کنڑ کہانی
بانو مشتاق کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
محمد عامر حسینی کے تراجم و دیگر تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
شائستہ محل کی سنگی سلیں
بانو مشتاق
Banu Mushtaq
انگریزی ترجمہ : دیپا بھا ستھی
اردوترجمہ:محمد عامر حسینی

کنکریٹ کے جنگل سے، رنگ برنگی عمارتوں سے جو ماچس کی ڈبیوں کی طرح آسمان سے باتیں کر رہی تھیں، دھواں چھوڑتی، ہارن بجاتی گاڑیوں سے جو دن رات اس طرح دوڑتی رہتی تھیں جیسے حرکت ہی زندگی کا واحد مقصد ہو، اور پھر لوگوں سے — لوگ، لوگ، لوگ — جن کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت نہیں، باہمی اعتماد نہیں، ہم آہنگی کا نام و نشان نہیں، یہاں تک کہ پہچان کی ایک مسکراہٹ تک نہیں — میں اس گھٹن زدہ ماحول سے آزاد ہونا چاہتی تھی۔ سو، جب مجاہد نے تبادلے کی خبر دی تو مجھے واقعی بہت خوشی ہوئی۔
ارے! میں تو بھول ہی گئی۔ مجھے آپ کو مجاہد کے بارے میں بتانا چاہیے، ہے نا؟ مجاہد میرا گھر والاہے۔ اوہ، یہ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ عام طور پر تو عورت ہی گھر میں رہتی ہے تو اسے گھر والی کہنا چاہیے۔ شاید مجاہد میرا دفتر والا ہے۔ چھی! یہ بھی غلط کہہ گئی۔ دفتر تو میرا ہے ہی نہیں۔ اور کیا کہوں؟ اگر میں یجمانا کہہ کر اُسے مالک کہوں، تو مجھے نوکرانی بننا پڑے گا، جیسے کہ میں کوئی جانور یا کتا ہوں۔ میں تھوڑی سی تعلیم یافتہ ہوں۔ ایک ڈگری لی ہے۔ مجھے یہ مالک اور نوکر کے رشتے بنانے اچھے نہیں لگتے۔ تو کیا میں شوہر کے لیے ’گندا‘ کا لفظ استعمال کروں؟ یہ بھی کچھ بھاری بھرکم لفظ ہے، جیسے کوئی گندانترا، بڑی مصیبت آنے والی ہو۔ لیکن اس ٹنٹے میں پڑا ہی کیوں جائے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں خاوند کو ’پتی‘ پکار لیا کروں — لیکن پھر وہی مسئلہ، کوئی عورت آپ کے گھر آ کر اپنے شوہر کو یہ کہہ کر متعارف نہیں کرواتی: ’’یہ میرے پتی ہیں۔‘‘ — ہے نا؟ یہ لفظ عام بول چال میں مستعمل نہیں، نہایت کتابی لفظ ہے۔ اگر کوئی ’پتی‘ کہے تو فوراً دل کرتا ہے ’دیو ‘ بھی ساتھ لگا دیا جائے — یہ عام رواج ہے — یعنی شوہر کو خدا کا درجہ دینا۔ میں مجاہد کو اتنا اونچا مقام دینے کے لیے تیار نہیں۔
دراصل ہمارے لیے، یعنی ہم مسلمانوں کے لیے تو کہا جاتا ہے کہ اوپر اللہ کے بعد اس دھرتی پر ہمارا شوہر ہی ہمارا خدا ہے۔ فرض کرو شوہر کے جسم پر ناسور ہوں، جن سے پیپ اور خون رس رہا ہو، تو کہا جاتا ہے کہ اگر بیوی اپنی زبان سے بھی وہ زخم صاف کرے تو بھی وہ اس کے احسان کا پورا بدلہ نہیں چکا سکتی۔ اگر وہ شرابی ہو، یا عورتوں کا رسیا، یا روزانہ جہیز کے لیے تنگ کرے — یہاں تک کہ اگر تمام ’اگر‘ سچ ہوں تو بھی وہ شوہر ہی رہتا ہے۔ چاہے انسان کسی بھی مذہب سے ہو، یہی مانا جاتا ہے کہ بیوی شوہر کی سب سے تابعدار نوکرانی ہے، اس کی زرخرید غلام۔
اب تک آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میرا اور مجاہد کا رشتہ کیا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھ گئے ہو گے کہ میں ان سب باتوں کے بارے میں کیا سوچتی ہوں۔ یہ میری غلطی نہیں ہے؛ جب مجاہد کا، یعنی میرےہمسفر کا تبادلہ ہوا تو ہم لوگ کرشن راج ساگر ڈیم پراجیکٹ کے خوبصورت کوارٹرز میں منتقل ہو گئے۔ وہ مجھے سامنے والے صحن میں کچے کیری اور لیموں کے درخت، ڈاہلیا، چنبیلی، گلِ داؤدی اور گلاب کے پودے، اور عقبی صحن میں کری پتہ، لوبیا کے پودے اور کریلے کی بیلوں کے بیچ چھوڑ گیا۔ خود وہ چوبیس میں سے اٹھائیس گھنٹے دفتر یا کرناٹک انجینئرنگ ریسرچ اسٹیشن میں مصروف رہتا۔
اب بھی ویسا ہی ہے۔ ایک ہلکی سی ٹھنڈی ہوا میرے جسم و روح کو چھو رہی ہے۔ چونکہ بات کرنے والا کوئی نہیں، اس لیے میں باغ کے بیچ میں بیٹھی ہوں اور آپ سب سے اپنے اس نام نہاد شوہر کے بارے میں باتیں کر رہی ہوں۔ لیکن… ارے! یہ کیا؟ مجاہد کا اسکوٹر، وہ بھی دن کے اس وقت! میں نے گھڑی دیکھی۔ صرف پانچ بجے تھے۔ میں نے بھنویں چڑھائیں لیکن اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ مجاہد نے دانت نکالے۔ میں نے اپنے دانت سختی سے اپنے ہونٹوں کے پیچھے قید کر لیے۔ اُس نے جھک کر ہیلمٹ میرے سر پر رکھا، مجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔’’ہمم، جلدی کرو! میں تمہیں آٹھ منٹ دیتا ہوں۔ اتنے وقت میں تیار ہو کر باہر آ جاؤ۔ اگر نہیں آئیں تو…‘‘
ذرا رکیے۔ مجھے ساری کہانی بتانے دیں۔ ہم نوبیاہتا جوڑا ہیں۔ اگر میں ٹھیک ٹھیک بتاؤں تو ہماری شادی کو دس مہینے اور تیرہ دن ہوئے ہیں۔ مجاہد نے اس سے پہلے بھی کئی چالبازیاں کی ہیں۔ ایک دن اس نے بہت محنت سے میری چوٹی گوندھی، اور اسے سنوارنے کے لیے میرے سر میں ایک سو اٹھارہ پن چپکا دیے۔ اس نے سمجھا کہ بہت خوبصورتی آئی ہے تو تصویر بھی کھینچی۔ میں بالکل بندر لگ رہی تھی۔ ایک اور دن اُس نے مجھے پتلون پہنانے کی کوشش کی، لیکن اُس کی سب سے ڈھیلی ڈھالی پتلون کی سیون بھی ادھڑ گئی اور اُسے ہار ماننی پڑی۔ پھر اُس نے مجھے سگریٹ پینے پر اُکسانا چاہا تاکہ لوگ اُسے ایک سوشل، لبرل شخص گردانیں۔ مجھے تو دوسروں کی سگریٹ نوشی سے ہی چڑ ہے، اس لیے میں نے دھواں باہر اگلنے کے بجائے اندر ہی روک لیا اور ظاہر کیا جیسے مجھے سخت کھانسی اور سانس لینے میں دقّت ہو رہی ہو۔ وہ بہت پریشان ہو گیا۔ لیکن یہ سب حادثے ہماری شادی کے تین مہینے کے اندر ہی ختم ہو گئے، اور اب ہم بالکل ’’نارمل‘‘ جوڑا بن چکے ہیں۔
’’پوچھ سکتی ہوں کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں، پوچھ سکتی ہو۔ بیلاگولا فیکٹری میں افتخار احمد نام کا ایک شخص ہے۔ میں اُس سے صرف آٹھ دن پہلے ملا تھا۔ اُس نے آج ہمیں اپنے گھر بیلاگولا میں آنے کی دعوت دی ہے۔‘‘ مجاہد نے جواب دیا۔
مجھے تیار ہو کر باہر آنے میں آٹھ منٹ بھی نہیں لگے۔ چلوّا میرے پیچھے دوڑتا ہوا آیا اور گیٹ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ جب میں نے اُسے کہا۔ ’’رات کے کھانے کے لیے کچھ نہ بنانا، میں آ کر خود بنا لوں گی۔‘‘ تو وہ خوش ہو گیا۔
لگتا تھا کہ اس دن مجاہد پر بھی خوش مزاجی طاری تھی۔ وہ اسکوٹر بہت آہستہ چلا رہا تھا۔ اُسے ایک ہندی گیت سیٹی میں بجاتے ہوئے سن کر میرا دل چاہا کہ اُس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کروں۔ لیکن اتنے میں ہم بیلاگولا چوراہے تک پہنچ چکے تھے۔
جب ہمارا اسکوٹر ایک گھر کے قریب رکا تو باہر کھڑے شخص نے مسکرا کر ہمارے لیے گیٹ کھول دیا۔ میں نیچے اتری اور روش پر چلنے لگی۔ صرف احاطہ ہی ہمارے کوارٹر سے بڑا تھا۔ جب میں نے وہاں کی سہولتیں دیکھیں تو سوچا آیا ہم کسی باغ یا کسی پارک میں آئے ہیں ؟ روش کے دونوں طرف امرود کے درخت تھے جن کی موٹی شاخوں سے لوہے کی زنجیروں پر جھولے بندھے ہوئے تھے۔ چنبیلی کی بیلیں اور کئی اقسام کے گلاب کھلے ہوئے تھے۔ میں حیران رہ گئی۔
میں نے قیاس کیا کہ باہر کھڑا شخص افتخار ہوگا۔ اسی وقت خاتون خانہ باہر آئیں، ہمیں پرخلوص سلام کیا اور اپنے گھر آمد پر خوش آمدید کہا۔ صرف آدھے گھنٹے میں، افتخار بھائی اور شائستہ بھابھی سے ہماری اتنی بےتکلفی ہو گئی کہ مجھے حیرت ہونے لگی! میں نے دیکھا کہ مجاہد زیادہ تر باتیں شائستہ بھابھی سے کر رہا ہے تو سوچا بعد میں تنہائی میں اسے اس پر تنگ کروں گی۔ لیکن جب مجھے احساس ہوا کہ وہ خاتون نہ صرف مجاہد سے کہیں بڑی عمر کی ہیں بلکہ ان کا دل بھی صاف ہے، اور ان کا کوئی ڈھکا چھپا مقصد نہیں تو میرا ان کے بارے میں مذاق کرنے کا دل ہی نہیں چاہا۔
وہ بہت سادہ اور کھلے دل کی خاتون تھیں، اور ہمارے آنے کے چند ہی لمحوں کے بعداپنی چھے کے چھے بچوں کی ہماری سامنے قطار لگا دی — تین بیٹیاں، تین بیٹے۔ سوائے سب سے بڑی آصفہ کے، باقی سب تو جیسے بغیر دُم کے بندروں ایسے تھے۔ شاید میرے دل کی بات بھانپ گئیں، شائستہ نے کہا۔ ’’کیا کریں، زینت۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اس سے پہلے کے میں کچھ سمجھ پاتی چھے بچے ہو گئے۔ اور جب میں نے آپریشن کرانے کا سوچا تو تمھارے بھائی صاحب آڑے آ گئے۔‘‘ انھوں نے افتخار کی طرف سر ہلا کر کہا۔ ’’اب تو ساتویں کے بعد ضرور کراؤں گی۔‘‘ ’’‘اس کی کوئی ضرورت نہیں، شائستہ۔ بچوں کو تو میں ہی پال رہا ہوں۔ تم کیوں پریشان ہو؟ اللہ کے کرم سے اتنی کمائی ہو جاتی ہے کہ سب کا پیٹ بھر جائے۔‘‘ افتخار نے قطع کلامی کی۔
