یاسوناری کاواباتا کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
خالد فرہاد دھاریوال کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
جاپانی کہانی
مَسّا
یاسوناری کاواباتا
Yasunari Kawabata
ترجمہ: خالد فرہاد دھاریوال
یاسوناری کاواباتا کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
خالد فرہاد دھاریوال کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
جاپانی کہانی
مَسّا
یاسوناری کاواباتا
Yasunari Kawabata
ترجمہ: خالد فرہاد دھاریوال


کل رات مجھے اس مسّے کے بارے میں خواب آیا۔ محض لفظ ’ مسّا‘ کے ذکر سے تم میرا مطلب سمجھ گئے ہو گے۔ کتنی بار تم نے اس مسّے کی وجہ سے مجھے ڈانٹا ہے۔
وہ میرے دائیں کندھے پر ہے یا یوں کہیے کہ میری پشت پر اوپر کی طرف ہے۔
’’یہ پہلے ہی بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اور کھیلو اس سے۔ جلد ہی اس میں سے کونپلیں نکلنے لگیں گی۔‘‘
تم مجھے یہ کہہ کر چھیڑتے، لیکن جیسا کہ تم کہتے تھے، وہ جسامت میں ایک بڑا مسّا تھا، گول اور اُبھرا ہوا۔
بچپن میں بستر پر لیٹی ہوئی میں اپنے اس مسّے سے کھیلتی رہتی۔ جب پہلی بار تم نے اسے دیکھا تو مجھے کتنی شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔
میں روئی بھی تھی اور مجھے تمھارا حیران ہونا یاد ہے۔
’’ سیوکو اسے مت چھوو۔ تم اسے جتنا چھووگی، وہ اتنا ہی بڑا ہوتا جائے گا۔‘‘ میری ماں بھی مجھے اسی وجہ سے اکثر ڈاٹتی تھی۔ میں ابھی چھوٹی ہی تھی۔ بعد میں اپنے مسّے کو میں اکیلے میں ہی چھوتی۔ یہ میری عادت بن گئی، حالانکہ میں جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتی تھی۔
جب تم نے پہلی بار اس پر غور کیا تب بھی میں چھوٹی ہی تھی، حالانکہ میں آپ کی بیوی بن چکی تھی۔ پتہ نہیں تم، ایک مرد، کبھی یہ سمجھ پاؤ گے کہ میں اس کے لیے کتنی شرمندہ تھی، لیکن دراصل یہ شرمندگی سے بھی کچھ زیادہ تھا۔ یہ ڈراونا ہے میں سوچتی۔ اصل میں مجھے تب شادی بھی ایک خوفناک چیز لگتی تھی۔
مجھے لگا تھا کہ میرے تمام راز ظاہر ہو گئے ہیں،جیسے تم نے بھید کی سب تہیں ایک ایک کر کے ادھیڑ دی ہیں۔ وہ راز، جن سے میں بھی ناواقف تھی۔ اور اب میرے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں بچی تھی۔
تم آرام سے سو گئے تھے۔ اگرچہ میں نے کچھ راحت محسوس کی تھی، لیکن وہاں ایک تنہائی بھی تھی۔ کبھی کبھی میں چونک اٹھتی اور میرا ہاتھ اپنے ہی مسّے تک پہنچ جاتا۔
’’ اب تو میں اپنے مسّے کو چھو بھی نہیں سکتی۔‘‘میں نے اس کے بارے میں اپنی ماں کو خط لکھنا چاہا، لیکن اس خیال سے ہی میرا چہرہ سرخ ہو جاتا۔
’’مسّے کے بارے میں بیکار میں کیوں فکر مند رہتی ہو؟‘‘ تم نے ایک بار کہا تھا۔ میں مسکرا دی تھی، لیکن اب مڑ کر دیکھتی ہوں تو لگتا ہے کہ کاش، آپ بھی میری عادت سے ذرا محبت کر پاتے۔
میں مسّے کو لے کر اتنی فکر مند نہیں تھی۔ ظاہر ہے، لوگ خواتین کی گردن کے نیچے چھپے مسّے کو نہیں ڈھونڈتے پھرتے۔ اور چاہے مسّا بڑی جسامت کا کیوں نہ ہو، اسے بدنما نہیں مانا جا سکتا۔
تمھیں کیا لگتا ہے، مجھے اپنے مسّے سے کھیلنے کی عادت کیوں پڑ گئی؟ اور میری اس عادت سے تم اتنا چڑتے کیوں تھے؟
’’بند کرو،‘‘ تم کہتے، ’’ اپنے مسّے سے کھیلنا بند کرو۔‘‘ تم نے مجھے نجانے کتنی بار اس کے لئے جھڑکا۔
’’ تم اپنا بایاں ہاتھ ہی کیوں اس کے لیے استعمال کرتی ہو؟‘‘ ایک بار تم نے چڑ کر غصے میں پوچھا تھا۔
’’ بایاں ہاتھ؟‘‘ میں اس سوال سے چونک گئی تھی۔ یہ سچ تھا۔ میں نے اس پر کبھی غور نہیں کیا تھا، لیکن میں اپنے مسّے کو چھونے کے لیے ہمیشہ اپنا بایاں ہاتھ ہی استعمال کرتی تھی۔
’’ مسّا تمھارے دائیں کندھے پر ہے۔ تم اسے اپنے دائیں ہاتھ سے آسانی سے چھو سکتی ہو۔‘‘
’’ اچھا؟‘‘ میں نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا۔ ’’ لیکن یہ عجیب بات ہے۔‘‘
’’ یہ بالکل عجیب نہیں ہے۔‘‘
’’ لیکن مجھے اپنے بائیں ہاتھ سے مسّا چھونا زیادہ قدرتی لگتا ہے۔‘‘
