرک کے بارے میں ڈپٹی نے جو ہدایات موصول کی ہیں ،تمام قوائد و ضوابط کے خلاف ،خود ہی اُن کی چھان بین کرے گا۔درجہ بندی کے اصول کی ایک بار پہلے بھی بار خلاف ورزی ہوئی تھی،جب اِسی ڈپٹی کو رجسٹرار نے حکم دیا تھاکہ وہ جناب حوزے کو گولیاں پہنچائے،اِس خلاف ورزی کاجواز وہ شک تھاکہ سینئر کلرک جسے ایک بیمار آدمی کو فلو ختم کرنے والی گولیاں دینا تھی،یہ کام خوش اسلوبی سے سر انجام نہیں دے سکے گا،کیوں کہ اُس نے گھر پر ایک تفصیلی نظر ڈال کر واپس اطلاع کرنی تھی، کیوں کہ سینئر کلرک فرش پر گیلے داغ کو عین مناسب سمجھے گاکہ یہ اُس وقت جاری سرد موسم کی وجہ سے ہوا ہے، اُس نے بستر کے ساتھ رکھی میز پر سینٹرل رجسٹری کے کارڈ بھی نہیں دیکھنے تھے،وہ سینٹرل رجسٹری کو واپس خوش خوش چلا جائے گاکہ اُس نے اپنی ذمے داری پوری کر دی ہے، اور جاکر اعلان کرے گا کہ ایسا کچھ غیر معمولی نہیں  تھا جس کی اطلاع دی جائے، جناب، وہاں کچھ قابل ذکر نہیں تھا، دونوں ڈپٹیوں نے ،خاص کروہ  جو اِس مسئلے میں براہ ِراست ملوث تھے،محسوس کیا کہ رجسٹرار کے اِس رویے کے پیچھے ایک مقصد تھا،ایک چال ، ایک سوچ تھی ۔ وہ یہ تصور میں نہیں لا سکے کہ سوچ یا مقصد کیا ہو سکتے ہیں،لیکن اُن کا تمام تر تجربہ اور اپنے باس کے متعلق جانکاری اُن کے لیے اشارہ تھا،اِس مسئلے میں،ہر لفظ اورعمل لازمی طور پر ایک طرف اشارہ تھا،اور جناب حوزے نے اپنے عمل یا محض اتفاق سے،اُس راستے پرخود کو ڈال دیا تھا،اور نا سمجھی سے یا خود ہی اِس کاسبب بن گیا۔ ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل، اِتنے متضاد احساسات، مطلب کہ جس لب و لہجے میں جناب حوزے کو یہ حکم پہنچایا گیا،اُس سے محسوس ہوتاتھاکہ رجسٹرار اُس  پر ایک احسان کر  رہا ہے، جب کہ یہ واضح ہدایات کے بر عکس تھا، جناب حوزے،ڈپٹی نے کہا، رجسٹرار نے کہا کہ ابھی چند لمحوں پہلے تمھیں بے ہوشی کا دورہ ثابت کرتا ہے کہ تم ابھی دفترمیں کام کرنے کے قابل نہیں ہو،یہ بے ہوشی کا دورہ نہیں تھا، میں بے ہوش نہیں ہواتھاتھا، بس ایک لمحاتی کمزوری تھی، کمزوری یا بے ہوشی کا دورہ، عارضی یا مستقل، سینٹرل رجسٹری خواہش مند ہے کہ تم مکمل صحت یاب ہو کے کام کرو، میں جتنا بھی ہو سکا کام کروں گا، اوریقینا چند دنوں میں مکمل صحت یاب ہو جاؤں گا۔ رجسٹرار کا خیال ہے کہ بہتر یہ رہے گا کہ تم چند دِن کی چھٹی لے لو،اپنا بیس دِنوں کا مکمل کوٹہ نہیں،دس دِن،دس دِن آرام کرنے اور خوب کھانے کے لیے،شہر کے چند چکر لگاؤ، باغ اور پارک ہیں، وہاں گھومو، موسم بھی اچھا ہے، اور صحت مند ہونے کے لیے عمدہ، جب تم واپس کام پر آئے تو ہم تمھیں پہچان ہی نہیں پائیں گے۔ جناب حوزے نے ڈپٹی کی طرف حیرت سے دیکھا،ڈپٹی ایک کلرک کے ساتھ ایسی گفتگو نہیں کرتا تھا،  اِس مسئلے میں کہیں کچھ نامناسب تھا۔  ظاہر ہے رجسٹرار چاہتا تھاکہ وہ چھٹی پر جائے، جو کہ بذات خود حیران کُن تھا،جیسے یہی ہی کافی نہیں تھا،  وہ اُس کی صحت میں غیر معمولی اور غیر متناسب دل چسپی لے رہاتھا۔  یہ سینٹرل رجسٹری کے رویو ں کے مطابق نہیں تھا، وہاں چھٹیوں کی ہمیشہ نہایت احتیاط کے منصوبہ بندی کی جاتی تھی، اور متعدد پہلوؤں کو مد ِنظررکھا جاتا تھا، جن میں سے کچھ کا علم صرف رجسٹرار کو تھا، اور سالانہ چھٹی کے دورانیہ کی منصفانہ تقسیم کی جاتی تھی۔یہ پہلے کبھی نہیں ہواتھاکہ رجسٹرار رواں سال کے چھٹیوں کے منصوبے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک کلرک کو آرام کرنے کے لیے گھر بھیجے۔جناب حوزے اُلجھاؤ کا شکار تھاجو اُس کے چہرے پر ظاہر تھا۔ وہ رفقاکار کی اُلجھی ہوئی نظریں اپنی کمر پر محسوس کر سکتا تھا،ڈپٹی اُس کے کوئی فیصلہ نہ کرسکنے کی اہلیت سے بے چین ہونا شروع ہوگیاتھا، وہ ابھی کہنے والا تھاکہ بہتر جناب ،جیسے کسی حکم کی تعمیل کر رہاہو، جیسے اچانک اُسے اپنا چہرہ روشن ہوتا محسوس ہوا،اُسے ابھی محسوس ہوا کہ دس دِنوں کی آزادی اُس کے لیے  خاصی سوُد مند ہوسکتی تھی، اِن دنوں میں وہ اپنی تفتیش جاری رکھ سکتاتھا،اُسے دفتر کے قوائد و ضوابط کی کوئی پابندی نہیں ہوگی،وہ معمول سے آزاد ہوگا،پارک ،باغ اور صحت یاب ہونا بھاڑ میں گئے،خدا اُس پر رحم کرے جس نے بھی فلو ایجاد کیا،اور سو جناب حوزے بے ساختہ مسکرا دیا،جی جناب،اُسے اپنا اظہار کرتے ہوئے محتاط ہونا چاہیے تھا،کچھ خبر نہیں کہ ڈپٹی جاکے رجسٹرار کو کیابتائے،میری رائے میں ،اُس کا ردِّعمل عجیب تھا،پہلے تو وہ پریشان نظر آیا،اور یا شاید اُسے سمجھ نہیں آئی کہ میں نے کیا کہاتھا،اور پھر ایسے تھاکہ جیسے اُس کی لاٹری میں پہلی پوزیشن آئی ہو،وہ اب ایک نیا آدمی تھا۔ تمھیں کوئی اندازہ ہے کہ وہ جوا کھیلتا ہے،میرا نہیں خیال، یہ صرف اُس کابات کرنے کااندازہ تھا، پھر کچھ اور وجہ ہوگی۔ جناب حوزے ڈپٹی کو بتا رہاتھا،چند دِن چھٹی کرنا میرے لیے کافی سود مند ہوگا،رجسٹرار کا میری طرف سے شکریہ ادا کریں، میں تمھارا شکریہ اُس تک پہنچا دوں گا، غالباً مجھے خود ایسا کرنا چاہیے،تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ایسا دستور نہیں۔ بہر حال مسئلے کی نوعیت ہی غیر معمولی تھی،اور یہ الفاظ کہنے کے بعد،افسر شاہی لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے،نہایت مناسب الفاظ تھے،جناب حوزے اُس طرف مڑا جہاں رجسٹرار بیٹھا ہوا تھا،اُسے اُمید نہیں تھی کہ وہ اُس کی طرف دیکھ رہا ہوگا،اور یہ بھی کہ وہ اُس کی گفتگو سُن رہا ہوگا،اُس نے اپنے ہاتھ کے اچانک اشارے سے یہی ظاہر کیا،اُکتاہت اور تکبر بھرے انداز میں،جیسے کہہ رہا ہو،ممنونیت بھرے الفاظ کی ضرورت نہیں،اپنا فارم بھرو اور جاؤ۔