’’اوہ! کیا صرف مناسب کمائی ہونا ہی کافی ہے؟ میری پیاری آصفہ کو تعلیم کو الوداع کہنا پڑا، صرف میری خاطر ۔ کیا تمہیں اندازہ بھی ہے کہ مجھے اس پر کتنا دکھ ہوتا ہے؟‘‘
’’ایسی بات نہیں ہے۔ میں نے ہی اسے پڑھائی سے روکا، کیونکہ لڑکیوں کو زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں۔ ہائی اسکول کا سرٹیفیکیٹ کافی ہے۔ اسے میسور کے کالج میں گھومنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اگلے سال اس کا بیاہ کر سکتے ہیں۔‘‘ افتخار نے جواب دیا۔
’’بالکل نہیں۔ میں بیس برس کی عمر میں بیاہی گئی تھی۔ پچھلے سترہ برسوں میں چھ بچوں کی ماں بن چکی ہوں۔ اگر تم میری بیٹی کی اتنی جلدی شادی کرو گے تو…‘‘ شائستہ کی آواز دھیمی پڑتی چلی گئی۔
مجاہد اور میں خاموشی سے یہ سب سنتے رہے۔ موضوعِ بحث آصفہ کھڑکی کے پاس اپنے بھائی کو سنبھالے کھڑی تھی۔ اُس کے نوخیز حسن کو دیکھ کر اور اُس کی قسمت کے بارے میں فیصلے سن کر میرے اندر صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ سچ کہوں تو شائستہ، مجھ سے زیادہ خوبصورت تھیں۔ اسی وقت افتخار جیسے کسی خیال سے چونک کر اٹھا اور بولا۔ اوہ شائستہ، تم اور زینت بھابھی باہر آ جاؤ، یہاں بیٹھو۔ میں کچھ پھول توڑ لاتا ہوں…‘‘
شائستہ اور میں باہر آ گئے۔ آصفہ اپنے بھائی کو دودھ کی بوتل دے کر نرمی سے تھپکنے لگی تھی۔ شائستہ ایک جھولے پر بیٹھ گئیں، میں دوسرے پر۔ مجھے جھولا بہت پسند آیا اور میں نے اُسے زور زور سے جھولانا شروع کیا۔ اوپر جانے کی خوشی اور نیچے آ کر پھر سے زمین کو دھکیلنے کی لذت! اسی وقت میں نے دیکھا کہ افتخار بھائی اپنی کمر پر پلاسٹک کی ٹوکری باندھ کر چنبیلی کی چھوٹی چھوٹی کلیاں توڑنے لگے تھے۔ مجاہد سامنے کے صحن میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ کچھ دیر بعد افتخار آئے، انھوں نے پلاسٹک کی ٹوکری اپنی بیوی کے ہاتھ میں دی اور خود امرود کے درخت پر چڑھ گئے۔ شائستہ جھولے پر بیٹھ کر پھول پرونے لگیں۔
افتخار ہمارے لیے امرود لے آئے، شائستہ کو کنارے کھسکا کر خود جھولے پر اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور پکارے۔
’’آصفہ بٹیا، ہمارے لیے چائے لے آؤ!‘‘
آصفہ نے ابھی ابھی اپنے بھائی کو سلا کر باہر آئی تھی اور مجاہد کی موجودگی کی وجہ سے وہ شرمیلی سی چپ چاپ کھڑی تھی۔ باپ کی آواز سنتے ہی وہ چائے بنانے اندر چلی گئی۔ یہ ہماری موجودگی کے ایک گھنٹے میں افتخار کی دسویں چائے تھی۔
شائستہ نے چنبیلی کی پروئی ہوئی کلیوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک مجھے دیا اور دوسرا اپنے سر کے اوپر تاج کی طرح باندھ لیا — جیسے رسی ہو۔ یہ گجرا اس کی موٹی اور لمبی چٹیا پر بہت سج رہا تھا۔ آصفہ نے آ کر چائے کا کپ افتخار کو دیا۔ مجھے کچھ عجیب لگا کہ شائستہ اپنی بڑی عمر کی بیٹی کو نظر انداز کر رہی تھی اور خود پھولوں سے سجی ہوئی تھی۔
’’آؤ آصفہ۔‘‘ میں نے اسے بلایا اور اپنے حصے کے پھول دینے کی کوشش کی۔ اس نے لینے سے انکار کر دیا، مگر میں نے زبردستی اسے اپنے پاس بٹھایا اور اس کے بالوں میں گجرا باندھ دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اور وہ چپ چاپ چائے کا خالی کپ اور طشتری لے کر اندر چلی گئی۔
اندھیرا ہو رہا تھا۔ جب میں رخصت ہونے کا سوچ رہی تھی عین اسی وقت افتخار نے کہا۔ ’’زینت بھابھی، یہ دیکھیں، میں نے امرود کا یہ درخت شائستہ کے لیے لگایا تھا۔ یہاں کا ہر پودا، ہر پھول، اس کا پسندیدہ ہے۔ یہ انابِ شاہی کی بیل بھی اس کے لیے ہے۔ یہ جھولے… یہ تو اسے بہت پسند ہیں۔‘‘
’’افتخار بھائی، آپ دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ آپ بھابھی کی پسند ناپسند کا خاص خیال رکھتے ہیں۔‘‘
’’صرف یہی نہیں، اگر میں بادشاہ ہوتا تو ایک ایسا محل بنواتا جو تاج محل کو بھی شرما دیتا اور اس کا نام ہوتا شائستہ محل—‘‘
تب تک مجاہد بچوں کے ساتھ کھیل کود بند کر چکے تھے۔ وہ قریب آئے اور ان کی بات بیچ ہی میں کاٹ دی۔ ’’اوہو، ہو! بس کرو افتخار، تمھیں پتا بھی نہیں تم کتنی بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہو؟ شہنشاہ نے تاج محل اپنی مرحومہ بیوی کا مقبرہ بنوایا تھا۔ اللہ بھابھی کو لمبی عمر دے۔ وہ تمھارے سامنے زندہ سلامت بیٹھی ہیں، اور تم شائستہ محل کی بات کر رہے ہو!‘‘
ایسا لگا جیسے افتخار ایک لمحے کو لڑکھڑا گیا ہو۔ مگر کوئی تاج محل کو کوئی مقبرہ نہیں مانتا۔ لوگ اسے محبت کی نشانی کے طور پر لیتے ہیں۔ میں نے بھی اسی مفہوم میں کہا تھا۔‘‘
مگر مجاہد نے بات ختم ہونے نہ دی۔ ’’ہاں، ہاں، مرحوم محبت کی نشانی!‘‘
’’لیکن محبت مرتی نہیں، مجاہد۔‘‘
’’ہمم… نہیں۔ لیکن یہ سب بہت فلمی باتیں ہیں، بھائی۔ اگر تمھاری ماں مر جائے، تو اس کے ساتھ ماں کی محبت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ محبت تمھیں پھر کسی اور سے نہیں ملے گی۔ ہاں، لیکن اگر بیوی مر جائے، تو بات الگ ہے، کیونکہ دوسری بیوی مل سکتی ہے۔‘‘
مجاہد کی یہ بات سن کر میں حیرت زدہ رہ گئی۔
شائستہ کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بولیں۔ ’’ہاں، میری نانی کہتی تھیں کہ اگر بیوی مر جائے تو شوہر کے لیے وہ صرف کہنی پر چوٹ جیسا ہوتا ہے۔ جانتی ہو زینت، اگر کہنی پر چوٹ لگے، تو ایک لمحے کو درد ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ لیکن چند سیکنڈ کے بعد نہ زخم رہتا ہے، نہ خون، نہ نشان، نہ درد… ‘‘
مجھے اس بات چیت کا رخ بالکل پسند نہ آیا۔ لیکن اچانک افتخار غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے شائستہ کے ہاتھ تھام لیے اور بولے۔ ’’شائستہ، یہ کیا کہہ رہی ہو؟ میرے جسم کے ہر خلیے میں جو زندگی ہے، وہ تمھارے نام کی طاقت سے ہے۔ میرے دل کی ہر دھڑکن تمہاری توانائی سے ہے۔ تم نے — جو ابھی کہا — کیا وہ تمھارے دل سے نکلا؟ کیا واقعی تم ایسا ہی سوچتی ہو؟‘‘
مجھے اپنی ہنسی روکنے میں بڑی مشکل ہوئی۔ مجھے یاد آیا شائستہ نے بتایا تھا کہ افتخار ان سے دس سال بڑے ہیں۔ ایک پچاس سال کے قریب کا مرد، یوں محبت کی جاودانی کا اعلان کرتے ہوئے، اور سامنے شائستہ، رانیوں کی طرح بیٹھی، جیسے ہر غلطی معاف کر دینے کو تیار ہو — یہ منظر شاید دوبارہ دیکھنے کو نہ ملتا۔ مجاہد آخرکار مسکرا دیے۔ شائستہ شرما کر ہنس پڑیں۔
ہم جلد ہی وہاں سے چل پڑے۔
چونکہ شائستہ کے گھر ہم بہت کھا چکے تھے، مجاہد نے کہا کہ اسے رات کے کھانے کی ضرورت نہیں، صرف ایک گلاس دودھ کافی ہے۔ مجھے بھی کچھ بھوک نہیں تھی، اس لیے کھانا پکانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ وہ کتاب لے کر بیٹھ گئے، اور میں بھی’’فیمنا‘‘ میگزین کا ایک شمارہ الٹ پلٹ رہی تھی، لیکن میرے خیالات شائستہ کے خاندان میں الجھے ہوئے تھے۔
’’مجھے معلوم ہے… تم بس یوں ہی میگزین دیکھ رہی ہو… ‘‘
’’تو پھر بتاؤ، میں کیا سوچ رہی ہوں؟‘‘
’’بتاؤں؟ تم شائستہ کے سب سے چھوٹے بچے کے بارے میں سوچ رہی ہو، وہی کالی آنکھوں اور گلابی والا۔‘‘
’’شاید۔ لیکن اس سے زیادہ میں تمھاری اُس بات کے بارے میں سوچ رہی ہوں جو تم نے وہاں کہی تھی۔‘‘
’’مجھے معلوم تھا۔ تم ضرور اس پر زیادہ سوچو گی۔ صاف بات کروں، زینت، تمھیں سمجھنا ہوگا: جس بادشاہ نے محبت کی مشہور ِزمانہ یادگار کو بنایا تھا، وہ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں مرا۔ اس کے حرم میں بے شمار عورتیں تھیں۔‘‘
’’یہ بادشاہ کے بارے میں نہیں ہے۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے، شاہ جہاں کی بات چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن کیا اپنے دور کے بادشاہِ محبت افتخار کے بارے میں بات کروں؟ افتخار کو عورتوں کی صحبت کی عادت ہے۔ شائستہ کے لیے اس کے دل میں جگہ خاص ہے کیونکہ وہ سالوں سے ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ لیکن شائستہ ہو یا نرگس یا مہرن۔‘‘
’’بس کرو۔ خاموش رہو۔ تم دس جنم لے کر بھی مجھ سے اتنی محبت نہیں کر سکتے جتنی افتخار شائستہ سے کرتا ہے۔‘‘
’’پہلی بات تو یہ کہ ہمارے ہاں دس جنم کا کوئی تصور نہیں ہے؛ میں ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ دوسری بات یہ کہ میں اسی لمحے تمھیں افتخار کی محبت سے سو گنا زیادہ محبت دکھانے کو تیار ہوں… چاہے تم کتنا بھی انکار کرو…‘‘
میں ابھی یہ سوچ بھی نہ پائی تھی کہ اس نے کتنی چالاکی سے بات کا رخ بدل دیا کہ مجاہد نے مجھے زور سے گلے لگا لیا اور پاگلوں کی طرح پیار کرنے لگا — یہ انسان نہیں، جانور ہے!
