تراجم عالمی ادب

رُوسی کہانی

نتاشا

ولادی مِیر نابو کوف

(Vladimir Nabokov)

 

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

۱  )

سیڑھیوں پر ہال کی دُوسری طرف نتاشا کا سامنا اپنے پڑوسی بارن وُولف سے ہُوا۔ وہ لکڑی کے ننگے تختوں پر بہ مشقّت اُوپر چڑھتے ہُوئے کٹہرے پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہُوئے اپنے مُنھ سے نرم آواز میں سِیٹی بجا رہا تھا۔

’’نتاشا، تم اتنی تیزی سے کہاں جا رہی ہو؟‘‘

’’دواؤں کی دُکان پر دوا لینے۔ ابھی ڈاکٹر آیا تھا۔ والد صاحب اب بہتر ہیں۔‘‘

’’آہا، یہ تو اچھی خبر ہے۔‘‘

وہ ننگے سر اپنے سرسراتے ہُوئے کوٹ میں اُس کے پاس سے برق رفتاری سے گذر گئی۔

کٹہرے پر جھک کر وُولف نے اُس کی پشت دیکھی۔ ایک لمحے کے لیے اُس کی نظریں اُس کے زنانہ نرم و ملایم بالوں سے بھرے سر پر ٹِک گئی۔ سِیٹی بجاتے بجاتے وہ آخری منزل پرپہنچا۔ اُس نے بارش سے بھِیگا ہُوا بریف کیس بستر پر پھینکا۔ پھر اُس نے اچھی طرح اطمینان سے اپنے ہاتھ دھو کر خشک کیے۔

پھر اُس نے بوڑھے خرنوف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

خرنوف ہال کی دوسری سمت کے کمرے میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ ایک کاؤچ پر سویا ہُوا تھا۔ کاؤچ حیرت انگیز قِسم کے سپرنگوں سے بنا ہُوا تھا جنھیں ڈِھیلے ڈھالے ریشمی کپڑے میں بڑی بڑی  گھاس کی مانند گھُمایا اور موٹا کیا گیا تھا۔ وہاں ایک غیر رنگ شُدہ میز بھی تھی جسے روشنائی کے دھبوں سے بھرے اخبارات سے ڈھانپا گیا تھا۔ شب باشی کا کُرتا پہنے بیمار بُوڑھے خرنوف نے قدموں کی چاپ سُنی تو ہڈیاں کڑکڑاتا ہُوا بستر میں سمٹ کر چادر اوڑھ لی۔ اُسی وقت وولف کا بڑا سا مُنڈھا ہُوا سر دروازے سے اندر داخل ہُوا۔

’’آؤ، تمھیں دیکھ کر خوشی ہُوئی۔ آجاؤ۔‘‘

بُوڑھا بمشکل سانس لے رہا تھا۔ اُس کی میز کا دراز آدھا کھُلا ہُوا تھا۔

’’الیکسی اِیوانِک (Alexey Ivanych)، میں نے سُنا ہے کہ آپ تقریباً ٹھیک ہو گئے ہیں۔‘‘ بارن وُولف بستر کے سِرے پر بیٹھ کر اپنے گھُٹنے تھپتھپاتے ہُوئے بولا۔

’’خرنوف نے اپنا زرد استخوانی ہاتھ آگے بڑھایا اور نفی میں سر ہلایا۔ ’’ میں یہ تو نہیں جانتا کہ تم کیا سُن رہے ہو البتہ یہ یقیناً جانتا ہوں کہ میں کل مر جاؤں گا۔‘‘ اُس نے اپنے مُنھ سے سوڈا بوتل کے کھُلنے جیسی تیکھی آواز نکالی۔

’’احمقانہ بات ہے۔‘‘ وُولف نے شوخی سے قطع کلامی کی۔ اُس نے کُولہے کی جیب سے ایک بڑا سا چاندی کا سِگار کیس نکالا۔ ’’ اگر آپ کو ناگوار نہ گُزرے تو میں تمباکو نوشی کر لوں۔‘‘

وہ کافی دیر اپنے لائٹر کو بِلامقصد ہِلاتا اور اُس کی گراری چٹخاتا رہا۔ خرنوف اپنی آنکھیں اَدھ کھلی رکھے ہُوئے تھا۔ اُس کی پلکیں مینڈک کے پیروں کی جھِلّی کی طرح ہو رہی تھیں۔ بھُورے سخت بالوں نے اُ س کی باہر نکلی ہُوئی آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ آنکھیں وَا کیے بغیر وہ بولا: ’’یہی ہو گا۔ اُنھوں نے میرے دو بیٹوں کو قتل کر دیا اور مجھے اور نتاشا کو ہمارے آبائی گھر سے نکال دیا۔ اب ہمیں ایک اجنبی شہر میں جینا مرنا ہے۔ …… اِن سب کے بارے میں سوچنا کیسی حماقت تھی۔

وُولف نے اُونچی آواز میں بہ صراحت بولنا شروع کیا۔ اُس نے خرنوف کو بتایا کہ خُدا کی مہربانی سے ابھی اُس نے طویل عرصے تک جینا ہے اور یہ کہ ہر شخص موسمِ بہار میں بگلوں کے ہمراہ واپس رُوس جائے گا۔ پھر اُس نے اپنے ماضی کا ایک قِصّہ سُنایا۔

’’یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میں کانگو میں مارا مارا پھِر رہا تھا۔‘‘ وہ بول رہا تھا تو اُس کی بڑی فربہ اُنگلی ہَولے ہَولے ہِل رہی تھی۔ ’’اف، دُور دراز واقع کانگو، پیارے الیکسی اِیوانِک، بہت دُور کے جنگلات… آپ جانتے ہیں… ذرا تصوّر کریں جنگل میں گھِرے ایک گاؤں کا جہاں ہِلتے ہُوئے سِینوں والی عورتیں اور جھونپڑیوں کے درمیان تارکول جیسا چمکتا ہُوا سیاہ پانی تھا۔ وہاں ایک لحیم شحیم درخت کے نیچے… کِروکُو (kiroku) درخت… ربڑ کی گیندوں جیسے سنگترے گِرتے تھے اور رَات کو اُس کے تنے میں سے آواز آتی تھی جو سمندر جیسی تھی۔ میری مقامی سردار سے لمبی چوڑی گفتگو ہُوئی تھی۔ ہمارا مترجم ایک بیلجیئن انجینئر تھا جو خود بھی متجسس تھا۔ اُس نے قسم کھا کر بتایا کہ ۱۸۹۵ء میں اُس نے اکیتو سار (چھپکلی نُما آبی ڈائنو سار۔ مترجم) دلدل میں دیکھا تھا جو تانگا نِیکا سے زیادہ دُور نہیں ہے۔ سردار نے خود کو کوبالٹ میں لتھیڑا اَور انگوٹھیوں، کڑوں اور ناک کان کے چھَلّوں سے اپنے آپ کو سجایا ہُوا تھا۔ وہ بہت موٹا اور اُس کا پیٹ جیلی کی طرح تھا۔ لو، اب بتاتا ہوں کہ کیا ہُوا تھا…‘‘ وُولف اپنی کہانی سے خود لطف اندوز ہوتے ہُوئے مُسکرا رہا تھا۔ اُس نے اپنے ہلکے نِیلے سر پر چپت لگائی۔

’’نتاشا لوٹ آئی ہے۔‘‘ خرنوف نے پلکیں اُٹھائے بغیر تیزی اور سختی سے قطع کلامی کی۔ تیزی سے سُرخ پڑتے ہُوئے وُولف نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک لمحے بعد دُور سے دروازے کا تالا چھنکا۔ پھر ہال میں قدموں کی سرسراہٹ سُنائی دی۔ سُرخ آنکھیں لیے نتاشا جلدی سے اندر داخل ہُوئی۔

’’ڈیڈی، آپ کیسے ہیں؟‘‘

وُولف اُٹھا اور بناوٹی بے پروائی سے بولا: ’’تمھارے والد اب بالکل ٹھیک ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ اب بھی بستر پر کیوں پڑے ہُوئے ہیں— مَیں اِنھیں ایک افریقی جادوگر کے بارے میں بتا رہا تھا۔‘‘ نتاشا اپنے والد کی طرف دیکھ کر مُسکرائی اور لفافے میں سے دَوا نکالنے لگی۔

’’بارش ہو رہی ہے۔‘‘ اُس نے دِھیمے سے کہا۔ ’’موسم خطرناک ہے۔‘‘

جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جب موسم کا ذکر چھِڑتا ہے تو سبھی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتے ہیں۔ اِس ذکر نے خرنوف کی گردن پر ایک بھُوری نِیلی نس کو اُبھار دیا تھا۔ اُس نے اپنا سر دوبارہ تکیے پر رکھ لیا۔ نتاشا نے قطرے شمار کیے تو اُس کی پلکوں کے بال ٹھیرے رہے۔ اُس کے نرم گہرے رنگ کے بالوں میں بارش کے قطرے جڑے ہُوئے تھے۔ اُس کی آنکھوں تلے پیارے پیارے نِیلے حلقے تھے۔

۲  )

اپنے کمرے میں لوٹ کر وُولف دیر تک گھبرائی ہُوئی پُرمسرت مُسکراہٹ لیے چہل قدمی کرتا رہا۔ کبھی وہ خود کو بُری طرح بازو کُرسی میں گراتا تو کبھی بستر کے کنارے پر بیٹھ جاتا۔ پھر اُس نے کسی وجہ سے کھڑکی کھولی اور گھُور اندھیرے میں نیچے قُلقُل کرتے صحن میں دیکھنے لگا۔ بالآخر اُس نے اپنا ایک کندھا جھٹکے سے اُچکایا، اپنا ہَیٹ سر پر لیا اور باہر نکل گیا۔

بُوڑھا خرنوف کاؤچ پر گِرے ہُوئے انداز میں بیٹھا تھا۔ نتاشانے، جو شب باشی کے لیے اُس کا بستر سیدھا کر رہی تھی، لاپروایانہ انداز میں کہا: ’’وُولف رات کے کھانے کے لیے باہر چلا گیا ہے۔‘‘

تب اُس نے آہ بھری اور کمبل کو اپنے گِرد مضبوطی سے لپیٹ لیا۔

’’تیار ہے۔‘‘ نتاشا بولی۔ ’’ڈیڈی، بستر پر آجائیں۔‘‘

چاروں سمت بھیگی ہُوئی رات والا شہر تھا۔ اندھیری گلیوں میں مُوسلا دَھار بارش کی بوچھاڑیں اور چھتریوں کے چمکتے ہُوئے چھوٹے چھوٹے گُنبد تھے۔ دُکانوں کے چمکیلے شیشے تارکول پر پانی ٹپکا رہے تھے۔ رات نے بارش میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ صحنوں کے گڑھے بھر گئے تھے۔ پُرہجوم چوراہوں پر دِھیرے قدموں چلتی ہُوئی پتلی پتلی ٹانگوں والی طوائفوں کی آنکھوں میں پانی کے انعکاس چمک رہے تھے۔ گھُومتے ہُوئے روشن چکّر کی طرح کہیں کسی اشتہار کی چکّردار رَوشنیاں وقفے وقفے سے جل بجھ رہی تھیں۔

