کیٹ چوپن کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
محمد عبداللہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
امریکی افسانچہ
آزادی: زندگی کی کہانی
کیٹ چوپن
(Kate Chopin)
تعارف و ترجمہ:محمد عبداللہ

ایک بار اس دنیا میں ایک جانور پیدا ہوا۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اپنے اوپر اور اردگرد دیواریں دیکھیں۔ اُس کے سامنے لوہے کی سلاخیں تھیں جن سے ہوا اور روشنی آتی تھی۔ کیونکہ یہ جانور پنجرے میں پیدا ہوا تھا۔
وہ ایک پوشیدہ ہاتھ میں پلا بڑھا تھا۔ وہ طاقت اور خوبصورتی میں بڑھتا رہا۔ جب بھوک لگتی کھانا مل جاتا۔ جب پیاس محسوس ہوتی تو پانی لایا جاتا اور آرام کی ضرورت محسوس ہوتی تو اسےگھاس پھوس کا بنا بستر دیا جاتا جس پہ وہ لیٹتا تھا۔ اسے اپنے خوبصورت پیر چاٹنا اور سورج کی کرنوں میں ٹہلنا اچھا لگتا تھا۔ وہ پرجوش ہوکر سوچتا تھا کہ یہ سورج صرف اسی کے گھر کو روشن کرنے کے لیے ہے۔
ایک دن وہ اپنی ناختم ہونے والی نیند سے اٹھا تو اس نے دیکھا کے پنجرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا: جو کہ ایک غلطی سے کھل گیا تھا۔ حیرت اور خوف سے وہ ایک کونے میں دبک کے بیٹھ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ دروازے کے پاس گیا۔وہ اس خلاف معمول خطرے سے ڈر گیا اور اسے بند کر دیتا لیکن اس کے اعضا اس کام کے لیے بے کار تھے۔ چنانچہ اس نے اپنے سر کو باہر نکالا تاکہ وہ آسمان کو پھیلتے اور مزید وسیع ہوتا دیکھے۔
وہ اپنے ٹھیے پر واپس آیا لیکن آرام کرنے کی غرض سے نہیں،اس پر نامعلوم سحر چھا گیا۔ وہ بار بار کھلے ہوئے دروازے کے پاس جاتا،ہر بار اسے زیادہ روشنی دکھائی دیتی۔
اس کے بعد وہ ایک بار پھر روشنی کی بارش میں کھڑا ہوا؛ اس نے ایک گہری سانس لی، اس کے اعضا جیسے جکڑے گئے اور وہ ایسے ہی چلتا گیا۔
وہ دیوانہ وار دوڑتا رہا، اس بات سے غافل کہ وہ اپنے آپ کو زخمی کر رہا ہے اور اس کے بال جھڑ رہے ہیں۔وہ ہر چیز کو دیکھ اور چھو رہا تھا اور سونگھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے ہونٹوں کو زہریلے تالاب میں یہ سوچ کر ڈال دیا کہ وہ میٹھا ہوگا۔
وہ بھوکا تھا لیکن اسے کھانا تلاش کرنا تھا کیونکہ اس کے لیے اکثر جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ پانی تک پہنچتا اس کا جسم بھاری ہورہا تھا۔اس کا حلق خشک ہوچکا تھا لیکن یہ اس کے لیے اچھا تھا۔
اسی طرح وہ جستجو، خوشی اور تکلیف میں زندہ رہا۔ جو دروازہ کھلا تھا اب بھی کھلا ہے لیکن اب پنجرہ ہمیشہ کے لیے خالی ہے۔
:::
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
کیٹ چوپن کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
محمد عبداللہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
امریکی افسانچہ
آزادی: زندگی کی کہانی
کیٹ چوپن
(Kate Chopin)
تعارف و ترجمہ:محمد عبداللہ

ایک بار اس دنیا میں ایک جانور پیدا ہوا۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اپنے اوپر اور اردگرد دیواریں دیکھیں۔ اُس کے سامنے لوہے کی سلاخیں تھیں جن سے ہوا اور روشنی آتی تھی۔ کیونکہ یہ جانور پنجرے میں پیدا ہوا تھا۔
وہ ایک پوشیدہ ہاتھ میں پلا بڑھا تھا۔ وہ طاقت اور خوبصورتی میں بڑھتا رہا۔ جب بھوک لگتی کھانا مل جاتا۔ جب پیاس محسوس ہوتی تو پانی لایا جاتا اور آرام کی ضرورت محسوس ہوتی تو اسےگھاس پھوس کا بنا بستر دیا جاتا جس پہ وہ لیٹتا تھا۔ اسے اپنے خوبصورت پیر چاٹنا اور سورج کی کرنوں میں ٹہلنا اچھا لگتا تھا۔ وہ پرجوش ہوکر سوچتا تھا کہ یہ سورج صرف اسی کے گھر کو روشن کرنے کے لیے ہے۔
ایک دن وہ اپنی ناختم ہونے والی نیند سے اٹھا تو اس نے دیکھا کے پنجرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا: جو کہ ایک غلطی سے کھل گیا تھا۔ حیرت اور خوف سے وہ ایک کونے میں دبک کے بیٹھ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ دروازے کے پاس گیا۔وہ اس خلاف معمول خطرے سے ڈر گیا اور اسے بند کر دیتا لیکن اس کے اعضا اس کام کے لیے بے کار تھے۔ چنانچہ اس نے اپنے سر کو باہر نکالا تاکہ وہ آسمان کو پھیلتے اور مزید وسیع ہوتا دیکھے۔