اتوار کی صبح کے نو بجے تھے، اور مجاہد ابھی بستر پر تھے جب افتخار اور شائستہ ہمارے گھر آ گئے۔ میں نے بتایا کہ مجاہد ابھی تک سو رہے ہیں، تو وہ بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ میں ان کے لیے گرم گرم سموسے لائی، لیکن افتخار نے ایک بھی نہیں کھایا۔ انھوں اپنے حصے کے سب سموسے شائستہ کی پلیٹ میں ڈال دیے، صرف ایک کپ چائے پی، اور سبزی لینے بازار چلے گئے۔
شائستہ، جو مورنی رنگ کی ساڑھی اور تھوڑے سے زیورات میں ملبوس تھیں، خاص طور پر خوبصورت لگ رہی تھیں۔ میں نے ان کے ہاتھ میں ہماری شادی کا البم تھما دیا اور اندر چلی گئی۔ جب واپس آئی، وہ غور سے ایک تصویر دیکھ رہی تھیں۔ وہ میری گریجویشن کی تصویر تھی جس میں میں گاؤن پہنے کھڑی تھی۔ جب میں ان کے ساتھ بیٹھ گئی، تو انھوں نے کہا۔ ’’زینت، میری خواہش ہے کہ آصفہ بھی ایسا گاؤن پہن کر تصویر کھنچوائے۔ اس نے دسویں جماعت پہلی ہی بار میں پاس کر لی تھی۔ ہم نے اسے آگے پڑھنے نہیں دیا کیونکہ گھر اور بچوں کا کوئی اور خیال رکھنے والا نہیں تھا۔‘‘
’’ہاتھ بٹانے کے لیے کوئی ملازمہ رکھ لیجیے، بھابھی۔‘‘
’’ایک تھی، کہہ کر گئی کہ گاؤں جا رہی ہے، پھر واپس نہیں آئی۔ لگتا ہے کسی ایجنٹ نے اسے دمام بھیج دیا۔ اس کے بعد کوئی نہیں ملی۔‘‘
’’آصفہ اس سال تو اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔ سے کم از کم اگلے سال ہی سے کالج بھیج دیجیے گا۔‘‘
’’یہی کروں گی۔ محض اپنی سہولت کے لیے اس بےچاری بچی پر ظلم کیوں کریں؟ اوہ زینت، میں تو پوچھنا بھول گئی۔ بچوں سے بچنے کے لیے آپریشن کروانا خطرناک ہوتا ہے کیا؟‘‘
’’اس میں کیا خطرہ ہے، بھابھی؟ میری ماں کے خاندان میں تین بھابھیاں اور دو بڑی بہنیں دو دو تین تین بچے جنمنے کے بعد یہ آپریشن کروا چکی ہیں۔ سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔‘‘
’’اچھا؟ تو پھر میں بھی اس بار آپریشن کروا لوں گی۔ اگر تم ساتھ چلو گی تو مجھے جو تھوڑا بہت ڈر ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘
’’بھابھی، آج تو آپ خوبصورت لگ رہی ہیں! ذرا اس زینت کو بھی اپنی طرح سجنا سنورنا سکھا دیجیے۔ ‘‘ اتنے میں مجاہد جاگتے ہی باہر آئے اور بمشکل کرسی گھسیٹ کر شائستہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’چپ کرو، شرارتی آدمی! بھاگو یہاں سے، سست انسان!‘‘ شائستہ نے ہنستے ہوئے اس کی پیٹھ پر مذاقاً ہلکی سی چپت لگائی۔
میں نے اصرار کیا کہ وہ دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔ انھوں نے قبول کیا اور شام کو ہی بیلگولا واپس گئے۔ اب میرے دن کے آر ایس میں پہلے کی طرح تنہا نہیں رہے تھے۔ میں جب چاہتی، شائستہ کے گھر چلی جاتی۔ ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں وقت کا پتا ہی نہ چلتا۔ شائستہ کے ساتھ بھی یہی ہوتا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بچوں کو اچھی تعلیم ملے، خاص طور پر آصفہ کو۔ وہ اسے گھریلو ذمہ داریوں سے نکال کر تعلیم دلوانا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ انھیں کسی چیز کی خواہش نہ تھی۔ وہ تندرست و توانا دکھائی دیتی تھیں اور ان کا چہرہ دمکتا تھا۔
اس دن جس لیڈی ڈاکٹر نے شائستہ کا معائنہ کیا تھا، اس نے بتایا کہ زچگی میں ابھی پندرہ بیس دن باقی ہیں۔ اسی لیے میں نے سب کو اس اتوار کو اپنے گھر بلایا، اور خاص طور پر کہا کہ آصفہ کو بھی لائیں۔ وہ ایک خوشی بھرا دن تھا؛ بہت کام تھا اور فرصت کا کوئی لمحہ نہ تھا۔ حسبِ معمول، شائستہ اور مجاہد ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے؛ افتخار اپنی ابدی محبت کا یقین دلا رہے تھے؛ بچے شور مچا رہے تھے؛ آصفہ خاموش تھی، تنہا۔ ہم سب نے خوب دعوت اڑائی اور جب انھیں رخصت کیا تو رات کے نوسے اوپر کا وقت ہو چکا تھا۔
اگرچہ صبح پانچ بجے کے الارم پر میری آنکھ کھل گئی تھی مگر میرا دل چاہ رہا تھا کہ کمبل کو مضبوطی سے اوڑھ کر کچھ دیر اور سو لوں۔ تبھی دروازے کی گھنٹی بجی۔ اب اٹھنا مجبوری تھا۔ میں شال لپیٹے باہر آئی تو دیکھا کہ دروازے پر افتخار کھڑے ہیں۔
’’ارے، افتخار بھائی! آئیے، آئیے، آپ اتنی صبح صبح کیسے آ گئے؟‘‘
’’بھابھی، میرے پاس اندر آنے اور بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ ہم جب یہاں سے گئے تو رات تقریباً ایک بجے شائستہ کو دردِ زہ شروع ہو گیا۔ میں فوراً فیکٹری کی جیپ میں اُسے میسور لے گیا۔ وہ شلپا میٹرنٹی ہوم میں ہے۔ تین بجے اس نے بچے کو جنم دیا۔ بیٹا ہوا ہے۔‘‘ مجھے لگا جیسے افتخار یہ کہتے ہوئے کچھ شرما گئے ہوں۔
مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اوہ! کتنے ہی سال ہو گئے میں نے کوئی نومولود بچہ نہیں دیکھا تھا، نہ ہی اُن تمام تقریبات میں شریک ہوئی تھی جو ایک نئے بچے کی آمد پر ہوتی ہے۔ میں وہیں افتخار کو چھوڑ کر، سوئے ہوئے کمبھ کرن، مجاہد کی طرف بھاگی۔ میں نے کمبل ایک طرف پھینکا اور اسے جھنجھوڑ کر جگانے لگی۔ ’’اٹھو — جلدی اٹھو، پلیز — شائستہ کے ہاں بیٹا ہوا ہے، اور تم اب تک سو رہے ہو!‘‘ مجاہد نے مجھے سختی سے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور بڑبڑانے لگا۔ ’’زینت، وعدہ کرتا ہوں، تم چاہے بیٹا جنمو یا بیٹی، جب تم ماں بنو گی تو میں ساری رات نہیں سوؤں گا۔ بس تمھارے بچے کو ٹکٹکی باندھ کےتکتا رہوں گا۔‘‘
’’تُھو! کتنے بے شرم ہو تم۔ افتخار بھائی باہر کھڑے ہیں۔ اٹھو اور ان سے بات کرو۔‘‘ جب میں چائے کا کپ لے کر آئی تو افتخار چار پانچ سگریٹ پی چکے تھے۔ میں نے ان کے ہاتھ میں چائے دی اور پوچھا۔ ’’شائستہ بھابھی خیریت سے ہیں، ہے نا؟‘‘
’’ہمم۔ بس ٹھیک ہی ہے۔ کچھ مسئلہ ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ خون چڑھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لیکن بعد میں ضرورت نہیں پڑی۔ شائستہ بہت کمزور ہو گئی ہے۔ میں اب چلتا ہوں۔‘‘ افتخار نے کپ رکھ کر اٹھتے ہوئے کہا اور کاہل الوجود مجاہد کے باہر آنے سے پہلے ہی رخصت ہو گئے۔
مجاہد اور میں میسور کے لیے روانہ ہو گئے۔ راستے بھر وہ مجھے چھیڑتا رہا کہ اگر بچہ ہمارا ہوتا تو وہ یہ کرتا، وہ کرتا، خود پالتا، وغیرہ۔
جب ہم نرسنگ ہوم پہنچے، تو افتخار کا پورا خاندان وہاں موجود تھا۔ آصفہ نے بچوں کو باہر اکٹھا کر رکھا تھا کیونکہ وہ اندر شور مچا رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ مسکرائی۔ جب میں نے پوچھا۔ ’’ تم اتنی خوش کیوں لگ رہی ہو؟‘‘ تو اس نے جواب دیا۔ ’’بچہ بہت پیارا ہے، بھابھی۔ جب آپ دیکھیں گی تو آپ بھی بہت خوش ہوں گی۔‘‘
واقعی، بچہ بہت خوبصورت تھا — نرم، گلابی، بالکل گلاب کے پھول کی مانند۔ وہ آنکھیں بند کیے سو رہا تھا۔ شائستہ کے ہونٹوں کا رنگ اڑ چکا تھا، اور وہ نقاہت سے مسکرا رہی تھیں۔ میں ان کے پاس بیٹھ گئی اور بچے کو گود میں اٹھا لیا۔ ’’شائستہ بھابھی، بچے کو نظر لگ جائے گی۔ آپ اتنے خوبصورت بچے کیسے پیدا کر لیتی ہیں؟‘‘ میں نے انھیں چھیڑا۔
’’فکر نہ کرو۔ اگر تم مجاہد سے کہو تو وہ تمھارے ہاتھوں میں اس سے بھی زیادہ پیارا بچہ لا کر رکھ دے گا۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔
عین اُسی وقت مجاہد افتخار کے ساتھ اندر آیا۔ اُس نے مجھ سے بچہ لیا، ایک لمحے کے لیے بچے تکا اور پھر اسے اپنے سینے سےچمٹا لیا۔ جب اُس نے پوچھا۔’’بھابھی، اگر میں یہ بچہ چرا کر بھاگ جاؤں تو آپ کیا کریں گی؟‘‘ تو انھوں نے اُس کے چپت لگائی۔
’’تم کیسے آدمی ہو جو کسی کا بچہ چرا کر بھاگنے کی بات کر رہے ہو؟ اپنی فوج تیار کرو تو ہم بھی دیکھیں۔‘‘ جواباً انھوں نے بھی اسے چھیڑا۔ افتخار نے فلک شگاف قہقہ لگایا۔
ہم شام تک وہیں رُکے رہے، اور جب ہم واپس جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے تو میں نے شائستہ سے کہا۔ ’’آصفہ کے لیے سب بچوں کا خیال رکھنا اور زچہ خانہ میں تمہیں کھانا پہنچانا مشکل ہو سکتا ہے۔ میں تمھارے گھر لوٹنے تک سلو، امّو، نوین اور کمال کو اپنے ساتھ رکھ لوں؟‘‘
’’ٹھیک ہے، زینت۔ آصفہ میری بیٹی نہیں، وہ تو میری ماں جیسی ہے۔ صرف ابھی کی بات نہیں — جب سے اُس نے اسکول چھوڑا ہے، وہ گھر کے سارے کام سنبھال رہی ہے اور سارے بچوں کا خیال بھی رکھ رہی ہے۔ میں یہاں زیادہ دن نہیں رہوں گی۔ پرسوں گھر واپس چلی جاؤں گی۔‘‘ اُس نے کہا۔
’’پھر… آپریشن؟‘‘
’’ابھی کچھ کمزور ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ پندرہ دن بعد آنا، پھر آپریشن کر دیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ پھر میں چلتی ہوں، دوبارہ آؤں گی۔‘‘
جب شائستہ گھر واپس آگئی، تو میں اُسے چند بار ملنے گئی۔ لیکن سب سے زیادہ حیرانی کی بات وہ تھی جو ہم نے اُس وقت دیکھی جب ایک اتوار کو مجاہد اور میں میسور جا رہے تھے۔
اس دن ہم ٹرین سے سفر کر رہے تھے کیونکہ ہمیں گھر کے لیے راشن لینا تھا۔ ٹرین بیلاگولا اسٹیشن پر رکی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ شائستہ مکمل آستین والی سویٹر پہنے اور سر پر دوپٹہ لیے افتخار کے ساتھ پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ مجاہد بوگی کے دروازے پر کھڑا ہو کر ان کی طرف ہاتھ ہلانے لگا۔ وہ جلدی سے اُسی ڈبے میں سوار ہو گئے جس میں ہم بیٹھے تھے۔
میں نے بےوقوفی سے پوچھا۔ ’’آپ میسور کیوں جا رہی ہیں؟‘‘ شائستہ کی پرانی شادابی اور زندہ دلی ایک بار پھر لوٹ چکی تھی۔ ایسی کیا بات تھی کہ صرف پندرہ دن کی نفاس میں رہنے والی ماں، جسے کسی چیز کی کمی نہیں تھی اور آرام دہ زندگی گزارتی تھی، اسے خود میسور کسی کام سے جانا پڑ رہا تھا؟ شائستہ نے جیسے اُس نے میرے دل کی بات پڑھ لی ہو، وہ بولی۔ ’’اوہ، میں کبھی پندرہ دن سے زیادہ نفاس میں نہیں رہی۔ میں بس گرم رہوں، اتنا ہی کافی ہے، اور اگر میں اِن کے ساتھ نہ ہوں تو یہ بہت کاہل ہو جاتے ہیں۔ میں بالکل تندرست ہوں۔ میں ہر وقت بستر پر کیوں پڑی رہوں؟ جب میری پہلی بیٹی پیدا ہوئی تھی، تب بھی میں صرف پندرہ دن بستر پر رہی تھی۔‘‘
