

دانائی
دانائی، زمانے کی اتھاہ گہرائی میں نہاں
کسی منارہ ٔنور کی طرح ہماری سمت نمائی کرتی ہے۔
ہر افتاد میں ایک بیش قیمت سبق،
دانائی، زمانے کی اتھاہ گہرائی میں نہاں
کسی منارہ ٔنور کی طرح ہماری سمت نمائی کرتی ہے۔
ہر افتاد میں ایک بیش قیمت سبق،
میں دیکھتی ہوں
بکھرتے لفظوں، پگھلتے حرفوں، خمیدہ گوشوں کو دیکھتی ہوں
خمیدہ گوشوں کے بیچ پھیلے خلا کو اندر سے دیکھتی ہوں
مجھے آنسوؤں نے
تو پوری طرح سے گلے سے اتارا نہیں
جس کے کارن مجھے اشک باری کی عادت سی ہونے لگی
اداسی بھرا اک خلائے بسیط
روشن، مگر رات جیسا تاریک
تم اپنی آنکھوں سے موت کو نہیں دیکھتے!
ایک سوگ میں ملبوس دن
گھنٹیوں سے گرتا ہے
بے گھر بیوہ کے لہراتے نقاب کی طرح
یہ ایک رنگ ہے،ایک خواب
پلاسٹک کا نہ ہونے کے باوجود، بے باس
اے ڈالیا کے پھول!
اس لمحے جب کہ مجھے جنگ میں مارا ہوا اپنا شوہر یاد آرہا ہے
زمیں پر برفباری ہے
زمیں پر خون آسا برفباری ہے—
گزشتہ سال ایسی برف باری میں
ہوا اور برف میں جلتی