

۲۰۰۳ء کے نوبیل انعام سے جنوبی افریقا کے معروف ناول نگار، افسانہ نویس، مضمون نگار، نقاد، ماہرِ لسانیات اور مترجم جے۔ایم کوئٹزی کو، جن کا پُورا نام جان میکس ویل کوئٹزی ہے، نوازا گیا۔ وہ آج کل آسٹریلیا کے شہری ہیں اور جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈا میں مقیم ہیں۔ نوبیل انعام ۲۰۰۳ء کے لیے جے ایم کوئٹزی کے نام کا اعلان کرتے ہوے نوبیل کمیٹی نے مؤقف اختیار کیا۔ ’’کوئٹزی بے شمار بہروپوں میں اجنبیوں کی ششدر کر ڈالنے والی شمولیت ڈالتے ہیں۔‘‘ اور ’’وہ نہایت ہی ہنرمند بُنت کار، زرخیز مکالمہ نگار اور تجزیاتی تعقل کے حامل ہیں۔‘‘ نوبیل انعام پانے سے قبل کوئٹزی دو بار بُکرپرائز جیت چکے تھے۔ جے۔ایم کوئٹزی ۰۹ فروری ۱۹۴۰ء کو یونین آف ساؤتھ افریقا، صوبہ کیپ (اب مغربی کیپ)، کے شہر کیپ ٹاؤن میں افریقا نِیر نسل کے جوڑے کے ہاں پیدا ہوے۔ اُن کے والد، زاچا رِیاس کوئٹزی، ایک جزوقتی وکیل اور سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ بھیڑوں کا باڑا چلاتے تھے جب کہ اُن کی والدہ، ویرا وہیمیئر کوئٹزی، ایک سکول میں استاذ تھیں۔ اُن کے گھر میں انگریزی بولی جاتی تھی لیکن عزیزواقارب کے ہم رَاہ افریقی زبان میں بات چیت ہوتی تھی۔ جے۔ایم کوئٹزی سترھویں صدی کے جرمن مہاجرین کی اولاد اور ننھیال کی طرف سے پولش خاندان سے ہیں۔ بالٹا زار ڈوبیل اُن کا نانا تھا۔ جے۔ایم کوئٹزی کی ابتدائی زندگی کا زیادہ عرصہ کیپ ٹاؤن اور ایک نزدیکی قصبے وُور سیسٹر میں گُزرا کیوں کہ اُن کے والد کی ملازمت ختم ہونے کے بعد اُن کا خاندان وُور سیسٹر منتقل ہو گیا تھا۔ کوئٹزی نے کیپ ٹاؤن کے سینٹ جوزف کالج نامی کیتھولک فرقے کے سکول اور جامعہ کیپ ٹاؤن سے تعلیم حاصل کی۔ جے۔ایم کوئٹزی نے برطانیہ میں کمپیوٹر پروگرامر کی حیثیت سے کام کرنے کے دوران ۱۹۶۳ء میں جامعہ کیپ ٹاؤن سے فورڈ میڈوکس کے ناولوں پر مقالہ لکھ کر ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ وہ ۱۹۶۵ء میں آسٹن کی جامعہ ٹیکساس، امریکا میں فُل برائٹ پروگرام کے تحت چلے گئے۔ جہاں سے اُنھوں نے ۱۹۶۹ء میں لسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پھر بفالو کی جامعہ نیویارک میں ادب پڑھانے لگے۔ وہ وہاں ۱۹۷۱ء تک رہے۔ ۱۹۷۱ء ہی میں کوئٹزی نے امریکی شہریت کے لیے درخواست دی جسے اِس بِناء پر مسترد کر دیا گیا کہ وہ ویت نام جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں شامل رہے ہیں۔ وہ واپس جنوبی افریقا لوٹ آئے اور جامعہ کیپ ٹاؤن میں انگریزی ادب پڑھانے لگے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایڈیلیڈا، آسٹریلیا چلے آئے اور جامعہ ایڈیلیڈا کے شعبہ انگریزی میں ریسرچ فیلو کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ ۰۶ مارچ ۲۰۰۶ء کو جے۔ایم کوئٹزی نے آسٹریلیا کی شہریت اختیار کر لی۔ اُنھوں نے جامعہ شکاگو میں بھی معلم کی حیثیت سے کام کیا۔ کوئٹزی نے ۱۹۶۳ء میں فِلپا جُوبّر سے شادی کی جو طلاق پر منتج ہوئی جس سے اُن کا ایک بیٹا نکولس اور ایک بیٹی جِسیلا پیدا ہوے۔ نکولس ۲۳ برس کی عمر میں ایک حادثے میں چل بسا۔ ۱۹۶۹ء میں لسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران اُنھوں نے لکھنے کا آغاز کیا۔ اِسی دوران اُنھوں نے اپنا ناول ’’ڈَسک لینڈز‘‘ شروع کیا جو ۱۹۷۴ء میں جنوبی افریقا سے منصہ ٔشہود پر آیا۔ اُن کا دوسرا ناول ’’اِن دی ہارٹ آف سٹی‘‘ ۱۹۷۷ء میں اشاعت پذیر ہوا جس نے اپنے عہد کا سب سے اہم جنوبی افریقن ادبی ایوارڈ، سی این اے ایوارڈ، جیتا۔ یہ ناول بعد برطانیہ اور امریکا سے بھی شائع ہوا۔اِس کے بعد بھی کوئٹزی نے ناول لکھے لیکن۱۹۸۳ء میں چھپنے والے ناول ’’لائف اینڈ ٹائمز آف مائیکل کے‘‘نے کوئٹزی کی شہرت پر مہر ثبت کر دی۔ اِس ناول کو برطانوی ادبی اعزاز ’’بُکر پرائز‘‘ سے نوازا گیا جس کا اُس وقت آغاز ہوا ہی تھا۔ یُوں کوئٹزی ’’بُکر پرائز‘‘ حاصل کرنے والے دُنیا کے پہلے ادیب ہیں۔ ۱۹۹۹ء میں ’’ڈِسگریس‘‘ منظر عام پر آیا تو کوئٹزی ایک بار پھر ’’بُکر پرائز‘‘ کے اہل قرار پائے۔ کوئٹزی نے جرمن اور افریقی ادب کے تراجم بھی کیے جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے کتابوں پر تبصرے بھی لکھے۔ اُن کے پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنائے گئے۔ جے۔ایم کوئٹزی اِس قدر عزلت نشین اور عام لوگوں سے دُور رہنے والے ادیب ہیں کہ اُنھوں نے اپنے دونوں بُکر پرائز تک خُود وصول نہیں کیے۔ مصنف آتھر رِیان مالان کے بقول: ’’کوئٹزی بے حد راہبانہ، اُصول پسند اور کام سے کام رکھنے والے ہیں۔ وہ شراب پیتے ہیں نہ سگریٹ اور نہ ہی گوشت کھاتے ہیں۔ اپنے آپ کو صحت مند رکھنے کے لیے میلوں سائیکل چلاتے ہیں اور ہفتے کے ساتوں دِنوں صبح سویرے کم از کم ایک گھنٹا اپنی لکھنے کی میز پر بیٹھتے ہیں۔ اُن کے ساتھ پندرہ سال تک کام کرنے والے ایک ساتھی نے بتایا کہ اُس نے اِتنے طویل عرصے میں اُنھیں صرف ایک مرتبہ ہنستے ہوے دیکھا۔ اُنھوں نے ایک شناسا کی متعدّد زیافتوں میں شرکت کی لیکن کبھی ایک لفظ تک نہیں بولے۔‘‘ اگرچہ کوئٹزی کی شہرت تقریب انعامات میں شرکت نہ کرنے والے کی رہی لیکن اُنھیں بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ ۱۹۸۷ء میں یروشلم ایوارڈ وصولتے ہوے اُس نے اپنی تقریر میں جنوبی افریقن ادب پر یُوں رائے زنی کی: ’’جنوبی افریقا کا ادب پابندیوں کا ادب ہے۔ یہ انسانی ادب سے کم تر درجے کا ہے۔ درحقیقت یہ ویسا ادب ہے جیسا آپ پابندِ سلاسل ادیب سے لکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘
View all posts