𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

Author: Yasunari Kawabata

Author

  • Yasunari Kawabata, Nobel Prize Winner, Japanese Writer

    یاسو ناری کاوا باتا نوبیل انعام برائے ادب پانے والا پہلا جاپانی ادیب ہیں جنھیں ۱۹۶۸ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ ان کے لیے اکتوبر ۱۶، ۱۹۶۸ء کو نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہوئے نوبیل کمیٹی نے قرار دیا: ” ان کا اسلوب مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو نہایت حساس انداز میں جاپانی جوہر کا اظہار کرتا ہے۔‘‘ اور خاص طور پر ان کے تین ناولوں ’’برف کا دیس‘‘، ’’ہزار قازیں‘‘ اور ’’قدیم دار الخلافہ‘‘ کا تذکرہ کیا۔ یاسو ناری کا وا باتا نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر کے ایسے معروف ناول نویس او را فسانہ نگار تھے جن کی نثر میں نظم کی سی لطافت اور غنایت بدرجہ اتم موجود ہے جس نے انھیں نوبیل انعام کا حق دار ٹھیرایا۔ ان کی لکھتیں جاپان سمیت پوری دنیا میں آج بھی ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ یاسو ناری کاوا باتا بہ یک وقت ناول نویس، افسانہ نگار، مضمون نویس ، نقاد اور ڈرامہ نگار تھا ۔ یا سوناری کاوا با تا جون ۱۱ ، ۱۸۹۹ء کو جاپان کے شہر اوساکا کے ایک متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ڈاکٹر تھے لیکن محض چار برس کی عمر میں کا وایا تا کو یتیمی کا دکھ سہنا پڑا۔ والدین کی وفات کے بعد انھیں ددھیال میں رہنا پڑا جب کہ ان کی بڑی بہن کو ان کی خالہ اپنے ہم راہ لے گئیں۔ یوں دونوں بہن بھائی ایسے جد اہوئے کہ جس کے بعد زندگی میں صرف ایک بار، جولائی ۱۹۰۹ ء میں جب کا وابا تا دس برس کے تھے، مل سکے ۔ ان کی بہن اس ملاقات کے کے دو برس بعد ۱۹۱۱ء میں چل بسی۔ ستمبر ۱۹۰۶ ء میں ان کی سات برس کی عمر میں کا وابا تا کی دادی اور پندرہ برس کی عمر میں مئی ۱۹۱۴ء میں دادا ان کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ تمام قریبی عزیزوں کے بچھڑ جانے کے بعد انھیں ننھیال ( کروداس خاندان ) جانا پڑا۔ لیکن جلد ہی ، ۱۹۱۶ء میں، انھیں ایک جونیئر ہائی سکول ( موجودہ عہد کے جدید ہائی سکول کے برابر ) کی ، جہاں وہ قبل ازیں ٹرین کے ذریعے جایا کرتا تھا ، اقامت گاہ میں منتقل ہونا پڑا۔ یہی اسباب ہیں کہ کا وابا تا کی اکثر تحریروں میں ان کی اپنی زندگی کی تنہائی ، بے یقینی کی کیفیت اور فاصلے در آئے ہیں۔ وہ اکثر ایسا تاثر پیدا کرتے ہیں گویا ان کے کرداروں کے چاروں طرف دیوار ہے اور وہ اس چار دیواری میں قید تنہائی کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ۱۹۳۴ ء کی اپنی ایک اشاعت میں کاواباتا لکھتے ہیں: ”مجھے لگتا ہے کہ میں نے کبھی کسی عورت کا ہاتھ رومانوی انداز میں نہیں تھاما… کیا میں ایسا مسرور شخص ہوں جو ترس کھائے جانے کا مستحق ہے؟ بلا شبہ ان دو جملوں کو ادبی طور پر ضبط تحریر میں نہیں لایا گیا۔ بلکہ یہ کاواباتا کے اپنے احساس عدم تحفظ کے جذبات کو، بالخصوص ان کی نو جوانی کے دو اذیت ناک معاشقوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں سے ان کا ایک کرب بھر معاشقہ ہا تسونامی لڑکی کے ساتھ تھا جسے وہ بیس برس کی عمر میں ملے تھے۔ ان کا ہاتسو کے نام لکھا ہوا محبت نامہ، جو کبھی بھیجا نہیں گیا، حال ہی میں ان کی کانا گاوا ضلع کے کاما کورا شہر کی سابقہ رہائش گاہ سے ملا ہے۔ اپنی اٹھارہویں سالگرہ مارچ ۱۹۱۷ء میں جونیئر ہائی سکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ فرسٹ اپر سکول کا امتحان پاس کرنے کی آس لے کر ٹوکیو چلے گئے۔ اسی برس انھوں نے امتحان پاس کر لیا اور جولائی ۱۹۲۰ء میں ہیومنٹیز فیکلٹی میں انگریزی مضمون کے ساتھ ان کا داخلہ ہو گیا۔ جب ۱۹۲۴ء میں انھوں نے گریجوایشن کیا تب تک وہ کیکوچی کے ادبی میگزین ’’بنگائی شن جو‘‘ میں اپنی تحریروں کی اشاعت سے کیکوچی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ افسانے لکھنے کے ساتھ ساتھ کاواباتا نے رپورٹر کے طور پر بھی کام کیا ، خاص طور پر مینی چی شمبرن کے لیے۔ انھوں نے نہ صرف جنگ عظیم دوم کی فوجی تحریک میں حصہ لینے سے انکار کر دیا بلکہ جنگ عظیم دوم کے بعد کی اصلاحات میں بھی کم ہی دلچسپی ظاہر کی۔ کا وایا تانے نو جوانی ہی میں اپنے خاندان کی موت کے ساتھ ساتھ جنگ عظیم دوم کے بھی اپنے کام پر گہرے اثرات کو تسلیم کیا ہے ۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بعد از جنگ عظیم دوم صرف نوحے ہی لکھیں گے لیکن مبصرین ان کے قبل از اور بعد از جنگ موضوعات میں کم ہی فرق پاتے ہیں ۔ کا وابا تانے جامعہ کا طالب علم ہوتے ہوے جامعہ کے تین چار برس سے تعطل کے شکار ادبی جریدے ’’خیال کی نئی رو‘‘ یا ’’خیال کا جزرنو‘‘ کا احیا کیا۔ جس میں انھوں نے ۱۹۲۱ء میں اپنی پہلی کہانی ’’شوکو نسائی میلے کا منظر‘‘ شائع کی۔ انھوں نے جامعہ سے اپنی تعلیم ۱۹۲۴ ء میں مکمل کی۔ اکتوبر ۱۹۲۴ء میں کاواباتا ، رچی یو کو مسو اور دوسرے نوجوان لکھاریوں نے ’’فن کا زمانہ‘‘ نامی ادبی جریدے کا آغاز کیا ۔ یہ جریدہ جہاں پرانے جاپانی ادب کا، خاص طور پر فطرت سے انحراف والے ادب، ردعمل تھا وہیں سوشلسٹوں؍ کمیونسٹوں کے پرولتاری ادب کی تحریک کے بھی خلاف تھا۔ اس جریدے کا واحد منشور ’’ادب برائے ادب‘‘ یا ’’فن برائے فن‘‘ تھا اور اس پر یورپی ادب کے جدید اسلوب کے گہرے اثرات نمایاں تھے۔ جلد ہی کا وایا تا کو ان کی معتد بہ کہانیوں سے شہرت ملنے لگی جن میں ’’ازو کی رقاصہ لڑکی‘‘ نے خوب شہرت پائی۔ بیس کی دہائی میں کاوابا تا ٹوکیو کے پسماندہ ضلع آسا کو سا میں قیام پذیر رہے۔ اس عرصے کے دوران جہاں انھوں نے مختلف اسالیب کے تجربات کیے وہیں تجرباتی فلم ’’پاگل پن کا ایک ورق‘‘ کا مسودہ بھی تحریر کیا ۔ ۱۹۳۴ء میں کاوابا تا آسا کو سا سے کانا گا وا ضلع کے شہر ما کورا چلے گئے جہاں انھوں نے ایام جنگ کے دوران وہاں کے ادیبوں میں متحرک وقت بتایا لیکن جنگ کے فوراً بعد وہ مکمل طور گوشہ نشین ہو گئے۔ کا وابا تا نے ۱۹۳۴ء میں اپنا نہایت معروف ناول ’’برف کا دیس‘‘ تحریر کرنا شروع کیا جو پہلے ۱۹۳۵ ء تا ۱۹۴۷ء اقساط میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس ناول نے بہ یک جست کا وابا تا کو جاپان کے صف اول کے ناول نویسوں کی صف میں لاکھڑا کیا ۔ اس ناول کو ’’کاوا با تا کا بہترین ناول‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد بھی کاواباتا کی شہرت میں بحیثیت ناول نگارا ضافہ ہوتا چلا گیا ۔ ان کے ناولوں ’’ہزار قازیں‘‘ ، ’’پہاڑ کی آواز‘‘، ’’خوابیده حسیناؤں کا گھر‘‘، ’’حسن اور افسردگی‘‘، ’’ قدیم دار الخلافہ‘‘ اور ’’جھیل‘‘ نے خوب پذیرائی حاصل کی۔ ان میں سے ان کے دو ناول ’’ہزار قازیں‘‘ اور ’’پہاڑ‘‘ کی آواز جاپان پر مابعد جنگ عظیم دوم کے اثرات پر تھے۔ کاواباتا اپنی سب سے بہترین تخلیق اپنی نیم افسانوی لکھت ’’گو کا ماہر‘‘ ( ’گو‘ ایک جاپانی کھیل کا نام ہے ) کو قرار دیا ہے ۔ یہ علامتی ناول جاپان کی جنگ عظیم دوم میں شکست کا احاطہ کرتا ہے۔ جاپانی پی ای این (PEN) کے کئی برسوں تک ( ۱۹۳۸ تا ۱۹۶۵ء) صدر کی حیثیت سے کا وابا تا نے جاپانی ادب کو انگریزی اور دیگر مغربی زبانوں میں ترجمہ کروانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ۱۹۶۰ء میں انھیں فرانس کے ’’آرڈر آف آرٹس اینڈ لٹریچر‘‘ کا افسر بھی تعینات کیا گیا اور اگلے ہی برس ، ۱۹۶۱ء میں، انھیں فرانس کے اعزاز ’’آرڈر آف کلچر‘‘ سے نوازا گیا ۔ علاوہ ازیں دیگر بے شمار اعزازات بھی ان کے حصے میں آئے جن میں مغربی جرمنی کا گوئٹے میڈل، جاپان کا پر کس ڈومیلیر لیور ایٹر انجر اور آکوتا گاواپرائز شامل ہیں ۔ نوبیل انعام کی تقریب دسمبر ۱۲، ۱۹۶۸ ء کو منعقد ہوئی ۔ کاواباتا نے اپنے نوبیل خطبے ’’جاپان ، حسن اور میں‘‘ میں ادب ، جاپانی ادب یا اپنی تحریروں اور ان کے اسلوب و غیر ہم کو مرکزی نقطہ بنانے کے بجائے زین بدھ مت پر زور دیا کہ بدھ مت کا یہ مسلک اسی مذہب کے دیگر مسالک سے کس طرح مختلف ہے تا ہم جزوی طور پر فطرت کے حسن پر کلاسیکی شعراء اور ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ قدیم داستان ’’ایسے کی داستان‘‘ اور کلاسیکی داستانوں کو، لیڈی ہو نا سا کی ’’گینجی کی داستان‘‘ اور سائی شوناگون کی ’’دی پلو بک‘‘، جاپانی ادب کے ماسٹر پیس قرار دیتے ہوئے کہا کہ جاپانی ادب اب بھی ان داستانوں کے زیر اثر ہے اور وہ موجودہ جاپانی ادب سے بہت بہتر ہیں۔ کا والا تا نے اپریل ۱۹۷۲،۱۴ء کو جاپان کے علاقے زیوشی میں گیس کے ذریعے خود کشی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ ان کی خود کشی جاپان میں خود کشی کی روایت کی وجہ سے تھی اور اس کا سبب ان کے دوست اور متوسل یو کو مشما کی ۱۹۷۰ء کی خودکشی بھی تھی۔ لیکن ان کی بیوہ سمیت دیگر قریبی عزیز واقارب نے اسے حادثہ قرار دیا ۔ ڈونلڈرچی نے اپنے مقالے میں ان کی موت کے حادثے کو نہاتے ہوئے کیس کا پلگ کھلا رہ جانا بیان کیا ہے تاہم ان کی خودکشی کے بہت سے اسباب بیان کیے جاتے جاتے ہیں ہیں جن میں پارکنسن کی بیماری، نا جائز عشقیہ تعلق اور ۱۹۷۰ء میں ان کی دوست یو کو مشما کی خودکشی شامل ہیں ۔ مشما کے برعکس کاواباتا نے مرتے دم کوئی تحریر نہیں چھوڑی۔ اس لیے اُن کی موت کے کئی محرکات ہیں لیکن واضح کوئی بھی نہیں کہ آیا وہ خود کشی تھی یا محض ایک حادثہ۔ تاہم یہ تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ اپنے نوبیل خطبے میں کاواباتا نے جدید افسانے کے باوا آدم ری نوسکے آکو تا گاوا کی ۱۹۲۷ء میں خود کشی اور درویش شاعر اکیو کا، جس نے دومرتبہ اپنی جان لینے کی کوشش کی ، خاص طور ذکر کیا۔

    View all posts
Scroll to Top
𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