کمرے واپس آنے کے بعد اُسے اپنے کپڑوں کی فکر تھی جنھیں الماری کے بجائے ایک طاقچے میں رکھا ہواتھا۔وہ پہلے بھی صاف نہیں تھے،اب تو واقعی گندگی میں تبدیل ہوگئے تھے،اُن میں سے ترش بُو اُٹھ رہی تھی اورساتھ ہی پھپھوندی کے جھونکے بھی،تہوں میں کائی لگنا شروع ہو گئی تھی،ذرا سوچیں، ایک گیلی گٹھری،کوٹ،قمیص، پتلون، موزے، زیر جامہ،  تمام کوبرساتی کوٹ میں لپیٹ دیا گیاتھاجو اُس وقت پانی سے نُچڑا ہواتھا، ایک ہفتے کے بعد اُن کی بھلا کیا حالت ہوگی۔ اُس نے سب کو پلاسٹک کے تھیلے میں ٹھونسا، اور یقین کیا کہ کارڈ اور نوٹ بک گدے اور پلنگ کی چوکی کے درمیان رکھے ہوئے ہیں،نوٹ بک سرہانے اور کارڈ پائنتی کی طرف،اُس نے یہ بھی یقین کیا سینٹرل رجسٹری میں کھلنے والے دروازے کو تالا لگا ہوا ہے، گو وہ تھکا ہواتھا،لیکن پر سکون دماغ کے ساتھ وہ نزدیک والی لانڈری کی طرف، جس کا وہ گاہک تھا،چل پڑا، گو وہ کم ہی جاتا تھا، وہاں عورت نے جب تھیلاخالی کیا تو اپنی ناپسندیدگی چھپا نہ سکی، معذرت کے ساتھ،کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ اِس لباس کو کیچڑ میں لتھیڑا گیا ہے، تم زیادہ غلط بھی نہیں ہو، جناب حوزے نے جھوٹ بولنا تھاسو اُس نے اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے بولنے کا فیصلہ کیا، دو ہفتے قبل جب میں اِنہیں صفائی کے لیے لایا تھاتو تھیلااچانک پھٹ گیااور یہ ایک کیچڑ کی بڑی چھپڑی میں گر گئے جو سڑک پر کام ہونے کی وجہ سے بن گئی تھی،تمھیں یاد ہوگا کہ تب بارش کتنی تھی،کپڑے ایک دم کیوں نہیں لائے گئے،میں فلو کی وجہ سے کمرے میں بند ہو کر رہ گیاتھا،میں باہر آنے کا سوچ بھی نہیں سکتاتھا، مجھے نمونیا ہو سکتاتھا،اِس بار کچھ خرچ زیادہ آئے گا،مشین میں دوبار ڈالنا پڑیں گے اور پھر بھی،پریشانی کی کوئی بات نہیں،اور پتلون کی حالت دیکھی ہے،کیا یہ صاف کیے جانے کے قابل ہے،مطلب کہ گھٹنوں پر سے یہ پھٹی ہوئی ہے،لگ رہاہے کہ اِسے دیوار کے ساتھ رگڑا گیاہے۔ جناب حوزے نے غور ہی نہیں کیا تھاکہ دیوار پر چڑھنے کی وجہ سے پتلون کی حالت خستہ ہو گئی تھی، گھٹنوں پر سے پھٹ گئی تھی، اور ایک ٹانگ بھی معمولی سا پھٹی ہوئی تھی،  یہ اُس جیسے شخص کے لیے ایک قابلِ غور مسئلہ تھا،جس کے پاس لباس کی کمی تھی، اِس کا کچھ کیا جا سکتا ہے، اُس نے پوچھا،میں کچھ کروں گی،  اِسے رفوگر کے پاس بھیجنا ہو گا، یہ اتنا سستا نہیں ہوگا،  نظر نہ آنے والے رفو کا کام کرنے والے خاصے مہنگے ہیں، بغیر پتلون کے ہونے سے یہ بہتر ہے،یا پھر ہم اِسے سی سکتے ہیں،  اگر سیا گیاتو پھر میں اِسے صرف گھر میں ہی پہن سکوں گا، میں کام پر نہیں پہن سکوں گا، بالکل بھی نہیں،میں سینٹرل رجسٹری میں کام کرتا ہوں، تم سینٹرل رجسٹری میں کام کرتے ہو، عورت کی آواز میں ایک احترام تھا جسے جناب حوزے نے نظر انداز کر نا بہتر جانا، اُس نے اپنے کام کرنے کی جگہ کاپہلی بار کسی کو بتایاتھااوراُسے اپنے غیر محتاط رویے پر حیرت بھی ہوئی، ایک پیشہ ور چور کبھی اپنی نشانیاں نہیں چھوڑتا،  اگر لانڈری والی عورت اُس لوہار کی بیوی ہوئی جس سے اُس نے شیشہ کاٹنے والاکٹر خریدا تھایا وہ قسائی جس سے اُس نے چربی خریدی تھی، یا معمول کی گفتگو جو میاں بیوی کے درمیان میں ہوتی ہے اور جس سے وہ اپنی شامیں گزارتے ہیں،اُن میں سے کوئی ایسا ذکر کردے جو اُس نے اپنے کاروبار کے درمیان میں سنی ہوں، کئی مجرم، جنھیں یقین تھاکہ ہر شک سے بالا ہیں،کافی چھوٹے جرم کے لیے جیل گئے۔ بہر حال یہاں کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا،اگر عورت کے الفاظ میں کہیں کوئی حقیر قسم کا ارادہ کا نہ چھپا ہو،اُس کے ہونٹوں پر ایک مہربان مسکراہٹ تھی،جس کی وجہ سے اُسے خصوصی انعام دیاجائے گا،لانڈری رفو کی قیمت خود ادا کرے گی،کیوں کہ محترم سینٹرل رجسٹری میں کام کرتے تھے،عورت نے وضاحت کی۔جناب حوزے نے احترام مگر غیر موثرانداز میں شکریہ ادا کیا۔ وہ نا خوش تھا۔وہ شہر میں متعدد نشانات چھوڑتا جا رہاتھا،بہت سارے لوگوں کے ساتھ اُس کی بات چیت ہو رہی تھی،اُس نے اِس قسم کی تفتیش کے بارے میں نہیں سوچا تھا،سچی بات کہی جائے تو اُس نے کچھ سوچا ہی نہیں تھا،یہ خیال تو اُسے اب آیا تھا،کہ نامعلوم عورت کو کسی کو اُس کی کوششوں کی خبر ہوئے بغیر کیسے ڈھونڈے، یہ ایسے ہی تھا جیسے ایک نظر نہ آنے والی کسی دوسری ایسی ہی ہستی کو ڈھونڈے۔ ایک مکمل راز ہونے کے باوجود،جو اَسرار میں گھرا ہو،دو لوگ ایسے تھے جنھیں اُس کی مہم کے بارے میں علم تھا،حاسد شوہر کی بیوی اور زمینی منزل کے اپارٹمنٹ کی رہائشی بزرگ خاتون،اور اُن کا جاننا بذات خود ایک خطرہ تھا،مثال کے طور پر ، ہم یہ فرض کر لیں،کہ اُن میں سے کوئی ایک،قابلِ تحسین مقصد کے ساتھ کہ وہ اُس کی مدد کرنا چاہتی ہے،جیسا کہ اچھے شہریوں کوکرنا چاہیے، اُس کی غیر حاضری کے دنوں میں سینٹرل رجسٹری میں پہنچ جائے، میں نے جناب حوزے سے ملاقات کرنی ہے،جناب حوزے موجود نہیں، وہ چھٹی پر ہے، یہ تو اچھا نہیں ہوا، میرے پاس اُس شخص کے بارے میں اطلاع ہے جس کی وہ تلاش میں تھا، کون سی اطلاع،  کون شخص،ج ناب حوزے سوچنا ہی نہیں چاہتا تھاکہ بعد میں کیا ہوا ہو گا، یعنی حاسد خاوند کی بیوی اور سینئر کلرک کے درمیان میں گفتگو،مجھے اپنے کمرے کے فرش کے ایک تھوڑا اُکھڑے پھٹے کے نیچے ایک جریدہ ملا،تمھارا مطلب ایک رسالہ، نہیں جناب، ایک جریدہ، ڈائری، ایک ایسی چیز جو لوگ لکھا کرتے تھے،  میں بھی شادی سے پہلے لکھا کرتی تھی، اُس کا ہمارے ساتھ، یہاں سینٹرل رجسٹری سے کیا واسطہ ہے، ہمیں تو صرف کسی کی پیدائش یا موت میں دل چسپی ہے،شاید ڈائری اُس کے کسی رشتے دار کی ہے جس کی جناب حوزے کی تلاش تھی، میرے علم میں نہیں کہ جناب حوزے کسی کو کھوج رہا تھا، اِس کے علاوہ اِس معاملے کاسینٹرل رجسٹری سے کیا واسطہ، سینٹرل رجسٹری کا اپنے عملے کی ذاتی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ذاتی نہیں، جناب حوزے نے مجھے بتایاکہ وہ سینٹرل رجسٹری کی نمائندگی کر رہا ہے، وہیں انتظار کرو، میں ڈپٹی کو بلاتا ہوں، جب ڈپٹی کاؤنٹر پرآیا ، لیکن تب تک زمینی منزل والی بزرگ خاتون دفتر سے نکل رہی تھی، زندگی نے اُسے سکھایا تھاکہ اپنے رازوں کی حفاظت کرنے کا بہترین طریقہ دوسروں کے راز چھپانے میں تھا،جناب حوزے جب چھٹی سے آئے تو مہربانی کر کے اُسے بتا دیناکہ زمینی منزل والے اپارٹمنٹ والی بزرگ خاتون آئی تھی، تم اپنا نام بتانا نہیں چاہو گی،ضروری نہیں ،وہ سمجھ جائے گا۔جناب حوزے مطمئن رہ سکتا ہے، زمینی منزل والے اپارٹمنٹ والی بزرگ خاتون سمجھ دار تھی، وہ ڈپٹی کو کبھی نہیں بتائے گی کہ اُسے اپنی منہ بولی بیٹی کا خط موصول ہوا ہے، زکام نے میرے داماغ کو کمزور کر دیا ہے، اُس نے سوچا،یہ تو صرف فینٹیسیاں ہیں،فرش کے پھٹوں کے نیچے کوئی ڈائریاں نہیں چھپی ہوئی ہیں، اِتنے سالوں کی خاموشی کے بعد وہ اپنی دینی ماں (گوڈ مدر)  کو خط لکھنے کاکیوں سوچے گی، جس طرح بزرگ خاتون نے اپنا نام بتانا مناسب نہیں سمجھا،  سینٹرل رجسٹری کوسب کچھ جاننے کے لیے اِس کمزور حصے کو ہاتھ میں لینا ہوگا۔ ریکارڈ کارڈ نقل کرنا،خط کی جعل سازی،اُن کے لیے یہ معما دیکھتے ہی حل کرنا آسان ہو گا۔ جناب حوزے واپس گھرگیا۔پہلے دِن اُس نے ڈپٹی کی دی ہوئی ہدایات پر عمل نہیں کیا تھا۔کہ وہ باغ میں جائے،سورج میں گھومے پھرے تاکہ بخار نے اُس کی جو طاقت نچوڑ لی تھی، واپس مل جائے،اُسے فیصلہ کرنا ہوگا کہ اب وہ آگے کیسے بڑھے،لیکن اُسے ایک اُلجھن کا حل نکالنا تھا۔ اُس نے اپنا گھر سینٹرل رجسٹری کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا،دیو ہیکل دیوار کے ساتھ ایسے چمٹا ہوا جیسے وہ نگلا ہی جائے گا۔بخار کے کچھ اثرات ابھی تک اُس کے دماغ میں باقی رہے ہوں گے،کچھ ایسا ہی عملے کے دوسرے گھروں کے ساتھ ہو اہوگا۔ جناب حوزے نے اپنی رفتا تیز کردی کہ مبادا جب وہ پہنچے توگھر غائب ہوگیاہو،ریکارڈ کارڈ اور نوٹ بُک سمیت،وہ ایسی بدقسمتی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا،کتنے ہفتوں کی کوشش خاک میں مِل جائے گی،جن خطرات کو اُس نے مول لیابے کار ہو جائیں گے۔متجسس لوگ پوچھیں گے کہ اِس تباہی میں اُس کا کچھ قیمتی تو ضائع نہیں ہوا،وہ کہے گا کہ ہاں،وہ کہے کہ کچھ کاغذات اور وہ پھر پوچھیں گے،کوئی شئیرز،بونڈ،کریڈٹ کارڈ وغیرہ، عام لوگوں کو یہ پہلا خیال آئے گا، کسی قسم کی روحانیت کے بغیرلوگ،جن کے پیش نظر صرف مادی مفادات اور فائدے ہوتے ہیں،وہ ہاں کہے گا جب کہ ذہنی طور پر الفاظ کو مختلف معنی دے رہا ہوگا،دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں یہ اُن کا حصہ ہوں گے، تعلق جو اُن کے درمیان میں قائم ہو رہا ہے،اعتماد جو اُس نے حاصل کیا ہے۔