’’ دایاں ہاتھ اس کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
’’دائیں ہاتھ سے مجھے واپس جا کر مسّے کو چھونا پڑتا ہے۔‘‘
’’پیچھے؟‘‘
’’جی ہاں۔ مجھے بازوگردن کے سامنے لانے یا اس طرح پیچھےکرنے،میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہوتا ہے۔‘‘ اب میں چپ چاپ عاجزی سے تمھاری ہر بات پر ہاں میں ہاں نہیں ملا رہی تھی۔ حالانکہ تمھاری بات کا جواب دیتے ہوئے میرے ذہن میں آیا کہ جب میں اپنا بایاں ہاتھ اپنے آگے لائی تو یوں لگا جیسے میں تمھیں پرے ہٹا رہی تھی، گویا میں خود سے معانقعہ کر رہی تھی۔’’میں اس کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کر رہی ہوں۔‘‘ میں نے سوچا۔
میں نے دھیمے لہجے میں پوچھا، ’’ لیکن اس کے لیے بائیں ہاتھ کو استعمال کرنا غلط کیوں ہے؟‘‘
’’ چاہےبایاں ہاتھ ہو یا دایاں، بہرحال یہ ایک بُری عادت ہے۔‘‘
’’ مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’ کیا میں نے تمھیں کئی بار یہ نہیں کہا کہ تم کسی ڈاکٹر کے پاس جا کر اسے نکلوا دو؟‘‘
’’لیکن میں ایسا نہیں کر سکی۔ مجھے ایسا کرتے ہوئے شرم آئے گی۔‘‘
’’یہ تو ایک معمولی بات ہے۔‘‘
’’ اپنا مسّا ہٹوانے کے لیے کون کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے؟‘‘
’’بہت سے لوگ جاتے ہوں گے۔‘‘
’’عین چہرے پر اُگے مسّے کے لیے جاتے ہوں گے، لیکن اپنی گردن کے نیچے اُگے مسّے کو ہٹوانے کے لیے شاید ہی کوئی ڈاکٹر کے پاس جائے گا۔ ڈاکٹر ہنسے گا۔ اسے پتہ لگ جائے گا کہ میں اس کے پاس اس لیے آئی ہوں کیونکہ میرے شوہر کو وہ مسّا پسند نہیں ہے۔ ‘‘
’’ تم ڈاکٹر کو بتا سکتی ہو کہ تم اس مسّے کو اس لیےہٹوانا چاہتی ہو کیونکہ تمھیں اس سے کھیلنے کی بُری عادت ہے۔‘‘
’’میں اسے ہٹوانا نہیں چاہتی۔‘‘
’’ تم بہت اڑیل ہو۔ میں کچھ بھی کہوں تم خود کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہو۔‘‘
’’ میں کوشش کرتی ہوں۔ میں نے کئی بار اونچے کالر والے کپڑے بھی پہنے تاکہ میں اسے نہ چھو سکوں۔‘‘
’’ تمھاری ایسی کوشش زیادہ دن نہیں چلتی۔‘‘
’’ لیکن میرا اپنے مسّے کو چھونا کیا اتنا غلط ہے؟‘‘ انہیں ضرور لگ رہا ہوگا کہ میں ان سے بحث کر رہی ہوں۔
’’ یہ غلط نہیں بھی ہو سکتا ، لیکن میں تمھیں اس لیے منع کرتا ہوں کیونکہ مجھے تمھارا ایسا کرنا پسند نہیں۔‘‘
’’ لیکن آپ یہ کیوں ناپسندکرتے ہیں؟‘‘
’’اس کی وجہ جاننے کی ضرورت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تمھیں اس مسّے سے نہیں کھیلنا چاہئے۔ یہ ایک بُری عادت ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم ایسا کرنا بند کر دو۔‘‘
’’ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں ایسا کرنا بند نہیں کروں گی۔‘‘
’’اور جب تم اسے چھوتی ہو، تو تمھارے چہرے پر وہ عجیب کھو یا سا تاثراُبھر آتا ہے۔‘‘
شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہوکچھ ایسا تھا کہ تمھاری بات براہ راست میرے دِل میں اُتر گئی۔ اور میں اتفاق میں سر ہلانا چاہتی تھی۔
’’ اگلی بار جب تم مجھے ایسا کرتے دیکھو تو میرا ہاتھ پکڑ لینا۔ میرے چہرے پر ہلکی چپت لگا دینا۔‘‘
’’لیکن کیا تمھیں یہ بات پریشان نہیں کرتی کہ گزشتہ چند سالوں سے کوشش کےباوجود تم اپنی یہ معمولی سی عادت بھی نہیں بدل سکی ہو؟‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں تمھارے الفاظ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
میرے گلے کے آگے سے میری پُشت کی طرف جاتا ہوا میرا بایاں ہاتھ، یہ ادا ضرور کچھ اداس اور کھوئی ہوئی سی لگتی ہوگی۔ حالانکہ میں اس کے لئے ’ تنہائی ‘جیسا کوئی لفظ استعمال کرنے سے ہچکچاؤں گی۔ حقیر اور کم تر،صرف خود کو بچانے میں مگن ایک عورت کی ادا۔ اور میرے چہرے کے تاثرات سے بالکل ویسا ہی لگتا ہوگا جیسا تم نے بتایا تھا ،’عجیب، کھو ئی ہوئی سی۔‘
کیا یہ اس بات کی علامت تھی کہ میں نے تمھیں کامل خود سپردگی نہیں بخشی تھی، جیسے ہمارے درمیان اب بھی کوئی خلاءباقی تھا۔ اور کیا میرے سچے تاثرات تب میرے چہرے پر نمایاں ہو جاتے تھے، جب میں اپنے مسّے کو چھوتی تھی اور اس سے کھیلتے وقت تصورات میں کھو جاتی تھی، جیسا کہ میں بچپن سے کرتی آئی تھی؟
لیکن یہ اس لیے ہوتا ہوگا کیونکہ آپ پہلے ہی مجھ سے غیرمطمئن تھے، تبھی تو آپ اس چھوٹے سے معاملے کو اتنا طول دیتے تھے۔ اگر آپ مجھ سے خوش رہے ہوتے، آپ مسکرا دیتے اور میری اس عادت کے بارے میں زیادہ سوچتے ہی نہیں۔
وہ ایک ڈراونی سوچ تھی۔ تب میں کانپنے لگتی جب اچانک مجھے یہ خیال آتا کہ کچھ ایسے مرد بھی ہوں گے جنہیں میری یہ عادت دِلکش لگتی ہوگی۔
یہ میرے لیے تمھارا پیار ہی ہوگا جس کے سبب تم نے اس طرف پہلی بار توجہ دی۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن یہ ٹھیک ان چھوٹی موٹی چِڑانے والی چیزوں کی طرح ہوتا ہے، جو بعد میں بڑھ کر بگڑ جاتی ہیں اور ازدواجی تعلقات میں اپنی جڑیں پھیلا لیتی ہیں۔ حقیقی شوہر اور بیوی کے درمیان ان ذاتی مجہول باتوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ دوسری طرف ایسے میاں بیوی بھی ہوتے ہیں جو ہر بات پر خود کو ایک دوسرے کے خلاف پاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ وہ جوڑے جو آپس میں سمجھوتہ کرکے چلتے ہیں، ایک دوسرے سے محبت ہی کرتے ہوں۔ نہ ہی ایسا ہے کہ جن کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے وہ جوڑے ایک دوسرے سے نفرت ہی کرتے ہوں۔ حالانکہ میں یہ ضرور سوچتی ہوں اور یہ سوچنے سے خود کو روک نہیں پاتی کہ یہ بہتر ہوتا اگر تم مسّے سے کھیلنے کی میری عادت کو نظر انداز کر دیتے۔
اصل میں تم میری پٹائی پر آمادہ ہو گئے۔ میں روئی اور میں نے پوچھا کہ تم اتنے متشدد کیوں ہو گئے ہو؟ صرف اپنا مسّا چھونے کی مجھے ایسی سزاکیوں ملے؟ اپنی جِلد ہی تو چھو رہی تھی میں۔’’ تمھاری اس بیماری کا علاج کیا ہے ؟‘‘ غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں تم نے کہا تھا۔ میں سمجھ گئی کہ تم کیسا محسوس کر رہے تھے اور تم نے ابھی جو کیا تھا اس کے بارے میں میری ناراضی بھی جاتی رہی۔ اگر میں نے کسی اور کو یہ بتایا ہوتا تووہ تمھیں بد اطوار شوہر کہتا۔ لیکن چونکہ ہمارے تعلقات ایک ایسی نہج پر پہنچ گئے تھے جہاں کوئی معمولی بات بھی ہمارے درمیان کشیدگی بڑھا دیتی تھی،جب تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا تودراصل اس نے مجھے اچانک نجات دلا دی۔
’’میں اس عادت کو کبھی نہیں چھوڑ سکوں گی، کبھی نہیں۔ میرے ہاتھ باندھ دو۔‘‘ میں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر تمھاری طرف بڑھا دیے۔ گویامیں خود کو تمھارے حوالے کر رہی تھی۔
تم چکرا گئے۔ تمھارے غصے نے تمھیں نرم بنا دیا تھا، جذبات سے عاری کر دیا تھا۔ تم نے میری کمربند میں سے ڈوری لے کر اس سے میرے ہاتھ باندھ دیے۔
میں اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں سے اپنےبالوں کو سنوارنے کی کوشش کرنے لگی اور مجھے خوشی ہوئی جب میں نے تمھیں اپنی طرف جھانکتے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اس بار میری یہ عادت چھوٹ ہی جائے گی۔
حالانکہ اس وقت بھی اس مسّے کا ہلکا سا ذکر ہی کسی کے لیے خطرناک تھا۔
کیا میری مسّا چھونے کی عادت دوبارہ لوٹ آنے کی وجہ سے ہی بالآخر میرے لیےتمھارا بچا کھچا پیار بھی ختم ہو گیا؟ کیا تم مجھے یہ بتانا چاہتے تھے کہ تمھیں مجھ سے کوئی امید نہیں تھی اور میں جو چاہے کر سکتی تھی؟ اب جب میں اپنے مسّے سے کھیلتی، تم یوں ظاہر کرتے گویاتم نے یہ سب نہیں دیکھا۔ اب تم مجھے کچھ نہ کہتے۔
پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ میری وہ عادت جو ڈانٹنے اور پیٹنے سے بھی نہیں گئی، ایک دِن اپنے آپ چھوٹ گئی۔ ڈرانے دھمکانے والا کوئی بھی حربہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔ وہ عادت خود بہ خود چلی گئی۔
’’ کیا تم جانتے ہو کہ اب میں اپنے مسّے سے نہیں کھیلتی ہوں۔‘‘ میں نے کہا جیسے مجھے اس کے بارے میں ابھی پتہ چلا ہو۔ تم غرائے اور تم نےیوں ظاہر کیاجیسے تمھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہ ہو۔
اگر تمھارے نزدیک یہ کوئی معاملہ ہی نہیں تھا، تو پھر تم مجھے اس کے لیے ڈاٹتے کیوں تھے؟ میں چاہتی تھی کہ تم مجھ سے اس کےبارے میں پوچھو، لیکن تم تھے کہ مجھ سے بات ہی نہیں کر رہے تھے۔
مسّا چھونے کی میری عادت کی گویا تمھیں کوئی پرواہ نہ ہو، جیسے میں جو چاہوں کرنے کے لئے آزاد ہوں، تمھارے چہرے کے تاثرات تویہی بتاتے تھے۔ میں نے خود کو رنجیدہ محسوس کیا۔ تمھیں تنگ کرنے کے لئے ہی سہی، میں اپنے مسّے کوتمھارے سامنے دوبارہ چھونا چاہتی تھی، لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ میرے ہاتھوں نے ہلنے سے انکار کر دیا۔
میں نے خود کو تنہا محسوس کیا۔ اور مجھے غصہ آیا۔
جب تم آس پاس نہیں تھے، اس وقت بھی میں نے اپنے مسّے کو چھونے کے بارے میں سوچا، لیکن نجانے کیوں مجھے یہ شرمناک اور نفرت انگیز عمل لگا اور ایک بار پھر میرے ہاتھوں نے ہلنے سے انکار کر دیا۔
میں نے فرش کی طرف دیکھا اور اپنے دانتوں سے اپنا ہونٹ کاٹنے لگی۔
’’تمھارے مسّے کو کیا ہوا؟‘‘ میں انتظار کرتی رہی کہ تم مجھ سے یہ پوچھو گے، لیکن اس کے بعد تو ہماری باہمی گفتگو سے لفظ ’ مسّا‘ ہی غائب ہو گیا۔
اور شاید اس کے ساتھ ہی ہمارے درمیان کئی اور چیزیں بھی غائب ہو گئیں۔
جب تم مجھے ڈانٹا کرتے تھے، ان دنوں میں کچھ کیوں نہیں کر سکی؟ میں کتنی نکمی عورت ہوں۔
پھرتم سے بچھڑ کر،میں اپنے مائیکے لوٹ آئی ۔ ان ہی دنوں میں نے ایک بار ماں کے ساتھ غسل کیا۔
’’ اب تو اتنی خوبصورت نہیں رہی جتنی پہلے تھی، سیوکو! ‘‘وہ بولی،’’ شاید تو بڑھتی ہوئی عمر کے خلاف مدافعت نہیں کر سکتی۔‘‘
میں نے چونک کر ماں کی طرف دیکھا۔ وہ اب بھی پہلے جیسی ہی نظر آتی تھیں،گول مٹول،لیکن تر و تازہ جِلد والی۔
’’ اور تمھارا وہ مسّا پہلے انتہائی پرکشش ہوا کرتا تھا۔‘‘
اس مسّے کی وجہ سے مجھے واقعی تکلیف سہنی پڑی تھی لیکن میں اپنی ماں سے یہ نہیں کہہ سکتی تھی۔ میں نے کہا ،’’ لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر باآسانی مسّے کو ہٹا سکتا ہے۔‘‘
’’ اچھا؟ ڈاکٹر! لیکن داغ تو رہ ہی جائے گا۔‘‘ میری ماں کتنی پرسکون اور خوش طبع تھی۔ ’’ ہم تمھارے مسّے کے بارے میں باتیں کر کے ہنسا کرتے تھے۔ ہم کہتے تھےکہ شادی کے بعد بھی سیوکو اپنے مسّے سے کھیلتی ہو گی۔‘‘
’’ جی ہاں، میں اس سے کھیلتی تھی۔‘‘
’’ ہمارا خیال تھا کہ تم ایسا کرتی ہوگی۔‘‘
’’ وہ بُری عادت تھی۔ میں نے بھلایہ کب شروع کیا ہوگا؟‘‘
’’پتہ نہیں، بچوں کے بدن میں کب مسّے نظر آنے لگتے ہیں؟دودھ پیتے بچوں کے تو مسّا نہیں ہوتا۔‘‘
’’ میرے بچوں کے بدن پر کوئی مسّا نہیں۔‘‘
’’اچھا؟ لیکن جیسے جیسے بچے بڑے ہونے لگتے ہیں، مسّےنظر آنے لگتے ہیں۔ اور پھر وہ غائب نہیں ہوتے لیکن اس جسامت کا مسّا عام طور پر نہیں ہوتا۔ جب تو ننھی سی بچی تھی، یہ مسّا تبھی سے وہاں ہو گا۔ ‘‘میری ماں میرے کندھے کی طرف دیکھ کر ہنسی۔
مجھے یاد آیا، جب میں چھوٹی تھی تو میری ماں اور میری بہنیں کبھی کبھار اس مسّے کو چھوتی تھیں۔ وہ مسّا تب انتہائی پُرکشش لگتا تھا۔ کیا یہی وجہ نہیں تھی کہ جس نے مجھے بھی اس مسّے سے کھیلنے کا عادی بنا دیا؟
میں بستر پر لیٹی ہوئی اپنے مسّے سے کھیلتی رہی اور یاد کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ جب میں کمسن تھی، کیا تب بھی میں اس مسّے سے کھیلتی تھی؟
ایک عرصہ ہوا جب میں آخری بار اپنے اس مسّے سے کھیلی تھی۔ پتہ نہیں کتنے سال پہلے کی بات ہوگی۔
آپ سے دُور اپنے مائیکے گھر میں جہاں میری پیدائش ہوئی تھی، میں اپنے مسّے کے ساتھ جیسے چاہوں کھیل سکتی تھی۔ یہاں مجھے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔
لیکن یہ بھی معقول نہیں تھا۔
جیسے ہی میری انگلی نے اس مسّے کو چھوا، میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
میں برسوں پہلے کی بات سوچنا چاہتی تھی، جب میں چھوٹی تھی، لیکن جب میں نے مسّے کوچھوا تو مجھے صرف تم یاد آئے۔
میں ایک بُری بیوی کے طور پرمردود ٹھہری ہوں، اور شاید مجھے طلاق بھی دےدی جائے گی، لیکن یہ تو میں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ یہاں مائیکے میں بستر پر لیٹے ہوئے مجھے صرف تمھارا ہی خیال آئے گا۔
میں نے اپنے گیلے تکیے پر کروٹ بدلی۔ مجھے جھپکی آ گئی اور مجھے خواب بھی اسی مسّے کا آیا۔
جب میں بیدار ہوئی تو میں نہیں بتا سکتی تھی کہ وہ کمرہ کہاں تھا، لیکن آپ وہاں موجود تھے۔ ممکنہ طور پر ہمارے ساتھ کوئی اور عورت بھی تھی۔ میں شراب پی رہی تھی۔ یقیناً نشے میں تھی۔ میں کسی چیز کے لیے تم سے تکرارکر رہی تھی۔
میری بُری عادت پھرعود کر آئی ۔ میں نے مسّے کو چھونے کے لئے اپنا بایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔ ہمیشہ کی طرح میرا بازو میری چھاتی کے آگے سے ہو کر پیچھے کی طرف جا رہا تھا، لیکن چھوتے ہی مسّے کو کیا ہو گیا؟ کیا وہ اُکھڑکر میری انگلیوں میں نہیں آ گیا؟ بغیر کسی درد کے وہ جِلد سے یوں اُکھڑ گیا جیسے یہ دنیا کی سب سے فطری بات ہو۔ میری انگلیوں میں وہ مسّا ٹھیک کسی بُھنے ہوئے لوبیےکے دانے کی طرح محسوس ہوا۔
کسی بگڑی ہوئی بچی کی طرح میں نے تم سے ضد کی کہ میرے اس مسّے کو اپنی ناک کےپاس موجود اپنے مسّے کے قریبی گڑھے میں ڈال لو۔
میں نے اس مسّے کو تمھاری طرف دھکیلا! میں ہاتھ پیر پٹک کر چلائی۔ میں نے تمھاری آستین پکڑ لی اور تمھاری گردن میں حمائل ہو گئی۔
جب میری نیند کھلی، میرا تکیہ ہنوز گیلا تھا۔ میں اب بھی رو رہی تھی۔
حالانکہ میں انتہائی تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی، مجھے ایسا بھی محسوس ہوا جیسےمیں ہلکی ہو گئی ہوں، گویا ایک بھاری بوجھ میرے سر سے اتر گیا ہے۔
کچھ دیر تک میں شادمانی سے لیٹی رہی، یہ سوچتے ہوئے کہ کیا میرا مسّا واقعی غائب ہو گیا تھا۔ اسے چھونے میں بھی مجھے دِقت ہو رہی تھی۔
میرے مسّے کی پوری کہانی بس یہی ہے۔
میں اب بھی اسے اپنی انگلیوں کے درمیان کسی سیاہ دانے سا محسوس کر سکتی ہوں۔
تمھاری ناک کے پاس اُگے ہوئے اس چھوٹے سے مسّے کے بارے میں میں نے تو کبھی زیادہ نہیں سوچا۔ اور نہ ہی میں نے اس کےبارے میں کبھی بات ہی کی۔ پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ تمھارا وہ مسّا ہمیشہ میرے دھیان میں رہا ہے۔
یہ کتنا عمدہ ہو گا اگر تمھارا وہ مسّا واقعی سوج جائے، کیونکہ تم نے اس کے اوپر میرا مسّا رکھ لیا ہے۔
اور اس بات سے مجھے کتنی خوشی ہو گی اگر مجھے پتہ چلے کہ تم نے میرے مسّے کے بارے میں خواب دیکھا تھا۔
ایک بات میں بھول ہی گئی:
تمھیں میرے چہرے کی اداسی کا شکوہ تھااورمیں یہ اتنی اچھی طرح جانتی تھی کہ مجھے لگتا جیسےتمھاری خفگی میرے لیے تمھارے پیار کی علامت ہے۔ مجھےبھی محسوس ہوتاکہ جب میں اپنے مسّے کو انگلیوں سے چھو رہی ہوتی تو میرے اندر کی ساری ناقص چیزیں جیسے باہر آ جاتیں۔
مجھے لگتا ہے کہ ایک حقیقت جس کا ذکر میں نے پہلے بھی کیا ہے،مجھے دہرانی نہیں چاہئے۔ شاید میری ماں اور بہنیں میرے بچپن میں جس طرح میرے مسّے کو پیار سے سہلاتی تھیں، اسی سبب مجھے اپنے مسّے کو چھو کرنے کی عادت پڑ گئی ہوگی۔
’’ مجھے لگتا ہے بچپن میں جب میں اپنے مسّے سے کھیلتی تھی تو آپ مجھے ڈانٹتی تھیں۔‘‘ میں نے ماں سے کہا۔
’’ جی ہاں، لیکن یہ صرف بچپن کی ہی بات نہیں ہے۔‘‘
’’ تم مجھے کیوں ڈانٹتی تھیں، ماں؟‘‘
’’کیوں؟ کیونکہ یہ ایک بُری عادت تھی اس لیے۔‘‘
’’لیکن جب آپ مجھے اپنے مسّے سے کھیلتے ہوئے دیکھتی تھیں، تو کیسا محسوس کرتی تھیں؟‘‘
’’دیکھو۔‘‘ ماں اپنا سر ایک طرف جھکا کر بولی، ’’مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔ ‘‘
’’ٹھیک، لیکن میرے ایسا کرنے پر کیا تمھیں مجھ پر افسوس ہوتا تھا؟ یا تم یہ سوچتی تھیں کہ میں نفرت انگیز کام کرنے والی ایک گندی لڑکی تھی؟‘‘
’’میں نے اس بارے میں کبھی زیادہ نہیں سوچا۔ تمھارے چہرے پر اداسی کا تاثردیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ تم اپنے مسّے سے نہ کھیلو تو اچھا ہے۔‘‘
’’کیا آپ میری اس حرکت سے چڑتی تھیں؟‘‘
’’ ہاں، مجھے تھوڑی فکر ہوتی تھی۔‘‘
اگر یہ سچ ہے تو کیا کھوئے ہوئے انداز میں اپنے مسّے کو سہلانا، بچپن میں میری طرف سے اپنی ماں اور بہنوں کی محبت کو یاد کرنے کا میرا ایک طریقہ نہیں تھا؟
جن لوگوں سے میں محبت کرتی تھی، کیا میں ان کے بارے میں سوچتے ہوئے ایسا نہیں کر رہی تھی؟
یہی وہ بات ہے جو مجھے تم سے ضرور کہنی ہے۔
کیا میرے مسّے کے بارے میں تمھاراتاثر شروع سے آخر تک غلط نہیں تھا؟
جب میں تمھارے ساتھ ہوتی تھی، تو کیا میں کسی اور کے بارے میں سوچ سکتی تھی؟
بار بار میں سوچتی ہوں کہ میری جس حرکت سے تمھیں اتنی چِڑ ہے کیا وہ میری اس محبت کے اظہار کا ایک طریقہ نہیں تھا، جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی تھی۔
مسّے سے کھیلنے کی میری عادت تو ایک انتہائی معمولی بات تھی، اور میں اس کے دفاع میں کوئی بہانہ نہیں بنا رہی، لیکن تھہاری نگاہوں میں مجھے ایک بُری بیوی بنا دینے والی وہ تمام چیزیں بھی کیا اسی طرح شروع نہیں ہوئی تھیں؟ کیا ایسا نہیں تھا کہ شروع شروع میں وہ سب بھی تمھارے لیے میری محبت کے اشارے ہی تھیں جو تمھاری نظر میں بعد ازاں اس لیے غیر شائستہ ہو گئیں کیونکہ تم نے ان کی سچائی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا؟
اب جب میں یہ سب لکھ رہی ہوں تو کیا اپنے ساتھ ہوئی ناانصافی کی بات کرکے میں ایک بُری بیوی جیسا سلوک کر رہی ہوں؟ جو بھی ہو، یہ کچھ چیزیں ہیں، جو تمھیں بتانا ضروری ہیں۔
:::
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
Authors
-
یاسو ناری کاوا باتا نوبیل انعام برائے ادب پانے والا پہلا جاپانی ادیب ہیں جنھیں ۱۹۶۸ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ ان کے لیے اکتوبر ۱۶، ۱۹۶۸ء کو نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہوئے نوبیل کمیٹی نے قرار دیا: ” ان کا اسلوب مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو نہایت حساس انداز میں جاپانی جوہر کا اظہار کرتا ہے۔‘‘ اور خاص طور پر ان کے تین ناولوں ’’برف کا دیس‘‘، ’’ہزار قازیں‘‘ اور ’’قدیم دار الخلافہ‘‘ کا تذکرہ کیا۔ یاسو ناری کا وا باتا نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر کے ایسے معروف ناول نویس او را فسانہ نگار تھے جن کی نثر میں نظم کی سی لطافت اور غنایت بدرجہ اتم موجود ہے جس نے انھیں نوبیل انعام کا حق دار ٹھیرایا۔ ان کی لکھتیں جاپان سمیت پوری دنیا میں آج بھی ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ یاسو ناری کاوا باتا بہ یک وقت ناول نویس، افسانہ نگار، مضمون نویس ، نقاد اور ڈرامہ نگار تھا ۔ یا سوناری کاوا با تا جون ۱۱ ، ۱۸۹۹ء کو جاپان کے شہر اوساکا کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ڈاکٹر تھے لیکن محض چار برس کی عمر میں کا وایا تا کو یتیمی کا دکھ سہنا پڑا۔ والدین کی وفات کے بعد انھیں ددھیال میں رہنا پڑا جب کہ ان کی بڑی بہن کو ان کی خالہ اپنے ہم راہ لے گئیں۔ یوں دونوں بہن بھائی ایسے جد اہوئے کہ جس کے بعد زندگی میں صرف ایک بار، جولائی ۱۹۰۹ ء میں جب کا وابا تا دس برس کے تھے، مل سکے ۔ ان کی بہن اس ملاقات کے کے دو برس بعد ۱۹۱۱ء میں چل بسی۔ ستمبر ۱۹۰۶ ء میں ان کی سات برس کی عمر میں کا وابا تا کی دادی اور پندرہ برس کی عمر میں مئی ۱۹۱۴ء میں دادا ان کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ تمام قریبی عزیزوں کے بچھڑ جانے کے بعد انھیں ننھیال ( کروداس خاندان ) جانا پڑا۔ لیکن جلد ہی ، ۱۹۱۶ء میں، انھیں ایک جونیئر ہائی سکول ( موجودہ عہد کے جدید ہائی سکول کے برابر ) کی ، جہاں وہ قبل ازیں ٹرین کے ذریعے جایا کرتا تھا ، اقامت گاہ میں منتقل ہونا پڑا۔ یہی اسباب ہیں کہ کا وابا تا کی اکثر تحریروں میں ان کی اپنی زندگی کی تنہائی ، بے یقینی کی کیفیت اور فاصلے در آئے ہیں۔ وہ اکثر ایسا تاثر پیدا کرتے ہیں گویا ان کے کرداروں کے چاروں طرف دیوار ہے اور وہ اس چار دیواری میں قید تنہائی کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ۱۹۳۴ ء کی اپنی ایک اشاعت میں کاواباتا لکھتے ہیں: ”مجھے لگتا ہے کہ میں نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ رومانوی انداز میں نہیں تھاما… کیا میں ایسا مسرور شخص ہوں جو ترس کھائے جانے کا مستحق ہے؟ بلا شبہ ان دو جملوں کو ادبی طور پر ضبط تحریر میں نہیں لایا گیا۔ بلکہ یہ کاواباتا کے اپنے احساس عدم تحفظ کے جذبات کو، بالخصوص ان کی نو جوانی کے دو اذیت ناک معاشقوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں سے ان کا ایک کرب بھر معاشقہ ہا تسونامی لڑکی کے ساتھ تھا جسے وہ بیس برس کی عمر میں ملے تھے۔ ان کا ہاتسو کے نام لکھا ہوا محبت نامہ، جو کبھی بھیجا نہیں گیا، حال ہی میں ان کی کانا گاوا ضلع کے کاما کورا شہر کی سابقہ رہائش گاہ سے ملا ہے۔ اپنی اٹھارہویں سالگرہ مارچ ۱۹۱۷ء میں جونیئر ہائی سکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ فرسٹ اپر سکول کا امتحان پاس کرنے کی آس لے کر ٹوکیو چلے گئے۔ اسی برس انھوں نے امتحان پاس کر لیا اور جولائی ۱۹۲۰ء میں ہیومنٹیز فیکلٹی میں انگریزی مضمون کے ساتھ ان کا داخلہ ہو گیا۔ جب ۱۹۲۴ء میں انھوں نے گریجوایشن کیا تب تک وہ کیکوچی کے ادبی میگزین ’’بنگائی شن جو‘‘ میں اپنی تحریروں کی اشاعت سے کیکوچی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ افسانے لکھنے کے ساتھ ساتھ کاواباتا نے رپورٹر کے طور پر بھی کام کیا ، خاص طور پر مینی چی شمبرن کے لیے۔ انھوں نے نہ صرف جنگ عظیم دوم کی فوجی تحریک میں حصہ لینے سے انکار کر دیا بلکہ جنگ عظیم دوم کے بعد کی اصلاحات میں بھی کم ہی دلچسپی ظاہر کی۔ کا وایا تانے نو جوانی ہی میں اپنے خاندان کی موت کے ساتھ ساتھ جنگ عظیم دوم کے بھی اپنے کام پر گہرے اثرات کو تسلیم کیا ہے ۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بعد از جنگ عظیم دوم صرف نوحے ہی لکھیں گے لیکن مبصرین ان کے قبل از اور بعد از جنگ موضوعات میں کم ہی فرق پاتے ہیں ۔ کا وابا تانے جامعہ کا طالب علم ہوتے ہوے جامعہ کے تین چار برس سے تعطل کے شکار ادبی جریدے ’’خیال کی نئی رو‘‘ یا ’’خیال کا جزرنو‘‘ کا احیا کیا۔ جس میں انھوں نے ۱۹۲۱ء میں اپنی پہلی کہانی ’’شوکو نسائی میلے کا منظر‘‘ شائع کی۔ انھوں نے جامعہ سے اپنی تعلیم ۱۹۲۴ ء میں مکمل کی۔ اکتوبر ۱۹۲۴ء میں کاواباتا ، رچی یو کو مسو اور دوسرے نوجوان لکھاریوں نے ’’فن کا زمانہ‘‘ نامی ادبی جریدے کا آغاز کیا ۔ یہ جریدہ جہاں پرانے جاپانی ادب کا، خاص طور پر فطرت سے انحراف والے ادب، ردعمل تھا وہیں سوشلسٹوں؍ کمیونسٹوں کے پرولتاری ادب کی تحریک کے بھی خلاف تھا۔ اس جریدے کا واحد منشور ’’ادب برائے ادب‘‘ یا ’’فن برائے فن‘‘ تھا اور اس پر یورپی ادب کے جدید اسلوب کے گہرے اثرات نمایاں تھے۔ جلد ہی کا وایا تا کو ان کی معتد بہ کہانیوں سے شہرت ملنے لگی جن میں ’’ازو کی رقاصہ لڑکی‘‘ نے خوب شہرت پائی۔ بیس کی دہائی میں کاوابا تا ٹوکیو کے پسماندہ ضلع آسا کو سا میں قیام پذیر رہے۔ اس عرصے کے دوران جہاں انھوں نے مختلف اسالیب کے تجربات کیے وہیں تجرباتی فلم ’’پاگل پن کا ایک ورق‘‘ کا مسودہ بھی تحریر کیا ۔ ۱۹۳۴ء میں کاوابا تا آسا کو سا سے کانا گا وا ضلع کے شہر ما کورا چلے گئے جہاں انھوں نے ایام جنگ کے دوران وہاں کے ادیبوں میں متحرک وقت بتایا لیکن جنگ کے فوراً بعد وہ مکمل طور گوشہ نشین ہو گئے۔ کا وابا تا نے ۱۹۳۴ء میں اپنا نہایت معروف ناول ’’برف کا دیس‘‘ تحریر کرنا شروع کیا جو پہلے ۱۹۳۵ ء تا ۱۹۴۷ء اقساط میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس ناول نے بہ یک جست کا وابا تا کو جاپان کے صف اول کے ناول نویسوں کی صف میں لاکھڑا کیا ۔ اس ناول کو ’’کاوا با تا کا بہترین ناول‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد بھی کاواباتا کی شہرت میں بحیثیت ناول نگارا ضافہ ہوتا چلا گیا ۔ ان کے ناولوں ’’ہزار قازیں‘‘ ، ’’پہاڑ کی آواز‘‘، ’’خوابیده حسیناؤں کا گھر‘‘، ’’حسن اور افسردگی‘‘، ’’ قدیم دار الخلافہ‘‘ اور ’’جھیل‘‘ نے خوب پذیرائی حاصل کی۔ ان میں سے ان کے دو ناول ’’ہزار قازیں‘‘ اور ’’پہاڑ‘‘ کی آواز جاپان پر مابعد جنگ عظیم دوم کے اثرات پر تھے۔ کاواباتا اپنی سب سے بہترین تخلیق اپنی نیم افسانوی لکھت ’’گو کا ماہر‘‘ ( ’گو‘ ایک جاپانی کھیل کا نام ہے ) کو قرار دیا ہے ۔ یہ علامتی ناول جاپان کی جنگ عظیم دوم میں شکست کا احاطہ کرتا ہے۔ جاپانی پی ای این (PEN) کے کئی برسوں تک ( ۱۹۳۸ تا ۱۹۶۵ء) صدر کی حیثیت سے کا وابا تا نے جاپانی ادب کو انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں میں ترجمہ کروانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ۱۹۶۰ء میں انھیں فرانس کے ’’آرڈر آف آرٹس اینڈ لٹریچر‘‘ کا افسر بھی تعینات کیا گیا اور اگلے ہی برس ، ۱۹۶۱ء میں، انھیں فرانس کے اعزاز ’’آرڈر آف کلچر‘‘ سے نوازا گیا ۔ علاوہ ازیں دیگر بے شمار اعزازات بھی ان کے حصے میں آئے جن میں مغربی جرمنی کا گوئٹے میڈل، جاپان کا پر کس ڈومیلیر لیور ایٹر انجر اور آکوتا گاواپرائز شامل ہیں ۔ نوبیل انعام کی تقریب دسمبر ۱۲، ۱۹۶۸ ء کو منعقد ہوئی ۔ کاواباتا نے اپنے نوبیل خطبے ’’جاپان ، حسن اور میں‘‘ میں ادب ، جاپانی ادب یا اپنی تحریروں اور ان کے اسلوب و غیر ہم کو مرکزی نقطہ بنانے کے بجائے زین بدھ مت پر زور دیا کہ بدھ مت کا یہ مسلک اسی مذہب کے دیگر مسالک سے کس طرح مختلف ہے تا ہم جزوی طور پر فطرت کے حسن پر کلاسیکی شعراء اور ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ قدیم داستان ’’ایسے کی داستان‘‘ اور کلاسیکی داستانوں کو، لیڈی ہو نا سا کی ’’گینجی کی داستان‘‘ اور سائی شوناگون کی ’’دی پلو بک‘‘، جاپانی ادب کے ماسٹر پیس قرار دیتے ہوئے کہا کہ جاپانی ادب اب بھی ان داستانوں کے زیر اثر ہے اور وہ موجودہ جاپانی ادب سے بہت بہتر ہیں۔ کا والا تا نے اپریل ۱۹۷۲،۱۴ء کو جاپان کے علاقے زیوشی میں گیس کے ذریعے خود کشی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ ان کی خود کشی جاپان میں خود کشی کی روایت کی وجہ سے تھی اور اس کا سبب ان کے دوست اور متوسل یو کو مشما کی ۱۹۷۰ء کی خودکشی بھی تھی۔ لیکن ان کی بیوہ سمیت دیگر قریبی عزیز واقارب نے اسے حادثہ قرار دیا ۔ ڈونلڈرچی نے اپنے مقالے میں ان کی موت کے حادثے کو نہاتے ہوئے کیس کا پلگ کھلا رہ جانا بیان کیا ہے تاہم ان کی خودکشی کے بہت سے اسباب بیان کیے جاتے جاتے ہیں ہیں جن میں پارکنسن کی بیماری، نا جائز عشقیہ تعلق اور ۱۹۷۰ء میں ان کی دوست یو کو مشما کی خودکشی شامل ہیں ۔ مشما کے برعکس کاواباتا نے مرتے دم کوئی تحریر نہیں چھوڑی۔ اس لیے اُن کی موت کے کئی محرکات ہیں لیکن واضح کوئی بھی نہیں کہ آیا وہ خود کشی تھی یا محض ایک حادثہ۔ تاہم یہ تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ اپنے نوبیل خطبے میں کاواباتا نے جدید افسانے کے باوا آدم ری نوسکے آکو تا گاوا کی ۱۹۲۷ء میں خود کشی اور درویش شاعر اکیو کا، جس نے دومرتبہ اپنی جان لینے کی کوشش کی ، خاص طور ذکر کیا۔
View all posts -
خالد فرہاد دھاریوال، پسرور، سیالکوٹ میں ۱۰ جولائی ۱۹۷۸ء کو پیدا ہوئے۔ وہ پنجابی کے ممتاز افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اپنی مادری زبان پنجابی کے علاوہ وہ اردو، ہندی اور سندھی زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’وٹانڈرا‘‘ ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا تھا۔ ان کے مجموعے نے ادبی حلقوں سے خوب پذیرائی حاصل کی۔ ادبی نشستوں اور جرائد میں اس افسانوی مجموعے پر خاصے تبصرے کیے گئے اور بہت سے نقادوں نے اسے سراہا۔ خالد کو ان کے افسانوی مجموعے پر پاکستان رائٹرز گلڈ ایوارڈ سمیت کئی ادبی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
View all posts