تراجم عالمی ادب

ہن کانگ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدین احمد کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

کوریائی ناول کا باب

ابیض— ذہنی حالت

ہن کانگ

(Han Kang)

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

نومولود کا  جُبّہ

میری ماں کا پہلا بچّہ فوت ہو گیا تھا، مجھے حیات میں آنے کے بعد دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں بتا دیا گیا تھا۔

مجھے بتا دیا گیا تھا کہ وہ ایک لڑکی تھی، ہلالی چاند جیسے چاولوں کے کیک ایسے سپید چہرے والی۔ گو وہ بہت چھوٹی تھی، ستوانسی، لیکن اُس کے نقوش  کامل تھے۔ مَیں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتی، میری ماں نے مجھے بتایا، جب اُس نے  اپنی دونوں کالی کالی  آنکھیں کھول کر اُنھیں گھماتے ہوئے میرے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔

اُس وقت، میرے والدین ایک دیہات میں ایک الگ تھلگ گھر میں ایک پرائمری اسکول کے قریب رہ رہے تھے، جہاں میرے والد پڑھاتے تھے۔ میری والدہ کی مقررہ تاریخ ابھی بہت دُور تھی، پس وہ مکمل طور پر تیار نہیں تھیں کہ جب ایک صبح اُنھیں پانی کا اخراج ہونے لگا۔ آس پاس کوئی نہیں تھا۔ گاؤں کا واحد ٹیلی فون لاری اڈےکے پاس ایک چھوٹی سی دکان میں تھا بیس منٹ کی مسافت پر۔ میرے والد مزید چھ گھنٹے تک کام سے واپس نہیں آنا تھا۔

موسمِ سرما کا آغاز تھا، سال کا پہلا کُہرا۔ میری ۲۲ سالہ ماں باورچی خانے  میں گئی اور اُس نے قینچی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے کچھ پانی اُبالا۔ اپنے سلائی کے ڈبے کو ٹٹولا تو اُنھیں تھوڑا سا سفید کپڑا ملا جو نوزائیدہ کے جبے کے لیے کافی تھا۔ سنکچن اور بہت خوف زدہ ہونے کی بِناء پر اُنھوں نے جوں ہی سوئی چلائی تو اُن کے آنسو بہنے لگے۔ اُنھوں نے ننھی منی کو عبا کو سی کر لپیٹنے کے لیے ایک پتلی لحاف ڈھونڈی ، اور ہر بار تیز اور زیادہ شدید درد کے ہر دورےپر اپنے دانت کٹکٹاتی رہیں۔

آخر کار، اُنھوں نے جنم دیا۔ تب بھی اکیلی تھیں۔ اُنھوں نے آنول نال کاٹی۔ خون آلود ننھے وجود کو اُس قبا میں لپیٹا جو اُنھوں نے ابھی بنایا تھا، اور رِیں رِیں کرتی چھٹن چیز کو اپنی بانہوں میں تھام لیا۔ خدا کے لیے مرنا نہیں، وہ منتر پڑھنے کے مانند بار بار ہلکی آواز میں بڑبڑاتی رہیں۔ ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد، بچے کی سختی سے مہربند پلکیں گویا اچانک بے سیون ہو گئیں۔ جوں ہی میری ماں کی نظریں اپنے بچے کی نگاہوں  سے دوچار ہوئیں، اُن کے ہونٹ دوبارہ پھڑکنے لگے۔ خدا کے لیے مرنا نہیں۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد بچہ مر چکا تھا۔ وہ دونوں وہاں باورچی خانے کے فرش پر پڑے تھے، میری ماں اپنے پہلو کے بل اپنی چھاتی سے اپنے مردہ بچّے کو چمٹائے ہوئے ٹھنڈکو  دھیرے دھیرے اپنے ماس میں گھس کر  ہڈّیوں تک دھنستی ہوئی محسوس کر رہی تھی۔ مزید رونا نہیں۔

ہلال ایسا چاولوں کاکیک

پچھلے موسمِ بہار میں، ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران میں کسی نے مجھ سے پوچھا۔ ’’کیا مجھے ایک خاص تجربہ ہوا تھا، جب آپ جوان تھے، جس نے آپ کو اداسی کے قریب پہنچایا ہو؟‘‘