گھر وہیں پر تھا لیکن یہ کافی چھوٹا لگا،ایسا نہ ہوا ہو کہ اِن چند گھنٹوں میں سینٹرل رجسٹری کافی بڑی ہو گئی ہو۔ جناب حوزے اندر داخل ہوا،اُس نے اندر داخل ہوتے ہوئے اپنا سر جھکایا، گو اِس کی ضرورت نہیں تھی،گلی والے دروزے کی اونچائی اُتنی ہی جتنی کہ ہونی چاہیے تھی،اور جہان تک دیکھنا ممکن تھا،اُن شیئرز، بونڈز اور کریڈٹ کارڈوں نے اُس کے جسمانی حجم میں اضافہ نہیں کیا تھا۔اُس نے درمیان والے دروازے کے ساتھ کان لگائے، اِس لیے نہیں کہ دوسری طرف سے اُسے کوئی آواز آنے کی اُمید تھی،سینٹرل رجسٹری میں خاموشی سے کام کرنے کی روایت تھی،لیکن یہ اُس شک کو کم کرنے کے لیے کیاتھاجو رجسٹرار کے اُسے چھٹی دینے کے حکم سے پیدا ہوا تھا۔اُس نے گدا اُٹھایااور کارڈ لے کر اُنھیں میز پر تاریخ وارترتیب سے رکھا،سب سے پرانے سے لے کر نئے تک،تیرہ چھوٹے چھوٹے مستطیل،چھوٹے سے بڑے بچے تک، آغازِ شباب سے لے کر مکمل عورت بننے تک۔ اِس دوران میں خاندان نے تین بار نقل مکانی کی،لیکن اتنا دور کبھی گئے کہ اُسے سکول تبدیل کرنا پڑے۔ کسی منصوبے کی پیچیدگیوں میں اُلجھنے کی ضرورت نہیں تھی،اب جناب حوزے کو کارڈ پردیے آخری پتے پر پہنچنے کی ضرورت تھی۔

 

:::

پرتگالی ناول کا باب

وہی نام سارے

حوزے سارا ماگو

(Jose Saramago)