رات گہری ہونے پر خرنوف کے بدن کا درجہ حرارت بڑھ گیا۔ حرارت پیما گرم اور زندہ ہو گیا… پارہ سُرخ نلی میں اُوپر چڑھ گیا۔ دیر تک وہ بُڑبُڑاتے ہُوئے ہذیان بکتا، اپنے ہونٹ کاٹتا اور سر جھٹکتا رہا۔ پھر وہ سو گیا۔ نتاشا نے شمع کی مدہم پِیلی روشنی میں اپنا لباس اُتارا اَور کھڑکی کے سیاہ شیشے میں اپنا عکس دیکھا—  پِیلی پتلی گردن، گُندھے ہُوئے گہرے رنگ کے بال جو اُس کی ہنسلی پر گِرے ہُوئے تھے۔ وہ کمزوری سے اِسی طرح ساکت کھڑی رہی۔ اچانک اُسے محسوس ہُوا جیسے کاؤچ، سگریٹ کے بِکھرے ہُوئے ٹکڑوں سے بھری میز، بستر جس پر کھُلے مُنہ، تیکھے ناک والا پسینے میں ڈوبا ہُوا بُوڑھا بے چینی کی نیند سو رہا تھا… اِن تمام چیزوں نے حرکت کرنا شروع کر دی ہو اور اب وہ سیاہ رات میں بحری جہاز کے عرشے کی طرح تیر رہی تھیں۔ اُس نے گہری سانس لی اور اپنا ایک ہاتھ اپنے گرم عریاں کندھے پر پھیرا۔ اُس نے تقریباً غنودگی کی حالت میں حرکت کی اور خود کو کاؤچ پر ڈال دیا۔ پھر ایک مبہم مُسکراہٹ کے ساتھ اُس نے متعدّد بار رَفو کی ہُوئی اپنی لمبی جرابیں اُتارنا شروع کیں۔ ایک بار پھر کمرے نے تیرنا شروع کر دیا۔ اُس نے محسوس کیا کہ کوئی اُس کے سر کی پشت پر گرم ہَوا پھینک رہا تھا۔ اُس نے اپنی آنکھیں پوری کھولیں۔ اُس کی آنکھیں سیاہ اور کھنچی ہُوئی لمبی تھیں جن کے سفید حِصّے چمک دار سبزی مائل تھے۔ موسمِ خزاں کی ایک مکّھی موم بتّی کے گِرد چکّرانے لگی اور بھنبھناتی ہُوئی مٹر کے سیاہ دانے کی طرح دِیوار سے جا ٹکرائی۔ نتاشا نے آہستگی سے کمبل کے اندر سرک کر اپنا جسم پھیلا لیا۔ اُس نے تماش بِین کی طرح اپنے بدن کی گرمی، اپنی لمبی رانوں اور سر کے پیچھے رکھے اپنے ہی بازوؤں کو محسوس کیا۔ اُس پر اتنی سُستی چڑھی کہ وہ نہ شمع گُل کر پائی اور نہ ہی اپنے گھُٹنے پر کَس جانے والے ریشمی کمبل کو ڈِھیلا کر سکی۔ اُس نے آنکھیں موند لیں۔ خرنوف نے نیند میں گہری غرّاہٹ بھری اور اپنا ایک بازو اُٹھایا۔ بازو دوبارہ نیچے یوں گِر گیا جیسے وہ بے جان ہو۔ نتاشا نے دِھیرے سے خود کو اُٹھایا اور موم بتّی کو پھُونک ماری۔ اُس کی نظروں کے سامنے رنگ برنگے دائرے ناچنے لگے۔

اُس نے بستر میں مُنہ دبا کر ہنستے ہُوئے سوچا کہ میں حیرت انگیز محسوس کر رہی ہوں۔ اب وہ مڑی تڑی لیٹی ہُوئی تھی اور خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہی تھی۔ اُس کے ذہن میں آنے والے خیالات بجلی کی کوند کی طرح تھے جو آرام سے پھیل اور پھِسل رہے تھے۔ وہ سونے ہی کو تھی کہ اُس کی نیند ایک گہری اور ہیجان زدہ چیخ ٹوٹ گئی۔

’’ڈیڈی، کیا بات ہے؟‘‘ اُس نے میز ٹٹول کر موم بتّی روشن کی۔

خرنوف بستر پر بیٹھا تگ و دو سے سانس لے رہا تھا۔ اُس کی اُنگلیوں نے قمیص کا کالردبوچ رکھا تھا۔ چند منّٹ پہلے وہ جاگ گیا تھا۔ اُس نے غلطی سے پاس پڑی کُرسی پر رکھی گھڑی کے روشن ڈایل کو بندوق کی نالی سمجھ لیا تھا جو اُس پر تنی ہُوئی تھی۔ وہ ہِلنے کی ہمّت کیے بغیر گولی کا منتظر رہا۔ پھر اُس کا اختیار نہیں رہا اور وہ چیخنے لگا۔ اب وہ اپنی بیٹی کی طرف آنکھیں جھپکاتے ہُوئے جھینپی ہُوئی مسکراہٹ لیے دیکھ رہا تھا۔

’’ڈیڈی، پُرسکون رہیں۔ کچھ نہیں ہے۔‘‘

اُس نے ننگے پاؤں نرمی سے فرش پر گھسیٹے، تکیوں کو سیدھا کیا اور اُس کی بھَوں کو چھُو کر دیکھا جو پسینے سے چپچپی اور ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ گہری سانس لیتے ہُوئے وہ اب بھی دورے سے کانپ رہا تھا۔ اُس نے دِیوار کی سمت رُخ کیا اور بُڑبُڑانے لگا: ’’وہ تمام کے تمام، سب… اور میں بھی۔ یہ عفریّت ہے۔ نہیں، تمھیں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

وہ اِس طرح سو گیا جیسے بے ہوشی کے پاتال میں گِر گیا ہو۔

نتاشا دوبارہ لیٹ گئی۔ کاؤچ بھی گُومڑ بن گیا تھا۔ سپرنگ کبھی اُس کی پسلیوں میں تو کبھی کندھوں پر چبھے لیکن آخر وہ پُرسکون ہو گئی اور واپس بار بار ٹُوٹ جانے والے حیرت انگیز خواب میں تیرنے لگی جسے وہ اب محسوس کر رہی تھی لیکن وہ زیادہ دیر یاد رہنے والا نہیں تھا۔ پھر وہ صبح ہوتے ہی دوبارہ اُٹھ گئی۔ اُس کا والد اُسے پُکار رہا تھا۔

’’نتاشا، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے پانی دو۔‘‘

آہستہ آہستہ اُس کی غنودگی میں ہلکی نِیلی صبح بھرنے لگی۔ اُس نے واش بیسن پر جا کر صراحی میں پانی بھرا۔ خرنوف نے جی بھر کے پانی پیا۔ وہ بولا: ’’اگر میں کبھی واپس نہ آیا تو یہ بہت خطرناک ہو گا۔‘‘

’’ڈیڈی، آپ سو جائیں۔ تھوڑی اَور نیند لینے کی کوشش کر یں۔‘‘

نتاشا نے اپنی فلالین کی عبا کی ڈوریاں باندھیں اور باپ کے بستر کی پائینتی خاموشی سے بیٹھ گئی۔ اُس نے اپنے الفاظ متعدّد بار دھرائے۔ ’’یہ بہت خطرناک ہے۔‘‘ اور پھر خوف زدہ کر ڈالنے والے انداز میں مُسکرانے لگا۔

’’نتاشا، مجھے تصوّر رہتا ہے کہ جیسے میں اپنے گاؤں میں پھِر رہا ہوں۔ تمھیں لکڑی چِیرنے والے کارخانے کے پاس دریا کے قریب وہ جگہ یاد ہے؟ وہاں جانا بہت مشکل ہے۔ تم جانتی ہو—  وہاں ہر طرف بُرادہ اُڑ رہا ہوتا ہے۔ بُرادے اور رَیت میں میرے پاؤں دھنس جاتے ہیں۔ مجھے گُدگُدی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ جب ہم بیرونِ ملک گئے تھے…‘‘ اُس نے بھنویں چڑھائیں۔ وہ اپنے اُلجھے ہُوئے خیالات کا تعاقب کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

نتاشا نے غیر معمولی طور پر صاف یاد کیا کہ وہ اُس وقت کیسے دِکھائی دیتے تھے۔ اُس کی صاف ستھری چھوٹی داڑھی، نرم چمڑے کے خاکستری دستانے، چوخانہ سفری ٹوپی، جو اسفنج رکھنے والی تھیلی کی طرح دِکھائی دیتی تھی، یاد آئی… اچانک اُسے احساس ہُوا کہ وہ رو ہی دینے والی تھی۔

’’ہاں۔ ایسا ہی ہے۔‘‘ خرنوف نے صبح کے دُھندلکے میں لاپروائی سے دیکھتے ہُوئے چبا چبا کر کہا۔

’’ڈیڈی، تھوڑا سا اَور سو جائیں۔ مجھے سب یاد ہے۔‘‘

اُس نے بے ڈھب پن سے تھوڑا سا پانی لیا، اپنا مُنہ دھویا اور واپس تکیے پر دراز ہو گیا۔ صحن سے ایک مُرغ کی دِل دھڑکانے والی میٹھی بانگ سُنائی دی۔

۳  )

اگلے روز تقریباً گیارہ بجے وُولف نے خرنوف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کمرے میں گُونج پیدا کرتی ہُوئی کچھ رکابیاں کھنکھنائیں اور نتاشا کے ہنسنے کی آواز آئی۔ ایک لمحے بعد اُس نے ہال میں داخل ہو کر احتیاط سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا۔

’’میں بہت خوش ہوں—  والد صاحب آج بہت بہتر ہیں۔‘‘ وہ ایک سفید بلاؤز اور ہلکا پِیلگوں سکرٹ پہنے ہُوئے تھی جس کے بٹن اُس کے کُولہوں پر تھے۔ اُس کی کھنچی ہُوئی لمبی آنکھیں مسرت سے دمک رہی تھیں۔ ’’بہت مضطرب رات تھی۔‘‘ اُس نے تیزی سے بات جاری رکھی۔ ’’اور اب وہ مکمل طور پر پُرسکون ہو چکے ہیں۔ اُن کا درجہ حرارت نارمل ہے۔ حتّٰی کہ انھوں نے اب بستر سے اُٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اُنھوں نے ابھی غسل بھی لیا ہے۔‘‘

’’آج باہر دھوپ نکلی ہے۔‘‘ وُولف نے پراسرار انداز میں کہا۔ ’’ میں کام پر نہیں گیا۔‘‘

وہ اَدھ روشن ہال میں دِیوار کے ساتھ لگے کھڑے تھے۔ اُنھیں بات نہیں سوجھ رہی تھی۔

’’نتاشا، تم جانتی ہو کیا؟‘‘ وُولف نے دِیوار سے ہٹتے ہُوئے سلوٹیں پڑے ہُوئے پاجامے کی جیبوں میں اپنے بڑے بڑے ہاتھ ٹھونستے ہُوئے جرأت کی۔ ’’آج ہم دیہی علاقے کی سیر کو چلیں۔ چھے بجے تک لوٹ آئیں گے۔ تم کیا کہتی ہو؟‘‘

’’میں والد صاحب کو تنہا کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔ جب کہ وہ ابھی…‘‘

وُولف اچانک بہت ہی خوش ہو گیا۔

’’نتاشا، میری جان، براہِ مہربانی— آؤ چلیں۔ تمھارے والد آج بالکل ٹھیک ہیں۔ ہیں نا؟ اور پھر اگر انھیں کوئی ضرورت پڑی تو مکان مالکہ بھی قریب ہی ہوتی ہے۔‘‘

’’ہاں، یہ تو ٹھیک ہے۔‘‘ نتاشا دِھیمے لہجے میں بولی۔ ’’مَیں اُنھیں بتا دوں۔‘‘

وہ سکرٹ لہراتی ہُوئی مُڑ کر کمرے میں داخل ہو گئی۔

بغیر کالر کا مکمل لباس زیب تن کیے ہُوئے خرنوف ناتوانی سے میز پر کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔

’’نتاشا، نتاشا، تم کل اخبار لانا بھُول گئیں…‘‘

نتاشا چولہے پر چائے بنانے میں مصروف تھی۔

’’ڈیڈی، آج میں دیہی علاقے کی سیرکو جانا چاہتی ہوں۔ وُولف نے مجھے دعوت دی ہے۔‘‘

’’ضرور پیاری، تمھیں ضرور جانا چاہیے۔‘‘ خرنوف نے جواب دیا اور اُس کی آنکھوں کے نِیلگوں سفید حِصّے آنسوؤں سے بھر گئے۔ ’’ میرا یقین کرو، آج میں بہت بہتر ہوں۔ بس اگر یہ منحوس کمزوری نہ ہوتی تو…‘‘

جب نتاشا چلی گئی تو اُس نے دوبارہ کمرے میں ٹوہنا شروع کر دیا۔ وہ اب بھی کچھ تلاش کر رہا تھا— ہلکی سی غرّاہٹ بھری آواز کے ساتھ وہ کاؤچ کی طرف گیا۔ اُس نے اُس کے نیچے جھانکا… وہ فرش پر مُنہ کے بل گِر گیا اور متلی آور چکّر کے ساتھ وہیں پڑا رہا۔ آہستہ آہستہ، بہ دِقّت تمام وہ دوبارہ اپنے قدموں پر واپس قائم ہُوا۔ بہ مشکل اپنے بستر پر پہنچا اور لیٹ گیا… اور اُسے محسوس ہُوا کہ وہ کسی پُل کو پار کر رہا تھا، کہ وہ لکڑی کے کارخانے کی آواز سُن رہا تھا، کہ درختوں کےپیلے تنے پانی پر تیر رہے تھے، کہ اُس کے پیر گِیلے بُرادے میں دھنس رہے تھے، کہ دریا کی سمت سے آنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا اُسے بار بار اپنی طرف بُلا رہی تھی۔

