𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

سلمٰی آئیڈن  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

ریاط فاطمہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

ترک کہانی

اپریل۲۳،افسانہ ایک  تعطیل کا

سلمیٰ  آئیڈن

Selma Aydin

ترجمہ: ریاط فاطمہ

سلمٰی آئیڈن  کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

ریاط فاطمہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

ترک کہانی

اپریل۲۳،افسانہ ایک  تعطیل کا

سلمیٰ  آئیڈن

Selma Aydin

ترجمہ: ریاط فاطمہ

April 23, A Holiday Story by Selma Aydin - Turkish Literature - Turkish Fiction - Turkish Short Stories

ایک ناقابل فراموش مختصر کہانی جو میرے دل میں اپنا ایک افسردہ مقام رکھتی ہے۔

    سلمیٰ  آئیڈن

تئیس اپریل کو ہمارے سکول میں قومی خودمختاری اور بچوں کا عالمی دن منانے کی تیاری عروج پر تھی۔ چنیدہ طالب علم تقریب کے لیے ادارے کے نمائندہ تھے جب کہ اساتذہ نے کئی طالب علموں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق تقریب کی تیاریوں میں شریک ہونے کا موقع فراہم کیا۔ منتخب طالب علم مارچ کے لیے ہاتھوں میں پرچم اُٹھائے، انفرادی طور پر تقریب کی تیاریوں میں شریک تھے۔ جب کہ مارچ میں شریک فعال بچے زیادہ پُرجوش تھے اور تیزی سے اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ تیاری کے چند ہی ہفتوں بعد تقریب کی گھڑی قریب تھی،لہذا پیچیدہ و غیر پیچیدہ تفصیلات زیرِ بحث رہیں۔

تئیس اپریل  ’’قومی خود مختاری و بچوں کادن‘‘عام تعطیل کا دن  تھا جو  اتاترک کی طرف سے نہ صرف ترکی بلکہ تمام ممالک کے بچوں کے  لیے ایک تحفہ تھا۔ یہ نہ صرف قومی تعطیل بلکہ ترک قوم کے لیے نہایت اہم دن بھی تھا۔ پس حتمی تقریب سے قبل مشقوں کی بہترین تیاری کی گئی کیوں کہ اس تقریب میں شہر کے تمام سکول اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھانے کے لیے پُرجوش تھے۔

بالآخر کئی دن کی مسلسل تیاری کے بعد،سٹی سٹیڈیم میں تقریب کی  حتمی تیاری مکمل  ہوئی اور سب  اگلے روز ہونے والی تقریب کے لیے بے قراری کے عالم میں اپنے اپنے گھروں  کو رخصت ہوئے۔ اگرچہ ہم  تھکن تے چُور  مگر  مسرور اور پُرجوش تھے۔اب کل کی تقریب کے لیے لباس تیار کرنے کا وقت تھا۔ تعطیل کے روز کے لیے سکول انتظامیہ اور نیشنل ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے مشترکہ طور پر  کچھوے کی گردن ایسے لمبے گلے والے سیاہ سوئیٹر، چنٹوں والےسایا، چست سفید پتلون اور سفید جوتوں  کا انتخاب و اعلان کیا گیا تھا۔  ان میں سے میری سفید جرابیں اور سیاہ سوئیٹر تیار تھا۔ میری ماں نے،جو نہایت عمدہ درزن  تھیں،  میرا سایا سینے کی ذمہ داری لی۔  ان کی مشین کا پٹا چل رہا تھا، بس زِپ اور  ہُک کا سلنا اور اس کا استری کرنا باقی تھا جو محض آدھ گھنٹے کا کام تھا۔ بدقسمتی سے یہ  آدھ گھنٹا میرے لیے خوف زدگی کی ہمراہی میں بے حد  طویل ہونے والا  تھا۔

میری ماں  کو اٹھنے والا درد ہم  شام سے اب  تک ان کی تکلیف کے سبب سے ناآگاہ رہے  جس کی شدت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی گئی اور ہم مایوسی  کے عالم میں کمرے میں  چکراتے  رہے۔  اگلے چند منٹوں میں  ہم ہمسائیوں کی مدد سے  ہم ہسپتال  میں تھے۔ ہماری خالہ زاد بہن  ہماری  ماں کے ساتھ ہسپتال میں رہی۔