ترجمہ: خالد فتح محمد

تین دنوں کے بجائے جناب حوزے کے بُخار کو اور کھانسی کو ٹھیک ہونے میں پورا ہفتہ لگا۔نرس روزانہ اُسے ٹیکہ لگانے اور کچھ کھانے کے لیے لے کر آتا،ڈاکٹر ایک دِن کے وقفے کے بعد آتا لیکن اِسے ڈاکٹر کااحساسِ ذمہ داری نہیں کہا جاسکتااور نہ ہی محکمہ صحت کے حکام کی کسی تخیلاتی فوری نتیجے میں عمدہ کارروائی پر مامور کیا جاسکتاہے کیوں کہ یہ رجسٹری کے سربراہ کی طرف سے واضح حکم تھا،ڈاکٹر،اِس مریض کا ایسے علاج کرو جیسے کہ تم میرا کررہے ہو،وہ ایک اہم آدمی ہے،ڈاکٹر کو اِس خصوصی توجہ کی وجہ جو اُسے دی جارہی تھی سمجھ میں نہیں آئی اور کیے گئے فیصلے میں معروضیت کی کمی تھی،وہ پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں کئی بار ڈائریکٹر کے گھر گیاتھا،اور اُس نے اُس کازندگی کرنے کا مہذب انداز دیکھا تھا،ایک باطنی دنیا جس کا اِس جاہل قسم کے ،جو داڑھی بھی وقت پر نہیں مونڈتا،کوئی تعلق نہیں،اتنا جاہل کہ اُس نے بستر کی چادر بھی نہیں بدلی۔جناب حوزے کے پاس بستر کی فالتو چادر یں تھیں،وہ اِتنا غریب بھی نہیں تھا،لیکن اُسے خود بھی وجہ معلوم نہیں تھی،اُس نے نرس کی گدے کو دھوپ لگوانے اور بستر کی چادر جن میں پسینے اور بخار کی بدبو تھی،تبدیل کرنے کی پیش کش ردّ کر دی۔صرف پانچ منٹ میں بستر نئے جیسا لگے گا۔ میری فکر مت کرو، میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ جناب حوزے کسی کو یہ نہیں بتا سکتاتھاکہ گدے اور پلنگ کے درمیان میں اُس نے کسی اجنبی عورت کا ریکارڈ اور ایک نوٹ بُک رکھی ہوئی ہے  جس میں اُس سکول میں غیر قانونی طور پر گھسنے کی کہانی ہے جہاں جب وہ بچی اور بعد میں ایک جوان لڑکی تھی، پڑھا کرتی تھی۔اُنھیں کہیں اور رکھنا،مثال کے طور پر اُن فائلوں میں رکھ دینا جن میں اُس نے مشہور لوگوں کے تراشے رکھے ہوئے تھے، فوری طور پر مسئلے کو حل کر دے گا،لیکن ایک راز کی اپنے جسم کے ساتھ حفاظت کرنا خاصا اہم اور سنسنی خیز تھا اور جناب حوزے کے لیے یہ نہ کرنا خاصا مشکل تھا۔نرس اور ڈکٹر کے ساتھ اِس مسئلے پر تبادلہ ٔ خیال نہ کرنا پڑے،جب کہ وہ شکن زدہ چادروں کو تنقیدی نظر سے دیکھ چکے تھے اور ڈاکٹر نے بو پر ناک بھوں  بھی چڑھائی تھی۔جناب حوزے ایک رات اُٹھا اور اُس نے ہمت کرکے بستر کی چادریں تبدیل کیں۔یہ اُس نے اِس لیے کیا کہ ڈاکٹر یا نرس کو اِس موضوع کو اُٹھانے موقع نہ ملے اور کسی وقت وہ ڈائریکٹر کو کلرک کی ناقابل ِ اصلاح ہائیجینی کمی کی اطلاع دے دیں،وہ غسل خانے میں گیا اور داڑھی مونڈی، اچھی طرح سے منہ دھویااور پرانا مگر صاف قمیص اور پائجامہ اوربستر پر جاکے لیٹ گیا۔وہ اپنے آپ کو  خوش اور صحت مند محسوس کر رہاتھا،جیسے کوئی اپنے آپ سے آنکھ مچولی کھیل رہا ہو،اُس نے نوٹ بک میں اپنی اُن ہائیجینی تیاریوں اور علاج کے جس عمل میں سے وہ گزرا تھا کو تفصیلاً لکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ رو بہ صحت ہو رہاتھا جیسا کہ ڈاکٹر نے رجسٹرار کو بتایا،آدمی صحت یاب ہوچکا ہے، بیماری کے دوبارہ حملہ آور ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، اور وہ  دو روز کے بعد کام پر واپس جا سکتا ہے۔رجسٹرار نے صرف اچھا کہا،جیسے وہ کچھ اور سوچ رہا ہو۔

جناب حوزے صحت مند ہو چکا تھا لیکن اُس کے وزن میں کافی کمی ہو گئی تھی،گرچہ نرس باقاعدگی سے کھانا لاتا رہاتھا، دِن میں صرف ایک بارجو ایک بالغ جسم کے لیے،  جو کسی قسم کی ورزش نہ کرتا ہو، کافی تھا۔ یہ ذہن نشین رہے کہ کمزوری اور موٹاپے کے ریشوںپر بخار اور مسلسل پسینے  کے اثرات، خاص کر اِس معاملے میں، کوئی ایسا قابل ِذکر مسئلہ نہیں تھا۔سینٹرل رجسٹری میں ذاتی آرا پسند نہیں کی جاتی تھیں،خاص کر اگر وہ لوگوں کی صحت کے بارے میں ہوں، اِسی لیے جناب حوزے کی جسمانی کمزوری پر نہ تو اُس کے رفقا اور نہ ہی بالا افسران نے کوئی رائے دی،جس نظر سے وہ اُسے دیکھ رہے تھے وہ خاصی فصیح تھی اورجو جارحانہ قسم کی ہمدردی لیے ہوئے تھی،جو لوگ اِس دفتر کے دستور سے شناسائی نہیں رکھتے تھے،وہ اِسے ایک بے صدا سی ناپسندیدگی سمجھیں گے۔لوگ محسوس کریں گے کہ چند دِنوں کی غیر حاضری کے سبب وہ کتنا پریشان تھا،جناب حوزے رجسٹری میں داخلے کی قطار میں سب سے آگے تھا۔سب کو نئے ڈپٹی کا انتظار تھا جو ہرصبح رجسٹری کھولتا اور دِن کے اختتام پر بند کرتا تھا۔اصل چابی جو بُراق قسم کی منقش کندہ گری کرنے والے کے فن کا نمونہ تھااور یہ ایک طرح سے حاکمیت کی بھی نشانی تھی، ایک کم ترنقل جورجسٹرار کے پاس تھی،گو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا،وزن یا دیزائن کی پیچیدگی کی وجہ سے،یا پھر کسی غیر تحریر شدہ پروٹوکول کے مطابق،ایک دستور ِ کہن کی رو سے،وہ عمارت میں داخل ہونے والا آخری آدمی ہوتا ہے، سینٹرل رجسٹری کی زندگی کے اسراروں کے بارے میں کھوجنے کی ضرورت ہوتی اگر ہماری توجہ جناب حوزے اور نا معلوم عورت کی طرف مبذول نہ ہوجاتی،کہ سٹاف کیسے شہر میں ٹریفک کی رکاوٹوں کے باوجودہمیشہ اُسی ترتیب سے دفتر پہنچتا،پہلے کلرک ملازمت کی طوالت کے باوجود،پھر ڈپٹی جو دروازہ کھولتا،سینئر کلرک،ترتیب کے مطابق،پھر سب سے پرانا ڈپٹی اور آخر کار رجسٹرار،تب پہنچتا جب اُس نے پہنچنا ہوتا اور وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھا۔بہرحال یہ حقائق ریکارڈ پر آگئے ہیں۔