۴  )

’’ہاں — میرے تما سفر—  اوہ، نتاشا۔ مجھے بعض اوقات محسوس ہُوا جیسے میں دیوتا ہوں۔ میں نے سیلون میں ’سایوں کا محل‘ دیکھا اور مڈغاسکر میں زمرّدیں رنگ کے ایک چھوٹے پرندے کا شکار کیا۔ وہاں کے مقامی لوگ ریڑھ کی ہڈّی کے مہروں سے بنائے گئے ہار پہنتے تھے اور رَات کو ساحلِ سمندر پر اتنا عجیب گاتے تھے جیسے گیدڑ موسیقی گا رہے ہوں۔ میں تماتیو (Tamatave) کے قریب ہی، جہاں زمین سُرخ ہے اور آسمان گہرا نِیلا، ایک خیمے میں رہتا تھا۔ میں اُس سمندر کو بیان نہیں کر سکتا۔‘‘ وُولف صنوبر کے پھل کو آہستگی سے اُچھالتا ہُوا خاموش ہو گیا۔ پھر اُس نے اپنا پھُولا ہُوا ہاتھ مُنہ پر پھیرا اَور قہقہہ لگایا۔ ’’اور یہاں میں ایک ایک پیسے سے تنگ ہوں۔ یہ شہر یورپ کا سب سے بدحال شہر ہے۔ میں آرام طلبوں کی طرح روز دفتر جا کر بیٹھ جاتا ہوں اور رَات کو ٹرکوں کے اڈّے سے روٹی اور ساسیج کھا لیتا ہوں۔ لیکن ایک وقت تھا— ‘‘

نتاشا کہنیوں کو پھیلائے اُس کے پیٹ پر لیٹی صنوبر کی دمکتی ہُوئی شاخوں کو دیکھ رہی تھی جو فیروزی بلندی تک پھیلی ہُوئی تھیں۔ اُس نے آسمان پر نظر ڈالی تو اُس کی آنکھوں میں نقطے گھُومنے، چمکنے اور بِکھرنے لگے۔ کوئی چیز، جو سنہری سی تھی، بار بار صنوبر کے ایک درخت سے دُوسرے پر چھلانگیں لگا نے لگی۔

اُس کے ساتھ ڈِھیلے سُوٹ میں مُنڈا ہُوا سر جھکائے آلتی پالتی مارے بیٹھا بارن وُولف ابھی تک صنوبر کا پھل اُچھال رہا تھا۔ نتاشا نے آہ بھری۔

’’زمانۂ وسطیٰ میں مجھے بَلّی پر چڑھا کے جلا دیا جاتا یا پھر مقدّس قرار دے دیا جاتا۔‘‘ وہ صنوبر کی بلند شاخوں کو دیکھتے ہُوئے بولی۔ ’’مجھے بعض اوقات عجیب عجیب خیال آتے ہیں۔ تب میں بے وزن ہو جاتی ہوں— موت، زندگی، ہر شے— ایک دفعہ جب میں تقریباً دس برس کی تھی۔ میں کھانے کے کمرے میں بیٹھی کوئی تصویر بنا رہی تھی۔ میں تھک گئی تو میں نے سوچنا شروع کر دیا۔ اچانک جیسے برق رفتاری سے ایک عورت ننگے پاؤں، پھیکےنیلے رنگ کے کپڑے پہنے اور بھاری پیٹ لیے اندر آئی۔ اُس کا مُنہ چھوٹا، پتلا اور زرد تھا۔ اُس کی آنکھوں سے غیر معمولی شرافت اور پُراسراری ٹپکتی تھی۔ میری طرف دیکھے بغیر وہ میرے پاس سے تیزی سے گُزری اور اگلے کمرے میں غائب ہو گئی۔ مجھے کوئی خوف نہیں آیا۔ کسی وجہ سے میں نے خیال کیا کہ وہ فرش دھونے آئی تھی۔ وہ عورت مجھے دوبارہ کبھی نہیں ملی۔ لیکن کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون تھی؟ کنواری مریم…‘‘

وُولف مُسکرایا۔ ’’نتاشا، کیا چیز تمھیں ایسا سوچنے پر مجبور کرتی ہے؟‘‘

’’میں جانتی ہوں۔ پانچ برس بعد وہ میرے خواب میں آئی۔ اُس نے ایک بچّہ اُٹھایا ہُوا تھا۔ اُس کے پیروں پر کربی فرشتے کہنیوں کے بل دراز تھے بالکل ویسے ہی جیسے رافیل کی مصوّری میں دِکھائے گئے ہیں۔ صرف وہی زندہ تھے۔ اِس کے علاوہ مجھے کچھ دُوسرے نہایت مختصر خیال بھی آتے ہیں۔ جب وہ والد صاحب کو اُٹھا کر ماسکو لے گئے اور میں گھر میں اکیلی رہ گئی تب وہ واقعہ ہُوا تھا: ڈیسک پر کانسی کی ایک چھوٹی گھنٹی پڑی تھی بالکل ویسی ہی جیسی ٹِیرول (Tyrol) میں لوگ گایوں کو باندھتے ہیں۔ اچانک وہ ہَوا میں بلند ہو کر بجنے لگی اور پھر نیچے گِر گئی۔ کیا معجزہ تھا! اُس کی آواز خالص تھی۔‘‘

وُولف نے اُسے عجیب نظروں سے دیکھا۔ پھر اُس نے صنوبر کے پھل کو دُور پھینکا اور سرد ٹھس آواز میں بولا: ’’نتاشا، میں تمھیں ایک بات بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ تم جانتی ہو کہ میں کبھی افریقہ یا بھارت میں نہیں رہا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ اب میں تقریباً تیس برس کا ہوں لیکن رُوس کے دو تین شہروں، درجن بھر گاؤوں اور اِس نامُراد ملک کے علاوہ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ براہِ مہربانی، مجھے معاف کر دو۔‘‘ وہ حزنیہ انداز میں مُسکرایا۔ اُسے اچانک ہی اُن پُرشکوہ تخیلات پر رحم محسوس ہُوا جنھیں وہ بچپن سے پالتا چلا آرہا تھا۔

 موسمِ خزاں خشک اور گرم تھا۔ جب صنوبر کی اُونچی شاخیں ہِلتیں تو وہ محض چرچرا کر رہ جاتے۔

’’چیونٹی۔‘‘ نتاشا اپنا زیر جامہ اور سکرٹ اُٹھاتے ہُوئے بولی۔ ’’ہم چیونٹیوں پر بیٹھے ہیں۔‘‘

’’کیا تم مجھ سے بہت نفرت کرتی ہو؟‘‘ وُولف نے پوچھا۔

وہ ہنس پڑی۔ ’’بے وقوف مت بنو۔ ہم ایک جیسے ہیں۔ ہر بات جو میں نے تمھیں بتائی میرے تخیلات تھے، کنواری مریم اور چھوٹی گھنٹی تخیّل ہی کا کرشمہ ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ ایک روز یہ سب ختم ہو جائے گا اور اُس کے بعد قدرتی طور پر میرا گُمان ہو گا کہ یہ سب حقیقتاً ہُوا تھا…۔‘‘

’’بس یہی بات ہے۔‘‘ وُولف شگفتہ چہرے کے ساتھ بولا۔

’’مجھے اپنے سفروں کے بارے میں کچھ اَور بتاؤ۔‘‘ نتاشا نے پوچھا ۔ اُس کے لہجے میں طنز کی رمق تک نہیں تھی۔

وُولف نے عادتاً اپنا ٹھوس سگار کیس نکالا۔ ’’ جو آپ کا حکم۔ ایک مرتبہ جب میں بادبانی جہاز پر بَورنیو سے سُماترا جا رہا تھا…‘‘

۵  )

جھیل کی طرف ایک ہموار ڈھلان جاتی تھی۔ لکڑی کی جیٹی کے ستون پانی میں بھُورے دائروں کی طرح منعکس ہو رہے تھے۔ جھیل سے پرے وہی سیاہ صنوبروں والا جنگل تھا لیکن ہر طرف سفید تنے اوربرج کے پتّوں کا کُہرا دِکھائی پڑتا تھا۔ گہرے فیروزی پانی میں بادلوں کے عکس تیر رہے تھے۔ نتاشا کو اچانک ہی لیوی ٹان (Levitan) کی منظر کشی والی تصویریں یاد آگئیں۔ اُسے گُمان گُزرا کہ رُوس میں ہیں کہ وہاں ہی ایسی اُچھل کُود والی خوشی گلا پکڑتی ہے اور وہ خوش تھی کہ وُولف اِس قدر معجزاتی حماقتیں بیان کر رہا تھا۔ وہ اپنی غیر اہم باتوں کے ساتھ ساتھ جھیل میں مسطح پتھّر پھینک رہا تھا جو طلسماتی انداز میں پانی پر پھسلتے اور اُچھلتے جاتے تھے۔ ہفتے کے اِس دِن میں وہاں لوگ نظر نہیں آرہے تھے۔ بس کبھی کبھار کوئی بلند آہنگ آواز یا قہقہہ سُنائی دے جاتا تھا۔ جھیل میں ایک سفید پَر تیر رہا تھا— جیسے وہ بجرا ہو۔ وہ دیر تک ساحل پر سیر کرتے اور پھِسلواں ڈھلان پر دوڑتے رہے۔ اُنھیں ایک پگڈنڈی ملی جہاں رَس بھری کی جھاڑیاں ناگوار مہک چھوڑ رہی تھیں۔ تھوڑا آگے جا کر جھیل کے دائیں طرف ایک کیفے تھا جو ویران پڑا تھا۔ وہاں نہ تو کوئی بیرا تھی اور نہ ہی کوئی گاہک نظر آتا تھا جیسے کہیں آگ لگ گئی ہو اور وہ پلیٹیں اور مَگ اُٹھا کر اُسے دیکھنے ساتھ لے گئے ہوں۔ وُولف اور نتاشا نے کیفے کے گِرد چکّر لگایا اور پھر خالی میز پر بیٹھ کر یُوں ظاہر کرنے لگے جیسے وہ کھا پی رہے ہوں اور آرکسٹرا نے موسیقی چھیڑ رکھی ہو۔ جب وہ مذاق کر رہے تھے تو نتاشا کو اچانک محسوس ہُوا جیسے اُس نے واقعی سنگترا رنگ کی ہَوائی موسیقی کی آواز صاف سُنی ہو۔ پھر وہ ایک اَسرار بھرا تبسم لیے اُٹھی اور ساحل کے ساتھ دُور بھاگ گئی۔ بارن وُولف بڑی مشکل سے اُس کے پیچھے دوڑا۔ ’’ٹھیرو نتاشا، ہم نے ابھی ادائیگی نہیں کی ہے۔‘‘

بعد میں اُنھوں نے سبز سیب جیسا ایک مرغزار دیکھا جس کے چاروں طرف سیج کے پودوں کی باڑ تھی، جس میں سورج نے پانی کو سیال سونا بنا رکھا تھا۔ نتاشا نے اپنی ناک سکیڑتے اور پھُلاتے ہُوئے متعدّد بار دُھرایا: ’’میرا خدا، کتنا خُوب صُورت نظارہ ہے…‘‘

جواب نہ پا کر وُولف کو دُکھ محسوس ہُوا اَور وہ خاموش ہو گیا۔ عریض جھیل پر اُس ہَوادار، روشن لمحے میں ایک خاص اُداسی گاتے ہُوئے بھونرے کی مانند گُزری۔

نتاشا پیشانی پر بَل لاتے ہُوئے بولی۔ ’’ پتا نہیں کیوں مجھے محسوس ہُوا ہے جیسے والد صاحب کی طبیعت دوبارہ بہت خراب ہو گئی ہے۔ شاید مجھے اُنھیں چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا۔‘‘

وُولف کو بُوڑھے کی پتلی ٹانگیں یاد آئیں کہ جب وہ بستر پر لیٹا تھا تو اُن پر روئیں اور چمک تھی۔ اُس نے سوچا کہ کیا ہو گا اگر وہ واقعی آج مر گیا ؟

’’ایسا مت کہو، نتاشا… اب وہ ٹھیک ہیں۔‘‘

’’میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ اُس نے کہا اور اُس کے چہرے پر دوبارہ خوشی لوٹ آئی۔

’’میں کیسا خواب دیکھتا ہوں۔ نتاشا، میں کیسا خواب دیکھتا ہوں۔‘‘ وہ بجنے والی ایک چھڑی ہِلاتے ہُوئے کہہ رہا تھا۔ ’’کیا میں جھوٹ بول رہا ہوتا ہوں جب میں اپنے تخیلات کو حقیقت بنا کر بیان کرتا ہوں؟ بمبئی میں میرا ایک دوست تھا جو تین سال تک میری خدمت کرتا رہا تھا۔ میرے خدا! جغرافیائی ناموں کی موسیقیت! اِس اکیلے لفظ میں کچھ عظمت ہے، دھوپ کے بم۔ تصوّر کرو، نتاشا… میرا وہ دوست بات چیت سے قاصر تھا۔ اُسے کام سے متعلق جیسے حرارت، بخار اور کسی برطانوی کرنل کی بیوی جیسے فضول جھگڑوں کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا تھا۔ درحقیقت ہم میں سے کون بھارت گیا ہے؟…۔ ظاہر ہے… بے شک، مَیں۔ بمبئی، سنگاپور… مثال کے طو پر مجھے یاد آتا ہے…۔

نتاشا جھیل کے بالکل کنارے پر چل رہی تھی کہ بڑی لہریں اُس کے پیروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ جنگل سے پرے ریل گاڑی گُزری جیسے وہ موسیقی کے آلے کی تار پر سفر کر رہی ہو۔ وہ دونوں اُس کی آواز سُننے کے لیے رُک گئے۔ دِن قدرے سنہرا اَور خوشگوار ہو گیا تھا۔ جھیل سے دُور واقع جنگل اب نِیلگوں نظر آرہا تھا۔ ریلوے سٹیشن کے پاس سے وُولف نے آلو بخاروں کا ایک لفافہ خریدا لیکن وہ کھٹّے نکلے۔ گاڑی کے ڈبّے میں بیٹھ کر اُس نے اُنھیں کھڑکی کے راستے وقفے وقفے سے باہر پھینکا اور اِس بات پر افسوس کرتا رہا کہ اُس نے کیفے سے بیئر کے مَگوں کے نیچے رکھنے والی گتّے کی ٹکڑیاں چُرا کیوں نہیں لیں۔

’’نتاشا، وہ پرندوں کی طرح فضا میں بہت خُوب صُورتی سے اُڑتی ہیں۔ اُنھیں دیکھنے میں لطف آتا ہے۔‘‘

نتاشا تھک گئی تھی۔ وہ اپنی آنکھیں سختی سے بند کرتی اور پھر دوبارہ بند کرتی جیسے وہ رات کے سمے میں ہو۔ اُس پر غنودگی بھرے ہلکے پن کا احساس غالب آکر اُسے اُونچا اُڑا لے جاتا۔

’’جب میں والد صاحب کو ہماری باہر کی باتیں بتاؤں گی۔ براہِ مہربانی مجھے ٹوکو مت، نہ میری تصحیح کرو۔ میں اُنھیں اُن چیزوں کے بارے میں اچھی طرح بتا سکتی ہوں جو ہم نے قطعاً نہیں دیکھیں۔ مختلف چھوٹے چھوٹے معجزے۔ وہ سمجھ جائیں گے۔‘‘

جب وہ شہر پہنچے تو اُنھوں نے پیدل چلنے کا فیصلہ کیا۔ بارن وُولف کم گو ہو گیا تھا اور گاڑیوں کے ہارنوں پر اُس کہ مُنہ بن گیا تھا۔ جب کہ نتاشا یوں دِکھائی دیتی تھی جیسے ہَوا اُسے دھکیل رہی ہو، جیسے تھکن نے اُسے بحال رکھا ہو اور اُسے پر لگا کر ہلکا پھلکا کر دیا ہو ۔ وُولف سارے کا سارا شام کی طرح نِیلا پڑا ہُوا تھا۔ اپنے گھر کے قریب پہنچ وُولف ٹھیر گیا لیکن نتاشا آگے نکل گئی۔ پھر وہ بھی رُک گئی۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ کندھے اُچکاتے ہُوئے ہاتھ اپنے ڈِھیلے پاجامے کی جیبوں میں اندر تک گھسیڑتے ہُوئے وُولف نے بیل کی طرح اپنا ہلکا نِیلا سر نیچے جھکا لیا۔ آس پاس دیکھتے ہُوئے اُس نے کہا کہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے۔ پھر وہ تیزی سے مُڑ کر اُس سے دُور ہُوا اَور تمباکو کی دُکان میں داخل ہو گیا۔

نتاشا تھوڑی دیر ٹھیری رہی جیسے ہَوا نے اُسے باندھ لیا ہو۔ پھر وہ آہستہ خرامی سے اپنے گھر کی طرف چلنے لگی۔ اُس نے سوچا کہ یہ بات بھی والد صاحب کو بتاؤں گی۔ وہ مسرت کے نِیلے کُہرے میں آگے بڑھتی گئی۔ ہِیروں کی مانند سٹریٹ لیمپس روشن ہونے لگے تھے۔ اُسے محسوس ہُوا کہ وہ کمزور پڑ رہی تھی۔ گرم گرم لہریں خاموشی سے اُس کی ریڑھ کی ہڈّی پر رینگ رہی تھیں۔ جب وہ گھر کے نزدیک پہنچی تو اُس نے اپنے والد کو سیاہ جیکٹ پہنے، ایک ہاتھ سے بغیر بٹنوں کی قمیص کا گلا تھامے اور دُوسرے سے چابیاں گھُماتے ہوئے دیکھا۔ وہ جلد بازی سے باہر آیا تھا۔ رات کی دُھند میں وہ قدرے جھکا ہُوا تھا۔ اُس کا رُخ اخباروں والے ٹھیلے کی طرف تھا۔

’’ڈیڈی۔‘‘ اُس نے پُکارا اَور اُس کے پیچھے لپکی۔ وہ سڑک کے کنارے پر رُک گیا اور سر موڑ کر اُس نے اُس کی طرف اپنے خاص مکّارانہ تبسم کے ساتھ دیکھا۔

’’ میرے بھُورے بالوں والے ننّھے بچّے، آپ کو باہر نہیں آنا چاہیے تھا۔‘‘ نتاشا نے کہا۔

اُس کے والد نے دُوسری طرف مُنہ موڑ لیا اور نرمی سے بولا: ’’میری لاڈلی، آج اخبار میں کچھ افسانوی چیز ہے۔ بس میں پیسے گھر بھُول آیا ہوں۔ کیا تم اُوپر جا کر پیسے لا سکتی ہو؟ میں یہیں پر انتظار کروں گا۔‘‘

اُس نے اپنے باپ کے پاس سے گُزر کر دروازہ دھکیلا۔ وہ اُس وقت بہت خوش تھی کہ وہ اتنا بذلہ سنج ہو رہا تھا۔ اُس نے پھُرتی سے سیڑھیاں ہَوا کی طرح ہلکی ہو کر چڑھیں جیسے وہ نیند میں ہو۔ اُس نے جلدی ہال پار کیا۔ اُنھیں وہاں میرے انتظار میں کھڑے کھڑے لگ سکتی ہے…۔

کسی وجہ سے ہال کی بتّی روشن تھی۔ نتاشا اپنے دروازے پر پہنچی۔ اُسی وقت اُس نے اپنے پیچھے دھیمی باتوں کی سرگوشی سُنی۔ اُس نے تیزی سے دروازہ کھولا۔ میز پر پڑا مٹّی کے تیل کا دِیا گہرا دھواں چھوڑ رہا تھا۔ مکان مالکہ، ایک خادمہ اور ایک ناآشنا شخص نے بستر تک جانے رسائی مسدود کر رکھی تھی۔ جب نتاشا اندر داخل ہُوئی تو وہ سب مُڑے اور مکان مالکہ چیخ مار کر اُس کی طرف دوڑی…۔

تب اُسے معلوم ہُوا کہ اُس کا والد بستر پر پڑا تھا۔ وہ ویسا دِکھائی نہیں دیتا تھا جیسا اُس نے ابھی کچھ دیر قبل دیکھا تھا بلکہ وہاں مومی ناک والا ایک بُوڑھا تھا۔

 

:::

رُوسی کہانی

نتاشا

ولادی مِیر نابو کوف

(Vladimir Nabokov)

 

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

۱  )

سیڑھیوں پر ہال کی دُوسری طرف نتاشا کا سامنا اپنے پڑوسی بارن وُولف سے ہُوا۔ وہ لکڑی کے ننگے تختوں پر بہ مشقّت اُوپر چڑھتے ہُوئے کٹہرے پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہُوئے اپنے مُنھ سے نرم آواز میں سِیٹی بجا رہا تھا۔

’’نتاشا، تم اتنی تیزی سے کہاں جا رہی ہو؟‘‘

’’دواؤں کی دُکان پر دوا لینے۔ ابھی ڈاکٹر آیا تھا۔ والد صاحب اب بہتر ہیں۔‘‘

’’آہا، یہ تو اچھی خبر ہے۔‘‘

وہ ننگے سر اپنے سرسراتے ہُوئے کوٹ میں اُس کے پاس سے برق رفتاری سے گذر گئی۔

کٹہرے پر جھک کر وُولف نے اُس کی پشت دیکھی۔ ایک لمحے کے لیے اُس کی نظریں اُس کے زنانہ نرم و ملایم بالوں سے بھرے سر پر ٹِک گئی۔ سِیٹی بجاتے بجاتے وہ آخری منزل پرپہنچا۔ اُس نے بارش سے بھِیگا ہُوا بریف کیس بستر پر پھینکا۔ پھر اُس نے اچھی طرح اطمینان سے اپنے ہاتھ دھو کر خشک کیے۔

پھر اُس نے بوڑھے خرنوف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

خرنوف ہال کی دوسری سمت کے کمرے میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ ایک کاؤچ پر سویا ہُوا تھا۔ کاؤچ حیرت انگیز قِسم کے سپرنگوں سے بنا ہُوا تھا جنھیں ڈِھیلے ڈھالے ریشمی کپڑے میں بڑی بڑی  گھاس کی مانند گھُمایا اور موٹا کیا گیا تھا۔ وہاں ایک غیر رنگ شُدہ میز بھی تھی جسے روشنائی کے دھبوں سے بھرے اخبارات سے ڈھانپا گیا تھا۔ شب باشی کا کُرتا پہنے بیمار بُوڑھے خرنوف نے قدموں کی چاپ سُنی تو ہڈیاں کڑکڑاتا ہُوا بستر میں سمٹ کر چادر اوڑھ لی۔ اُسی وقت وولف کا بڑا سا مُنڈھا ہُوا سر دروازے سے اندر داخل ہُوا۔

’’آؤ، تمھیں دیکھ کر خوشی ہُوئی۔ آجاؤ۔‘‘

بُوڑھا بمشکل سانس لے رہا تھا۔ اُس کی میز کا دراز آدھا کھُلا ہُوا تھا۔

’’الیکسی اِیوانِک (Alexey Ivanych)، میں نے سُنا ہے کہ آپ تقریباً ٹھیک ہو گئے ہیں۔‘‘ بارن وُولف بستر کے سِرے پر بیٹھ کر اپنے گھُٹنے تھپتھپاتے ہُوئے بولا۔

’’خرنوف نے اپنا زرد استخوانی ہاتھ آگے بڑھایا اور نفی میں سر ہلایا۔ ’’ میں یہ تو نہیں جانتا کہ تم کیا سُن رہے ہو البتہ یہ یقیناً جانتا ہوں کہ میں کل مر جاؤں گا۔‘‘ اُس نے اپنے مُنھ سے سوڈا بوتل کے کھُلنے جیسی تیکھی آواز نکالی۔

’’احمقانہ بات ہے۔‘‘ وُولف نے شوخی سے قطع کلامی کی۔ اُس نے کُولہے کی جیب سے ایک بڑا سا چاندی کا سِگار کیس نکالا۔ ’’ اگر آپ کو ناگوار نہ گُزرے تو میں تمباکو نوشی کر لوں۔‘‘

وہ کافی دیر اپنے لائٹر کو بِلامقصد ہِلاتا اور اُس کی گراری چٹخاتا رہا۔ خرنوف اپنی آنکھیں اَدھ کھلی رکھے ہُوئے تھا۔ اُس کی پلکیں مینڈک کے پیروں کی جھِلّی کی طرح ہو رہی تھیں۔ بھُورے سخت بالوں نے اُ س کی باہر نکلی ہُوئی آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ آنکھیں وَا کیے بغیر وہ بولا: ’’یہی ہو گا۔ اُنھوں نے میرے دو بیٹوں کو قتل کر دیا اور مجھے اور نتاشا کو ہمارے آبائی گھر سے نکال دیا۔ اب ہمیں ایک اجنبی شہر میں جینا مرنا ہے۔ …… اِن سب کے بارے میں سوچنا کیسی حماقت تھی۔

وُولف نے اُونچی آواز میں بہ صراحت بولنا شروع کیا۔ اُس نے خرنوف کو بتایا کہ خُدا کی مہربانی سے ابھی اُس نے طویل عرصے تک جینا ہے اور یہ کہ ہر شخص موسمِ بہار میں بگلوں کے ہمراہ واپس رُوس جائے گا۔ پھر اُس نے اپنے ماضی کا ایک قِصّہ سُنایا۔

’’یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میں کانگو میں مارا مارا پھِر رہا تھا۔‘‘ وہ بول رہا تھا تو اُس کی بڑی فربہ اُنگلی ہَولے ہَولے ہِل رہی تھی۔ ’’اف، دُور دراز واقع کانگو، پیارے الیکسی اِیوانِک، بہت دُور کے جنگلات… آپ جانتے ہیں… ذرا تصوّر کریں جنگل میں گھِرے ایک گاؤں کا جہاں ہِلتے ہُوئے سِینوں والی عورتیں اور جھونپڑیوں کے درمیان تارکول جیسا چمکتا ہُوا سیاہ پانی تھا۔ وہاں ایک لحیم شحیم درخت کے نیچے… کِروکُو (kiroku) درخت… ربڑ کی گیندوں جیسے سنگترے گِرتے تھے اور رَات کو اُس کے تنے میں سے آواز آتی تھی جو سمندر جیسی تھی۔ میری مقامی سردار سے لمبی چوڑی گفتگو ہُوئی تھی۔ ہمارا مترجم ایک بیلجیئن انجینئر تھا جو خود بھی متجسس تھا۔ اُس نے قسم کھا کر بتایا کہ ۱۸۹۵ء میں اُس نے اکیتو سار (چھپکلی نُما آبی ڈائنو سار۔ مترجم) دلدل میں دیکھا تھا جو تانگا نِیکا سے زیادہ دُور نہیں ہے۔ سردار نے خود کو کوبالٹ میں لتھیڑا اَور انگوٹھیوں، کڑوں اور ناک کان کے چھَلّوں سے اپنے آپ کو سجایا ہُوا تھا۔ وہ بہت موٹا اور اُس کا پیٹ جیلی کی طرح تھا۔ لو، اب بتاتا ہوں کہ کیا ہُوا تھا…‘‘ وُولف اپنی کہانی سے خود لطف اندوز ہوتے ہُوئے مُسکرا رہا تھا۔ اُس نے اپنے ہلکے نِیلے سر پر چپت لگائی۔

’’نتاشا لوٹ آئی ہے۔‘‘ خرنوف نے پلکیں اُٹھائے بغیر تیزی اور سختی سے قطع کلامی کی۔ تیزی سے سُرخ پڑتے ہُوئے وُولف نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک لمحے بعد دُور سے دروازے کا تالا چھنکا۔ پھر ہال میں قدموں کی سرسراہٹ سُنائی دی۔ سُرخ آنکھیں لیے نتاشا جلدی سے اندر داخل ہُوئی۔

’’ڈیڈی، آپ کیسے ہیں؟‘‘

وُولف اُٹھا اور بناوٹی بے پروائی سے بولا: ’’تمھارے والد اب بالکل ٹھیک ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ اب بھی بستر پر کیوں پڑے ہُوئے ہیں— مَیں اِنھیں ایک افریقی جادوگر کے بارے میں بتا رہا تھا۔‘‘ نتاشا اپنے والد کی طرف دیکھ کر مُسکرائی اور لفافے میں سے دَوا نکالنے لگی۔

’’بارش ہو رہی ہے۔‘‘ اُس نے دِھیمے سے کہا۔ ’’موسم خطرناک ہے۔‘‘

جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جب موسم کا ذکر چھِڑتا ہے تو سبھی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتے ہیں۔ اِس ذکر نے خرنوف کی گردن پر ایک بھُوری نِیلی نس کو اُبھار دیا تھا۔ اُس نے اپنا سر دوبارہ تکیے پر رکھ لیا۔ نتاشا نے قطرے شمار کیے تو اُس کی پلکوں کے بال ٹھیرے رہے۔ اُس کے نرم گہرے رنگ کے بالوں میں بارش کے قطرے جڑے ہُوئے تھے۔ اُس کی آنکھوں تلے پیارے پیارے نِیلے حلقے تھے۔

۲  )

اپنے کمرے میں لوٹ کر وُولف دیر تک گھبرائی ہُوئی پُرمسرت مُسکراہٹ لیے چہل قدمی کرتا رہا۔ کبھی وہ خود کو بُری طرح بازو کُرسی میں گراتا تو کبھی بستر کے کنارے پر بیٹھ جاتا۔ پھر اُس نے کسی وجہ سے کھڑکی کھولی اور گھُور اندھیرے میں نیچے قُلقُل کرتے صحن میں دیکھنے لگا۔ بالآخر اُس نے اپنا ایک کندھا جھٹکے سے اُچکایا، اپنا ہَیٹ سر پر لیا اور باہر نکل گیا۔

بُوڑھا خرنوف کاؤچ پر گِرے ہُوئے انداز میں بیٹھا تھا۔ نتاشانے، جو شب باشی کے لیے اُس کا بستر سیدھا کر رہی تھی، لاپروایانہ انداز میں کہا: ’’وُولف رات کے کھانے کے لیے باہر چلا گیا ہے۔‘‘

تب اُس نے آہ بھری اور کمبل کو اپنے گِرد مضبوطی سے لپیٹ لیا۔

’’تیار ہے۔‘‘ نتاشا بولی۔ ’’ڈیڈی، بستر پر آجائیں۔‘‘

چاروں سمت بھیگی ہُوئی رات والا شہر تھا۔ اندھیری گلیوں میں مُوسلا دَھار بارش کی بوچھاڑیں اور چھتریوں کے چمکتے ہُوئے چھوٹے چھوٹے گُنبد تھے۔ دُکانوں کے چمکیلے شیشے تارکول پر پانی ٹپکا رہے تھے۔ رات نے بارش میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ صحنوں کے گڑھے بھر گئے تھے۔ پُرہجوم چوراہوں پر دِھیرے قدموں چلتی ہُوئی پتلی پتلی ٹانگوں والی طوائفوں کی آنکھوں میں پانی کے انعکاس چمک رہے تھے۔ گھُومتے ہُوئے روشن چکّر کی طرح کہیں کسی اشتہار کی چکّردار رَوشنیاں وقفے وقفے سے جل بجھ رہی تھیں۔

رات گہری ہونے پر خرنوف کے بدن کا درجہ حرارت بڑھ گیا۔ حرارت پیما گرم اور زندہ ہو گیا… پارہ سُرخ نلی میں اُوپر چڑھ گیا۔ دیر تک وہ بُڑبُڑاتے ہُوئے ہذیان بکتا، اپنے ہونٹ کاٹتا اور سر جھٹکتا رہا۔ پھر وہ سو گیا۔ نتاشا نے شمع کی مدہم پِیلی روشنی میں اپنا لباس اُتارا اَور کھڑکی کے سیاہ شیشے میں اپنا عکس دیکھا—  پِیلی پتلی گردن، گُندھے ہُوئے گہرے رنگ کے بال جو اُس کی ہنسلی پر گِرے ہُوئے تھے۔ وہ کمزوری سے اِسی طرح ساکت کھڑی رہی۔ اچانک اُسے محسوس ہُوا جیسے کاؤچ، سگریٹ کے بِکھرے ہُوئے ٹکڑوں سے بھری میز، بستر جس پر کھُلے مُنہ، تیکھے ناک والا پسینے میں ڈوبا ہُوا بُوڑھا بے چینی کی نیند سو رہا تھا… اِن تمام چیزوں نے حرکت کرنا شروع کر دی ہو اور اب وہ سیاہ رات میں بحری جہاز کے عرشے کی طرح تیر رہی تھیں۔ اُس نے گہری سانس لی اور اپنا ایک ہاتھ اپنے گرم عریاں کندھے پر پھیرا۔ اُس نے تقریباً غنودگی کی حالت میں حرکت کی اور خود کو کاؤچ پر ڈال دیا۔ پھر ایک مبہم مُسکراہٹ کے ساتھ اُس نے متعدّد بار رَفو کی ہُوئی اپنی لمبی جرابیں اُتارنا شروع کیں۔ ایک بار پھر کمرے نے تیرنا شروع کر دیا۔ اُس نے محسوس کیا کہ کوئی اُس کے سر کی پشت پر گرم ہَوا پھینک رہا تھا۔ اُس نے اپنی آنکھیں پوری کھولیں۔ اُس کی آنکھیں سیاہ اور کھنچی ہُوئی لمبی تھیں جن کے سفید حِصّے چمک دار سبزی مائل تھے۔ موسمِ خزاں کی ایک مکّھی موم بتّی کے گِرد چکّرانے لگی اور بھنبھناتی ہُوئی مٹر کے سیاہ دانے کی طرح دِیوار سے جا ٹکرائی۔ نتاشا نے آہستگی سے کمبل کے اندر سرک کر اپنا جسم پھیلا لیا۔ اُس نے تماش بِین کی طرح اپنے بدن کی گرمی، اپنی لمبی رانوں اور سر کے پیچھے رکھے اپنے ہی بازوؤں کو محسوس کیا۔ اُس پر اتنی سُستی چڑھی کہ وہ نہ شمع گُل کر پائی اور نہ ہی اپنے گھُٹنے پر کَس جانے والے ریشمی کمبل کو ڈِھیلا کر سکی۔ اُس نے آنکھیں موند لیں۔ خرنوف نے نیند میں گہری غرّاہٹ بھری اور اپنا ایک بازو اُٹھایا۔ بازو دوبارہ نیچے یوں گِر گیا جیسے وہ بے جان ہو۔ نتاشا نے دِھیرے سے خود کو اُٹھایا اور موم بتّی کو پھُونک ماری۔ اُس کی نظروں کے سامنے رنگ برنگے دائرے ناچنے لگے۔

اُس نے بستر میں مُنہ دبا کر ہنستے ہُوئے سوچا کہ میں حیرت انگیز محسوس کر رہی ہوں۔ اب وہ مڑی تڑی لیٹی ہُوئی تھی اور خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہی تھی۔ اُس کے ذہن میں آنے والے خیالات بجلی کی کوند کی طرح تھے جو آرام سے پھیل اور پھِسل رہے تھے۔ وہ سونے ہی کو تھی کہ اُس کی نیند ایک گہری اور ہیجان زدہ چیخ ٹوٹ گئی۔

’’ڈیڈی، کیا بات ہے؟‘‘ اُس نے میز ٹٹول کر موم بتّی روشن کی۔

خرنوف بستر پر بیٹھا تگ و دو سے سانس لے رہا تھا۔ اُس کی اُنگلیوں نے قمیص کا کالردبوچ رکھا تھا۔ چند منّٹ پہلے وہ جاگ گیا تھا۔ اُس نے غلطی سے پاس پڑی کُرسی پر رکھی گھڑی کے روشن ڈایل کو بندوق کی نالی سمجھ لیا تھا جو اُس پر تنی ہُوئی تھی۔ وہ ہِلنے کی ہمّت کیے بغیر گولی کا منتظر رہا۔ پھر اُس کا اختیار نہیں رہا اور وہ چیخنے لگا۔ اب وہ اپنی بیٹی کی طرف آنکھیں جھپکاتے ہُوئے جھینپی ہُوئی مسکراہٹ لیے دیکھ رہا تھا۔

’’ڈیڈی، پُرسکون رہیں۔ کچھ نہیں ہے۔‘‘

اُس نے ننگے پاؤں نرمی سے فرش پر گھسیٹے، تکیوں کو سیدھا کیا اور اُس کی بھَوں کو چھُو کر دیکھا جو پسینے سے چپچپی اور ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ گہری سانس لیتے ہُوئے وہ اب بھی دورے سے کانپ رہا تھا۔ اُس نے دِیوار کی سمت رُخ کیا اور بُڑبُڑانے لگا: ’’وہ تمام کے تمام، سب… اور میں بھی۔ یہ عفریّت ہے۔ نہیں، تمھیں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