اس سوال کا سامنا کرنا گویا اپنی  موت کا سامنا کرنے کے مترادف تھا۔ مَیں تو اِس کہانی کے اندر بڑا ہوا تھا۔ تمام جوان جانوروں میں سب سے زیادہ بے بس۔ خوبصورت چھوٹا بچّہ، چاند کی شکل کے چاول کے کیک ایسا سفید۔ مَیں اُس موت کی جگہ پر کیسے پیدا اور بڑا ہوا تھا۔

’’ہلال جیسی شکل کے چاول کے کیک ایسا سفید‘‘ کبھی بھی چھے برس کی عمر تک زیادہ معنی نہیں رکھتا تھا، یہاں تک کہ مَیں چوسیوک کے لیے چاولوں کے کیک بنانے،پیڑوں کو چھوٹے چھوٹے ہلال کی شکلیں دینے  میں مدد کرنے کے لیے کافی بڑا ہو گیا تھا۔ بھاپ دینے سے قبل، چاول کے آٹے کے پیڑوں کی وہ چمک دار سفید شکلیں اتنی پیاری چیزیں ہوتیں کہ اِس دنیا کی لگتی ہی نہیں تھیں۔ صرف اُس کے بعد، ایک رکابی میں دیودار کی سوئی کے ساتھ سجاوٹ پر ہی وہ مایوس کن حقیقت بن جاتے تھے۔ بھنے ہوئے تلوں کے تیل سے چمکتے ہوئے، اُن کا رنگ اور ساخت حدت اور بھاپ سے بدل جاتا تھا۔ بلاشبہ، وہ مزیدار ہوتے تھے لیکن اپنے سابقہ حسن کے عین برعکس ۔

چنانچہ جب میری والدہ نے کہا۔ ’’چاول کے کیک جیسی سفید‘‘ تو مجھے لگا کہ اِس کا مطلب تھا: بھاپ دلانے سے پہلے کا چاول کا کیک۔ اُس جیسا ہی چونکا دینے والا روایتی چہرہ۔ اِن خیالات نے میرا سینہ یوں دبوچ لیاگویا آہنی بھار تلے دبا دیا گیا ہو۔

ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں پچھلے موسمِ بہار کے دوران میں مَیں نے اِس میں سے کسی بات  کا ذکر نہیں کِیا۔ اِس کے بجائے، مَیں نے اپنے پالتو کتے کا ذکر کِیا، جو اُس وقت مر گیا جب مَیں پانچ سال کا تھا۔ وہ ایک غیر معمولی ذہین کتا تھا، مَیں نے کہا، ایک دوغلی نسل کا، لیکن قدرے مشہور جِنڈو نسل سے تھا (جِنڈو: جنوبی کوریا کے جزیرے کا نام، جہاں کے کتوں کی نسل معروف ہے)۔ میرے پاس اب بھی ہم دونوں کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہے، قربت کے لمحے کی ایک واضح تصویر، لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ مَیں اسے زندہ یاد نہیں کر سکتا۔ میری ایک روشن یاد اُس سویر کی ہے جب وہ مرا۔ سفید پشم، کالی آنکھیں، نم ناک۔ تب سے مجھے کتوں سے نفرت ہو گئی، جو آج تک برقرار ہے۔ الجھی ہوئی نرم نرم پشم تک پہنچنے کے بجائے میرا بازو میرے ساتھ بندھا رہتا ہے۔

:::

ہن کانگ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدین احمد کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

کوریائی ناول کا باب

ابیض— ذہنی حالت

ہن کانگ

(Han Kang)

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

نومولود کا  جُبّہ

میری ماں کا پہلا بچّہ فوت ہو گیا تھا، مجھے حیات میں آنے کے بعد دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں بتا دیا گیا تھا۔