ذاتی نوعیت کی ہمدردی  نے جس کے بارے میں ہم بات کر چکے ہیں، جناب حوزے کا استقبال کیا جو رجسٹرار کے آنے تک قائم رہی، رجسٹرار کے دفتر کھلنے کے آدھا گھنٹا بعد میں ہمیشہ آتا تھا، جو فوری طور پر حسد کے احساس میں تبدیل ہوگیا،اُن حالات میں جو قابل ِ قبول بھی تھا،لیکن جو الفاظ یا اعمال سے عیاں نہیں ہو رہاتھا۔اور کیا  توقع کی جا سکتی تھی،انسان کی فطرت جیسی کہ ہے،گو ہم سب کچھ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔سینٹرل رجسٹری میں ایک افواہ گردش میں تھی،پچھلے دروازوں میں سے داخل ہوتے ہوئے،اور اگر سچ کہا جائے ،کونوں کھدروں میں سرگوشیاں ہو رہی تھیں، رجسٹرار کو غیر معمولی طور پر جناب حوزے کے فلو کی پریشانی تھی، یہاں تک کہ نرس کو اُس کے لیے کھانا لے جانے کی بھی ہدایات تھیں،اور کم از کم ایک بار اُسے کمرے میں سب کے سامنے خود ملنے بھی گیا،وہ بھی دفتر کے اوقات میں، اور سب کی موجودگی میں،کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ دوبارہ بھی گیا ہو۔وہاں کام کرنے والے ہر کسی کی مخفی ناپسندیدگی کا اندازہ لگانامشکل نہیں،جب رجسٹرار اپنے ڈیسک پر جانے سے پہلے، جناب حوزے کے پاس اُس کی صحت کے بارے میں جاننے کے لیے رکااور پوچھاکہ کیا وہ اب مکمل طور پر صحت مند ہے۔ ناراضی کی اور وجہ بھی تھی کہ یہ دوسری بار تھاکہ ایسا ہوا تھا۔سب کو اچھی طرح یاد تھاکہ پہلی بار اُس نے جناب حوزے سے پوچھا تھاکہ اُس کی بے خوابی کچھ بہتر ہوئی،جیسے جناب حوزے کی بے خوابی سینٹرل رجسٹری کے معمولات کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہو۔جو سنا اُس کو ہضم کرنا مشکل تھا،سٹاف نے جیسے دو ہم مرتبہ لوگوں کے درمیان میں گفتگو سنی،اگر غور کیاجائے تو مکمل طور پر لایعنی،جناب حوزے رجسٹرار کا اُس کی عنایات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے،یہاں تک کہ اُس نے کھانے کا بھی ذکر کیا،سینٹرل رجسٹری کے سخت ماحول میں جو،ایک طرح سے اُس کی بے حرمتی اور بے ہودگی تھی،رجسٹرار صفائی دے رہا تھاکہ وہ اُسے ایک مجرد آدمی کے مقدر کے کیسے حوالے کرسکتا تھاجسے سوپ کا پیالہ دینے یا بستر کی شکنیں دور کرنے والا میسر نہ ہو،رجسٹرار نے سنجیدگی سے بات جاری رکھی،جناب حوزے،تنہائی کبھی اچھی صحبت ثابت نہیں ہوتی،گہری اُداسی،بڑے لالچ اور غلطیاں زندگی میں اکیلے ہونے کی پیداوار ہیں،جب ہم معمول سے ہٹی ہوئی کسی اُلجھن کا شکار ہوں تومشورہ دینے کے لیے کوئی محتاط دوست نہ ہوتومسائل پیدا ہوتے ہیں۔جناب میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میں اُداس ہوں،میں فطرتاً تنہائی پسند ہوں،جسے کبھی بھی طرح ایک کمی نہیں کہاجا سکتا،جہاں تک لالچ کا تعلق ہے تو اپنی عمر اور حالات کی مطابقت سے میرا اُس طرف اتنا رجحان نہیں ہے،میرا مطلب ہے کہ میں اُن کا متلاشی نہیں اور وہ بھی میرے کھوج میں نہیں۔غلطیوں کے بارے میں کیا خیال ہے،جناب ،کیا آپ کام کی غلطیوں کی بات کر رہے ہیں،نہیں ،میں زندگی میں ہونے والی عمومی غلطیوں کی بات کر رہاہوں،کام کی غلطیاں تو محکمانہ ہیں جن کا تدارک محکمہ خود کر لیتا ہے،میں بس اِتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، کم از کم جان بوجھ کر نہیں،اپنے خلاف کی گئی غلطیوں کے بارے میں کیا خیال ہے،وہ مجھ سے بہت سرزد ہوئی ہوں گی،شایداِسی لیے میں اکیلا ہوں تاکہ مزید غلطیاں کر سکوں،اور وہ غلطیاں تنہائی کی پیداوار ہوں گی۔جیسا کہ اس  کا فرض تھا ،جیسے ہی رجسٹرار نزدیک پہنچا، جناب حوزے اُٹھ کھڑا ہوا،اُس کی ٹانگیں اُس کے لیے بھاری ہو گئیں، اور اُس کا سارا جسم پسینے میں نہا گیا۔ اُس کا رنگ زرد ہوگیا اور کھڑا رہنے کے لیے اُس کے ہاتھوں نے ڈیسک کا سہاراڈھونڈا جو کافی نہیں تھا، جناب حوزے کو معاف کیجے جناب،  معاف کیجے جناب، بُڑبڑاتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھنا پڑا۔ رجسٹرار  چند سیکنڈ کے لیے اُسے غصیلی نظر سے دیکھتے ہوئے اپنے ڈیسک پر چلا گیا۔  اُس نے جناب حوزے کے سیکشن کے ذمہ دار ڈپٹی کو بلایا اور اُسے ایک دبا دبا ساحکم دیا،اور پھر بلند آواز میں کہا،سرکاری باقاعدگیوں میں سے گزرنے کی ضرورت نہیں،اِس کا مطلب تھاکہ ایک کلرک کے بارے میں ڈپٹی نے جو ہدایات موصول کی ہیں ،تمام قوائد و ضوابط کے خلاف ،خود ہی اُن کی چھان بین کرے گا۔درجہ بندی کے اصول کی ایک بار پہلے بھی بار خلاف ورزی ہوئی تھی،جب اِسی ڈپٹی کو رجسٹرار نے حکم دیا تھاکہ وہ جناب حوزے کو گولیاں پہنچائے،اِس خلاف ورزی کاجواز وہ شک تھاکہ سینئر کلرک جسے ایک بیمار آدمی کو فلو ختم کرنے والی گولیاں دینا تھی،یہ کام خوش اسلوبی سے سر انجام نہیں دے سکے گا،کیوں کہ اُس نے گھر پر ایک تفصیلی نظر ڈال کر واپس اطلاع کرنی تھی، کیوں کہ سینئر کلرک فرش پر گیلے داغ کو عین مناسب سمجھے گاکہ یہ اُس وقت جاری سرد موسم کی وجہ سے ہوا ہے، اُس نے بستر کے ساتھ رکھی میز پر سینٹرل رجسٹری کے کارڈ بھی نہیں دیکھنے تھے،وہ سینٹرل رجسٹری کو واپس خوش خوش چلا جائے گاکہ اُس نے اپنی ذمے داری پوری کر دی ہے، اور جاکر اعلان کرے گا کہ ایسا کچھ غیر معمولی نہیں  تھا جس کی اطلاع دی جائے، جناب، وہاں کچھ قابل ذکر نہیں تھا، دونوں ڈپٹیوں نے ،خاص کروہ  جو اِس مسئلے میں براہ ِراست ملوث تھے،محسوس کیا کہ رجسٹرار کے اِس رویے کے پیچھے ایک مقصد تھا،ایک چال ، ایک سوچ تھی ۔ وہ یہ تصور میں نہیں لا سکے کہ سوچ یا مقصد کیا ہو سکتے ہیں،لیکن اُن کا تمام تر تجربہ اور اپنے باس کے متعلق جانکاری اُن کے لیے اشارہ تھا،اِس مسئلے میں،ہر لفظ اورعمل لازمی طور پر ایک طرف اشارہ تھا،اور جناب حوزے نے اپنے عمل یا محض اتفاق سے،اُس راستے پرخود کو ڈال دیا تھا،اور نا سمجھی سے یا خود ہی اِس کاسبب بن گیا۔ ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل، اِتنے متضاد احساسات، مطلب کہ جس لب و لہجے میں جناب حوزے کو یہ حکم پہنچایا گیا،اُس سے محسوس ہوتاتھاکہ رجسٹرار اُس  پر ایک احسان کر  رہا ہے، جب کہ یہ واضح ہدایات کے بر عکس تھا، جناب حوزے،ڈپٹی نے کہا، رجسٹرار نے کہا کہ ابھی چند لمحوں پہلے تمھیں بے ہوشی کا دورہ ثابت کرتا ہے کہ تم ابھی دفترمیں کام کرنے کے قابل نہیں ہو،یہ بے ہوشی کا دورہ نہیں تھا، میں بے ہوش نہیں ہواتھاتھا، بس ایک لمحاتی کمزوری تھی، کمزوری یا بے ہوشی کا دورہ، عارضی یا مستقل، سینٹرل رجسٹری خواہش مند ہے کہ تم مکمل صحت یاب ہو کے کام کرو، میں جتنا بھی ہو سکا کام کروں گا، اوریقینا چند دنوں میں مکمل صحت یاب ہو جاؤں گا۔ رجسٹرار کا خیال ہے کہ بہتر یہ رہے گا کہ تم چند دِن کی چھٹی لے لو،اپنا بیس دِنوں کا مکمل کوٹہ نہیں،دس دِن،دس دِن آرام کرنے اور خوب کھانے کے لیے،شہر کے چند چکر لگاؤ، باغ اور پارک ہیں، وہاں گھومو، موسم بھی اچھا ہے، اور صحت مند ہونے کے لیے عمدہ، جب تم واپس کام پر آئے تو ہم تمھیں پہچان ہی نہیں پائیں گے۔ جناب حوزے نے ڈپٹی کی طرف حیرت سے دیکھا،ڈپٹی ایک کلرک کے ساتھ ایسی گفتگو نہیں کرتا تھا،  اِس مسئلے میں کہیں کچھ نامناسب تھا۔  ظاہر ہے رجسٹرار چاہتا تھاکہ وہ چھٹی پر جائے، جو کہ بذات خود حیران کُن تھا،جیسے یہی ہی کافی نہیں تھا،  وہ اُس کی صحت میں غیر معمولی اور غیر متناسب دل چسپی لے رہاتھا۔  یہ سینٹرل رجسٹری کے رویو ں کے مطابق نہیں تھا، وہاں چھٹیوں کی ہمیشہ نہایت احتیاط کے منصوبہ بندی کی جاتی تھی، اور متعدد پہلوؤں کو مد ِنظررکھا جاتا تھا، جن میں سے کچھ کا علم صرف رجسٹرار کو تھا، اور سالانہ چھٹی کے دورانیہ کی منصفانہ تقسیم کی جاتی تھی۔یہ پہلے کبھی نہیں ہواتھاکہ رجسٹرار رواں سال کے چھٹیوں کے منصوبے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک کلرک کو آرام کرنے کے لیے گھر بھیجے۔جناب حوزے اُلجھاؤ کا شکار تھاجو اُس کے چہرے پر ظاہر تھا۔ وہ رفقاکار کی اُلجھی ہوئی نظریں اپنی کمر پر محسوس کر سکتا تھا،ڈپٹی اُس کے کوئی فیصلہ نہ کرسکنے کی اہلیت سے بے چین ہونا شروع ہوگیاتھا، وہ ابھی کہنے والا تھاکہ بہتر جناب ،جیسے کسی حکم کی تعمیل کر رہاہو، جیسے اچانک اُسے اپنا چہرہ روشن ہوتا محسوس ہوا،اُسے ابھی محسوس ہوا کہ دس دِنوں کی آزادی اُس کے لیے  خاصی سوُد مند ہوسکتی تھی، اِن دنوں میں وہ اپنی تفتیش جاری رکھ سکتاتھا،اُسے دفتر کے قوائد و ضوابط کی کوئی پابندی نہیں ہوگی،وہ معمول سے آزاد ہوگا،پارک ،باغ اور صحت یاب ہونا بھاڑ میں گئے،خدا اُس پر رحم کرے جس نے بھی فلو ایجاد کیا،اور سو جناب حوزے بے ساختہ مسکرا دیا،جی جناب،اُسے اپنا اظہار کرتے ہوئے محتاط ہونا چاہیے تھا،کچھ خبر نہیں کہ ڈپٹی جاکے رجسٹرار کو کیابتائے،میری رائے میں ،اُس کا ردِّعمل عجیب تھا،پہلے تو وہ پریشان نظر آیا،اور یا شاید اُسے سمجھ نہیں آئی کہ میں نے کیا کہاتھا،اور پھر ایسے تھاکہ جیسے اُس کی لاٹری میں پہلی پوزیشن آئی ہو،وہ اب ایک نیا آدمی تھا۔ تمھیں کوئی اندازہ ہے کہ وہ جوا کھیلتا ہے،میرا نہیں خیال، یہ صرف اُس کابات کرنے کااندازہ تھا، پھر کچھ اور وجہ ہوگی۔ جناب حوزے ڈپٹی کو بتا رہاتھا،چند دِن چھٹی کرنا میرے لیے کافی سود مند ہوگا،رجسٹرار کا میری طرف سے شکریہ ادا کریں، میں تمھارا شکریہ اُس تک پہنچا دوں گا، غالباً مجھے خود ایسا کرنا چاہیے،تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ایسا دستور نہیں۔ بہر حال مسئلے کی نوعیت ہی غیر معمولی تھی،اور یہ الفاظ کہنے کے بعد،افسر شاہی لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے،نہایت مناسب الفاظ تھے،جناب حوزے اُس طرف مڑا جہاں رجسٹرار بیٹھا ہوا تھا،اُسے اُمید نہیں تھی کہ وہ اُس کی طرف دیکھ رہا ہوگا،اور یہ بھی کہ وہ اُس کی گفتگو سُن رہا ہوگا،اُس نے اپنے ہاتھ کے اچانک اشارے سے یہی ظاہر کیا،اُکتاہت اور تکبر بھرے انداز میں،جیسے کہہ رہا ہو،ممنونیت بھرے الفاظ کی ضرورت نہیں،اپنا فارم بھرو اور جاؤ۔

