𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

ڈیبورا سمتھ  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو

بُکر انعام یافتہ

ڈیبورا سمتھ

Deborah Smith

انٹرویوکنندہ: گراہم اولیور

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

Urdue Translation of Interview Deborah Smith Translator Booker Prize 2024

’’ وہ اپنی کتابوں میں متنوع تشریحات  کی خاطر کافی ابہام چھوڑنے کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتی ہیں ۔‘‘

ڈیبورا سمتھ

ڈیبورا سمتھ کوریائی زبان کی مترجم اور لندن  میں ایک نئے غیر منافع بخش اشاعتی ادارے ’’ٹلٹد ایکسز پریس‘‘  (Tilted Axis Press) کی بانی ہیں۔ حال ہی میں، انھوں نے کوریائی مصنفہ ہن کانگ کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان کے ناول ’’سبزی خور‘‘  (The Vegetarian) کو انگریزی قارئین  تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ ناول ایک ایسی عورت کے بارے میں آپس جڑے ہوئے تین ناولوں کا  ایک مجموعہ ہے جو پرتشدد، خوں ریز خوابوں کے بعد لحم خوانی ترک کر دیتی ہے، اور اس کے  اسی فیصلے سے اس کی زندگی میں پیدا ہونے والے خلل پر مبنی ہے ۔  

……

گراہم اولیور:

کسی بھی کتاب  کی قرأت کی بابت خالی  حصوں کی بھرائی کے لیے ایک خاص مقدار ہوتی ہے۔ یہ بات  خاص طور پر  ’’سبزی خور‘‘ کے معاملے میں درست ہے کیوں کہ  ایک ایسی کتاب جس میں ہم مرکزی کردار کے  خیالات کم ہی دیکھنے میں ملتے ہیں۔ جب میں اس کا مطالعہ کر رہا تھا تو میں  سوچ رہا تھا آیا کرداروں کے محرکات— ثقافتی بمقابلہ انفرادی شخصیت— کے بارے میں میرے مفروضے درست ہیں یا کسی کورین قاری سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ ’’سبزی خور‘‘ کے ساتھ کوئی  مسئلہ تھا؟ آپ کے کام میں زبان بلکہ ثقافت کو بھی ترجمہ کرنے کا عمل کیسے  اپنا کردار ادا کرتا ہے؟

ڈیبورا سمتھ:

جی ہاں، ’’سبزی خور‘‘ جنوبی کوریا  کے منظر نامے میں لکھا گیا ہے، جس کے کردار کوریائی ہیں، لیکن اس سے ہٹ کر میں یہ نہیں کہوں گی کہ یہ خالصتاً کوریائی ناول ہے۔ ’’سبزی خور‘‘ کا ترجمہ کرنے کا انتخاب کرنے کی سب سے پہلی وجہ تو میرے پاس یہ تھی کہ اس کا ’’ثقافتی مواد‘‘ واقعاتی ہے، حالانکہ قدرتی طور پر نیم ترتیب شدہ شادیاں، درجات کا انتہائی احترام، اور مردانہ صلاحیت اور معاشی صحت دونوں کے تمغے کے طور پر لحم خوانی، ترجمے کے قارئین کے لیے جنوبی کوریائی باشندوں کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ علاوہ ازیں، یہاں تک کہ جنوبی کوریا ایسے کسی  اور ملک میں، جو نسلاً یکساں اور ہم آہنگ شوق رکھتا ہو،’’ثقافت‘‘ کسی   بھی طرح سے یک سنگی نہیں ہے (یعنی ثقافت یک جہت نہیں ہے۔مترجم)۔

مجھے ’’سبزی خور‘‘ ہمیشہ  ایک اسطورہ کا عصر حاضر میں مکرر  قصہ گوئی لگا ماسوائے اس ایک امر  کے کہ  اس میں اصل اسطورہ  غائب ہے  کیونکہ قلب ماہئیت  کی کوئی کوریائی، حد یہ کہ مشرقی ایشیائی تک میں،  یونانیوں  جیسی کوئی روایت موجود  نہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہن واقعی  مثلِ اولیٰ  لکھ رہی ہیں: ’’فن‘‘، اور ’’آرزو‘‘، اور ’’تشدد‘‘۔ خاص طور پر کوریا کے سماجی ڈھانچے  ان کے روبہ عمل ہونے پر محاوراتی تبدیلی کرتے ہیں، لیکن وہ واقعاتی  موافقتیں مرکزِ نگاہ نہیں ہیں۔

گراہم اولیور:

میں نے کتاب کا مرکزی استعارہ یا  موضوع ان خواتین کے بارے میں پڑھا ہے جو اپنی زندگیوں اور  اپنے جسموں پر اپنے اختیار پر مصر ہیں۔ کتاب پر تبصروں کے مطالعے سے میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں نے بے شمار مختلف تشریحات پر اپنی  توجہ مرکوز کی ہے۔ کیا آپ اسے مختلف ثقافتی نقطۂ نظر کے حاصل کے طور پر دیکھتی ہیں؟

ڈیبورا سمتھ:

میرے خیال میں یہ اس امر  کی دلالت ہے کہ کس شے نے کتاب اس قدر رسائی عطا کی۔ اس کا اب تک کم و بیش دس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔جبکہ  حقیقتاً میں  نہیں سمجھتی کہ خاص طور پرحقوقِ نسواں کا مطالعہ کرنا بڑی حد تک اصل کا پیغام ہے، کیونکہ جنوبی کوریا میں حقوق نسواں بہت کم مرکزی دھارے میں ہے بلکہ میرے خیال میں اسے انگریزی ترجمے  کا ایک پیغام کہنا  اغلب طور پر جائز ہے۔ یقیناً، بہت سے  انگریزی خواں قارئین نے اسے حقوق نسواں کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے، حالانکہ دوسروں نے اسے  ایک روایت  میں بھی مقام دیا ہے جس میں میلویل کا ’’بارٹلبی‘‘ اور کافکا کا ’’گریگور سامسا‘‘ شامل ہیں۔

ویتنام میں، جو اب بھی بڑی حد تک پدرانہ معاشرہ ہے، قارئین نے اس کتاب کو کوریائی پدرانہ نظام کی  دریافت کے طور پر لیا جب کہ کٹر کیتھولک پولینڈ میں یوانگ ہئی (’’سبزی خور‘‘ کا مرکزی کردار) کے ترک کرنے کے عمل کو قرون وسطیٰ کے سادھوؤں جیسی ایثار بھری نفس کشی کے طور پر لیا گیا ہے۔ ہن اور نہ ہی میں یہ کہوں گی کہ ان میں سے کوئی بھی مطالعہ کم و بیش’’درست‘‘ ہے۔ وہ اپنی کتابوں میں متنوع تشریحات  کی خاطر کافی ابہام چھوڑنے کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتی ہیں۔ لیکن وہ  اس سے بہت  بعید ہیں جو لکھتے وقت اس کے ذہن میں تھیں کیونکہ اس کا پس منظر مختلف ہے۔ مثال کے طور پر، جب سے مجھے پتہ چلا کہ وہ بدھ مت کی پیروکار ہے  تو مَیں نے اپنے آپ کو ’’سبزی خور‘‘ کو بدھ مت کے  کسی کو نقصان نہ پہنچانے، تشدد کو تمام انسانوں میں موروثی چیز ہے جیسے نظریات کی روشنی میں پڑھنے کے معاملے میں بے بس پایا۔

گراہم اولیور:

کیا آپ ہن کانگ ہی کے تصنیف کردہ  ناول ’’انسانی حقوق‘‘ کےاپنے تازہ ترین ترجمے پر کچھ بات کرنا چاہیں گی ؟

ڈیبورا سمتھ:

’’سبزی خور‘‘ سے ’’انسانی حقوق‘‘ بہت مختلف ہیں۔ یہ  ۱۹۸۰ء میں گوانگجو میں، جو جزیرہ نما کوریا کے انتہائی جنوب میں واقع ایک شہر ہے اور ہن کا آبائی شہر بھی، ہونے والے قتل عام پر مبنی ہے ۔ بہ ایں ہمہ، یہ ایک ہی مصنف کے ذریعہ قابل شناخت ہے۔ وہ ہمیشہ سے ایک ایسی لکھاری رہی ہیں جو ذاتی کو سیاسی کرتی ہے،  لیکن یہاں وہ سیاسی کو ذاتی بناتی ہیں۔ ہن نے ایک ایسی دستاویز  کی ذمہ داری محسوس کی جو حقیقتاً عمل میں آئی تھی، لہٰذا یہاں کچھ خوبصورت سفاکانہ مواد ہے، لیکن اس کو اسی جذباتی اور اسلوبیاتی بندش کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو ان کی تمام لکھتوں کی خصوصیات ہیں۔ کوئی  بلاسبب خون ریزی، کوئی فجائیہ نشان نہیں۔

گراہم اولیور:

  آئیے، کچھ سفارشات کے ساتھ ختم کرتے ہیں۔ ہمیں کوریائی ادب سے ہن کانگ کے علاوہ اور  کسے پڑھنا چاہیے ؟

ڈیبورا سمتھ:

اگر آپ نے مجھ سے ایک سال پہلے یہ پوچھا ہوتا تو میں سٹپٹا اٹھتی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم عصری تراجم میں تیزی دیکھ رہے ہیں، جس میں شکر ہے کہ ایک حصہ پرجوش چھوٹے ناشرین کا ہے جو خطرہ مول لینے کو تیار ہیں، اور ایک حصہ مترجمین اور  ایل ٹی آئی  کوریا (لٹریچر ٹرانسلیشن انسٹیٹیوٹ آف کوریا)  کی کوششوں کا بھی۔ ۲۰۱۶ء کی اشاعتوں  کے بعد میں جنگ ینگ مون (Jung Young Moon)  کی ’’ویسلائن بُدھا‘‘ (Vaseline Buddha)   تجویز کروں گی، جس کا ترجمہ ییوون جنگ  (Yewon Jung) نے کیا ہے۔ میری کمپنی، ٹلٹڈ ایکسز  (Tilted Axis) اس کا ایک اور ترجمہ ’’یک صد سائے‘‘ از  ہوانگ جنگیون  (Hwang Jung-eun) بھی شائع کرے گی۔

ایک اور شاندار مترجم سورا کِم رسل کی گزشتہ برس دو کتب منصۂ شہود پر آئی تھیں، میں انھیں تجویز کروں گی – شہزادی باری از ہوانگ سوک یونگ (Princes Bari by Hwang Sok-yong)  اور ’’کہیں نہیں ملا از بائے سوہ (Nowhere to be Found by Bae Suah)۔ میرے نزدیک ہن کانگ اور بائے سوہ جنوبی کوریا کی سب سے بڑی ہم عصر مصنفین ہیں۔ میں نے بائے کے دو ناولوں ’’ایک عظیم موسیقی‘‘  (A Greater Music) اور ’’قرأت‘‘  (Recitation)  کے تراجم کیے ہے، جو بالترتیب ناشرین ’’اوپن لیٹر‘‘ اور ’’ڈیپ ویلم‘‘موسم خزاں میں شائع کریں گے۔

:::

[انگریزی متن بشکریہ ’’پلوشیئرز‘‘ (PLOUGHSHARES)]

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

ڈیبورا سمتھ  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

نجم الدّین احمد  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو

بُکر انعام یافتہ

ڈیبورا سمتھ

Deborah Smith

انٹرویوکنندہ: گراہم اولیور

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

’’ وہ اپنی کتابوں میں متنوع تشریحات  کی خاطر کافی ابہام چھوڑنے کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتی ہیں ۔‘‘

 

