رسکن بونڈ تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
عمیر علی کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
ہندوستانی انگریزی کہانی
اچھوت
رسکن بونڈ
Ruskin Bond
تعارف و ترجمہ:عمیر علی
رسکن بونڈ تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
عمیر علی کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
ہندوستانی انگریزی کہانی
اچھوت
رسکن بونڈ
Ruskin Bond
تعارف و ترجمہ:عمیر علی

صفائی کرنے والے لڑکے نے دروازے پر لٹکی خس کی ٹٹی پر جیسے ہی پانی کے چھینٹے مارے تو تھوڑی دیر کے لیے ہواٹھنڈی ہو گئی ۔ میں بستر کے کنارے پر بیٹھا کھلی ہوئی کھڑی سے باہر تکتے ہوئے دوپہر کی گرمی میں چمکتی دھول بھری سڑک کو دیکھ رہا تھا ۔ ایک گاڑی گزری اور دھول کے بادل اٹھنے لگے۔
سڑک کے اس پار وہ لوگ رہتے تھے جنھیں میری دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ جب کہ میرا باپ ملیریا کی وجہ سے ہسپتال میں پڑا تھا ۔مجھے ان کے ساتھ رہنا تھا اور انھی کے ساتھ سونا تھا ۔ لیکن میں کھانے میں ان کو شریک نہ کرتا۔ میں انھیں پسند کرتا تھا نہ ہی وہ مجھے پسند کرتے تھے۔
ایک ہفتے کے لیے یا شاید اس سے بھی زیادہ جنگل کے کنارے قصبے کے مضافات میں لال اینٹوں والے بنگلے میں اکیلے رہنے جا رہاتھا۔ رات کے وقت صفائی کرنے والا لڑکا پہرہ دیتا اور کچن میں ہی سوتا۔ اس کےعلاوہ میرا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ صرف ہمسائیوں کے بچے جنھیں میں پسند نہیں کرتا تھا اور نہ ہی وہ مجھے۔
اُن کی ماں نے کہا۔ ’’صفائی کرنے والے لڑکے کے ساتھ نہ کھیلو وہ صاف ستھرا نہیں ہے۔ اُسے چھونا مت،یادرکھنا،وہ نوکر ہے ۔ تم میرے پاس آؤ اور میرے لڑکوں کے ساتھ کھیلو۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میرا صفائی کرنے والے لڑکے کے ساتھ کھیلنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔لیکن میرا ان بچوں کے ساتھ کھیلنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں پورا ہفتہ بستر پر بیٹھا رہتا اور اپنے باپ کے گھر آنے کا انتظار کرتا رہتا تھا۔
صفائی کرنے والا—سارا دن گھر میں اوپر نیچے پھرتا رہتا اور ٹینکی سے پانی لاتے ہوئے بالٹی اس کے گھٹنوں پر بجتی رہتی۔
وہ ایک وسیع دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ ٹہلتا رہتا۔
میں اسے گھورتا تھا۔
وہ میری طرح دس سال کی ہی عمر کا تھا۔ اس کے بال چھوٹے تراشے ہوئے، دانت بہت سفید اور چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کیچڑ سے لت پت تھے۔ اس نے پرانا خاکی نیکر پہنا ہوا تھا۔ اس کا باقی جسم ننگا تھا جو گہرےبھورے رنگ کا تھا جیسے جھلسا ہوا ہو۔
وہ جب بھی ٹینکی تک جاتا تو وہاں نہاتا اور جب واپس آتا تو اس کے سر سے پاؤں تک پانی ٹپکتا اور وہ چمک رہا ہوتاتھا۔
میں پسینے میں شرابور تھا۔
ایک اندازے کے مطابق نہانے والی ٹینکی میرے اسٹیشن سے نیچے تھی جہاں پر باغبان، سقّے، باورچی،آیا، بھنگی اور ان کے بچے سب جمع تھے۔ میں ایک ’’صاحب‘‘ کا بیٹا تھا اور رواج کے مطابق میں ملازم کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیل سکتا تھا۔
لیکن میں نے دوسرے صاحب کے بچوں کے ساتھ بھی نہ کھیلنے کا عزم کر رکھا تھاکیونکہ میں انھیں پسند نہیں کرتا تھا اور وہ مجھے۔
میں نے دیکھا شیشے کی کھڑکی کے پار مکھیاں بھنبھنا رہی تھی، چھپکلی چھت پر رینگ رہی تھی اور ہوا کے چلنے سے مرجھائے ہوئے پھولوں کی پتیاں ہوا میں بکھر رہی تھی۔
صفائی کرنے والے لڑکے نے کھیلتے ہوئے مسکرا کر سلام کیا۔ میں نے اس کی نظروں سے بچتے ہوئے کہا۔ ’’ جاؤ۔‘‘
وہ کچن سے چلا گیا۔
میں اٹھا اورکمرے کے پاس سے گزرا اور استری اسٹینڈ سے گرمی سے بچنے والی ٹوپی اٹھائی۔
ایک کنکھجورا دیوار کے نیچے فرش کے پار بھاگا۔
میں نے چیخ ماری اور مد د کے لیے چلاتا ہوا بستر پر چڑھ گیا۔
صفائی کرنے والا لڑکا اندر آیا۔ اُس نے میری طرف دیکھاپھر فرش پر کنکجھورا دیکھا اور الماری سے ایک بڑی کتاب اٹھا کر زور سے گھناؤنے کیڑے پر دے ماری۔
میں اپنے بستر پر کھڑا خوف سے کانپ رہا تھا۔ وہ دانت نکالتا ہوا مجھ پر ہنسا اور میں شرما گیا اور کہا۔ ’’دفع ہو جاؤ۔ ‘‘
میں نے استری اسٹینڈ پر پڑی ٹوپی کو چھونے کی ہمت نہ کی اور بستر پر ہی بیٹھا رہا اور والد صاحب کی واپسی کی آرزو کرتارہا۔
ایک مچھر پاس سے گزرا اور میرے کان میں بھنبھنانےلگا۔ میں نے بے دلی سے اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اتنے وہ سنگھار میز کے نیچے غائب ہو گیا۔
میں نے نیتجہ نکالا کہ اسی مچھر نے میرے باپ کو ملیریا میں مبتلا کیا تھا اور اب مجھے بھی بیمار کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اگلے دروازے کے احاطے میں سے خاتون گزررہی تھی اور اس نے کھڑکی کے باہر سے ہلکی سی مسکراہٹ دی۔ میں نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا۔
صفائی کرنے والا لڑکا بالٹی کے ساتھ وہاں سے گزرا اور مسکرایا۔ میں نے منھ پھیر لیا۔
رات کو بستر پر میں نے روشنی میں پڑھنے کی کوشش کی۔ لیکن کتابوں نے بھی میری پریشانی کم نہیں کی۔
صفائی کرنے والا لڑکا گھر میں گھومتا رہا۔وہ دروازوں کو کنڈیاں لگا اور کھڑکیاں بند کر رہا تا ۔ اس نے مجھ سے پوچھا۔ ’’میرے لیے کوئی حکم ہے؟‘‘
میں نے نفی میں سر ہلایا۔
وہ الیکٹرک سوئچ کے پاس گیا، لائٹ بند کی اور اپنے کوارٹر میں گھس گیا۔ اندر اور باہر ہر جگہ اندھیرا تھا۔ صفائی کرنے والے لڑکے کے دروازے کے شگاف سے روشنی کی صرف ایک کرن آرہی تھی اور پھر وہ بھی معدوم ہو گئی۔
میں نے سوچا کہ میں پڑوسیوں کے ساتھ رہتا تو اچھا تھا۔ اندھیرے سے مجھے کوفت ہو رہی تھی۔ اس قدر خاموشی چھائی کے جیسےوہ کسی تجسس میں ہو۔
اچانک ایک چمگاڈر کھڑکی سے ٹکرا کر باہر زمین پر گر گئی۔ پھر ایک الّو زور زور سے ہوہو کی آواز نکالنے لگا،وقفے وقفے سے ایک کتابھونکنے لگتا اور مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے بنگلے کے پیچھےجنگل میں گیڈر بھیانک طریقے سے چلا رہا ہے۔ لیکن مکمل طور پر خاموشی بھی رات کے سناٹے کو ختم نہیں کر سکتی تھی۔
صرف ہوا کا ایک خشک جھونکا۔
ہوانے درختوں میں سرسراہٹ پیدا کی اور میرےذہن میں ایک سانپ خشک پتوں اور ٹہنیوں پر آہستہ آہستہ رینگنے لگا۔ مجھے ایک کہانی یاد آئی جو کچھ عرصہ پہلے ہی سنی تھی کہ ایک سوئے ہوئے لڑکے کو کوبرا سانپ کاٹ لیتا ہے۔
میں برداشت نہیں کر سکتا،میں نہیں سو سکتا۔ میں اپنے والد کو یاد کرتا رہا۔
شٹرہلنے اور دروازے بجنے لگے۔ یہ بھوتوں کی رات تھی۔
بھوت۔
خدایا، مجھے ان کے بارے میں سوچنے کی کیاضرورت تھی ۔ اے میرے خدا! وہیں غسل خانے کے دروازے کے پاس بھوت کھڑا تھا۔
میرا باپ، میرا باپ جو کہ ملیریا سے مر گیاتھااس کا بھوت مجھ سے ملنے آیاتھا!
میں سوئچ پر جھپٹ پڑا جس سے وہ کمرہ روشن ہو گیا۔ میں مکمل تھکن کے عالم میں بستر پر گر گیا،میرا شبینہ لباس پسینے سے تر ہو گیا۔
جس کو میں نے دیکھا وہ میرا باپ نہیں تھا۔ یہ ان کا وکالت کا لباس تھا جو غسل خانے کے دروازے پر لٹکا ہوا تھا۔جسے ہسپتال میں ساتھ نہیں لے جایا گیا تھا۔
میں نے بتّی بند کر دی۔
باہر کی خاموشی گہری اور بالکل پاس تھی۔ میرے ذہن میں کنکھجورا، چمگادڑاور سوئے ہوئے لڑکے کو کوبرا سانپ کا کاٹنا چل رہا تھا ۔ میں نے چادر مضبوطی سے اپنے اوپر اوڑھ لی۔ اگر میں کچھ نہیں دیکھ سکتا تو ٹھیک ہے ،کوئی چیز مجھے بھی نہیں دیکھ سکتی۔
ایک زور دار گرج چمک نے خاموشی کو توڑ دیا۔ آسمان پر بجلی کی تیز چمک اس قدر تیز تھی کہ چادر کے اندر سے بھی میں نے درخت کو دیکھا اورسامنے والے گھر کو سونے کے چمکتے ہوئے کینوس میں دیکھا۔
میں بستر کے اندر تک گھس گیا۔ اپنے کانوں کے گرد تکیہ رکھا۔ لیکن اگلی آواز اس سے بھی زیادہ گرج دار تھی۔ا س سے پہلی ایسی گرج نہیں سنی تھی۔ میں نے اپنے بستر سے چھلانگ لگائی۔ میں مزید وہاں نہیں رک سکتا تھا۔ میں اندھا دھند صفائی کرنے والے لڑکے کے کمرے میں بھاگ گیا۔
لڑکا نیچے فرش پر بیٹھ گیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
آسمان پر بجلی چمکی جس سے اس کے دانت اور آنکھیں چمک اٹھیں۔ پھر وہ اندھیرے میں دھندلا سا نظر آنے لگا۔
’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔
میں اس کی طرف گیا اور میرا ہاتھ اس کے ٹھنڈے کندھے کو چھو گیا ۔ وہ بولا۔ ’’ یہیں رہو۔ مجھے بھی ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
میں وہاں دیوار کےساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا جہاں میری نسل کا نہیں بلکہ ایک اچھوت بیٹھا تھا۔ بادلوں کی گرج اور چمک بند ہو گئی اور بارش برسنے لگی۔ اس گھر کی ڈھلوان چھت پر زور زور سے ٹپ ٹپ کی آواز آنے لگی۔
صفائی کرنے والا لڑکا میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگاکہ برسات کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ وہ اندھیرے میں مسکرایا اورپھر ہنس پڑا تب میں بھی ہلکا سا ہنسا۔
لیکن میں خاموش اور محفوظ تھا۔ آسمانی روشنی سے گیلی زمین کی خوشبو داخل ہوئی اور بارش مزید تیزی سے برسنے لگی ۔
***
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
Authors
-
رسکن بونڈ انگریزی زبان کے شاعر اور مصنف ہیں اور تعلق ہندوستان سے ہے ۔ ان کے والد اوبرے الیگزینڈر بونڈ برطانوی جب کہ والدہ ایڈتھ کلارک اینگلو انڈین تھیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنی تخلیقات کے لیے انگریزی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا۔ وہ اپنی کہانیوں ،ناولوں اور بچوں کے ادب کے لیے معروف ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے ۵۰۰ سے زائد کہانیاں، مضامین اور ناول لکھے جو ان کی ۶۹ کتابوں میں شامل ہیں۔ زیرِ نظر کہانی ’’اچھوت‘‘ ان کی پہلی کہانی ہے جو انھوں محض سولہ برس کی عمر میں لکھی تھی اور یہ کہانی ان کی کلیات میں شامل ہے ۔ رسکن بونڈ ۱۹ مئی ۱۹۳۴ء کو ہماچل پردیش کے علاقے کاسولی میں پیدا ہوئے۔ان کی تحریریں ہندوستان کے پہاڑی علاقوں، خاص طور پر مسوری اور اس کے آس پاس کی زندگی کو نمایاں کرتی ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’دی روم آن دی روف‘‘ ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا ، جو انھوں نے صرف سترہ برس کی عمر میں لکھا تھا، اور اس ناول کو ’جان لیویلین ریز انعام‘ سے نوازا گیا۔ رسکن بونڈ کی مشہور کہانیوں میں ’’دی بلو امبریلا ‘‘، ’’پرائیویٹ زو‘‘ شامل ہیں۔ ان کی تحریریں سادگی، قدرتی حسن اور انسانی جذبات کو بہترین انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ادب کے میدان میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں اعلیٰ اعزازات ’پدم شری‘ ۱۹۹۹ء اور ’پدم بھوشن‘ ۲۰۰۴ء سے نوازا گیا۔ رسکن بونڈ کے ناولوں پر بالی وڈ نے فلمیں اور ڈرامے بھی فلمائے۔
View all posts -
عمیر علی ۲۶ ستمبر ۲۰۰۲ء میں ضلع پاکپتن کے شہر قبولہ شریف میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم علی شیر زرگر گولڈ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ کاروباری معاملات کی وجہ سے ہجرت کر کے ضلع لودھراں کی تحصیل دنیاپور میں آ بسے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے اپنے شہر قبولہ شریف کےسکول اجالا پبلک سکول سے حاصل کی بعد میں جب دنیاپور منتقل ہوئے تو پرائمری سے مڈل تک کی تعلیم بوٹا اقبال پبلک سکول سے حاصل کی۔ انھوں نے میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول دنیاپور سے کیا ۔پھر انٹر اور بی ایس اردو کی ڈگری کے لیے گورنمنٹ کالج دنیاپور کا انتخاب کیا ۔ زمانہ طالب علمی سے ہی سکول و کالج میں منعقد ہونے والے تمام علمی و ادبی پروگراموں میں بھر پور شرکت کرتے ہیں ۔ حال ہی میں ہی اپنا بی ایس (اردو) مکمل کیا ہے۔ انھوں نے اپنا تحقیقی مقالہ مرزا اطہر بیگ کے ناول ’’خفیف مخفی کی خواب بیتی ‘‘ پر لکھا۔ انھوں نے اپنے استاد محترم ریحان صاحب کے ترجموں سے متاثر ہو کر ترجمہ نگاری میں قلم آزمائی کرنا شروع کی۔ اب تک انھوں نے دو تراجم کیے ہیں۔ اور اس کام میں بھرپور محنت کر رہے ہیں۔
View all posts
2 thoughts on “اچھوت”
Congratulations Umair
Good translation!