کمرے واپس آنے کے بعد اُسے اپنے کپڑوں کی فکر تھی جنھیں الماری کے بجائے ایک طاقچے میں رکھا ہواتھا۔وہ پہلے بھی صاف نہیں تھے،اب تو واقعی گندگی میں تبدیل ہوگئے تھے،اُن میں سے ترش بُو اُٹھ رہی تھی اورساتھ ہی پھپھوندی کے جھونکے بھی،تہوں میں کائی لگنا شروع ہو گئی تھی،ذرا سوچیں، ایک گیلی گٹھری،کوٹ،قمیص، پتلون، موزے، زیر جامہ،  تمام کوبرساتی کوٹ میں لپیٹ دیا گیاتھاجو اُس وقت پانی سے نُچڑا ہواتھا، ایک ہفتے کے بعد اُن کی بھلا کیا حالت ہوگی۔ اُس نے سب کو پلاسٹک کے تھیلے میں ٹھونسا، اور یقین کیا کہ کارڈ اور نوٹ بک گدے اور پلنگ کی چوکی کے درمیان رکھے ہوئے ہیں،نوٹ بک سرہانے اور کارڈ پائنتی کی طرف،اُس نے یہ بھی یقین کیا سینٹرل رجسٹری میں کھلنے والے دروازے کو تالا لگا ہوا ہے، گو وہ تھکا ہواتھا،لیکن پر سکون دماغ کے ساتھ وہ نزدیک والی لانڈری کی طرف، جس کا وہ گاہک تھا،چل پڑا، گو وہ کم ہی جاتا تھا، وہاں عورت نے جب تھیلاخالی کیا تو اپنی ناپسندیدگی چھپا نہ سکی، معذرت کے ساتھ،کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ اِس لباس کو کیچڑ میں لتھیڑا گیا ہے، تم زیادہ غلط بھی نہیں ہو، جناب حوزے نے جھوٹ بولنا تھاسو اُس نے اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے بولنے کا فیصلہ کیا، دو ہفتے قبل جب میں اِنہیں صفائی کے لیے لایا تھاتو تھیلااچانک پھٹ گیااور یہ ایک کیچڑ کی بڑی چھپڑی میں گر گئے جو سڑک پر کام ہونے کی وجہ سے بن گئی تھی،تمھیں یاد ہوگا کہ تب بارش کتنی تھی،کپڑے ایک دم کیوں نہیں لائے گئے،میں فلو کی وجہ سے کمرے میں بند ہو کر رہ گیاتھا،میں باہر آنے کا سوچ بھی نہیں سکتاتھا، مجھے نمونیا ہو سکتاتھا،اِس بار کچھ خرچ زیادہ آئے گا،مشین میں دوبار ڈالنا پڑیں گے اور پھر بھی،پریشانی کی کوئی بات نہیں،اور پتلون کی حالت دیکھی ہے،کیا یہ صاف کیے جانے کے قابل ہے،مطلب کہ گھٹنوں پر سے یہ پھٹی ہوئی ہے،لگ رہاہے کہ اِسے دیوار کے ساتھ رگڑا گیاہے۔ جناب حوزے نے غور ہی نہیں کیا تھاکہ دیوار پر چڑھنے کی وجہ سے پتلون کی حالت خستہ ہو گئی تھی، گھٹنوں پر سے پھٹ گئی تھی، اور ایک ٹانگ بھی معمولی سا پھٹی ہوئی تھی،  یہ اُس جیسے شخص کے لیے ایک قابلِ غور مسئلہ تھا،جس کے پاس لباس کی کمی تھی، اِس کا کچھ کیا جا سکتا ہے، اُس نے پوچھا،میں کچھ کروں گی،  اِسے رفوگر کے پاس بھیجنا ہو گا، یہ اتنا سستا نہیں ہوگا،  نظر نہ آنے والے رفو کا کام کرنے والے خاصے مہنگے ہیں، بغیر پتلون کے ہونے سے یہ بہتر ہے،یا پھر ہم اِسے سی سکتے ہیں،  اگر سیا گیاتو پھر میں اِسے صرف گھر میں ہی پہن سکوں گا، میں کام پر نہیں پہن سکوں گا، بالکل بھی نہیں،میں سینٹرل رجسٹری میں کام کرتا ہوں، تم سینٹرل رجسٹری میں کام کرتے ہو، عورت کی آواز میں ایک احترام تھا جسے جناب حوزے نے نظر انداز کر نا بہتر جانا، اُس نے اپنے کام کرنے کی جگہ کاپہلی بار کسی کو بتایاتھااوراُسے اپنے غیر محتاط رویے پر حیرت بھی ہوئی، ایک پیشہ ور چور کبھی اپنی نشانیاں نہیں چھوڑتا،  اگر لانڈری والی عورت اُس لوہار کی بیوی ہوئی جس سے اُس نے شیشہ کاٹنے والاکٹر خریدا تھایا وہ قسائی جس سے اُس نے چربی خریدی تھی، یا معمول کی گفتگو جو میاں بیوی کے درمیان میں ہوتی ہے اور جس سے وہ اپنی شامیں گزارتے ہیں،اُن میں سے کوئی ایسا ذکر کردے جو اُس نے اپنے کاروبار کے درمیان میں سنی ہوں، کئی مجرم، جنھیں یقین تھاکہ ہر شک سے بالا ہیں،کافی چھوٹے جرم کے لیے جیل گئے۔ بہر حال یہاں کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا،اگر عورت کے الفاظ میں کہیں کوئی حقیر قسم کا ارادہ کا نہ چھپا ہو،اُس کے ہونٹوں پر ایک مہربان مسکراہٹ تھی،جس کی وجہ سے اُسے خصوصی انعام دیاجائے گا،لانڈری رفو کی قیمت خود ادا کرے گی،کیوں کہ محترم سینٹرل رجسٹری میں کام کرتے تھے،عورت نے وضاحت کی۔جناب حوزے نے احترام مگر غیر موثرانداز میں شکریہ ادا کیا۔ وہ نا خوش تھا۔وہ شہر میں متعدد نشانات چھوڑتا جا رہاتھا،بہت سارے لوگوں کے ساتھ اُس کی بات چیت ہو رہی تھی،اُس نے اِس قسم کی تفتیش کے بارے میں نہیں سوچا تھا،سچی بات کہی جائے تو اُس نے کچھ سوچا ہی نہیں تھا،یہ خیال تو اُسے اب آیا تھا،کہ نامعلوم عورت کو کسی کو اُس کی کوششوں کی خبر ہوئے بغیر کیسے ڈھونڈے، یہ ایسے ہی تھا جیسے ایک نظر نہ آنے والی کسی دوسری ایسی ہی ہستی کو ڈھونڈے۔ ایک مکمل راز ہونے کے باوجود،جو اَسرار میں گھرا ہو،دو لوگ ایسے تھے جنھیں اُس کی مہم کے بارے میں علم تھا،حاسد شوہر کی بیوی اور زمینی منزل کے اپارٹمنٹ کی رہائشی بزرگ خاتون،اور اُن کا جاننا بذات خود ایک خطرہ تھا،مثال کے طور پر ، ہم یہ فرض کر لیں،کہ اُن میں سے کوئی ایک،قابلِ تحسین مقصد کے ساتھ کہ وہ اُس کی مدد کرنا چاہتی ہے،جیسا کہ اچھے شہریوں کوکرنا چاہیے، اُس کی غیر حاضری کے دنوں میں سینٹرل رجسٹری میں پہنچ جائے، میں نے جناب حوزے سے ملاقات کرنی ہے،جناب حوزے موجود نہیں، وہ چھٹی پر ہے، یہ تو اچھا نہیں ہوا، میرے پاس اُس شخص کے بارے میں اطلاع ہے جس کی وہ تلاش میں تھا، کون سی اطلاع،  کون شخص،ج ناب حوزے سوچنا ہی نہیں چاہتا تھاکہ بعد میں کیا ہوا ہو گا، یعنی حاسد خاوند کی بیوی اور سینئر کلرک کے درمیان میں گفتگو،مجھے اپنے کمرے کے فرش کے ایک تھوڑا اُکھڑے پھٹے کے نیچے ایک جریدہ ملا،تمھارا مطلب ایک رسالہ، نہیں جناب، ایک جریدہ، ڈائری، ایک ایسی چیز جو لوگ لکھا کرتے تھے،  میں بھی شادی سے پہلے لکھا کرتی تھی، اُس کا ہمارے ساتھ، یہاں سینٹرل رجسٹری سے کیا واسطہ ہے، ہمیں تو صرف کسی کی پیدائش یا موت میں دل چسپی ہے،شاید ڈائری اُس کے کسی رشتے دار کی ہے جس کی جناب حوزے کی تلاش تھی، میرے علم میں نہیں کہ جناب حوزے کسی کو کھوج رہا تھا، اِس کے علاوہ اِس معاملے کاسینٹرل رجسٹری سے کیا واسطہ، سینٹرل رجسٹری کا اپنے عملے کی ذاتی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ذاتی نہیں، جناب حوزے نے مجھے بتایاکہ وہ سینٹرل رجسٹری کی نمائندگی کر رہا ہے، وہیں انتظار کرو، میں ڈپٹی کو بلاتا ہوں، جب ڈپٹی کاؤنٹر پرآیا ، لیکن تب تک زمینی منزل والی بزرگ خاتون دفتر سے نکل رہی تھی، زندگی نے اُسے سکھایا تھاکہ اپنے رازوں کی حفاظت کرنے کا بہترین طریقہ دوسروں کے راز چھپانے میں تھا،جناب حوزے جب چھٹی سے آئے تو مہربانی کر کے اُسے بتا دیناکہ زمینی منزل والے اپارٹمنٹ والی بزرگ خاتون آئی تھی، تم اپنا نام بتانا نہیں چاہو گی،ضروری نہیں ،وہ سمجھ جائے گا۔جناب حوزے مطمئن رہ سکتا ہے، زمینی منزل والے اپارٹمنٹ والی بزرگ خاتون سمجھ دار تھی، وہ ڈپٹی کو کبھی نہیں بتائے گی کہ اُسے اپنی منہ بولی بیٹی کا خط موصول ہوا ہے، زکام نے میرے داماغ کو کمزور کر دیا ہے، اُس نے سوچا،یہ تو صرف فینٹیسیاں ہیں،فرش کے پھٹوں کے نیچے کوئی ڈائریاں نہیں چھپی ہوئی ہیں، اِتنے سالوں کی خاموشی کے بعد وہ اپنی دینی ماں (گوڈ مدر)  کو خط لکھنے کاکیوں سوچے گی، جس طرح بزرگ خاتون نے اپنا نام بتانا مناسب نہیں سمجھا،  سینٹرل رجسٹری کوسب کچھ جاننے کے لیے اِس کمزور حصے کو ہاتھ میں لینا ہوگا۔ ریکارڈ کارڈ نقل کرنا،خط کی جعل سازی،اُن کے لیے یہ معما دیکھتے ہی حل کرنا آسان ہو گا۔ جناب حوزے واپس گھرگیا۔پہلے دِن اُس نے ڈپٹی کی دی ہوئی ہدایات پر عمل نہیں کیا تھا۔کہ وہ باغ میں جائے،سورج میں گھومے پھرے تاکہ بخار نے اُس کی جو طاقت نچوڑ لی تھی، واپس مل جائے،اُسے فیصلہ کرنا ہوگا کہ اب وہ آگے کیسے بڑھے،لیکن اُسے ایک اُلجھن کا حل نکالنا تھا۔ اُس نے اپنا گھر سینٹرل رجسٹری کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا،دیو ہیکل دیوار کے ساتھ ایسے چمٹا ہوا جیسے وہ نگلا ہی جائے گا۔بخار کے کچھ اثرات ابھی تک اُس کے دماغ میں باقی رہے ہوں گے،کچھ ایسا ہی عملے کے دوسرے گھروں کے ساتھ ہو اہوگا۔ جناب حوزے نے اپنی رفتا تیز کردی کہ مبادا جب وہ پہنچے توگھر غائب ہوگیاہو،ریکارڈ کارڈ اور نوٹ بُک سمیت،وہ ایسی بدقسمتی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا،کتنے ہفتوں کی کوشش خاک میں مِل جائے گی،جن خطرات کو اُس نے مول لیابے کار ہو جائیں گے۔متجسس لوگ پوچھیں گے کہ اِس تباہی میں اُس کا کچھ قیمتی تو ضائع نہیں ہوا،وہ کہے گا کہ ہاں،وہ کہے کہ کچھ کاغذات اور وہ پھر پوچھیں گے،کوئی شئیرز،بونڈ،کریڈٹ کارڈ وغیرہ، عام لوگوں کو یہ پہلا خیال آئے گا، کسی قسم کی روحانیت کے بغیرلوگ،جن کے پیش نظر صرف مادی مفادات اور فائدے ہوتے ہیں،وہ ہاں کہے گا جب کہ ذہنی طور پر الفاظ کو مختلف معنی دے رہا ہوگا،دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں یہ اُن کا حصہ ہوں گے، تعلق جو اُن کے درمیان میں قائم ہو رہا ہے،اعتماد جو اُس نے حاصل کیا ہے۔