چوں کہ ہم بہت کم سن تھے پس  ہم نے اپنی خالہ زاد بہن کو، جو پڑوس میں قریب ہی رہتی تھی، ماں کی دیکھ بھال کرنے  پر راضی کیا۔ یہ کوئی دشوار کام نہیں تھا کیوں کہ ہماری بے بسی عیاں تھی۔ میرے والد کو، جن کی رات کی شفٹ تھی، ماں کی طبعیت کے بارے آگاہ کر دیا  گیا تھا اور ماں کو  اپنڈکس کی جراحت کی خاطر  فوراً لے جایا گیا تھا۔ رات  گئے جب  والد صاحب ہسپتال سے خبر لائے تو ہمیں پتا چلا کہ جراحت کا عمل عافیت سے انجام پایا  گیا تھا اور ماں کی حالت اب بہتر تھی۔

میرے والد ٹی ٹی کے (ترکش  ہارڈ کول انٹرپرائز) میں کام کرتے تھے۔ اس روز وہ حسبِ معمول رات  کی شفتٹ پر اپنے کام پر تھے اور ہم پانچوں بہن بھائی  گھر میں ایک دوسرے  کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ہمارے ہمسائیوں نے  ہمیں تسلی دی کہ یہ عارضی  جدائی ہے  اور انھوں نے ہمارا خیال رکھا۔

بالآخر، اس تمام پس منظر میں تقریب کا دن آن پہنچا۔میں اپنی بہن  کے ساتھ تھی، جو ماں کی جراحت کی افراتفری کی وجہ سے گھر کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے  میرے کپڑے تیار کرنا بھول گئی تھی۔ جب مجھے یاد آیا  تو میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں۔ میری  عمر کے کسی کم سن بچے سے یہ کہنا کہ وہ جشن    میں شرکت نہیں  کر سکتا اور اس سے  تحمل  کی توقع رکھنا ممکن نہیں تھا۔

اگرچہ میری بہن مجھ سے محض  ایک سال بڑی تھی مگر اس نے ماں کی تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں تھیں اور میرے سایے  کے سروں کو ہاتھ میں سوئی تھام کر  سینے کی  کوشش  کی۔ ہم نے سلائی سے باہر نکل کر دکھائی دینے  والے  دھاگوں کی پروا نہیں کی، غرض تھی تو محض  سایے  کو تقریب میں پہننے کے لئے تیار کرنا  اور میں بھی بس یہی چاہتی تھی۔  میری بہن بھی اسی   کی تگ و دو کر رہی تھی۔

میں نے لمبے گلے والا سویٹر اور پتلون پہنی، اور بالوں  کو نام نہاد’’بکری کے کانوں والے سٹائل‘‘ میں   ایک طرف سمیٹ لیا ۔ مجھے انتظار تھا تو بس  اپنے سایے کے مکمل ہونے کا۔  دوسری طرف میری نظر گھڑیال پر تھی اور اس کے ساتھ ساتھ میں  دکھی انداز میں اپنی بہن پر دباؤ ڈال رہی  تھی  گویا وہ اسے تیار کرنے کی اہل نہیں تھی اور میں جشن میں شرکت نہیں کر پاؤں گی۔

میری بڑی  بہن نے  مجھ سے کہا۔ ’’ آؤ، پہن لو۔  مجھے  زپ  ٹانکنا نہیں آتا۔‘‘ میری  تو گویا دنیا ہی اجڑنے لگی۔ مجھے  اپنی  بڑی بہن کے نکمے پن اور نااہلیت  پر شدید غصہ آرہا تھا  اور مجھے پتا نہیں تھا کہ میں کچھ  زیادہ ہی  امیدیں لگا بیٹھی تھی حالاں کہ وہ بہن تھی  ماں نہیں۔ ہر گزرتے منٹ کے ساتھ میری تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا کہ میں یقینی طور پر تقریب میں شرکت نہیں کر پاؤں گی۔

