Author: مَویان
Author
-
نوبیل انعام برائے ادب۔۲۰۱۲ء سے چینی النسل ناول نگار اور افسانہ نگار مَویان کو نوازا گیا کہ’’ وہ اپنی تحریروں میں تخیّلاتی حقائق نگاری کا ادغام فوک داستانوں، تاریخ اور عصرِ حاضر سے کرتے ہیں۔‘‘ سویڈش اکیڈمی کے سربراہ پیٹر این گلنڈ کے مطابق: ’’اُن کا اسلوب اِس قدر لاثانی ہے کہ آدھا صفحہ پڑھتے ہی آپ کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ مَویان ہیں۔‘‘ گیارہ اَکتوبر ۲۰۱۲ء کو سویڈش اکیڈمی کے اعلان کے بعد مَویان یہ انعام جیتنے والے دُنیا کے یک صد نویں اور چین کے دُوسرے ادیب ہیں لیکن چین ہی میں قیام پذیر پہلے ادیب ہیں۔ مَویان سے قبل ۲۰۰۰ء میں ایک چینی ادیب گاؤ چنگ جیان کو یہ انعام مل چکا ہے لیکن وہ فرانس کے شہری تھے۔ مَو یان کا اصل نام گُوآن مَوئے ہے۔ گُوآن اُن کا خاندانی نام ہے جب کہ گھر میں اُنھیں صرف مَو کہہ کر پُکارا جاتا ہے لیکن دُنیا بھر میں اُن کی شہرت اُن کے قلمی نام مَویان سے ہے۔ مَویان کا چینی زبان میں مطلب ہے: ’’چُپ یا خاموش رہو۔‘‘ نیشنل انڈوومنٹ فار ہیومینیٹیز کے چیئرمین جِم لِیچ کو انٹرویو دیتے ہوے گُوان مَوئے نے بتایا کہ یہ نام اُن کے ذہن میں اپنے ماں باپ کی تنبیہہ سے آیا تھا کہ گھر سے باہر اپنے دِل کی بات زبان پر مت لاؤ کیوں کہ اُن کے لڑکپن میں ۱۹۵۰ء سے چین میں سیاسی انقلاب کی صُورتِ حال تھی۔ اُن کے قلمی نام مَویان کا اُن کی تحریروں سے گہرا تعلّق ہے جو چین کی سیاسی اور جنسی زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔ گُوان مَوئے ۱۷ - فروری ۱۹۵۵ء کو مَویان شندونگ صوبے کے گاؤمی ضلع کے دیہی علاقے ڈالان (جسے اُنھوں نے اپنے ناولوں میں گاؤمی ضلع کے ’’شمال مشرقی قصبہ‘‘ کا نام دیا ہے) میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوے۔ ثقافتی انقلاب کے دوران وہ سکول چھوڑ کر پٹرولیم مصنوعات کی ایک فیکٹری میں کام کرنے لگے۔ انقلاب کے بعد وہ پیپلز لِبریشن آرمی میں بھرتی ہوے اور فوج کی ملازمت کے دوران ہی اُنھوں نے لکھنا شروع کر دیا۔ تین سال بعد اُنھیں پیپلز لِبریشن آرمی کی اکادمی برائے فن و ادب کے شعبۂِ ادب میں استاد کی نشست مل گئی جہاں سے ۱۹۸۴ء میں اُنھوں نے اپنا ناولچہ ناول ’’ایک شفاف مولی‘‘ شائع کیا۔ اُنھوں نے ادب میں ماسٹر ڈگری بیجنگ نارمل یونیورسٹی سے حاصل کی۔ مَویان نے بطور مصنف اپنے کیریئر کا آغاز چینی زبان میں اصلاح اور ایک نئے عہد کا آغاز کرنے والی ہزاروں کہانیاں اور ناول لکھ کر کیا۔ اُن کا پہلا ناول ’’موسمِ بہار کی رات کو برف باری‘‘ ۱۹۸۱ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اُن کے لاتعداد ناولوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اُن کے ناول ’’سرخ جوار‘‘ پر اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی۔ توانائی سے بھرپُور مَویان نے اپنا ناول ’’حیات و موت مجھے نوچ رہی ہیں‘‘ صرف ۴۲ دِنوں میں ہاتھ سے لکھ کر مکمل کیا ۔ وہ اپنے ناولوں کو ٹائپ کرنے کی بجائے ہاتھ ہی سے لکھنے پر ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ اُن کا خیال ہے کہ ٹائپ ’’ ذخیرۂِ الفاظ کو محدود کردیتی ہے۔ ویان بین الاقوامی ادب کے تراجم کا مطالعہ کرتے ہیں (کیوں کہ مَویان کی تصانیف کو انگریزی میں ترجمہ کرنے والے ہاورڈ گولڈ بلیٹ کے بقول اُنھیں چینی کے علاوہ کوئی اَور زبان نہیں آتی)اور دُنیا بھر کے ادب کے مطالعے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ اُنھوں نے فرینکفرٹ بُک فیئر ۲۰۰۹ء کی افتتاحی تقریر میں گوئٹے کے نظریے کو یہ کہتے ہوے بیان کیا: ’’ادب ملکوں اور قوموں کے درمیان موجود سرحدوں پر غلبہ پا سکتا ہے۔‘‘مَویان کی تحریریں رزمیہ تاریخی اُسلُوب رکھتی ہیں جس میں تخیّلاتی حقائق نگاری اورمزاح کی پُرکاری کی آمیزش موجود ہے۔ اُنھوں نے انسانی حرص و طمع اور بدعنوانی کو اپنا مستقل موضوع بنایا ہے۔ مَویان کو ملنے والے انعامات و اعزازت کی طویل فہرست ہے ۔ جن میں کِری یاما۔۲۰۰۵ء، ڈاکٹر آف لیٹرز۔۲۰۰۵ء، فیوکوکا ایشین کلچر پرائز۔XVII، نیومین پرائز برائے چینی ادب۔۲۰۰۹، آنریری فیلو ماڈرن لینگوایج ایسوسی ایشن۔۲۰۱۰ء، ماؤ ڈن لٹریچر پرائز۔۲۰۱۱ء اور نوبیل انعام برائے ادب۔۲۰۱۲ء شامل ہیں۔
View all posts