مجھے بتا دیا گیا تھا کہ وہ ایک لڑکی تھی، ہلالی چاند جیسے چاولوں کے کیک ایسے سپید چہرے والی۔ گو وہ بہت چھوٹی تھی، ستوانسی، لیکن اُس کے نقوش  کامل تھے۔ مَیں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتی، میری ماں نے مجھے بتایا، جب اُس نے  اپنی دونوں کالی کالی  آنکھیں کھول کر اُنھیں گھماتے ہوئے میرے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔

اُس وقت، میرے والدین ایک دیہات میں ایک الگ تھلگ گھر میں ایک پرائمری اسکول کے قریب رہ رہے تھے، جہاں میرے والد پڑھاتے تھے۔ میری والدہ کی مقررہ تاریخ ابھی بہت دُور تھی، پس وہ مکمل طور پر تیار نہیں تھیں کہ جب ایک صبح اُنھیں پانی کا اخراج ہونے لگا۔ آس پاس کوئی نہیں تھا۔ گاؤں کا واحد ٹیلی فون لاری اڈےکے پاس ایک چھوٹی سی دکان میں تھا بیس منٹ کی مسافت پر۔ میرے والد مزید چھ گھنٹے تک کام سے واپس نہیں آنا تھا۔

موسمِ سرما کا آغاز تھا، سال کا پہلا کُہرا۔ میری ۲۲ سالہ ماں باورچی خانے  میں گئی اور اُس نے قینچی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے کچھ پانی اُبالا۔ اپنے سلائی کے ڈبے کو ٹٹولا تو اُنھیں تھوڑا سا سفید کپڑا ملا جو نوزائیدہ کے جبے کے لیے کافی تھا۔ سنکچن اور بہت خوف زدہ ہونے کی بِناء پر اُنھوں نے جوں ہی سوئی چلائی تو اُن کے آنسو بہنے لگے۔ اُنھوں نے ننھی منی کو عبا کو سی کر لپیٹنے کے لیے ایک پتلی لحاف ڈھونڈی ، اور ہر بار تیز اور زیادہ شدید درد کے ہر دورےپر اپنے دانت کٹکٹاتی رہیں۔

آخر کار، اُنھوں نے جنم دیا۔ تب بھی اکیلی تھیں۔ اُنھوں نے آنول نال کاٹی۔ خون آلود ننھے وجود کو اُس قبا میں لپیٹا جو اُنھوں نے ابھی بنایا تھا، اور رِیں رِیں کرتی چھٹن چیز کو اپنی بانہوں میں تھام لیا۔ خدا کے لیے مرنا نہیں، وہ منتر پڑھنے کے مانند بار بار ہلکی آواز میں بڑبڑاتی رہیں۔ ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد، بچے کی سختی سے مہربند پلکیں گویا اچانک بے سیون ہو گئیں۔ جوں ہی میری ماں کی نظریں اپنے بچے کی نگاہوں  سے دوچار ہوئیں، اُن کے ہونٹ دوبارہ پھڑکنے لگے۔ خدا کے لیے مرنا نہیں۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد بچہ مر چکا تھا۔ وہ دونوں وہاں باورچی خانے کے فرش پر پڑے تھے، میری ماں اپنے پہلو کے بل اپنی چھاتی سے اپنے مردہ بچّے کو چمٹائے ہوئے ٹھنڈکو  دھیرے دھیرے اپنے ماس میں گھس کر  ہڈّیوں تک دھنستی ہوئی محسوس کر رہی تھی۔ مزید رونا نہیں۔

ہلال ایسا چاولوں کاکیک

پچھلے موسمِ بہار میں، ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران میں کسی نے مجھ سے پوچھا۔ ’’کیا مجھے ایک خاص تجربہ ہوا تھا، جب آپ جوان تھے، جس نے آپ کو اداسی کے قریب پہنچایا ہو؟‘‘

اس سوال کا سامنا کرنا گویا اپنی  موت کا سامنا کرنے کے مترادف تھا۔ مَیں تو اِس کہانی کے اندر بڑا ہوا تھا۔ تمام جوان جانوروں میں سب سے زیادہ بے بس۔ خوبصورت چھوٹا بچّہ، چاند کی شکل کے چاول کے کیک ایسا سفید۔ مَیں اُس موت کی جگہ پر کیسے پیدا اور بڑا ہوا تھا۔

’’ہلال جیسی شکل کے چاول کے کیک ایسا سفید‘‘ کبھی بھی چھے برس کی عمر تک زیادہ معنی نہیں رکھتا تھا، یہاں تک کہ مَیں چوسیوک کے لیے چاولوں کے کیک بنانے،پیڑوں کو چھوٹے چھوٹے ہلال کی شکلیں دینے  میں مدد کرنے کے لیے کافی بڑا ہو گیا تھا۔ بھاپ دینے سے قبل، چاول کے آٹے کے پیڑوں کی وہ چمک دار سفید شکلیں اتنی پیاری چیزیں ہوتیں کہ اِس دنیا کی لگتی ہی نہیں تھیں۔ صرف اُس کے بعد، ایک رکابی میں دیودار کی سوئی کے ساتھ سجاوٹ پر ہی وہ مایوس کن حقیقت بن جاتے تھے۔ بھنے ہوئے تلوں کے تیل سے چمکتے ہوئے، اُن کا رنگ اور ساخت حدت اور بھاپ سے بدل جاتا تھا۔ بلاشبہ، وہ مزیدار ہوتے تھے لیکن اپنے سابقہ حسن کے عین برعکس ۔

چنانچہ جب میری والدہ نے کہا۔ ’’چاول کے کیک جیسی سفید‘‘ تو مجھے لگا کہ اِس کا مطلب تھا: بھاپ دلانے سے پہلے کا چاول کا کیک۔ اُس جیسا ہی چونکا دینے والا روایتی چہرہ۔ اِن خیالات نے میرا سینہ یوں دبوچ لیاگویا آہنی بھار تلے دبا دیا گیا ہو۔

ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں پچھلے موسمِ بہار کے دوران میں مَیں نے اِس میں سے کسی بات  کا ذکر نہیں کِیا۔ اِس کے بجائے، مَیں نے اپنے پالتو کتے کا ذکر کِیا، جو اُس وقت مر گیا جب مَیں پانچ سال کا تھا۔ وہ ایک غیر معمولی ذہین کتا تھا، مَیں نے کہا، ایک دوغلی نسل کا، لیکن قدرے مشہور جِنڈو نسل سے تھا (جِنڈو: جنوبی کوریا کے جزیرے کا نام، جہاں کے کتوں کی نسل معروف ہے)۔ میرے پاس اب بھی ہم دونوں کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہے، قربت کے لمحے کی ایک واضح تصویر، لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ مَیں اسے زندہ یاد نہیں کر سکتا۔ میری ایک روشن یاد اُس سویر کی ہے جب وہ مرا۔ سفید پشم، کالی آنکھیں، نم ناک۔ تب سے مجھے کتوں سے نفرت ہو گئی، جو آج تک برقرار ہے۔ الجھی ہوئی نرم نرم پشم تک پہنچنے کے بجائے میرا بازو میرے ساتھ بندھا رہتا ہے۔

:::

