𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

Author: عبدالرزاق گرناہ

Author

  • نوبیل انعام برائے ادب ۲۰۲۱ء کی جیوری کے مطابق عبدالرزاق گرناہ کو انعام سے نوازنے پر جس امر نے انھیں تحریک دی، وہ تھا: ’’ان کے نوآبادیاتی اثرات اور ثقافتوں اور براعظموں کے درمیان خلیج میں پناہ گزینوں کی تقدیر پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر ہمدردانہ جز رسی۔‘‘ عبدالرزاق گرناہ کی تمام تخلیقات میں پناہ گزینوں کی کسمپرسی موضوع ہے۔ ان کے ناولوں میں ثقافتی طور پر متنوع مشرقی افریقا کی منظر کشی کی گئی ہے۔ گرناہ کی سچائی کے لیے لگن اور معاملات کو سادگی کا روپ دینے پر ان کی کراہت و زودرنجی قابل ذکرہیں۔ یہ انھیں رنجیدہ اور غیر سمجھوتہ کرنے والا بنا سکتے ہیں۔ تاہم بہ ایں ہمہ وہ نہایت ہمدردی اور غیر متزلزل عزم کے ساتھ افراد کی تقدیر کے متعاقب بھی ہوتے ہیں۔ ناول نگار عبدالرزاق گرناہ ۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو مشرقی افریقا میں بحرہند میں واقع جزیرہ سلطنتِ زنجیبار، تنزانیہ میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے لیکن ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آخر میں وہ اپنا دیس چھوڑنے پر مجبور ہو کر انگلستان میں آباد ہو گئے۔ دسمبر ۱۹۶۳ء میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کے بعد زنجیبار صدر عبید کروم کے دور حکومت میں ایک انقلاب سے گزرا جس میں عرب نژاد شہریوں پر جوروظلم ہوا۔ قتل عام ہوا۔ گرناہ کا تعلق متاثرہ نسلی گروہ سے تھا اور سکول کی تعلیم ختم کرنے کے بعد ان کو اپنا خاندان کو چھوڑ کر ملک بدری پر مجبور کیا گیا ۔ اس وقت تک تنزانیہ کی نو تشکیل شدہ جمہوریہ تھا۔ ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ ۱۹۸۴ء تک ان کے لیے زنجیبار لوٹنا ممکن نہیں ہوا، جب انھیں اپنے والد کی موت سے کچھ دیر پہلے ان سے ملنے کی اجازت ملی۔ گرناہ اپنی ریٹائرمنٹ تک کینٹربری کی کینٹ یونیورسٹی میں انگریزی اور ’’مابعد نوآبادیاتی ادب‘‘ کے پروفیسر رہے ہیں، جو بنیادی طور پر وولے سوینکا (Wole Sovinka)، نگوگی وا تھیونگ (Ngũgĩ wa Thiong’o) اور سلمان رشدی جیسے مصنفین کے کام اپنا مرکزِ نگاہ بناتا ہے۔ عبدالرزاق گرناہ کے دس ناول اور متعدد مختصر کہانیاں منصۂ شہود پر آئیں۔ان کے اہم ناولوں میں ’روانگی کی یاد، ۱۹۹۸۷ء‘،’حجاج کا راستہ، ۱۹۸۸ء، ’ڈوٹی، ۱۹۹۰ء‘، ’جنت، ۱۹۹۴ء‘، ’خاموشی کی تحسین ، ۱۹۹۶ء‘، ’سمندر کنارے، ۲۰۰۱ء‘، ’تنہائی، ۲۰۰۵ء‘، ’سنگ دل، ۲۰۱۷ء‘ اور تازہ ترین ناول ’ بعد از مرگ، ۲۰۲۰ء‘ پناہ گزینوں کی کسمپرسی کا موضوع ان کی تمام تخلیقات میں شامل ہے۔ انھوں نے انگلستان میں جلاوطنی کے دوران میں ۲۱ برس کی عمر میں لکھنے کا آغاز کیا، اور اگرچہ سواحلی ان کی مادری زبان تھی لیکن انگریزی ان کا ادبی ہتھیار بنی۔ انھوں نے کہا ہے کہ زنجیبار میں، سواحلی ادب تک ان کی رسائی تقریباً صفر تھی اور ان کی ابتدائی تحاریر کو بلااستثنا ادب میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ عربی اور فارسی شاعری، خاص طور پر ’’دی عریبین نائٹس‘‘، ان کے لیے ابتدائی اور اہم سرچشمہ تھیں ۔ لیکن شیکسپیئر سے وی ایس نائپال تک انگریزی زبان کی روایت ان کے کام کو خاص امتیاز بخشے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ وہ نوآبادیاتی نقطہ نظر کو الٹا ٹانگتے ہوئے مقامی آبادیوں کو اجاگر کرنے کے لیے شعوری طور پر روایت کو توڑتا ہے۔ گرناہ میں، کہانی افریقی سرزمین پر جاری رہتی ہے اور حقیقت میں کبھی ختم نہیں ہوتی۔ انھوں نے اپنی تمام تصانیف میں نوآبادیاتی سے پہلے کے پراچین افریقا کے لیے جا بہ جا موجود اپنی پرانی یادوں سے بچنے کی سعی کی ہے۔ ان کا اپنا پس منظر بحر ہند کا ثقافتی طور پر ایک متنوع جزیرہ ہے، جس کی تاریخ میں غلاموں کی تجارت اور متعدد نوآبادیاتی طاقتوں کے — پرتگالی، عرب، جرمن اور برطانوی — زیرنگیں جبر کی مختلف شکلیں اور دنیا بھر کے ساتھ تجارتی روابط ہیں۔ زنجبیار عالمگیریت سے پہلے ایک کثیرالثقافتی معاشرہ تھا۔ گرناہ کی لکھتیں ان کے جلاوطنی کے زمانے کی ہے لیکن ان کا تعلق اس جگہ سے ہے جسے وہ چھوڑ چکے تھے یعنی ان کے عمل تخلیق کے لیے یادداشت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ گرناہ اکثر اپنی احتیاط سے تیار کردہ داستانوں کو بہ دقت حاصل کردہ بصیرت تک لے کر جاتا ہے۔ پناہ گزینوں کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے گرناہ کے بیانیے میں توجہ شناخت اور اپنے تصور پر مرکوز رہتی ہے، گرناہ کے سیلانی کردار اپنے آپ کو ثقافتوں اور براعظموں کے درمیان ایک ٹوٹی ہوئی کڑی میں، ماضی کی زندگی تھی اور ابھرتی ہوئی زندگی کے مابین پاتے ہیں، جو عدم تحفظ کی ایک حالت ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ ہمیں اس ٹوٹی ہوئی کڑی کی ایک نئی شکل گرناہ کے افسانوی ادب میں ملتی ہے۔ جہاں نوآبادیاتی مشرقی افریقا میں وسیع ثقافتی فرق کو روشن کرنے کے لیے ایک المناک جذبہ برتا جاتا ہے۔ عبدالرزاق گرناہ کے ناول دقیانوسی بیانات سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے ثقافتی طور پر متنوع مشرقی افریقا کی طرف ہماری آنکھیں کھولتے ہیں جس سے دنیا کےدیگر حصوں کےبے شمار لوگوں ناآشنا ہیں۔ گرناہ کی ادبی کائنات میں، سب کچھ بدل رہا ہے — یادیں، نام، شناخت۔ غالباً ایسا اس لیے ہے کہ ان کا منصوبہ کسی بھی صورت حتمی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ فکری جذبے سے چلنے والی ایک نہ ختم ہونے والی کھوج ان کی تمام کتابوں میں بخوبی موجود اور نمایاں ہے۔ عبدالرزاق گرنا کے ناول ’جنت، ۱۹۹۴ء‘بکر اور وائٹ بریڈ پرائز دونوں کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ’سمندر کنارے، ۲۰۰۱ء‘ بکر کے لیے لانگ لسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز بک پرائز کے لیے شارٹ لسٹ ہوا۔ اور ’تنہائی، ۲۰۰۵ء‘ کامن ویلتھ رائٹرز پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ۲۰۰۶ء میں گرناہ کو رائل سوسائٹی آف لٹریچر کا فیلو منتخب کیا گیا۔ ۲۰۰۷ء میں، ان کے ناول ’سمندر کنارے‘ نے فرانس کا آر ایف آئی ٹیموئن ڈُو مونڈے (وِٹنیس آف دی ورلڈ) ایوارڈ جیتا۔

    View all posts
Scroll to Top
𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