ڈیبورا سمتھ

ڈیبورا سمتھ کوریائی زبان کی مترجم اور لندن  میں ایک نئے غیر منافع بخش اشاعتی ادارے ’’ٹلٹد ایکسز پریس‘‘  (Tilted Axis Press) کی بانی ہیں۔ حال ہی میں، انھوں نے کوریائی مصنفہ ہن کانگ کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان کے ناول ’’سبزی خور‘‘  (The Vegetarian) کو انگریزی قارئین  تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ ناول ایک ایسی عورت کے بارے میں آپس جڑے ہوئے تین ناولوں کا  ایک مجموعہ ہے جو پرتشدد، خوں ریز خوابوں کے بعد لحم خوانی ترک کر دیتی ہے، اور اس کے  اسی فیصلے سے اس کی زندگی میں پیدا ہونے والے خلل پر مبنی ہے ۔  

……

گراہم اولیور:

کسی بھی کتاب  کی قرأت کی بابت خالی  حصوں کی بھرائی کے لیے ایک خاص مقدار ہوتی ہے۔ یہ بات  خاص طور پر  ’’سبزی خور‘‘ کے معاملے میں درست ہے کیوں کہ  ایک ایسی کتاب جس میں ہم مرکزی کردار کے  خیالات کم ہی دیکھنے میں ملتے ہیں۔ جب میں اس کا مطالعہ کر رہا تھا تو میں  سوچ رہا تھا آیا کرداروں کے محرکات— ثقافتی بمقابلہ انفرادی شخصیت— کے بارے میں میرے مفروضے درست ہیں یا کسی کورین قاری سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ ’’سبزی خور‘‘ کے ساتھ کوئی  مسئلہ تھا؟ آپ کے کام میں زبان بلکہ ثقافت کو بھی ترجمہ کرنے کا عمل کیسے  اپنا کردار ادا کرتا ہے؟

ڈیبورا سمتھ:

جی ہاں، ’’سبزی خور‘‘ جنوبی کوریا  کے منظر نامے میں لکھا گیا ہے، جس کے کردار کوریائی ہیں، لیکن اس سے ہٹ کر میں یہ نہیں کہوں گی کہ یہ خالصتاً کوریائی ناول ہے۔ ’’سبزی خور‘‘ کا ترجمہ کرنے کا انتخاب کرنے کی سب سے پہلی وجہ تو میرے پاس یہ تھی کہ اس کا ’’ثقافتی مواد‘‘ واقعاتی ہے، حالانکہ قدرتی طور پر نیم ترتیب شدہ شادیاں، درجات کا انتہائی احترام، اور مردانہ صلاحیت اور معاشی صحت دونوں کے تمغے کے طور پر لحم خوانی، ترجمے کے قارئین کے لیے جنوبی کوریائی باشندوں کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ علاوہ ازیں، یہاں تک کہ جنوبی کوریا ایسے کسی  اور ملک میں، جو نسلاً یکساں اور ہم آہنگ شوق رکھتا ہو،’’ثقافت‘‘ کسی   بھی طرح سے یک سنگی نہیں ہے (یعنی ثقافت یک جہت نہیں ہے۔مترجم)۔

مجھے ’’سبزی خور‘‘ ہمیشہ  ایک اسطورہ کا عصر حاضر میں مکرر  قصہ گوئی لگا ماسوائے اس ایک امر  کے کہ  اس میں اصل اسطورہ  غائب ہے  کیونکہ قلب ماہئیت  کی کوئی کوریائی، حد یہ کہ مشرقی ایشیائی تک میں،  یونانیوں  جیسی کوئی روایت موجود  نہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہن واقعی  مثلِ اولیٰ  لکھ رہی ہیں: ’’فن‘‘، اور ’’آرزو‘‘، اور ’’تشدد‘‘۔ خاص طور پر کوریا کے سماجی ڈھانچے  ان کے روبہ عمل ہونے پر محاوراتی تبدیلی کرتے ہیں، لیکن وہ واقعاتی  موافقتیں مرکزِ نگاہ نہیں ہیں۔

گراہم اولیور:

میں نے کتاب کا مرکزی استعارہ یا  موضوع ان خواتین کے بارے میں پڑھا ہے جو اپنی زندگیوں اور  اپنے جسموں پر اپنے اختیار پر مصر ہیں۔ کتاب پر تبصروں کے مطالعے سے میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں نے بے شمار مختلف تشریحات پر اپنی  توجہ مرکوز کی ہے۔ کیا آپ اسے مختلف ثقافتی نقطۂ نظر کے حاصل کے طور پر دیکھتی ہیں؟

ڈیبورا سمتھ:

میرے خیال میں یہ اس امر  کی دلالت ہے کہ کس شے نے کتاب اس قدر رسائی عطا کی۔ اس کا اب تک کم و بیش دس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔جبکہ  حقیقتاً میں  نہیں سمجھتی کہ خاص طور پرحقوقِ نسواں کا مطالعہ کرنا بڑی حد تک اصل کا پیغام ہے، کیونکہ جنوبی کوریا میں حقوق نسواں بہت کم مرکزی دھارے میں ہے بلکہ میرے خیال میں اسے انگریزی ترجمے  کا ایک پیغام کہنا  اغلب طور پر جائز ہے۔ یقیناً، بہت سے  انگریزی خواں قارئین نے اسے حقوق نسواں کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے، حالانکہ دوسروں نے اسے  ایک روایت  میں بھی مقام دیا ہے جس میں میلویل کا ’’بارٹلبی‘‘ اور کافکا کا ’’گریگور سامسا‘‘ شامل ہیں۔

ویتنام میں، جو اب بھی بڑی حد تک پدرانہ معاشرہ ہے، قارئین نے اس کتاب کو کوریائی پدرانہ نظام کی  دریافت کے طور پر لیا جب کہ کٹر کیتھولک پولینڈ میں یوانگ ہئی (’’سبزی خور‘‘ کا مرکزی کردار) کے ترک کرنے کے عمل کو قرون وسطیٰ کے سادھوؤں جیسی ایثار بھری نفس کشی کے طور پر لیا گیا ہے۔ ہن اور نہ ہی میں یہ کہوں گی کہ ان میں سے کوئی بھی مطالعہ کم و بیش’’درست‘‘ ہے۔ وہ اپنی کتابوں میں متنوع تشریحات  کی خاطر کافی ابہام چھوڑنے کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتی ہیں۔ لیکن وہ  اس سے بہت  بعید ہیں جو لکھتے وقت اس کے ذہن میں تھیں کیونکہ اس کا پس منظر مختلف ہے۔ مثال کے طور پر، جب سے مجھے پتہ چلا کہ وہ بدھ مت کی پیروکار ہے  تو مَیں نے اپنے آپ کو ’’سبزی خور‘‘ کو بدھ مت کے  کسی کو نقصان نہ پہنچانے، تشدد کو تمام انسانوں میں موروثی چیز ہے جیسے نظریات کی روشنی میں پڑھنے کے معاملے میں بے بس پایا۔

گراہم اولیور:

کیا آپ ہن کانگ ہی کے تصنیف کردہ  ناول ’’انسانی حقوق‘‘ کےاپنے تازہ ترین ترجمے پر کچھ بات کرنا چاہیں گی ؟

ڈیبورا سمتھ:

’’سبزی خور‘‘ سے ’’انسانی حقوق‘‘ بہت مختلف ہیں۔ یہ  ۱۹۸۰ء میں گوانگجو میں، جو جزیرہ نما کوریا کے انتہائی جنوب میں واقع ایک شہر ہے اور ہن کا آبائی شہر بھی، ہونے والے قتل عام پر مبنی ہے ۔ بہ ایں ہمہ، یہ ایک ہی مصنف کے ذریعہ قابل شناخت ہے۔ وہ ہمیشہ سے ایک ایسی لکھاری رہی ہیں جو ذاتی کو سیاسی کرتی ہے،  لیکن یہاں وہ سیاسی کو ذاتی بناتی ہیں۔ ہن نے ایک ایسی دستاویز  کی ذمہ داری محسوس کی جو حقیقتاً عمل میں آئی تھی، لہٰذا یہاں کچھ خوبصورت سفاکانہ مواد ہے، لیکن اس کو اسی جذباتی اور اسلوبیاتی بندش کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو ان کی تمام لکھتوں کی خصوصیات ہیں۔ کوئی  بلاسبب خون ریزی، کوئی فجائیہ نشان نہیں۔

گراہم اولیور:

  آئیے، کچھ سفارشات کے ساتھ ختم کرتے ہیں۔ ہمیں کوریائی ادب سے ہن کانگ کے علاوہ اور  کسے پڑھنا چاہیے ؟

ڈیبورا سمتھ:

اگر آپ نے مجھ سے ایک سال پہلے یہ پوچھا ہوتا تو میں سٹپٹا اٹھتی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم عصری تراجم میں تیزی دیکھ رہے ہیں، جس میں شکر ہے کہ ایک حصہ پرجوش چھوٹے ناشرین کا ہے جو خطرہ مول لینے کو تیار ہیں، اور ایک حصہ مترجمین اور  ایل ٹی آئی  کوریا (لٹریچر ٹرانسلیشن انسٹیٹیوٹ آف کوریا)  کی کوششوں کا بھی۔ ۲۰۱۶ء کی اشاعتوں  کے بعد میں جنگ ینگ مون (Jung Young Moon)  کی ’’ویسلائن بُدھا‘‘ (Vaseline Buddha)   تجویز کروں گی، جس کا ترجمہ ییوون جنگ  (Yewon Jung) نے کیا ہے۔ میری کمپنی، ٹلٹڈ ایکسز  (Tilted Axis) اس کا ایک اور ترجمہ ’’یک صد سائے‘‘ از  ہوانگ جنگیون  (Hwang Jung-eun) بھی شائع کرے گی۔

ایک اور شاندار مترجم سورا کِم رسل کی گزشتہ برس دو کتب منصۂ شہود پر آئی تھیں، میں انھیں تجویز کروں گی – شہزادی باری از ہوانگ سوک یونگ (Princes Bari by Hwang Sok-yong)  اور ’’کہیں نہیں ملا از بائے سوہ (Nowhere to be Found by Bae Suah)۔ میرے نزدیک ہن کانگ اور بائے سوہ جنوبی کوریا کی سب سے بڑی ہم عصر مصنفین ہیں۔ میں نے بائے کے دو ناولوں ’’ایک عظیم موسیقی‘‘  (A Greater Music) اور ’’قرأت‘‘  (Recitation)  کے تراجم کیے ہے، جو بالترتیب ناشرین ’’اوپن لیٹر‘‘ اور ’’ڈیپ ویلم‘‘موسم خزاں میں شائع کریں گے۔

:::

 

[انگریزی متن بشکریہ ’’پلوشیئرز‘‘ (PLOUGHSHARES)]

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

Authors

  • Deborah Smith Translator Booker Prize 2024

    ڈیبورا سمتھ کوریائی زبان کی مترجم اور لندن  میں ایک نئے غیر منافع بخش اشاعتی ادارے ’’ٹلٹد ایکسز پریس‘‘  کی بانی ہیں۔ حال ہی میں، انھوں نے کوریائی مصنفہ ہن کانگ کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان کے ناول ’’سبزی خور‘‘  کو انگریزی قارئین  تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ ناول ایک ایسی عورت کے بارے میں آپس جڑے ہوئے تین ناولوں کا  ایک مجموعہ ہے جو پرتشدد، خوں ریز خوابوں کے بعد لحم خوانی ترک کر دیتی ہے، اور اس کے  اسی فیصلے سے اس کی زندگی میں پیدا ہونے والے خلل پر مبنی ہے ۔

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

Leave a Comment

𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