𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

لڈیا ڈیوس کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

 نجم الدّین احمد کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

امریکی افسانچہ

میری ایک دوست کی سنائی ہوئی کہانی

لڈیا ڈیوس

(Lydia Davis)

تعارف و ترجمہ: نجم الدّین احمد

امریکی افسانچہ

میری ایک دوست کی سنائی ہوئی کہانی

لڈیا ڈیوس

(Lydia Davis)

تعارف و ترجمہ: نجم الدّین احمد

Meri aik dost ki sunai hui kahani - Lydia Devis -Translations-تراجم (PP)
Meri aik dost ki sunai hui kahani - Lydia Devis -Translations-تراجم (PP)

گُزشتہ روز میری ایک دوست نے مجھے اپنے ایک پڑوسی کی دُکھ بھری کہانی سنائی۔ اُس کے پڑوسی کی ایک آن لائن دوستی سروس کے ذریعے ایک اجنبی سے بات چیت شروع ہو گئی۔ اُس کا وہ دوست اُس سے سینکڑوں مِیل دُور شمالی کیرولینا میں رہتا تھا۔ دونوں میں پہلے پیغامات کا، پھر تصویروں کا تبادلہ ہؤا اور پھر لمبی لمبی گفتگو پہلے تحریری اور پھر فون پر ہونے لگی۔ جہاں تک وہ انٹرنیٹ کے ذریعے جان سکے وہ یہ تھا کہ اُن کی بہت سی دِلچسپیاں مشترکہ ہیں؛ وہ جذباتی اور ذہنی ہم آہنگی رکھتے ہیں؛ اُنھیں ایک دُوسرے کی معیت میں سکون ملتا ہے اور وہ جسمانی طور پر بھی ایک دُوسرے کے لیے باعثِ کشش ہیں؛ اُن کے کاروباری مشاغل بھی قریب ترین تھے کہ میرے دوست کا پڑوسی ایک اکاؤنٹنٹ اور اُس کا نیا دوست جنوب کے ایک چھوٹے سے کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھا۔ کچھ ماہ بعد اُن میں نہایت خُوش گوار قریبی تعلّقات اور محبت پیدا ہو گئی۔ میرے دوست کے پڑوسی کو یقین تھا کہ ’’یہی اصل چیز ہے۔‘‘ جو اُس نے خُود بتایا۔ جب تعطیلات ہوئیں تو اُس نے چند روز کے لیے جنوب جا کر اپنے انٹرنیٹ کے دوست سے ملنے کا ارادہ کیا۔

سفر والے روز اُس نے اپنے دوست کو فون کیا اور اُنھوں نے دو تین بار بات کی۔ پھر جب اُسے اُس کے فون سے جواب ملنا بند ہو گئے تو وہ حیران رہ گیا۔ اُس کا دوست اُسے لینے ہَوائی اڈّے پر بھی نہیں آیا تھا۔ وہاں انتظار اور اُسے متعدّد بار فون کر نے کے بعد میرے دوست کا پڑوسی ہَوائی اڈّے سے اپنے دوست کے دیے ہوئے پتے پر پہنچا۔ اُس کے گھنٹیاں بجانے اور دروازے کھٹکھٹانے پر بھی اُسے کوئی جواب نہیں ملا۔ اُس کا ذہن طرح طرح کے اندیشوں میں گھِر گیا۔

یہاں کہانی کا کچھ حِصّہ غائب ہے لیکن میرے دوست نے مجھے جو بتایا وہ یہ ہے کہ اُس کے پڑوسی کو پتا چلا کہ اُسی روز، جب وہ جنوب کی طرف گامزن تھا، اُس کا انٹرنیٹ دوست دِل کا دورہ پڑنے سے مر گیا تھا۔ جب کہ اُس کا فون ڈاکٹر کے پاس تھا۔ میرے دوست کے پڑوسی کو یہ بات اُس کے دوست کے ہمسائے یا پولیس سے معلوم ہوئی تو اُس نے مقامی مُردہ خانے کا رُخ کیا۔ اُسے اپنے انٹر نیٹ دوست کے دِیدار کی اجازت مل گئی تو وہ اُس شخص کے روبرو جا کھڑا ہو کر پہلی بار اُسے دیکھنے لگا جس نے عمر بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا۔

:::

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

گُزشتہ روز میری ایک دوست نے مجھے اپنے ایک پڑوسی کی دُکھ بھری کہانی سنائی۔ اُس کے پڑوسی کی ایک آن لائن دوستی سروس کے ذریعے ایک اجنبی سے بات چیت شروع ہو گئی۔ اُس کا وہ دوست اُس سے سینکڑوں مِیل دُور شمالی کیرولینا میں رہتا تھا۔ دونوں میں پہلے پیغامات کا، پھر تصویروں کا تبادلہ ہؤا اور پھر لمبی لمبی گفتگو پہلے تحریری اور پھر فون پر ہونے لگی۔ جہاں تک وہ انٹرنیٹ کے ذریعے جان سکے وہ یہ تھا کہ اُن کی بہت سی دِلچسپیاں مشترکہ ہیں؛ وہ جذباتی اور ذہنی ہم آہنگی رکھتے ہیں؛ اُنھیں ایک دُوسرے کی معیت میں سکون ملتا ہے اور وہ جسمانی طور پر بھی ایک دُوسرے کے لیے باعثِ کشش ہیں؛ اُن کے کاروباری مشاغل بھی قریب ترین تھے کہ میرے دوست کا پڑوسی ایک اکاؤنٹنٹ اور اُس کا نیا دوست جنوب کے ایک چھوٹے سے کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھا۔ کچھ ماہ بعد اُن میں نہایت خُوش گوار قریبی تعلّقات اور محبت پیدا ہو گئی۔ میرے دوست کے پڑوسی کو یقین تھا کہ ’’یہی اصل چیز ہے۔‘‘ جو اُس نے خُود بتایا۔ جب تعطیلات ہوئیں تو اُس نے چند روز کے لیے جنوب جا کر اپنے انٹرنیٹ کے دوست سے ملنے کا ارادہ کیا۔

سفر والے روز اُس نے اپنے دوست کو فون کیا اور اُنھوں نے دو تین بار بات کی۔ پھر جب اُسے اُس کے فون سے جواب ملنا بند ہو گئے تو وہ حیران رہ گیا۔ اُس کا دوست اُسے لینے ہَوائی اڈّے پر بھی نہیں آیا تھا۔ وہاں انتظار اور اُسے متعدّد بار فون کر نے کے بعد میرے دوست کا پڑوسی ہَوائی اڈّے سے اپنے دوست کے دیے ہوئے پتے پر پہنچا۔ اُس کے گھنٹیاں بجانے اور دروازے کھٹکھٹانے پر بھی اُسے کوئی جواب نہیں ملا۔ اُس کا ذہن طرح طرح کے اندیشوں میں گھِر گیا۔

یہاں کہانی کا کچھ حِصّہ غائب ہے لیکن میرے دوست نے مجھے جو بتایا وہ یہ ہے کہ اُس کے پڑوسی کو پتا چلا کہ اُسی روز، جب وہ جنوب کی طرف گامزن تھا، اُس کا انٹرنیٹ دوست دِل کا دورہ پڑنے سے مر گیا تھا۔ جب کہ اُس کا فون ڈاکٹر کے پاس تھا۔ میرے دوست کے پڑوسی کو یہ بات اُس کے دوست کے ہمسائے یا پولیس سے معلوم ہوئی تو اُس نے مقامی مُردہ خانے کا رُخ کیا۔ اُسے اپنے انٹر نیٹ دوست کے دِیدار کی اجازت مل گئی تو وہ اُس شخص کے روبرو جا کھڑا ہو کر پہلی بار اُسے دیکھنے لگا جس نے عمر بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا۔

:::

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

Authors

  • لڈیا ڈیوس ۱۵ جولائی ۱۹۴۷ء کو نارتھمپٹن ، میساشوسیٹس میں انگریزی کے پروفیسر، نقاد اور افسانہ نگار رَابرٹ گراہم ڈیوِس کے ہاں پیدا ہوئی۔ وہ ایسی امریکی مصنفہ ہے جس کی وجۂِ شہرت اُن کی مختصر ترین کہانیاں ہیں جن میں سے کئی تو محض ایک یا دو جملوں پر محیط ہوتی ہیں۔ اِس کے علاہ وہ ناول نگار اور مضمون نویس بھی ہے۔ اُن نے کلاسیکی فرانسیسی اور ڈچ ادب سے تراجم بھی کیے ہیں۔ فرانسیسی سے تراجم میں اُن کے اہم کام پراؤسٹ کی کتاب ’’سوانز وے‘‘ اور فلابیئر کی’’میڈم بواری‘‘ کے علاوہ بلان شوٹ، فوکالٹ، مائیکل لیرِس، پیرے جِین، جوفےاور دِیگر فرانسیسی ادیبوں کے علاوہ ڈچ ادیب اے ایل سنجدرز کو بھی ترجمہ کیا ہے۔لڈیا ڈیوس کا پہلا عشق موسیقی سے تھا۔ اُن نے پیانو اور پھر وائلن بجانا سیکھا لیکن ادیب بننے کے بعد اُن کا کہنا ہے: ’’غالباً میں نے ہمیشہ ہی سے لکھاری بننے کے مقصد کو سامنے رکھا گو کہ یہ میری پہلی محبت نہیں ہے۔‘‘ اُنھوں نے ۱۹۷۴ء میں معروف امریکی افسانہ و ناول نگار ادیب پال آسٹر سے شادی کی جس سے اُن کے ہاں ایک بیٹا ڈینیئل آسٹر ہؤا۔ پال آسٹر سے طلاق کے بعد اُنھوں نے ایک آرٹسٹ ایلن کوٹ سے کی جس سے دُوسرا بیٹا تھیو کوٹ پیدا ہؤا۔ وہ یُونیورسٹی ایٹ البانی ، سنی (SUNNY) میں ’’تخلیقی ادب‘‘ کی پروفیسر ہیں اور ۲۰۱۲ء میں نیویارک یُونیورسٹی میں بطور رائٹر اِن ریذیڈینس کے فرائض بھی سرانجام دے چکی ہیں۔ لڈیا ڈیوس کے اب تک مختصر کہانیوں کے چھے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اُن کی ۲۰۰۸ء تک کی جملہ کہانیوں کی کلیات ’’لڈیا ڈیوِس کی کہانیوں کا مجموعہ‘‘ کے نام سے ۲۰۰۹ء میں اشاعت پذیر ہو چکا ہے۔ لڈیا ڈیوس بہت سے اعزازات حاصل کر چکی ہیں۔ جن میں دیگر انعامات کے علاوہ ۲۰۱۳ء میں اُنھوں نے ۶۰۰۰۰ پاؤنڈ مالیت کا مین بُکر پرائزبھی حاصل کیا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اِس انعامی مقابلے کی حتمی دوڑ میں پاکستان کے نام وَر ادیب جناب انتظار حسین بھی شامل تھے۔ لڈیا ڈیوس کی کہانیاں اپنے اختصار اور مزاح کی وجہ سے معروف ہیں۔ جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے کہ اُن کی بہت سی کہانیاں تو محض ایک یا دو جملوں پر مشتمل ہیں۔ اُن کی کچھ کہانیوں کو شاعری کہا جاتا ہے تو کچھ کو فلسفانہ شاعری اور مختصر ترین کہانیاں۔ اُنھیں ’’اپنی ہی ایجاد کردہ ہیئت کی ماہر‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ معاصر مصنفین میں سٹوارٹ ڈائی بیک اور ایلس فُلٹن کے علاوہ یہ اعزاز صرف لڈیا ڈیوِس ہی کو حاص ہے کہ اُن کی کہانیاں بہ یک وقت ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘ اور ’’بہترین امریکی شاعری‘‘ کے سالانہ انتخابوں میں شامل ہوتی ہیں۔ گویا اُن کی کہانیاں شعریت کا گہرا آہنگ لیے ہوئے ہیں۔ میں بُکر پرائز کی ویب سائٹ پر اُن کی تصانیف کو ’’مختصر ترین اور مناسب ترین شاعری‘‘ قرار دیا گیا ہے اور ججوں کے پینل کے سربراہ کرسٹوفر رِکس نے اُن کی تحریروں پر یُوں تبصرہ کیا ہے: ’’اُن کی کہانیوں میں چستی اور تخیلاتی دھیان ہے کہ وہ آخری لفظ تک اپنی دِلچسپی برقرار رکھتی ہیں اور قاری کے جذبات کو تحریک دیتی ہیں۔‘‘ لڈیا ڈیوِس کو نہایت وسیع پیمانے پر ’’معاصر امریکی ادب کے نہایت اصل دماغوں میں سے ایک‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

3 thoughts on “میری ایک دوست کی۰۰۰”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top
𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