𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

Author: ہارو کی مورا کامی

Author

  • ۱۲ جنوری ۱۹۴۹ء کو کیوٹو میں پیدا ہونے والے ہاروکی موراکامی جاپان کا معروف مصنف اور ترجمہ نگار ہیں۔ گارڈین نے ان کا شمار عظیم ترین حیات ناول نگاروں میں کیا ہے۔ ہاروکی موراکامی کی جوانی شوکوگاوا (نشنومیا)، آشیا اور کوبے میں بسر ہوئی جہاں ان کے ماں باپ دونوں جاپانی ادب کے استاذ تھے۔ ہاروکی موراکامی بچپن ہی سے مغربی ثقافت بالخصوص مغربی ادب و موسیقی سے بہت متأثر تھے۔ وہ متعدد امریکی ادیبوں کا مطالعہ کرتے ہوئے بڑے ہوئے۔ یہی مغربی اثر انھیں بہت سے دیگر جاپانی ادیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ٹوکیو میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کی ملاقات اپنی ہونے والی بیوی یوکو سے ہوئی۔ تعلیم ختم ہونے سے کچھ عرصہ قبل اُنھوں نے پیٹر کیٹ کے نام سے کوکوبُنجی ٹوکیو میں ایک کافی ہاؤس اور موسیقی گھر کھول لیا جسے دونوں میاں بیوی ۱۹۷۴ء سے ۱۹۸۴ء تک چلاتے رہے۔ موراکامی نے انتیس برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس سے قبل میں نے کبھی کچھ نہیں لکھا تھا۔ میں ایک عام آدمی تھا اور جاز بار چلاتا تھا۔ میں نے کبھی کوئی چیز تخلیق نہیں کی تھی۔‘‘ انھیں اپنے پہلے ناول ’’ہوا کا گیت سنو‘‘ کی، جو ۱۹۷۹ء میں اشاعت پذیر ہوا، تحریک ۱۹۷۸ء میں بیس بال کا ایک میچ دیکھتے ہوئے ملی۔ وہ گھر گئے اور اُنھوں نے اسی رات لکھنا شروع کر دیا۔ مورا کامی نے اس ناول پر سات ماہ تک کام کیا۔ وہ دن میں بار میں کام کرتے اور رات کو تھوڑا تھوڑا کر کے ناول کو لکھتے۔ ناول مکمل کر کے انھوں نے ناول کو اس واحد ادبی مقابلے میں بھیج دیا جو اتنی ضخامت کے ناول قبول کرتا تھا جتنی کا یہ ناول ہے۔ ناول نے پہلا انعام حاصل کر لیا۔ اس کامیابی نے انھیں مزید لکھنے کا حوصلہ عطا کیا اور انھوں نے متعدد ناول لکھے۔ ان کے ابتدائی دو غیر مطبوعہ ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ شائع ہوا۔ موراکامی نے ان ناولوں کو کمزور قرار دیا ہے اور وہ ان کے انگریزی میں ترجمے کے حق میں نہیں تھے۔ ۱۹۸۵ء میں ’’ہارڈ بوائلڈ ونڈرلینڈ اینڈ دی اَینڈ آف دی ورلڈ‘‘ تحریر کیا جس میں خواب جیسی ایک فینتاسی ہے۔ یہی فینتاسی بعد میں موراکامی کے عروج تک پہنچتے پہنچتے ان کی تحریروں میں انتہائی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ مورا کامی کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے والا ناول ’’نارویجین وڈ‘‘تھا جو ۱۹۸۷ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس ناول کی کہانی خسارے اور جنس پرستی کا ناستالجیا ہے۔ یہ ناول نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہوا اور اس نے ان کی جاپان میں شہرت بام عروج پر پہنچا دی۔ یہ ناول سبز اور سرخ دو جلدوں میں شائع کیا گیا جو اکٹھی فروخت کی جاتی تھیں۔ یوں اس کی فروخت کی تعداد دوگنا رہی اور اس طرح اس کے لاکھوں نسخے فروخت ہوئے۔ ۱۹۸۶ء میں مورا کامی جاپان سے نکلے اور پورا یورپ گھومنے کے بعد امریکا میں قیام پذیر ہو گئے۔ جہاں انھوں نے امریکا کی پرنسٹن اور ٹُفٹس یونیورسٹیوں میں بطور ’’رائٹنگ فیلو‘‘ کام کیا۔ اسی دوران انھوں نے ’’ویسٹ آف دی سن، ساؤتھ آف دی بارڈر‘‘ اور ’’دی وائنڈ اپ کرونیکل‘‘ تحریر کیے۔ ۱۹۹۵ء میں اُنھوں نے ’’دی وائنڈ اپ کرونیکل‘‘ شائع کروایا جو ایک ایسا ناول ہے جس میں حقیقت اور فینتاسی کو مدغم کیا گیا ہے اور جسمانی تشدد کے عنصر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ ناول ان کے سابقہ ناولوں کی نسبت زیادہ سماجی آگاہی رکھتا ہے۔ جزوی طور پر اس میں مانچوکو (شمال مشرقی چین) کے جنگی جرائم کے مشکل موضوع کو برتا گیا ہے۔ اس ناول پر انھیں جاپان کے ادبی انعام Yomiuri سے نوازا گیا جو انھیں ۱۹۹۴ء کے نوبیل انعام یافتہ ادیب کینزا بورو اوئے نے دیا جو کسی زمانے میں ان کا سخت نقاد رہا تھا۔ اس ناول کی تکمیل کے بعد ہاروکی موراکامی واپس جاپان لوٹ آئے۔ اب ان کی تحریروں کا اہم موضوع شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے نفسیاتی صدمات بن گئے تھے۔ ’’سپوتنک سویٹ ہارٹ‘‘ پہلی بار ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا اور ’’کافکا آن دی شور‘‘ ۲۰۰۲ء، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۰۵ء میں ہوا۔ ’’کافکا آن دی شور‘‘کو ۲۰۰۶ء میں ناولوں کا ورلڈ فینتاسی ایوارڈ دیا گیا۔ ’’آفٹر ڈارک ‘‘ کا انگریزی روپ ۲۰۰۷ء میں سامنے آیا جسے نیویارک ٹائمز نے ’’سال کی قابلِ ذکر کتاب‘‘ قرار دیا۔ ۲۰۰۵ء کے آخیر میں موراکامی نے مختصر کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’ٹوکیو کتان شو‘‘ کے نام سے شائع کروایا جس کا ڈھیلا ڈھالا ترجمہ ’’مسٹریز آف ٹوکیو‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ ان کی چوبیس کہانیوں کے ترجمے کا مجموعہ اگست ۲۰۰۶ء میں ’’بلائنڈ ولوز، سلیپنگ وومن‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ جس میں موراکامی کے ۱۹۸۰ء کی دہائی سے لے کر تازہ ترین کہانیوں کا انتخاب شامل کیا گیا جن میں ’’ٹوکیو کتان شو‘‘ کی پانچوں کہانیاں بھی شامل ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں انھوں نے ’’برتھ ڈے سٹوریز‘‘ شائع کروائیں جو تمام کی تمام سالگرہ کے موضوع پر ہیں۔ اس مجموعے میں دیگر انگریزی مصنفین کے ساتھ ساتھ موراکامی کی اپنی کہانی بھی شامل ہے۔ ۲۹ مئی ۲۰۰۹ء کو ’’آئی کیو۸۴ ‘‘ شائع ہوا۔ جاپانی زبان ’’کیو ‘‘ ۹ کے ہندسے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِس طرح ’’آئی کیو۸۴ ‘‘ سے ۱۹۸۴ بنتا ہے۔ اس ضخیم ناول نے خریداری کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس ناول کو ۲۰۱۱ء کو ’’مین ایشین لٹریری پرائز ‘‘کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔ موراکامی کی ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۰ء کے بیچ لکھے جانے والی متعدد کہانیاں انگریزی میں ’’دی ایلیفینٹ وینیشز ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ ہو چکی ہیں۔ موراکامی نے بھی متعدد ادیبوں مثلاً ایف سکاٹ فٹز جیرالڈ، ریمنڈ کارور، ٹرومین کیپوٹ، جان اِروِنگ اور پال تھیراؤکس کے ڈھیر سارے ادبی کام کو جاپانی زبان میں منتقل کیا ہے۔ موراکامی کی اپنی تحریروں کے بھی پچاس سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ان کے متعدد ناولوں اور افسانوں کو فلمایا بھی جا چکا ہے۔ موراکامی کو ملنے والے انعامات و اعزازت کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے دو کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ وہ چیک ری پبلک کا قابل قدر انعام ’’فرانز کافکا پرائز‘‘ پانے والے چھٹے ادیب ہیں جو انھیں ان کے ناول ’’کافکا آن دی شور‘‘ پر ۲۰۰۶ء میں دیا گیا۔ نیز دیگر انعامات و اعزازات بھی اس طویل فہرست میں شامل ہیں۔ جنوری ۲۰۰۹ء میں انھیں اسرائیل کے یروشلم پرائز کا حقدار ٹھیرایا گیا۔ فروری ۲۰۰۹ء میں یہ انعام وصول کرنے کی تقریب کے وقت نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر میں ہر جگہ انھیں اپنے خلاف شدید احتجاج اور کتابوں کے بائیکاٹ کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اسی عرصے میں اسرائیل نے غزہ میں وحشیانہ بمباری کی تھی۔ لیکن موراکامی نے تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا اور انھوں نے تقریب کے شرکاء اور اسرائیلی اعلیٰ عہدیداران سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی پالیسیوں کو شدّید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ۲۰۱۱ء میں ’’انٹرنیشنل کاتالیونیا پرائز‘‘سے حاصل ہونے والی ۰۰۰،۸۰ یورو کی خطیر رقم اُنھوں نے ۱۱؍ مارچ کو زلزلے اور سونامی کے متأثرین اور فیوکو شیما کے نیوکلیائی حادثے کے شکار لوگوں کے لیے وقف کر دی۔ انعام وصولی کی تقریب سے تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ’’ یہ دُوسرا بڑا نیوکلیائی سانحہ ہے جسے جاپانی عوام کو سہنا پڑا ہے…… لیکن اِس بار بم ہم پر نہیں گرایا گیا بلکہ ہمارے اپنے ہاتھوں غلطی ہوئی ہے۔‘‘ 

    View all posts
𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