اس کے بعد میں نے اُس سے کچھ اور پوچھنے کی ہمت نہیں کی۔ میں نے اپنی بڑی بہنوں اور بھابھیوں کو نفاس کے دور سے گزرتے دیکھا تھا۔ وہ زچگی کے تین مہینے بعد تک بستر سے نہیں اُٹھتی تھیں۔ انھیں ٹھنڈے پانی کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ جب وہ صبح جاگتیں تو امّاں اُن پر تین بڑے بڑے دیگچوں میں گرم پانی انڈیلتیں، فوراً لیٹنے کو کہتیں اور ان پر دس کمبل ڈال دیتی تھیں۔ بالآخر امّاں کو لگتا کہ دس کمبل بھی کافی نہیں، تو وہ ہر عورت کے اوپر ایک اور گدا بچھا دیتی تھیں۔ پندرہ منٹ کے اندر نئی ماں پسینے سے شرابور ہو جاتی۔ امّاں اُسے اُٹھا دیتی، اُس کا پسینہ — جسے امّاں ’’برا پانی‘‘ کہتی تھیں — صاف کرتیں اور اُسے بکرے کے دل یا پائے کا شوربہ پلاتیں۔ وہ اس کے بالوں کو لوبان (سمبرانی) کے دھوئیں سے سکھاتیں، اُسے دوبارہ لٹاتیں، اُس کے پیٹ کی چربی کو ایک ہاتھ میں جمع کرتیں اور ایک بڑی شفاف ساڑھی کو اُس کی کمر پر زور سے باندھ دیتیں تاکہ پیٹ چپٹا رہے۔ پھر وہ نئی ماں کو میتھی دانے کا پاؤڈر گھی کے ساتھ نگلنے کو کہتیں… لیکن چونکہ اُن کے شوہروں نے حکم دیا ہوتا کہ وہ گھی نہ کھائیں تاکہ اُن کا وزن نہ بڑھے، اس لیے وہ چالاکی سے وہ پلیٹیں بستر کے نیچے سرکا دیتیں تاکہ امّاں کو پتا نہ چلے۔
بعد میں، بچے کو دودھ پلانے کے بعد، نفاس میں رہنے والی ماں دوپہر تقریباً ایک بجے جاگتی۔ جیسے ہی وہ اٹھتی، چاول، کالی مرچ والا ساارُو (مرچ والی پتلی شوربے جیسی ڈش) اور سب سے نرم گوشت کے چار ٹکڑے جو مرچ میں تلے ہوتے، تیار ہوتے۔ اُسے صرف اُبلا ہوا پانی پینا ہوتا۔ شام کو، شاوِگے (چاول کی سوئیوں جیسا پکوان) جس میں وافر مقدار میں گھی، بادام اور الائچی ہوتی، یا کوئی میٹھا پکوان ہوتا، اور رات کو گندم کی روٹیاں یا بریڈ کے ساتھ گوشت کا میلوگارا سالن دیا جاتا۔ اس سخت غذا کے چالیس دنوں کے بعد، نئی ماں زیور اور نئی ساڑھی پہن سکتی تھی؛ وہ بالکل ایک دلہن کی طرح لگتی۔
جب میرے بھائی یا بہنوئی نفاس کے دوران اپنی بیویوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے، تو امّاں بڑبڑانے لگتیں۔ ’’کیا بے شرمی ہے! اگر میں شوہر اور بیوی کو تھوڑا وقت اکٹھے گزارنے دوں… تو یہ موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں… مجھے کیا فرق پڑتا ہے… اگر تم سب تندرست ہو تو تمہارے شوہر تمہارے ساتھ رہیں گے… اگر تم اپنے جوان جسموں کو بگاڑ دو، تو نقصان تمھیں ہی ہوگا… برامبرا، شیٹرو عورتوں کو دیکھو! وہ بچے کی پیدائش کے پانچ ماہ بعد بھی نفاس میں ہوتی ہیں۔ کیا ہم وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو وہ کرتی ہیں؟ کیا ہم اتنا خیال رکھ سکتے ہیں؟ اسی لیے تو وہ سب اتنی مضبوط اور صحت مند ہوتی ہیں۔‘‘
وہ ایسی باتیں کرتی رہتیں۔ اگر نئی مائیں بیٹھ جاتیں، تو وہ اُنھیں کہتیں کہ ’’برا پانی‘‘ اُن کی کمر تک پہنچ جائے گا، اور اگر وہ کھڑی ہوتیں، تو وہ انھیں ڈراتیں کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گی، اور مشورہ دیتیں کہ لیٹی رہیں۔ ’’بچے کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک چالیس قبریں ماں اور بچے کے لیے منھ کھولے بیٹھی ہوتی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک قبر اپنا منہ بند کر لیتی ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے کہ ایک نیا وجود کسی جسم سے پیدا ہو؟ یہ تو ایسے ہے جیسے خود ماں کوایک نئی زندگی مل رہی ہو۔‘‘ امّاں کہا کرتی تھیں۔
اگر امّاں کی باتوں پر یقین کیا جائے، تو شائستہ کے لیے اب بھی پچیس قبریں منہ کھولے انتظار میں تھیں۔ اور وہ اس حال میں آزادانہ گھوم رہی تھی! یہ سب خیالات پلک جھپکتے ہی میرے ذہن میں آ گئے۔
مگر ان پچیس قبروں کے منھ بند ہو چکے تھے۔ چالیس دن مکمل ہونے پر شائستہ کے گھر ایک تقریب منعقد ہوئی۔ میں وہاں جانے کی تیاری کر رہی تھی— چاندی کی پائلیں، شائستہ کے بیٹے کے لیے بابا سوٹ، اور اُس کے لیے ایک بلاؤز کا کپڑا لے رہی تھی —کہ ایک تار موصول ہوا:
’’ماں کی طبیعت شدید خراب ہے۔ فوراً پہنچو۔‘‘
مجاہد اور مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا انتظام کریں۔ ہم نے فوری طور پر دستیاب ہونے والے چند کپڑے ایک سوٹ کیس میں ٹھونسے اور فوراً میسور کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہاں سے ہم اپنے گاؤں کے لیے نکلے۔ جب ہم گھر پہنچے تو امّاں کی حالت بہت خراب تھی۔ دل کے شدید دورے کے بعد وہ بہت ناتواں ہو گئی تھیں اور ان کا چہرہ زرد تھا۔ جب انھیں اندازہ ہوا کہ وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گی تو انھوں نے اپنی تمام اولاد کو اپنے قریب دیکھنے کی خواہش کی۔ میں سب سے چھوٹی تھی اور وہاں پہنچنے والوں میں سب سے آخری۔ تیسرے دن امّاں نے آخری سانس لی تو وہ بالکل یوں لگ رہی تھیں جیسے ابھی سو ئی ہوں۔ میری ماں۔ وہ ماں جس نے مجھے پالا پوسا، محبت دی، تھپکا تھپکا کر اپنی گود میں سلایا، اب میرے سامنے ایک ٹھنٹھ کی طرح پڑی تھی۔ مجھے نہیں معلوم میں نے وہ منظر کیسے برداشت کیا۔
امّاں کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔ میں اندر سے سن ہو چکی تھی۔ مجھے لگا اگر ہم واپس کے آر ایس (KRS) چلے گئے تو میں مزید تنہائی کا شکار ہو جاؤں گی اور مزید اداسی میں ڈوب جاؤں گی۔ مجاہد نے ایک ماہ کی طویل رخصت لی اور میرے ساتھ ہی رک گیا۔ امّاں کے چہلم کے چار پانچ دن بعد، ہم کے آر ایس لوٹ آئے۔
اس دن، میں گھر میں بیٹھ سکی نہ کھڑی ہو سکی۔ ایک عجیب سی بےچینی، ایک تکلیف کا سا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید اس لیے کہ میں لوگوں سے بھرے ہوئے ایک گھر میں رہ رہی تھی اور اب اچانک اپنے آپ کو اکیلا پایا ہے۔ چونکہ مجاہد ابھی تک چھٹی پر تھے، ہم دونوں شائستہ کے گھر جانے کے لیے تیار ہوئے؛ میں نے وہ تحفے لیے جو ہم نے اُس اور اُس کے بچے کے لیے خریدے تھے۔
جب ہم ان گھر پہنچے تو یوں لگا جیسے باغچے کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی تھی۔ گھر میں بچوں کا کوئی نشان نہیں تھا۔ میں ہال میں ایک کرسی پر بیٹھ گئی اور اِدھر اُدھر نظر دوڑائی؛ شائستہ کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ مجاہد بیٹھ گیا، اور جب اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے اخبار اٹھا لیا۔ میں نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ چار بجے شام تک کیسی نیند لے رہی ہے؟
’’بھابھی… شائستہ بھابھی… میں ہوں، زینت۔ دو منٹ میں باہر آ جائیں۔ ورنہ میں دروازہ توڑ دوں گی!‘‘
میں نے کنڈی کھلنے کی آواز سنی۔ پیچھے سے افتخار نکلے۔ میں سمجھی تھی شاید وہ فیکٹری میں ہوگے، اور مجھے تھوڑی سی شرمندگی محسوس ہوئی۔ میں پیچھے ہٹ گئی۔ افتخار مجاہد کی طرف چلا گئے۔ میں اندر کمرے میں داخل ہوئی۔ بس وہی لمحہ تھا! میرے سر میں چکر سا آ گیا۔ تمام کھڑکیاں اور دروازے بند تھے؛ کمرے میں، بیڈ لیمپ کی مدھم روشنی میں جو عورت کھڑی تھی، وہ ہرگز شائستہ نہیں تھی۔ وہ عورت، جو اٹھارہ سال سے زیادہ کی نہیں لگتی تھی، جس کا سر جھکا ہوا تھا، جس کے ہاتھوں اور پیروں پر نئی مہندی لگی ہوئی تھی، جس کے سر پر مکمل گھونگھٹ تھا، اور دونوں کلائیوں میں سبز اور سرخ چوڑیاں تھیں، وہ ہرگز شائستہ نہیں تھی۔ آنسو گرنے سے پہلے ہی میں کمرے سے باہر نکل آئی اور افتخار سے پوچھا۔ ’’میری شائستہ بھابھی کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ اس سے پہلے کہ ہمیں کچھ سمجھ آتا، وہ ہم سے بہت دور جا چکی تھی۔‘‘
’’وہ کون ہے؟‘‘ میں نے بےرحمی سے پوچھا۔
’’میں نے اس سے شائستہ کے چہلم کے اگلے دن شادی کی ہے۔ وہ ایک غریب خاندان سے ہے۔ مجھے بہرحال بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کسی کی ضرورت تھی، اسی لیے۔‘‘
“اوہ، بے شک… وہ… وہ بچوں کا بہت اچھی طرح خیال رکھ رہی ہے، یہ بالکل ظاہر ہے۔ افتخار بھائی، آپ جو بھی کریں، ٹھیک ہے۔ لیکن اُس کے ساتھ وہ محبت بھرے دعوے نہ دہرانا جو آپ نے شائستہ سے کیے تھے۔ یہ ٹھیک ہے اگر آپ شائستہ محل نہ بنوائیں، یا اُس کی قبر کے گرد پتھروں کی سلیں نہ لگوائیں… لیکن اگر آپ کی وہ لازوال اور شدید محبت شائستہ تک جا پہنچے، اور وہ جاگ کر واپس آ جائے، تو آپ مشکل میں پڑ جائیں گے۔‘‘
مجھے ڈر تھا کہ کہیں میں اور کچھ نہ کہہ دوں، اس لیے میں گھر سے بھاگ نکلی۔ آصفہ نے اپنے سب بھائی بہنوں کو اسکول سے لا کر انھیں باغچے میں بٹھا دیا تھا، شاید وہ اپنے والد کو تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں نے اُسے دیکھا اور ایک لمحے کو رُک گئی۔
’’زینت آنٹی!‘‘ تمام بچے آناًفاناً میرے گرد جمع ہو گئے۔ آصفہ میرے قریب آ کر کھڑی ہو گئی، چھوٹے بچوں کا ایک جھُرمٹ اُس کے ارد گرد اور اُس کی بانھوں میں دو ماہ کا ایک شیرخوار بچہ تھا۔ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ کہیں دور سے، غالباً شائستہ سرگوشی کر رہی تھی۔ ’’یہ میری بیٹی نہیں ہے، یہ میری ماں ہے…‘‘
:::
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
کنڑ کہانی
بانو مشتاق کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
محمد عامر حسینی کے تراجم و دیگر تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
شائستہ محل کی سنگی سلیں
بانو مشتاق
Banu Mushtaq
انگریزی ترجمہ : دیپا بھا ستھی
ردوترجمہ:محمد عامر حسینی
کنکریٹ کے جنگل سے، رنگ برنگی عمارتوں سے جو ماچس کی ڈبیوں کی طرح آسمان سے باتیں کر رہی تھیں، دھواں چھوڑتی، ہارن بجاتی گاڑیوں سے جو دن رات اس طرح دوڑتی رہتی تھیں جیسے حرکت ہی زندگی کا واحد مقصد ہو، اور پھر لوگوں سے — لوگ، لوگ، لوگ — جن کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت نہیں، باہمی اعتماد نہیں، ہم آہنگی کا نام و نشان نہیں، یہاں تک کہ پہچان کی ایک مسکراہٹ تک نہیں — میں اس گھٹن زدہ ماحول سے آزاد ہونا چاہتی تھی۔ سو، جب مجاہد نے تبادلے کی خبر دی تو مجھے واقعی بہت خوشی ہوئی۔
ارے! میں تو بھول ہی گئی۔ مجھے آپ کو مجاہد کے بارے میں بتانا چاہیے، ہے نا؟ مجاہد میرا گھر والاہے۔ اوہ، یہ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ عام طور پر تو عورت ہی گھر میں رہتی ہے تو اسے گھر والی کہنا چاہیے۔ شاید مجاہد میرا دفتر والا ہے۔ چھی! یہ بھی غلط کہہ گئی۔ دفتر تو میرا ہے ہی نہیں۔ اور کیا کہوں؟ اگر میں یجمانا کہہ کر اُسے مالک کہوں، تو مجھے نوکرانی بننا پڑے گا، جیسے کہ میں کوئی جانور یا کتا ہوں۔ میں تھوڑی سی تعلیم یافتہ ہوں۔ ایک ڈگری لی ہے۔ مجھے یہ مالک اور نوکر کے رشتے بنانے اچھے نہیں لگتے۔ تو کیا میں شوہر کے لیے ’گندا‘ کا لفظ استعمال کروں؟ یہ بھی کچھ بھاری بھرکم لفظ ہے، جیسے کوئی گندانترا، بڑی مصیبت آنے والی ہو۔ لیکن اس ٹنٹے میں پڑا ہی کیوں جائے؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں خاوند کو ’پتی‘ پکار لیا کروں — لیکن پھر وہی مسئلہ، کوئی عورت آپ کے گھر آ کر اپنے شوہر کو یہ کہہ کر متعارف نہیں کرواتی: ’’یہ میرے پتی ہیں۔‘‘ — ہے نا؟ یہ لفظ عام بول چال میں مستعمل نہیں، نہایت کتابی لفظ ہے۔ اگر کوئی ’پتی‘ کہے تو فوراً دل کرتا ہے ’دیو ‘ بھی ساتھ لگا دیا جائے — یہ عام رواج ہے — یعنی شوہر کو خدا کا درجہ دینا۔ میں مجاہد کو اتنا اونچا مقام دینے کے لیے تیار نہیں۔
دراصل ہمارے لیے، یعنی ہم مسلمانوں کے لیے تو کہا جاتا ہے کہ اوپر اللہ کے بعد اس دھرتی پر ہمارا شوہر ہی ہمارا خدا ہے۔ فرض کرو شوہر کے جسم پر ناسور ہوں، جن سے پیپ اور خون رس رہا ہو، تو کہا جاتا ہے کہ اگر بیوی اپنی زبان سے بھی وہ زخم صاف کرے تو بھی وہ اس کے احسان کا پورا بدلہ نہیں چکا سکتی۔ اگر وہ شرابی ہو، یا عورتوں کا رسیا، یا روزانہ جہیز کے لیے تنگ کرے — یہاں تک کہ اگر تمام ’اگر‘ سچ ہوں تو بھی وہ شوہر ہی رہتا ہے۔ چاہے انسان کسی بھی مذہب سے ہو، یہی مانا جاتا ہے کہ بیوی شوہر کی سب سے تابعدار نوکرانی ہے، اس کی زرخرید غلام۔
اب تک آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میرا اور مجاہد کا رشتہ کیا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھ گئے ہو گے کہ میں ان سب باتوں کے بارے میں کیا سوچتی ہوں۔ یہ میری غلطی نہیں ہے؛ جب مجاہد کا، یعنی میرےہمسفر کا تبادلہ ہوا تو ہم لوگ کرشن راج ساگر ڈیم پراجیکٹ کے خوبصورت کوارٹرز میں منتقل ہو گئے۔ وہ مجھے سامنے والے صحن میں کچے کیری اور لیموں کے درخت، ڈاہلیا، چنبیلی، گلِ داؤدی اور گلاب کے پودے، اور عقبی صحن میں کری پتہ، لوبیا کے پودے اور کریلے کی بیلوں کے بیچ چھوڑ گیا۔ خود وہ چوبیس میں سے اٹھائیس گھنٹے دفتر یا کرناٹک انجینئرنگ ریسرچ اسٹیشن میں مصروف رہتا۔
اب بھی ویسا ہی ہے۔ ایک ہلکی سی ٹھنڈی ہوا میرے جسم و روح کو چھو رہی ہے۔ چونکہ بات کرنے والا کوئی نہیں، اس لیے میں باغ کے بیچ میں بیٹھی ہوں اور آپ سب سے اپنے اس نام نہاد شوہر کے بارے میں باتیں کر رہی ہوں۔ لیکن… ارے! یہ کیا؟ مجاہد کا اسکوٹر، وہ بھی دن کے اس وقت! میں نے گھڑی دیکھی۔ صرف پانچ بجے تھے۔ میں نے بھنویں چڑھائیں لیکن اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ مجاہد نے دانت نکالے۔ میں نے اپنے دانت سختی سے اپنے ہونٹوں کے پیچھے قید کر لیے۔ اُس نے جھک کر ہیلمٹ میرے سر پر رکھا، مجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔’’ہمم، جلدی کرو! میں تمہیں آٹھ منٹ دیتا ہوں۔ اتنے وقت میں تیار ہو کر باہر آ جاؤ۔ اگر نہیں آئیں تو…‘‘
ذرا رکیے۔ مجھے ساری کہانی بتانے دیں۔ ہم نوبیاہتا جوڑا ہیں۔ اگر میں ٹھیک ٹھیک بتاؤں تو ہماری شادی کو دس مہینے اور تیرہ دن ہوئے ہیں۔ مجاہد نے اس سے پہلے بھی کئی چالبازیاں کی ہیں۔ ایک دن اس نے بہت محنت سے میری چوٹی گوندھی، اور اسے سنوارنے کے لیے میرے سر میں ایک سو اٹھارہ پن چپکا دیے۔ اس نے سمجھا کہ بہت خوبصورتی آئی ہے تو تصویر بھی کھینچی۔ میں بالکل بندر لگ رہی تھی۔ ایک اور دن اُس نے مجھے پتلون پہنانے کی کوشش کی، لیکن اُس کی سب سے ڈھیلی ڈھالی پتلون کی سیون بھی ادھڑ گئی اور اُسے ہار ماننی پڑی۔ پھر اُس نے مجھے سگریٹ پینے پر اُکسانا چاہا تاکہ لوگ اُسے ایک سوشل، لبرل شخص گردانیں۔ مجھے تو دوسروں کی سگریٹ نوشی سے ہی چڑ ہے، اس لیے میں نے دھواں باہر اگلنے کے بجائے اندر ہی روک لیا اور ظاہر کیا جیسے مجھے سخت کھانسی اور سانس لینے میں دقّت ہو رہی ہو۔ وہ بہت پریشان ہو گیا۔ لیکن یہ سب حادثے ہماری شادی کے تین مہینے کے اندر ہی ختم ہو گئے، اور اب ہم بالکل ’’نارمل‘‘ جوڑا بن چکے ہیں۔
’’پوچھ سکتی ہوں کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں، پوچھ سکتی ہو۔ بیلاگولا فیکٹری میں افتخار احمد نام کا ایک شخص ہے۔ میں اُس سے صرف آٹھ دن پہلے ملا تھا۔ اُس نے آج ہمیں اپنے گھر بیلاگولا میں آنے کی دعوت دی ہے۔‘‘ مجاہد نے جواب دیا۔
مجھے تیار ہو کر باہر آنے میں آٹھ منٹ بھی نہیں لگے۔ چلوّا میرے پیچھے دوڑتا ہوا آیا اور گیٹ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ جب میں نے اُسے کہا۔ ’’رات کے کھانے کے لیے کچھ نہ بنانا، میں آ کر خود بنا لوں گی۔‘‘ تو وہ خوش ہو گیا۔
لگتا تھا کہ اس دن مجاہد پر بھی خوش مزاجی طاری تھی۔ وہ اسکوٹر بہت آہستہ چلا رہا تھا۔ اُسے ایک ہندی گیت سیٹی میں بجاتے ہوئے سن کر میرا دل چاہا کہ اُس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کروں۔ لیکن اتنے میں ہم بیلاگولا چوراہے تک پہنچ چکے تھے۔
جب ہمارا اسکوٹر ایک گھر کے قریب رکا تو باہر کھڑے شخص نے مسکرا کر ہمارے لیے گیٹ کھول دیا۔ میں نیچے اتری اور روش پر چلنے لگی۔ صرف احاطہ ہی ہمارے کوارٹر سے بڑا تھا۔ جب میں نے وہاں کی سہولتیں دیکھیں تو سوچا آیا ہم کسی باغ یا کسی پارک میں آئے ہیں ؟ روش کے دونوں طرف امرود کے درخت تھے جن کی موٹی شاخوں سے لوہے کی زنجیروں پر جھولے بندھے ہوئے تھے۔ چنبیلی کی بیلیں اور کئی اقسام کے گلاب کھلے ہوئے تھے۔ میں حیران رہ گئی۔
میں نے قیاس کیا کہ باہر کھڑا شخص افتخار ہوگا۔ اسی وقت خاتون خانہ باہر آئیں، ہمیں پرخلوص سلام کیا اور اپنے گھر آمد پر خوش آمدید کہا۔ صرف آدھے گھنٹے میں، افتخار بھائی اور شائستہ بھابھی سے ہماری اتنی بےتکلفی ہو گئی کہ مجھے حیرت ہونے لگی! میں نے دیکھا کہ مجاہد زیادہ تر باتیں شائستہ بھابھی سے کر رہا ہے تو سوچا بعد میں تنہائی میں اسے اس پر تنگ کروں گی۔ لیکن جب مجھے احساس ہوا کہ وہ خاتون نہ صرف مجاہد سے کہیں بڑی عمر کی ہیں بلکہ ان کا دل بھی صاف ہے، اور ان کا کوئی ڈھکا چھپا مقصد نہیں تو میرا ان کے بارے میں مذاق کرنے کا دل ہی نہیں چاہا۔
وہ بہت سادہ اور کھلے دل کی خاتون تھیں، اور ہمارے آنے کے چند ہی لمحوں کے بعداپنی چھے کے چھے بچوں کی ہماری سامنے قطار لگا دی — تین بیٹیاں، تین بیٹے۔ سوائے سب سے بڑی آصفہ کے، باقی سب تو جیسے بغیر دُم کے بندروں ایسے تھے۔ شاید میرے دل کی بات بھانپ گئیں، شائستہ نے کہا۔ ’’کیا کریں، زینت۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اس سے پہلے کے میں کچھ سمجھ پاتی چھے بچے ہو گئے۔ اور جب میں نے آپریشن کرانے کا سوچا تو تمھارے بھائی صاحب آڑے آ گئے۔‘‘ انھوں نے افتخار کی طرف سر ہلا کر کہا۔ ’’اب تو ساتویں کے بعد ضرور کراؤں گی۔‘‘ ’’‘اس کی کوئی ضرورت نہیں، شائستہ۔ بچوں کو تو میں ہی پال رہا ہوں۔ تم کیوں پریشان ہو؟ اللہ کے کرم سے اتنی کمائی ہو جاتی ہے کہ سب کا پیٹ بھر جائے۔‘‘ افتخار نے قطع کلامی کی۔
’’اوہ! کیا صرف مناسب کمائی ہونا ہی کافی ہے؟ میری پیاری آصفہ کو تعلیم کو الوداع کہنا پڑا، صرف میری خاطر ۔ کیا تمہیں اندازہ بھی ہے کہ مجھے اس پر کتنا دکھ ہوتا ہے؟‘‘
’’ایسی بات نہیں ہے۔ میں نے ہی اسے پڑھائی سے روکا، کیونکہ لڑکیوں کو زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں۔ ہائی اسکول کا سرٹیفیکیٹ کافی ہے۔ اسے میسور کے کالج میں گھومنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اگلے سال اس کا بیاہ کر سکتے ہیں۔‘‘ افتخار نے جواب دیا۔
’’بالکل نہیں۔ میں بیس برس کی عمر میں بیاہی گئی تھی۔ پچھلے سترہ برسوں میں چھ بچوں کی ماں بن چکی ہوں۔ اگر تم میری بیٹی کی اتنی جلدی شادی کرو گے تو…‘‘ شائستہ کی آواز دھیمی پڑتی چلی گئی۔
مجاہد اور میں خاموشی سے یہ سب سنتے رہے۔ موضوعِ بحث آصفہ کھڑکی کے پاس اپنے بھائی کو سنبھالے کھڑی تھی۔ اُس کے نوخیز حسن کو دیکھ کر اور اُس کی قسمت کے بارے میں فیصلے سن کر میرے اندر صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ سچ کہوں تو شائستہ، مجھ سے زیادہ خوبصورت تھیں۔ اسی وقت افتخار جیسے کسی خیال سے چونک کر اٹھا اور بولا۔ اوہ شائستہ، تم اور زینت بھابھی باہر آ جاؤ، یہاں بیٹھو۔ میں کچھ پھول توڑ لاتا ہوں…‘‘
شائستہ اور میں باہر آ گئے۔ آصفہ اپنے بھائی کو دودھ کی بوتل دے کر نرمی سے تھپکنے لگی تھی۔ شائستہ ایک جھولے پر بیٹھ گئیں، میں دوسرے پر۔ مجھے جھولا بہت پسند آیا اور میں نے اُسے زور زور سے جھولانا شروع کیا۔ اوپر جانے کی خوشی اور نیچے آ کر پھر سے زمین کو دھکیلنے کی لذت! اسی وقت میں نے دیکھا کہ افتخار بھائی اپنی کمر پر پلاسٹک کی ٹوکری باندھ کر چنبیلی کی چھوٹی چھوٹی کلیاں توڑنے لگے تھے۔ مجاہد سامنے کے صحن میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ کچھ دیر بعد افتخار آئے، انھوں نے پلاسٹک کی ٹوکری اپنی بیوی کے ہاتھ میں دی اور خود امرود کے درخت پر چڑھ گئے۔ شائستہ جھولے پر بیٹھ کر پھول پرونے لگیں۔
افتخار ہمارے لیے امرود لے آئے، شائستہ کو کنارے کھسکا کر خود جھولے پر اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور پکارے۔
’’آصفہ بٹیا، ہمارے لیے چائے لے آؤ!‘‘
آصفہ نے ابھی ابھی اپنے بھائی کو سلا کر باہر آئی تھی اور مجاہد کی موجودگی کی وجہ سے وہ شرمیلی سی چپ چاپ کھڑی تھی۔ باپ کی آواز سنتے ہی وہ چائے بنانے اندر چلی گئی۔ یہ ہماری موجودگی کے ایک گھنٹے میں افتخار کی دسویں چائے تھی۔
شائستہ نے چنبیلی کی پروئی ہوئی کلیوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک مجھے دیا اور دوسرا اپنے سر کے اوپر تاج کی طرح باندھ لیا — جیسے رسی ہو۔ یہ گجرا اس کی موٹی اور لمبی چٹیا پر بہت سج رہا تھا۔ آصفہ نے آ کر چائے کا کپ افتخار کو دیا۔ مجھے کچھ عجیب لگا کہ شائستہ اپنی بڑی عمر کی بیٹی کو نظر انداز کر رہی تھی اور خود پھولوں سے سجی ہوئی تھی۔
’’آؤ آصفہ۔‘‘ میں نے اسے بلایا اور اپنے حصے کے پھول دینے کی کوشش کی۔ اس نے لینے سے انکار کر دیا، مگر میں نے زبردستی اسے اپنے پاس بٹھایا اور اس کے بالوں میں گجرا باندھ دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اور وہ چپ چاپ چائے کا خالی کپ اور طشتری لے کر اندر چلی گئی۔
اندھیرا ہو رہا تھا۔ جب میں رخصت ہونے کا سوچ رہی تھی عین اسی وقت افتخار نے کہا۔ ’’زینت بھابھی، یہ دیکھیں، میں نے امرود کا یہ درخت شائستہ کے لیے لگایا تھا۔ یہاں کا ہر پودا، ہر پھول، اس کا پسندیدہ ہے۔ یہ انابِ شاہی کی بیل بھی اس کے لیے ہے۔ یہ جھولے… یہ تو اسے بہت پسند ہیں۔‘‘
’’افتخار بھائی، آپ دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ آپ بھابھی کی پسند ناپسند کا خاص خیال رکھتے ہیں۔‘‘
’’صرف یہی نہیں، اگر میں بادشاہ ہوتا تو ایک ایسا محل بنواتا جو تاج محل کو بھی شرما دیتا اور اس کا نام ہوتا شائستہ محل—‘‘
تب تک مجاہد بچوں کے ساتھ کھیل کود بند کر چکے تھے۔ وہ قریب آئے اور ان کی بات بیچ ہی میں کاٹ دی۔ ’’اوہو، ہو! بس کرو افتخار، تمھیں پتا بھی نہیں تم کتنی بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہو؟ شہنشاہ نے تاج محل اپنی مرحومہ بیوی کا مقبرہ بنوایا تھا۔ اللہ بھابھی کو لمبی عمر دے۔ وہ تمھارے سامنے زندہ سلامت بیٹھی ہیں، اور تم شائستہ محل کی بات کر رہے ہو!‘‘
ایسا لگا جیسے افتخار ایک لمحے کو لڑکھڑا گیا ہو۔ مگر کوئی تاج محل کو کوئی مقبرہ نہیں مانتا۔ لوگ اسے محبت کی نشانی کے طور پر لیتے ہیں۔ میں نے بھی اسی مفہوم میں کہا تھا۔‘‘
مگر مجاہد نے بات ختم ہونے نہ دی۔ ’’ہاں، ہاں، مرحوم محبت کی نشانی!‘‘
’’لیکن محبت مرتی نہیں، مجاہد۔‘‘
’’ہمم… نہیں۔ لیکن یہ سب بہت فلمی باتیں ہیں، بھائی۔ اگر تمھاری ماں مر جائے، تو اس کے ساتھ ماں کی محبت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ محبت تمھیں پھر کسی اور سے نہیں ملے گی۔ ہاں، لیکن اگر بیوی مر جائے، تو بات الگ ہے، کیونکہ دوسری بیوی مل سکتی ہے۔‘‘
مجاہد کی یہ بات سن کر میں حیرت زدہ رہ گئی۔
شائستہ کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ وہ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بولیں۔ ’’ہاں، میری نانی کہتی تھیں کہ اگر بیوی مر جائے تو شوہر کے لیے وہ صرف کہنی پر چوٹ جیسا ہوتا ہے۔ جانتی ہو زینت، اگر کہنی پر چوٹ لگے، تو ایک لمحے کو درد ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ لیکن چند سیکنڈ کے بعد نہ زخم رہتا ہے، نہ خون، نہ نشان، نہ درد… ‘‘
مجھے اس بات چیت کا رخ بالکل پسند نہ آیا۔ لیکن اچانک افتخار غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے شائستہ کے ہاتھ تھام لیے اور بولے۔ ’’شائستہ، یہ کیا کہہ رہی ہو؟ میرے جسم کے ہر خلیے میں جو زندگی ہے، وہ تمھارے نام کی طاقت سے ہے۔ میرے دل کی ہر دھڑکن تمہاری توانائی سے ہے۔ تم نے — جو ابھی کہا — کیا وہ تمھارے دل سے نکلا؟ کیا واقعی تم ایسا ہی سوچتی ہو؟‘‘
مجھے اپنی ہنسی روکنے میں بڑی مشکل ہوئی۔ مجھے یاد آیا شائستہ نے بتایا تھا کہ افتخار ان سے دس سال بڑے ہیں۔ ایک پچاس سال کے قریب کا مرد، یوں محبت کی جاودانی کا اعلان کرتے ہوئے، اور سامنے شائستہ، رانیوں کی طرح بیٹھی، جیسے ہر غلطی معاف کر دینے کو تیار ہو — یہ منظر شاید دوبارہ دیکھنے کو نہ ملتا۔ مجاہد آخرکار مسکرا دیے۔ شائستہ شرما کر ہنس پڑیں۔
ہم جلد ہی وہاں سے چل پڑے۔
چونکہ شائستہ کے گھر ہم بہت کھا چکے تھے، مجاہد نے کہا کہ اسے رات کے کھانے کی ضرورت نہیں، صرف ایک گلاس دودھ کافی ہے۔ مجھے بھی کچھ بھوک نہیں تھی، اس لیے کھانا پکانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ وہ کتاب لے کر بیٹھ گئے، اور میں بھی’’فیمنا‘‘ میگزین کا ایک شمارہ الٹ پلٹ رہی تھی، لیکن میرے خیالات شائستہ کے خاندان میں الجھے ہوئے تھے۔
’’مجھے معلوم ہے… تم بس یوں ہی میگزین دیکھ رہی ہو… ‘‘
’’تو پھر بتاؤ، میں کیا سوچ رہی ہوں؟‘‘
’’بتاؤں؟ تم شائستہ کے سب سے چھوٹے بچے کے بارے میں سوچ رہی ہو، وہی کالی آنکھوں اور گلابی والا۔‘‘
’’شاید۔ لیکن اس سے زیادہ میں تمھاری اُس بات کے بارے میں سوچ رہی ہوں جو تم نے وہاں کہی تھی۔‘‘
’’مجھے معلوم تھا۔ تم ضرور اس پر زیادہ سوچو گی۔ صاف بات کروں، زینت، تمھیں سمجھنا ہوگا: جس بادشاہ نے محبت کی مشہور ِزمانہ یادگار کو بنایا تھا، وہ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں مرا۔ اس کے حرم میں بے شمار عورتیں تھیں۔‘‘
’’یہ بادشاہ کے بارے میں نہیں ہے۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے، شاہ جہاں کی بات چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن کیا اپنے دور کے بادشاہِ محبت افتخار کے بارے میں بات کروں؟ افتخار کو عورتوں کی صحبت کی عادت ہے۔ شائستہ کے لیے اس کے دل میں جگہ خاص ہے کیونکہ وہ سالوں سے ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ لیکن شائستہ ہو یا نرگس یا مہرن۔‘‘
’’بس کرو۔ خاموش رہو۔ تم دس جنم لے کر بھی مجھ سے اتنی محبت نہیں کر سکتے جتنی افتخار شائستہ سے کرتا ہے۔‘‘
’’پہلی بات تو یہ کہ ہمارے ہاں دس جنم کا کوئی تصور نہیں ہے؛ میں ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ دوسری بات یہ کہ میں اسی لمحے تمھیں افتخار کی محبت سے سو گنا زیادہ محبت دکھانے کو تیار ہوں… چاہے تم کتنا بھی انکار کرو…‘‘
میں ابھی یہ سوچ بھی نہ پائی تھی کہ اس نے کتنی چالاکی سے بات کا رخ بدل دیا کہ مجاہد نے مجھے زور سے گلے لگا لیا اور پاگلوں کی طرح پیار کرنے لگا — یہ انسان نہیں، جانور ہے!
اتوار کی صبح کے نو بجے تھے، اور مجاہد ابھی بستر پر تھے جب افتخار اور شائستہ ہمارے گھر آ گئے۔ میں نے بتایا کہ مجاہد ابھی تک سو رہے ہیں، تو وہ بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ میں ان کے لیے گرم گرم سموسے لائی، لیکن افتخار نے ایک بھی نہیں کھایا۔ انھوں اپنے حصے کے سب سموسے شائستہ کی پلیٹ میں ڈال دیے، صرف ایک کپ چائے پی، اور سبزی لینے بازار چلے گئے۔
شائستہ، جو مورنی رنگ کی ساڑھی اور تھوڑے سے زیورات میں ملبوس تھیں، خاص طور پر خوبصورت لگ رہی تھیں۔ میں نے ان کے ہاتھ میں ہماری شادی کا البم تھما دیا اور اندر چلی گئی۔ جب واپس آئی، وہ غور سے ایک تصویر دیکھ رہی تھیں۔ وہ میری گریجویشن کی تصویر تھی جس میں میں گاؤن پہنے کھڑی تھی۔ جب میں ان کے ساتھ بیٹھ گئی، تو انھوں نے کہا۔ ’’زینت، میری خواہش ہے کہ آصفہ بھی ایسا گاؤن پہن کر تصویر کھنچوائے۔ اس نے دسویں جماعت پہلی ہی بار میں پاس کر لی تھی۔ ہم نے اسے آگے پڑھنے نہیں دیا کیونکہ گھر اور بچوں کا کوئی اور خیال رکھنے والا نہیں تھا۔‘‘
’’ہاتھ بٹانے کے لیے کوئی ملازمہ رکھ لیجیے، بھابھی۔‘‘
’’ایک تھی، کہہ کر گئی کہ گاؤں جا رہی ہے، پھر واپس نہیں آئی۔ لگتا ہے کسی ایجنٹ نے اسے دمام بھیج دیا۔ اس کے بعد کوئی نہیں ملی۔‘‘
’’آصفہ اس سال تو اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔ سے کم از کم اگلے سال ہی سے کالج بھیج دیجیے گا۔‘‘
’’یہی کروں گی۔ محض اپنی سہولت کے لیے اس بےچاری بچی پر ظلم کیوں کریں؟ اوہ زینت، میں تو پوچھنا بھول گئی۔ بچوں سے بچنے کے لیے آپریشن کروانا خطرناک ہوتا ہے کیا؟‘‘
’’اس میں کیا خطرہ ہے، بھابھی؟ میری ماں کے خاندان میں تین بھابھیاں اور دو بڑی بہنیں دو دو تین تین بچے جنمنے کے بعد یہ آپریشن کروا چکی ہیں۔ سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔‘‘
’’اچھا؟ تو پھر میں بھی اس بار آپریشن کروا لوں گی۔ اگر تم ساتھ چلو گی تو مجھے جو تھوڑا بہت ڈر ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘
’’بھابھی، آج تو آپ خوبصورت لگ رہی ہیں! ذرا اس زینت کو بھی اپنی طرح سجنا سنورنا سکھا دیجیے۔ ‘‘ اتنے میں مجاہد جاگتے ہی باہر آئے اور بمشکل کرسی گھسیٹ کر شائستہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’چپ کرو، شرارتی آدمی! بھاگو یہاں سے، سست انسان!‘‘ شائستہ نے ہنستے ہوئے اس کی پیٹھ پر مذاقاً ہلکی سی چپت لگائی۔
میں نے اصرار کیا کہ وہ دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔ انھوں نے قبول کیا اور شام کو ہی بیلگولا واپس گئے۔ اب میرے دن کے آر ایس میں پہلے کی طرح تنہا نہیں رہے تھے۔ میں جب چاہتی، شائستہ کے گھر چلی جاتی۔ ان کے بچوں کے ساتھ کھیلنے میں وقت کا پتا ہی نہ چلتا۔ شائستہ کے ساتھ بھی یہی ہوتا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بچوں کو اچھی تعلیم ملے، خاص طور پر آصفہ کو۔ وہ اسے گھریلو ذمہ داریوں سے نکال کر تعلیم دلوانا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ انھیں کسی چیز کی خواہش نہ تھی۔ وہ تندرست و توانا دکھائی دیتی تھیں اور ان کا چہرہ دمکتا تھا۔
اس دن جس لیڈی ڈاکٹر نے شائستہ کا معائنہ کیا تھا، اس نے بتایا کہ زچگی میں ابھی پندرہ بیس دن باقی ہیں۔ اسی لیے میں نے سب کو اس اتوار کو اپنے گھر بلایا، اور خاص طور پر کہا کہ آصفہ کو بھی لائیں۔ وہ ایک خوشی بھرا دن تھا؛ بہت کام تھا اور فرصت کا کوئی لمحہ نہ تھا۔ حسبِ معمول، شائستہ اور مجاہد ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے؛ افتخار اپنی ابدی محبت کا یقین دلا رہے تھے؛ بچے شور مچا رہے تھے؛ آصفہ خاموش تھی، تنہا۔ ہم سب نے خوب دعوت اڑائی اور جب انھیں رخصت کیا تو رات کے نوسے اوپر کا وقت ہو چکا تھا۔
اگرچہ صبح پانچ بجے کے الارم پر میری آنکھ کھل گئی تھی مگر میرا دل چاہ رہا تھا کہ کمبل کو مضبوطی سے اوڑھ کر کچھ دیر اور سو لوں۔ تبھی دروازے کی گھنٹی بجی۔ اب اٹھنا مجبوری تھا۔ میں شال لپیٹے باہر آئی تو دیکھا کہ دروازے پر افتخار کھڑے ہیں۔
’’ارے، افتخار بھائی! آئیے، آئیے، آپ اتنی صبح صبح کیسے آ گئے؟‘‘
’’بھابھی، میرے پاس اندر آنے اور بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ ہم جب یہاں سے گئے تو رات تقریباً ایک بجے شائستہ کو دردِ زہ شروع ہو گیا۔ میں فوراً فیکٹری کی جیپ میں اُسے میسور لے گیا۔ وہ شلپا میٹرنٹی ہوم میں ہے۔ تین بجے اس نے بچے کو جنم دیا۔ بیٹا ہوا ہے۔‘‘ مجھے لگا جیسے افتخار یہ کہتے ہوئے کچھ شرما گئے ہوں۔
مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اوہ! کتنے ہی سال ہو گئے میں نے کوئی نومولود بچہ نہیں دیکھا تھا، نہ ہی اُن تمام تقریبات میں شریک ہوئی تھی جو ایک نئے بچے کی آمد پر ہوتی ہے۔ میں وہیں افتخار کو چھوڑ کر، سوئے ہوئے کمبھ کرن، مجاہد کی طرف بھاگی۔ میں نے کمبل ایک طرف پھینکا اور اسے جھنجھوڑ کر جگانے لگی۔ ’’اٹھو — جلدی اٹھو، پلیز — شائستہ کے ہاں بیٹا ہوا ہے، اور تم اب تک سو رہے ہو!‘‘ مجاہد نے مجھے سختی سے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور بڑبڑانے لگا۔ ’’زینت، وعدہ کرتا ہوں، تم چاہے بیٹا جنمو یا بیٹی، جب تم ماں بنو گی تو میں ساری رات نہیں سوؤں گا۔ بس تمھارے بچے کو ٹکٹکی باندھ کےتکتا رہوں گا۔‘‘
’’تُھو! کتنے بے شرم ہو تم۔ افتخار بھائی باہر کھڑے ہیں۔ اٹھو اور ان سے بات کرو۔‘‘ جب میں چائے کا کپ لے کر آئی تو افتخار چار پانچ سگریٹ پی چکے تھے۔ میں نے ان کے ہاتھ میں چائے دی اور پوچھا۔ ’’شائستہ بھابھی خیریت سے ہیں، ہے نا؟‘‘
’’ہمم۔ بس ٹھیک ہی ہے۔ کچھ مسئلہ ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ خون چڑھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لیکن بعد میں ضرورت نہیں پڑی۔ شائستہ بہت کمزور ہو گئی ہے۔ میں اب چلتا ہوں۔‘‘ افتخار نے کپ رکھ کر اٹھتے ہوئے کہا اور کاہل الوجود مجاہد کے باہر آنے سے پہلے ہی رخصت ہو گئے۔
مجاہد اور میں میسور کے لیے روانہ ہو گئے۔ راستے بھر وہ مجھے چھیڑتا رہا کہ اگر بچہ ہمارا ہوتا تو وہ یہ کرتا، وہ کرتا، خود پالتا، وغیرہ۔
جب ہم نرسنگ ہوم پہنچے، تو افتخار کا پورا خاندان وہاں موجود تھا۔ آصفہ نے بچوں کو باہر اکٹھا کر رکھا تھا کیونکہ وہ اندر شور مچا رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ مسکرائی۔ جب میں نے پوچھا۔ ’’ تم اتنی خوش کیوں لگ رہی ہو؟‘‘ تو اس نے جواب دیا۔ ’’بچہ بہت پیارا ہے، بھابھی۔ جب آپ دیکھیں گی تو آپ بھی بہت خوش ہوں گی۔‘‘
واقعی، بچہ بہت خوبصورت تھا — نرم، گلابی، بالکل گلاب کے پھول کی مانند۔ وہ آنکھیں بند کیے سو رہا تھا۔ شائستہ کے ہونٹوں کا رنگ اڑ چکا تھا، اور وہ نقاہت سے مسکرا رہی تھیں۔ میں ان کے پاس بیٹھ گئی اور بچے کو گود میں اٹھا لیا۔ ’’شائستہ بھابھی، بچے کو نظر لگ جائے گی۔ آپ اتنے خوبصورت بچے کیسے پیدا کر لیتی ہیں؟‘‘ میں نے انھیں چھیڑا۔
’’فکر نہ کرو۔ اگر تم مجاہد سے کہو تو وہ تمھارے ہاتھوں میں اس سے بھی زیادہ پیارا بچہ لا کر رکھ دے گا۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔
عین اُسی وقت مجاہد افتخار کے ساتھ اندر آیا۔ اُس نے مجھ سے بچہ لیا، ایک لمحے کے لیے بچے تکا اور پھر اسے اپنے سینے سےچمٹا لیا۔ جب اُس نے پوچھا۔’’بھابھی، اگر میں یہ بچہ چرا کر بھاگ جاؤں تو آپ کیا کریں گی؟‘‘ تو انھوں نے اُس کے چپت لگائی۔
’’تم کیسے آدمی ہو جو کسی کا بچہ چرا کر بھاگنے کی بات کر رہے ہو؟ اپنی فوج تیار کرو تو ہم بھی دیکھیں۔‘‘ جواباً انھوں نے بھی اسے چھیڑا۔ افتخار نے فلک شگاف قہقہ لگایا۔
ہم شام تک وہیں رُکے رہے، اور جب ہم واپس جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے تو میں نے شائستہ سے کہا۔ ’’آصفہ کے لیے سب بچوں کا خیال رکھنا اور زچہ خانہ میں تمہیں کھانا پہنچانا مشکل ہو سکتا ہے۔ میں تمھارے گھر لوٹنے تک سلو، امّو، نوین اور کمال کو اپنے ساتھ رکھ لوں؟‘‘
’’ٹھیک ہے، زینت۔ آصفہ میری بیٹی نہیں، وہ تو میری ماں جیسی ہے۔ صرف ابھی کی بات نہیں — جب سے اُس نے اسکول چھوڑا ہے، وہ گھر کے سارے کام سنبھال رہی ہے اور سارے بچوں کا خیال بھی رکھ رہی ہے۔ میں یہاں زیادہ دن نہیں رہوں گی۔ پرسوں گھر واپس چلی جاؤں گی۔‘‘ اُس نے کہا۔
’’پھر… آپریشن؟‘‘
’’ابھی کچھ کمزور ہوں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ پندرہ دن بعد آنا، پھر آپریشن کر دیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ پھر میں چلتی ہوں، دوبارہ آؤں گی۔‘‘
جب شائستہ گھر واپس آگئی، تو میں اُسے چند بار ملنے گئی۔ لیکن سب سے زیادہ حیرانی کی بات وہ تھی جو ہم نے اُس وقت دیکھی جب ایک اتوار کو مجاہد اور میں میسور جا رہے تھے۔
اس دن ہم ٹرین سے سفر کر رہے تھے کیونکہ ہمیں گھر کے لیے راشن لینا تھا۔ ٹرین بیلاگولا اسٹیشن پر رکی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ شائستہ مکمل آستین والی سویٹر پہنے اور سر پر دوپٹہ لیے افتخار کے ساتھ پلیٹ فارم پر کھڑی تھی۔ مجاہد بوگی کے دروازے پر کھڑا ہو کر ان کی طرف ہاتھ ہلانے لگا۔ وہ جلدی سے اُسی ڈبے میں سوار ہو گئے جس میں ہم بیٹھے تھے۔
میں نے بےوقوفی سے پوچھا۔ ’’آپ میسور کیوں جا رہی ہیں؟‘‘ شائستہ کی پرانی شادابی اور زندہ دلی ایک بار پھر لوٹ چکی تھی۔ ایسی کیا بات تھی کہ صرف پندرہ دن کی نفاس میں رہنے والی ماں، جسے کسی چیز کی کمی نہیں تھی اور آرام دہ زندگی گزارتی تھی، اسے خود میسور کسی کام سے جانا پڑ رہا تھا؟ شائستہ نے جیسے اُس نے میرے دل کی بات پڑھ لی ہو، وہ بولی۔ ’’اوہ، میں کبھی پندرہ دن سے زیادہ نفاس میں نہیں رہی۔ میں بس گرم رہوں، اتنا ہی کافی ہے، اور اگر میں اِن کے ساتھ نہ ہوں تو یہ بہت کاہل ہو جاتے ہیں۔ میں بالکل تندرست ہوں۔ میں ہر وقت بستر پر کیوں پڑی رہوں؟ جب میری پہلی بیٹی پیدا ہوئی تھی، تب بھی میں صرف پندرہ دن بستر پر رہی تھی۔‘‘
اس کے بعد میں نے اُس سے کچھ اور پوچھنے کی ہمت نہیں کی۔ میں نے اپنی بڑی بہنوں اور بھابھیوں کو نفاس کے دور سے گزرتے دیکھا تھا۔ وہ زچگی کے تین مہینے بعد تک بستر سے نہیں اُٹھتی تھیں۔ انھیں ٹھنڈے پانی کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ جب وہ صبح جاگتیں تو امّاں اُن پر تین بڑے بڑے دیگچوں میں گرم پانی انڈیلتیں، فوراً لیٹنے کو کہتیں اور ان پر دس کمبل ڈال دیتی تھیں۔ بالآخر امّاں کو لگتا کہ دس کمبل بھی کافی نہیں، تو وہ ہر عورت کے اوپر ایک اور گدا بچھا دیتی تھیں۔ پندرہ منٹ کے اندر نئی ماں پسینے سے شرابور ہو جاتی۔ امّاں اُسے اُٹھا دیتی، اُس کا پسینہ — جسے امّاں ’’برا پانی‘‘ کہتی تھیں — صاف کرتیں اور اُسے بکرے کے دل یا پائے کا شوربہ پلاتیں۔ وہ اس کے بالوں کو لوبان (سمبرانی) کے دھوئیں سے سکھاتیں، اُسے دوبارہ لٹاتیں، اُس کے پیٹ کی چربی کو ایک ہاتھ میں جمع کرتیں اور ایک بڑی شفاف ساڑھی کو اُس کی کمر پر زور سے باندھ دیتیں تاکہ پیٹ چپٹا رہے۔ پھر وہ نئی ماں کو میتھی دانے کا پاؤڈر گھی کے ساتھ نگلنے کو کہتیں… لیکن چونکہ اُن کے شوہروں نے حکم دیا ہوتا کہ وہ گھی نہ کھائیں تاکہ اُن کا وزن نہ بڑھے، اس لیے وہ چالاکی سے وہ پلیٹیں بستر کے نیچے سرکا دیتیں تاکہ امّاں کو پتا نہ چلے۔
بعد میں، بچے کو دودھ پلانے کے بعد، نفاس میں رہنے والی ماں دوپہر تقریباً ایک بجے جاگتی۔ جیسے ہی وہ اٹھتی، چاول، کالی مرچ والا ساارُو (مرچ والی پتلی شوربے جیسی ڈش) اور سب سے نرم گوشت کے چار ٹکڑے جو مرچ میں تلے ہوتے، تیار ہوتے۔ اُسے صرف اُبلا ہوا پانی پینا ہوتا۔ شام کو، شاوِگے (چاول کی سوئیوں جیسا پکوان) جس میں وافر مقدار میں گھی، بادام اور الائچی ہوتی، یا کوئی میٹھا پکوان ہوتا، اور رات کو گندم کی روٹیاں یا بریڈ کے ساتھ گوشت کا میلوگارا سالن دیا جاتا۔ اس سخت غذا کے چالیس دنوں کے بعد، نئی ماں زیور اور نئی ساڑھی پہن سکتی تھی؛ وہ بالکل ایک دلہن کی طرح لگتی۔
جب میرے بھائی یا بہنوئی نفاس کے دوران اپنی بیویوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے، تو امّاں بڑبڑانے لگتیں۔ ’’کیا بے شرمی ہے! اگر میں شوہر اور بیوی کو تھوڑا وقت اکٹھے گزارنے دوں… تو یہ موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں… مجھے کیا فرق پڑتا ہے… اگر تم سب تندرست ہو تو تمہارے شوہر تمہارے ساتھ رہیں گے… اگر تم اپنے جوان جسموں کو بگاڑ دو، تو نقصان تمھیں ہی ہوگا… برامبرا، شیٹرو عورتوں کو دیکھو! وہ بچے کی پیدائش کے پانچ ماہ بعد بھی نفاس میں ہوتی ہیں۔ کیا ہم وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو وہ کرتی ہیں؟ کیا ہم اتنا خیال رکھ سکتے ہیں؟ اسی لیے تو وہ سب اتنی مضبوط اور صحت مند ہوتی ہیں۔‘‘
وہ ایسی باتیں کرتی رہتیں۔ اگر نئی مائیں بیٹھ جاتیں، تو وہ اُنھیں کہتیں کہ ’’برا پانی‘‘ اُن کی کمر تک پہنچ جائے گا، اور اگر وہ کھڑی ہوتیں، تو وہ انھیں ڈراتیں کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑیں گی، اور مشورہ دیتیں کہ لیٹی رہیں۔ ’’بچے کی پیدائش کے بعد چالیس دن تک چالیس قبریں ماں اور بچے کے لیے منھ کھولے بیٹھی ہوتی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک قبر اپنا منہ بند کر لیتی ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے کہ ایک نیا وجود کسی جسم سے پیدا ہو؟ یہ تو ایسے ہے جیسے خود ماں کوایک نئی زندگی مل رہی ہو۔‘‘ امّاں کہا کرتی تھیں۔
اگر امّاں کی باتوں پر یقین کیا جائے، تو شائستہ کے لیے اب بھی پچیس قبریں منہ کھولے انتظار میں تھیں۔ اور وہ اس حال میں آزادانہ گھوم رہی تھی! یہ سب خیالات پلک جھپکتے ہی میرے ذہن میں آ گئے۔
مگر ان پچیس قبروں کے منھ بند ہو چکے تھے۔ چالیس دن مکمل ہونے پر شائستہ کے گھر ایک تقریب منعقد ہوئی۔ میں وہاں جانے کی تیاری کر رہی تھی— چاندی کی پائلیں، شائستہ کے بیٹے کے لیے بابا سوٹ، اور اُس کے لیے ایک بلاؤز کا کپڑا لے رہی تھی —کہ ایک تار موصول ہوا:
’’ماں کی طبیعت شدید خراب ہے۔ فوراً پہنچو۔‘‘
مجاہد اور مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا انتظام کریں۔ ہم نے فوری طور پر دستیاب ہونے والے چند کپڑے ایک سوٹ کیس میں ٹھونسے اور فوراً میسور کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہاں سے ہم اپنے گاؤں کے لیے نکلے۔ جب ہم گھر پہنچے تو امّاں کی حالت بہت خراب تھی۔ دل کے شدید دورے کے بعد وہ بہت ناتواں ہو گئی تھیں اور ان کا چہرہ زرد تھا۔ جب انھیں اندازہ ہوا کہ وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گی تو انھوں نے اپنی تمام اولاد کو اپنے قریب دیکھنے کی خواہش کی۔ میں سب سے چھوٹی تھی اور وہاں پہنچنے والوں میں سب سے آخری۔ تیسرے دن امّاں نے آخری سانس لی تو وہ بالکل یوں لگ رہی تھیں جیسے ابھی سو ئی ہوں۔ میری ماں۔ وہ ماں جس نے مجھے پالا پوسا، محبت دی، تھپکا تھپکا کر اپنی گود میں سلایا، اب میرے سامنے ایک ٹھنٹھ کی طرح پڑی تھی۔ مجھے نہیں معلوم میں نے وہ منظر کیسے برداشت کیا۔
امّاں کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔ میں اندر سے سن ہو چکی تھی۔ مجھے لگا اگر ہم واپس کے آر ایس (KRS) چلے گئے تو میں مزید تنہائی کا شکار ہو جاؤں گی اور مزید اداسی میں ڈوب جاؤں گی۔ مجاہد نے ایک ماہ کی طویل رخصت لی اور میرے ساتھ ہی رک گیا۔ امّاں کے چہلم کے چار پانچ دن بعد، ہم کے آر ایس لوٹ آئے۔
اس دن، میں گھر میں بیٹھ سکی نہ کھڑی ہو سکی۔ ایک عجیب سی بےچینی، ایک تکلیف کا سا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید اس لیے کہ میں لوگوں سے بھرے ہوئے ایک گھر میں رہ رہی تھی اور اب اچانک اپنے آپ کو اکیلا پایا ہے۔ چونکہ مجاہد ابھی تک چھٹی پر تھے، ہم دونوں شائستہ کے گھر جانے کے لیے تیار ہوئے؛ میں نے وہ تحفے لیے جو ہم نے اُس اور اُس کے بچے کے لیے خریدے تھے۔
جب ہم ان گھر پہنچے تو یوں لگا جیسے باغچے کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی تھی۔ گھر میں بچوں کا کوئی نشان نہیں تھا۔ میں ہال میں ایک کرسی پر بیٹھ گئی اور اِدھر اُدھر نظر دوڑائی؛ شائستہ کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ مجاہد بیٹھ گیا، اور جب اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے اخبار اٹھا لیا۔ میں نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ چار بجے شام تک کیسی نیند لے رہی ہے؟
’’بھابھی… شائستہ بھابھی… میں ہوں، زینت۔ دو منٹ میں باہر آ جائیں۔ ورنہ میں دروازہ توڑ دوں گی!‘‘
میں نے کنڈی کھلنے کی آواز سنی۔ پیچھے سے افتخار نکلے۔ میں سمجھی تھی شاید وہ فیکٹری میں ہوگے، اور مجھے تھوڑی سی شرمندگی محسوس ہوئی۔ میں پیچھے ہٹ گئی۔ افتخار مجاہد کی طرف چلا گئے۔ میں اندر کمرے میں داخل ہوئی۔ بس وہی لمحہ تھا! میرے سر میں چکر سا آ گیا۔ تمام کھڑکیاں اور دروازے بند تھے؛ کمرے میں، بیڈ لیمپ کی مدھم روشنی میں جو عورت کھڑی تھی، وہ ہرگز شائستہ نہیں تھی۔ وہ عورت، جو اٹھارہ سال سے زیادہ کی نہیں لگتی تھی، جس کا سر جھکا ہوا تھا، جس کے ہاتھوں اور پیروں پر نئی مہندی لگی ہوئی تھی، جس کے سر پر مکمل گھونگھٹ تھا، اور دونوں کلائیوں میں سبز اور سرخ چوڑیاں تھیں، وہ ہرگز شائستہ نہیں تھی۔ آنسو گرنے سے پہلے ہی میں کمرے سے باہر نکل آئی اور افتخار سے پوچھا۔ ’’میری شائستہ بھابھی کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ اس سے پہلے کہ ہمیں کچھ سمجھ آتا، وہ ہم سے بہت دور جا چکی تھی۔‘‘
’’وہ کون ہے؟‘‘ میں نے بےرحمی سے پوچھا۔
’’میں نے اس سے شائستہ کے چہلم کے اگلے دن شادی کی ہے۔ وہ ایک غریب خاندان سے ہے۔ مجھے بہرحال بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کسی کی ضرورت تھی، اسی لیے۔‘‘
“اوہ، بے شک… وہ… وہ بچوں کا بہت اچھی طرح خیال رکھ رہی ہے، یہ بالکل ظاہر ہے۔ افتخار بھائی، آپ جو بھی کریں، ٹھیک ہے۔ لیکن اُس کے ساتھ وہ محبت بھرے دعوے نہ دہرانا جو آپ نے شائستہ سے کیے تھے۔ یہ ٹھیک ہے اگر آپ شائستہ محل نہ بنوائیں، یا اُس کی قبر کے گرد پتھروں کی سلیں نہ لگوائیں… لیکن اگر آپ کی وہ لازوال اور شدید محبت شائستہ تک جا پہنچے، اور وہ جاگ کر واپس آ جائے، تو آپ مشکل میں پڑ جائیں گے۔‘‘
مجھے ڈر تھا کہ کہیں میں اور کچھ نہ کہہ دوں، اس لیے میں گھر سے بھاگ نکلی۔ آصفہ نے اپنے سب بھائی بہنوں کو اسکول سے لا کر انھیں باغچے میں بٹھا دیا تھا، شاید وہ اپنے والد کو تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں نے اُسے دیکھا اور ایک لمحے کو رُک گئی۔
’’زینت آنٹی!‘‘ تمام بچے آناًفاناً میرے گرد جمع ہو گئے۔ آصفہ میرے قریب آ کر کھڑی ہو گئی، چھوٹے بچوں کا ایک جھُرمٹ اُس کے ارد گرد اور اُس کی بانھوں میں دو ماہ کا ایک شیرخوار بچہ تھا۔ اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ کہیں دور سے، غالباً شائستہ سرگوشی کر رہی تھی۔ ’’یہ میری بیٹی نہیں ہے، یہ میری ماں ہے…‘‘
:::
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔
Authors
-
بانو مشتاق ۱۹۴۸ء میں ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے شہر حسن میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک مصنف، سماجی کارکن اور وکیل ہیں۔ انھیں آٹھ برس کی عمر میں کنڑ زبان کے شواس موگا مشنری سکول میں اس شرط پر داخلہ ملا کہ وہ چھے ماہ کے اندر کنڑ زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھیں گی لیکن انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر محض چند ایام میں ہی کنڑ زبان میں لکھنے کا آغاز کر دیا۔ بعد ازاں، مخالفتوں کے باوجود انھوں نہ صرف جامعہ کی تعلیم حاصل کی بلکہ ۲۶ برس کی عمر میں محبت کی شادی بھی کی۔ وہ کنڑ، ہندی، دکنی اردو اور انگریزی زبانیں جانتی ہیں۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ’’لنکش پیتریک‘‘ نامی اخبار میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے کیا۔ پھر انھوں نے چند ماہ کے لیے آل انڈیا بنگلور میں بھی کام کیا۔ یوں تو بانو مشتاق کو بچپن ہی لکھنے پڑھنے سے شغف تھا لیکن وہ اپنی ۲۹ برس کی عمر میں اپنا پہلا افسانہ لکھ کر باقاعدہ مصنف بنیں اور انھوں نے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی دہائیوں میں جنوب مغربی ہندوستان کے ترقی پسند احتجاجی ادبی حلقوں میں لکھنے کا آغاز کیا۔ ذات پات اور طبقاتی نظام کی ناقد بندایا ساہتیہ تحریک نے بااثر دلت اور مسلمان مصنفین کو جنم دیا، جن میں چند خواتین میں سے ایک بانو مشاق تھیں۔ وہ چھے افسانوی مجموعوں، ایک ناول، مضامین کے ایک اور ایک شعری مجموعے کی مصنفہ ہیں۔ وہ کنڑ میں لکھتی ہیں اور اپنے ادبی کاموں پر قابلِ قدر اعزازات جیت چکی ہیں، جن میں کرناٹک ساہتیہ اکیڈمی اور دانا چنتامانی اتیمبے ایوارڈز شامل ہیں۔ ان کی بین الاقوامی بکر پرائز 2025 جیتنے والی کتاب ’’دل چراغ‘‘ ان کے ادبی کاموں میں سے بارہ منتخب افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ ہونے والی پہلی کتاب ہے۔ اس انگریزی ترجمے کی وساطت سے کچھ افسانوں کا اردو، ہندی، تامل اور ملیالم میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ان کے پہلے افسانے کا موضوع نئی نئی ماں بننے والی ایک ایسی عورت ہےجو زچگی کے ڈپریشن کو سہتی ہے۔ یہیں سے بانو مشتاق نے اپنے احساسات و تجربات کے اظہار کو اپنی تحریروں کے موضوعات بنایا۔ اس طرح ان کے افسانے نسوانی مسائل کا بیانیہ ہیں۔ ان کے افسانوں کی مترجم دیپا بھاستھی نے ان کے ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۳ء کے درمیان شائع ہونے والے افسانوں میں بارہ ایسی کہانیوں کا انتخاب کیا جن کے مرکزی کردار مسلم گھرانوں کی خواتین تھیں اور دیپا بھاستھی نے اپنے تراجم کا آغاز ۲۰۲۲ء میں کر کے فروری ۲۰۲۵ء میں کتاب کو پینگوئین رینڈم، بھارت سے شائع کروایا۔ اس سے قبل دیپا بھاستی بانو مشتاق کے چھے افسانوں کے ایک انتخاب ’’حسینہ اور دوسری کہانیاں‘‘ کے عنوان سے کیا تھا ، جسے پین ایوارڈ ۲۰۲۴ء سے نوازا گیا تھا جب کہ ’’دل چراغ‘‘بکر پرائز ۲۰۲۵ء جیتنے میں کامیاب رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ بانو مشتاق تمام مرد و زن مسلمان مصنفین میں پہلی مسلمان خاتون مصنف بلکہ کنڑ زبان کے تمام مرد و زن ادیبوں میں بھی پہلی مصنف ہیں جنھیں بکر انعام سے سرفراز کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ امر بھی قابلِ تذکرہ ہے کہ دیپا بھاستھی بھی پہلی ہندوستانی مترجم (جملہ مرد و زن مترجمین میں) ہیں جو اس انعام کی شریک بنی ہیں۔ بانو مشتاق قبل ازیں کرناٹک ساہتیہ ایوارڈ ۱۹۹۹ء اور دانا چنتامنی اتیمبے ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔
View all posts -
محمد عامر حسینی کا تعلق پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے ایک اہم شہر، خانیوال سے ہے۔ وہ ایک تجربہ کار اور صاحبِ بصیرت صحافی ہیں جنہوں نے ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے وابستگی کے دوران صحافت کے مختلف میدانوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ اُن کی تحریریں نہ صرف قومی سطح پر پڑھی جاتی ہیں بلکہ عالمی قارئین بھی ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ محمد عامر حسینی چھے کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں تنقید، سماجیات، سیاسی تجزیے اور ادبی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ وہ نہ صرف فکشن لکھتے ہیں بلکہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کا ایک اور اہم پہلو غیر ملکی ادب کے اردو تراجم ہیں، جن کے ذریعے انہوں نے عالمی ادب کو اردو زبان میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ادب، صحافت اور ترجمے کے میدان میں ان کی کاوشیں علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
View all posts
1 thought on “شائستہ محل کی سنگی سلیں”
These translated stories are very nice, great full to both of them : Banu Mushtaq and Aamir Hussaini