گھر وہیں پر تھا لیکن یہ کافی چھوٹا لگا،ایسا نہ ہوا ہو کہ اِن چند گھنٹوں میں سینٹرل رجسٹری کافی بڑی ہو گئی ہو۔ جناب حوزے اندر داخل ہوا،اُس نے اندر داخل ہوتے ہوئے اپنا سر جھکایا، گو اِس کی ضرورت نہیں تھی،گلی والے دروزے کی اونچائی اُتنی ہی جتنی کہ ہونی چاہیے تھی،اور جہان تک دیکھنا ممکن تھا،اُن شیئرز، بونڈز اور کریڈٹ کارڈوں نے اُس کے جسمانی حجم میں اضافہ نہیں کیا تھا۔اُس نے درمیان والے دروازے کے ساتھ کان لگائے، اِس لیے نہیں کہ دوسری طرف سے اُسے کوئی آواز آنے کی اُمید تھی،سینٹرل رجسٹری میں خاموشی سے کام کرنے کی روایت تھی،لیکن یہ اُس شک کو کم کرنے کے لیے کیاتھاجو رجسٹرار کے اُسے چھٹی دینے کے حکم سے پیدا ہوا تھا۔اُس نے گدا اُٹھایااور کارڈ لے کر اُنھیں میز پر تاریخ وارترتیب سے رکھا،سب سے پرانے سے لے کر نئے تک، تیرہ چھوٹے چھوٹے مستطیل، چھوٹے سے بڑے بچے تک، آغازِ شباب سے لے کر مکمل عورت بننے تک۔ اِس دوران میں خاندان نے تین بار نقل مکانی کی،لیکن اتنا دور کبھی گئے کہ اُسے سکول تبدیل کرنا پڑے۔ کسی منصوبے کی پیچیدگیوں میں اُلجھنے کی ضرورت نہیں تھی،اب جناب حوزے کو کارڈ پردیے آخری پتے پر پہنچنے کی ضرورت تھی۔