Authors

  • ادب کے نوبیل انعام ۲۰۲۴ء کا اعلان کرتے ہوئے منصفین نے ہن کانگ کو نوبیل انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کِیا: ’’اُن کی پُرزور شاعرانہ نثر کے لیے جو تاریخی صدمات کا مقابلہ کرتی ہے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی کو عیاں کرتی ہے۔‘‘ وہ نوبیل انعام پانے والی پہلی کوریائی شاعرہ/ مصنفہ ہیں جب کہ کل نوبیل جیتنے والے کل ۱۱۹ شعرا و ادبا میں سترھویں خاتون ہیں — اُن سے قبل ۱۶ خواتین یہ اعزاز حاصل کر چکی ہیں — اور ایشیا سے نوبیل انعام کے فاتحین میں اُن کا نمبر نواں ہے۔ ہن کانگ ۲۷ نومبر، ۱۹۷۰ء کو جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں پیدا ہوئیں مگر نو سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سیول منتقل ہو گئی تھیں۔ اُن کا اپنا ایک ادبی پس منظر ہے۔ اُن کے والد ایک نامور ناول نویس تھے۔ اپنے لکھنے پڑھنے کے کام کے ساتھ ساتھ، اُنھوں نے اپنے آپ کو فنونِ لطیفہ اور موسیقی کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے، جس کی عکاسی اُن کے تمام ادبی کاموں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ہن کانگ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۹۳ء میں ’’ادب اور معاشرہ‘‘ نامی کوریائی میگزین میں متعدد نظموں کی اشاعت سے کیا۔ اُن کی نثر کی شروعات ۱۹۹۵ء میں افسانوی مجموعے ’’یوہسُو کی محبت‘‘ سے ہوئی (یوہسُو ، جنوبی کوریا کا ایک ساحلی شہر)۔ جس کے فوراً بعد اُن کے بہت سے نثری کام، ناول اور افسانوں کے مجموعے منصۂ شہود پر آئے۔ جن میں سے قابل ذکر ناول ’’تمھارے یخ ہاتھ‘‘ ۲۰۰۲ء ہے۔ اِس میں فنونِ لطیفہ میں ہن کانگ کی دلچسپی کے واضح آثار موجود ہیں۔ یہ ناول ایک لاپتہ مجسمہ ساز کے، جو خواتین کے بدنوں کےمجسمے پلاسٹر آف پیرس سے بنانے کا جنونی ہے، اپنے پیچھے چھوڑے گئے ایک مخطوطہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اِس میں انسانی علم الاعضا اور شخصیت و تجربے کےمابین کھیل کا استغراق ہے، جہاں مجسمہ ساز کے کام میں ایک تنازع جنم لیتا ہے کہ جسم کیا ظاہر کرتا اور کیا چھپاتا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے آخر میں ایک جملہ واضح اصرار کرتا ہے: ’’زندگی ایک پاتال پر تنی ہوئی چادر ہے، اور ہم اِس پر نقاب پوش بازی گروں کے مانندرہتے ہیں۔‘‘ ہن کانگ کو نمایاں بین الاقوامی شہرت ۲۰۰۷ء میں اشاعت پذیر ہونے والے اُن کے ناول ’’سبزی خور‘‘ سے ملی جس کا ۲۰۱۵ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ ’’دی ویجیٹیرین‘‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ تین حصوں پر مشتمل اِس ناول میں اُن متشدد عواقب کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اُس وقت رونما ہوتے ہیں جب ناول کی مرکزی کردار ییونگ ہائے کھانا کھانے کی مروجہ اقدار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ اس کے گوشت نہ کھانے کے فیصلے پر مختلف، یکسر مختلف رد ِّعمل سامنے آتے ہیں۔ اُس کے رویے کو اُس کا شوہر اور جابر باپ دونوں سختی سے مسترد کر دیتے ہیں، اور اُس کے بصری فنکار (ویڈیو آرٹسٹ) بہنوئی کے ہاتھوں اُس کا شہوانی و جمالیاتی استحصال ہوتا ہے جو اُس کے غیر فعال جسم کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بالآخر، اُسے ایک نفسیاتی علاج گاہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے، جہاں اُس کی بہن اُسے بچانے اور اُسے ’’معمول کی زندگی‘‘ میں واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم ییونگ ہائے ایک گہری نفسیاتی کیفیت میں مزید ڈوب چکی ہوتی ہے جس کا اظہار ’’بھڑکتے ہوئے درختوں‘‘ (درختوں کی ایک قسم، جس کے پتے گہرے سرخ اور بڑے ہوتے ہیں جس سے یوں لگتا ہے جیسے اُس میں آگ بھڑکی ہوئی ہو۔ یہ درختوں کی سلطنت کے بادشاہی کی علامت بھی ہے اور یہ جتنا دلکش دکھائی دیتا ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہوتا ہے۔) کی علامت کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ایک اور پلاٹ پر مبنی کتاب ’’ہَوا چلتی ہے، جاؤ‘‘ہے، جو ۲۰۱۰ء میں منظرِ عام پر آئی اور دوستی اور فن کے بارے میں ایک ضخیم اور پیچیدہ ناول ہے، جس میں دُکھ اور تبدیلی کی آرزو اپنی بھرپور شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہن کانگ کی کہانیوں میں زندگی کی شدتوں کو سہتے جسموں سے ہمدردی کی تصویر کشی کےلیے اُنھیں اپنے بے حد قوی استعاراتی انداز سے تقویت ملتی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ’’یونانی اسباق‘‘- ۲۰۲۳ء، دو غیر محفوظ افراد کے درمیان غیر معمولی تعلق کی ایک دلکش تصویر کشی ہے۔ ایک نوجوان عورت، جو کئی تکلیف دہ تجربات کے بعد اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے،ازمنۂ قدیم کے یونان میں اپنی استاذ سے رابطہ کرتی ہے، جو خود اپنی بینائی کھو رہی ہے۔ اُن کی اِن اپنی خامیوں سے، ایک سوختہ و خستہ محبت پروان چڑھتی ہے۔یہ ناول خسارے، قربت اور زبان کے حتمی حال و قال کے چوگرد ایک خوبصورت مراقبہ ہے۔ کوریائی زبان میں ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والے ناول ’’انسانی افعال‘‘، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۶ء میں ’’ہیومن ایکٹس‘‘کے عنوان سے ہوا، میں اِس مرتبہ ہن کانگ نے اپنی سیاسی بنیاد کو برتتے ہوئے ایک تاریخی واقعہ پیش کِیا جو گوانگجو شہر میں پیش آیا تھا، جہاں وہ خود پلی بڑھی اور جہاں سینکڑوں طلبہ اور غیر مسلح شہریوں کا ۱۹۸۰ء میں جنوبی کوریا کی فوج نے قتلِ عام کِیا تھا۔ تاریخ کے متأثرین کی آواز بننے کی کاوش میں، وہ اپنے اِس ناول میں اِس واقعہ کو سفاکانہ حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کرتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، ادبی گواہی کی صنف تک پہنچتی ہیں۔ ہن کانگ کا انداز، جتنا بصیرت آمیز ہے اُتنا ہی جامع و مختصر بھی۔ اس کے باوجود ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا جس کی خاص مصلحت یہ ہے کہ مُردوں کی روحوں کو اُن کے بدنوں سے جدا ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی فنا کا خود مشاہدہ کر سکیں۔ کچھ خاص مقامات پر، ناقابلِ شناخت لاشوں کے نظر آنے پر جنھیں کفن دفن نصیب نہیں ہوا ہوتا، متن سوفوکلس کے اینٹی گون کے مرکزی خیال سے رجوع کرتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ہن کانگ کا اگلا پڑاؤ تھا: ’’سفید کتاب‘‘۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں اگلے ہی برس ۲۰۱۷ء میں ’’سفید کتاب‘‘ کے عنوان سے ہو گیا۔اِس ناول میں ایک بار پھر ہن کانگ کا شاعرانہ اندازحاوی نظر آیا۔ یہ کتاب اُس شخص کے نام انتساب کی گئی ہے جو اپنی بڑی بہن کا خود بیانیہ ہو سکتا تھا، لیکن وہ تو پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی چل بسی تھی۔ مختصر وضاحتوں کی ترتیب میں، جو تمام تر سفید اشیاء کے بارے میں ہیں جنھیں ایک لڑی میں پرویا گیا ہے کہ سفید رنگ غم و حزن کا رنگ ہے۔ یہی چیز اِسے ایک ناول کم اور ایک قسم کی ’’سیکولر دعائیہ کتاب‘‘ کا درجہ دیتی ہے، جیسا کہ یہی بیان بھی کیا گیا ہے۔ اگر راوی کی، یہ توجیہ راوی ہی پیش کرتا ہے، خیالی بہن کو زندہ رہنے دیا جاتا تو وہ خود بھی اپنے آپ کو وجود میں نہ آنے دیتی۔ مرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ، جس پر کتاب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے: ’’اُس سفید کے اندر، اُن تمام سفید چیزوں میں، مَیں اپنی آخری سانس اُس سانس میں لوں گا جو تم نے خارج کی تھی۔‘‘ ہن کانگ کی ایک اور خاص تخلیق اُن کا ۲۰۲۱ء میں منصۂ شہود پر آنے والا تازہ ترین ناول ’’ ہم جدا نہیں ہوتے ‘‘ الم و حزن کی تصویر کشی کے حوالے سے گہرے طور پر ’’ سفید کتاب ‘‘سے جڑی ہوئی ہے۔اِس کی کہانی ۱۹۴۰ء کی دہائی کے اواخر میں جنوبی کوریا کے جزیرے جیجو پر ہونے والے ایک قتل عام کو سامنے لاتی ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کو، جن میں بچّے اور بوڑھے بھی شامل تھے، محض ساتھی ہونے کے شبہ میں گولی مار دی گئی۔ اِس ناول میں راوی اور اُس کے دوست اِنسیون کی مشترکہ سوگ منانے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ دونوں اِس سانحے کے کافی عرصے بعد تک اپنےعزیز و اقارب کی بربادی کے صدمے کو برداشت کرتے ہیں۔ تخیل کے ساتھ، جو کہانی کے عین اُتنا ہی مطابق ہے جتنا کہ کثیف، ہن کانگ نہ صرف ماضی کی طاقت کو حال پر منتج کرتی ہیں بلکہ اتنی ہی قوت کے ساتھ وہ دوستوں کی اُن بے لوث کوششوں کو منظر عام پر لانے کے لیےکھوج بھی لگاتی ہیں جو اجتماعی غفلت کا شکار ہوئیں۔ اِس طرح یہ اُن دونوں دوستوں کا ایک مشترکہ آرٹ پروجیکٹ میں صدمہ بن جاتا ہے، جو کتاب کو اِس کا عنوان فراہم کرتا ہے۔ دوستی کی گہری ترین شکل کی صورت میں یہ ناول جتنا وراثتی المیے کو بیان کرتا ہے اُتنا ہی ڈراونے خوابوں کو بھی اور ادبی گواہی کی حق گوئی کے رجحان کے درمیان بڑی اصلیت کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ ہن کانگ کے تمام کام کی خصوصیت الم و حزن کی ایسی دوہری تصویر کشی عبارت ہے جو مشرقی سوچ سے قریبی تعلق کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی اذیت کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ۲۰۱۳ء کے ناول ’’رُوبہ صحت‘‘ میں ٹانگ کا السر شامل ہے جو ٹھیک ہونے سے انکار کرتا ہے، اور مرکزی کردار اور اس کی مردہ بہن کے مابین ایک تکلیف دہ رشتہ۔ کوئی حقیقی صحت یابی کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتی، اور درد ایک بنیادی وجودی تجربے کے طور پر ابھرتا ہے جسے کسی گزرتے ہوئے عذاب میں کسی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔ ’’سبزی خور‘‘ جیسے ناول میں بھی کوئی سادہ سی وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔ جب کہ اِس ناول میں منحرف عمل اچانک اور دھماکہ خیز طور پر صاف انکار کی صورت میں ہوتا ہے، جس میں مرکزی کردار خاموش رہتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کی مختصر کہانی، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۹ء میں ’’یوروپا‘‘کے عنوان سے ہوتا ہے، ایک ایسے مرد راوی کو سامنے لاتی ہے جو اپنے آپ کو عورت کے بھیس میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایک چیستاں عورت کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے جو ایک ناممکن شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ بیانیہ خود تو چپ رہتا ہے لیکن جب اُس کی محبوبہ دریافت کرتی ہے: ’’اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوتے تو آپ اپنی زندگی کا کیا کرتے؟‘‘ لیکن یہاں تکمیل یا کفارہ کی کوئی گنجائش نہیں ملتی۔ ہن کانگ اپنی تخلیقات میں، تاریخی سانحات اور پوشیدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ مبارزت اور اپنی ہر لکھت میں انسانی زندگی کی بے ثباتی کو کھول کر بیان کرتی ہیں۔ وہ جسم اور روح، زندہ اور مردہ کے درمیان رشتے کے بارے میں ایک منفرد آگہی رکھتی ہیں، اوراُنھوں نے اپنے آپ کو اپنے شاعرانہ اور تجرباتی انداز میں عصری نثر میں ایک اختراعی کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

4 thoughts on “ابیض— ذہنی حالت”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *