𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

گاؤ ژِنگ جیان کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمدکے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

چینی ڈراما

بارش سے اَوٹ

گاؤ ژِنگ جیان

(Gao Xingjian)

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

Gao Xingjian Hidden From Rain (Barish sy ot) - Urdu - Translations-تراجم (PP)

کردار:

ایک ریٹائرڈ بُوڑھا، جو سُوٹ کیس اُٹھائے، ہَیٹ اور نرم و لچک دار جُوتے پہنے ہُوئے ہے۔

ایک چہکتی آواز۔

ایک دِل کش آواز۔

(غروبِ آفتاب کے بعد پھیلتے ہُوئے دُھندلکے کا وقت، درختوں کے اطراف والے راستے کی تعمیر کے لیے نصب کیا گیا ایک تنبو جس کے نیچے سیمنٹ کی کچھ بوریاں کافی ہوں گی۔)

ایک ریٹائرڈ بُوڑھا نمودار ہوتا ہے۔ چلتے ہُوئے وہ اپنا مُنھ صاف کرتا ہے، ہَیٹ اُتارتا ہے، ٹھیرتا ہے اور اُوپر آسمان کو اور پھر نیچے زمین کی سمت دیکھتا ہے۔ پتّوں پر گِرنے والی بارش کی آواز دِھیرے دِھیرے سُنائی دینے لگتی ہے۔ بُوڑھا ہَیٹ پہنتا ہے اور اَوٹ لینے کے لیے سڑک کے کنارے نصب تنبو کی جانب تیزی سے بڑھتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ ہَیٹ اُتارتا ہے، اپنے جُوتے جھاڑتا ہے، پشت پر ہاتھ باندھتا اور اُوپر آسمان کی جانب دیکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ سٹیج پر روشنی مدہم پڑتی جاتی ہے۔ بارش کی آواز آرہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی داہنی سمت پڑی سیمنٹ کی بوری پر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ فوراً ہی اُٹھ کر سُوٹ کیس کو اپنے چوتڑوں تلے رکھتا ہے اور آہ بھرتے ہُوئے دوبارہ بیٹھ جاتا ہے۔

سٹیج پر دو نوجوان لڑکیاں بھاگتی اور کھلکھلا کر ہنستی ہُوئی آتی ہیں اور بارش سے بچنے کے لیے تنبو میں چلی جاتی ہیں۔

چہکتی آواز:

دیکھو، دیکھو۔ تمھاری پلکوں، تمھارے ناک کی نوک… عین نوک کے اُوپر ایک قطرہ ٹِکا ہُوا ہے۔

دِل کش آواز:

یہ تو میری گردن پر بھی بہہ رہے ہیں۔ یہ سب تمھارا قصور ہے۔ میری بال خُوب بھیگ گئے ہیں۔

چہکتی آواز:

تم اِس طرح اچھی لگ رہی ہو۔

دِل کش آواز:

احمق، تم بُری ہو۔

(ریٹائرڈ بُوڑھا اُن سے پرے ہَٹ کر خاموشی سے بیٹھ جاتا ہے۔ دونوں لڑکیاں تھوڑی دیر تک کھی کھی کر کے ہنستی رہتی ہیں۔)

چہکتی آواز:

تمھیں بارش پسند ہے؟  

دِل کش آواز:

ہاں۔

چہکتی آواز:

بس نِنگ بہن کے بال گِیلے نہ ہوں۔

دِل کش آواز:

مکمل طور پر بھیگنا اچھا لگتا ہے۔

چہکتی آواز:

بھیگی ہُوئی مُرغی کی طرح!         

دِل کش آواز:

بھیگی ہُوئی مُرغی ہونا بھی اِتنا بُرا نہیں۔

چہکتی آواز:

اوہ، نِنگ بہن۔

دِل کش آواز:

کیا تم حسد محسوس کر رہی ہو؟

چہکتی آواز:

ہاں، کر رہی ہوں۔

(ایک بار پھر تھوڑی دیر کے لیے ہنسی۔ وہ سیمنٹ کی بوریوں کی دوسری سمت آدمی کی موجودگی سے بے خبر ہیں۔ بُڈھا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے پہلو بدل کر اپنا مُنھ دُوسری طرف کر لیتا ہے۔)         

دِل کش آواز:

تم احمقانہ حرکات کر رہی ہو۔

چہکتی آواز:

مَیں احمق جو ہوں!

(وہ دُوسری لڑکی کے گلے میں اپنی بانہیں حمایل کرتی ہے۔ بُوڑھا خاصا مضطرب ہو جاتا ہے۔ وہ دِھیرے سے کھانستا ہے۔)

دِل کش آواز:

یہ حماقت بند کرو۔ تم مجھے گُدگُدی کر رہی ہو۔ دیکھو، بارش کتنی حسین ہے۔

(تنبو سے باہر مدہم روشنی میں بارش کی چادر چمک اور کُود رہی ہے۔ دونوں لڑکیاں سیمنٹ کی بوریوں پر بیٹھ جاتی ہیں۔ بارش موسلا دھار ہو جاتی ہے۔ ریٹائرڈ بُوڑھا شخص اپنی جگہ سے اُٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ دوبارہ بیٹھ جاتا ہے۔)

چہکتی آواز:

بہن نِنگ، تمھیں اُس وقت کے بارے میں نہیں پتا جب مجھے بارش کو دیکھنے پر سرزنش کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

دِل کش آواز:

بارش کو دیکھنے کی وجہ سے تمھیں سرزنش کیوں کی گئی تھی؟

چہکتی آواز:

اُس روز بھی بارش برسی تھی۔ نمائش والے ہال میں صرف چند مہمان تھے۔ ہم سب اجلاس کےلیے ہال میں جمع ہو گئے۔ میں اکیلی باہر کھڑی بارش کو تکتی رہی۔ بارش زینے پر ایک خاص زاویے سے برس رہی تھی اور بُوندیں جمع ہو کر ایک قدمچے سے دُوسرے نچلے قدمچے پر ایک ننّھی آبشار کے مانند بہہ رہے تھے چاندی جیسی سفید…

دِل کش آواز:

پارے جیسی۔   

چہکتی آواز:

بجا۔ وہ ایک دُوسرے کے پیچھے چکمتے دمکتے ہُوئے دوڑ رہی تھیں؛ بے حد پُرلطف نظارہ تھا۔ آہ، میں نے قریب سے دیکھا۔ جب میں ہال میں داخل ہُوئی تو ہماری ٹیم کی سربراہ نے مجھ سے دریافت کیا کہ مَیں کہاں تھی۔ مَیں نے بتایا کہ بارش دیکھ رہی تھی۔

(دونوں لڑکیاں کھی کھی کرتی ہُوئی ایک دُوسرے کی طرف جھکتی ہیں۔ ریٹائرڈ بُوڑھا اپنے سُوٹ کیس سے کوک کی بوتل کے دو گلاس نکالتا اور کن اَکھیوں سے اُنھیں دیکھتا ہے۔ وہ ملول دِکھائی دیتا ہے۔)

چہکتی آواز:

اُس لمحے ہر شخص نے مجلس روک دی، وہ تمام مجھے اِس طرح دیکھ رہے تھے، دِلچسپی سے۔ وہ بولے۔ ’’تم نے یہ کیوں کہا کہ تم بارش کو دیکھ رہی تھیں؟ تم یہ نہیں کہہ سکتی تھیں کہ تم غسل خانے میں گئی تھیں؟‘‘

دِل کش آواز:

بارش کو دیکھنا کتنا پیارا لگتا ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے۔

چہکتی آواز:

درست، لیکن ہماری باس بولی: سب اجلاس میں تھے مگر تم دفتری اوقاتِ کار میں بارش دیکھ رہی تھیں! میں نے اپنے دِل میں سوچا: تم جو چاہو کہتی رہو۔ بہرحال میں نے ایک خُوب صُورت چیز دیکھی ہے۔

(ایک بار پھر ہنسی کی آواز۔ ریٹائرڈ بُوڑھا آدمی کوک کی بوتل کھول کر گلاس کو سُوٹ کیس میں رکھتا اور اپنے آپ کو دُھندلکے میں چھپا لیتا ہے۔ سٹیج پر روشنی مدہم پڑ جاتی ہے۔)

دِل کش آواز:

بارش کی بات کی جائے تو اِس کا انحصار دیکھنے والے کے مُوڈ پر بھی ہوتا ہے۔ پچھلی مرتبہ جب میں کاروباری دورے سے لوٹی تو

چہکتی آواز:

(اُس کی بات کاٹتے ہُوئے) آئیو (Ai-yo)[1]، میرا خیال ہے کہ جب مِینھ برس رہا تھا تو سوائے اُس آبشار کی چمک کے آسمان پر تاریکی چھائی ہُوئی تھی۔ میں نے یہ دِلچسپ چیز بھی دیکھی کہ وہاں ایک شخص اپنے سر کو کپڑے سے ڈھانپے بارش میں بُری طرح بھاگتا ہُوا جارہا تھا۔

دِل کش آواز:

جب ہم اپنے کاروباری دورے سے واپس آئے تو وہ بھی برسات والا ایک دِن تھا۔ ہمارے یُونٹ نے ہمیں سٹیشن سے لینے کے لیے کسی شخص کو بھجوا دیا تھا۔ میں تو بالخصوص خُوش تھی۔ گمنگ بھی آیا تھا…

چہکتی آواز:

کون گمنگ؟

دِل کش آواز:

پچھلی بار جب تم مجھے ملنے آئی تھیں تو تم دونوں کی ملاقات نہیں ہُوئی تھی؟ وہی تو تھا جس نےگپ شپ لگانے کے لیے مجھے سامنے والے گیٹ پر روک لیا تھا، جس نے سنہرے فریم والا چشمہ لگا رکھا تھا…

چہکتی آواز:

اوہ، مجھے یاد آگیا۔

دِل کش آواز:

اُس نے مجھے بتایا: ’’مجھے بارش بالکل پسند نہیں؛ تاریک آسمان مجھے اِتنا رنجیدہ کر دیتا ہے کہ میرا دِل مرنے کو چاہنے لگتا ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’واقعی؟ تم یہ محسوس کیوں نہیں کرتے کہ بارش والے روز تمھاری رُوح تازہ ہو جاتی ہے؟‘‘ اُس نے کہا کہ وہ بارش والے دِن اپنے     آپ کو ذرا بھی آرام دہ محسوس نہیں کرتا۔ میں بولی: ’’یہ بڑی عجیب بات ہے۔‘‘

چہکتی آواز:

اِس قسم کے لوگوں سے بات چیت کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

(بُوڑھا کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا سُوٹ کیس اُٹھاتا ہے۔ وہ روانہ ہونے کے بارے میں سوچتا ہے لیکن پھر جھجک جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

ایک مرتبہ میں نے ایک فلم دیکھی۔ وہ فلم ایک اطالوی مصوّر کے بارے میں تھی جس کا نام موڈی گِلیانی تھا۔ وہ ایک حقیقی فن کار تھا۔ وہ برساتی بھی نہیں پہنتا تھا۔ برستی بارش میں تنہا پھِرتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ منظر بہت خُوب صُورت تھا۔ کچھ لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ بارش خُوب صُورت چیز نہیں ہے؟ کیوں نہیں ہے خُوب صُورت؟ بارش سے دُھلنے کے بعد، اندر باہر کی تمام غلاظت…

چہکتی آواز:

پُوری طرح دُھل جاتی ہے!

دِل آواز:

ہم کتنے مسرور ہوں گے جب ہم اصل میں وہ ہو جائیں جو ہم ہیں۔

(بُوڑھا شخص ہچکچاتے ہُوئے اپنا سُوٹ کیس نیچے رکھ دیتا ہے۔ بالآخر، وہ بیٹھ جاتا ہے۔)

چہکتی آواز:

میری بات سنو؛ مجھے واقعی بارش میں چہل قدمی کرنے، چھتری پر گِرنے والے قطروں کیآوازیں سننے میں لطف آتا ہے۔ چھتری ہٹا کر اپنا سر اُٹھاؤ اور چھوٹی چھوٹی بُوندیں باری باری چہرے اور سر پر گریں تو اِس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ کاش، میں اپنے سارے کپڑے اُتار کر بارش میں اپنا بدن بھگو سکتی؛ یہ کام شاور کے نیچے نہانے سے زیادہ پُرلطف ہے…

(بُڈھا آناً فاناً اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کھانستا ہے۔ وہ روانہ ہونے ہی والا ہوتا ہے لیکن پھر ٹھیر جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

میری سنو۔ کاروباری دورے پر جانے سے پہلے اُس نے مجھے ایک خط دیا اور دورے کے دوران مجھ سے جواب لکھنے کے لیے کہا۔ لیکن میں نے ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ پس جب اُس نے مجھے دیکھا تو وہ بے حد پریشان ہُوا۔ اُسے نہیں پتا تھا کہ میں نے بارش سے لطف اُٹھایا، موسلا دھار بہترین بارش سے اور پھر میں کام پر جانے کے بجائے گھر ہی پر ٹھیری۔

(بُوڑھا سر مارتا ہے۔)

چہکتی آواز:

جب بارش پڑ رہی تھی تو چمکتی ہُوئی بُوندیں صنوبر کے درختوں پر یُوں ٹنگی ہُوئی تھیں جیسے وہ کرسمس ٹری ہوں

دِل کش آواز:

میری بات سنو؛ بارش والے روز پارک میں سیر کرنے کا بڑا مزہ آتا ہے۔ پارک میں کوئی نہیں ہوتا تو میں جو چاہوں کر سکتی ہوں…

چہکتی آواز:

وحشی لڑکی!

(وہ دونوں ایک دُوسرے سے لپٹ کر تھوڑی دیر تک دبی دبی ہنسی میں ہنستی رہتی ہیں۔ بُڈّھا خاموشی سے پیچھے ہَٹ کر جھکتا ہے اور نیچے بیٹھ جاتا ہے۔ وہ اپنا سُوٹ کیس نیچے زمین پر رکھ دیتا ہے۔ اُس کا وجود اندھیرے میں گُم ہو جاتا ہے۔ گہری تاریکی میں بارش کے برسنے کی آواز آتی رہتی ہے۔ صرف گہری زرد روشنی کا ایک ہالہ دونوں لڑکیوں کا احاطہ کیے اُنھیں دِکھا رہا ہوتا ہے۔ چہکتی آواز دُور سے آتی ہے لیکن دِل کش آواز دِھیمی اور واضح ہوتی ہے۔)

چہکتی آواز:

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور بارش والے روز سوتی تو بند آنکھوں سے بے حد سکون ملتا تھا۔ جب کچھ دیر کے بعد میں جاگتی تو بارش تھم چکی ہوتی تھی۔ مجھے صحن میں سے دوبارہ پرندوں کے چہچہانے، چیں چیں چُوں چُوں اور پتّوں سے بارش کی بُوندوں کے ٹپکنے کی آوازیں، ٹپ ٹپ سنائی دینے لگتیں

دِل کش آواز:            

کمبل میں لپٹ کر سوتے ہُوئے میں نے بھی مینڈکوں کو ٹراتے ہُوئے سنا ہے، ٹر ٹر ٹر۔

چہکتی آواز:

جب میں کام پر سے گھر واپس گئی تو بارش تھم چکی تھی۔ ہمارے پڑوس میں ایک لڑکا رہتا تھا۔ وہ مجھے اپنی بائیک پر گھر تک چھوڑنے آیا۔ جب ہم ایک تالاب کے پاس سے گذرے تو وہاں مینڈک گلے پھاڑ پھاڑ کر ٹرا رہے تھے: ٹر ٹر ٹر۔ وہ سارے بڑے بڑے پیٹوں والے مینڈک تھے—

دِل کش آواز:

تمھیں پتا ہے؟ تم مینڈک کو جتنا چھیڑو اُس کا بڑا سا پیٹ اَور بڑا ہوتا جاتا ہے۔

چہکتی آواز:

اے… یہ بڑی دِلچسپ بات ہے!

(سٹیج پر خاموشی چھا جاتی ہے، کوئی ہنس نہیں رہا ہوتا۔ پس منظر میں سے ایک کار کے گذرنے کی آواز آتی ہے اور جب کار چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں سے گذرتی ہے تو چھینٹوں کے اُڑنے کی آوازیں بھی آتی ہیں اور پھر کار کے گذرنے کی آواز مدہم پڑتے پڑتے ختم ہو جاتی ہے۔)

دِل کش آواز:

مِینھ اب بھی برس رہا ہے۔

چہکتی آواز:

برسنے دو۔ ابھی زیادہ وقت نہیں ہُوا؛ ابھی تو سڑک کی بتّیاں تک روشن نہیں ہوئیں۔

(تاریکی میں تنبو کے نیچے کہیں قطرے گِرنے کی آواز آتی ہے۔ بُوڑھا اپنی عینک میں سے قطروں کے گِرنے کے مقام کی تلاش میں اِرد گِرد نظریں دوڑاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

ناقابلِ یقین عجوبہ۔ جب بارش ہوتی ہے تو جھینگر مکمل طور پر بولنا بند کر دیتے ہیں۔

چہکتی آواز:

اگر وہ یکایک دوبار آواز نکالیں تو وہ آواز کافی خُوش گوار لگتی ہے۔

دِل کش آواز:

بے شک، میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ وہ آواز کانوں کو خاصی بھلی لگتی ہے۔ لیکن جُوں ہی بارش تھمنے کے بعد آسمان صاف ہوتا ہے تو دوبارہ جھینگر وں کی چِڑچِڑ شروع ہو جاتی ہے۔ اے، تب وہ آواز مجھے بے حد بُری لگتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ تمھیں (جھینگروں کو) نہیں بولنا چاہیے؛ اب تم کیوں چِڑچِڑ کر رہے ہو؟ عموماً میں بھی تمھاری طرح خاموشی پسند ہوں۔ کیا ایسے وقت تمھارا چِڑ چِڑ کرنا تنگ نہیں کر رہا ہے؟ مجھے واقعی خیال آتا ہے کہ اِس سے میرا تأثر برباد ہو گیا ہے(جھینگروں کےبارے میں)۔

چہکتی آواز:

میرا خیال ہے کہ میں اب بھی اپنے تئیں بے حد لطف اندوز ہو سکتی ہوں۔ مجھے خاص طور پراِس طرح کی کُہر آلود بارش پسند ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ میں ایک پہاڑ پر کھڑی ہو جاؤں۔ دُھواںدھار بارش میں اپنے کپڑے شرابور ہونے دوں، اپنے بدن کے ساتھ خُوب چپکے ہُوئے…

دِل کش آواز:

مجھے بات کرنے دو—

چہکتی آواز:

اے، میں تمھیں بات نہیں کرنے دوں گی، میں باتیں کرنا چاہتی ہوں!

دِل کش آواز:

مَیں کہہ رہی ہوں: میں نے موڈی گِلیانی کو دیکھا…

چہکتی آواز:

دِیوانہ!

دِل کش آواز:

یہ فن کار واقعی دِیوانہ ہے، موسلا دھار بارش میں ساحل پر تنہا سیر کرتا ہے، اپنے ہاتھ پھیلا کر اُوپر دیکھتے ہُوئے سانس لیتا ہے

(بارش کی دھار میں سے گزر کر آتی ہُوئی ایک کے بعد ایک گاڑی کی آواز، کوئی آرہی ہے تو کوئی جارہی ہے، جو یُوں سمندر کی لہروں کی آواز جیسی لگتی ہے۔ یکایک بُوڑھا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے جیسے وہ تکلیف میں ہو۔)

دِل کش آواز:

اُس کی تمنّا ہوتی تھی کہ بارش اُسے دھو ڈالے۔ اُس کے ذہن میں اپنی تصاویر میں اُس اظہار کے لیے بہت خلفشار ہوتا تھا، جس کی وہ ابھی تصویر کشی کرنا چاہتا تھا۔ جس وقت وہ لگ بھگ پاگل ہو چکا تھا کہ جس لڑکی کا وہ دِیوانہ تھا اُس کی طرف دوڑی۔ بعد میں وہ اُس کی بیوی بنی۔ اُس وقت، میرا خیال ہے کہ اگر وہ ، وہ شخص ہوتا جس سے میں محبت کرتی ہوتی تو میں کبھی اُسے برساتی کوٹ نہ پہناتی۔ میں اُس کے ساتھ برسات میں بھیگتی۔ میرا خیال ہے کہ جب تم کسی شخص سے محبت کرتے ہو تو تمھیں اُس کے جذبات کے ساتھ بھی محبت کرنا چاہیے۔ اُس کے ساتھ ساحلِ سمندر پر ہونا چاہیے، لہروں اور بارش کو اپنے اُوپر بہنے دینا چاہیے…

(سمندری لہروں کی آواز بلند ہوتی جاتی ہے۔ بُڈّھا منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

آہ، یہ بے حد حسین، بہت ہی حسین ہے۔ لیکن جُوں ہی میں نے حقیقت کے بارے میں سوچا میں بے ہیجان ہو کر بیٹھ گئی اور تاریکی میں فلم دیکھنے لگی۔

چہکتی آواز:

آہ، کس قدر مایُوس کُن ہے۔

(موسلا دھار بارش برستی ہے۔ بُوڑھا پژمردگی کی حالت میں سر کو اپنے ہاتھوں میں تھامے نیچے بیٹھ جاتا ہے۔ ناظرین اُس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے۔)

چہکتی آواز:

اے، بہن نِنگ، مجھے تو خاص طور پر برف باری پسند ہے۔ مجھے برف باری سے چِتلی کوئلیاد آجاتی ہے۔ جیسے ہی برف باری ہونے لگتی ہے مجھے لگتا ہے جیسے میں چِتلی کوئل کی کُوک سُن رہی ہوں، کیا یہ عجیب بات نہیں؟

(اِس مرحلے پر لڑکیوں پر حصار قائم کرنے والی روشنی رنگ بدل کر نیلی ہو جاتی ہے اور دِھیرے دِھیرے تیز سے تیز تر ہوتی جاتی ہے۔ دونوں شیریں گفتار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بُوڑھا آدمی منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

مجھے بھی برف باری پسند ہے۔ جب برف زمین پر گِر رہی ہوتی ہے تو ابھی پگھلی نہیں ہوتی تو وہ خالصتاً سفید ہوتی ہے اور یُوں لگتا ہے جیسے برفیلی زمین پر قدم دھرنا ناقابلِ برداشت ہے۔

چہکتی آواز:

(کھڑے ہوتے ہُوئے) لیکن مجھے تو برفیلی زمین پر چلنا بے حد پسند ہے۔

دِل کش آواز:

مَیں تو برف سے اَٹی زمین پر صرف چلوں ہی نہ بَل کہ لڑھکنیاں تک کھا لوں، لیکن مَیں نہیں چاہتی کہ لوگ مجھے دِیوانہ سمجھیں۔

چہکتی آواز:

(ایک ہی جگہ پر قدم اُٹھا اُٹھا کر رکھتے ہُوئے جیسے چہل قدمی کر رہی ہو) مجھے برفیلی زمین پرچلنا پسند ہے۔ پیچھے چھوڑے ہُوئے قدموں کے نشان یُوں لگتے ہیں جیسے گیہوں کے پتّوں کی مالا پروئی ہُوئی ہو۔

دِل کش آواز:

(کھڑی ہو کر اُسے تھامتے ہُوئے) کیا تم برف سے اَٹی زمین پر لڑھکنیاں کھانا چاہتی ہو؟ مجھے بتاؤ!

چہکتی آواز:

(قدم اُٹھاتے ہُوئے) میں چلنا چاہتی ہوں، چلنا اور چلنا کہ گیہوں کے پتّوں کی مالا پروئی جائے۔

دِل کش آواز:

(چھوٹے چھوٹے قدم ناپتے ہُوئے) تب تمھیں پنجوں کے بَل چلنا پڑے گا تاکہ تمھارےقدموں کے نشان گیہوں کے پتّوں کی مالا جیسے بنیں۔ میں گیہوں کے پتّوں کی مالا پرونے کے انداز میں چلنے کو کبھی پسند نہیں کروں گی۔

چہکتی آواز:

کبوتر کی پنجوں کے مانند چلنا بھی ٹھیک رہے گا اور میرے قدموں کے نشانات گیہوں کے پتّوں کی مالا جیسے دِکھائی دیں گے۔

دِل کش آواز:

احمق! مجھے کبوتر کے پنجوں ایسی چال پسند نہیں ہے۔ میرے پیروں کے نشان سپاٹ ہیں، گیہوں کے پتّوں کی مالا جیسے بالکل نہیں۔ یہ بتاؤ، یہ کیسی سرسراہٹیں ہیں؟

چہکتی آواز:

جھینگروں کے رینگنے کی۔

دِل کش آواز:

تم بہت گھناؤنی ہو!

(اُن کی دِھیمی دِھیمی ہنسی کی آواز، بارش کی آواز اور برف باری جیسی آواز بھی۔)

چہکتی آواز:

(دُوسرے کندھے پر جھکتے ہُوئے) بہن نِنگ۔

دِل کش آواز:

ہاں؟

چہکتی آواز:

پتا ہے مَیں کیا کہنے والی ہوں؟

دِل کش آواز:

اگر برف باری والے روز اچانک کوئی مینڈک اُچھل کر نکل آئے تو کیسی مزیدار بات ہو گی؟

چہکتی آواز:

یہ بات ہے تو میں نے برفیلی زمین پر سانپ کو دیکھا ہے۔

دِل کش آواز:

مَیں تم سے یہ پُوچھ رہی ہُوں کیا مینڈک کا اُچھلنا ممکن ہے۔

چہکتی آواز:

سانپ تو یقینا ہو سکتا ہے۔ میں نے برف سے اَٹی زمین پر دیکھا ہے۔

دِل کش آواز:

سانپ جما ہُوا ہو گا۔ یہ قطعاً ممکن نہیں!

چہکتی آواز:

یہ ممکن ہے۔ چھڑی کے مانند سخت…

دِل کش آواز:

اے، کیا تم اُس کسان جیسی بننا پسند کرو گی جس نے ایک سانپ کو گرمائش پہنچانے کے لیے اپنے سینے سے لپٹا لیا تھا؟[2]

چہکتی آواز:

اوہ، یہ بے حد عجیب بات ہو گی۔ بہن، کیا تم برف کے گولے بنا کر لطف اُٹھانا چاہو گی؟ جب برف گِرتی ہے تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے گویا مَیں چھوٹی سی بچّی بن گئی ہوں اور واقعی میرا دِل چاہتا ہے کہ مَیں برف پر لڑھکنیاں کھاتی پھروں—

دِل کش آواز:

تم میری نقل کیوں کرتی ہو؟ مَیں لڑھکنیاں کھانا چاہوں گی تو تم بھی یہی چاہو گی۔

چہکتی آواز:

تمھارے ساتھ کون لڑھکنا چاہے گا؟ گھٹیا! مَیں تمھیں چٹکی کاٹ لوں گی۔

دِل کش آواز:

 مَیں تمھیں جلا دوں گی!

چہکتی آواز:

مَیں تمھیں چمٹے سے پکڑ کر جلا دوں گی! یہ مت سمجھو کہ مَیں اتنی اچھی ہوں کہ تم مجھ پر دھونس جما لو گی! دیکھتے ہیں کون سخت جان ہے۔ (وہ اُسے گدگداتی ہے۔)

(دِل کش آواز والی لڑکی کے پاس بھی اُس کے لیے کوئی رحم نہیں ہے۔ اُن کی کھِی کھِی اور ہانپنے کی آواز آتی ہے۔ بُوڑھا سگریٹ سلگانے کے لیے ماچس کی تیلی جلاتا ہے۔ اُوپر سے آنے والی نیلی روشنی یکایک بند ہو جاتی ہے۔ تیلی کی روشنی میں بُوڑھے کی مُسکراہٹ دِکھائی دیتی ہے۔ لمحہ بھر غور کرنے کے بعد، وہ تمباکو نوشی نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ پس وہ تیزی سے تیلی بجھا دیتا ہے۔ سیمنٹ کی بوریوں پر بیٹھی ہُوئی لڑکیوں پر پڑنے والی زرد روشنی بھی دِھیمی پڑ جاتی ہے۔ لگاتار پڑنے والی بارش کی آواز۔)

چہکتی آواز:

مجھے معاف کردو، نِنگ بہن! میری بات سنو؛ جب میرا خاندان دیہات میں رہتا تھا تو بارش کے بعد دریا میں طغیانی آجاتی تھی…

دِل کش آواز:

اوہ، کیا تمھیں وہ منظر پسند ہے جب برف پگھلنا شروع کرتی ہے؟ برف کے تودوں پر ابھی برف جمی ہو۔ اُن کے ٹُوٹنے کے بعد وہ دریا میں بہنے لگیں۔

چہکتی آواز:

یہ منظر میرا پہلے دیکھا ہُوا ہے۔ برف کے تودوں کو ٹُوٹتے ہُوئے دیکھنا بہت دِلچسپ نظارہ تھا۔وہ پہلے بہتے ہُوئے پانی کے ساتھ ساتھ بہتے رہے اور پھر ایک دُوسرے سے ٹکرائے اور دریا میں بہتے ہُوئےرفتار پکڑنے سے پہلے ٹُوٹ پُھوٹ گئے۔ دریا گہرا نیلا تھا، جسے دیکھنے کا بے حد لطف آیا۔ یہ نظارہ بہت رومانوی تھا!

دِل کش آواز:

زندگی حیرت کدہ ہے۔ یہی زندگی ہے!

چہکتی آواز:

مَیں نے بڑے بڑے تودوں کو بھی ٹُوٹتے دیکھا ہے

دِل کش آواز:

لیکن بڑے تودے مجھے پسند نہیں ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ وہ بے حد تباہ کُن ہو سکتے ہیں اور انسانوں، کاروں اور سڑکوں، ہر چیز کو دفن کر دیتے ہیں۔ مجھے بڑے تودے ذرا بھی نہیں پسند کیوں کہ وہ میرے فطرت کے حسن کو برباد کرتے ہیں۔

چہکتی آواز:

لیکن تمھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی ایسی ہی ہے: کبھی حسین و جمیل تو کبھی بدصُورت…

(بادوباراں کی آواز۔ اپنے کپڑوں کو سمیٹتے اور سر کو دونوں گھٹنوں میں دیتے ہُوئے، بُڈّھا گول ہو کر گیند بن جاتا ہے۔ طوفانی ہَوا کی چنگھاڑ اور برسات کی آواز۔ ایک طرف سے آتی ہُوئی مدہم روشنی میں کھڑی ہُوئی دِل کش آواز والی لڑکی کا سایہ دِکھائی دیتا ہے۔)

دِل کش آواز:

مجھے بہت زیادہ وسیع و عریض ویرانہ بھی پسند ہے… جہاں میں بلند آواز میں، جتنی دیر تک چاہوں، چیخ سکوں، اور جتنا چاہوں غُل غپاڑہ مچا سکوں۔ تب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لمحہ بہت خُوب صُورت ہے، جو جنگلی گھاس پُھونس میں گھِرا ہُوا ہے، بے حد تنہا ہے… میں اکیلی ہوں… کسی کے ساتھکے بغیر… کوئی بھی میری چیخ و پکار نہیں سکتا۔ (دِھیرے دِھیرے ڈُوبتی ہُوئی آواز میں۔)

چہکتی آواز:

(ایک طرف سے آتی ہُوئی مدہم روشنی لڑکی کا سایہ نمایاں کرتا ہے۔) مَیں نے اپنی بڑی پہاڑی   کے عین اُوپر طلوع ہوتے ہُوئے سُورج کو دیکھا ہے۔ کسی نے بتایا تھا کہ وہ لوگوں کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ لیکن میرا خیال ہے کہ پہاڑی اِس لیے حسین ہے کہ ہر مرتبہ اُس کے عقب سے ایک کونے میں سُورج اُسے اپنی رُونُمائی، مُون کیک کے کٹے ہُوئے ایک ٹکڑے کے مانند، کرواتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ آدھا نمودار ہو جاتا ہے… (اُسے ایک طرف سے سُرخ روشنی نُمایاں کرتی ہے۔) بہت ہی زیادہ چمک دار سُرخ، ایک بہت بڑے قرمزی رنگ کے گہرے لال خرمالو[3] جیسا۔ مَیں جب بھی سکول جاتی توسُورج میری پشت پر ہوتا تھا۔

دِل کش آواز:

تمھیں سُورج پسند ہے یا چاند؟

چہکتی آواز:

مَیں ہمیشہ اپنا بستہ لیے اِدھر اُدھر کے راستوں سے جاتی تھی۔

دِل کش آواز:

مَیں نے یہ پُوچھا ہے آیا تمھیں سُورج پسند ہے یا چاند؟

چہکتی آواز:

دونوں۔

(دِھیرے دِھیرے سُرخ روشنی غائب ہو جاتی ہے۔ ایک دِھیمی روشنی آہستہ آہستہ نمودار ہو کر دِل کش آواز والی لڑکی کا چہرہ روشن کرتی ہے۔)

دِل کش آواز:

لیکن مجھے چاند پسند ہے، یہ سُورج جتنا گرم نہیں ہے۔ چمکتے سُورج کے نیچے ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ لیکن چاند ہر وقت خُوب صُورت ہوتا ہے، بے حد خالص۔

چہکتی آواز:

(دِھیمی روشنی دونوں لڑکیوں کا چہرہ روشن کرتی ہے۔) تمھیں پتا ہے کہ ایک بار مَیں ٹرین کے ذریعے اپنی دادی کے ہاں گئی تھی، اور مَیں نے چاند کو ایک چٹخے ہُوئے آئینے کی طرح دیکھا تھا!

(دِھیمی روشنی دونوں کے مُونھوں پر پڑ رہی ہوتی ہے جب کہ وہ دونوں بہ یک وقت اپنی اپنی کہانیاں سُنا رہی ہوتی ہیں۔)

دِل کش آواز:

مَیں جب بھی کہیں جاتی ہوں، چاہے میری منزل نہایت واضح ہو، مَیں ٹرین ہی سے جاتی ہوں۔

چہکتی آواز:

کیوں کہ سرما کے موسم میں جب پتّے جھڑ چکے ہوتے ہیں تب بھی شاخیں موجود ہوتی ہیں…

دِل کش آواز:

لیکن جُوں ہی ٹرین حرکت میں آتی ہے تو مجھ پر ایک اَن جانا سا احساس طاری ہو جاتا ہے…

چہکتی آواز:

وہ مکمل طور پر عُریاں ہوتی ہیں، اور کچھ لمبی تو کچھ چھوٹی۔ چاند ہمیشہ ٹمٹماتا رہتا ہے، لیکن…

دِل کش آواز:

مَیں جہاں بھی جا رہی ہوتی ہوں۔ میں نے سحر انگیز نظارے دیکھے۔ مَیں نے دیکھا…

چہکتی آواز:

ٹرین کی کھڑکی سے وہ متواتر …

دِل کش آواز:

پہاڑ، بانسوں کے جنگل، اور چائے کے باغات یکے بعد دِیگرے گذرتے ہیں، مَیں…

چہکتی آواز:

ٹُوٹے ہُوئے شیشوں کے طرح نمودار ہوتا ہے، سالم چاند سے زیادہ حسین و جمیل۔

دِل کش آواز:

مجھے نہیں پتا میرا مستقبل کہاں ہے۔

چہکتی آواز:

(چُپ۔)

دِل کش آواز:

وہ (مرد) کہاں ہے؟

چہکتی آواز:

کون؟

(ملموس دھاگے جیسی دِھیمی دِھیمی موسیقی اُبھرتی ہے۔ چہکتی آواز والی لڑکی کا سایہ روشنی کے دھار کے مقابل نمایاں ہوتا ہے۔)

چہکتی آواز:

(گویا اندر سے آواز اُبھرتی ہے) لیکن مَیں نے کبھی نہیں سوچا کہ کوئی میرے لیے خُوشی لا سکتا ہے۔ یُوں لگتا ہے جیسے مَیں تنہا ہی مسرت حاصل کر سکتی ہوں۔ مجھے آج کے دِن تک نہیں پتا کہ کوئی مجھے خُوشی دے سکتا ہے

دِل کش آواز:

(آہ بھرنے کے انداز میں) دھارے کے ساتھ چلتی جاؤ۔ جو بھی قدرتی طور پر ہوتا ہے،خُوب صُورت ہوتا ہے۔

چہکتی آواز:

لیکن وہ چیز زیادہ خُوب صُورت لگتی ہے جو بعض اوقات زیادہ غیر حقیقی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک پُھول کو لو۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ پُھول کتنا خُوب صُورت ہے، جس طرح یہ قدرتی طور پر تخلیق ہُوا تھا۔ لیکن جب تم ایک پلاسٹک کے پُھول کو دیکھتی ہو تو تم کہتی ہو کہ یہ پلاسٹک کا پُھول کتنا خُوب صُورت ہے، بالکل حقیقی کے مانند۔ یہ کتنا متضاد ہے، ذرا بھی عقلی نہیں ہے۔ جب کوئی شخص تم پر بہت مہربان ہو تو کیا تم سوچتی نہیں؟ تم یہ سوچو گی: کیا یہ جذبات حقیقی ہیں؟

دِل کش آواز:

جذبات سے موازنہ مت کرو؛ تم اِن دونوں کو یکساں رکھ کر بات نہیں کر سکتیں۔

چہکتی آواز:

مَیں اِسے آفاقی دیکھنے کے لیے یکساں تعقّل لاگو کرنا چاہتی ہوں!

دِل کش آواز:

پھر تو تم یہ بھی سوچو گی کہ وہ شخص جو تم سے محبت کرتا ہے…

چہکتی آواز:

حتّٰی کہ اُس کی دروغ گوئی کانوں کو بھلی لگتی ہو۔

دِل کش آواز:

جب تک کانوں کو بھلی لگتی رہے، لوگ ہمیشہ منافقت ہی کو پسند کرتے ہیں۔

چہکتی آواز:

لیکن تم یہ توقع نہیں رکھ سکتیں کہ یہ حقیقی ہے۔

(تیزی سے پاس سے گذرنے والی کار کی آواز، موسیقی اور عقب سے آتی ہُوئی روشنی غائب ہو جاتی ہیں۔ سٹیج کے عقب سے سبز سے نیلی ہوتی ہُوئی سٹریٹ لائٹ اُوپر آ کر سیمنٹ کی بوریوں پر پشت سے پشت جوڑے بیٹھی ہُوئی دونوں لڑکیوں کا خاکہ ظاہر کرتی ہے۔ پانی کے ٹپکنے کی ’’ٹپ ٹپ‘‘ کی آواز۔ بُوڑھا آگے بڑھتا ہے لیکن اُسے ایسی کوئی جگہ نہیں ملتی جہاں سے پانی نہ ٹپک رہا ہو۔ پس وہ زیادہ دُور چلا جاتا ہے۔ لیکن اب بھی بات نہیں بنتی۔ تاریکی میں قطروں کو دیکھتے ہُوئے وہ نہایت اذّیت محسوس کرتا ہے۔)

چہکتی آواز:

سچ سچ بتاؤ، بہتر کیا ہے؟

(بُڈھا اپنی موجودگی سے دونوں لڑکیوں کی گفتگو میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا، تنبو تلے کوئی نہ ٹپکنے والا مقام تلاشتا ہے۔)

دِل کش آواز:

تم یہ بھی نہیں چاہتیں کہ کوئی تمھاری زندگی میں دخیل ہو؟ تم دُوسروں پر کیوں تنقید کرتی ہو، کیا تمھیں شرم نہیں آتی؟ مَیں نے منافقت نہیں سیکھی۔

چہکتی آواز:

میرا خیال ہے کہ ہر فطری شے حسین ہے۔ مجھے ہر اُس چیز سے نفرت ہے جو فطرت کو تباہ کرتی ہے۔

دِل کش آواز:

لیکن جب ماحول تمھیں زندہ نہ رہنے دے تو تمھیں حیلہ سازی سیکھ لینا چاہیے۔ اِس کےبعد مَیں کوئی پُھول نہیں لیتی۔

چہکتی آواز:

کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں ماحول کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔

(دبے قدموں چلتے ہُوئے، بُوڑھا کوئی ایسی جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے جو ٹپک نہ رہی ہو۔ بارش کے قطرے گِرنے کی آواز لگاتار آتی رہتی ہے۔)

دِل کش آواز:

اپنی بقا کے لیے ہمارا نرم لہجے میں بات کرنا سیکھنا ضروری ہے۔ کتنی گھناؤنا فعل ہے!

چہکتی آواز:

کیوں کہ تم زندگی سے محبت کرتے ہو، جب کہ تمھیں زندہ رہنا سیکھنا چاہیے۔

دِل کش آواز:

لیکن مَیں محسوس کرتی ہوں کہ اگر لوگ چست ہیں تو اُنھیں نئی زندگی تخلیق کرنا چاہیے، محض کوئی احمق ہی اپنی موجودہ زندگی پر قانع ہو گا۔

چہکتی آواز:

تم نئی زندگی کس طرح تخلیق کرتی ہو؟

(اِس موقع پر، ہر سمت سے بارش کے قطروں کے آواز آتی ہے۔ دِھیمے دِھیمے قدموں سے پانی کے ٹپکنے والے مقام پر چلتے ہُوئے بُڈھا لاچاری سے اپنے سر پر ہَیٹ جمانے کے سِوا کچھ نہیں کر سکتا۔ بالآخر وہ سر جھکا کر ساکت کھڑا ہو جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

(مدہم بنفشی روشنی کی دھار میں لڑکی یُوں نمایاں ہوتی ہے گویا فضا میں تیر رہی ہو) لیکن میرا خیال ہے کہ بناوٹی لوگ چاہے کچھ بھی بننے کی سعی کریں لیکن اُن کی رُوح میں سدا بے حد سچی اور خالص چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ یہی روزمرّہ کی زندگی کا اہم ستون ہے۔ اِس کے بغیر کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اِس نوع کی مدد کے بغیر مَیں تو زندہ نہیں رہ پاؤں گی۔

چہکتی آواز:

(گویا نقل اُتارتے ہُوئے) بعض اوقات، تمھارے پاس کسی نہ کسی بات پر دُوسروں کو تنقیدکا نشانہ بنانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ کیا تمھیں نہیں لگتا ہے کہ اپنے آپ کو دُوسروں سے منفردپیش کرنے کے لیے تم بھی اداکاری کر رہی ہو؟

دِل کش آواز:

لیکن حقیقت یہ ہے کہ مَیں واقعی چاہتی ہوں کہ اپنا آپ کھول کر رکھ دوں، اپنا دھڑکتا ہُوا دِل نکال کر تمھارے سامنے رکھ دوں کہ دیکھو یہ لال ہے، اور پھر تم مجھے معاف کر دو گی۔

چہکتی آواز:

(گویا نقل اُتارتے ہُوئے) آہ، یہ نہایت احمقانہ بات ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے۔

دِل کش آواز:

لیکن، اگر تم خاص طور پر اعتبار کرو…

چہکتی آواز:

بہتر ہو گا کہ کسی قابلِ اعتبار شخص کی تلاش کی جائے۔

دِل کش آواز:

تمھیں تو پتا ہے کہ مَیں اِس قسم کے کام واقعی کر سکتی ہوں!

چہکتی آواز:

کسی ایسے شخص کے لیے یہ کام کرنا جو تمھیں سمجھتا نہ ہو محض زیاں ہے۔

دِل کش آواز:

بے شک، یہ زندگی سہل نہیں ہے۔

(بُوڑھا شخص آہ بھرتا ہے۔ دِھیمی روشنی غائب ہو جاتی ہے۔ دونوں لڑکیاں سیمنٹ کی بوریوں پر ساکت بیٹھی ہیں اور صرف اُن کے سائے دِکھائی دیتے ہیں۔ بُڈّھا اپنے ہَیٹ کو جھاڑتے ہُوئے ناظرین کی سمت اپنا چہرہ گھماتا ہے اور مکمل طور پر بھیگے ہُوئے ہَیٹ کو نچوڑتا ہے۔)

چہکتی آواز:

وہ جو مجھے نہیں سمجھتے ہیں پہلی مرتبہ ہی میں نہیں سمجھتے ہیں۔ نہ مَیں توقع رکھتی ہوں کہ وہ سمجھیں گے۔ وہ جو چاہیں سو کہیں؛ تنقید بھی عمدہ چیز ہے۔ مجھے اُن کے سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ کسی صُورت میں نہیں سمجھیں گے۔

دِل کش آواز:

پھر تم نے اصرار کیوں کیا تھا کہ تمھارے دادا تمھیں سمجھیں؟

(بُوڑھا صاف سننے کے لیے سر موڑتا ہے۔)

چہکتی آواز:

وہ رشتے دار ہیں؛ اُنھیں سمجھنا چاہیے۔

دِل کش آواز:

لیکن وہ اُسی نسل سے تعلّق رکھتے ہیں؛ وہ ہماری نسل کو نہیں سمجھ سکتے!

(بُوڑھا آدمی خفا دِکھائی دیتا ہے۔)

چہکتی آواز:

بے شک۔

دِل کش آواز:

لیکن اگر اِردگرد کے تمام لوگ ہی تمھیں نہ سمجھیں تو بعض اوقات وہ تمھارا خُون کر دیتے ہیں

(بارش پڑنے کی آواز۔ بُڈّھا اپنے خیالوں میں کھویا دِکھائی دیتا ہے، اُس کے ہاتھ نیچے گِرے ہوتے ہیں)

چہکتی آواز:

لیکن مَیں خوف زدہ نہیں ہوں کیوں کہ میرے اپنے نظریات ہیں۔ تاہم، پھر بھی مَیں چاہتی ہوں کہ مجھے سمجھا جائے۔ میرے خیال میں دُنیا میں جو چیز سب سے زیادہ لوگوں کو سکون بخش سکتی ہے وہ آپسی ذہنی یگانگت ہے، ذہنوں کی ہم آہنگی۔

(دُوسری جانب بُوڑھا شخص اُکڑوں بیٹھا آنکھیں بند کیے سوچ رہا ہوتا ہے۔ چنگھاڑتی ہُوئی گاڑیوں کی آواز بڑھتی جاتی ہے۔ سٹیج کے عقبی حِصّے میں سٹریٹ لائٹیں ایک ایک کر کے روشن ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسی موسیقی اُبھرتی ہے جو شہر کی راتوں کی ہر چیز کی آواز کا ادغام ہوتی ہے۔ دِھیمی روشنی تلے دونوں لڑکیاں ایک دُوسرے سے جُڑ کر بیٹھی ہوتی ہیں۔)

دِل کش آواز:

یہ کافی نہیں ہے۔ میرا خیال میں مجھے جو چیز بے حد سکون بخشتی ہے، وہ ہے سچا پیار۔

چہکتی آواز:

اِس کی وجہ یہ ہے کہ تمھیں پہلے ہی اپنا پیار مل چکا ہے۔ تمھارے پاس پہلے سے ایک مرد کی سچی محبت موجود ہے اور تم دونوں کا دِل ایک دُوجے کے لیے ہے۔

دِل کش آواز:

خیر، سادہ ہم آہنگی ہی صرف کافی نہیں!

چہکتی آواز:

تمھیں پتا ہے کہ اُس کا دِل کیسے دھڑکتا ہے اور اُسے تمھارے دِل کی دھڑکن کا پتا ہے۔ تمھیں دُنیا کا بے حد حیرت انگیز چاہنے والا مل گیا ہے۔ میری بس اِتنی سی توقع ہے کہ مجھے سمجھا جائے، چاہے وہ اُس طرح پسند نہ کرے جیسے تم نے کیا۔ جب تک وہ تمھیں سمجھتا رہے گا، یہ بھی بہت اعلیٰ رہے گا۔

دِل کش آواز:

مَیں تم سے بہت زیادہ حریص ہوں۔ مَیں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے آس پاس کے میرے عزیز و اقارب محض مجھے سمجھیں لیکن مجھ سے محبت نہ کریں۔

چہکتی آواز:

لیکن یہ تبھی ہو گا جب پہلے تم سمجھو، پھر محبت کرنا ممکن ہو گا۔

دِل کش آواز:

پھربھی یہ کافی نہیں۔ محبت کے بغیر، اِس دُنیا میں رہنا بے حد اذّیت ناک ہو گا۔

چہکتی آواز:

میری صُورتِ حال تم سے مختلف ہے۔ مَیں محض ہم آہنگی چاہتی ہوں۔

دِل کش آواز:

(دُوسری کو جذباتی انداز میں لپٹتے ہُوئے) لیکن میں قانع نہیں ہوں۔ میرے لیے کسی سے محبت کرنا اپنے دِل کی گہرائیوں سے محبت کرنا ہے؛ صرف ہم آہنگی بہت ہونے سے بعید ہے۔

چہکتی آواز:

کوئی چیز کامل نہیں ہے۔ حد یہ کہ محبت بھی اکملیت کو نہیں پہنچ پاتی۔ اگر پہنچ بھی جائے تو بعد میں اِس کا تنزل ہونا شروع ہو جائے گا۔

دِل کش آواز:

کوئی کیوں کر ہمیشہ اُوپر ہی چڑھے سکے گا، سدا کھوجتے اور ڈھونڈتے ہُوئے؟

چہکتی آواز:

ہمیشہ عروج کے بعد انجام ہوتا ہے، پھر…

دِل کش آواز:

کوئی کیوںکر ایک کے بعد دُوسرا عروج پائے گا؟ یہ بھی فلسفہ ہے! (دُوسری کا چہرہ تھامتے ہُوئے) مجھے جواب دو۔ جواب دو نا!

چہکتی آواز:

اگر مَیں یہ کہوں کہ، بہن نِنگ، مَیں تم سے کامل پیار کرتی ہوں اور مر جانے کی حد تک تمھیں چاہتی ہوں تو بھی میرا دِل محسوس کرتا ہے کہ اب بھی کچھ کمی ہے۔

دِل کش آواز:

(دُوسری کے مُنھ کی نقل اُتارتے ہُوئے) اگر پھر کبھی تم نے یہ بات کی تو مَیں چاہوں گی تم اُسی وقت مر جاؤ!

چہکتی آواز:

(دُوسری کے چہرے کو اپنے چہرے سے چُھوتے ہُوئے۔ دونوں ایک دُوسرے سے گھٹ کر لپٹتی ہیں۔) اے، کیسی ظالم ہے، لیکن یہی انسان ہے، ایک حقیقی جیتا جاگتا انسان۔ یاد رکھو، بہن نِنگ، مَیں تمھیں کبھی نہیں کہوں گی کہ مَیں تم سے مر جانے کی حد تک محبت کرتی ہوں۔

دِل کش آواز:

(دُوسری کو چھوڑتے ہُوئے) پس، مَیں بھی تمھیں مرنے نہیں دوں گی۔ فکر مت کرو۔

چہکتی آواز:

اے، صداقت پرکھنے والی ہے، یہ بہت دِلچسپ ہے۔ واقعی، اگر اِس قسم کی محبت ہوتی کہ کوئی واقعی کسی کی محبت میں مر جاتا…

دِل کش آواز:

تب میں سوچتی کہ واقعی موت اِس قابل ہے۔

چہکتی آواز:

پھر کوئی دِلچسپی باقی نہ رہتی۔ محبت کا انجام موت نہیں ہے۔

دِل کش آواز:

مجھے پتا ہے کہ محبت کا انجام موت نہیں

چہکتی آواز:

لیکن اگر محبت کسی سے، رومیو اور جولیٹ کی طرح، مرنے کا تقاضا کرے تو!

دِل کش آواز:

اَوتھیلو کی طرح! چاہے یہ المیہ ہی کیوں نہ ہو، کیا یہ سچی محبت نہیں ہے؟

چہکتی آواز:

لیکن یہ تو ایک طرح کا تصرّف ہے۔

(بُوڑھا اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے جیسے وہ اپنے سر سے بارش کے قطرے جھٹک رہا ہو۔)

دِل کش آواز:

تم اِس سے انکار نہیں کر سکتیں کہ اُس کی محبت خالص تھی؛ اُس کی محبت کا انداز جدا تھا۔

چہکتی آواز:

وہ زمانے اَور تھے۔ اُس زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ تصرّف ہی اصل محبت ہے۔ اِس کے علاوہ، درست طور پر یہ تصرّف رکھنے ہی کی تمنّا تھی جو محبت کو قوّی بناتی تھی اور اِس طرح زیادہ خود غرض بھی۔ لیکن اب لوگ محبت کو تصرّف نہیں سمجھتے۔ میرا خیال ہے کہ اگر تمھارا کسی پر تصرّف ہو تو وہ شخص زیادہ دیر تک محبت کے قابل نہیں رہے گا۔ پس، مستقبل میں اگر مَیں کسی شخص کی محبت میں گرفتار ہو بھی گئی، یا کوئی شخص میری محبت میں گرفتار ہو گیا تو اگر مَیں نے اُس پر تصرّف کا آغاز کیا تو مَیں یقیناً زیادہ عرصہ اُس کے ساتھ نہیں رہوں گی۔

دِل کش آواز:

لوگ جسمانی تصرّف سے نجات نہیں پا سکتے۔ یہ تکلیف دہ امر ہے۔

(بُڈھا اپنا سر ناں میں ہِلاتا ہے، کھڑا ہوتا ہے اور یُوں تیوریاں چڑھاتا ہے جیسے بارش کا قطرہ اُس کی بھنو پر گِرا ہو۔)

دِل کش آواز:

محبت کے بدنی تصرّف کو رُوحوں کی باہمی تقلیب کا وسیلہ ہونا چاہیے۔

(بُوڑھا اثبات میں سر ہِلاتا ہے گویا اپنے چہرے سے بارش کا قطرہ جھٹک رہا ہو۔)

چہکتی آواز:

رُوح پر تصرّف بھی ممکن نہیں ہے کیوں کہ کوئی بھی رُوح کو کاملاً اپنے قبضے میں نہیں لا سکتا۔

دِل کش آواز:

اِس کا انحصار

چہکتی آواز:

نہیں، عمر رسیدہ لوگ جب کسی کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو وہ اتنے عملی کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیوں وعدے وعید نہیں کرتے؟

(بُوڑھے کا چہرہ پُرسکون ہو جاتا ہے۔)

چہکتی آواز:

کیوں کہ وہ پہلے ہی سے اِس بارے میں آگاہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نوجوان سدا تاقیامت کا عہد مانگتے ہیں، جو ایک نوع کا تصرّف ہے۔

(بُوڑھا جھکتا ہے، کھنگھارتا اور اندھے پن سے اپنا سُوٹ کیس ٹٹولتا ہے۔)

دِل کش آواز:

تب تو تم اِس سے انکار نہیں کر سکتیں کہ یہ بھی خالص ہے۔

چہکتی آواز:

اِس لیے کہ تم نے اب بھی اِسے مکمل طور پر غلط سمجھا ہے۔

دِل کش آواز:

ضروری تو نہیں! یہ انحصار کرتا ہے! یہ انحصار کرتا ہے!

چہکتی آواز:

یہ پہلی محبت ہے۔

دِل کش آواز:

خالص پن ممکن ہے۔

چہکتی آواز:

مجھے یقین نہیں کہ کوئی بھی چیز کامل خالص ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مَیں کسی شخص کی محبت میں گرفتار ہو جاؤں تو مَیں دائمی محبت کا وعدہ نہیں کروں گی۔

(بُڈھا اپنا پیر اِس طرح تھپتھپاتا ہے کہ لڑکیاں اُسے سن لیں اور وہاں سے نکل جائیں۔)

دِل کش آواز:

یہ بھی لازم نہیں ہے۔

چہکتی آواز:

بہرحال، اگر میں کسی ایسے شخص سے ملی تو

دِل کش آواز:

تو تم اُس سے دائمی محبت کا عہد نہیں کرو گی؟

چہکتی آواز:

نہیں، مَیں شادی نہیں کروں گی۔

دِل کش آواز:

زندگی بھر کنواری رہو گی؟

چہکتی آواز:

یہ درست ہے!

دِل کش آواز:

تم عمر بھر کنواری نہیں رہ سکتیں، کیا تمھیں اِس پر یقین ہے؟

چہکتی آواز:

مَیں اپنی ساری زندگی بہن نِنگ کے ساتھ گذار دوں گی۔

دِل کش آواز:

تم ضرور کسی ایسے شخص سے ملو گی جس سے محبت کرنے لگو گی۔

چہکتی آواز:

کبھی نہیں۔

دِل کش آواز:

ضرور ملو گی، میری پیاری بہن۔ تم ضرور ملو گی۔

چہکتی آواز:

لیکن مجھے کبھی پتا نہیں چلے گا کہ وہ مجھ سے ہمیشہ محبت کرے گا۔ تب مجھے زیادہ اذّیت ہو گی…

دِل کش آواز:

اگر یہ بات ہے تو مَیں اُسے چپکے سے چھوڑ کر تمھارے ساتھ رہنے لگوں گی

چہکتی آواز:

بہن نِنگ، کیا تم رو رہی ہو؟

دِل کش آواز:                         نہیں…

(بُوڑھا ٹھیر کر زیادہ غور سے سننے لگتا ہے۔ اُس کے چہرے پر حیرت ہوتی ہے۔)

چہکتی آواز:

(اُس کے گرد اپنے بازو حمایل کرتے ہُوئے) تم کتنی احمق ہو!

(بُڈھا اپنی عینک پہن لیتا ہے۔)

دِل کش آواز:

کیوں کہ ہم لڑکیاں ہیں۔

چہکتی آواز:

لڑکیاں احمق ہوتی ہیں؟

دِل کش آواز:

(اُسے پرے دھکیلتے ہُوئے) دفع ہو جاؤ یہاں سے! (وہ اپنے آنسو پُونچھتے ہُوئے مُسکرا دیتی ہے۔)

(بُوڑھا آہ بھرتا ہے۔)

چہکتی آواز:

تمام سٹریٹ لائٹیں روشن ہو گئی ہیں— بارش اب بھی پڑ رہی ہے۔

(دونوں لڑکیاں اُٹھتی ہیں اور تنبو سے باہر چلی جاتی ہیں۔ بارش پڑنے کی آواز۔ وہ دونوں ناظرین کی طرف پشت کرتی ہیں اور اپنے ہاتھ اُٹھا کر بارش کے قطروں کو لیتی ہیں۔ سٹریٹ لائٹوں میں متواتر بارش پڑ رہی ہوتی ہے۔ وہ دونوں ایک دُوسرے کو دیکھتے ہُوئے کھِی کھِی کرتی ہیں۔ دِھیمی دِھیمی موسیقی۔ موسیقی اور مخالف سمت سے آنے والی روشنی کی دو دھاروں میں وہ سٹیج کی عقبی سمت دوڑتی ہیں، کھِی کھِی کرتے ہُوئے سٹیج سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ بُوڑھا تنبو سے باہر نکلتا ہے۔ گاڑیوں اور موسیقی کی آواز غائب ہو جاتی ہے۔ بُوڑھا سر پر اپنا ہَیٹ لیتا ہے، آہستہ آہستہ چلتا ہُواعقب میں جا کر سٹیج سے روانہ ہو جاتا ہے۔ سٹریٹ لائٹوں میں متواتر بارش کی لگاتار دھاریں اور شُوں شُوں کی آوازیں۔)

:::


 چینی زبان میں ایک پُکار جو مداخلت کرنے کے لیے نکالی جاتی ہے۔[1]

 [2] ایک چینی کہانی کی طرف اشارہ جس میں ایک رحم دِل کسان نے ایک سانپ کی زندگی اُسے اپنی بازوؤں کے حصار میں لے کر بچائی تھی۔

[3] ایک سدا بہار پیڑ، جس میں نارنجی رنگ کے گُودے دار خوردنی پُھول لگتے ہیں۔ اِس درخت کو’ کاکی‘ بھی کہا جاتا ہے۔

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

گاؤ ژِنگ جیان کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمدکے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

چینی ڈراما

بارش سے اَوٹ

گاؤ ژِنگ جیان

(Gao Xingjian)

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

Gao Xingjian Hidden From Rain (Barish sy ot) - Urdu - Translations-تراجم (PP)

کردار:

ایک ریٹائرڈ بُوڑھا، جو سُوٹ کیس اُٹھائے، ہَیٹ اور نرم و لچک دار جُوتے پہنے ہُوئے ہے۔

ایک چہکتی آواز۔

ایک دِلکش آواز۔

(غروبِ آفتاب کے بعد پھیلتے ہُوئے دُھندلکے کا وقت، درختوں کے اطراف والے راستے کی تعمیر کے لیے نصب کیا گیا ایک تنبو جس کے نیچے سیمنٹ کی کچھ بوریاں کافی ہوں گی۔)

ایک ریٹائرڈ بُوڑھا نمودار ہوتا ہے۔ چلتے ہُوئے وہ اپنا مُنھ صاف کرتا ہے، ہَیٹ اُتارتا ہے، ٹھیرتا ہے اور اُوپر آسمان کو اور پھر نیچے زمین کی سمت دیکھتا ہے۔ پتّوں پر گِرنے والی بارش کی آواز دِھیرے دِھیرے سُنائی دینے لگتی ہے۔ بُوڑھا ہَیٹ پہنتا ہے اور اَوٹ لینے کے لیے سڑک کے کنارے نصب تنبو کی جانب تیزی سے بڑھتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ ہَیٹ اُتارتا ہے، اپنے جُوتے جھاڑتا ہے، پشت پر ہاتھ باندھتا اور اُوپر آسمان کی جانب دیکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ سٹیج پر روشنی مدہم پڑتی جاتی ہے۔ بارش کی آواز آرہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی داہنی سمت پڑی سیمنٹ کی بوری پر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ فوراً ہی اُٹھ کر سُوٹ کیس کو اپنے چوتڑوں تلے رکھتا ہے اور آہ بھرتے ہُوئے دوبارہ بیٹھ جاتا ہے۔

سٹیج پر دو نوجوان لڑکیاں بھاگتی اور کھلکھلا کر ہنستی ہُوئی آتی ہیں اور بارش سے بچنے کے لیے تنبو میں چلی جاتی ہیں۔

چہکتی آواز:

دیکھو، دیکھو۔ تمھاری پلکوں، تمھارے ناک کی نوک… عین نوک کے اُوپر ایک قطرہ ٹِکا ہُوا ہے۔

دِل کش آواز:

یہ تو میری گردن پر بھی بہہ رہے ہیں۔ یہ سب تمھارا قصور ہے۔ میری بال خُوب بھیگ گئے ہیں۔

چہکتی آواز:

تم اِس طرح اچھی لگ رہی ہو۔

دِل کش آواز:

احمق، تم بُری ہو۔

(ریٹائرڈ بُوڑھا اُن سے پرے ہَٹ کر خاموشی سے بیٹھ جاتا ہے۔ دونوں لڑکیاں تھوڑی دیر تک کھی کھی کر کے ہنستی رہتی ہیں۔)

چہکتی آواز:

تمھیں بارش پسند ہے؟            

دِل کش آواز:

ہاں۔

چہکتی آواز:

بس نِنگ بہن کے بال گِیلے نہ ہوں۔

دِل کش آواز:

مکمل طور پر بھیگنا اچھا لگتا ہے۔

چہکتی آواز:

بھیگی ہُوئی مُرغی کی طرح!       

دِل کش آواز:

بھیگی ہُوئی مُرغی ہونا بھی اِتنا بُرا نہیں۔

چہکتی آواز:

اوہ، نِنگ بہن۔

دِل کش آواز:

کیا تم حسد محسوس کر رہی ہو؟

چہکتی آواز:

ہاں، کر رہی ہوں۔

(ایک بار پھر تھوڑی دیر کے لیے ہنسی۔ وہ سیمنٹ کی بوریوں کی دوسری سمت آدمی کی موجودگی سے بے خبر ہیں۔ بُڈھا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے پہلو بدل کر اپنا مُنھ دُوسری طرف کر لیتا ہے۔)    

دِل کش آواز:

تم احمقانہ حرکات کر رہی ہو۔

چہکتی آواز:

مَیں احمق جو ہوں!

(وہ دُوسری لڑکی کے گلے میں اپنی بانہیں حمایل کرتی ہے۔ بُوڑھا خاصا مضطرب ہو جاتا ہے۔ وہ دِھیرے سے کھانستا ہے۔)

دِل کش آواز:

یہ حماقت بند کرو۔ تم مجھے گُدگُدی کر رہی ہو۔ دیکھو، بارش کتنی حسین ہے۔

(تنبو سے باہر مدہم روشنی میں بارش کی چادر چمک اور کُود رہی ہے۔ دونوں لڑکیاں سیمنٹ کی بوریوں پر بیٹھ جاتی ہیں۔ بارش موسلا دھار ہو جاتی ہے۔ ریٹائرڈ بُوڑھا شخص اپنی جگہ سے اُٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ دوبارہ بیٹھ جاتا ہے۔)

چہکتی آواز:

بہن نِنگ، تمھیں اُس وقت کے بارے میں نہیں پتا جب مجھے بارش کو دیکھنے پر سرزنش کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

دِل کش آواز:

بارش کو دیکھنے کی وجہ سے تمھیں سرزنش کیوں کی گئی تھی؟

چہکتی آواز:

اُس روز بھی بارش برسی تھی۔ نمائش والے ہال میں صرف چند مہمان تھے۔ ہم سب اجلاس کےلیے ہال میں جمع ہو گئے۔ میں اکیلی باہر کھڑی بارش کو تکتی رہی۔ بارش زینے پر ایک خاص زاویے سے برس رہی تھی اور بُوندیں جمع ہو کر ایک قدمچے سے دُوسرے نچلے قدمچے پر ایک ننّھی آبشار کے مانند بہہ رہے تھے چاندی جیسی سفید…

دِل کش آواز:

پارے جیسی۔           

چہکتی آواز:

بجا۔ وہ ایک دُوسرے کے پیچھے چکمتے دمکتے ہُوئے دوڑ رہی تھیں؛ بے حد پُرلطف نظارہ تھا۔ آہ، میں نے قریب سے دیکھا۔ جب میں ہال میں داخل ہُوئی تو ہماری ٹیم کی سربراہ نے مجھ سے دریافت کیا کہ مَیں کہاں تھی۔ مَیں نے بتایا کہ بارش دیکھ رہی تھی۔

(دونوں لڑکیاں کھی کھی کرتی ہُوئی ایک دُوسرے کی طرف جھکتی ہیں۔ ریٹائرڈ بُوڑھا اپنے سُوٹ کیس سے کوک کی بوتل کے دو گلاس نکالتا اور کن اَکھیوں سے اُنھیں دیکھتا ہے۔ وہ ملول دِکھائی دیتا ہے۔)

چہکتی آواز:

اُس لمحے ہر شخص نے مجلس روک دی، وہ تمام مجھے اِس طرح دیکھ رہے تھے، دِلچسپی سے۔ وہ بولے۔ ’’تم نے یہ کیوں کہا کہ تم بارش کو دیکھ رہی تھیں؟ تم یہ نہیں کہہ سکتی تھیں کہ تم غسل خانے میں گئی تھیں؟‘‘

دِل کش آواز:

بارش کو دیکھنا کتنا پیارا لگتا ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے۔

چہکتی آواز:

درست، لیکن ہماری باس بولی: سب اجلاس میں تھے مگر تم دفتری اوقاتِ کار میں بارش دیکھ رہی تھیں! میں نے اپنے دِل میں سوچا: تم جو چاہو کہتی رہو۔ بہرحال میں نے ایک خُوب صُورت چیز دیکھی ہے۔

(ایک بار پھر ہنسی کی آواز۔ ریٹائرڈ بُوڑھا آدمی کوک کی بوتل کھول کر گلاس کو سُوٹ کیس میں رکھتا اور اپنے آپ کو دُھندلکے میں چھپا لیتا ہے۔ سٹیج پر روشنی مدہم پڑ جاتی ہے۔)

دِل کش آواز:

بارش کی بات کی جائے تو اِس کا انحصار دیکھنے والے کے مُوڈ پر بھی ہوتا ہے۔ پچھلی مرتبہ جب میں کاروباری دورے سے لوٹی تو

چہکتی آواز:

(اُس کی بات کاٹتے ہُوئے) آئیو (Ai-yo)[1]، میرا خیال ہے کہ جب مِینھ برس رہا تھا تو سوائے اُس آبشار کی چمک کے آسمان پر تاریکی چھائی ہُوئی تھی۔ میں نے یہ دِلچسپ چیز بھی دیکھی کہ وہاں ایک شخص اپنے سر کو کپڑے سے ڈھانپے بارش میں بُری طرح بھاگتا ہُوا جارہا تھا۔

دِل کش آواز:

جب ہم اپنے کاروباری دورے سے واپس آئے تو وہ بھی برسات والا ایک دِن تھا۔ ہمارے یُونٹ نے ہمیں سٹیشن سے لینے کے لیے کسی شخص کو بھجوا دیا تھا۔ میں تو بالخصوص خُوش تھی۔ گمنگ بھی آیا تھا…

چہکتی آواز:

کون گمنگ؟

دِل کش آواز:

پچھلی بار جب تم مجھے ملنے آئی تھیں تو تم دونوں کی ملاقات نہیں ہُوئی تھی؟ وہی تو تھا جس نےگپ شپ لگانے کے لیے مجھے سامنے والے گیٹ پر روک لیا تھا، جس نے سنہرے فریم والا چشمہ لگا رکھا تھا…

چہکتی آواز:

اوہ، مجھے یاد آگیا۔

دِل کش آواز:

اُس نے مجھے بتایا: ’’مجھے بارش بالکل پسند نہیں؛ تاریک آسمان مجھے اِتنا رنجیدہ کر دیتا ہے کہ میرا دِل مرنے کو چاہنے لگتا ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’واقعی؟ تم یہ محسوس کیوں نہیں کرتے کہ بارش والے روز تمھاری رُوح تازہ ہو جاتی ہے؟‘‘ اُس نے کہا کہ وہ بارش والے دِن اپنے       آپ کو ذرا بھی آرام دہ محسوس نہیں کرتا۔ میں بولی: ’’یہ بڑی عجیب بات ہے۔‘‘

چہکتی آواز:

اِس قسم کے لوگوں سے بات چیت کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

(بُوڑھا کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا سُوٹ کیس اُٹھاتا ہے۔ وہ روانہ ہونے کے بارے میں سوچتا ہے لیکن پھر جھجک جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

ایک مرتبہ میں نے ایک فلم دیکھی۔ وہ فلم ایک اطالوی مصوّر کے بارے میں تھی جس کا نام موڈی گِلیانی تھا۔ وہ ایک حقیقی فن کار تھا۔ وہ برساتی بھی نہیں پہنتا تھا۔ برستی بارش میں تنہا پھِرتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ منظر بہت خُوب صُورت تھا۔ کچھ لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ بارش خُوب صُورت چیز نہیں ہے؟ کیوں نہیں ہے خُوب صُورت؟ بارش سے دُھلنے کے بعد، اندر باہر کی تمام غلاظت…

چہکتی آواز:

پُوری طرح دُھل جاتی ہے!

دِل کش آواز:

ہم کتنے مسرور ہوں گے جب ہم اصل میں وہ ہو جائیں جو ہم ہیں۔

(بُوڑھا شخص ہچکچاتے ہُوئے اپنا سُوٹ کیس نیچے رکھ دیتا ہے۔ بالآخر، وہ بیٹھ جاتا ہے۔)

چہکتی آواز:

میری بات سنو؛ مجھے واقعی بارش میں چہل قدمی کرنے، چھتری پر گِرنے والے قطروں کیآوازیں سننے میں لطف آتا ہے۔ چھتری ہٹا کر اپنا سر اُٹھاؤ اور چھوٹی چھوٹی بُوندیں باری باری چہرے اور سر پر گریں تو اِس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ کاش، میں اپنے سارے کپڑے اُتار کر بارش میں اپنا بدن بھگو سکتی؛ یہ کام شاور کے نیچے نہانے سے زیادہ پُرلطف ہے…

(بُڈھا آناً فاناً اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کھانستا ہے۔ وہ روانہ ہونے ہی والا ہوتا ہے لیکن پھر ٹھیر جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

میری سنو۔ کاروباری دورے پر جانے سے پہلے اُس نے مجھے ایک خط دیا اور دورے کے دوران مجھ سے جواب لکھنے کے لیے کہا۔ لیکن میں نے ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ پس جب اُس نے مجھے دیکھا تو وہ بے حد پریشان ہُوا۔ اُسے نہیں پتا تھا کہ میں نے بارش سے لطف اُٹھایا، موسلا دھار بہترین بارش سے اور پھر میں کام پر جانے کے بجائے گھر ہی پر ٹھیری۔

(بُوڑھا سر مارتا ہے۔)

چہکتی آواز:

جب بارش پڑ رہی تھی تو چمکتی ہُوئی بُوندیں صنوبر کے درختوں پر یُوں ٹنگی ہُوئی تھیں جیسے وہ کرسمس ٹری ہوں

دِل کش آواز:

میری بات سنو؛ بارش والے روز پارک میں سیر کرنے کا بڑا مزہ آتا ہے۔ پارک میں کوئی نہیں ہوتا تو میں جو چاہوں کر سکتی ہوں…

چہکتی آواز:

وحشی لڑکی!

(وہ دونوں ایک دُوسرے سے لپٹ کر تھوڑی دیر تک دبی دبی ہنسی میں ہنستی رہتی ہیں۔ بُڈّھا خاموشی سے پیچھے ہَٹ کر جھکتا ہے اور نیچے بیٹھ جاتا ہے۔ وہ اپنا سُوٹ کیس نیچے زمین پر رکھ دیتا ہے۔ اُس کا وجود اندھیرے میں گُم ہو جاتا ہے۔ گہری تاریکی میں بارش کے برسنے کی آواز آتی رہتی ہے۔ صرف گہری زرد روشنی کا ایک ہالہ دونوں لڑکیوں کا احاطہ کیے اُنھیں دِکھا رہا ہوتا ہے۔ چہکتی آواز دُور سے آتی ہے لیکن دِل کش آواز دِھیمی اور واضح ہوتی ہے۔)

چہکتی آواز:

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور بارش والے روز سوتی تو بند آنکھوں سے بے حد سکون ملتا تھا۔ جب کچھ دیر کے بعد میں جاگتی تو بارش تھم چکی ہوتی تھی۔ مجھے صحن میں سے دوبارہ پرندوں کے چہچہانے، چیں چیں چُوں چُوں اور پتّوں سے بارش کی بُوندوں کے ٹپکنے کی آوازیں، ٹپ ٹپ سنائی دینے لگتیں

دِل کش آواز:     

کمبل میں لپٹ کر سوتے ہُوئے میں نے بھی مینڈکوں کو ٹراتے ہُوئے سنا ہے، ٹر ٹر ٹر۔

چہکتی آواز:

جب میں کام پر سے گھر واپس گئی تو بارش تھم چکی تھی۔ ہمارے پڑوس میں ایک لڑکا رہتا تھا۔ وہ مجھے اپنی بائیک پر گھر تک چھوڑنے آیا۔ جب ہم ایک تالاب کے پاس سے گذرے تو وہاں مینڈک گلے پھاڑ پھاڑ کر ٹرا رہے تھے: ٹر ٹر ٹر۔ وہ سارے بڑے بڑے پیٹوں والے مینڈک تھے—

دِل کش آواز:

تمھیں پتا ہے؟ تم مینڈک کو جتنا چھیڑو اُس کا بڑا سا پیٹ اَور بڑا ہوتا جاتا ہے۔

چہکتی آواز:

اے… یہ بڑی دِلچسپ بات ہے!

(سٹیج پر خاموشی چھا جاتی ہے، کوئی ہنس نہیں رہا ہوتا۔ پس منظر میں سے ایک کار کے گذرنے کی آواز آتی ہے اور جب کار چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں سے گذرتی ہے تو چھینٹوں کے اُڑنے کی آوازیں بھی آتی ہیں اور پھر کار کے گذرنے کی آواز مدہم پڑتے پڑتے ختم ہو جاتی ہے۔)

دِل کش آواز:

مِینھ اب بھی برس رہا ہے۔

چہکتی آواز:

برسنے دو۔ ابھی زیادہ وقت نہیں ہُوا؛ ابھی تو سڑک کی بتّیاں تک روشن نہیں ہوئیں۔

(تاریکی میں تنبو کے نیچے کہیں قطرے گِرنے کی آواز آتی ہے۔ بُوڑھا اپنی عینک میں سے قطروں کے گِرنے کے مقام کی تلاش میں اِرد گِرد نظریں دوڑاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

ناقابلِ یقین عجوبہ۔ جب بارش ہوتی ہے تو جھینگر مکمل طور پر بولنا بند کر دیتے ہیں۔

چہکتی آواز:

اگر وہ یکایک دوبار آواز نکالیں تو وہ آواز کافی خُوش گوار لگتی ہے۔

دِل کش آواز:

بے شک، میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ وہ آواز کانوں کو خاصی بھلی لگتی ہے۔ لیکن جُوں ہی بارش تھمنے کے بعد آسمان صاف ہوتا ہے تو دوبارہ جھینگر وں کی چِڑچِڑ شروع ہو جاتی ہے۔ اے، تب وہ آواز مجھے بے حد بُری لگتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ تمھیں (جھینگروں کو) نہیں بولنا چاہیے؛ اب تم کیوں چِڑچِڑ کر رہے ہو؟ عموماً میں بھی تمھاری طرح خاموشی پسند ہوں۔ کیا ایسے وقت تمھارا چِڑ چِڑ کرنا تنگ نہیں کر رہا ہے؟ مجھے واقعی خیال آتا ہے کہ اِس سے میرا تأثر برباد ہو گیا ہے(جھینگروں کےبارے میں)۔

چہکتی آواز:

میرا خیال ہے کہ میں اب بھی اپنے تئیں بے حد لطف اندوز ہو سکتی ہوں۔ مجھے خاص طور پراِس طرح کی کُہر آلود بارش پسند ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ میں ایک پہاڑ پر کھڑی ہو جاؤں۔ دُھواںدھار بارش میں اپنے کپڑے شرابور ہونے دوں، اپنے بدن کے ساتھ خُوب چپکے ہُوئے…

دِل کش آواز:

مجھے بات کرنے دو—

چہکتی آواز:

اے، میں تمھیں بات نہیں کرنے دوں گی، میں باتیں کرنا چاہتی ہوں!

دِلکش آواز:

مَیں کہہ رہی ہوں: میں نے موڈی گِلیانی کو دیکھا…

چہکتی آواز:

دِیوانہ!

دِل کش آواز:

یہ فن کار واقعی دِیوانہ ہے، موسلا دھار بارش میں ساحل پر تنہا سیر کرتا ہے، اپنے ہاتھ پھیلا کر اُوپر دیکھتے ہُوئے سانس لیتا ہے

(بارش کی دھار میں سے گزر کر آتی ہُوئی ایک کے بعد ایک گاڑی کی آواز، کوئی آرہی ہے تو کوئی جارہی ہے، جو یُوں سمندر کی لہروں کی آواز جیسی لگتی ہے۔ یکایک بُوڑھا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے جیسے وہ تکلیف میں ہو۔)

دِل کش آواز:

اُس کی تمنّا ہوتی تھی کہ بارش اُسے دھو ڈالے۔ اُس کے ذہن میں اپنی تصاویر میں اُس اظہار کے لیے بہت خلفشار ہوتا تھا، جس کی وہ ابھی تصویر کشی کرنا چاہتا تھا۔ جس وقت وہ لگ بھگ پاگل ہو چکا تھا کہ جس لڑکی کا وہ دِیوانہ تھا اُس کی طرف دوڑی۔ بعد میں وہ اُس کی بیوی بنی۔ اُس وقت، میرا خیال ہے کہ اگر وہ ، وہ شخص ہوتا جس سے میں محبت کرتی ہوتی تو میں کبھی اُسے برساتی کوٹ نہ پہناتی۔ میں اُس کے ساتھ برسات میں بھیگتی۔ میرا خیال ہے کہ جب تم کسی شخص سے محبت کرتے ہو تو تمھیں اُس کے جذبات کے ساتھ بھی محبت کرنا چاہیے۔ اُس کے ساتھ ساحلِ سمندر پر ہونا چاہیے، لہروں اور بارش کو اپنے اُوپر بہنے دینا چاہیے…

(سمندری لہروں کی آواز بلند ہوتی جاتی ہے۔ بُڈّھا منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

آہ، یہ بے حد حسین، بہت ہی حسین ہے۔ لیکن جُوں ہی میں نے حقیقت کے بارے میں سوچا میں بے ہیجان ہو کر بیٹھ گئی اور تاریکی میں فلم دیکھنے لگی۔

چہکتی آواز:

آہ، کس قدر مایُوس کُن ہے۔

(موسلا دھار بارش برستی ہے۔ بُوڑھا پژمردگی کی حالت میں سر کو اپنے ہاتھوں میں تھامے نیچے بیٹھ جاتا ہے۔ ناظرین اُس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے۔)

چہکتی آواز:

اے، بہن نِنگ، مجھے تو خاص طور پر برف باری پسند ہے۔ مجھے برف باری سے چِتلی کوئلیاد آجاتی ہے۔ جیسے ہی برف باری ہونے لگتی ہے مجھے لگتا ہے جیسے میں چِتلی کوئل کی کُوک سُن رہی ہوں، کیا یہ عجیب بات نہیں؟

(اِس مرحلے پر لڑکیوں پر حصار قائم کرنے والی روشنی رنگ بدل کر نیلی ہو جاتی ہے اور دِھیرے دِھیرے تیز سے تیز تر ہوتی جاتی ہے۔ دونوں شیریں گفتار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بُوڑھا آدمی منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

مجھے بھی برف باری پسند ہے۔ جب برف زمین پر گِر رہی ہوتی ہے تو ابھی پگھلی نہیں ہوتی تو وہ خالصتاً سفید ہوتی ہے اور یُوں لگتا ہے جیسے برفیلی زمین پر قدم دھرنا ناقابلِ برداشت ہے۔

چہکتی آواز:

(کھڑے ہوتے ہُوئے) لیکن مجھے تو برفیلی زمین پر چلنا بے حد پسند ہے۔

دِل کش آواز:

مَیں تو برف سے اَٹی زمین پر صرف چلوں ہی نہ بَل کہ لڑھکنیاں تک کھا لوں، لیکن مَیں نہیں چاہتی کہ لوگ مجھے دِیوانہ سمجھیں۔

چہکتی آواز:

(ایک ہی جگہ پر قدم اُٹھا اُٹھا کر رکھتے ہُوئے جیسے چہل قدمی کر رہی ہو) مجھے برفیلی زمین پرچلنا پسند ہے۔ پیچھے چھوڑے ہُوئے قدموں کے نشان یُوں لگتے ہیں جیسے گیہوں کے پتّوں کی مالا پروئی ہُوئی ہو۔

دِل کش آواز:

(کھڑی ہو کر اُسے تھامتے ہُوئے) کیا تم برف سے اَٹی زمین پر لڑھکنیاں کھانا چاہتی ہو؟ مجھے بتاؤ!

چہکتی آواز:

(قدم اُٹھاتے ہُوئے) میں چلنا چاہتی ہوں، چلنا اور چلنا کہ گیہوں کے پتّوں کی مالا پروئی جائے۔

دِل کش آواز:

(چھوٹے چھوٹے قدم ناپتے ہُوئے) تب تمھیں پنجوں کے بَل چلنا پڑے گا تاکہ تمھارےقدموں کے نشان گیہوں کے پتّوں کی مالا جیسے بنیں۔ میں گیہوں کے پتّوں کی مالا پرونے کے انداز میں چلنے کو کبھی پسند نہیں کروں گی۔

چہکتی آواز:

کبوتر کی پنجوں کے مانند چلنا بھی ٹھیک رہے گا اور میرے قدموں کے نشانات گیہوں کے پتّوں کی مالا جیسے دِکھائی دیں گے۔

دِل کش آواز:

احمق! مجھے کبوتر کے پنجوں ایسی چال پسند نہیں ہے۔ میرے پیروں کے نشان سپاٹ ہیں، گیہوں کے پتّوں کی مالا جیسے بالکل نہیں۔ یہ بتاؤ، یہ کیسی سرسراہٹیں ہیں؟

چہکتی آواز:

جھینگروں کے رینگنے کی۔

دِل کش آواز:

تم بہت گھناؤنی ہو!

(اُن کی دِھیمی دِھیمی ہنسی کی آواز، بارش کی آواز اور برف باری جیسی آواز بھی۔)

چہکتی آواز:

(دُوسرے کندھے پر جھکتے ہُوئے) بہن نِنگ۔

دِل کش آواز:

ہاں؟

چہکتی آواز:

پتا ہے مَیں کیا کہنے والی ہوں؟

دِل کش آواز:

اگر برف باری والے روز اچانک کوئی مینڈک اُچھل کر نکل آئے تو کیسی مزیدار بات ہو گی؟

چہکتی آواز:

یہ بات ہے تو میں نے برفیلی زمین پر سانپ کو دیکھا ہے۔

دِل کش آواز:

مَیں تم سے یہ پُوچھ رہی ہُوں کیا مینڈک کا اُچھلنا ممکن ہے۔

چہکتی آواز:

سانپ تو یقینا ہو سکتا ہے۔ میں نے برف سے اَٹی زمین پر دیکھا ہے۔

دِل کش آواز:

سانپ جما ہُوا ہو گا۔ یہ قطعاً ممکن نہیں!

چہکتی آواز:

یہ ممکن ہے۔ چھڑی کے مانند سخت…

دِل کش آواز:

اے، کیا تم اُس کسان جیسی بننا پسند کرو گی جس نے ایک سانپ کو گرمائش پہنچانے کے لیے اپنے سینے سے لپٹا لیا تھا؟[2]

چہکتی آواز:

اوہ، یہ بے حد عجیب بات ہو گی۔ بہن، کیا تم برف کے گولے بنا کر لطف اُٹھانا چاہو گی؟ جب برف گِرتی ہے تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے گویا مَیں چھوٹی سی بچّی بن گئی ہوں اور واقعی میرا دِل چاہتا ہے کہ مَیں برف پر لڑھکنیاں کھاتی پھروں—

دِل کش آواز:

تم میری نقل کیوں کرتی ہو؟ مَیں لڑھکنیاں کھانا چاہوں گی تو تم بھی یہی چاہو گی۔

چہکتی آواز:

تمھارے ساتھ کون لڑھکنا چاہے گا؟ گھٹیا! مَیں تمھیں چٹکی کاٹ لوں گی۔

دِل کش آواز:

 مَیں تمھیں جلا دوں گی!

چہکتی آواز:

مَیں تمھیں چمٹے سے پکڑ کر جلا دوں گی! یہ مت سمجھو کہ مَیں اتنی اچھی ہوں کہ تم مجھ پر دھونس جما لو گی! دیکھتے ہیں کون سخت جان ہے۔ (وہ اُسے گدگداتی ہے۔)

(دِل کش آواز والی لڑکی کے پاس بھی اُس کے لیے کوئی رحم نہیں ہے۔ اُن کی کھِی کھِی اور ہانپنے کی آواز آتی ہے۔ بُوڑھا سگریٹ سلگانے کے لیے ماچس کی تیلی جلاتا ہے۔ اُوپر سے آنے والی نیلی روشنی یکایک بند ہو جاتی ہے۔ تیلی کی روشنی میں بُوڑھے کی مُسکراہٹ دِکھائی دیتی ہے۔ لمحہ بھر غور کرنے کے بعد، وہ تمباکو نوشی نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ پس وہ تیزی سے تیلی بجھا دیتا ہے۔ سیمنٹ کی بوریوں پر بیٹھی ہُوئی لڑکیوں پر پڑنے والی زرد روشنی بھی دِھیمی پڑ جاتی ہے۔ لگاتار پڑنے والی بارش کی آواز۔)

چہکتی آواز:

مجھے معاف کردو، نِنگ بہن! میری بات سنو؛ جب میرا خاندان دیہات میں رہتا تھا تو بارش کے بعد دریا میں طغیانی آجاتی تھی…

دِل کش آواز:

اوہ، کیا تمھیں وہ منظر پسند ہے جب برف پگھلنا شروع کرتی ہے؟ برف کے تودوں پر ابھی برف جمی ہو۔ اُن کے ٹُوٹنے کے بعد وہ دریا میں بہنے لگیں۔

چہکتی آواز:

یہ منظر میرا پہلے دیکھا ہُوا ہے۔ برف کے تودوں کو ٹُوٹتے ہُوئے دیکھنا بہت دِلچسپ نظارہ تھا۔وہ پہلے بہتے ہُوئے پانی کے ساتھ ساتھ بہتے رہے اور پھر ایک دُوسرے سے ٹکرائے اور دریا میں بہتے ہُوئےرفتار پکڑنے سے پہلے ٹُوٹ پُھوٹ گئے۔ دریا گہرا نیلا تھا، جسے دیکھنے کا بے حد لطف آیا۔ یہ نظارہ بہت رومانوی تھا!

دِل کش آواز:

زندگی حیرت کدہ ہے۔ یہی زندگی ہے!

چہکتی آواز:

مَیں نے بڑے بڑے تودوں کو بھی ٹُوٹتے دیکھا ہے

دِل کش آواز:

لیکن بڑے تودے مجھے پسند نہیں ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ وہ بے حد تباہ کُن ہو سکتے ہیں اور انسانوں، کاروں اور سڑکوں، ہر چیز کو دفن کر دیتے ہیں۔ مجھے بڑے تودے ذرا بھی نہیں پسند کیوں کہ وہ میرے فطرت کے حسن کو برباد کرتے ہیں۔

چہکتی آواز:

لیکن تمھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی ایسی ہی ہے: کبھی حسین و جمیل تو کبھی بدصُورت…

(بادوباراں کی آواز۔ اپنے کپڑوں کو سمیٹتے اور سر کو دونوں گھٹنوں میں دیتے ہُوئے، بُڈّھا گول ہو کر گیند بن جاتا ہے۔ طوفانی ہَوا کی چنگھاڑ اور برسات کی آواز۔ ایک طرف سے آتی ہُوئی مدہم روشنی میں کھڑی ہُوئی دِل کش آواز والی لڑکی کا سایہ دِکھائی دیتا ہے۔)

دِل کش آواز:

مجھے بہت زیادہ وسیع و عریض ویرانہ بھی پسند ہے… جہاں میں بلند آواز میں، جتنی دیر تک چاہوں، چیخ سکوں، اور جتنا چاہوں غُل غپاڑہ مچا سکوں۔ تب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لمحہ بہت خُوب صُورت ہے، جو جنگلی گھاس پُھونس میں گھِرا ہُوا ہے، بے حد تنہا ہے… میں اکیلی ہوں… کسی کے ساتھکے بغیر… کوئی بھی میری چیخ و پکار نہیں سکتا۔ (دِھیرے دِھیرے ڈُوبتی ہُوئی آواز میں۔)

چہکتی آواز:

(ایک طرف سے آتی ہُوئی مدہم روشنی لڑکی کا سایہ نمایاں کرتا ہے۔) مَیں نے اپنی بڑی پہاڑی             کے عین اُوپر طلوع ہوتے ہُوئے سُورج کو دیکھا ہے۔ کسی نے بتایا تھا کہ وہ لوگوں کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔ لیکن میرا خیال ہے کہ پہاڑی اِس لیے حسین ہے کہ ہر مرتبہ اُس کے عقب سے ایک کونے میں سُورج اُسے اپنی رُونُمائی، مُون کیک کے کٹے ہُوئے ایک ٹکڑے کے مانند، کرواتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ آدھا نمودار ہو جاتا ہے… (اُسے ایک طرف سے سُرخ روشنی نُمایاں کرتی ہے۔) بہت ہی زیادہ چمک دار سُرخ، ایک بہت بڑے قرمزی رنگ کے گہرے لال خرمالو[3] جیسا۔ مَیں جب بھی سکول جاتی توسُورج میری پشت پر ہوتا تھا۔

دِل کش آواز:

تمھیں سُورج پسند ہے یا چاند؟

چہکتی آواز:

مَیں ہمیشہ اپنا بستہ لیے اِدھر اُدھر کے راستوں سے جاتی تھی۔

دِل کش آواز:

مَیں نے یہ پُوچھا ہے آیا تمھیں سُورج پسند ہے یا چاند؟

چہکتی آواز:

دونوں۔

(دِھیرے دِھیرے سُرخ روشنی غائب ہو جاتی ہے۔ ایک دِھیمی روشنی آہستہ آہستہ نمودار ہو کر دِل کش آواز والی لڑکی کا چہرہ روشن کرتی ہے۔)

دِل کش آواز:

لیکن مجھے چاند پسند ہے، یہ سُورج جتنا گرم نہیں ہے۔ چمکتے سُورج کے نیچے ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ لیکن چاند ہر وقت خُوب صُورت ہوتا ہے، بے حد خالص۔

چہکتی آواز:

(دِھیمی روشنی دونوں لڑکیوں کا چہرہ روشن کرتی ہے۔) تمھیں پتا ہے کہ ایک بار مَیں ٹرین کے ذریعے اپنی دادی کے ہاں گئی تھی، اور مَیں نے چاند کو ایک چٹخے ہُوئے آئینے کی طرح دیکھا تھا!

(دِھیمی روشنی دونوں کے مُونھوں پر پڑ رہی ہوتی ہے جب کہ وہ دونوں بہ یک وقت اپنی اپنی کہانیاں سُنا رہی ہوتی ہیں۔)

دِل کش آواز:

مَیں جب بھی کہیں جاتی ہوں، چاہے میری منزل نہایت واضح ہو، مَیں ٹرین ہی سے جاتی ہوں۔

چہکتی آواز:

کیوں کہ سرما کے موسم میں جب پتّے جھڑ چکے ہوتے ہیں تب بھی شاخیں موجود ہوتی ہیں…

دِل کش آواز:

لیکن جُوں ہی ٹرین حرکت میں آتی ہے تو مجھ پر ایک اَن جانا سا احساس طاری ہو جاتا ہے…

چہکتی آواز:

وہ مکمل طور پر عُریاں ہوتی ہیں، اور کچھ لمبی تو کچھ چھوٹی۔ چاند ہمیشہ ٹمٹماتا رہتا ہے، لیکن…

دِل کش آواز:    

مَیں جہاں بھی جا رہی ہوتی ہوں۔ میں نے سحر انگیز نظارے دیکھے۔ مَیں نے دیکھا…

چہکتی آواز:

ٹرین کی کھڑکی سے وہ متواتر …

دِل کش آواز:

پہاڑ، بانسوں کے جنگل، اور چائے کے باغات یکے بعد دِیگرے گذرتے ہیں، مَیں…

چہکتی آواز:

ٹُوٹے ہُوئے شیشوں کے طرح نمودار ہوتا ہے، سالم چاند سے زیادہ حسین و جمیل۔

دِل کش آواز:

مجھے نہیں پتا میرا مستقبل کہاں ہے۔

چہکتی آواز:

(چُپ۔)

دِل کش آواز:

وہ (مرد) کہاں ہے؟

چہکتی آواز:

کون؟

(ملموس دھاگے جیسی دِھیمی دِھیمی موسیقی اُبھرتی ہے۔ چہکتی آواز والی لڑکی کا سایہ روشنی کے دھار کے مقابل نمایاں ہوتا ہے۔)

چہکتی آواز:

(گویا اندر سے آواز اُبھرتی ہے) لیکن مَیں نے کبھی نہیں سوچا کہ کوئی میرے لیے خُوشی لا سکتا ہے۔ یُوں لگتا ہے جیسے مَیں تنہا ہی مسرت حاصل کر سکتی ہوں۔ مجھے آج کے دِن تک نہیں پتا کہ کوئی مجھے خُوشی دے سکتا ہے

دِل کش آواز:

(آہ بھرنے کے انداز میں) دھارے کے ساتھ چلتی جاؤ۔ جو بھی قدرتی طور پر ہوتا ہے،خُوب صُورت ہوتا ہے۔

چہکتی آواز:

لیکن وہ چیز زیادہ خُوب صُورت لگتی ہے جو بعض اوقات زیادہ غیر حقیقی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک پُھول کو لو۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ پُھول کتنا خُوب صُورت ہے، جس طرح یہ قدرتی طور پر تخلیق ہُوا تھا۔ لیکن جب تم ایک پلاسٹک کے پُھول کو دیکھتی ہو تو تم کہتی ہو کہ یہ پلاسٹک کا پُھول کتنا خُوب صُورت ہے، بالکل حقیقی کے مانند۔ یہ کتنا متضاد ہے، ذرا بھی عقلی نہیں ہے۔ جب کوئی شخص تم پر بہت مہربان ہو تو کیا تم سوچتی نہیں؟ تم یہ سوچو گی: کیا یہ جذبات حقیقی ہیں؟

دِل کش آواز:

جذبات سے موازنہ مت کرو؛ تم اِن دونوں کو یکساں رکھ کر بات نہیں کر سکتیں۔

چہکتی آواز:

مَیں اِسے آفاقی دیکھنے کے لیے یکساں تعقّل لاگو کرنا چاہتی ہوں!

دِل کش آواز:

پھر تو تم یہ بھی سوچو گی کہ وہ شخص جو تم سے محبت کرتا ہے…

چہکتی آواز:

حتّٰی کہ اُس کی دروغ گوئی کانوں کو بھلی لگتی ہو۔

دِل کش آواز:

جب تک کانوں کو بھلی لگتی رہے، لوگ ہمیشہ منافقت ہی کو پسند کرتے ہیں۔

چہکتی آواز:

لیکن تم یہ توقع نہیں رکھ سکتیں کہ یہ حقیقی ہے۔

(تیزی سے پاس سے گذرنے والی کار کی آواز، موسیقی اور عقب سے آتی ہُوئی روشنی غائب ہو جاتی ہیں۔ سٹیج کے عقب سے سبز سے نیلی ہوتی ہُوئی سٹریٹ لائٹ اُوپر آ کر سیمنٹ کی بوریوں پر پشت سے پشت جوڑے بیٹھی ہُوئی دونوں لڑکیوں کا خاکہ ظاہر کرتی ہے۔ پانی کے ٹپکنے کی ’’ٹپ ٹپ‘‘ کی آواز۔ بُوڑھا آگے بڑھتا ہے لیکن اُسے ایسی کوئی جگہ نہیں ملتی جہاں سے پانی نہ ٹپک رہا ہو۔ پس وہ زیادہ دُور چلا جاتا ہے۔ لیکن اب بھی بات نہیں بنتی۔ تاریکی میں قطروں کو دیکھتے ہُوئے وہ نہایت اذّیت محسوس کرتا ہے۔)

چہکتی آواز:

سچ سچ بتاؤ، بہتر کیا ہے؟

(بُڈھا اپنی موجودگی سے دونوں لڑکیوں کی گفتگو میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا، تنبو تلے کوئی نہ ٹپکنے والا مقام تلاشتا ہے۔)

دِل کش آواز:

تم یہ بھی نہیں چاہتیں کہ کوئی تمھاری زندگی میں دخیل ہو؟ تم دُوسروں پر کیوں تنقید کرتی ہو، کیا تمھیں شرم نہیں آتی؟ مَیں نے منافقت نہیں سیکھی۔

چہکتی آواز:

میرا خیال ہے کہ ہر فطری شے حسین ہے۔ مجھے ہر اُس چیز سے نفرت ہے جو فطرت کو تباہ کرتی ہے۔

دِل کش آواز:

لیکن جب ماحول تمھیں زندہ نہ رہنے دے تو تمھیں حیلہ سازی سیکھ لینا چاہیے۔ اِس کےبعد مَیں کوئی پُھول نہیں لیتی۔

چہکتی آواز:

کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں ماحول کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔

(دبے قدموں چلتے ہُوئے، بُوڑھا کوئی ایسی جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے جو ٹپک نہ رہی ہو۔ بارش کے قطرے گِرنے کی آواز لگاتار آتی رہتی ہے۔)

دِل کش آواز:

اپنی بقا کے لیے ہمارا نرم لہجے میں بات کرنا سیکھنا ضروری ہے۔ کتنی گھناؤنا فعل ہے!

چہکتی آواز:

کیوں کہ تم زندگی سے محبت کرتے ہو، جب کہ تمھیں زندہ رہنا سیکھنا چاہیے۔

دِل کش آواز:

لیکن مَیں محسوس کرتی ہوں کہ اگر لوگ چست ہیں تو اُنھیں نئی زندگی تخلیق کرنا چاہیے، محض کوئی احمق ہی اپنی موجودہ زندگی پر قانع ہو گا۔

چہکتی آواز:

تم نئی زندگی کس طرح تخلیق کرتی ہو؟

(اِس موقع پر، ہر سمت سے بارش کے قطروں کے آواز آتی ہے۔ دِھیمے دِھیمے قدموں سے پانی کے ٹپکنے والے مقام پر چلتے ہُوئے بُڈھا لاچاری سے اپنے سر پر ہَیٹ جمانے کے سِوا کچھ نہیں کر سکتا۔ بالآخر وہ سر جھکا کر ساکت کھڑا ہو جاتا ہے۔)

دِل کش آواز:

(مدہم بنفشی روشنی کی دھار میں لڑکی یُوں نمایاں ہوتی ہے گویا فضا میں تیر رہی ہو) لیکن میرا خیال ہے کہ بناوٹی لوگ چاہے کچھ بھی بننے کی سعی کریں لیکن اُن کی رُوح میں سدا بے حد سچی اور خالص چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ یہی روزمرّہ کی زندگی کا اہم ستون ہے۔ اِس کے بغیر کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اِس نوع کی مدد کے بغیر مَیں تو زندہ نہیں رہ پاؤں گی۔

چہکتی آواز:

(گویا نقل اُتارتے ہُوئے) بعض اوقات، تمھارے پاس کسی نہ کسی بات پر دُوسروں کو تنقیدکا نشانہ بنانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ کیا تمھیں نہیں لگتا ہے کہ اپنے آپ کو دُوسروں سے منفردپیش کرنے کے لیے تم بھی اداکاری کر رہی ہو؟

دِل کش آواز:

لیکن حقیقت یہ ہے کہ مَیں واقعی چاہتی ہوں کہ اپنا آپ کھول کر رکھ دوں، اپنا دھڑکتا ہُوا دِل نکال کر تمھارے سامنے رکھ دوں کہ دیکھو یہ لال ہے، اور پھر تم مجھے معاف کر دو گی۔

چہکتی آواز:

(گویا نقل اُتارتے ہُوئے) آہ، یہ نہایت احمقانہ بات ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے۔

دِل کش آواز:

لیکن، اگر تم خاص طور پر اعتبار کرو…

چہکتی آواز:

بہتر ہو گا کہ کسی قابلِ اعتبار شخص کی تلاش کی جائے۔

دِل کش آواز:

تمھیں تو پتا ہے کہ مَیں اِس قسم کے کام واقعی کر سکتی ہوں!

چہکتی آواز:

کسی ایسے شخص کے لیے یہ کام کرنا جو تمھیں سمجھتا نہ ہو محض زیاں ہے۔

دِل کش آواز:

بے شک، یہ زندگی سہل نہیں ہے۔

(بُوڑھا شخص آہ بھرتا ہے۔ دِھیمی روشنی غائب ہو جاتی ہے۔ دونوں لڑکیاں سیمنٹ کی بوریوں پر ساکت بیٹھی ہیں اور صرف اُن کے سائے دِکھائی دیتے ہیں۔ بُڈّھا اپنے ہَیٹ کو جھاڑتے ہُوئے ناظرین کی سمت اپنا چہرہ گھماتا ہے اور مکمل طور پر بھیگے ہُوئے ہَیٹ کو نچوڑتا ہے۔)

چہکتی آواز:

وہ جو مجھے نہیں سمجھتے ہیں پہلی مرتبہ ہی میں نہیں سمجھتے ہیں۔ نہ مَیں توقع رکھتی ہوں کہ وہ سمجھیں گے۔ وہ جو چاہیں سو کہیں؛ تنقید بھی عمدہ چیز ہے۔ مجھے اُن کے سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ کسی صُورت میں نہیں سمجھیں گے۔

دِل کش آواز:

پھر تم نے اصرار کیوں کیا تھا کہ تمھارے دادا تمھیں سمجھیں؟

(بُوڑھا صاف سننے کے لیے سر موڑتا ہے۔)

چہکتی آواز:

وہ رشتے دار ہیں؛ اُنھیں سمجھنا چاہیے۔

دِل کش آواز:

لیکن وہ اُسی نسل سے تعلّق رکھتے ہیں؛ وہ ہماری نسل کو نہیں سمجھ سکتے!

(بُوڑھا آدمی خفا دِکھائی دیتا ہے۔)

چہکتی آواز:

بے شک۔

دِل کش آواز:

لیکن اگر اِردگرد کے تمام لوگ ہی تمھیں نہ سمجھیں تو بعض اوقات وہ تمھارا خُون کر دیتے ہیں

(بارش پڑنے کی آواز۔ بُڈّھا اپنے خیالوں میں کھویا دِکھائی دیتا ہے، اُس کے ہاتھ نیچے گِرے ہوتے ہیں)

چہکتی آواز:

لیکن مَیں خوف زدہ نہیں ہوں کیوں کہ میرے اپنے نظریات ہیں۔ تاہم، پھر بھی مَیں چاہتی ہوں کہ مجھے سمجھا جائے۔ میرے خیال میں دُنیا میں جو چیز سب سے زیادہ لوگوں کو سکون بخش سکتی ہے وہ آپسی ذہنی یگانگت ہے، ذہنوں کی ہم آہنگی۔

(دُوسری جانب بُوڑھا شخص اُکڑوں بیٹھا آنکھیں بند کیے سوچ رہا ہوتا ہے۔ چنگھاڑتی ہُوئی گاڑیوں کی آواز بڑھتی جاتی ہے۔ سٹیج کے عقبی حِصّے میں سٹریٹ لائٹیں ایک ایک کر کے روشن ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسی موسیقی اُبھرتی ہے جو شہر کی راتوں کی ہر چیز کی آواز کا ادغام ہوتی ہے۔ دِھیمی روشنی تلے دونوں لڑکیاں ایک دُوسرے سے جُڑ کر بیٹھی ہوتی ہیں۔)

دِل کش آواز:

یہ کافی نہیں ہے۔ میرا خیال میں مجھے جو چیز بے حد سکون بخشتی ہے، وہ ہے سچا پیار۔

چہکتی آواز:

اِس کی وجہ یہ ہے کہ تمھیں پہلے ہی اپنا پیار مل چکا ہے۔ تمھارے پاس پہلے سے ایک مرد کی سچی محبت موجود ہے اور تم دونوں کا دِل ایک دُوجے کے لیے ہے۔

دِل کش آواز:

خیر، سادہ ہم آہنگی ہی صرف کافی نہیں!

چہکتی آواز:

تمھیں پتا ہے کہ اُس کا دِل کیسے دھڑکتا ہے اور اُسے تمھارے دِل کی دھڑکن کا پتا ہے۔ تمھیں دُنیا کا بے حد حیرت انگیز چاہنے والا مل گیا ہے۔ میری بس اِتنی سی توقع ہے کہ مجھے سمجھا جائے، چاہے وہ اُس طرح پسند نہ کرے جیسے تم نے کیا۔ جب تک وہ تمھیں سمجھتا رہے گا، یہ بھی بہت اعلیٰ رہے گا۔

دِل کش آواز:

مَیں تم سے بہت زیادہ حریص ہوں۔ مَیں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے آس پاس کے میرے عزیز و اقارب محض مجھے سمجھیں لیکن مجھ سے محبت نہ کریں۔

چہکتی آواز:

لیکن یہ تبھی ہو گا جب پہلے تم سمجھو، پھر محبت کرنا ممکن ہو گا۔

دِل کش آواز:

پھربھی یہ کافی نہیں۔ محبت کے بغیر، اِس دُنیا میں رہنا بے حد اذّیت ناک ہو گا۔

چہکتی آواز:

میری صُورتِ حال تم سے مختلف ہے۔ مَیں محض ہم آہنگی چاہتی ہوں۔

دِل کش آواز:

(دُوسری کو جذباتی انداز میں لپٹتے ہُوئے) لیکن میں قانع نہیں ہوں۔ میرے لیے کسی سے محبت کرنا اپنے دِل کی گہرائیوں سے محبت کرنا ہے؛ صرف ہم آہنگی بہت ہونے سے بعید ہے۔

چہکتی آواز:

کوئی چیز کامل نہیں ہے۔ حد یہ کہ محبت بھی اکملیت کو نہیں پہنچ پاتی۔ اگر پہنچ بھی جائے تو بعد میں اِس کا تنزل ہونا شروع ہو جائے گا۔

دِل کش آواز:

کوئی کیوں کر ہمیشہ اُوپر ہی چڑھے سکے گا، سدا کھوجتے اور ڈھونڈتے ہُوئے؟

چہکتی آواز:

ہمیشہ عروج کے بعد انجام ہوتا ہے، پھر…

دِل کش آواز:

کوئی کیوںکر ایک کے بعد دُوسرا عروج پائے گا؟ یہ بھی فلسفہ ہے! (دُوسری کا چہرہ تھامتے ہُوئے) مجھے جواب دو۔ جواب دو نا!

چہکتی آواز:

اگر مَیں یہ کہوں کہ، بہن نِنگ، مَیں تم سے کامل پیار کرتی ہوں اور مر جانے کی حد تک تمھیں چاہتی ہوں تو بھی میرا دِل محسوس کرتا ہے کہ اب بھی کچھ کمی ہے۔

دِل کش آواز:

(دُوسری کے مُنھ کی نقل اُتارتے ہُوئے) اگر پھر کبھی تم نے یہ بات کی تو مَیں چاہوں گی تم اُسی وقت مر جاؤ!

چہکتی آواز:

(دُوسری کے چہرے کو اپنے چہرے سے چُھوتے ہُوئے۔ دونوں ایک دُوسرے سے گھٹ کر لپٹتی ہیں۔) اے، کیسی ظالم ہے، لیکن یہی انسان ہے، ایک حقیقی جیتا جاگتا انسان۔ یاد رکھو، بہن نِنگ، مَیں تمھیں کبھی نہیں کہوں گی کہ مَیں تم سے مر جانے کی حد تک محبت کرتی ہوں۔

دِل کش آواز:

(دُوسری کو چھوڑتے ہُوئے) پس، مَیں بھی تمھیں مرنے نہیں دوں گی۔ فکر مت کرو۔

چہکتی آواز:

اے، صداقت پرکھنے والی ہے، یہ بہت دِلچسپ ہے۔ واقعی، اگر اِس قسم کی محبت ہوتی کہ کوئی واقعی کسی کی محبت میں مر جاتا…

دِل کش آواز:

تب میں سوچتی کہ واقعی موت اِس قابل ہے۔

چہکتی آواز:

پھر کوئی دِلچسپی باقی نہ رہتی۔ محبت کا انجام موت نہیں ہے۔

دِل کش آواز:

مجھے پتا ہے کہ محبت کا انجام موت نہیں

چہکتی آواز:

لیکن اگر محبت کسی سے، رومیو اور جولیٹ کی طرح، مرنے کا تقاضا کرے تو!

دِل کش آواز:

اَوتھیلو کی طرح! چاہے یہ المیہ ہی کیوں نہ ہو، کیا یہ سچی محبت نہیں ہے؟

چہکتی آواز:

لیکن یہ تو ایک طرح کا تصرّف ہے۔

(بُوڑھا اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے جیسے وہ اپنے سر سے بارش کے قطرے جھٹک رہا ہو۔)

دِل کش آواز:

تم اِس سے انکار نہیں کر سکتیں کہ اُس کی محبت خالص تھی؛ اُس کی محبت کا انداز جدا تھا۔

چہکتی آواز:

وہ زمانے اَور تھے۔ اُس زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ تصرّف ہی اصل محبت ہے۔ اِس کے علاوہ، درست طور پر یہ تصرّف رکھنے ہی کی تمنّا تھی جو محبت کو قوّی بناتی تھی اور اِس طرح زیادہ خود غرض بھی۔ لیکن اب لوگ محبت کو تصرّف نہیں سمجھتے۔ میرا خیال ہے کہ اگر تمھارا کسی پر تصرّف ہو تو وہ شخص زیادہ دیر تک محبت کے قابل نہیں رہے گا۔ پس، مستقبل میں اگر مَیں کسی شخص کی محبت میں گرفتار ہو بھی گئی، یا کوئی شخص میری محبت میں گرفتار ہو گیا تو اگر مَیں نے اُس پر تصرّف کا آغاز کیا تو مَیں یقیناً زیادہ عرصہ اُس کے ساتھ نہیں رہوں گی۔

دِل کش آواز:

لوگ جسمانی تصرّف سے نجات نہیں پا سکتے۔ یہ تکلیف دہ امر ہے۔

(بُڈھا اپنا سر ناں میں ہِلاتا ہے، کھڑا ہوتا ہے اور یُوں تیوریاں چڑھاتا ہے جیسے بارش کا قطرہ اُس کی بھنو پر گِرا ہو۔)

دِل کش آواز:

محبت کے بدنی تصرّف کو رُوحوں کی باہمی تقلیب کا وسیلہ ہونا چاہیے۔

(بُوڑھا اثبات میں سر ہِلاتا ہے گویا اپنے چہرے سے بارش کا قطرہ جھٹک رہا ہو۔)

چہکتی آواز:

رُوح پر تصرّف بھی ممکن نہیں ہے کیوں کہ کوئی بھی رُوح کو کاملاً اپنے قبضے میں نہیں لا سکتا۔

دِل کش آواز:

اِس کا انحصار

چہکتی آواز:

نہیں، عمر رسیدہ لوگ جب کسی کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو وہ اتنے عملی کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیوں وعدے وعید نہیں کرتے؟

(بُوڑھے کا چہرہ پُرسکون ہو جاتا ہے۔)

چہکتی آواز:

کیوں کہ وہ پہلے ہی سے اِس بارے میں آگاہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نوجوان سدا تاقیامت کا عہد مانگتے ہیں، جو ایک نوع کا تصرّف ہے۔

(بُوڑھا جھکتا ہے، کھنگھارتا اور اندھے پن سے اپنا سُوٹ کیس ٹٹولتا ہے۔)

دِل کش آواز:

تب تو تم اِس سے انکار نہیں کر سکتیں کہ یہ بھی خالص ہے۔

چہکتی آواز:

اِس لیے کہ تم نے اب بھی اِسے مکمل طور پر غلط سمجھا ہے۔

دِل کش آواز:

ضروری تو نہیں! یہ انحصار کرتا ہے! یہ انحصار کرتا ہے!

چہکتی آواز:

یہ پہلی محبت ہے۔

دِل کش آواز:

خالص پن ممکن ہے۔

چہکتی آواز:

مجھے یقین نہیں کہ کوئی بھی چیز کامل خالص ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مَیں کسی شخص کی محبت میں گرفتار ہو جاؤں تو مَیں دائمی محبت کا وعدہ نہیں کروں گی۔

(بُڈھا اپنا پیر اِس طرح تھپتھپاتا ہے کہ لڑکیاں اُسے سن لیں اور وہاں سے نکل جائیں۔)

دِل کش آواز:

یہ بھی لازم نہیں ہے۔

چہکتی آواز:

بہرحال، اگر میں کسی ایسے شخص سے ملی تو

دِل کش آواز:

تو تم اُس سے دائمی محبت کا عہد نہیں کرو گی؟

چہکتی آواز:

نہیں، مَیں شادی نہیں کروں گی۔

دِل کش آواز:

زندگی بھر کنواری رہو گی؟

چہکتی آواز:

یہ درست ہے!

دِل کش آواز:

تم عمر بھر کنواری نہیں رہ سکتیں، کیا تمھیں اِس پر یقین ہے؟

چہکتی آواز:

مَیں اپنی ساری زندگی بہن نِنگ کے ساتھ گذار دوں گی۔

دِل کش آواز:

تم ضرور کسی ایسے شخص سے ملو گی جس سے محبت کرنے لگو گی۔

چہکتی آواز:

کبھی نہیں۔

دِل کش آواز:

ضرور ملو گی، میری پیاری بہن۔ تم ضرور ملو گی۔

چہکتی آواز:

لیکن مجھے کبھی پتا نہیں چلے گا کہ وہ مجھ سے ہمیشہ محبت کرے گا۔ تب مجھے زیادہ اذّیت ہو گی…

دِل کش آواز:

اگر یہ بات ہے تو مَیں اُسے چپکے سے چھوڑ کر تمھارے ساتھ رہنے لگوں گی

چہکتی آواز:

بہن نِنگ، کیا تم رو رہی ہو؟

دِل کش آواز:

نہیں…

(بُوڑھا ٹھیر کر زیادہ غور سے سننے لگتا ہے۔ اُس کے چہرے پر حیرت ہوتی ہے۔)

چہکتی آواز:

(اُس کے گرد اپنے بازو حمایل کرتے ہُوئے) تم کتنی احمق ہو!

(بُڈھا اپنی عینک پہن لیتا ہے۔)

دِل کش آواز:

کیوں کہ ہم لڑکیاں ہیں۔

چہکتی آواز:

لڑکیاں احمق ہوتی ہیں؟

دِل کش آواز:

(اُسے پرے دھکیلتے ہُوئے) دفع ہو جاؤ یہاں سے! (وہ اپنے آنسو پُونچھتے ہُوئے مُسکرا دیتی ہے۔)

(بُوڑھا آہ بھرتا ہے۔)

چہکتی آواز:

تمام سٹریٹ لائٹیں روشن ہو گئی ہیں— بارش اب بھی پڑ رہی ہے۔

(دونوں لڑکیاں اُٹھتی ہیں اور تنبو سے باہر چلی جاتی ہیں۔ بارش پڑنے کی آواز۔ وہ دونوں ناظرین کی طرف پشت کرتی ہیں اور اپنے ہاتھ اُٹھا کر بارش کے قطروں کو لیتی ہیں۔ سٹریٹ لائٹوں میں متواتر بارش پڑ رہی ہوتی ہے۔ وہ دونوں ایک دُوسرے کو دیکھتے ہُوئے کھِی کھِی کرتی ہیں۔ دِھیمی دِھیمی موسیقی۔ موسیقی اور مخالف سمت سے آنے والی روشنی کی دو دھاروں میں وہ سٹیج کی عقبی سمت دوڑتی ہیں، کھِی کھِی کرتے ہُوئے سٹیج سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ بُوڑھا تنبو سے باہر نکلتا ہے۔ گاڑیوں اور موسیقی کی آواز غائب ہو جاتی ہے۔ بُوڑھا سر پر اپنا ہَیٹ لیتا ہے، آہستہ آہستہ چلتا ہُواعقب میں جا کر سٹیج سے روانہ ہو جاتا ہے۔ سٹریٹ لائٹوں میں متواتر بارش کی لگاتار دھاریں اور شُوں شُوں کی آوازیں۔)

:::

 


 چینی زبان میں ایک پُکار جو مداخلت کرنے کے لیے نکالی جاتی ہے۔[1]

 [2] ایک چینی کہانی کی طرف اشارہ جس میں ایک رحم دِل کسان نے ایک سانپ کی زندگی اُسے اپنی بازوؤں کے حصار میں لے کر بچائی تھی۔

[3] ایک سدا بہار پیڑ، جس میں نارنجی رنگ کے گُودے دار خوردنی پُھول لگتے ہیں۔ اِس درخت کو’ کاکی‘ بھی کہا جاتا ہے۔

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

Authors

  • ۲۰۰۰ء کے نوبیل انعام سے چینی زبان کے معروف ناول نگار، افسانہ نویس، ڈراما نگار، مضمون نگار، نقاد، ماہرِ لسانیات، مترجم اور شاعر گاؤژِنگ جیان کو نوازا گیا۔ لیکن اُن کی اصل وجۂِ شہرت ڈراما ہے— ایک ایکٹ کا مختصر اور مہمل ڈراما— جس کے وہ اپنے آبائی وطن چین میں بانی گردانے جاتے ہیں۔ اُن کے نثری کام کو چین میں کم ہی اہمیت دی گئی جب کہ یورپ اور مغرب میں بے حد عزّت ملی۔ جس کی بیّن وجہ اُن کی تخلیقات کا ریاست مخالف ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ۱۹۸۷ء میں اُنھیں چین چھوڑ کر فرانس کے شہر بیگنولیٹ میں، جو پیرس کا ملحقہ شہر ہے، سکونت اختیار کرنا پڑی۔ ایک سال بعد اُنھوں نے فرانس میں سیاسی پناہ لی اور بالآخر اُنھیں ۱۹۹۸ء میں فرانس کی شہریت دی گئی۔گاؤژِنگ جیان کے لیے نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہُوئے نوبیل اکادمی نے مؤقف اختیار کیا: ’’آفاقی سطح پر معقولیت بھرے کارناموں، تلخ بصیرت اور ارفع لسانی صلاحیتوں کے نام جنھوں نے چینی ناول اور ڈرامے کے لیے نئی شاہراہیں کھولیں۔‘‘ گاؤ ژِنگ جیان ۰۴ جنوری ۱۹۴۰ء کو صوبہ جیانگ ژِی کے شہر گان زہو میں دُوسری جنگِ عظیم کے دوران پیدا ہُوئے۔ گاؤ اُن کا خاندانی نام ہے۔ اُن کا دُدھیالی قصبہ تائی زہو صوبہ جیانگ سُو اور ننھیالی جڑیں زہے جیانگ میں ہیں۔ اُن کے خاندان نے جنگِ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے بعد ۱۹۵۰ء میں نان جِنگ میں آکر بودوباش اختیار کی۔ اُن کی والدہ دُوسری چینی جاپانی جنگ کے دوران میں جاپان مخالف تھیٹر میں بطور اداکارہ بھی کام کرتی رہی تھیں۔چھوٹی عمر میں اپنی والدہ کے زیرِ اثر اُنھوں نے مصوّری، لِکھتوں اور تھیٹر سے خُوب استفادہ کیا۔ ۱۹۵۲ء میں مڈل سکول کی متعلّمی کے دوران میں اُنھوں نے ترجمہ شدہ بے شمار مغربی ادب کا مطالعہ کیا ۔ ۱۹۵۷ء میں گریجوایشن کرنے کے بعد بیجنگ فارن سٹڈیز یُونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔ ۱۹۶۲ء میں بی ایف ایس یُو کے شعبہ فرانسیسی سے ڈگری لی۔ ۱۹۷۵ء میں اُنھیں واپس بیجنگ جانے کی اجازت ملی جہاں وہ جریدے ’چائنا ری سٹرکشن‘ کے لیے فرانسیسی ترجمہ نگاری کے گروپ کے لیڈر بن گئے۔ ۱۹۷۷ء میں گاؤ نے چائینیز ایسوسی ایشن آف رائٹرز کی کمیٹی برائے فارن ریلیشن شپ کے لیے کام کیا۔ ۱۹۸۰ء میں وہ بیجنگ پیپلز آرٹ تھیٹر کے سکرین رائٹر اور پلے رائٹ بن گئے۔ اُن کے سیاسی ڈرامے ’’مہاجرین‘‘کے نتیجے میں اُن کی تمام تخلیقات اور ڈراموں پر چین میں پابندی عاید کر دی گئی اور ’’دُوسرا ساحل‘‘ کے بعد اُن کا کوئی ڈراما چین میں سٹیج نہیں ہُوا۔ ہراس زدگی سے بچنے کے لیے گاؤ ژِنگ جیان دس ماہ کی سیاحت کے لیے سِچؤان صوبے کے جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف نکل گئے جہاں وہ دریائے یانگزی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہُوئے اُس کے منبع تک گئے۔ اُن کا یہ سفر اُن کے ناول ’’سَول ماؤنٹین ‘‘ کا سبب بنا۔ گاؤ ژِنگ جیان کی نُمایاں کتب میں افسانوں کا مجموعہ، دو ناول، ناولچوں کا مجموعہ، ڈراموں کے مجموعوں کے علاوہ غیر افسانوی نثر کی کتب شامل ہیں۔ نوبیل انعام ۲۰۰۰ء کے علاوہ گاؤ ژِنگ جیان کو ملنے والے دِیگر انعامات و اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے۔ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

3 thoughts on “بارش سے اوٹ”

  1. Rehan Islam

    Chinese literature is love

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top
𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