اک چیز جسے دل کہتے ہیں
میں دیکھتی ہوں
بکھرتے لفظوں، پگھلتے حرفوں، خمیدہ گوشوں کو دیکھتی ہوں
خمیدہ گوشوں کے بیچ پھیلے خلا کو اندر سے دیکھتی ہوں
میں دیکھتی ہوں
بکھرتے لفظوں، پگھلتے حرفوں، خمیدہ گوشوں کو دیکھتی ہوں
خمیدہ گوشوں کے بیچ پھیلے خلا کو اندر سے دیکھتی ہوں
مجھے آنسوؤں نے
تو پوری طرح سے گلے سے اتارا نہیں
جس کے کارن مجھے اشک باری کی عادت سی ہونے لگی
جلتی راتوں نے رگ رگ کو اتنے تسلسل سے جھلسا دیا
اداسی بھرا اک خلائے بسیط
روشن، مگر رات جیسا تاریک
تم اپنی آنکھوں سے موت کو نہیں دیکھتے!
کیا تم اپنے کانوں سے یہ چیخیں نہیں سنتے!
اوہ پھولوں میں گھری لڑکی
اوہ کبوتروں کی ڈاریں
اوہ مچھلی کا جال
اوہ پھولوں کی جھاڑیاں
سب گھیرا ڈالے ہوئے میرے تعاقب میں ہیں
اُفوہ یہ فٹ بال کھیلتے
سب جلدی میں
یہاں تک کہ تیرتے اور اُڑتے ہوئے
ایک سوگ میں ملبوس دن
گھنٹیوں سے گرتا ہے
بے گھر بیوہ کے لہراتے نقاب کی طرح
یہ ایک رنگ ہے،ایک خواب
پلاسٹک کا نہ ہونے کے باوجود، بے باس
اے ڈالیا کے پھول!
اس لمحے جب کہ مجھے جنگ میں مارا ہوا اپنا شوہر یاد آرہا ہے
زمیں پر برفباری ہے
زمیں پر خون آسا برفباری ہے—
گزشتہ سال ایسی برف باری میں
ہوا اور برف میں جلتی