وہ اپنے ٹھیے پر واپس آیا لیکن آرام کرنے کی غرض سے نہیں،اس پر نامعلوم سحر چھا گیا۔ وہ بار بار کھلے ہوئے دروازے کے پاس جاتا،ہر بار اسے زیادہ روشنی دکھائی دیتی۔
اس کے بعد وہ ایک بار پھر روشنی کی بارش میں کھڑا ہوا؛ اس نے ایک گہری سانس لی، اس کے اعضا جیسے جکڑے گئے اور وہ ایسے ہی چلتا گیا۔
وہ دیوانہ وار دوڑتا رہا، اس بات سے غافل کہ وہ اپنے آپ کو زخمی کر رہا ہے اور اس کے بال جھڑ رہے ہیں۔وہ ہر چیز کو دیکھ اور چھو رہا تھا اور سونگھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے ہونٹوں کو زہریلے تالاب میں یہ سوچ کر ڈال دیا کہ وہ میٹھا ہوگا۔
وہ بھوکا تھا لیکن اسے کھانا تلاش کرنا تھا کیونکہ اس کے لیے اکثر جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ پانی تک پہنچتا اس کا جسم بھاری ہورہا تھا۔اس کا حلق خشک ہوچکا تھا لیکن یہ اس کے لیے اچھا تھا۔
اسی طرح وہ جستجو، خوشی اور تکلیف میں زندہ رہا۔ جو دروازہ کھلا تھا اب بھی کھلا ہے لیکن اب پنجرہ ہمیشہ کے لیے خالی ہے۔
:::
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
Authors
-
کیٹ چوپن ایک مشہور امریکی مصنفہ تھیں، کیٹ چوپن ۸ فروری ۱۸۵۰ء کو سینٹ لوئس، میسوری میں تھامس او فلہارٹی اور ایلیزا فارس کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک آئرش مہاجر تھے اور ان کی والدہ فرانس کی ایک عظیم خاتون جن کا تعلق کریول خاندان سے تھا۔ ۱۸۷۰ء میں کیٹ چوپن کی شادی وسکر چوپن سے ہوئی جو کیرولا میں کپاس کے تاجر تھے۔ اس کے بعد وہ لوئیسیانا منتقل ہوگئے جہاں ان کے چھ بچے پیدا ہوئے۔ اوسکر کی وفات ۱۸۸۲ء میں ہوئی اور کیٹ چوپن صرف ۳۲ سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں۔کیٹ چوپین کو ان کی منفرد تحریروں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے خاص طور پر ان کے ناول ’’کہانی گھنٹہ بھر کی‘‘ (دی سٹوری آف این آر) اور ’’جگراتا‘‘ (دی ایویکننگ )کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کی تحریریں عموماً نسوانی تجربات، خود شناسی، اور سماجی روایات کے خلاف بغاوت کے موضوعات پر مرکوز ہوتی ہیں۔ کیٹ چوپن کی زندگی میں بھی کئی چیلنجز تھے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ ان کی تحریروں کو ان کے زمانے میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی، لیکن آج ان کی تحریریں ادبی دنیا میں بہت اہم سمجھیں جاتی ہیں۔ ان کی خاصیت یہ تھی کہ وہ اپنے کرداروں کے جذبات اور داخلی کشمکش کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتی تھیں۔
View all posts -
محمد عبداللہ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۲ء میں محمد رمضان تبسّم کے ہاں چک ۲۴ کلاں، تحصیل صفدر آباد، ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ چند سال وہاں گزارنے کے بعد وہ اپنے آبائی گاؤں ۳۴۶ ڈبلیو۔بی، تحصیل دنیاپور، ضلع لودھراں میں آ گئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کی،انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ گریجویٹ کالج دنیاپور سے کرنے کے بعد آج کل اسی کالج میں بی۔ایس اردو ڈیپارٹمنٹ کے متعلم ہیں۔ انھیں اپنے بچپن ہی سے اردو شاعری اور افسانوی ادب میں بہت دلچسپی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شوق بڑھتا رہا اور خود بھی لکھنے کی کوششیں کی ۔ اب اپنے استادذ اور معرورف مترجم ریحان اسلام کو، جن کی تراجم کی اب تک دو کتب منصۂ شہود پر آ چکی ہیں، دیکھتے ہوئے محمد عبداللہ میں بھی ترجمہ کرنے کےشوق نے جنم لیا۔ اس میں ریحان اسلام اُن کی کافی مدد کر رہے ہیں اور انھیں مزید تراجم کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔یہ ان کا پہلا ترجمہ ہے اور خاصی لگن اور محنت سے کِیا گیا ہے۔
View all posts
4 thoughts on “آزادی: زندگی کی کہانی”
Congratulations My Dear !
بہت خُوب
Good work
Congratulations My younger brother May Allah give you More success 💝