رُوسی کہانی
ہائے عوام……!
انتون چیخوف
(Anton Chekhov)
ترجمہ:حمزہ حسن شیخ
’’یہیں پر، میں نے پینا چھوڑ دی تھی! کچھ بھی نہیں— کچھ بھی مجھے اس کی طرف راغب نہیں کرسکتی۔ یہی وقت ہے کہ میں نے اپنا ہاتھ تھامنا ہے۔ مجھے خود کو بحال کرنا ہے اور کام کرنا ہے— آپ خوش ہیں کہ آپ اپنی تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اپنا کام دیانت داری، دل جمعی اور احتیاط سے کرنا چاہیے۔ آرام اور نیند کو بالائے طاق رکھ کر۔ نوکری کو لات مارنا کوئی آسان کام نہیں۔’میرے لڑکے! تمھیں یہاں کچھ نہ کرنے کی تنخواہ نہیں دی جارہی۔ یہ بالکل بھی اچھی بات نہیں— اور کبھی اچھا عمل نہیں۔‘‘
ہیڈٹکٹ کلکٹر پوڈٹائیگن (Podtyagin) خود کو اس طرح کے بے شمار لیکچر دینے کے بعد، اپنے کام کی جانب واپسی کے لیے ایک لطف انگیز خواہش محسوس کرنے لگاتھا۔ رات کا ایک بجاتھا لیکن اس کے باوجود وہ ٹکٹ کلکٹر کو جگاتا تھا اور ان کو ساتھ لے کر ریلوے ڈبوں میں ٹکٹ چیک کرنے کے لیے گھومتا پھرتا۔
’’ٹکٹ— کٹ— پل— لیز— پلیز‘‘ وہ تیزی سے ناخن چباتے ہوئے چیختا۔ ریلوے ڈبوں کی دھیمی روشنی میں، لحافوں میں لپٹے سوئے ہوئے ہیولوں کو وہ ہلاتا، جگاتا، ان کے سر سے پکڑ کر ان کو زور سے ہلاتا اور ان کے ٹکٹ چیک کرتا۔
’’ٹک— کٹ— ٹکٹ— پل—لیز— پلیز‘‘پوڈٹائیگن نے ایک سیکنڈ کلاس ڈبے کے مسافر کو جگاتے ہوئے مطالبہ کیا، وہ ایک بہت کمزور اور پتلا سا شخص تھاجس نے پرون سے بنے کوٹ اور ایک کمبل کے ایک ٹکڑے سے خود کو لپیٹا ہوا تھا اور اس کے اردگرد تکیے پڑے تھے۔
’’ٹکٹ پلیز— ‘‘
اس کمزور اور لاغر سے شخص نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ مکمل نیند میں ڈوباہواتھا۔ ٹکٹ کلکٹر نے دوبارہ اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھااور بے صبری سے دوبارہ کہا۔
’’ٹکٹ— کٹ— ٹکٹ— پل— لیز— پلیز۔‘‘
مسافر نے اپنی خواب آلود آنکھیں کھولنا شروع کیں اور پوڈٹائیگن کو ہوشیاری سے دیکھا۔
’’کیا—؟ کون—؟— او— ‘‘
’’آپ سے آسان زبان میں پوچھا گیا ہے— ٹکٹ پلیز— اگر پلیز دے سکتے ہیں تو— !‘‘
’’میرے خُدایا!‘‘ وہ کمزور اور لاغر شخص بُرا منہ بناتے ہوئے منمنایا۔’’خُدا پوچھے! میں جوڑوں کے درد کا مریض ہوں اور پچھلی تین راتوں سے نہیں سویا ہوں — میں نے سونے کے لیے ابھی افیم کھائی ہے اور تم— اپنی ٹکٹ کے ساتھ—! یہ ظلم ہے— یہ بے رحمی ہے—! اگر تمھیں معلوم ہوجائے کہ میرے لیے سونا کتنا مشکل کام ہے، تم مجھے اس بکواس کام کے لیے کبھی بھی نہ جگاتے— یہ ظلم ہے—! یہ بے ہودگی ہے—! اور تمھیں میری ٹکٹ کا کیا کرنا ہے—! یہ یقیناًحماقت کے علاوہ کچھ نہیں— !‘‘
پوڈٹائیگن پچکا رہ جاتا ہے کہ وہ اپنا جرم تسلیم کرے یا نہیں اور پھر اپنا جرم ماننے کا فیصلہ کرتا ہے۔
’’یہاں پر مت چیخو! یہ کوئی سرائے نہیں ہے— !‘‘
’’نہیں، سراؤں میں زیادہ انسانیت دوست لوگ ہوتے ہیں— ‘‘ مسافر نے کھانستے ہوئے کہا۔ ’’شاید، تم مجھے کسی اور وقت سونے دو گے! یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔ میں نے کئی بار بیرون ملک سفر کیا ہے، تمام جگہوں پر اور وہاں پر کسی نے بھی کبھی میری ٹکٹ کے بارے میں نہیں پوچھا اور یہاں پر تم مجھ سے بار بار اس کے بارے میں ایسے پوچھ رہے ہو جیسے تمھارے پیچھے کوئی بھوت لگا ہو— ‘‘
’’اچھا، پھر تو آپ کو بیرون ملک ہی جانا چاہیے کیوں کہ آپ اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ بالکل بے وقوفی ہے، جناب! ہاں—! اگرچہ یہ کافی نہیں ہے کہ مسافروں کو اس گھٹن اور باسی ہوااور پسینے کے بھوبھکے سے مار دیا جائے۔ وہ سُرخ فیتے سے ہمارے گلے گھونٹنا چاہتے ہیں— اس سب پرتف ہے—!ان کے پاس ٹکٹ ضرور ہوناچاہیے! ہائے میرے خدایا—! یہ کیسا جذبہ ہے—! اگر کمپنی کو ا س بات سے کوئی فائدہ ہوتا— تو آدھے سے زیادہ مسافر بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کررہے ہوتے— ‘‘
’’سنیں،جناب!‘‘ پوڈٹائیگن غصے سے چلایا۔ ’’اگر آپ نے اپنی بکواس بند نہ کی اور عوام کو پریشان کرتے رہے تو میں آپ کواگلے سٹیشن پر ٹرین سے اُتار دوں گااور اس واقعے کی رپورٹ کردوں گا۔‘‘
’’یہ توہین آمیز ہے—!‘‘ لوگوں نے آواز اٹھائی جو ان کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔
’’ایذا رسانی سراسر تکلیف ہے—! سنواور اس پر تھوڑا غور کرو— ‘‘
’’لیکن یہ حضرت خود ہی اتنے بدتمیزاور بداخلاق ہیں—! پوڈٹائیگن نے تھوڑا سا ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’اچھی بات— میں ٹکٹ نہیں دیکھوں گا— جیسا آپ لوگ کہیں— صرف— یقیناًجیسا کہ آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ ایسا کرنا میری ذمہ داری ہے۔ اگر میں اپنی ڈیوٹی پر نہ ہوتا— تب—یقیناًآپ اسٹیشن ماسٹر سے پوچھ سکتے تھے— یا جس کسی سے بھی آپ پوچھنا چاہیں— ‘‘
پوڈٹائیگن نے اپنے کندھے اچکائے اور وہاں سے چلتا بنا۔ پہلے پہل اس کو سبکی محسوس ہوئی اور کچھ حد تک دل پہ چوٹ سی محسوس ہوئی۔ تب دو یا تین ڈبے گزرنے کے بعد، اس کو ایک یقینی سی بے چینی محسوس ہوئی لیکن ویسی نہیں جیسی اس کے ٹکٹ چیک کرنے والے سینے کی گہرائی میں کبھی نہ اُبھری تھی۔
’’لیکن صرف ٹکٹ چیک کرنے کے لیے کسی سوئے ہوئے شخص کو جگانا ضروری نہ تھا۔‘‘ اس نے سوچا، ’’اگر یہ میری غلطی نہ تھی— وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں نے یہ سب کچھ شوخی میں کیا ہے— وہ نہیں جانتے کہ میں اپنے فرض میں جکڑا ہوا ہُوں۔ اگر وہ اس بات پر یقین نہیں کرتے تو میں اسٹیشن ماسٹر کو ان کے پاس لاسکتاہوں۔‘‘
ہر اسٹیشن پر ٹرین پانچ منٹ کے لیے رُکتی ہے۔ تیسری گھنٹی سے پہلے پوڈٹائیگن ایک بار پھر دوبارہ اسی سیکنڈ کلاس ڈبے میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے سرخ ٹوپی پہلے اسٹیشن ماسٹر بھی ٹہلتا ہوا اندرداخل ہوا۔
’’یہ صاحب یہاں پر ہیں۔‘‘ پوڈٹائیگن نے بات شروع کی۔ ’’یہ کہتے ہیں کہ مجھے ٹکٹ کے بارے میں پوچھنے کا کوئی حق نہیں اور— اور انھوں نے مجھ پر الزام تراشی کی ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں، جناب اسٹیشن ماسٹر صاحب کہ آپ ان حضرات کو بتائیں کہ— قانون کے مطابق مجھے ٹکٹ کا پوچھنا چاہیے یا صرف خود کو خوش رکھنا چاہیے۔‘‘ پوڈٹائیگن نے اس لاغر شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’جناب! آپ اسٹیشن ماسٹر صاحب سے پوچھ سکتے ہیں یہاں پر اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو— ‘‘
’’وہ بیمار شخص دوبار ہ اپنی سیٹ پر دراز ہوچکاتھا، اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور برا منہ بناتے ہوئے اپنی سیٹ پر دوبارہ لڑھک گیا۔
’’میرے خدایا! میں نے ابھی دوبارہ افیم کھائی ہے اور ابھی مجھے اونگھ آئی تھی کہ یہ دوبارہ آن ٹپکا ہے۔ میں تمھاری التجا کرتاہوں کہ مجھ پر کچھ رحم کھاؤ۔‘‘
آپ اسٹیشن ماسٹر سے پوچھ سکتے ہیں— کہ مجھے آپ کی ٹکٹ کے بارے میں پوچھنے کا حق ہے یا نہیں— ‘‘
’’یہ ناقابلِ برداشت ہے—! یہ لو اپنی ٹکٹ— یہ پکڑو—! میں تمھیں پانچ روپے زیادہ دوں گا اگر تم مجھے سکون سے مرنے دو گے! کیا تم کبھی بھی بیمارنہیں ہوئے ہو؟ سنگ دل لوگ— !‘‘
’’یہ بالکل غیرقانونی عمل ہے—! فوجی لباس میں ملبوس ایک شخص نے غصے سے کہا ’’میرے پاس اس کے صبر کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔‘‘
’’چھوڑو — ‘‘ اسٹیشن ماسٹر نے ماتھے پر تیوری سجاتے ہوئے کہااور وہ پوڈٹائیگن کو آستین سے پکڑ کر نیچے لے گیا۔
پوڈٹائیگن نے اپنے کندھے اچکائے اور آہستگی سے اسٹیشن ماسٹر کے پیچھے چل پڑا۔
’’یہ کسی بات سے بھی خوش نہیں ہیں—!‘‘ اس نے حیرت سے سوچا، ’’اس کی خاطر میں اسٹیشن ماسٹر کو لے کر آیا تاکہ وہ سمجھ سکے اور اس کی تشویش ختم ہو اور وہ— قسم سے— !‘‘
اگلے اسٹیشن پر ٹرین دس منٹ کے لیے رکی۔ دوسری گھنٹی سے پہلے، جب پوڈٹائیگن سٹیشن کے کیفے ٹیریا میں کھڑا سوڈا واٹر پی رہاتھا۔ د وحضرات جن میں سے ایک انجینئر کی یونیفارم اور دوسرے نے فوجی کوٹ پہنا ہواتھا، اس کی جانب آئے۔
’’سنو! ٹکٹ کلکٹر!‘‘ انجینئر نے پوڈٹائیگن کو مخاطب کرتے ہوئے بات شروع کی، ’’اس بیمار شخص کے ساتھ تمھارے رویے نے سب کو غصے اور حیرت سے دوچار کیا ہے۔جس جس نے بھی یہ واقعہ دیکھا ہے۔ میرا نام پوزیٹسکی (Puzitsky) ہے۔ میں ایک انجینئرہوں اور یہ ایک کرنل ہے۔ اگر تم نے اس مسافر سے معافی نہ مانگی تو ہم دونوں ٹریفک منیجرکے پاس تمھاری شکایت کریں گے جو کہ ہمارا دوست ہے۔‘‘
’’حضرات! لیکن میں کیوں— لیکن آپ کیوں— ‘‘ پوڈٹائیگن ان کی بات سن کر بوکھلاگیا۔
’’ہمیں وضاحتیں نہیں چاہئیں لیکن ہم تمھیں خبردار کرتے ہیں۔ اگر تم نے معافی نہ مانگی تو ہم اس کو انصاف ضرور دلوائیں گے۔‘‘
’’یقیناً — ضرور میں معافی مانگوں گا— ضرور— ‘‘
آدھے گھنٹے کے بعد پوڈٹائیگن نے معافی مانگنے کے لیے اپنے ذہن کو آمادہ کرتے ہوئے معافی طلب جملہ بھی سوچ لیاتھا جو نہ صرف ان کی شان و شوکت پر حرف آئے بغیر مسافرکومطمئن کردے گا۔ وہ آہستہ قدم اٹھاتا ڈبے میں چلنے لگا۔
’’محترم!‘‘ اس نے اس بیمار شخص کو مخاطب کیا— ’’سنیں جناب— !‘‘
بیمار شخص نے آنکھیں کھولیں اور اچھل پڑا— ’’کیا ہے—؟‘‘
’’میں— یہ کہنا چاہتاہوں— کہ آپ پر میں نے الزام دھرا— ‘‘
’’اوہو! پانی— ‘‘ بیمار نے اپنا دل پکڑ کر سسکی بھری۔’’میں نے ابھی ہی افیم کی تیسری خوراک لی ہے، ابھی سویا ہی تھا اور— دوبارہ تم— او ہ میرے خدایا! یہ اذیت کب ختم ہوگی— !‘‘
’’میں صرف— آپ سے معذرت— ‘‘
’’اوہو—! مجھے اگلے اسٹیشن پر ٹرین سے اُتار دو—! میں اب اس ٹرین پر مزید سفر نہیں کر سکتا—میں—میں— میں مررہاہوں— ‘‘
’’یہ بہت ہی اذیت ناک اور توہین آمیز ہے—!‘‘ عوام غصے سے چلائی۔
’’دفع ہوجاؤ یہاں سے! تمھیں اس بے ہودگی اور بدتمیزی پر جرمانہ کیاجائے—! نکل جاؤ— دفع ہوجاؤ— ‘‘
پوڈٹائیگن نے مایوسی سے اپنا ہاتھ لہرایا، منمنایا اور ڈبے سے باہرنکل گیا۔ وہ اپنے آرام کرنے والے کمرے میں گیا۔ پریشانی کی حالت میں میزپر بیٹھ گیااور شکایت کرنے لگا۔
’’ہائے یہ عوام! کوئی بات بھی ان کے لیے گراں نہیں! یہاں پر کام کرنے اور اچھے سے اچھا کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں—! کوئی بھی نشے میں ڈوبا ہوا سب کے سامنے آپ کی بے عزتی کردیتا ہے—! اگر آپ کچھ بھی نہ کرو— تو بھی وہ غصہ کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہو تو بھی ان کو غصہ آتا ہے۔ اس لیے، کچھ بھی نہیں کرناچاہیے اور صرف پینی چاہیے— !‘‘
پوڈٹائیگن نے شراب کی پوری بوتل اپنے اندر انڈیلی اور مزیدکام، فرض اور ایمانداری کے بارے میں سوچنا ترک کردیا۔
:::
رُوسی کہانی
ہائے عوام……!
انتون چیخوف
(Anton Chekhov)
ترجمہ:حمزہ حسن شیخ
’’یہیں پر، میں نے پینا چھوڑ دی تھی! کچھ بھی نہیں— کچھ بھی مجھے اس کی طرف راغب نہیں کرسکتی۔ یہی وقت ہے کہ میں نے اپنا ہاتھ تھامنا ہے۔ مجھے خود کو بحال کرنا ہے اور کام کرنا ہے— آپ خوش ہیں کہ آپ اپنی تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اپنا کام دیانت داری، دل جمعی اور احتیاط سے کرنا چاہیے۔ آرام اور نیند کو بالائے طاق رکھ کر۔ نوکری کو لات مارنا کوئی آسان کام نہیں۔’میرے لڑکے! تمھیں یہاں کچھ نہ کرنے کی تنخواہ نہیں دی جارہی۔ یہ بالکل بھی اچھی بات نہیں— اور کبھی اچھا عمل نہیں۔‘‘
ہیڈٹکٹ کلکٹر پوڈٹائیگن (Podtyagin) خود کو اس طرح کے بے شمار لیکچر دینے کے بعد، اپنے کام کی جانب واپسی کے لیے ایک لطف انگیز خواہش محسوس کرنے لگاتھا۔ رات کا ایک بجاتھا لیکن اس کے باوجود وہ ٹکٹ کلکٹر کو جگاتا تھا اور ان کو ساتھ لے کر ریلوے ڈبوں میں ٹکٹ چیک کرنے کے لیے گھومتا پھرتا۔
’’ٹکٹ— کٹ— پل— لیز— پلیز‘‘ وہ تیزی سے ناخن چباتے ہوئے چیختا۔ ریلوے ڈبوں کی دھیمی روشنی میں، لحافوں میں لپٹے سوئے ہوئے ہیولوں کو وہ ہلاتا، جگاتا، ان کے سر سے پکڑ کر ان کو زور سے ہلاتا اور ان کے ٹکٹ چیک کرتا۔
’’ٹک— کٹ— ٹکٹ— پل—لیز— پلیز‘‘پوڈٹائیگن نے ایک سیکنڈ کلاس ڈبے کے مسافر کو جگاتے ہوئے مطالبہ کیا، وہ ایک بہت کمزور اور پتلا سا شخص تھاجس نے پرون سے بنے کوٹ اور ایک کمبل کے ایک ٹکڑے سے خود کو لپیٹا ہوا تھا اور اس کے اردگرد تکیے پڑے تھے۔
’’ٹکٹ پلیز— ‘‘
اس کمزور اور لاغر سے شخص نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ مکمل نیند میں ڈوباہواتھا۔ ٹکٹ کلکٹر نے دوبارہ اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھااور بے صبری سے دوبارہ کہا۔
’’ٹکٹ— کٹ— ٹکٹ— پل— لیز— پلیز۔‘‘
مسافر نے اپنی خواب آلود آنکھیں کھولنا شروع کیں اور پوڈٹائیگن کو ہوشیاری سے دیکھا۔
’’کیا—؟ کون—؟— او— ‘‘
’’آپ سے آسان زبان میں پوچھا گیا ہے— ٹکٹ پلیز— اگر پلیز دے سکتے ہیں تو— !‘‘
’’میرے خُدایا!‘‘ وہ کمزور اور لاغر شخص بُرا منہ بناتے ہوئے منمنایا۔’’خُدا پوچھے! میں جوڑوں کے درد کا مریض ہوں اور پچھلی تین راتوں سے نہیں سویا ہوں — میں نے سونے کے لیے ابھی افیم کھائی ہے اور تم— اپنی ٹکٹ کے ساتھ—! یہ ظلم ہے— یہ بے رحمی ہے—! اگر تمھیں معلوم ہوجائے کہ میرے لیے سونا کتنا مشکل کام ہے، تم مجھے اس بکواس کام کے لیے کبھی بھی نہ جگاتے— یہ ظلم ہے—! یہ بے ہودگی ہے—! اور تمھیں میری ٹکٹ کا کیا کرنا ہے—! یہ یقیناًحماقت کے علاوہ کچھ نہیں— !‘‘
پوڈٹائیگن پچکا رہ جاتا ہے کہ وہ اپنا جرم تسلیم کرے یا نہیں اور پھر اپنا جرم ماننے کا فیصلہ کرتا ہے۔
’’یہاں پر مت چیخو! یہ کوئی سرائے نہیں ہے— !‘‘
’’نہیں، سراؤں میں زیادہ انسانیت دوست لوگ ہوتے ہیں— ‘‘ مسافر نے کھانستے ہوئے کہا۔ ’’شاید، تم مجھے کسی اور وقت سونے دو گے! یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔ میں نے کئی بار بیرون ملک سفر کیا ہے، تمام جگہوں پر اور وہاں پر کسی نے بھی کبھی میری ٹکٹ کے بارے میں نہیں پوچھا اور یہاں پر تم مجھ سے بار بار اس کے بارے میں ایسے پوچھ رہے ہو جیسے تمھارے پیچھے کوئی بھوت لگا ہو— ‘‘
’’اچھا، پھر تو آپ کو بیرون ملک ہی جانا چاہیے کیوں کہ آپ اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ بالکل بے وقوفی ہے، جناب! ہاں—! اگرچہ یہ کافی نہیں ہے کہ مسافروں کو اس گھٹن اور باسی ہوااور پسینے کے بھوبھکے سے مار دیا جائے۔ وہ سُرخ فیتے سے ہمارے گلے گھونٹنا چاہتے ہیں— اس سب پرتف ہے—!ان کے پاس ٹکٹ ضرور ہوناچاہیے! ہائے میرے خدایا—! یہ کیسا جذبہ ہے—! اگر کمپنی کو ا س بات سے کوئی فائدہ ہوتا— تو آدھے سے زیادہ مسافر بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کررہے ہوتے— ‘‘
’’سنیں،جناب!‘‘ پوڈٹائیگن غصے سے چلایا۔ ’’اگر آپ نے اپنی بکواس بند نہ کی اور عوام کو پریشان کرتے رہے تو میں آپ کواگلے سٹیشن پر ٹرین سے اُتار دوں گااور اس واقعے کی رپورٹ کردوں گا۔‘‘
’’یہ توہین آمیز ہے—!‘‘ لوگوں نے آواز اٹھائی جو ان کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔
’’ایذا رسانی سراسر تکلیف ہے—! سنواور اس پر تھوڑا غور کرو— ‘‘
’’لیکن یہ حضرت خود ہی اتنے بدتمیزاور بداخلاق ہیں—! پوڈٹائیگن نے تھوڑا سا ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’اچھی بات— میں ٹکٹ نہیں دیکھوں گا— جیسا آپ لوگ کہیں— صرف— یقیناًجیسا کہ آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ ایسا کرنا میری ذمہ داری ہے۔ اگر میں اپنی ڈیوٹی پر نہ ہوتا— تب—یقیناًآپ اسٹیشن ماسٹر سے پوچھ سکتے تھے— یا جس کسی سے بھی آپ پوچھنا چاہیں— ‘‘
پوڈٹائیگن نے اپنے کندھے اچکائے اور وہاں سے چلتا بنا۔ پہلے پہل اس کو سبکی محسوس ہوئی اور کچھ حد تک دل پہ چوٹ سی محسوس ہوئی۔ تب دو یا تین ڈبے گزرنے کے بعد، اس کو ایک یقینی سی بے چینی محسوس ہوئی لیکن ویسی نہیں جیسی اس کے ٹکٹ چیک کرنے والے سینے کی گہرائی میں کبھی نہ اُبھری تھی۔
’’لیکن صرف ٹکٹ چیک کرنے کے لیے کسی سوئے ہوئے شخص کو جگانا ضروری نہ تھا۔‘‘ اس نے سوچا، ’’اگر یہ میری غلطی نہ تھی— وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں نے یہ سب کچھ شوخی میں کیا ہے— وہ نہیں جانتے کہ میں اپنے فرض میں جکڑا ہوا ہُوں۔ اگر وہ اس بات پر یقین نہیں کرتے تو میں اسٹیشن ماسٹر کو ان کے پاس لاسکتاہوں۔‘‘
ہر اسٹیشن پر ٹرین پانچ منٹ کے لیے رُکتی ہے۔ تیسری گھنٹی سے پہلے پوڈٹائیگن ایک بار پھر دوبارہ اسی سیکنڈ کلاس ڈبے میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے سرخ ٹوپی پہلے اسٹیشن ماسٹر بھی ٹہلتا ہوا اندرداخل ہوا۔
’’یہ صاحب یہاں پر ہیں۔‘‘ پوڈٹائیگن نے بات شروع کی۔ ’’یہ کہتے ہیں کہ مجھے ٹکٹ کے بارے میں پوچھنے کا کوئی حق نہیں اور— اور انھوں نے مجھ پر الزام تراشی کی ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں، جناب اسٹیشن ماسٹر صاحب کہ آپ ان حضرات کو بتائیں کہ— قانون کے مطابق مجھے ٹکٹ کا پوچھنا چاہیے یا صرف خود کو خوش رکھنا چاہیے۔‘‘ پوڈٹائیگن نے اس لاغر شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’جناب! آپ اسٹیشن ماسٹر صاحب سے پوچھ سکتے ہیں یہاں پر اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو— ‘‘
’’وہ بیمار شخص دوبار ہ اپنی سیٹ پر دراز ہوچکاتھا، اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور برا منہ بناتے ہوئے اپنی سیٹ پر دوبارہ لڑھک گیا۔
’’میرے خدایا! میں نے ابھی دوبارہ افیم کھائی ہے اور ابھی مجھے اونگھ آئی تھی کہ یہ دوبارہ آن ٹپکا ہے۔ میں تمھاری التجا کرتاہوں کہ مجھ پر کچھ رحم کھاؤ۔‘‘
آپ اسٹیشن ماسٹر سے پوچھ سکتے ہیں— کہ مجھے آپ کی ٹکٹ کے بارے میں پوچھنے کا حق ہے یا نہیں— ‘‘
’’یہ ناقابلِ برداشت ہے—! یہ لو اپنی ٹکٹ— یہ پکڑو—! میں تمھیں پانچ روپے زیادہ دوں گا اگر تم مجھے سکون سے مرنے دو گے! کیا تم کبھی بھی بیمارنہیں ہوئے ہو؟ سنگ دل لوگ— !‘‘
’’یہ بالکل غیرقانونی عمل ہے—! فوجی لباس میں ملبوس ایک شخص نے غصے سے کہا ’’میرے پاس اس کے صبر کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔‘‘
’’چھوڑو — ‘‘ اسٹیشن ماسٹر نے ماتھے پر تیوری سجاتے ہوئے کہااور وہ پوڈٹائیگن کو آستین سے پکڑ کر نیچے لے گیا۔
پوڈٹائیگن نے اپنے کندھے اچکائے اور آہستگی سے اسٹیشن ماسٹر کے پیچھے چل پڑا۔
’’یہ کسی بات سے بھی خوش نہیں ہیں—!‘‘ اس نے حیرت سے سوچا، ’’اس کی خاطر میں اسٹیشن ماسٹر کو لے کر آیا تاکہ وہ سمجھ سکے اور اس کی تشویش ختم ہو اور وہ— قسم سے— !‘‘
اگلے اسٹیشن پر ٹرین دس منٹ کے لیے رکی۔ دوسری گھنٹی سے پہلے، جب پوڈٹائیگن سٹیشن کے کیفے ٹیریا میں کھڑا سوڈا واٹر پی رہاتھا۔ د وحضرات جن میں سے ایک انجینئر کی یونیفارم اور دوسرے نے فوجی کوٹ پہنا ہواتھا، اس کی جانب آئے۔
’’سنو! ٹکٹ کلکٹر!‘‘ انجینئر نے پوڈٹائیگن کو مخاطب کرتے ہوئے بات شروع کی، ’’اس بیمار شخص کے ساتھ تمھارے رویے نے سب کو غصے اور حیرت سے دوچار کیا ہے۔جس جس نے بھی یہ واقعہ دیکھا ہے۔ میرا نام پوزیٹسکی (Puzitsky) ہے۔ میں ایک انجینئرہوں اور یہ ایک کرنل ہے۔ اگر تم نے اس مسافر سے معافی نہ مانگی تو ہم دونوں ٹریفک منیجرکے پاس تمھاری شکایت کریں گے جو کہ ہمارا دوست ہے۔‘‘
’’حضرات! لیکن میں کیوں— لیکن آپ کیوں— ‘‘ پوڈٹائیگن ان کی بات سن کر بوکھلاگیا۔
’’ہمیں وضاحتیں نہیں چاہئیں لیکن ہم تمھیں خبردار کرتے ہیں۔ اگر تم نے معافی نہ مانگی تو ہم اس کو انصاف ضرور دلوائیں گے۔‘‘
’’یقیناً — ضرور میں معافی مانگوں گا— ضرور— ‘‘
آدھے گھنٹے کے بعد پوڈٹائیگن نے معافی مانگنے کے لیے اپنے ذہن کو آمادہ کرتے ہوئے معافی طلب جملہ بھی سوچ لیاتھا جو نہ صرف ان کی شان و شوکت پر حرف آئے بغیر مسافرکومطمئن کردے گا۔ وہ آہستہ قدم اٹھاتا ڈبے میں چلنے لگا۔
’’محترم!‘‘ اس نے اس بیمار شخص کو مخاطب کیا— ’’سنیں جناب— !‘‘
بیمار شخص نے آنکھیں کھولیں اور اچھل پڑا— ’’کیا ہے—؟‘‘
’’میں— یہ کہنا چاہتاہوں— کہ آپ پر میں نے الزام دھرا— ‘‘
’’اوہو! پانی— ‘‘ بیمار نے اپنا دل پکڑ کر سسکی بھری۔’’میں نے ابھی ہی افیم کی تیسری خوراک لی ہے، ابھی سویا ہی تھا اور— دوبارہ تم— او ہ میرے خدایا! یہ اذیت کب ختم ہوگی— !‘‘
’’میں صرف— آپ سے معذرت— ‘‘
’’اوہو—! مجھے اگلے اسٹیشن پر ٹرین سے اُتار دو—! میں اب اس ٹرین پر مزید سفر نہیں کر سکتا—میں—میں— میں مررہاہوں— ‘‘
’’یہ بہت ہی اذیت ناک اور توہین آمیز ہے—!‘‘ عوام غصے سے چلائی۔
’’دفع ہوجاؤ یہاں سے! تمھیں اس بے ہودگی اور بدتمیزی پر جرمانہ کیاجائے—! نکل جاؤ— دفع ہوجاؤ— ‘‘
پوڈٹائیگن نے مایوسی سے اپنا ہاتھ لہرایا، منمنایا اور ڈبے سے باہرنکل گیا۔ وہ اپنے آرام کرنے والے کمرے میں گیا۔ پریشانی کی حالت میں میزپر بیٹھ گیااور شکایت کرنے لگا۔
’’ہائے یہ عوام! کوئی بات بھی ان کے لیے گراں نہیں! یہاں پر کام کرنے اور اچھے سے اچھا کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں—! کوئی بھی نشے میں ڈوبا ہوا سب کے سامنے آپ کی بے عزتی کردیتا ہے—! اگر آپ کچھ بھی نہ کرو— تو بھی وہ غصہ کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہو تو بھی ان کو غصہ آتا ہے۔ اس لیے، کچھ بھی نہیں کرناچاہیے اور صرف پینی چاہیے— !‘‘
پوڈٹائیگن نے شراب کی پوری بوتل اپنے اندر انڈیلی اور مزیدکام، فرض اور ایمانداری کے بارے میں سوچنا ترک کردیا۔
:::
Authors
-
انتون چیخوف (۲۹ جنوری، ۱۸۶۰ء تا ۱۵ جولائی، ۱۹۰۴ء) ایک روسی ڈراما نویس، شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ ڈرامہ نگار کے طور پر انھوں نے چار کلاسک ڈرامے تخلیق کیے، اور ان کی بہترین مختصر کہانیوں کو مصنفین اور نقادوں نے بے حد سراہا۔ جدید ابتدائی تھیٹر کے تین بانیوں میں سے ایک چیخوف تھے جب کہ باقی دو ہینرک ابسن اور آگسٹ سٹرنبرگ تھے۔ چیخوف پیشے کے لحاظ سے ایک طبیب تھے۔ ’’طب میری حلال بیوی ہے،‘‘ انھوں نے ایک مرتبہ کہا۔ ’’اور ادب میری رکھیل۔‘‘ چیخوف نے ’’بگلا‘‘پر رد عمل کے بعد ۱۸۹۶ء میں تھیٹر کو خیرباد کہہ دیا لیکن ۱۸۹۱۸ء میں کونسٹنٹن سٹانسلاوسکی کے ماسکو آرٹ تھیٹر سے اس ڈرامے کو پذیرائی ملی۔ اسی تھیٹر نے بعد میں چیخوف کے ڈرامے ’’انکل وانیا‘‘ کوبھی پیش کیا اور ان کے باقی دو ڈرامے ’’چیری کا باغ‘‘اور ’’تین بہنیں‘‘ کا پریمیئر کیا۔ یہ چاروں ڈرامے اداکاروں، صداکاروں اور موسیقاروں کے ساتھ ساتھ سامعین کے لیے بھی ایک چیلنج پیش کرتے ہیں، کیونکہ روایتی عمل کی جگہ چیخوف ’’موڈ کا تھیٹر‘‘ اور ’’متن میں ڈوبی ہوئی زندگی‘‘ پیش کرتے ہیں۔ چیخوف کے لکھے ہوئے ڈرامے پیچیدہ نہیں تھے بلکہ انھیں سمجھنا آسان تھاتاہم سامعین کے لیے قدرے پریشان کن ماحول پیدا کرنے والے تھے۔ چیخوف نے آغاز میں پیسہ کمانے کے لیے کہانیاں لکھیں، لیکن جیسے جیسے اس کی فنکارانہ خواہش بڑھتی گئی، انھوں نے باضابطہ اختراعات کیں جنھوں نے جدید مختصر کہانی کے ارتقا کو متأثر کیا۔ وہ ہمیشہ اس بات پر مصر رہے کہ ایک فنکار کا کام سوال پوچھنا ہے، ان کا جواب دینا نہیں۔ مئی ۱۹۰۳ء میں چیخوف نے ماسکو کا دورہ کیا جہاں نامور وکیل واسلی مکلاکوف تقریباً ہر روز ان سے ملنے آتے تھے۔ مکلاکوف نے چیخوف کی وصیت پر دستخط کیے۔ چیخوف تپ دق کے ساتھ ایک طویل جنگ کے بعد ۱۵ جولائی ۱۹۰۴ء کو۴۴ برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اسی بیماری نے ان کے بھائی کی بھی جان لی تھی۔
View all posts -
حمزہ حسن شیخ افسانہ نویس، ناول نگار اور شاعر ہیں۔ اُن کی لکھتیں چین، تائیوان، برطانیہ، امریکہ، بھارت اور آسٹریلیا کے مؤقر اور سالناموں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ وہ یونیورسٹی ملائیشیا سراواک (UNIMAS)، ملائیشیا میں فلم اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کے سکالر ہیں اور ۱۵ کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں سے ۸ انگریزی میں اور ۷ اردو زبان میں رقم کی گئی ہیں۔ ان کی کتابیں پاکستان، ہندوستان اور امریکہ میں شائع ہو چکی ہیں۔ حمزہ حسن شیخ اپنے صوبے کے پی کے سے پہلے انگریزی ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ انھیں پاکستان، البانیہ، لبنان اور قازقستان سے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات ملے۔ وہ اپنی ادبی جستجو میں ایران، ہندوستان، آذربائیجان، ازبکستان، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور رومانیہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ حمزہ حسن شیخ نے کئی بین الاقوامی ادیبوں کے کام کا اردو اور اردو، پنجابی، سرائیکی، ہندکو اور پشتو کے پاکستانی ادب کو انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ وہ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر بحیثیت مقرر بھی شرکت کرتے ہیں۔
View all posts
تراجم عالمی ادب