میرے سایے کی کمر ساتھ جڑی ہوئی نہیں تھی اور اسے کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ میری بہن نے جلد ہی اس کا نہایت عملی ممکنہ حل نکال لیا۔ میں شرمندہ تھی کہ میں نے اس کو نااہل سمجھا تھا۔ میری بہن نےسایے کی کمر کو ایک بڑی سوئی کی مدد  جوڑ دیا تھا۔ تاہم، میں جب تک ساکت کھڑی نہ رہتی  سوئی کی نوک ، جو  بار بار کپڑے میں سے گزارنے کی وجہ سے مڑگئی تھی،   اپنی جگہ سے ہٹ کر  مجھے چبھنے لگتی۔

ٹھیک ہے، ہمیں تمام دن   اسی کے ساتھ گزارا کرنا تھا کیوں کہ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا۔ میری بہن نے جلدی جلدی زپ کی سلائی سابقہ طریقہ کار کے مطابق کی اور جب میں نے  سایا  پہن لیا تو  اسے  سی ڈالا۔  میں نے اوپر سویٹر پہن لیا  تاکہ وہ عیوب دکھائی نہ دیں۔ میرے خیال تھا کہ کام ہو گیا تھا؛ اب میں   دن نکال سکتی تھی۔

اب مجھے جلد از جلد سکول اور وہاں سے تقریب کے مقام پر پہنچنا تھا ، لیکن بدقسمتی سے میرے جوتے اب بھی سیاہ تھے  جب کہ سفید جوتے  درکار تھے۔ مگر میری بہن نے  کسی طرح اس کا بھی حل تلاش کر لیا۔

ہم  دونوں نے مل کر  کالے جوتوں  کو چاک سے، جو ہم سکول سے واپسی پر گھر لائے تھے، سفید رنگ کیا۔  اس دوران میں  ہم لہولہان ہو گئے تھے۔ بالآخر میں  پھرتی سے نکلی اور میں نے اپنے سکول    روزگارلی پرائمری سکول — کی جانب دوڑ لگا دی، جو گھر سے  زیادہ دور نہیں تھا ۔اور یوں آخرش،  میں  بھی  سکول کے باغیچے میں موجود چہچہاتے بچوں میں   سے  ایک  تعطیلی بچہ تھی۔

تاہم،  ایک فرق  کے ساتھ:  سویٹر کے مڑنے والے کناروں کو سایے کے اندر نہیں  کیا گیا تھا۔ بلاشبہ، میری کمر پر کھانے والے  کانٹے ایسی ایک سوئی  کی موجودگی اور بھدے پن سے سی گئی زپ کی وجہ سے یہ ممکن  نہیں تھا۔  مزید یہ کہ استاذ کی  بے حد سرزنش کے بعد اپنی سرخ آنکھیں لیے میں نے سیکشن میں پناہ لی، جہاں پیدل جانے والے  طلبا موجود تھے۔ ہم سب  نےمل کر ایک مخصوص طریقے سے پاؤں پٹخ پٹخ کر ایک خاص تال کے ساتھ سٹی سٹیڈیم  کا رخ کیا۔ میری بہن دیگر طلبا کے والدین کے ہمراہ ہمارے پیچھے چل رہی تھی۔ باقی بہن بھائی ہمسائیوں کی نگرانی میں گھر پر  ہماری ذہنی معذور بہن کے منتظر تھے۔

میری جھنڈا  لے کر چلنے کی تمام تیاری، جو  میں نے اپنی ماں کے لال  دوپٹے کو  ایک چرخی کے اوپر  ٹانگ کر کئی دن سے کر رہی تھی، دھری کی دھری رہ گئی تھی ۔ یہ تیاری میرے جھنڈا تھامنے کے فریضے کے دوران میں میرے سایے کا شکار ہو گئی تھی۔  میں تمام وقت میری جگہ لینے والی اپنی سہیلی کو غصے سے گھورتی رہی۔

پھر تقریب کاجس میں میرے لیے کوئی ولولہ اور  امنگ  باقی نہ رہی تھی  باقائدہ آغاز و اختتام روکھا  ہوا۔  بے شک، یہ مایوسی بار بار میری روح تک پیوست ہونے والے غم و غصہ کی  بنا پر تھی۔ میں  اس تعطیل کے جوش و ولولہ  کو یادگار بنانے ہی والی تھی لیکن اس بگڑی ہوئی  صورت حال نے میری روحانی کیفیت کو ٹھیس پہنچائی اور میری عدم دلچسپی نے مجھ سے میری تمام تر خوشی چھین لی تھی۔

تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو ہم   منتشر ہو گئے تھے۔ میں  نے اور میری بہن  نے ماں سے ملنے کے لیے ایس ایس کے ہسپتال   اب اتاترک ہسپتال   کی طرف دوڑلگا دی۔ ہسپتال سٹی سٹیڈیم کے قریب ہی  تھا۔ جب میں ماں کی طرف تیزی سے دوڑ رہی تھی، تو ایک بار پھر اپنے  بچگانہ پن یا اپنے اناڑی پن  کا شکار ہو گئی ۔ دو دنوں سے تقریباً ہر  کام ہی بگڑ رہا تھا۔

جلدبازی میں  دوڑتے ہوئے میں زمین پر گر پڑی۔ میری  نویں نکور پتلون گھٹنے کی جگہ سے پھٹ گئی۔ جسے میری ماں نے مارکیٹ سے خاصے بھاؤ تاؤ کے بعد خریدا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ گھٹنے سے بہتا ہوا خون میری سفید جرابوں  میں چلا گیا تھا۔ ساتھ ہی میری کمر پر لگی کھانے کے   کانٹے ایسی سوئی  اپنی جگہ سے ہٹ کر میری کمر  کے گوشت کو چیر گئی تھی۔مجھے بے حد تکلیف ہونے لگی مگر میں پروا کیے بغیر جلد بازی میں بھاگتی رہی کیوں کہ میں اپنی ماں سے چند ہی  منٹوں کی دوری پر تھی۔ جب ہم ہسپتال کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو میری بہن نے  مجھے ہاتھ سے کھینچتے ہوئے نصیحت کی  کہ میں روؤں مت ورنہ ماں پریشان ہوگی۔

وہ بھی اداس تھی۔ جوں ہی ہم نے اپنی ماں کا آزردہ چہرہ دیکھا ہم اور زیادہ اداس ہو گئیں۔ ان  کا زرد چہرہ ہ دیکھ کر ہمارے ذہنوں میں ایک ہی سوال  ابھرا کہ زندگی نے انھیں کس قدر تھکا دیا تھا۔ اپنی ماں کے چہرے پر میرے پانچ بہن بھائیوں اور میرے والد کی دیکھ ریکھ کی تکان نے ازحد پریشان کر دیا تھا کیوں کہ   یوم تعطیل   کے سانحاتی حالات نے میری  اپنی روحانی دنیا  بھی زیروزبر کر ڈالی تھی۔

جراحت کے عمل نے  ہماری ماں کو  مکمل طور پر  تھکا دیا تھا۔ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا کہنا ہے، لہٰذا ہم بھاگ کر  ماں کے سینے سے لگے اور ان کی  جلد صحت یابی کی دعا کی۔ہماری خالہ زاد بہن  ان کی ساتھی تھی لہٰذا  ہم نے اس کی طرف تشکر بھری آنکھوں سے دیکھا، گویا ہم اس کی آنکھوں سے ہمیں دلاسا دینے والے   چھلکتے آنسوؤں کے منتظر ہوں۔مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔

کیا  آدمی ہمیشہ پریشانی کے عالم میں روتا ہے؟  یہی ہوتا ہے۔ کیا  آدمی ہمیشہ اپنے اناڑی پن  پر پریشانی اور خطا محسوس کرتا ہے؟ بچوں کی دنیا کو سمجھنے کے لیے ناگزیر امر ہے کہ  یہ یاد رکھا جائے  کہ وہ بچے ہیں ۔ اس پر غوروخوض لازمی ہے بالخصوس جذباتی لمحات میں۔ لیکن کچھ اسباب کی بنا پر بزرگ  سدا یہ بات بھول جاتے ہیں۔

تھوڑی دیر کے  بعد جب میرا سامنا ماں سے ہوا تو میں  پریشان تھیبے حد پریشان اور وہ یہ بات بھی جان گئیں اور اس کے لیے انھیں بس اتنا کرنا پڑا کہ میری آنکھوں میں جھانکا اور میرے احساسات پڑھ لیے۔ انھوں نے اپنے پژمردہ چہرے کے ساتھ میری نم آنکھوں میں دیکھا اور بولیں۔ ’’تم نے اپنی پتلون پھاڑ لی ہے جب کہ تمھیں معلوم ہے کہ یہ  میں حال ہی میں بازار سے خرید کر لائی تھی۔‘‘

یہ میرے بچپنے کی آخری تعطیل تھی۔

:::

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

Authors

  • Selma Aydin - Turkish Writer - Turkish Literature - Turkish Fiction

    سلمیٰ آئیڈن زونگوداک، جمہوریہ ترکی میں 1965 میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے اپنی ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم اسی شہر میں حاصل کی۔ وہ زونگوداک بُلنٹ ایسیوِٹ یونیورسٹی کے ترک زبان اور ادب کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اپنے بچپن کی خوابوں کی دنیا اور جس جغرافیے میں وہ رہتی تھی اس کی عکاسی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے وہ آج ایک بڑی مصنفہ بن گئی ہیں۔ انھوں نے ۱۹۹۹ء میں مختلف پروگراموں کی میزبانی کا آغاز کیا۔ وہ سرکاری اور نجی پریزنٹیشنز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں، سلمیٰ آئیڈن نے اپنے ایک اور خواب کو ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے پورا کیا جسے انھوں نے خود پیش کیا اور اس کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیے تھے۔ وہ قومی ٹی وی چینلز پر متعدد پروگراموں کی براہ راست نشریات کی مہمان تھیں۔ انھوں نے زونگوداک اور آس پاس کے اضلاع میں کئی مشاعروں میں شرکت کی اور اپنا کلام سنایا۔ سلمیٰ آئیڈن ، جن کے پاس موسیقی تقریباً ایک سو پروگرام ہیں جن میں انھوں نے اپنے گیتوں کی خود دھن تیار کی اور ان کا نام ٹی آر ٹی نے بطور موسیقار درج کیا۔ انھوں نے اپنی جنم بھومی کے لیے ملی نغموں کی دھنیں بھی ترتیب دیں۔ اپنی موسیقی کی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے، مصنف نے عود (جدید گٹار کی شکل کا ایک قدیمی مشرق وسطیٰ کا ایک ساز جس کی گیارہ تاریں ہوتی ہیں) بجانا بھی سیکھا۔ ۲۰۱۸ء میں ’’یوریشین شعرا و فن کاروں‘‘ کی تقریب میں انھیں ایک شاعرہ اور مصنفہ کی حیثیت سے آذربائیجان میں بطور مہمان مدعو کیا گیا ۔ وہ ۶ ستمبر ۲۰۲۱ء کو میسام (ترک میوزیکل ورک اونرز پروفیشنل ایسوسی ایشن) کی رکن بنیں۔ سلمیٰ آئیڈن نے نظموں کے تین مجموعے اور ایک کتاب ادب اطفال کی شائع کی ہے۔ ان کا ناول ’’کُل‘‘ بھی جلد منصہ شہود پر آنے کی توقع ہے۔ سلمیٰ آئیڈن مقامی اخبار ’’ہاکن سیسی‘‘ کے لیے گزشتہ نو برسوں سے مسلسل لکھ رہی ہیں۔ ان کی ایک کتاب سپیشل جیوری ایوارڈ جیت چکی ہے۔

    View all posts
  • Riat Fatima

    ریاط فاطمہ کا تعلق شہرِ اولیاء ملتان سے ہے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم ملتان کے مختلف اداروں سے حاصل کی جبکہ میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی اسناد وفاقی نظامت تعلیمات اسلام آباد کے زیرِ انتظام کالج سے حاصل کی۔ ریاط فاطمہ سائنس کی طالب علم ہیں۔وہ سرگودھا یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری سے شعبہ کیمیاء میں پوسٹ گریجویشن کر رہی ہیں۔ان کا طبعی میلان تصنیف و تالیف کی طرف ہے۔وہ اردو اور انگریزی ادب کی سنجیدہ قاری ہیں اور نظم بھی کہتی ہیں۔ریاط فاطمہ نے ٹی ایس ایلیٹ، ایذرا پاؤنڈ اور پابلو نیرودا کی نظموں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ترکی زبان و ادب کا نمائندہ افسانہ ’’۲۳ اپریل،افسانہ ایک چھٹی کا‘‘جو آپ کی خدمت پیش کیا جا رہا ہے ریاط فاطمہ نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے اور وہ مستقبل میں اس نوع کے مزید منصوبے بھی مکمل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

    View all posts

Leave a Comment

𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