:::

Authors

  • Jose Saramago - Translations-تراجم (Author)

    ۱۹۹۸ء میں حوزے ساراماگو کو ادب کا نوبیل انعام اس دلیل کے ساتھ دیا گیا تھا: ’’وہ شخص جو تخیل، ہمدردی اور ستم ظریفی کے واسطے سے دستیاب تمثیلوں کے ساتھ ہمیں ایک بار پھر ایک گمراہ کن حقیقت کو سمجھنے کا اہل بناتا ہے۔‘‘ ادب کے نوبیل انعام سے نوازے جانے سےقبل وہ ایک شدید تنازع کا اس وقت شکار ہو گئے تھے جب حضرت عیسٰیؑ کی زندگی پر مبنی ناول کو پرتگالی حکومت نے ادبی انعام کے لیے نامزد ہونے سے روک دیا تھا۔ حوزے ساراماگو ۱۶ نومبر ۱۹۲۲ء کو لزبن سے تقریباً سو کلومیٹر شمال مشرق میں ربیٹجو صوبے کے ایک چھوٹے سے گاؤں ازینہاگا، پرتگال میں بے زمین ہاریوں کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔اُنھوں نے افلاس و عسرت کے ساتھ جنگ لڑتے ہوئے زندگی بسر کی۔ ان کو اسکول کی تعلیم کے فوراً بعدگاڑیوں کی مرمت کے ورکشاپ میں دو سال کام کرنا پڑا۔مختلف شعبوں مزدوری اور نوکریوں کے بعد ایک اشاعتی ادارے سے وابستہ ہو گئے لیکن نومبر ۱۹۷۵ء میں سیاسی بحران کی وجہ سے یہ ملازمت بھی چھوڑ دی۔ اِس سے پہلے وہ ۱۹۶۹ء میں کمیونسٹ پارٹی میں شامل شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ اُنھوں نے سیاست میں باضابطہ حصہ لیا ۔وہ واضح اور دوٹوک سیاسی رائے رکھتے تھے جس کا کاٹ دار اظہاروہ ہمیشہ اپنی مختلف تحریری میں کرتے رہے۔ ساراگوما کا پہلا ناول ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا مگر اس کے بعد وہ ادبی طور پر چپکے ہو بیٹھ گئے۔ ۱۹۶۶ء میں اُن کی نظموں کا مجموعہ شائع ہوا۔ اس کے بعد ادبی و تنقیدی مضامین، اخباری کالم اور دوسری زبانوں کے معاصر ادب کے تراجم کا ایک سلسلہ چل پڑا جس نے ان کو بے حد فعال ادبی شخصیت بنا دیا۔ ۱۹۹۵ء میں اُن کا ناول کا شہرہ آفاق ناول ’’نابینائی‘‘ شائع ہوا۔ تاہم اُنھیں عالمی سطح پر شہرت ۱۹۸۲ء میں شائع ہونے والے اُن کے ناول ’’بالتاسار اینڈ بلیمُنڈا‘‘ سے ملی۔ یہ ناول پین کلب ایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہا۔ حوزے ساراماگو اپنی تحریر میں کثرت سے تشبیہات کا استعمال کرتے ہیں، اورمنتشر خیال عناصر کے ذریعے سے معاشرے پر تفصیلی اور تنقیدی نظر ڈالتے ہیں۔ ساراماگو کے اسلوب کی ایک خصوصیت مکالموں اور بیانیہ کی آمیزش ہے، جس میں کم رموز والے طویل جملے ہوتے ہیں جو کئی صفحات پر بسیط بھی ہو سکتے ہیں۔ اُن کے سب سے کامیاب ناول ’’نابینا ئی‘‘ میں تمام آبادی اندھے پن کی وبا میں مبتلا ہے جو تیزی سے سماجی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ جوزے سارا ماگو فاؤنڈیشن نے اکتوبر ۲۰۱۱ء میں حوزے سارا ماگو کے ایک ’’گم شدہ ناول‘‘ کی اشاعت کا اعلان کیا جس کا نام ’’اسکائی لائٹ‘‘ (پرتگالی میں ’’کلارابواِیّا‘‘) ہے۔ یہ ناول ۱۹۵۰ء کی دہائی میں لکھا گیا تھا اور ایک ناشر کے محفوظ شدہ دستاویزات میں رہا جس کو یہ مخطوطہ بھیجا گیا تھا۔ ساراماگو اپنی موت تک اس کام کے بارے میں خاموش رہے۔ اس ناول کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ نوبیل انعام برائے ادب۔۱۹۹۸ء کے علاوہ حوزے سارا ماگو کو ملنے والے انعامات و اعزازت کی طویل فہرست ہے ۔ جن میں اہم اعزازات یہ ہیں: کیمیوز پرائز، ۱۹۹۵ء ۔امریکہ ایوارڈ،۲۰۰۴ء اور میں اُن کی کتاب ’’اے وایاجیم ڈُو ایلےفانٹے‘‘ ساؤ پالو پرائز، ۲۰۰۹ء کے لیے سال کی بہترین کتاب کے زمرے میں شارٹ لسٹ ہوئی۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں حوزے ساراگوما افریقی ساحل کے قریب واقع کینری جزائر میں رہائش پزیر ہو گئے اور اسی جزیرے میں ۱۸ جون، ۲۰۱۰ء کو ۸۷ برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ 

    View all posts
  • خالد فتح محمد اپریل ۱۹، ۱۹۴۶ء کو پیدا ہوئے۔ خالد فتح محمد پاکستان کے ایک معروف اور معروف اردو افسانہ نگار، مترجم، نقاد اور تجزیہ کار ہیں — جو غیر معمولی سماجی مشاہدے کی کہانیاں تحریر کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اُن کے پاس اپنی بات کو الفاظ میں سمونے کا ہمہ گیر فن ہے جسے ادبی حلقوں میں بہت سراہا جاتا ہے۔ اپنے افسانوں اور ناولوں میں، اُنھوں نے فطری، اصلی اور بول چال کے کرداروں کے ساتھ سماجی انصاف، غربت، بھوک، زور اور معاشرے میں رائج سماجی سیاسی مسائل کے بارے میں نظریات کو قائم کیا ہے۔ اُن کے کام کو اردو ناقدین نے بہت سراہا ہے۔ اُن کا خاندان مشرقی پنجاب گورداسپور سے مہاجرت کر کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں آباد ہوا۔ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ میجر کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ۱۹۹۳ء میں گوجرانوالہ کینٹ میں رہائش اختیار کی، اور لکھنا شروع کیا۔ اُنھوں نے بارہ ناول، افسانوں کے سات مجموعے اور انگریزی سے ترجمے کی چھ کتابیں شائع کی ہیں: چار ترکی ناول، ایک جرمن ناول اور چینی کہانیوں کا ایک مجموعہ۔ وہ گوجرانوالہ، پاکستان سے ایک سہ ماہی ادبی رسالہ "ادراک" بھی شائع کرتے ہیں، جس کا شمار اردو کے اہم ادبی جرائد میں ہوتا ہے۔ 

    View all posts

5 thoughts on “وہی نام سارے”

  1. بے حد عمدہ کام ، بلاشبہ جناب خالد فتح محمد اپنے وقت کا بہترین استعمال کر رہے ہیں۔ آنے والے اور موجود لوگوں کو خاص طور پر ادب کے طالب علموں کے لیے آپ ایک گرانقدر خدمت انجام دے رہے ہیں۔ زیر نظر ترجمہ ان کی فن پر گرفت کی ایک بہتر مثال ہے، یہ ترجمہ باب پڑھ کر پورے ناول کو پڑھنے کی ترغیب ملتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *