
بانو مشتاق

بانو مشتاق ۱۹۴۸ء میں ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے شہر حسن میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک مصنف، سماجی کارکن اور وکیل ہیں۔ انھیں آٹھ برس کی عمر میں کنڑ زبان کے شواس موگا مشنری سکول میں اس شرط پر داخلہ ملا کہ وہ چھے ماہ کے اندر کنڑ زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھیں گی لیکن انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر محض چند ایام میں ہی کنڑ زبان میں لکھنے کا آغاز کر دیا۔ بعد ازاں، مخالفتوں کے باوجود انھوں نہ صرف جامعہ کی تعلیم حاصل کی بلکہ ۲۶ برس کی عمر میں محبت کی شادی بھی کی۔ وہ کنڑ، ہندی، دکنی اردو اور انگریزی زبانیں جانتی ہیں۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ’’لنکش پیتریک‘‘ نامی اخبار میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے کیا۔ پھر انھوں نے چند ماہ کے لیے آل انڈیا بنگلور میں بھی کام کیا۔ یوں تو بانو مشتاق کو بچپن ہی لکھنے پڑھنے سے شغف تھا لیکن وہ اپنی ۲۹ برس کی عمر میں اپنا پہلا افسانہ لکھ کر باقاعدہ مصنف بنیں اور انھوں نے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی دہائیوں میں جنوب مغربی ہندوستان کے ترقی پسند احتجاجی ادبی حلقوں میں لکھنے کا آغاز کیا۔ ذات پات اور طبقاتی نظام کی ناقد بندایا ساہتیہ تحریک نے بااثر دلت اور مسلمان مصنفین کو جنم دیا، جن میں چند خواتین میں سے ایک بانو مشاق تھیں۔ وہ چھے افسانوی مجموعوں، ایک ناول، مضامین کے ایک اور ایک شعری مجموعے کی مصنفہ ہیں۔ وہ کنڑ میں لکھتی ہیں اور اپنے ادبی کاموں پر قابلِ قدر اعزازات جیت چکی ہیں، جن میں کرناٹک ساہتیہ اکیڈمی اور دانا چنتامانی اتیمبے ایوارڈز شامل ہیں۔ ان کی بین الاقوامی بکر پرائز 2025 جیتنے والی کتاب ’’دل چراغ‘‘ ان کے ادبی کاموں میں سے بارہ منتخب افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ ہونے والی پہلی کتاب ہے۔ اس انگریزی ترجمے کی وساطت سے کچھ افسانوں کا اردو، ہندی، تامل اور ملیالم میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ان کے پہلے افسانے کا موضوع نئی نئی ماں بننے والی ایک ایسی عورت ہےجو زچگی کے ڈپریشن کو سہتی ہے۔ یہیں سے بانو مشتاق نے اپنے احساسات و تجربات کے اظہار کو اپنی تحریروں کے موضوعات بنایا۔ اس طرح ان کے افسانے نسوانی مسائل کا بیانیہ ہیں۔ ان کے افسانوں کی مترجم دیپا بھاستھی نے ان کے ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۳ء کے درمیان شائع ہونے والے افسانوں میں بارہ ایسی کہانیوں کا انتخاب کیا جن کے مرکزی کردار مسلم گھرانوں کی خواتین تھیں اور دیپا بھاستھی نے اپنے تراجم کا آغاز ۲۰۲۲ء میں کر کے فروری ۲۰۲۵ء میں کتاب کو پینگوئین رینڈم، بھارت سے شائع کروایا۔ اس سے قبل دیپا بھاستی بانو مشتاق کے چھے افسانوں کے ایک انتخاب ’’حسینہ اور دوسری کہانیاں‘‘ کے عنوان سے کیا تھا ، جسے پین ایوارڈ ۲۰۲۴ء سے نوازا گیا تھا جب کہ ’’دل چراغ‘‘بکر پرائز ۲۰۲۵ء جیتنے میں کامیاب رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ بانو مشتاق تمام مرد و زن مسلمان مصنفین میں پہلی مسلمان خاتون مصنف بلکہ کنڑ زبان کے تمام مرد و زن ادیبوں میں بھی پہلی مصنف ہیں جنھیں بکر انعام سے سرفراز کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ امر بھی قابلِ تذکرہ ہے کہ دیپا بھاستھی بھی پہلی ہندوستانی مترجم (جملہ مرد و زن مترجمین میں) ہیں جو اس انعام کی شریک بنی ہیں۔ بانو مشتاق قبل ازیں کرناٹک ساہتیہ ایوارڈ ۱۹۹۹ء اور دانا چنتامنی اتیمبے ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔
View all posts