لِنھ ڈِنھ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
محمد عبداللہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
ویتنامی افسانچہ
کتابیں ساتھ لیے پھرنے والا آدمی
لِنھ ڈِنھ
Linh Dinh
تعارف و ترجمہ:محمد عبداللہ

سچ ہے کہ کتاب رکھنے والے شخص کو بغیر کسی ڈر کے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، چاہے وہ معاشرہ ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے میکونگ ڈیلٹا کے گاؤں فاٹ ڈٹ میں سائیکلوں کی مرمت کا کام کرنے والا اَن پڑھ پیئرے بوئی جہاں بھی جاتا اپنے ساتھ ایک کتاب ضرور رکھتا۔
اس کے فوراً ہی طلسماتی اثرات سامنے آئے: بھکاری اور طوائفیں اس کے سامنے ہچکچانے لگے، لٹیرے اسے لوٹنے کی ہمت نہ کرتے اور بچے اس کی موجودگی میں ہمیشہ چپ سادھے رہتے۔
شروع شروع میں پیئرے بوئی اپنے ساتھ ایک کتاب رکھتا تھا،لیکن پھر اسے محسوس ہوا کہ زیادہ کتابیں پاس رکھنے سے وہ مزید اچھا تاثر قائم کر سکے گا۔ پس وہ کہیں بھی آتے جاتے ہوئے بہ یک وقت اپنے ساتھ تین کتابیں رکھنے لگا۔ تیوہار کے دنوں میں جب گلیوں بازاروں میں ہجوم بڑھ جاتا تو پیئرے بوئی اپنے ساتھ درجن بھر کتابیں لیے گھومتا۔
اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کسی قسم کی کتابیں ہوتی تھیں— دوستوں کو کیسے جیتا اور لوگوں کو کیسے متاثر کیا جائے، ہمارے جسم، ہماری ذات، خوابوں میں جینا وغیرہم جیسی کتابیں— بس کتابیں ہونا چاہئیں تھی۔ لگتا تھا کہ پئیرے بوئی کو چھوٹی لکھائی والی موٹی کتابیں پسند تھیں۔ شاید اسے گمان تھا کہ ایسی کتابیں زیادہ عالمانہ ہوتی ہیں؟ اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کتب خانے میں دنیا بھر کی بے شمار عالمانہ و فاضلانہ کتب اور دنیا کے بڑے بڑے شہروں پر تحقیقی کتب موجود پائی جاتی تھیں۔
پئیرے بوئی کے لیے سائیکلوں کے ایک کاریگر کی معمولی سی تنخواہ میں اتنی کتابیں خریدنا آسان نہیں تھا۔ اسے کھانے کے علاوہ اپنے تمام اخراجات بچانا پڑتے تھے۔ کئی کئی روز تک وہ شکر کے ساتھ روٹی کے علاوہ کچھ نہیں کھاتا تھا۔ پئیرے بوئی نے کبھی اپنی کتب کی انمول جلدوں کو فروخت نہیں کیا تھا۔ گاؤں کے لوگوں سے ملنے والی عزت اس کے پیٹ کی مستقل گڑگڑاہٹ سے زیادہ اہم تھی۔
کو کتابوں پر یقین کرنے کا صلہ ۱۹۷۲ء کی جنگ کے دوران میں ملا جب جنگ کے دوران ایک شدید جھڑپ میں اس کی گھاس والی جھونپڑی کے سوا، جہاں پئیرے بوئی دس ہزار کتابوں میں چاروں اطراف سے گھرا ہوا اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے لرز رہا تھا، اس کے گاؤں تمام گھروں کو آگ لگا دی گئی۔
:::
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
لِنھ ڈِنھ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
محمد عبداللہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
ویتنامی افسانچہ
کتابیں ساتھ لیے پھرنے والا آدمی
لِنھ ڈِنھ
Linh Dinh
تعارف و ترجمہ:محمد عبداللہ
سچ ہے کہ کتاب رکھنے والے شخص کو بغیر کسی ڈر کے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، چاہے وہ معاشرہ ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے میکونگ ڈیلٹا کے گاؤں فاٹ ڈٹ میں سائیکلوں کی مرمت کا کام کرنے والا اَن پڑھ پیئرے بوئی جہاں بھی جاتا اپنے ساتھ ایک کتاب ضرور رکھتا۔
اس کے فوراً ہی طلسماتی اثرات سامنے آئے: بھکاری اور طوائفیں اس کے سامنے ہچکچانے لگے، لٹیرے اسے لوٹنے کی ہمت نہ کرتے اور بچے اس کی موجودگی میں ہمیشہ چپ سادھے رہتے۔
شروع شروع میں پیئرے بوئی اپنے ساتھ ایک کتاب رکھتا تھا،لیکن پھر اسے محسوس ہوا کہ زیادہ کتابیں پاس رکھنے سے وہ مزید اچھا تاثر قائم کر سکے گا۔ پس وہ کہیں بھی آتے جاتے ہوئے بہ یک وقت اپنے ساتھ تین کتابیں رکھنے لگا۔ تیوہار کے دنوں میں جب گلیوں بازاروں میں ہجوم بڑھ جاتا تو پیئرے بوئی اپنے ساتھ درجن بھر کتابیں لیے گھومتا۔
اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کسی قسم کی کتابیں ہوتی تھیں— دوستوں کو کیسے جیتا اور لوگوں کو کیسے متاثر کیا جائے، ہمارے جسم، ہماری ذات، خوابوں میں جینا وغیرہم جیسی کتابیں— بس کتابیں ہونا چاہئیں تھی۔ لگتا تھا کہ پئیرے بوئی کو چھوٹی لکھائی والی موٹی کتابیں پسند تھیں۔ شاید اسے گمان تھا کہ ایسی کتابیں زیادہ عالمانہ ہوتی ہیں؟ اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کتب خانے میں دنیا بھر کی بے شمار عالمانہ و فاضلانہ کتب اور دنیا کے بڑے بڑے شہروں پر تحقیقی کتب موجود پائی جاتی تھیں۔
پئیرے بوئی کے لیے سائیکلوں کے ایک کاریگر کی معمولی سی تنخواہ میں اتنی کتابیں خریدنا آسان نہیں تھا۔ اسے کھانے کے علاوہ اپنے تمام اخراجات بچانا پڑتے تھے۔ کئی کئی روز تک وہ شکر کے ساتھ روٹی کے علاوہ کچھ نہیں کھاتا تھا۔ پئیرے بوئی نے کبھی اپنی کتب کی انمول جلدوں کو فروخت نہیں کیا تھا۔ گاؤں کے لوگوں سے ملنے والی عزت اس کے پیٹ کی مستقل گڑگڑاہٹ سے زیادہ اہم تھی۔
کو کتابوں پر یقین کرنے کا صلہ ۱۹۷۲ء کی جنگ کے دوران میں ملا جب جنگ کے دوران ایک شدید جھڑپ میں اس کی گھاس والی جھونپڑی کے سوا، جہاں پئیرے بوئی دس ہزار کتابوں میں چاروں اطراف سے گھرا ہوا اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے لرز رہا تھا، اس کے گاؤں تمام گھروں کو آگ لگا دی گئی۔
:::
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
Authors
-
لِنھ ڈِنھ ۱۹۶۳ء میں ویتنام میں پیدا ہوئے۔ وہ ویتنامی اور امریکی شہریت رکھتے تھے۔وہ شاعر افسانہ نگار مترجم اور فوٹوگرافر تھے۔وہ ۱۹۷۵ء میں امریکہ منتقل ہوئے اور ان کا قیام زیادہ تر فلا ڈیلفیا ریاست میں رہا ہے۔ ۲۰۱۸ء کے بعد جنوب مشرقی ایشیا میں وقت گزارا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یورپ اور افریقہ میں بھی رہائش پذیر رہے۔ ۲۰۰۵ء میں وہ نارویج انگلینڈ یونیورسٹی آف ایسٹ میں ڈیوڈ کے ہمراہ بھی قیام پذیر رہے۔ ۲۰۰۲۔۲۰۰۳ میں وہ اٹلی میں بین الاقوامی پارلیمنٹ آف رائٹرز اور سرٹالڈو قصبے میں بطور مہمان رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں وزٹنگ فیکلٹی ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ لِنھ ڈِنھ نے کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں لکھیں جو ’’فیک ہاؤس اور ’’بلڈ اینڈ سوپ‘‘کے نام سے منصۂ شہود پر آئیں۔اس کے علاوہ انھوں نے نظموں کی پانچ کتابیں بھی شائع کروائی ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’محبت جیسی نفرت‘‘ ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا جس نے قومی ایوارڈ ’’بالکنز فکشن‘‘ اپنے نام کیا۔ ان کی کتب کے دیگر زبانوں میں بھی تراجم ہو چکے ہیں۔ زیر نظر مختصر ترین کہانی ان کے افسانوی مجموعے ’’بلڈ اینڈ سوپ‘‘ سے لی گئی ہے۔
View all posts -
محمد عبداللہ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۲ء میں محمد رمضان تبسّم کے ہاں چک ۲۴ کلاں، تحصیل صفدر آباد، ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ چند سال وہاں گزارنے کے بعد وہ اپنے آبائی گاؤں ۳۴۶ ڈبلیو۔بی، تحصیل دنیاپور، ضلع لودھراں میں آ گئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کی،انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ گریجویٹ کالج دنیاپور سے کرنے کے بعد آج کل اسی کالج میں بی۔ایس اردو ڈیپارٹمنٹ کے متعلم ہیں۔ انھیں اپنے بچپن ہی سے اردو شاعری اور افسانوی ادب میں بہت دلچسپی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شوق بڑھتا رہا اور خود بھی لکھنے کی کوششیں کی ۔ اب اپنے استادذ اور معرورف مترجم ریحان اسلام کو، جن کی تراجم کی اب تک دو کتب منصۂ شہود پر آ چکی ہیں، دیکھتے ہوئے محمد عبداللہ میں بھی ترجمہ کرنے کےشوق نے جنم لیا۔ اس میں ریحان اسلام اُن کی کافی مدد کر رہے ہیں اور انھیں مزید تراجم کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔یہ ان کا پہلا ترجمہ ہے اور خاصی لگن اور محنت سے کِیا گیا ہے۔
View all posts
1 thought on “کتابیں ساتھ لیے پھرنے والا آدمی”
Good work