جرمن افسانچہ
خادمہ
رابرٹ والزر
(Robert Walser)
تعارف و ترجمہ: نجم الدّین احمد
ایک دولت مند خاتون کے پاس ایک خادمہ تھی۔ اُس خادمہ کے ذمے اُس کی بچّی کی نگہداشت تھی۔ بچّی چاند کی کرن کی طرح نرم و نازک، تازہ تازہ گری ہوئی برف کے مانند خالص اور سورج جیسی پیاری تھی۔ خادمہ بچّی سے اُتنا ہی پیار کرتی تھی جتنا وہ چاند، سورج اور اپنے خدا سے کرتی تھی۔ لیکن ایک روز بچّی کہیں کھو گئی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیسے۔ خادمہ اُس کی تلاش میں نکلی اُس نے اُسے دنیا میں ہر جگہ ڈھونڈا، ہر شہرہر ملک میں تلاش کِیا۔ حتّٰی کہ وہ فارس پہنچ گئی۔ خادمہ ایک رات پرشیا میں ایک بڑے سیاہ دریار کے کنارے کھڑے ایک بڑے سیاہ ٹاور کے پاس پہنچی۔ ٹاور کے اوپر بہت بلندی پر ایک سرخ روشنی تھی۔ پُرعقیدہ خادمہ نے اُس روشنی سے پوچھا: ’’کیا تم بتا سکتی ہو کہ میری بچّی کہاں ہے؟ وہ دس سال پہلے گم ہو گئی تھی اور مَیں اُسے تلاش کرتی پھر رہی ہوں۔‘‘ ’’اگلے دس برس اَور اُسے ڈھونڈتی رہو۔‘‘ روشنی نے جواب دیا اور غائب ہو گئی۔ لہٰذا خادمہ دس برس اَور بچّی کو روئے ارض کے تمام حصوں اور راستوں پر ڈھونڈتی پھری۔ حتّٰی کہ وہ فرانس جا نکلی۔ فرانس میں ایک عظیم اور پُرشکوہ شہر ہے، جس کا نام پیرس ہے۔ وہ اُس شہر میں پہنچ گئی۔ ایک شام وہ ایک خوبصورت باغ کی داخلہ گاہ پر کھڑی اپنی بچّی کے نہ ملنے پر رو رہی تھی۔ اُس نے اپنی آنکھیں پونچھنے کے لیے سرخ رومال نکالا کہ اُسی وقت اچانک باغ کا دروازہ کھلا اور اُس میں سے اُس کی بچّی باہر آئی۔ اُس نے اُسے دیکھا اور خوشی سے مر گئی۔ وہ کیوں مری؟ کیا اُسے اِس کا کوئی فائدہ ہوا؟ چوں کہ وہ اب بہت بوڑھی ہو گئی تھی اور اِتنی زیادہ خوشی برداشت نہیں کر پائی۔ بچّی اب جوان اور خوبصورت خاتون بن چکی ہے۔ اگر آپ کی اُس سے ملاقات ہو تو میرا سلام کہیے گا۔
:::
جرمن افسانچہ
خادمہ
رابرٹ والزر
(Robert Walser)
تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد
ایک دولت مند خاتون کے پاس ایک خادمہ تھی۔ اُس خادمہ کے ذمے اُس کی بچّی کی نگہداشت تھی۔ بچّی چاند کی کرن کی طرح نرم و نازک، تازہ تازہ گری ہوئی برف کے مانند خالص اور سورج جیسی پیاری تھی۔ خادمہ بچّی سے اُتنا ہی پیار کرتی تھی جتنا وہ چاند، سورج اور اپنے خدا سے کرتی تھی۔ لیکن ایک روز بچّی کہیں کھو گئی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیسے۔ خادمہ اُس کی تلاش میں نکلی اُس نے اُسے دنیا میں ہر جگہ ڈھونڈا، ہر شہرہر ملک میں تلاش کِیا۔ حتّٰی کہ وہ فارس پہنچ گئی۔ خادمہ ایک رات پرشیا میں ایک بڑے سیاہ دریار کے کنارے کھڑے ایک بڑے سیاہ ٹاور کے پاس پہنچی۔ ٹاور کے اوپر بہت بلندی پر ایک سرخ روشنی تھی۔ پُرعقیدہ خادمہ نے اُس روشنی سے پوچھا: ’’کیا تم بتا سکتی ہو کہ میری بچّی کہاں ہے؟ وہ دس سال پہلے گم ہو گئی تھی اور مَیں اُسے تلاش کرتی پھر رہی ہوں۔‘‘ ’’اگلے دس برس اَور اُسے ڈھونڈتی رہو۔‘‘ روشنی نے جواب دیا اور غائب ہو گئی۔ لہٰذا خادمہ دس برس اَور بچّی کو روئے ارض کے تمام حصوں اور راستوں پر ڈھونڈتی پھری۔ حتّٰی کہ وہ فرانس جا نکلی۔ فرانس میں ایک عظیم اور پُرشکوہ شہر ہے، جس کا نام پیرس ہے۔ وہ اُس شہر میں پہنچ گئی۔ ایک شام وہ ایک خوبصورت باغ کی داخلہ گاہ پر کھڑی اپنی بچّی کے نہ ملنے پر رو رہی تھی۔ اُس نے اپنی آنکھیں پونچھنے کے لیے سرخ رومال نکالا کہ اُسی وقت اچانک باغ کا دروازہ کھلا اور اُس میں سے اُس کی بچّی باہر آئی۔ اُس نے اُسے دیکھا اور خوشی سے مر گئی۔ وہ کیوں مری؟ کیا اُسے اِس کا کوئی فائدہ ہوا؟ چوں کہ وہ اب بہت بوڑھی ہو گئی تھی اور اِتنی زیادہ خوشی برداشت نہیں کر پائی۔ بچّی اب جوان اور خوبصورت خاتون بن چکی ہے۔ اگر آپ کی اُس سے ملاقات ہو تو میرا سلام کہیے گا۔
:::
Authors
-
رابرٹ والزر کو کلیسٹ اور کافکا کے درمیان گم شدہ کڑی سمجھا جاتا ہے۔ جرمن زبان کے مصنف رابرٹ والزر درحقیقت سوِس تھے۔ وہ اپریل ۱۵، ۱۸۷۸ء کو پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال دسمبر ۲۵، ۱۹۵۶ء کو ہوا۔ والزر نے بے شمار تصانیف کیں جن میں ناول اور افسانے دونوں شامل تھے۔ والزر نے ساری زندگی کسمپرسی کی حالت میں گزاری کیوں کہ ادب سے اُنھیں اِتنی آمدن نہیں ہوتی تھی کہ مناسب گذربسر کر سکتے، پیٹ پالنے کے لیے اُنھیں بٹلر جیسے کم تر کام بھی کرنا پڑا۔ گو والزر ایک عظیم لکھاری تھے لیکن اُنھیں ادبی لحاظ سے بہت کم کامیابی نصیب ہوئی اور اُن کی شہرت کا چاند بہت جلد گہنا گیا۔ بیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں کے دوران میں وہ ادبی گم نامی کا شکار ہوئے اور ادب کی ناکافی آمدن نے اُنھیں زندہ درگوری کی حالت کو پہنچا دیا۔یہاں تک کہ وہ ذہنی صدمے کا شکار ہو کر سینی ٹوریم پہنچ گئے۔ بیسویں صدی کے آخری سال، ۲۰۰۰ء کے آغاز میں اُن کا کام دوبارہ ابھر کر سامنے آیا اور اُن کی دریافتِ نو ہوئی۔ اُن کا ایک قلمی نسخہ، انتہائی باریک لکھائی میں، دستیاب ہوا جو خفیہ لکھائی میں تحریر تھا۔ اُس خفیہ لکھائی کو ڈی کوڈ کر کے پڑھا گیا اور اُس کا ترجمہ ’’مائیکرو سکرپشن‘‘ کے عنوان سے شائع کِیا گیا۔ والزر کی تمام کتب کو بھی دوبارہ اشاعت پذیر کِیا گیا۔ والزر کی مختصر ترین کہانیوں سے اِس نتیجے پر پہنچنا دشوار نہیں کہ جس صنف کو آج مائیکرو یا فلیش فکشن (افسانچے) کا نام دیا جا رہا ہےوہ نئی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے ادب میں شامل رہی ہے۔
View all posts -
نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔
View all posts
تراجم عالمی ادب
5 thoughts on “خادمہ”
بہت عمدہ
خوبصورت اور جاندار ترجمہ
بہت خوب
Bohat acha afsanchaa
بہت خوب