وہ اِس طرح سو گیا جیسے بے ہوشی کے پاتال میں گِر گیا ہو۔

نتاشا دوبارہ لیٹ گئی۔ کاؤچ بھی گُومڑ بن گیا تھا۔ سپرنگ کبھی اُس کی پسلیوں میں تو کبھی کندھوں پر چبھے لیکن آخر وہ پُرسکون ہو گئی اور واپس بار بار ٹُوٹ جانے والے حیرت انگیز خواب میں تیرنے لگی جسے وہ اب محسوس کر رہی تھی لیکن وہ زیادہ دیر یاد رہنے والا نہیں تھا۔ پھر وہ صبح ہوتے ہی دوبارہ اُٹھ گئی۔ اُس کا والد اُسے پُکار رہا تھا۔

’’نتاشا، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے پانی دو۔‘‘

آہستہ آہستہ اُس کی غنودگی میں ہلکی نِیلی صبح بھرنے لگی۔ اُس نے واش بیسن پر جا کر صراحی میں پانی بھرا۔ خرنوف نے جی بھر کے پانی پیا۔ وہ بولا: ’’اگر میں کبھی واپس نہ آیا تو یہ بہت خطرناک ہو گا۔‘‘

’’ڈیڈی، آپ سو جائیں۔ تھوڑی اَور نیند لینے کی کوشش کر یں۔‘‘

نتاشا نے اپنی فلالین کی عبا کی ڈوریاں باندھیں اور باپ کے بستر کی پائینتی خاموشی سے بیٹھ گئی۔ اُس نے اپنے الفاظ متعدّد بار دھرائے۔ ’’یہ بہت خطرناک ہے۔‘‘ اور پھر خوف زدہ کر ڈالنے والے انداز میں مُسکرانے لگا۔

’’نتاشا، مجھے تصوّر رہتا ہے کہ جیسے میں اپنے گاؤں میں پھِر رہا ہوں۔ تمھیں لکڑی چِیرنے والے کارخانے کے پاس دریا کے قریب وہ جگہ یاد ہے؟ وہاں جانا بہت مشکل ہے۔ تم جانتی ہو—  وہاں ہر طرف بُرادہ اُڑ رہا ہوتا ہے۔ بُرادے اور رَیت میں میرے پاؤں دھنس جاتے ہیں۔ مجھے گُدگُدی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ جب ہم بیرونِ ملک گئے تھے…‘‘ اُس نے بھنویں چڑھائیں۔ وہ اپنے اُلجھے ہُوئے خیالات کا تعاقب کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

نتاشا نے غیر معمولی طور پر صاف یاد کیا کہ وہ اُس وقت کیسے دِکھائی دیتے تھے۔ اُس کی صاف ستھری چھوٹی داڑھی، نرم چمڑے کے خاکستری دستانے، چوخانہ سفری ٹوپی، جو اسفنج رکھنے والی تھیلی کی طرح دِکھائی دیتی تھی، یاد آئی… اچانک اُسے احساس ہُوا کہ وہ رو ہی دینے والی تھی۔

’’ہاں۔ ایسا ہی ہے۔‘‘ خرنوف نے صبح کے دُھندلکے میں لاپروائی سے دیکھتے ہُوئے چبا چبا کر کہا۔

’’ڈیڈی، تھوڑا سا اَور سو جائیں۔ مجھے سب یاد ہے۔‘‘

اُس نے بے ڈھب پن سے تھوڑا سا پانی لیا، اپنا مُنہ دھویا اور واپس تکیے پر دراز ہو گیا۔ صحن سے ایک مُرغ کی دِل دھڑکانے والی میٹھی بانگ سُنائی دی۔

۳  )

اگلے روز تقریباً گیارہ بجے وُولف نے خرنوف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کمرے میں گُونج پیدا کرتی ہُوئی کچھ رکابیاں کھنکھنائیں اور نتاشا کے ہنسنے کی آواز آئی۔ ایک لمحے بعد اُس نے ہال میں داخل ہو کر احتیاط سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا۔

’’میں بہت خوش ہوں—  والد صاحب آج بہت بہتر ہیں۔‘‘ وہ ایک سفید بلاؤز اور ہلکا پِیلگوں سکرٹ پہنے ہُوئے تھی جس کے بٹن اُس کے کُولہوں پر تھے۔ اُس کی کھنچی ہُوئی لمبی آنکھیں مسرت سے دمک رہی تھیں۔ ’’بہت مضطرب رات تھی۔‘‘ اُس نے تیزی سے بات جاری رکھی۔ ’’اور اب وہ مکمل طور پر پُرسکون ہو چکے ہیں۔ اُن کا درجہ حرارت نارمل ہے۔ حتّٰی کہ انھوں نے اب بستر سے اُٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اُنھوں نے ابھی غسل بھی لیا ہے۔‘‘

’’آج باہر دھوپ نکلی ہے۔‘‘ وُولف نے پراسرار انداز میں کہا۔ ’’ میں کام پر نہیں گیا۔‘‘

وہ اَدھ روشن ہال میں دِیوار کے ساتھ لگے کھڑے تھے۔ اُنھیں بات نہیں سوجھ رہی تھی۔

’’نتاشا، تم جانتی ہو کیا؟‘‘ وُولف نے دِیوار سے ہٹتے ہُوئے سلوٹیں پڑے ہُوئے پاجامے کی جیبوں میں اپنے بڑے بڑے ہاتھ ٹھونستے ہُوئے جرأت کی۔ ’’آج ہم دیہی علاقے کی سیر کو چلیں۔ چھے بجے تک لوٹ آئیں گے۔ تم کیا کہتی ہو؟‘‘

’’میں والد صاحب کو تنہا کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔ جب کہ وہ ابھی…‘‘

وُولف اچانک بہت ہی خوش ہو گیا۔

’’نتاشا، میری جان، براہِ مہربانی— آؤ چلیں۔ تمھارے والد آج بالکل ٹھیک ہیں۔ ہیں نا؟ اور پھر اگر انھیں کوئی ضرورت پڑی تو مکان مالکہ بھی قریب ہی ہوتی ہے۔‘‘

’’ہاں، یہ تو ٹھیک ہے۔‘‘ نتاشا دِھیمے لہجے میں بولی۔ ’’مَیں اُنھیں بتا دوں۔‘‘

وہ سکرٹ لہراتی ہُوئی مُڑ کر کمرے میں داخل ہو گئی۔

بغیر کالر کا مکمل لباس زیب تن کیے ہُوئے خرنوف ناتوانی سے میز پر کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔

’’نتاشا، نتاشا، تم کل اخبار لانا بھُول گئیں…‘‘

نتاشا چولہے پر چائے بنانے میں مصروف تھی۔

’’ڈیڈی، آج میں دیہی علاقے کی سیرکو جانا چاہتی ہوں۔ وُولف نے مجھے دعوت دی ہے۔‘‘

’’ضرور پیاری، تمھیں ضرور جانا چاہیے۔‘‘ خرنوف نے جواب دیا اور اُس کی آنکھوں کے نِیلگوں سفید حِصّے آنسوؤں سے بھر گئے۔ ’’ میرا یقین کرو، آج میں بہت بہتر ہوں۔ بس اگر یہ منحوس کمزوری نہ ہوتی تو…‘‘

جب نتاشا چلی گئی تو اُس نے دوبارہ کمرے میں ٹوہنا شروع کر دیا۔ وہ اب بھی کچھ تلاش کر رہا تھا— ہلکی سی غرّاہٹ بھری آواز کے ساتھ وہ کاؤچ کی طرف گیا۔ اُس نے اُس کے نیچے جھانکا… وہ فرش پر مُنہ کے بل گِر گیا اور متلی آور چکّر کے ساتھ وہیں پڑا رہا۔ آہستہ آہستہ، بہ دِقّت تمام وہ دوبارہ اپنے قدموں پر واپس قائم ہُوا۔ بہ مشکل اپنے بستر پر پہنچا اور لیٹ گیا… اور اُسے محسوس ہُوا کہ وہ کسی پُل کو پار کر رہا تھا، کہ وہ لکڑی کے کارخانے کی آواز سُن رہا تھا، کہ درختوں کےپیلے تنے پانی پر تیر رہے تھے، کہ اُس کے پیر گِیلے بُرادے میں دھنس رہے تھے، کہ دریا کی سمت سے آنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہَوا اُسے بار بار اپنی طرف بُلا رہی تھی۔

۴  )

’’ہاں — میرے تما سفر—  اوہ، نتاشا۔ مجھے بعض اوقات محسوس ہُوا جیسے میں دیوتا ہوں۔ میں نے سیلون میں ’سایوں کا محل‘ دیکھا اور مڈغاسکر میں زمرّدیں رنگ کے ایک چھوٹے پرندے کا شکار کیا۔ وہاں کے مقامی لوگ ریڑھ کی ہڈّی کے مہروں سے بنائے گئے ہار پہنتے تھے اور رَات کو ساحلِ سمندر پر اتنا عجیب گاتے تھے جیسے گیدڑ موسیقی گا رہے ہوں۔ میں تماتیو (Tamatave) کے قریب ہی، جہاں زمین سُرخ ہے اور آسمان گہرا نِیلا، ایک خیمے میں رہتا تھا۔ میں اُس سمندر کو بیان نہیں کر سکتا۔‘‘ وُولف صنوبر کے پھل کو آہستگی سے اُچھالتا ہُوا خاموش ہو گیا۔ پھر اُس نے اپنا پھُولا ہُوا ہاتھ مُنہ پر پھیرا اَور قہقہہ لگایا۔ ’’اور یہاں میں ایک ایک پیسے سے تنگ ہوں۔ یہ شہر یورپ کا سب سے بدحال شہر ہے۔ میں آرام طلبوں کی طرح روز دفتر جا کر بیٹھ جاتا ہوں اور رَات کو ٹرکوں کے اڈّے سے روٹی اور ساسیج کھا لیتا ہوں۔ لیکن ایک وقت تھا— ‘‘

نتاشا کہنیوں کو پھیلائے اُس کے پیٹ پر لیٹی صنوبر کی دمکتی ہُوئی شاخوں کو دیکھ رہی تھی جو فیروزی بلندی تک پھیلی ہُوئی تھیں۔ اُس نے آسمان پر نظر ڈالی تو اُس کی آنکھوں میں نقطے گھُومنے، چمکنے اور بِکھرنے لگے۔ کوئی چیز، جو سنہری سی تھی، بار بار صنوبر کے ایک درخت سے دُوسرے پر چھلانگیں لگا نے لگی۔

اُس کے ساتھ ڈِھیلے سُوٹ میں مُنڈا ہُوا سر جھکائے آلتی پالتی مارے بیٹھا بارن وُولف ابھی تک صنوبر کا پھل اُچھال رہا تھا۔ نتاشا نے آہ بھری۔

’’زمانۂ وسطیٰ میں مجھے بَلّی پر چڑھا کے جلا دیا جاتا یا پھر مقدّس قرار دے دیا جاتا۔‘‘ وہ صنوبر کی بلند شاخوں کو دیکھتے ہُوئے بولی۔ ’’مجھے بعض اوقات عجیب عجیب خیال آتے ہیں۔ تب میں بے وزن ہو جاتی ہوں— موت، زندگی، ہر شے— ایک دفعہ جب میں تقریباً دس برس کی تھی۔ میں کھانے کے کمرے میں بیٹھی کوئی تصویر بنا رہی تھی۔ میں تھک گئی تو میں نے سوچنا شروع کر دیا۔ اچانک جیسے برق رفتاری سے ایک عورت ننگے پاؤں، پھیکےنیلے رنگ کے کپڑے پہنے اور بھاری پیٹ لیے اندر آئی۔ اُس کا مُنہ چھوٹا، پتلا اور زرد تھا۔ اُس کی آنکھوں سے غیر معمولی شرافت اور پُراسراری ٹپکتی تھی۔ میری طرف دیکھے بغیر وہ میرے پاس سے تیزی سے گُزری اور اگلے کمرے میں غائب ہو گئی۔ مجھے کوئی خوف نہیں آیا۔ کسی وجہ سے میں نے خیال کیا کہ وہ فرش دھونے آئی تھی۔ وہ عورت مجھے دوبارہ کبھی نہیں ملی۔ لیکن کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون تھی؟ کنواری مریم…‘‘

وُولف مُسکرایا۔ ’’نتاشا، کیا چیز تمھیں ایسا سوچنے پر مجبور کرتی ہے؟‘‘

’’میں جانتی ہوں۔ پانچ برس بعد وہ میرے خواب میں آئی۔ اُس نے ایک بچّہ اُٹھایا ہُوا تھا۔ اُس کے پیروں پر کربی فرشتے کہنیوں کے بل دراز تھے بالکل ویسے ہی جیسے رافیل کی مصوّری میں دِکھائے گئے ہیں۔ صرف وہی زندہ تھے۔ اِس کے علاوہ مجھے کچھ دُوسرے نہایت مختصر خیال بھی آتے ہیں۔ جب وہ والد صاحب کو اُٹھا کر ماسکو لے گئے اور میں گھر میں اکیلی رہ گئی تب وہ واقعہ ہُوا تھا: ڈیسک پر کانسی کی ایک چھوٹی گھنٹی پڑی تھی بالکل ویسی ہی جیسی ٹِیرول (Tyrol) میں لوگ گایوں کو باندھتے ہیں۔ اچانک وہ ہَوا میں بلند ہو کر بجنے لگی اور پھر نیچے گِر گئی۔ کیا معجزہ تھا! اُس کی آواز خالص تھی۔‘‘

وُولف نے اُسے عجیب نظروں سے دیکھا۔ پھر اُس نے صنوبر کے پھل کو دُور پھینکا اور سرد ٹھس آواز میں بولا: ’’نتاشا، میں تمھیں ایک بات بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ تم جانتی ہو کہ میں کبھی افریقہ یا بھارت میں نہیں رہا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ اب میں تقریباً تیس برس کا ہوں لیکن رُوس کے دو تین شہروں، درجن بھر گاؤوں اور اِس نامُراد ملک کے علاوہ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ براہِ مہربانی، مجھے معاف کر دو۔‘‘ وہ حزنیہ انداز میں مُسکرایا۔ اُسے اچانک ہی اُن پُرشکوہ تخیلات پر رحم محسوس ہُوا جنھیں وہ بچپن سے پالتا چلا آرہا تھا۔

 موسمِ خزاں خشک اور گرم تھا۔ جب صنوبر کی اُونچی شاخیں ہِلتیں تو وہ محض چرچرا کر رہ جاتے۔

’’چیونٹی۔‘‘ نتاشا اپنا زیر جامہ اور سکرٹ اُٹھاتے ہُوئے بولی۔ ’’ہم چیونٹیوں پر بیٹھے ہیں۔‘‘

’’کیا تم مجھ سے بہت نفرت کرتی ہو؟‘‘ وُولف نے پوچھا۔

وہ ہنس پڑی۔ ’’بے وقوف مت بنو۔ ہم ایک جیسے ہیں۔ ہر بات جو میں نے تمھیں بتائی میرے تخیلات تھے، کنواری مریم اور چھوٹی گھنٹی تخیّل ہی کا کرشمہ ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ ایک روز یہ سب ختم ہو جائے گا اور اُس کے بعد قدرتی طور پر میرا گُمان ہو گا کہ یہ سب حقیقتاً ہُوا تھا…۔‘‘

’’بس یہی بات ہے۔‘‘ وُولف شگفتہ چہرے کے ساتھ بولا۔

’’مجھے اپنے سفروں کے بارے میں کچھ اَور بتاؤ۔‘‘ نتاشا نے پوچھا ۔ اُس کے لہجے میں طنز کی رمق تک نہیں تھی۔

وُولف نے عادتاً اپنا ٹھوس سگار کیس نکالا۔ ’’ جو آپ کا حکم۔ ایک مرتبہ جب میں بادبانی جہاز پر بَورنیو سے سُماترا جا رہا تھا…‘‘

۵  )

جھیل کی طرف ایک ہموار ڈھلان جاتی تھی۔ لکڑی کی جیٹی کے ستون پانی میں بھُورے دائروں کی طرح منعکس ہو رہے تھے۔ جھیل سے پرے وہی سیاہ صنوبروں والا جنگل تھا لیکن ہر طرف سفید تنے اوربرج کے پتّوں کا کُہرا دِکھائی پڑتا تھا۔ گہرے فیروزی پانی میں بادلوں کے عکس تیر رہے تھے۔ نتاشا کو اچانک ہی لیوی ٹان (Levitan) کی منظر کشی والی تصویریں یاد آگئیں۔ اُسے گُمان گُزرا کہ رُوس میں ہیں کہ وہاں ہی ایسی اُچھل کُود والی خوشی گلا پکڑتی ہے اور وہ خوش تھی کہ وُولف اِس قدر معجزاتی حماقتیں بیان کر رہا تھا۔ وہ اپنی غیر اہم باتوں کے ساتھ ساتھ جھیل میں مسطح پتھّر پھینک رہا تھا جو طلسماتی انداز میں پانی پر پھسلتے اور اُچھلتے جاتے تھے۔ ہفتے کے اِس دِن میں وہاں لوگ نظر نہیں آرہے تھے۔ بس کبھی کبھار کوئی بلند آہنگ آواز یا قہقہہ سُنائی دے جاتا تھا۔ جھیل میں ایک سفید پَر تیر رہا تھا— جیسے وہ بجرا ہو۔ وہ دیر تک ساحل پر سیر کرتے اور پھِسلواں ڈھلان پر دوڑتے رہے۔ اُنھیں ایک پگڈنڈی ملی جہاں رَس بھری کی جھاڑیاں ناگوار مہک چھوڑ رہی تھیں۔ تھوڑا آگے جا کر جھیل کے دائیں طرف ایک کیفے تھا جو ویران پڑا تھا۔ وہاں نہ تو کوئی بیرا تھی اور نہ ہی کوئی گاہک نظر آتا تھا جیسے کہیں آگ لگ گئی ہو اور وہ پلیٹیں اور مَگ اُٹھا کر اُسے دیکھنے ساتھ لے گئے ہوں۔ وُولف اور نتاشا نے کیفے کے گِرد چکّر لگایا اور پھر خالی میز پر بیٹھ کر یُوں ظاہر کرنے لگے جیسے وہ کھا پی رہے ہوں اور آرکسٹرا نے موسیقی چھیڑ رکھی ہو۔ جب وہ مذاق کر رہے تھے تو نتاشا کو اچانک محسوس ہُوا جیسے اُس نے واقعی سنگترا رنگ کی ہَوائی موسیقی کی آواز صاف سُنی ہو۔ پھر وہ ایک اَسرار بھرا تبسم لیے اُٹھی اور ساحل کے ساتھ دُور بھاگ گئی۔ بارن وُولف بڑی مشکل سے اُس کے پیچھے دوڑا۔ ’’ٹھیرو نتاشا، ہم نے ابھی ادائیگی نہیں کی ہے۔‘‘

بعد میں اُنھوں نے سبز سیب جیسا ایک مرغزار دیکھا جس کے چاروں طرف سیج کے پودوں کی باڑ تھی، جس میں سورج نے پانی کو سیال سونا بنا رکھا تھا۔ نتاشا نے اپنی ناک سکیڑتے اور پھُلاتے ہُوئے متعدّد بار دُھرایا: ’’میرا خدا، کتنا خُوب صُورت نظارہ ہے…‘‘

جواب نہ پا کر وُولف کو دُکھ محسوس ہُوا اَور وہ خاموش ہو گیا۔ عریض جھیل پر اُس ہَوادار، روشن لمحے میں ایک خاص اُداسی گاتے ہُوئے بھونرے کی مانند گُزری۔

نتاشا پیشانی پر بَل لاتے ہُوئے بولی۔ ’’ پتا نہیں کیوں مجھے محسوس ہُوا ہے جیسے والد صاحب کی طبیعت دوبارہ بہت خراب ہو گئی ہے۔ شاید مجھے اُنھیں چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا۔‘‘

وُولف کو بُوڑھے کی پتلی ٹانگیں یاد آئیں کہ جب وہ بستر پر لیٹا تھا تو اُن پر روئیں اور چمک تھی۔ اُس نے سوچا کہ کیا ہو گا اگر وہ واقعی آج مر گیا ؟

’’ایسا مت کہو، نتاشا… اب وہ ٹھیک ہیں۔‘‘

’’میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ اُس نے کہا اور اُس کے چہرے پر دوبارہ خوشی لوٹ آئی۔

’’میں کیسا خواب دیکھتا ہوں۔ نتاشا، میں کیسا خواب دیکھتا ہوں۔‘‘ وہ بجنے والی ایک چھڑی ہِلاتے ہُوئے کہہ رہا تھا۔ ’’کیا میں جھوٹ بول رہا ہوتا ہوں جب میں اپنے تخیلات کو حقیقت بنا کر بیان کرتا ہوں؟ بمبئی میں میرا ایک دوست تھا جو تین سال تک میری خدمت کرتا رہا تھا۔ میرے خدا! جغرافیائی ناموں کی موسیقیت! اِس اکیلے لفظ میں کچھ عظمت ہے، دھوپ کے بم۔ تصوّر کرو، نتاشا… میرا وہ دوست بات چیت سے قاصر تھا۔ اُسے کام سے متعلق جیسے حرارت، بخار اور کسی برطانوی کرنل کی بیوی جیسے فضول جھگڑوں کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا تھا۔ درحقیقت ہم میں سے کون بھارت گیا ہے؟…۔ ظاہر ہے… بے شک، مَیں۔ بمبئی، سنگاپور… مثال کے طو پر مجھے یاد آتا ہے…۔

نتاشا جھیل کے بالکل کنارے پر چل رہی تھی کہ بڑی لہریں اُس کے پیروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ جنگل سے پرے ریل گاڑی گُزری جیسے وہ موسیقی کے آلے کی تار پر سفر کر رہی ہو۔ وہ دونوں اُس کی آواز سُننے کے لیے رُک گئے۔ دِن قدرے سنہرا اَور خوشگوار ہو گیا تھا۔ جھیل سے دُور واقع جنگل اب نِیلگوں نظر آرہا تھا۔ ریلوے سٹیشن کے پاس سے وُولف نے آلو بخاروں کا ایک لفافہ خریدا لیکن وہ کھٹّے نکلے۔ گاڑی کے ڈبّے میں بیٹھ کر اُس نے اُنھیں کھڑکی کے راستے وقفے وقفے سے باہر پھینکا اور اِس بات پر افسوس کرتا رہا کہ اُس نے کیفے سے بیئر کے مَگوں کے نیچے رکھنے والی گتّے کی ٹکڑیاں چُرا کیوں نہیں لیں۔

’’نتاشا، وہ پرندوں کی طرح فضا میں بہت خُوب صُورتی سے اُڑتی ہیں۔ اُنھیں دیکھنے میں لطف آتا ہے۔‘‘

نتاشا تھک گئی تھی۔ وہ اپنی آنکھیں سختی سے بند کرتی اور پھر دوبارہ بند کرتی جیسے وہ رات کے سمے میں ہو۔ اُس پر غنودگی بھرے ہلکے پن کا احساس غالب آکر اُسے اُونچا اُڑا لے جاتا۔

’’جب میں والد صاحب کو ہماری باہر کی باتیں بتاؤں گی۔ براہِ مہربانی مجھے ٹوکو مت، نہ میری تصحیح کرو۔ میں اُنھیں اُن چیزوں کے بارے میں اچھی طرح بتا سکتی ہوں جو ہم نے قطعاً نہیں دیکھیں۔ مختلف چھوٹے چھوٹے معجزے۔ وہ سمجھ جائیں گے۔‘‘

جب وہ شہر پہنچے تو اُنھوں نے پیدل چلنے کا فیصلہ کیا۔ بارن وُولف کم گو ہو گیا تھا اور گاڑیوں کے ہارنوں پر اُس کہ مُنہ بن گیا تھا۔ جب کہ نتاشا یوں دِکھائی دیتی تھی جیسے ہَوا اُسے دھکیل رہی ہو، جیسے تھکن نے اُسے بحال رکھا ہو اور اُسے پر لگا کر ہلکا پھلکا کر دیا ہو ۔ وُولف سارے کا سارا شام کی طرح نِیلا پڑا ہُوا تھا۔ اپنے گھر کے قریب پہنچ وُولف ٹھیر گیا لیکن نتاشا آگے نکل گئی۔ پھر وہ بھی رُک گئی۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ کندھے اُچکاتے ہُوئے ہاتھ اپنے ڈِھیلے پاجامے کی جیبوں میں اندر تک گھسیڑتے ہُوئے وُولف نے بیل کی طرح اپنا ہلکا نِیلا سر نیچے جھکا لیا۔ آس پاس دیکھتے ہُوئے اُس نے کہا کہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے۔ پھر وہ تیزی سے مُڑ کر اُس سے دُور ہُوا اَور تمباکو کی دُکان میں داخل ہو گیا۔

نتاشا تھوڑی دیر ٹھیری رہی جیسے ہَوا نے اُسے باندھ لیا ہو۔ پھر وہ آہستہ خرامی سے اپنے گھر کی طرف چلنے لگی۔ اُس نے سوچا کہ یہ بات بھی والد صاحب کو بتاؤں گی۔ وہ مسرت کے نِیلے کُہرے میں آگے بڑھتی گئی۔ ہِیروں کی مانند سٹریٹ لیمپس روشن ہونے لگے تھے۔ اُسے محسوس ہُوا کہ وہ کمزور پڑ رہی تھی۔ گرم گرم لہریں خاموشی سے اُس کی ریڑھ کی ہڈّی پر رینگ رہی تھیں۔ جب وہ گھر کے نزدیک پہنچی تو اُس نے اپنے والد کو سیاہ جیکٹ پہنے، ایک ہاتھ سے بغیر بٹنوں کی قمیص کا گلا تھامے اور دُوسرے سے چابیاں گھُماتے ہوئے دیکھا۔ وہ جلد بازی سے باہر آیا تھا۔ رات کی دُھند میں وہ قدرے جھکا ہُوا تھا۔ اُس کا رُخ اخباروں والے ٹھیلے کی طرف تھا۔

’’ڈیڈی۔‘‘ اُس نے پُکارا اَور اُس کے پیچھے لپکی۔ وہ سڑک کے کنارے پر رُک گیا اور سر موڑ کر اُس نے اُس کی طرف اپنے خاص مکّارانہ تبسم کے ساتھ دیکھا۔

’’ میرے بھُورے بالوں والے ننّھے بچّے، آپ کو باہر نہیں آنا چاہیے تھا۔‘‘ نتاشا نے کہا۔

اُس کے والد نے دُوسری طرف مُنہ موڑ لیا اور نرمی سے بولا: ’’میری لاڈلی، آج اخبار میں کچھ افسانوی چیز ہے۔ بس میں پیسے گھر بھُول آیا ہوں۔ کیا تم اُوپر جا کر پیسے لا سکتی ہو؟ میں یہیں پر انتظار کروں گا۔‘‘

اُس نے اپنے باپ کے پاس سے گُزر کر دروازہ دھکیلا۔ وہ اُس وقت بہت خوش تھی کہ وہ اتنا بذلہ سنج ہو رہا تھا۔ اُس نے پھُرتی سے سیڑھیاں ہَوا کی طرح ہلکی ہو کر چڑھیں جیسے وہ نیند میں ہو۔ اُس نے جلدی ہال پار کیا۔ اُنھیں وہاں میرے انتظار میں کھڑے کھڑے لگ سکتی ہے…۔

کسی وجہ سے ہال کی بتّی روشن تھی۔ نتاشا اپنے دروازے پر پہنچی۔ اُسی وقت اُس نے اپنے پیچھے دھیمی باتوں کی سرگوشی سُنی۔ اُس نے تیزی سے دروازہ کھولا۔ میز پر پڑا مٹّی کے تیل کا دِیا گہرا دھواں چھوڑ رہا تھا۔ مکان مالکہ، ایک خادمہ اور ایک ناآشنا شخص نے بستر تک جانے رسائی مسدود کر رکھی تھی۔ جب نتاشا اندر داخل ہُوئی تو وہ سب مُڑے اور مکان مالکہ چیخ مار کر اُس کی طرف دوڑی…۔

تب اُسے معلوم ہُوا کہ اُس کا والد بستر پر پڑا تھا۔ وہ ویسا دِکھائی نہیں دیتا تھا جیسا اُس نے ابھی کچھ دیر قبل دیکھا تھا بلکہ وہاں مومی ناک والا ایک بُوڑھا تھا۔

:::

Authors

  • Natasha- Vladimir Nabokov -Urdu- Translations-تراجم (Author)

    ولادی مِیر نابو کوف، سینٹ پیٹرز برگ کے ایک دولت مند اور شاہانہ زندگی بسر کرنے والے خاندان میں پیدا ہُوا۔ اُس کا والد ولادی مِیر دِمتری وِچ نابو کوف ایک آزاد خیال سیاست دان، قانون دان اور صحافی تھا۔ اُس کی والدہ کانام اینگلو فائل تھا۔ نابو کوفرُوسی اور انگریزی اور رُوسی زبانیں جانتا تھا اور اُس نے اِن دونوں زبانوں میں لکھا۔ پانچ برس کی عمر میں اُس نے پانچ برس کی عمر میں فرانسیسی سیکھی۔ نابو کوف نے تعلیم تینی شیو سے حاصل کی جس میں سینٹ پیٹرز برگ کا سب سے زیادہ جدید طریقہ تعلیم مروج تھا۔ سولہ برس کی عمر میں اُسے اپنے والد کے بھائی کی طرف سے بڑا ترکہ وراثت میں ملا لیکن اُسے اُس دولت سے لطف اُٹھانے کا زیادہ وقت نہیں ملا۔ رُوسی انقلاب کے دوران اُس کے والد کو مختصر عرصے کے لیے گرفتار کر لیا گیا۔ اُس کا خاندان برلن ہجرت کر گیا اور نابوکوف نےٹرینِٹی کالج میں داخلہ لے لیا جہاں سے اُس نے ۱۹۲۳ء میں گریجوایشن کی۔ ۱۹۲۲ء میں ایک رُوسی شہنشاہیت پرست نے اُس کے والد وِلادی مِیر دِمتری وِچ کو قتل کر دیا۔ نابو کوف نے پندرہ برس برلن میں بسر کیے۔ وہ وہاں بطور مترجم، اُستاد اور ٹینس کوچ کے کام کرتا رہا۔ ۱۹۳۲ء تا ۱۹۳۷ء کا عرصہ اُس نے اپنی بیوی اور بیٹے کے ہمراہ وِلمرز ڈورف میں ۲۲۔نستورز ٹراسے میں بسر کیا۔ نابوکوف نے ۱۹۲۴ء میں یہودی خاتون ویرا اِیوسِینا سلونم سے کی تھی۔ اُن کا ایک ہی بیٹا تھا: دِمتری۔ جب ہٹلر نے اُس کے والد کے قاتل کو رہا کر دیا تو نابو کوف نے ۱۹۳۷ء میں پیرس کا رُخ کیا جہاں اُس کی ملاقات آئرش ناول نگار جیمز جوائس سے ہُوئی۔ تین برس بعد وہ قرض پکڑ کے اپنی بیوی اور بیٹے کے ہمراہ امریکا چلا گیا۔ امریکا میں نابوکوف ویلزلے کالج اور کارنیل یونیورسٹی میں پڑھایا اور فلابرٹ، جوائس، ترجینو، ٹالسٹائی اور دُوسرے مصنفین پر پُرمغز لیکچر دیے۔ اُس نے حشریات پر اپنی تحقیقات بھی جاری رکھیں اور تتلیوں پر اتھارٹی کی حیثیت حاصل کی۔ اُس کے پاس ہاورڈ یونیورسٹی کے شعبۂ مقابلاتی زوالوجی میں بھی عہدہ دار رہا۔ اُس کی یہ ملازمت ۱۹۴۸ء کو ختم ہُوئی۔ نابوکوف کے قارئین کی اکثریت رُوسی مہاجرین کی تھی۔ رُوس میں اُس کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی اور اُنھیں نظر انداز کر دیا گیا۔ اپنی ابتدائی تحریروں میں نابوکوف نے موت، وقت کے بہاؤ اور کھو دینے کے احساس کو برتا ہے۔ نابو کوف کے موضوعات، جن میں پہلے ہی سے مشکل استعارات استعمال ہوتے تھے، بعد میں مزید پیچیدہ ہوتے چلے گئے۔ وہ شطرنج کا ایک اچھا کھلاڑی تھا اور قاری کو اپنے کھیل میں شریک ہونے کا چیلنچ کرتا تھا۔ ’’قارئین بھیڑیں نہیں ہیں۔‘‘ اُس نے ایک بار ایک ناشر کو لکھا۔ ’’اور نہ ہی ہر قلم اُنھیں بہکا سکتا ہے۔‘‘ بحیثیت مصنف کے نابو کوف نے پہلی ادبی کامیابی ہینے کے کچھ گِیتوں کے تراجم سے حاصل کی۔ نابو کوف نے اپنا پہلا ناول۱۹۲۶ء میں رُوس میں لکھا۔ نابو کوف کے ابتدائی نو ناول اُس نے ولادی مِیرسیرِن کے قلمی نام سے لکھے۔ اٹلانٹک اور نیویارکر نے ۱۹۴۰ء کے آغاز میں اُس کے مختصر افسانے شائع کرنا شروع کیے۔ جب آسٹریلوی مصنف اور نقاد اینڈریو فیلڈ نے نابوکوف کی سوانح عمری لکھنے کا ارادہ کیا تو نابو کوف نے اُسے جواب دیا : ’’مَیں نے اپنے متعلق ہر شے اپنی کتاب ’’بولو، یادداشت‘‘ میں بیان کر دی ہے اور یہ کوئی خوشگوار تصویر نہیں ہے۔ مَیں اِس کتاب میں ایک قیمتی شخص کی حیثیت میں ظاہر ہُوا ہوں۔ اِس میں شطرنج اور تتلیوں کے بارے میں سب کچھ بیان کر دیا ہے جو زیادہ دلچسپ نہیں ہے۔‘‘ یہ کتاب پہلے ۱۹۵۱ء میں ’’حتمی شہادت‘‘کے عنوان سے شائع ہُوئی جو نابوکوف کی آپ بیتی ہے جس کی نظرثانی شدہ کتاب ’’بولو، یادداشت‘‘ کے نام سے ۱۹۶۶ء میں طباعت پذیر ہُوئی۔ نابوکوف کے ناول ’’لولیتا‘‘ نے مکمل ہونے میں چھ سال لیے۔ یہ ایک ادبی دھماکا ثابت ہُوا۔ انگریزی مصنف گراہم گرین نے اِسے ۱۹۵۵ء کی بہترین کتابوں میں شمار کیا ہے۔ اگرچہ’’لولیتا‘‘ پر پیرس میں ۵۸۔۱۹۵۶ء کے دوران اور پورے امریکا اور برطانیہ میں ۱۹۵۸ء تک پابندی رہی لیکن اس کی اشاعت کے ساتھ ہی نابو کوف کامیابی کی بہت سی منزلیں ایک ہی جست میں طے کر گیا۔ ’’لولیتا‘‘ ۱۹۳۹ء میں ’’ساحر‘‘ کے نام سے لکھا گیا تھا۔ اِس کا مرکزی کردار ایک ادھیڑ عمر کا شخص ہے جسے ایک بارہ سالہ لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ اُس لڑکی کا قرب پانے کے لیے اُس کی بیمار بیوہ ماں سے شادی کر لیتا ہے۔ ہوٹل رِیورا میں وہ لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے جو کہ سو رہی ہوتی ہے۔ چھیڑ چھاڑ پر لڑکی کی آنکھ کھل جاتی ہے تو بھاگ نکلتا ہے اور ٹریفک کی زد میں آکر مارا جاتا ہے۔ ’’لولیتا‘‘ کے بعد نابوکوف نے پڑھانے کا سلسلہ ترک کر کے خود کو لکھنے کے لیے وقف کر دیا۔ ۱۹۵۹ء سے نابو کوف سوئٹزر لینڈ میں رہنے لگا جہاں مانٹریکس پیلس ہوٹل اُس کی مستقل جائے اقامت تھی۔ اُس نے تتلیوں کو جمع کرنے کا کام بھی جاری رکھا جو اُس کے مرنے کے بعد لوزین کے کینٹونل میوزیم آف زوآلوجی میں رکھی گئیں۔ نابو کوف نے لوزین میں ۲ جولائی ۱۹۷۷ء کو وفات پائی۔ اُس کے بیٹے دِمتری نے گزشتہ اِن کئی برسوں سے اُس کی بہت سے کتابوں کے تراجم کیے ہیں۔ نابو کوف کا سب سے اہم تنقیدی کام نکول گوگول، ۱۹۴۴ء اور الیکساندر پُشکن کی مشہورِزمانہ ’’ Eugene Onegin‘‘، ۱۹۶۴ءپر تبصرے کے ساتھ ہے ۔ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

4 thoughts on “نتاشا”

  1. ولادی میر نابوکوف کا یہ افسانہ ان کی نثر کے مخصوص انداز میں بہت اچھا ہے۔ مترجم نے بھی محنت اور لگن سے ترجمہ کیا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *