تراجم عالمی ادب

کیتھرین این پورٹر  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

محمد عرفان  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

امریکی کہانی

جادو

کیتھرین این پورٹر

Katherine Anne Porter

تعارف و ترجمہ:محمد عرفان

اور میڈیم بلانکارڈ، مجھ پر یقین کیجیے کہ آپ اور آپ کے خاندان کے ساتھ خوش ہوں۔ یہاں ہر چیز پر سکون ہے۔ اس سے پہلے میں نے ایک کوٹھے پر کام کیا تھا —  شاید آپ  نہ جانتی ہوں کہ کوٹھا کیا ہوتا ہے؟ عام طور پر سبھی نے کبھی نہ کبھی اس کے بارے سنا ہوتا ہے۔ جی میم صاحب، مجھے جہاں کہیں بھی کام ملا میں نے کیا۔ وہاں بھی میں نے ہمہ وقت دل جمعی سے کام کیا۔ وہاں بہت کچھ دیکھا، ایسی چیزیں کہ آپ یقین نہیں کریں گی۔ میں نے کبھی آپ کو اس بارے بتانے کا نہیں سوچا۔ یہ آپ کو کنگھی کرواتے ہوئے محظوظ کرے گا۔ معذرت کے ساتھ، میں نے آپ کی دھوبن کو یہ بتاتے ہوئے سنا کہ کسی نے آپ کے کپڑوں پر جادو کردیا ہے اور وہ سوکھتے ہوئے  تیزی سے گر جاتے ہیں۔ تو وہاں، اس کوٹھے پر ایک لڑکی تھی، بے چاری، دبلی پتلی سی۔ وہ وہاں آنے والے گاہکوں کو تو بہت پسند آتی تھی لیکن کوٹھے کی نائکہ کے ساتھ اس کی بالکل نہیں بنتی تھی۔ وہ ہمیشہ لڑتی جھگڑتی رہتی تھیں۔ وہ نائکہ اسے ہمیشہ دھوکہ دیتی تھی۔ اس لڑکی کو ہر بار گاہکوں سے پیسے اور زیور ملتا جو ہفتے کے اختتام پر وہ نائکہ کے پاس جمع کروا دیتی۔ یہی ان کا رواج تھا ۔ نائکہ رواج کے مطابق اسے اس کا حصہ دے دیتی۔ آپ تو جانتی ہیں کہ یہ بھی ایک طرح کا دھندہ ہے— کسی بھی دوسرے دھندے ہی کے مانند۔ نائکہ ہمیشہ یہ بہانہ کرتی کہ لڑکی نے سارے پیسے جمع نہیں کروائےجبکہ وہ تو سارے دے چکی ہوتی تھی۔ لیکن چونکہ وہ پیسے اس کے ہاتھ سے نائکہ کے ہاتھ میں پہلے ہی جا چکے ہوتے تھے تو پھر وہ کیا  کر سکتی تھی؟ وہ جواب دیتی کہ وہاں سے بھاگ جائے گی اور پھر بد دعائیں دینے اور رونے لگتی۔ اس پر  نائکہ اس کے سر پر مارتی۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے سر پر بوتلیں مارا کرتی تھی کہ اس کے لڑنے کا یہی طور تھا۔ میرے خدا، میڈیم بلانکارڑ، کبھی تو ایسی مصیبت ہوتی کہ وہ لڑکی سیڑھیاں اتر رہی ہوتی  تو وہ نائکہ اسے بالوں سے کھینچتی اور اسکی پیشانی پر بوتلیں مارتی۔

یہ سارا تماشا پیسے کیلئے ہوتا تھا۔ لڑکیاں قرض میں دھنس جاتیں اور پھر اگر وہ جانا چاہتیں تو ان کی جان پائی پائی لوٹائے بغیر جان نہیں چھوٹ سکتی تھی۔ کوٹھے کی مالکن کا پولیس کے ساتھ بھی خاصا گٹھ جوڑ تھا۔ تو پولیس لڑکیوں کو واپس پکڑ لاتی یا پھر جیل بھیج دیتی۔ تو وہ ہمیشہ پولیس والوں کے ساتھ واپس آ جاتیں  یاپھر اس نائیکہ کے کارندے لڑکیوں کو پکڑ لاتے تھے۔ وہ لوگوں کو اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کرتی اور اس پر انھیں معقول معاوضہ دیتی تھی۔ لڑکیوں کو تب تک وہاں رہنا پڑتاجب تک کہ وہ بیمار نہ  پڑ  جاتیں اور بیمار پڑنے پر انھیں نکال باہر کیا جاتا۔

میڈیم بلانکارڑ نے بولی۔ ’’تم میرے بال نوچ رہی ہو۔‘‘ اور اپنے بالوں کی ایک لٹ کو ڈھیلا کیا۔’’پھر کیا ہوا؟‘‘

معاف کرنامیم صاحب، لیکن اس لڑکی اور مالکن، دونوں میں جان لیوا دشمنی تھی۔ وہ لڑکی اکثر کہتی تھی کہ وہ کوٹھے کی  سب لڑکیوں سے زیادہ پیسہ کماتی ہے  لیکن ہر ہفتے اس کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔ آخرکار ایک صبح اس نے کہا کہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی۔ اس نے اپنے تکیے کے نیچے سے چالیس ڈالر نکالے اور نائکہ کو دیے کہ یہ رہا تمھارا پیسہ!

نائیکہ چلانے لگی:  تمھارے پاس کہاں سے آئی  یہ ساری رقم — ؟ اور اس نے اس پر اپنے پاس آنے والے گاہکوں کو لوٹنے کا الزام لگایا۔ لڑکی نے کہا:  دور ہٹو ورنہ میں تمھارا سر پھوڑ دوں گی۔ نائیکہ نے اسے کندھوں سے دبوچ کر اپنا گھٹنا اُٹھا کر عین اس کے پیٹ پر  نہایت ظالمانہ انداز میں  مارا۔ حد یہ کہ اُس کےبدن  کے انتہائی نازک و حساس حصوں پر بھی تشدد کیا۔ میڈیم بلانکارڈ، پھر اس نے اس کے منہ پر بھی بوتل مار دی۔ لڑکی  اپنے کمرے میں جا گری ، جہاں میں صفائی کر رہی تھی۔ میں نے اسے بستر پر بیٹھنے کے لیے سہارا دیا۔ وہ اپنی دونوں طرف کی پسلیوں کو دبائے سر جھکائے بیٹھی رہی اور جب وہ دوبارہ اٹھی تو  جہاں وہ بیٹھی تھی وہاں ہر طرف خون پھیلاہوا تھا۔ نائیکہ  ایک مرتبہ پھر کمرے میں داخل ہوئی اور  چلائی : تم اب یہاں سے دفع ہو سکتی ہو، تم  میرے لائق نہیں ہو۔ میں وہ سب باتیں نہیں دہرا سکتی ، آپ سمجھ سکتی ہیں کہ بہت کچھ بکا گیا۔

لیکن اسے وہاں سے جتنی بھی رقم ملی اس نے  اسے اپنے پاس ہی  رکھ لیا اور دروازے پر اس کی پشت پر اس قدر شدت سے گھٹنے کی ضرب لگائی کہ وہ دوبارہ  باہر گلی میں جا گری اور  پھر وہ اٹھی محض اپنے تن  کے کپڑوں ہی میں وہاں سے رخصت ہو  گئی۔

اس کے جانے کے بعد اس کے آشنا  دریافت  رہے کہ نینیٹ کہاں ہے؟ اور وہ یہ سوال اگلے کئی دنوں تک لوگ پوچھتے رہے یہاں تک کہ نائکہ  زیادہ عرصہ خاموشی اختیار نہیں رکھ سکتی تھی  تو جواب دینے پر مجبور ہوئی کہ وہ چور تھی،  اس لیے میں نے اسے نکال دیا۔ لیکن نہیں، اسے اب اندازہ ہونے لگا تھا کہ اس نے نینیٹ کو نکال کر غلطی کی  ہے تو وہ  گاہکوں کو تسلی دینے لگی کہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں وہ چند دنوں میں واپس آجائے  گی۔

میڈیم بلانکارڑ ، اگر آپ سننا چاہیں تو  میں اس کے  عجیب حصے کی طرف آتی ہوں۔ یہ وہ بات ہے جو  مجھے اس وقت یاد آئی تھی  جب آپ نے دھوبن کو کہا  تھا کہ آپ کے کپڑوں پر جادو ہوا ہے۔ وہاں ایک عورت باورچن تھی جو بالکل میری جیسی کالی کلوٹی تھی ، میری ہی طرح فرانسیسی خون والی اور میری ہی  طرح جادو  ٹونے کرنے والوں کی صحبت پسند کرنے والی۔

لیکن  تھی وہ نہایت سنگ دل اور نائیکہ کی ہر کام میں معاون۔ وہ سب کچھ ہوتا دیکھتی اور لڑکیوں کے بارے میں  کہانیاں گھڑتی رہتی تھی۔ نائیکہ  اس پر سب سے زیادہ بھروسا کرتی تھی۔ نائیکہ نےاسے پوچھا کہ وہ رنڈی مجھے کہاں ملے گی، کیوں کہ پولیس کو خبر کرنے تک وہ باسن سڑیٹ سے جا چکی تھی۔ خیر اس باورچن  نے کہاکہ میں ایک جادو جانتی ہوں جو یہاں نیو آرلینز  میں چلتا ہے ، جسے  کالی عورتیں اپنے مردوں کو واپس لانے کے لیے کرتی ہیں اور وہ  ان کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے کے لیے سات روز میں لوٹ آتے ہیں اور بتا بھی نہیں پاتے کہ  کیوں۔ حتّٰی کہ آپ کا دشمن بھی اس اعتبار کے ساتھ پلٹ آتا ہے کہ  آپ ہی اس کے دوست ہیں۔اس نے کہا یہ جادو صرف نیو آرلینز میں کارآمد ہے ، یہاں تک  کہ دریا کے پار بھی کام نہیں کرتا……

اور پھر انھوں نے وہی کیا جو باورچن نے کہا۔انھوں نے اس لڑکی کےبسترکے نیچے سے اس کا  فراغتِ حاجت والا پیالا لیا اور اس میں انھوں نے پانی اور دودھ ملایا  اور اس کی استعمال میں رہنے والی جتنی تمام اشیاء ملیں وہ سب بھی: کنگھی سے لڑکی کے بال، فوم سے  چہرہ پر لگانے والا پاؤڈر،  حد یہ کہ اس کے تراشے ہوئے  ناخن انھیں قالین کے سروں سے مل گئے جہاں   بیٹھ کر وہ اپنے ہاتھوں پیروں کے ناخن تراشتی تھی۔ اور انھوں نے اس کے خون میں لتھڑی ہوئی بستر کی چادروں کو پانی میں ڈبویا۔اس تمام دوران میں وہ  باورچن  منھ ہی منھ میں کچھ بدبداتی رہی جو میں بالکل بھی نہیں سن پائی۔  آخر میں اس باورچن نے نائیکہ سے کہا کہ وہ اس میں تھوک دے۔ نائیکہ جب تھوک چکی تو باورچن نے کہا کہ  اب جب وہ واپس  آئے  گی تو آپ کے قدموں کی خاک بن کر رہے گی۔

میڈیم بلانکارڈ نے اپنے پرفیوم کا  ہلکی سے آواز کے ساتھ ڈھکن بند کرتے ہوئے پوچھا: ’’اچھا، پھر؟‘‘

پھر سات دنوں میں وہ طوائف واپس گئی۔ وہ  خاصی بیمار لگ رہی تھی۔ اس نے وہی کپڑے پہن رکھے تھے۔ لیکن وہاں لوٹنے پر خوش تھی۔  ایک آدمی نے کہا۔  ’’گھر واپس آنے پر خوش آمدید، نینیٹ!‘‘ اور جب اس نے نائیکہ سے بات کرنا چاہی تو نائیکہ بولی، اپنی بکواس بند رکھو اور اوپر جا کر لباس بدل کر تیار ہو جاؤ۔‘‘ جس پر نینیٹ نے کہا ،میں ایک منٹ میں تیار ہو کر آتی ہوں۔ اور اس کے بعد  وہ  وہاں  ٹک کر  رہنے لگی۔

:::

کیتھرین این پورٹر  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

محمد عرفان  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

امریکی کہانی

جادو

کیتھرین این پورٹر

Katherine Anne Porter

تعارف و ترجمہ:محمد عرفان

اور میڈیم بلانکارڈ، مجھ پر یقین کیجیے کہ آپ اور آپ کے خاندان کے ساتھ خوش ہوں۔ یہاں ہر چیز پر سکون ہے۔ اس سے پہلے میں نے ایک کوٹھے پر کام کیا تھا —  شاید آپ  نہ جانتی ہوں کہ کوٹھا کیا ہوتا ہے؟ عام طور پر سبھی نے کبھی نہ کبھی اس کے بارے سنا ہوتا ہے۔ جی میم صاحب، مجھے جہاں کہیں بھی کام ملا میں نے کیا۔ وہاں بھی میں نے ہمہ وقت دل جمعی سے کام کیا۔ وہاں بہت کچھ دیکھا، ایسی چیزیں کہ آپ یقین نہیں کریں گی۔ میں نے کبھی آپ کو اس بارے بتانے کا نہیں سوچا۔ یہ آپ کو کنگھی کرواتے ہوئے محظوظ کرے گا۔ معذرت کے ساتھ، میں نے آپ کی دھوبن کو یہ بتاتے ہوئے سنا کہ کسی نے آپ کے کپڑوں پر جادو کردیا ہے اور وہ سوکھتے ہوئے  تیزی سے گر جاتے ہیں۔ تو وہاں، اس کوٹھے پر ایک لڑکی تھی، بے چاری، دبلی پتلی سی۔ وہ وہاں آنے والے گاہکوں کو تو بہت پسند آتی تھی لیکن کوٹھے کی نائکہ کے ساتھ اس کی بالکل نہیں بنتی تھی۔ وہ ہمیشہ لڑتی جھگڑتی رہتی تھیں۔ وہ نائکہ اسے ہمیشہ دھوکہ دیتی تھی۔ اس لڑکی کو ہر بار گاہکوں سے پیسے اور زیور ملتا جو ہفتے کے اختتام پر وہ نائکہ کے پاس جمع کروا دیتی۔ یہی ان کا رواج تھا ۔ نائکہ رواج کے مطابق اسے اس کا حصہ دے دیتی۔ آپ تو جانتی ہیں کہ یہ بھی ایک طرح کا دھندہ ہے— کسی بھی دوسرے دھندے ہی کے مانند۔ نائکہ ہمیشہ یہ بہانہ کرتی کہ لڑکی نے سارے پیسے جمع نہیں کروائےجبکہ وہ تو سارے دے چکی ہوتی تھی۔ لیکن چونکہ وہ پیسے اس کے ہاتھ سے نائکہ کے ہاتھ میں پہلے ہی جا چکے ہوتے تھے تو پھر وہ کیا  کر سکتی تھی؟ وہ جواب دیتی کہ وہاں سے بھاگ جائے گی اور پھر بد دعائیں دینے اور رونے لگتی۔ اس پر  نائکہ اس کے سر پر مارتی۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے سر پر بوتلیں مارا کرتی تھی کہ اس کے لڑنے کا یہی طور تھا۔ میرے خدا، میڈیم بلانکارڑ، کبھی تو ایسی مصیبت ہوتی کہ وہ لڑکی سیڑھیاں اتر رہی ہوتی  تو وہ نائکہ اسے بالوں سے کھینچتی اور اسکی پیشانی پر بوتلیں مارتی۔

یہ سارا تماشا پیسے کیلئے ہوتا تھا۔ لڑکیاں قرض میں دھنس جاتیں اور پھر اگر وہ جانا چاہتیں تو ان کی جان پائی پائی لوٹائے بغیر جان نہیں چھوٹ سکتی تھی۔ کوٹھے کی مالکن کا پولیس کے ساتھ بھی خاصا گٹھ جوڑ تھا۔ تو پولیس لڑکیوں کو واپس پکڑ لاتی یا پھر جیل بھیج دیتی۔ تو وہ ہمیشہ پولیس والوں کے ساتھ واپس آ جاتیں  یاپھر اس نائیکہ کے کارندے لڑکیوں کو پکڑ لاتے تھے۔ وہ لوگوں کو اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کرتی اور اس پر انھیں معقول معاوضہ دیتی تھی۔ لڑکیوں کو تب تک وہاں رہنا پڑتاجب تک کہ وہ بیمار نہ  پڑ  جاتیں اور بیمار پڑنے پر انھیں نکال باہر کیا جاتا۔

میڈیم بلانکارڑ نے بولی۔ ’’تم میرے بال نوچ رہی ہو۔‘‘ اور اپنے بالوں کی ایک لٹ کو ڈھیلا کیا۔’’پھر کیا ہوا؟‘‘

معاف کرنامیم صاحب، لیکن اس لڑکی اور مالکن، دونوں میں جان لیوا دشمنی تھی۔ وہ لڑکی اکثر کہتی تھی کہ وہ کوٹھے کی  سب لڑکیوں سے زیادہ پیسہ کماتی ہے  لیکن ہر ہفتے اس کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔ آخرکار ایک صبح اس نے کہا کہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی۔ اس نے اپنے تکیے کے نیچے سے چالیس ڈالر نکالے اور نائکہ کو دیے کہ یہ رہا تمھارا پیسہ!

نائیکہ چلانے لگی:  تمھارے پاس کہاں سے آئی  یہ ساری رقم — ؟ اور اس نے اس پر اپنے پاس آنے والے گاہکوں کو لوٹنے کا الزام لگایا۔ لڑکی نے کہا:  دور ہٹو ورنہ میں تمھارا سر پھوڑ دوں گی۔ نائیکہ نے اسے کندھوں سے دبوچ کر اپنا گھٹنا اُٹھا کر عین اس کے پیٹ پر  نہایت ظالمانہ انداز میں  مارا۔ حد یہ کہ اُس کےبدن  کے انتہائی نازک و حساس حصوں پر بھی تشدد کیا۔ میڈیم بلانکارڈ، پھر اس نے اس کے منہ پر بھی بوتل مار دی۔ لڑکی  اپنے کمرے میں جا گری ، جہاں میں صفائی کر رہی تھی۔ میں نے اسے بستر پر بیٹھنے کے لیے سہارا دیا۔ وہ اپنی دونوں طرف کی پسلیوں کو دبائے سر جھکائے بیٹھی رہی اور جب وہ دوبارہ اٹھی تو  جہاں وہ بیٹھی تھی وہاں ہر طرف خون پھیلاہوا تھا۔ نائیکہ  ایک مرتبہ پھر کمرے میں داخل ہوئی اور  چلائی : تم اب یہاں سے دفع ہو سکتی ہو، تم  میرے لائق نہیں ہو۔ میں وہ سب باتیں نہیں دہرا سکتی ، آپ سمجھ سکتی ہیں کہ بہت کچھ بکا گیا۔

لیکن اسے وہاں سے جتنی بھی رقم ملی اس نے  اسے اپنے پاس ہی  رکھ لیا اور دروازے پر اس کی پشت پر اس قدر شدت سے گھٹنے کی ضرب لگائی کہ وہ دوبارہ  باہر گلی میں جا گری اور  پھر وہ اٹھی محض اپنے تن  کے کپڑوں ہی میں وہاں سے رخصت ہو  گئی۔

اس کے جانے کے بعد اس کے آشنا  دریافت  رہے کہ نینیٹ کہاں ہے؟ اور وہ یہ سوال اگلے کئی دنوں تک لوگ پوچھتے رہے یہاں تک کہ نائکہ  زیادہ عرصہ خاموشی اختیار نہیں رکھ سکتی تھی  تو جواب دینے پر مجبور ہوئی کہ وہ چور تھی،  اس لیے میں نے اسے نکال دیا۔ لیکن نہیں، اسے اب اندازہ ہونے لگا تھا کہ اس نے نینیٹ کو نکال کر غلطی کی  ہے تو وہ  گاہکوں کو تسلی دینے لگی کہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں وہ چند دنوں میں واپس آجائے  گی۔

میڈیم بلانکارڑ ، اگر آپ سننا چاہیں تو  میں اس کے  عجیب حصے کی طرف آتی ہوں۔ یہ وہ بات ہے جو  مجھے اس وقت یاد آئی تھی  جب آپ نے دھوبن کو کہا  تھا کہ آپ کے کپڑوں پر جادو ہوا ہے۔ وہاں ایک عورت باورچن تھی جو بالکل میری جیسی کالی کلوٹی تھی ، میری ہی طرح فرانسیسی خون والی اور میری ہی  طرح جادو  ٹونے کرنے والوں کی صحبت پسند کرنے والی۔

لیکن  تھی وہ نہایت سنگ دل اور نائیکہ کی ہر کام میں معاون۔ وہ سب کچھ ہوتا دیکھتی اور لڑکیوں کے بارے میں  کہانیاں گھڑتی رہتی تھی۔ نائیکہ  اس پر سب سے زیادہ بھروسا کرتی تھی۔ نائیکہ نےاسے پوچھا کہ وہ رنڈی مجھے کہاں ملے گی، کیوں کہ پولیس کو خبر کرنے تک وہ باسن سڑیٹ سے جا چکی تھی۔ خیر اس باورچن  نے کہاکہ میں ایک جادو جانتی ہوں جو یہاں نیو آرلینز  میں چلتا ہے ، جسے  کالی عورتیں اپنے مردوں کو واپس لانے کے لیے کرتی ہیں اور وہ  ان کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے کے لیے سات روز میں لوٹ آتے ہیں اور بتا بھی نہیں پاتے کہ  کیوں۔ حتّٰی کہ آپ کا دشمن بھی اس اعتبار کے ساتھ پلٹ آتا ہے کہ  آپ ہی اس کے دوست ہیں۔اس نے کہا یہ جادو صرف نیو آرلینز میں کارآمد ہے ، یہاں تک  کہ دریا کے پار بھی کام نہیں کرتا……

اور پھر انھوں نے وہی کیا جو باورچن نے کہا۔انھوں نے اس لڑکی کےبسترکے نیچے سے اس کا  فراغتِ حاجت والا پیالا لیا اور اس میں انھوں نے پانی اور دودھ ملایا  اور اس کی استعمال میں رہنے والی جتنی تمام اشیاء ملیں وہ سب بھی: کنگھی سے لڑکی کے بال، فوم سے  چہرہ پر لگانے والا پاؤڈر،  حد یہ کہ اس کے تراشے ہوئے  ناخن انھیں قالین کے سروں سے مل گئے جہاں   بیٹھ کر وہ اپنے ہاتھوں پیروں کے ناخن تراشتی تھی۔ اور انھوں نے اس کے خون میں لتھڑی ہوئی بستر کی چادروں کو پانی میں ڈبویا۔اس تمام دوران میں وہ  باورچن  منھ ہی منھ میں کچھ بدبداتی رہی جو میں بالکل بھی نہیں سن پائی۔  آخر میں اس باورچن نے نائیکہ سے کہا کہ وہ اس میں تھوک دے۔ نائیکہ جب تھوک چکی تو باورچن نے کہا کہ  اب جب وہ واپس  آئے  گی تو آپ کے قدموں کی خاک بن کر رہے گی۔

میڈیم بلانکارڈ نے اپنے پرفیوم کا  ہلکی سے آواز کے ساتھ ڈھکن بند کرتے ہوئے پوچھا: ’’اچھا، پھر؟‘‘

پھر سات دنوں میں وہ طوائف واپس گئی۔ وہ  خاصی بیمار لگ رہی تھی۔ اس نے وہی کپڑے پہن رکھے تھے۔ لیکن وہاں لوٹنے پر خوش تھی۔  ایک آدمی نے کہا۔  ’’گھر واپس آنے پر خوش آمدید، نینیٹ!‘‘ اور جب اس نے نائیکہ سے بات کرنا چاہی تو نائیکہ بولی، اپنی بکواس بند رکھو اور اوپر جا کر لباس بدل کر تیار ہو جاؤ۔‘‘ جس پر نینیٹ نے کہا ،میں ایک منٹ میں تیار ہو کر آتی ہوں۔ اور اس کے بعد  وہ  وہاں  ٹک کر  رہنے لگی۔

 

:::

Authors

  • کیتھرین این پورٹر ۱۵ مئی ۱۸۹۰ء کو ٹیکساس، یو ایس اے میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک امریکی صحافی ،مضمون نگار، شاعر اور سیاسی کارکن تھیں۔ ان کی زندگی انتہائ کٹھن اور دل خوردہ مراحل سے گزری۔ وہ ایک تباہ کن بیماری سے بھی دوچار رہیں۔وہ تاحیات خاندانی مسائل اور پچیدگیوں سے گھری رہیں۔ کیتھرین نے کئی افسانے اور کہانیاں لکھیں جن میں فلاورنگ جوڈاز اینڈ ادر سٹوریز، ۱۹۳۰ء؛ شپ آف فولز، ۱۹۶۲ء اور دی کولیکٹڈ سٹوریز آف کیتھرین این پورٹر، ۱۹۶۴ء شامل ہیں۔ ان کی آخرالذکر کتاب نے نیشنل بک ایوارڈ پلٹزر ایوارڈ جیتے۔ انہوں نے کئی افسانے ،فکشن اور ڈرامے لکھے ۔ان کا نام مسلسل پانچ بار (۱۹۶۴ء، ۱۹۶۵ء، ۱۹۶۶ء، ۱۹۶۷ء اور ۱۹۶۸ء) نوبیل انعام کے لیے نامزد ہوا۔ وہ اپنے تمام تر مسائل اور ایک مشکل زندگی کے باوجود امریکی ادب میں ایک درخشندہ مثال بن گئیں اور آخرکار ۱۸ ستمبر ۱۹۸۰ء کو موت کی آغوش میں لپٹ کر اس جہان کے تمام مصائب و آلام سے نجات پا گئیں۔ 

    View all posts
  • محمد عرفان ۲۰۰۲ء میں محمد رمضان کے ہاں چک ۳۸۷؍ڈبلیو بی، تحصیل دنیاپور، ضلع لودھراں میں پیدا ہوئے اور بچپن میں ہی والدین کے ساتھ ملتان صدر کے گاؤں ٹاہلی والہ نزد ٹبہ سیلاب آباد میں منتقل ہو گئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی، میڑک اور انٹر بستی مولوک کے نجی ادارے ابن قاسم سکول و کالج سے کیا۔ پھر مزید انگریزی زبان و ادب کی تعلیم گورنمنٹ کالج دنیاپور سے حاصل کی ۔بچپن سے ہی شعر وادب کے دلدادہ رہے ۔ زمانہ طالب علمی میں کالج میں منعقد ہونے والے تمام علمی و ادبی پروگراموں میں بھر پور شرکت کی۔پھر خود بھی شعر و نثر میں طبع آزمائی کی ۔ وہیں اپنے ایک انتہائی قابل اور شفیق استاد ریحان اسلام کی ترجمہ نگاری سے متاثر ہوئے ۔ریحان اسلام بین الااقوامی شہرت یافتہ مترجم ہیں اور کئی عمدہ کتب ترجمہ کر چکے ہیں۔ان کی رہنمائی سے تراجم میں قلم آزمائی شروع کی یہ محمد عرفان کا پہلا ترجمہ ہے جو نہایت دل جمعی سے کیا گیا ہے۔ زیرِ نظر کہانی کیتھرین این پورٹر کے افسانوی مجموعے ’’ کیتھرین این پورٹر کی کہانیوں کا کلیات، ۱۹۲۸ء‘‘ میں شامل ہے۔

    View all posts

1 thought on “جادو”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *