فسوں کاریاں
ہسپانوی کہانی
اجنبی شناسا
ازابیل الاندے
Isabel Allende
تعارف و ترجمہ: خالد فتح محمد

اُس نے اپنی کمر کو سہلائے جانے دیا، جس کے نچلے حصے پر پسینے کے قطرے تھے، اُس کابدن تیزآنچ پر جلائی گئی شکر کی خوشبو خارج کررہاتھا، خاموشی تھی، اُس کے تصور میں تھاکہ ایک آواز تک اُس کی یادداشت میں داخل ہوکر سب کچھ برباد کر دے گی، اُس لمحے کو خاک میں ملادے گی جس میں وہ ہر اُس آدمی کی طرح تھا جو اُسے ملا، ایک اتفاقیہ عاشق جو اُسے اُس دِن ملاتھا، ایک اور مرد جس کے ساتھ ماضی کی شناسائی نہیں تھی جو اُس کے بالوں کی گندمی رنگت کی وجہ سے اُس کی طرف متوجہ ہوا، اُس کی چھائیوں والی جلد، اُس کے خانہ بدوش کڑوں کی جھنجناتی آواز، محض ایک آدمی جس نے اُس کے ساتھ بات کی اور ساتھ چل پڑا، بغیر کسی مقصد کے، ٹریفک اور موسم پر رائے دیتے ہوئے، ارد گرد لوگوں کو دیکھتے ہوئے، اُس کے اپنے ہم وطنوں کی دیار ِ غیر میں زبردستی کی پیداکی ہوئی معمولی سی خود اعتمادی کے ساتھ، دکھ اور غصے سے عاری آدمی، ہر قسم کے جرم کے احساس سے تہی، برف کی طرح پاکیزہ، جو اُس کے ساتھ صرف دِن گزارنا چاہتاتھا، کتابوں کی دکانوں اور پارکوں میں گھومتے ہوئے، کوفی پیتے ہوئے، ملاقات کے موقع کی خوشی مناتے ہوئے، پرانے وقتوں کی یادوں پر بات کرتے ہوئے، جب دونوں ایک ہی شہر میں بڑے ہو رہے تھے تو تب زندگی کیسی تھی، وہ ایک ہی کٹرے کے رہائشی تھے، جب اُن کی عمریں چودہ برس تھیں، تمھیں یاد ہے، پالے کے سبب گیلے جوتے، پیرافیِن سے جلنے والے چولہے، آڑو کے درختوں کی چھاؤں، یہ سب اب اُس ممنوعہ ملک میں رہ گیا۔ شاید وہ کچھ کچھ تنہائی محسوس کر رہی تھی، یا شاید کسی اُلجھن میں اُلجھے بغیر ہم بستری کا موقع تھا، لیکن، جو بھی وجہ ہو، دِن کے اختتام پر، جب اُن کے پاس مزید گھومنے کا کوئی بہانہ نہ رہا، اُس نے اُس کا ہاتھ تھامااور اپنے گھر میں لے گئی۔ وہ پیلی عمارت میں،جس کی گلی کے اختتام پر کوڑادانوں کا ڈھیر تھا، ایک بھدے سے اپارٹمنٹ میں دوسرے جلاوطنوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اُس کا کمرہ نہایت مختصر تھا: فرش پر ایک گدا بچھاتھاجسے دھاری دار کمبل ڈھانپے ہوئے تھا، اینٹوں کی دوقطاروں کے اوپر پھٹوں سے کتابوں کی عارضی الماری بنائی ہوئی تھی، کتابیں، پوسٹر، کرسی پر پڑے ہوئے کپڑے، ایک کونے میں رکھاسوٹ کیس۔ وہ تمہید کے بغیر بے لباس ہو گئی، اُس بچی کے رویے کی طرح جو خوش کرنے کے لیے بے چین ہو۔ اُس نے اُس کے ساتھ مباشرت کی کوشش کی۔ اُس نے تحمل کے ساتھ اُس کے بدن کو سہلایا، چوٹیوں اور وادیوں میں پھسلتے ہوئے، اُس کی خفیہ راہوں کو کھوجتے ہوئے، سفید چادر پر مٹی گوندھتے ہوئے ، تاوقتیکہ وہ پسیج کر اُس کے لیے تیار تھی۔ اُس نے خود کو مجتمع کیا، اُس کی طرف بڑھی، اُس کا سر اُس کے پیٹ پرتھا، چہرہ چھپا ہوا، جیسے شرم کی مجبوری ہو، پیار سے تھپتھپایا، چوما، مہمیز کیا۔ اُس نے اپنے ذہن کو خالی کرنے کی کوشش کی، اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کچھ دیر اُسے وہ کرنے دیاجو وہ کر رہی تھی، اُس وقت تک جب تک تنہائی یاشرم نے اُسے شکست نہیں دے دی، پھر اُس نے اُسے پرے دھکیل دیا۔ اُنھوں نے ایک سگریٹ سلگایا، دونوں کے درمیان اب کوئی شراکت نہیں تھی، متوقع شدت، جس نے اُنھیں دِن بھر جکڑ رکھاتھااب نہیں رہی تھی، باقی جو بچاوہ گدے پر لیٹے ہوئے دو غیر محفوظ اور کمزور لوگ تھے جو یاد داشت کے بغیر تھے، جو اَن کہے الفاظ بھیانک خلا میں تیر رہے تھے۔ جب وہ صبح ملے تو اُنھیں غیر معمولی توقعات نہیں تھیں، اُن کا کوئی خاص منصوبہ نہیں تھا، اُنھیں صرف خوشگوار صحبت کی ضرورت تھی، اور کچھ لطف اندوزی، مخصوص وقت پر اُداسی نے اُنھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم تھکے ہوئے ہیں، وہ مسکرائی، اُس ویرانی کا بہانہ نکالنے کے لیے جو اُن کے اوپر چھاچکی تھی۔ احساسات کو جگانے کی آخری کوشش میں اُس نے اُس کاچہرہ ہاتھوں میں لے کر پلکوں کو چوما۔ وہ ایک دوسرے کے پہلو میں لیٹے ہوئے تھے، ہاتھ تھامے ہوئے، اور اُس ملک کی باتیں کرتے ہوئے جہاں وہ اتفاق سے ملے تھے۔ ایک سرسبز اور بے لوث ملک جس میں وہ ہمیشہ غیر ملکی رہیں گے۔ اُس نے لباس پہن کر الوداع کہنے کا سوچا، اِس سے پہلے کہ اُس کے ڈراؤنے خوابوں کی شدت ماحول کو زہر آلود کر دے، لیکن وہ اتنی جوان اور غیر محفوظ نظر آ رہی تھی کہ وہ اُس کا دوست بننا چاہتاتھا۔ اُس کا دوست، اُس نے سوچا، عاشق نہیں، اُس کی تنہائی میں ساتھ رہنے کے لیے، کسی قسم کی مانگ یا وعدے کے بغیر، کوئی ایسا جو اُس کے خوف بھگانے کے لیے اُس کے ساتھ رہے۔ وہ اُس کے پاس رہااور نہ ہی اُس کا ہاتھ چھوڑا۔ ایک نگھے، نرم احساس ، اُس کے اور اپنے لیے بے پناہ رحم بھرے جذبے نے اُسے اشکبار کر دیا۔ پرد ہ بادبان کی طرح پھڑپھڑایا، تو وہ کھڑکی بند کرنے کے لیے اُٹھی، شاید اندھیرااُن کے ساتھ رہنے کے ٹوٹے ہوئے جذبے کو جوڑنے میں کامیاب ہو جائے اور وہ مباشرت کر سکیں۔ لیکن اندھیراکسی کام نہ آسکا، اُسے گلی میں سے روشنی کے دائرے کی ضرورت تھی، اِس کے بغیر اُس نے خود کو نوے سینٹی میٹر کی کوٹھڑی کے لامحدود وقت کے اندھے کنوئیں میں پایا، ہوش و حواس کے بغیر اپنے ہی فضلے میں لت پت۔ پردہ ہٹارہنے دو، میں تمھیں دیکھنا چاہتاہوں ، اُس نے جھوٹ بولا، کیوں کہ وہ اندھیرے کے اپنے خوف اُس پر واضح نہیں کرنا چاہتاتھا، گلاچھیلتی ہوئی پیاس، کیلوں کے تاج کی طرح سر پر بندھی پُر اذیت پٹی، لمبی اور اندھیری سرنگوں کے خیال، بھوتوں کے حملے۔ وہ یہ باتیں نہیں کر سکتاتھا، کیوں کہ ایک بات دوسری کے ساتھ منسلک ہو جاتی ہے، اور وہ سب وہ کہہ دے گا جو اُس نے پہلے کبھی نہیں کہاتھا۔ وہ گدے پر واپس آگئی، غیرحاضر دماغی سے اُسے تھپتھپایا، چھوٹے چھوٹے نشانات کو انگلیوں سے محسوس کیا، پریشان مت ہو، یہ متعدی نہیں ، صرف معمولی سے زخم ہیں۔ وہ تقریباًایک آہ بھرتے ہوئے ہنسا۔ لڑکی اُس کی پریشانی کا اندازہ لگاتے ہوئے ایک دم رُک گئی، اُس کی حرکت معلق ہوگئی، وہ اب چوکس تھی۔ اُسے اُس وقت بتادیناچاہیے تھاکہ یہ نئی محبت کا آغاز نہیں تھا، ایک سرسری سا معاشقہ بھی نہیں، یہ تو ایک جنگ بندی کا لمحہ تھا، معصومیت کا ایک لمحہ، اور جلد ہی جب وہ سو جائے گی، وہ یہاں سے چلاجائے گا، اُسے بتادیناچاہیے تھاکہ مستقبل میں اُن کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، کوئی خفیہ اشارے نہیں، وہ اب ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گلیوں میں نہیں گھومیں گے، نہ ہی عاشقوں والی کھیلوں میں ملوث ہوں گے، لیکن وہ بول نہیں پا رہاتھا، اُس کی آواز اُس کے اندر ہی کہیں چنگل میں پھنسی ہوئی تھی۔ وہ جانتاتھاکہ وہ ڈوب رہاہے، اُس نے اُس حقیقت کے ساتھ چمٹے رہنا چاہاجو اُس سے دور ہو رہی تھی، وہ اپنے ذہن کو کہیں پر بھی سہارا دینا چاہتاتھا، کرسی پر پڑے بے ترتیب کپڑوں کے ڈھیر پر، فرش پر پڑی کتابوں پر، دیوار پر لگے چلی کے پوسٹر پر، جزائر غرب الہند کی خنک شام پر، دور سے آتی گلی کی آوازوں پر، اُس نے اُسے پیش کیے گئے بدن کے بارے میں سوچنا چاہا، اُس کے لہکتے ہوئے بالوں پر سوچ مرتکز کرنی چاہی، اُس کے بدن سے اُٹھتی سوختہ شکر کی خوشبوکو ذہن میں رکھنا چاہا۔ اُس نے خاموشی کی زبان میں اُن لمحات کو بچانے کی کوشش کی، جب کہ بستر کے دوسرے سرے پر سادھو کی طرح آلتی پالتی مارے وہ اُس کا مشاہدہ کر رہی تھی، اُس کی زردی مائل چھاتیاں اور ناف کی آنکھ بھی اُس کا مشاہدہ کر رہی تھیں، وہ اُس کے کانپنے، کپکپانے، دانتوں کے بجنے اور آہوں کاجائزہ لے رہی تھی۔ اُس نے سوچاکہ وہ خاموشی کو اپنے اندر بڑھتے ہوئے محسوس کر سکتاتھا، وہ جانتاتھاکہ وہ ریزہ ریزہ ہورہاہے، جیساکہ پہلے بھی کئی بار ہو چکاتھا، اور اُس نے حال پر اپنی آخری گرفت ڈھیلی کرتے ہوئے مدافعت ختم کردی، اُس نے خود کو پھسلتی ڈھلوان کے حوالے کر دیا، اُس نے اپنے گھٹنوں اور کلائیوں پر سخت پٹی کو محسوس کیا، وحشیانہ تشدد، پھٹے ہوئے پٹھے، ناموں کو جاننے کے لیے بے عزتی کرتی ہوئی آوازیں، انا، جسے اُس کے سامنے اذیت دی جاری تھی، کی ناقابل ِ فراموش چیخیں،اور دوسروں کی جنھیں صحن میں بازوؤں سے لٹکایاگیاتھا۔
معاملہ کیاہے؟ خدا کے لیے، بات کیا ہے؟ انا کی آواز کہیں دور سے سوال کر رہی تھی۔ نہیں، انا ابھی تک جنوب کی جگہ بدلتی ریت میں دھنسا ہواتھا۔ اُس نے سوچاکہ وہ ایک برہنہ لڑکی کو دیکھ سکتاتھاجو اُسے جھنجھوڑ اور اُس کانام پکار رہی تھی لیکن وہ لہراتے چابکوں اور پھڑپھڑاتے جھنڈوں کے خوف سے باہر نکل نہیں پا رہاتھا۔ وہ دہراہوگیاہواتھااور اُس کی تمام تر کوشش قے کے روکنے میں تھی۔ اُس نے اپنی انا اور دوسرے لوگوں کے لیے روناشروع کر دیا۔ کیاہوا؟ کیابات ہے ؟ لڑکی پھر کہیں سے اُسے بلا رہی تھی۔ کچھ نہیں ہوا، مجھے تھامے رکھو، اُس نے منت کی، وہ خائف سی اُس کی طرف بڑھی، اور اُسے بازؤں میں لے کر بچوں کی طرح تھپکنا شروع کر دیا، ماتھاچوما، کہا: جتنا رو سکتے ہو روؤ، اُسے گدے پر سیدھا لٹالیا، پھر مصلوب اُس کے اوپرلیٹ گئی۔
ایک ہزار سال وہ ایسے ہی اکٹھے لیٹے رہے،تاوقتیکہ بتدریج سراب ِخیال معدوم ہوتاگیااور اُس نے سب معاملات کے باوجود خود کوکمرے میں موجود اور زندہ پایا، وہ سانس لے رہاتھا،اُس کی نبض چل رہی تھی، لڑکی کاپورابوجھ اُس پر تھا، اپناسر اُس کی چھاتی پر رکھے ہوئے تھی، اُس کے بازواور ٹانگیں اُس کے بازؤں اورٹانگوں پرتھیں، وہ دو خوف زدہ یتیم تھے۔ اُس لمحے جیسے کہ سب کچھ اُس کے علم میں تھا، اُس نے اُسے کہا، خوف خواہش ، محبت یا نفرت، احساسِ جرم یاوفاداری سے زیادہ طاقت ور ہے۔ خوف سب کو کھاجاتاہے— اُس نے اُس کے آنسو اپنی گردن پر بہتے ہوئے محسوس کیے۔ سب کچھ تھم گیا، اُس نے اُس کے باطن میں دبے زخم کو چھو لیاتھا۔ اُس کا ماتھاٹھنکاکہ وہ ایک عام لڑکی نہیں تھی جوترس کھاتے ہوئے مجامعت کے لیے تیار تھی، وہ تو خاموشی کے پیچھے چھپی حقیقتوں سے آشنائی رکھتی تھی، مکمل تنہائی کے دوسری طرف، اُس مہر بند بکسے کے اُس طرف جہاں وہ کرنل اور خود اپنی غداری سے بچنے کے لیے چھپاتھا، انا ڈیاز اور دوسرے دھوکہ دیے گیے ساتھیوں سے دوسری طرف جہاں اُنھیں آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر لیے جا رہاتھا۔ وہ یہ سب کیسے جان سکتی تھی؟
ٍوہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اُس نے جب سوچ کے لیے ٹٹولناشروع کیاتو اُس کاپتلابازو کھڑکی سے آنے والی زردی مائل دھند لاہٹ میں دھندلی تصویر کی طرح نظر آیا۔ اُس نے بتی جلائی اور ایک ایک کرکے اپنے دھاتی کڑے اُتارتے ہوئے انھیں بغیر کوئی آواز پیداکیے گدے پر رکھا۔ جب اُس نے اُس کی طرف ہاتھ بڑھائے تواُس کے بال آدھے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھے۔ اُس کی کلائیوں پر بھی سفید نشان تھے۔ وقت سے ورا ایک لمحے کے لیے اُس نے اُسے دیکھا، وہ ساکت تھا، تاوقتیکہ سب کچھ سمجھ گیا، محبت سے مغلوب، اُس نے بجلی کے تاروں کو اُس کے اردگردلپٹے دیکھا۔ وہ ایک دوسرے کے گلے لگنے کے بعد رو سکتے تھے، معاہدوں اور اعتماد کی بھوک میں، ممنوعہ الفاظ کے لیے، کل کے وعدوں کے لیے، اور آخر کار خفیہ ترین راز میں ساجھے داری کرنے کے لیے !
***

ازابیل الاندے
ازابیل الاندے چلی کی مصنفہ ہے جو ۲؍اگست ۱۹۴۲ء کو لیما، پیرو میں پیدا ہوئیں جہاں اُن کے و۱لد،ٹامس الاندے، چلی کے سفارت خانے میں درمیانے درجے کے سفارتی عہدے پر فائض تھےاور وہ چلی کے صدرسلواڈور الاندے ،جسے بعد میں سی آئی اے نے ایک بغاوت کے ذریعے مروا دیا، کا قریبی رشتہ دار تھے۔ ۱۹۴۵ءمیں والدین کی علیحدگی کے بعد ازبیل کی ماں اپنے تینوں بچوں کے ساتھ چلی کے شہر سان تیگو میں رہائش پذیر ہوئیں جہاں اُنھوں نے رامون حیودوبرو کے ساتھ شادی کر لی جو سفارت کار تھا چناں چہ خاندان کو مختلف ممالک میں رہنے کا اتفاق ہوا جہاں ازابیل الاندے کو انگریزی تعلیم حاصل کرنا کا موقوقع ملا، خاص کر ولیم شیکسپئر۔
۱۹۷۳ء میں، سلواڈور الاندے کی معزولی کے بعد ازابیل نے مطلوب لوگوں کو خفیہ طریقوں سے ملک سے باہر بھیجنا شروع کردیااور پھر اُنھیں اپنی جان بھی خطرے میں محسوس ہوئی کیوں کہ اُسے قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں،وہ وینزویلا بھاگ گئیں جہاں اُنھوں نے تیرہ سال گزارے۔اِسی دوران میں اُنھوں نے اپنا پہلا ناول ’’دی ہاؤس آف سپرٹس‘‘ لکھا۔ازابیل الاندے کے ناول اپنے منفرد بیانیے، کرداروں کی پیچیدگی، تنوع اور تاریخی شعور کی بدولت اپنا ایک مختلف مقام رکھتے ہیں۔ازابیل الاندے کے ہاں جادوئی حقیقت نگاری اور تصوف قاری کو ایک الگ دنیا میں لے جاتا ہے جب کہ وہ کہانی لاطینی امریکہ کی معاشرتی اور معاشی جدو جہد ہی دکھا رہی ہوتی ہے۔خطے کی تاریخ کو اپنے فکشن میں سمونا ازابیل کی تحریروں کا اہم پہلو ہے جس کے ذریعے وہ دور دراز کے قاری تک لاطینی امریکہ کے متحرک معاشرے سے شناسائی کرواتی ہیں اوراُن کا لوک داستانوں کاہنر وری کے ساتھ جدید فکشن میں امتزاج مزید خوب صورتی عطا کرتا ہے۔ دل چسپی کا پہلو کہ اُنھوں نے اپنے سینئیر ہم عصر فکشن نگاروں گبرائیل گارشیا مارکیز اورماریو ورگاس یوسا کا کافی اثر قبول کیا ہے لیکن اِس کے باوجود اپنا منفرد انداز اور افسانوی برتاؤ بھی برقرار رکھا۔ اِس میں کوئی ایسی قباحت بھی نہیں کیوں کہ گبرائیل اور یوسا فرانسیسی مصنفین اور کافکا سے حد درجہ متاثر ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔
ازابیل کا مختصر فلشن جداگانہ انداز لیے ہے۔یہ کہانیاں جذبات، پراسراریت،تہذیبی اتھل پتھل اور معاشرے کے متحرک پہلوؤں کو ہنر وری سے بیان کرتی ہیں۔یہ کہانیاں دل چسپ ہونے کے ساتھ قاری کی سوچ کو بھی انگیخت کرتی ہیں۔ازابیل الاندے کو متعدد انعامات سے نوازا گیا ہے۔ وہ اِس وقت جنوبی امریکہ کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی فکشن نگار ہے۔ یہ قیاس ہے کہ اُسے نوبیل انعام برائے ادب مل سکتا ہے جو کسی بھی طرح غلط فیصلہ نہیں ہوگا۔ وہ اِس وقت امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔
۰۰۰

خالد فتح محمد
خالد فتح محمد اپریل ۱۹، ۱۹۴۶ء کو پیدا ہوئے۔ خالد فتح محمد پاکستان کے ایک معروف اور معروف اردو افسانہ نگار، مترجم، نقاد اور تجزیہ کار ہیں — جو غیر معمولی سماجی مشاہدے کی کہانیاں تحریر کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اُن کے پاس اپنی بات کو الفاظ میں سمونے کا ہمہ گیر فن ہے جسے ادبی حلقوں میں بہت سراہا جاتا ہے۔ اپنے افسانوں اور ناولوں میں، اُنھوں نے فطری، اصلی اور بول چال کے کرداروں کے ساتھ سماجی انصاف، غربت، بھوک، زور اور معاشرے میں رائج سماجی سیاسی مسائل کے بارے میں نظریات کو قائم کیا ہے۔ اُن کے کام کو اردو ناقدین نے بہت سراہا ہے۔ اُن کا خاندان مشرقی پنجاب گورداسپور سے مہاجرت کر کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں میں آباد ہوا۔ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ میجر کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ۱۹۹۳ء میں گوجرانوالہ کینٹ میں رہائش اختیار کی، اور لکھنا شروع کیا۔ اُنھوں نے بارہ ناول، افسانوں کے سات مجموعے اور انگریزی سے ترجمے کی چھ کتابیں شائع کی ہیں: چار ترکی ناول، ایک جرمن ناول اور چینی کہانیوں کا ایک مجموعہ۔ وہ گوجرانوالہ، پاکستان سے ایک سہ ماہی ادبی رسالہ “ادراک” بھی شائع کرتے ہیں، جس کا شمار اردو کے اہم ادبی جرائد میں ہوتا ہے۔
۰۰۰
خالد فتح محمد کے دیگر تراجم و تحاریر :
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