ہن کانگ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
ریحان اسلام کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
کوریائی ناول کا باب
درمیانی آواز
ہن کانگ
(Han Kang)
ترجمہ: ریحان اسلام
وہ عورت اپنے دونوں ہاتھ سینے کے سامنے جوڑ لیتی ہے۔بھنویں سکیڑتی ہے اور تختہ سیاہ کی طرف دیکھتی ہے۔
’’ٹھیک ہے ، یہ پڑھو ۔‘‘ موٹے شیشوں اور سرمئی فریم کی عینک والے شخص نے مسکراتے ہوئے کہا۔
عور ت کے ہونٹ پھڑکتے ہیں۔ وہ اپنی زبان کی نوک سے نچلے ہونٹ کو نم کرتی ہے۔ اس کے سینے کے سامنے دونوں ہاتھ بے کل ہیں۔ وہ منھ کھولتی ہے اور پھر بند کرلیتی ہے۔وہ سانس روکتی ہے اور پھر لمبا سانس باہر نکالتی ہے۔وہ شخص تختہ سیاہ کی طرف بڑھتا ہے اور تحمل سے اسے پھر پڑھنے کو کہتا ہے۔
اس عورت کی آنکھ کے پپوٹے دائیں بائیں گھومتے ہیں جیسے کسی کیڑے کے پر تیزی سے پھڑ پھڑا رہے ہوں۔ عورت اپنی آنکھیں بند کرتی ہے اور پھر دوبارہ کھولتی ہے۔ شاید وہ امید کر رہی ہے کہ جب وہ آنکھیں بند کر کے کھولے گی تو خود کو کسی اور جگہ پائے گی۔
وہ شخص اپنا چشمہ ٹھیک کرتا ہے۔ اس کی انگلیاں چاک مٹی سے اٹی ہوئی ہیں۔
’’چلوہمت کرو، بلند آواز میں۔‘‘
عورت نے گردن تک ڈھانپنے والا کالا سویٹر اور کالی پتلون پہن رکھی ہے۔ اس کی کالی جیکٹ کرسی پر ٹنگی ہے اور اس کا کالا اونی سکارف ایک بڑے کالے بیگ میں رکھاہے۔ اس کی سیاہ وردی دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کسی کے جنازے سے آرہی ہے۔ ا س کا چہرہ پتلا اور نقوش تیکھے ہیں۔ اس کے لمبے چہرے کو دیکھ کر لگتا ہے وہ جیسے کسی مجسمے کا چہرہ ہے۔
وہ جوان ہے نہ زیادہ حسین ۔ وہ آنکھوں سے ذہین دکھائی دیتی ہے لیکن آنکھوں کی مسلسل حرکت اس امر کی آگاہی مشکل بنا دیتی ہے۔ اس کے مستقل ڈھلکے ہوئے کندھوں اور کمر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنے کپڑوں میں پناہ ڈھونڈ رہی ہے اور اس کے ناخن بھدے طور پر تراشے ہوئے ہیں۔ اس کی بائیں کلائی میں گہری جامنی مخمل کی پونی ہے جو اس کے یک رنگے لباس سے مختلف رنگ کی واحد چیز ہے۔
’’آؤ سب مل کر پڑھتے ہیں۔‘‘ وہ شخص اب مزید اس عورت کا انتظار نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی نظر باقی طلبا کی طرف گھماتا ہے ، بچوں جیسے چہرے والی یونیورسٹی کی ایک لڑکی جو اس عورت والی قطار میں بیٹھی ہے، ایک ادھیڑ عمر آدمی ستون کے پیچھے آدھا چھپا ہے اور ایک نوجوان پوسٹ گریجویٹ طالب علم جو اپنی کرسی میں جھکاہوا ہے۔
’’ Emos, hēmeteros۔ میرا۔ ہمارا۔‘‘ تینوں طلبا دھیمی اور شرمیلی آواز میں پڑھتے ہیں۔ ’’Sos. Humeteros ۔ تمھارا۔ تمھارے۔‘‘
تختہ سیاہ کے پاس کھڑا شخص قریب قریب تیس کے پیٹے میں ہے۔ وہ دبلا پتلاہے، بھنویں اتنی گھنی گویا کچھ کہہ رہی ہو ں، اور ناک اور اوپر والے ہونٹ کے درمیان ایک گہری نالی۔ اس کے چہرے پر جذبات کو دبائے ہوئے ایک پھیکی سی مسکراہٹ ہے۔ اس کی گہرے بھورے رنگ کی مخمل کی جیکٹ کی کہنیوں پر ہلکے بھورے رنگ کے چمڑے کے ٹکڑے لگے ہوئے ہیں۔ جیکٹ کے بازو چھوٹے ہیں جس کی وجہ سے کلائی نظر آرہی ہیں۔ عورت دیکھتی ہے کہ اس کی بائیں آنکھ سے منھ کے دہا نے تک قوس کی شکل کا ایک باریک اور مدھم سا زخم کا نشان ہے۔ جب اس نے پہلے سبق میں یہ نشان دیکھا تو اسے لگاتھا کہ اس جگہ کبھی آنسو بہتے رہے ہوں گے۔
ہلکے سبز چشمے کے عقب سے اس شخص کی آنکھیں عورت کے سختی سے بند منھ پر جمی ہوئی ہیں۔ مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے۔ اس کے چہرے پر تناؤ آ جاتاہے۔ وہ تختہ سیاہ کی جانب مڑتاہے اور تیزی سے قدیم یونانی میں ایک جملہ لکھتاہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اعراب لگائے، چاک ٹوٹتا ہے اور دونوں حصے زمین پر گر جاتے ہیں۔
۰۰۰
گزشتہ برس بہار کے آخر میں وہ عورت خود ایک تختہ سیاہ کے سامنے کھڑی تھی، چاک میں اٹا اس کا ایک ہاتھ تختہ سیاہ پر ٹکا ہوا تھا۔ جب ایک منٹ یا اس سے زیادہ وقت گزر گیا تھا اور وہ اگلاحرف لکھنے میں ناکام رہی تھی تو اس کے طلبا نے کرسیاں بدلنا اور چہ گوئیاں کرنا شروع کر دی تھیں۔ اس کی غضب آلود نگاہیں طلبا، چھت یا کھڑکی کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہی تھیں، سامنے صرف خلاتھا۔
’’کیا آپ ٹھیک ہیں، ٹیچر؟‘‘ پہلی قطار میں بیٹھی گھنگریالے بالوں اور پیاری آنکھوں والی لڑکی نے پوچھا۔ اس عورت نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن الٹا اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ چالیس سے زیادہ طلبا سوالیہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ وہ کیا کر رہی ہے؟ میزوں کے درمیان سوالوں کی سرگوشی ہو رہی تھی ۔
وہ بس اتنا کر پائی کہ چپ چاپ کمرے سے باہر آگئی۔ اپنے آپ پر ستم کر کے اس نے جیسے تیسے یہ کام کیا۔ جس لمحے اس نے راہداری میں قدم رکھا تھا کمرے میں سرگوشیوں کی آواز شور میں بدل گئی تھی، جیسے لاؤڈ سپیکر سے آواز آرہی ہو اور یہ شور پتھر کے فرش پر اس کے جوتے سے پیدا ہونے والی آواز کو کھا گیاتھا۔ اس کے کپکپاتے ہونٹ آپس میں سختی سے چپکے ہوئے تھے ۔ وہ زبان اور حلق کے بجائے اندر کہیں منمنا رہی تھی: یہ پھر لوٹ آیا۔
ایسا پہلی بار اس سرما کے بعد ہوا تھا جب وہ سولہ برس کی ہوگئی تھی۔ زبان نے اسے ایسے گونگا اور قید کر دیا تھا جیسے ہزاروں سوئیوں سے سلاہوا لباس اچانک غائب ہو جائے۔ الفاظ اب بھی اس کے کانوں تک پہنچ رہے تھے لیکن ہوا کی دبیز تہہ اس کے کو کلیا (کان کا اندرونی حصہ) اور دماغ کے بیچ رکاوٹ بن گئی تھی۔ اس دھند زدہ خاموشی کے حصار میں گویائی کے لیے زبان اور ہونٹوں کو استعمال کر نے کی اس کی یادداشت اور مضبوطی سے پنسل پکڑنے کی یادداشت دھندلاتی جا رہی تھی ۔ وہ اب مزید زبان میں نہیں سوچ سکتی تھی۔ وہ زبان کے بغیر حرکت کرتی تھی اور زبان کے بغیر سمجھتی تھی جو اس کا حال بولنا سیکھنے سے پہلے تھا— نہیں بلکہ ویسا جب اسے زندگی بھی عطا نہیں ہوئی تھی۔ چپ نے اس کے جسم کو اندر اور باہر، دونوں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور وہ وقت کے بہاؤ کو ایسے جذب کر رہی تھی جیسے روئی کے گولے پانی کو جذب کرتے ہیں۔
خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کی ماں اسے ماہر نفسیات کے پاس لے گئی تھی جس نے اسے گولیاں دیں تھیں جنھیں اس نے زبان کے نیچے چھپا لیا تھا اور گھر آکر پھولوں کی کیاری میں دبا دیا تھا۔ جب تک اس کی دبائی ہوئی گولیوں کے نیتجے میں ساج کے پھول کی کونپلیں پھوٹیں، اس کی ماں اور ماہر نفسیات کے آپس میں مشورے کے بعد طے پایا کہ اسے واپس سکول بھیج دیا جائے ۔ یہ واضح تھا کہ اسے گھر میں بند کر نے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا اور پھر اسے اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے بھی نہیں رہنا چاہیے تھا۔
اس کے سٹیٹ ہائی سکول میں پہلی بار داخلے سے کئی ماہ پہلے سکول والوں نے ایک خط کے ذریعے آگاہ کر دیا تھا کہ نیا تعلیمی سال مارچ میں شروع ہونے جا رہا ہے۔ یہ ایک بے کیف اور دہشت انگیز مقام تھا۔تمام جماعتوں کو پہلے ہی کافی کچھ پڑھا دیا گیا تھا۔ اپنی عمر سے قطع نظرتمام اساتذہ سامراجی طبیعت کے مالک تھے۔ اس کے ہم جماعتوں کو ایسی لڑکی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جو صبح سے شام تک ایک لفظ بھی نہیں بولتی تھی۔ جب اسے کہا جاتا کہ کتاب سے دیکھ کر پڑھے یا جسمانی مشقوں کے دوران اونچی آواز میں گنتی گننے کو کہا جاتا تو وہ خالی خالی نظروں سے اساتذہ کو تکتی اور ہر بار یا تو اسے واپس کلاس میں بھیج دیا جاتا یا اس کے گالوں پر تھپڑ پڑتے۔
اس کی ماں اور ماہر نفسیات نے آس لگائی تھی کہ سماجی میل جو ل کا محرک اس کی خاموشی میں دراڑیں ڈالے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ الٹا ایک مزید شوخ اور مزید گاڑھے سکوت نے اس کے جسم کے سیاہ مٹی سے بنے مرتبان کو بھر دیا۔ گھر واپسی پر پُرہجوم گلی میں سے گزرتے ہوئے وہ بے وزن پیروں سے ایسے چلتی جیسے کسی بڑے صابن کے بلبلے میں بندہو۔ اس چمک دار بلبلے کے اندر سکوت تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے کوئی پانی کے اندر سے بالائی سطح کی سمت دیکھ رہا ہو۔ کاریں چنگھاڑتی ہوئی گزرتی اور ساتھ سے پیدل گزرتے لوگوں کی کہنیاں اس کے کندھوں اور بازوؤں میں لگتی۔ پھر وہ غائب ہو جاتے۔
جب کافی وقت گزر گیا تو وہ سوچنے لگی۔ کیا ہوتا اگر اس بالکل عام سے فرانسیسی لفظ نے اس کے اندر ہلچل نہ مچائی ہوتی؟ کیا ہوتا اگر اس نے نادانستہ زبان کو یاد نہ رکھا ہوتا، جیسے جسم کے کسی لاغر عضو کے وجود کو یاد رکھتے ہیں؟ فرانسیسی ہی کیوں؟ قدیم چینی یا انگریزی کیوں نہیں؟ شاید اس کے نئے پن کی وجہ سے کیونکہ یہ وہ زبان تھی جسے وہ سیکنڈری سکول میں اختیار مضمون کے طور پر پڑھ سکتی تھی۔ معمول کے مطابق اس کی خالی نگاہیں تختہ سیاہ کی جانب اٹھ گئیں لیکن وہاں کسی چیز پر اٹک کر رہ گئیں۔ پست قد اور سر سے گنجا استاذ لفظ کی ا دائیگی کرتے ہوئے لفظ کی طرف اشارہ کر رہا تھا ۔ وہ کمزور پڑ گئی اور اس کے ہونٹ بچوں کی طرح کپکپانے لگے۔ Bibliothèque (لائبریری)۔ زبان اور حلق کے اندر کہیں بہت گہرائی سے منمناتی ہوئی آواز نکلی۔
اس کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہ تھا کہ وہ لمحہ کتنا اہم تھا۔
خوف اب بھی مبہم تھا، خاموشی کی گہرائیوں سے درد اپنی شدت ظاہر کرنے سے ہچکچا رہاتھا۔ جہاں لہجے، آوازیں اور غیر مربوط معنی ملے تھے، مسرت اور بغاوت کا آہستگی سے جلنے والا فیوز جل اٹھا تھا۔
یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس عورت نے پہلے ایک بک پبلشر کے لیے اور پھر چھ سال سے زیادہ عرصہ کے لیے ایڈیٹوریل پروڈکشن کمپنی کے لیے کام کیا تھا۔ اس کے بعد ا س نے تقریباً سات سال تک دارالحکومت اور اس کے مضافات میں کچھ یونیورسٹیوں میں اور ایک آرٹس سیکنڈری سکول میں ادب پر لیکچر دیے تھے۔ اس نے سنجیدہ شاعری کے تین مجموعے تخلیق کیے جو تین یا چار وقفوں میں منظر عام پر آئے اور پھر کئی سال تک ہر پندرھواڑے شائع ہونے والے ادبی رسالے کے لیے کالم لکھے۔ حال ہی میں ہر بدھ کی شام بنیادی رکن کی حیثیت سے وہ ایک ایسے ثقافتی میگزین کی مدیروں کی میٹنگ میں شامل ہوتی رہی تھی جس کے نام کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔
اب چونکہ یہ صورتحال پھر سے لوٹ آئی تھی تو اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے سب کچھ تج دے۔
ایسی کوئی علامت نہیں تھی جس کی بنیاد پر کہا جاتا کہ ایسا پھر سے ہو سکتا ہے یا ہونا چاہیے۔ بے شک یہ حقیقت ہے کہ چھ ماہ پہلے اس نے اپنی ماں کو کھو دیا تھا، کافی سال پہلے طلاق کے بعد بیٹے کو اپنے ساتھ رکھنے کا حق کھو دیا تھا اور اس بات کو پانچ ماہ ہونے والے تھے جب سالوں کی طویل قانونی جنگ کے بعد وہ پھر سے سابقہ شوہر کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ درج ذیل وجوہات کی بنیا د پر اسے قانونی جنگ میں شکست فاش ہوئی: کہ اس کا شوہر پہلوٹھی کا بچہ تھا اور اس کے شوہر کا باپ بھی پہلوٹھی کا بچہ تھا، کہ وہ اب جوان نہیں رہا تھا، کہ اس کے شوہر نے مسلسل یہ نقطۂ نظر اپنائے رکھا تھا کہ اس کی بیوی بہت زیادہ جذباتی عورت ہے جو کہ بچے کے لیے ٹھیک نہیں ہے، اور اس کے ثبوت کے لیے اس نے اپنی بیوی کے لڑکپن کے نفسیاتی علاج کا ریکارڈ پیش کیا— کہ شوہر کے مقابلے میں اس کے ذرائع آمدن بہت محدود اور غیر مستقل تھے اور اس کا شوہر حال ہی میں ترقی کے بعد بینک کے ہیڈ آفس میں چلا گیا تھا۔
سر مئی بالوں والا ماہر نفسیات،جس کے پاس وہ بیٹا چھن جانے کے بعد کم خوانی کا شکار ہو کر ہر ہفتے جایا کرتی تھی، یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ اتنی واضح وجوہات سے کیوں منکر ہے ۔ نہیں، اس نے میز پر رکھے سادہ کاغذ پر لکھا تھا ۔ یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے۔
یہ اس کی ماہر نفسیات سے آخری ملاقات تھی۔ لکھ کر کیے جانے والے نفسیاتی علاج معالجے میں بہت زیادہ وقت لگتا تھا اور غلطی کا امکان بھی بے حد ہوتا تھا۔اس نے ماہر نفسیات کی طرف سے لسانی علاج معالجے کے ماہر سے ملنے کی تجویز کو شائستگی سے رد کر دیا تھا۔
۰۰۰
وہ عورت دونوں ہاتھ میز پر رکھ لیتی ہے۔ اس کے جسم میں تناؤ ہے اور وہ یوں جھکی ہوئی ہے جیسے وہ ایک بچی ہو جس کے ناخنوں کا معائنہ ہونے جا رہا ہو۔ وہ اس شخص کی لیکچر ہال میں گونجتی ہوئی آواز سن رہی ہے۔
’’قدیم یونانی زبان میں مفعول اور فاعل آوازوں کے علاوہ ایک تیسری آواز بھی ہے جس کے متعلق میں نے گزشتہ لیکچر میں مختصراً بتایاتھا، یاد ہے؟‘‘
نوجوان، جو اسی قطار میں بیٹھا ہے جس میں وہ عورت بیٹھی ہے ، اثبات میں سر ہلاتا ہے ۔ وہ نوجوان فلسفے کا دوسرے سال کا طالب علم ہے اور اس کے گول گال کہ اس کے چالاک اور شرارتی ہونے تاثر دیتے ہیں۔
وہ عورت کھڑکی طرف دیکھنے لگتی ہے۔ اس کی نظریں اس پوسٹ گریجویٹ طالب علم پر پڑتی ہیں جس نے جیسے تیسے پری میڈیکل کا امتحان تو پاس کر لیا تھا لیکن وہ دوسروں کی زندگیوں کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا، اس لیے اس نے ادویات کی تاریخ کی تعلیم ترک کر دی۔
وہ دراز قد ہے، چہرہ موٹا اور ٹھوڑی لٹکی ہوئی ہے۔ اس نے سینگ کے بنے ہوئے فریم والی کالی عینک پہنی ہوئی ہے اور پہلی نظر میں پر سکون نظر آتا ہے۔ وہ تفریح کے دوران فلسفے کے نوجوان طلبا کے ساتھ وقت گزارتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو بے ہودہ لطیفے سناتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی کلاس شروع ہوتی ہے وہ سنجیدہ ہو جاتاہے۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ وہ تناؤ میں ہوتا ہے اور غلطیاں کرنے سے خوف زدہ رہتا ہے۔
’’یہ آواز، جسے ہم درمیانی آواز ہے جس میں فاعل ضمیر کی طرف راجع ہوسکتاہے۔‘‘ (یہاں اشارہreflexive pronounاور verbکی طرف ہے۔مترجم)
تیسری منزل کی کھڑکی سے باہر منتشر نارنجی روشنی کم بلند اداس عمارتوں پر پڑرہی ہے۔ اندھیرے میں چوڑے پتوں والے جوان درخت کی دبلی اور سیاہ شاخیں پتوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی خاموش نگاہیں باہر ویران منظر، سہمے ہوئے پوسٹ گریجویٹ طالب علم اور یونانی زبان کے استاذ کی ناتواں کلائیوں پر سے گزرتی ہیں۔
پہلے کے برعکس بیس سال بعد لوٹنے والی اس چپ میں نہ تو جدت ہے، نہ گہرائی اور نہ چمک۔ اگر پہلی بار چھانے والی خاموشی قبل از پیدائش چپ جیسی تھی تو یہ بعد از موت کے سکوت جیسی تھی۔ جہاں ماضی میں اس نے یہ محسوس کیا تھا کہ وہ زیر آب جا کر اوپر سطح کی جانب دیکھ رہی تھی، اب وہ محسوس کر رہی ہے کہ وہ ایک سایہ بن گئی ہے جو سر د و سخت دیوار اور ننگی زمین پر چل رہاہے، زندگی ایک پانی کا بڑا ساٹینک ہے اور وہ باہر سے اس کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ وہ ہر لفظ پڑھ اور سن سکتی ہے لیکن منھ سے ایک لفظ بھی نہیں پھوٹ سکتی ۔گویا بدن سے روح چھین لی گئی ہو،جیسے کسی مردہ درخت کا اندرونی حصہ، جیسے دو شہاب ثاقب کے درمیان تاریک خلا، ترش اور دقیق خاموشی۔
بیس سال پہلے وہ اس چیز کی پیش گوئی کرنے میں ناکام رہی تھی کہ ایک اجنبی زبان جس کی مادری زبان کوریائی سے تھوڑی بہت یا بالکل بھی مشابہت نہیں ہوگی اس کی خاموشی توڑ سکتی ہے۔اس نے ایک نجی اکادمی میں قدیم یونانی زبان کا انتخاب کیاکیوں کہ وہ اپنے اندر سے اپنی مرضی کی زبان بازیاب کروانا چاہتی ہے۔ اسے ہومر،افلاطون اور ہیروڈوٹس کے ادب میں، یااس دور کے عوامی زبان میں لکھے ہوئے ادب میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر برمی یا سنسکرت بھی پڑھائی جا رہی ہوتی تو وہ اس کا انتخاب کر لیتی، حالانکہ ان دونوں زبانوں کارسم الخط بالکل ہی اجنبی ہے۔
’’بس یہ کوئی ہے جسے میں اس کے کام سے جانتی ہوں۔‘‘
’’مثال کے طور پر فعل’لینا‘ درمیانی آواز میں تبدیل ہو کر ’میں انتخاب کرتاہوں۔‘ بن جاتا ہے۔ فعل ’دھونا‘ درمیانی آواز میں تبدیل ہو کر ’میں الف کو دھوتا ہوں۔‘ بن جاتا ہے جب کہ الف خو د (اپنی ذات) کاحصہ ہے۔ انگریزی میں کہا جاتاہے اس نے خود کو پھانسی دیدی، ٹھیک ہے؟ قدیم یونانی زبان میں ’خود‘ کہنا نہیں پڑتا۔ درمیانی آواز کو استعمال کرتے ہوئے یہ بات ایک لفظ میں کی جاسکتی ہے۔ اس طرح سے۔‘‘ استاذ سمجھاتا ہے اور پھر تختہ سیاہ پر لکھتا ہے: ἀπήγξατο (خودکشی)۔
تختہ سیاہ پر لکھے لفظوں کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ عورت پنسل اٹھاتی ہے اور یہ لفظ اپنی نوٹ بک میں لکھ لیتی ہے ۔اس نے پہلی بار کسی زبان میں اتنا پیچیدہ اصول دیکھا ہے۔ فعل کئی طرح سے اور صورتحال کے مطابق شکل تبدیل کرلیتا ہے: جیسے فاعل بطور ضمیر متکلم،اور اس کی تعداد، زمانہ جس کے کئی درجے ہیں، کیفیت کی چار اقسام ہیں، آواز جو کہ تین انواع کی ہیں۔ لیکن ان مفصل اور باریک بین اصول کا شکریہ کہ انفرادی جملے سادہ اور آسان ہیں۔ فاعل کو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں اور نہ جملے میں الفاظ کی ترتیب کی قید۔ کسی ایک لفظ میں تخفیف کریں تو پتا چلتا ہے کہ فاعل بطور ضمیر غائب ہے، زمانہ Aorist(فعل ماضی مکمل) جو کسی فعل کا ماضی میں وقوع پذیر ہونا اور مکمل ہونا ظاہر کرتا ہے، اور درمیانی آواز جو معنی کو خود میں سمولیتی ہے جیسے کہیں کہ فلاں نے خود کو پھانسی دیدی۔
اس وقت جب آٹھ سال پہلے اس کا بچہ پیدا ہوا تھا (اور اب اسے بچے کی دیکھ بھال کے لیے نااہل قرار دیدیا گیا تھا۔) اور اس بچے نے پہلا لفظ بولنا سیکھا تھا، تو اس نے ایک ایسے لفظ کا خواب دیکھا تھا جس کے اندر دنیا کی تمام زبانیں سما جائیں۔ یہ اتنا واضح ڈراؤنا خواب تھا کہ اس کی کمر پسینے میں بھیگ گئی۔ واحد لفظ جس میں بے پناہ گہرائی اور وزن تھا۔ ایک ایسی زبان کہ جسے بولنے کے لیے کوئی جیسے ہی منھ کھولے تو اس کے الفاظ دھماکے کی طرح پھٹ جائیں اور ایسے پھیلنا شروع ہو جائیں جیسے کائنات کے آغاز میں مادہ پھیلنے لگا تھا۔ ہمیشہ جب بھی وہ اپنے تھکے ہوئے اور چڑ چڑے بچے کو سلا کر نیند کی آغوش میں جاتی تو وہ خواب دیکھتی تھی کہ رگوں کے جال میں لپٹے ہوئے اس کے دل کے مرکز میں زبان کا جسیم بلوریں مادہ دھماکہ خیز مواد کے مانند چمچما رہا ہے۔
وہ اس احساس پر دانت پیستی ہے، جو محض ایک سرد مہر یاد ہے، اور لکھتی ہے: ἀπήγξατο (خودکشی)۔
ایک ایسی زبان جو کسی برفیلے ستون کی طرح سرد اور سخت ہے۔ ایک ایسی زبان جسے پہلے بولے جانے والی کسی زبان کے ساتھ جڑت کی ضرورت نہیں، مکمل طور پر ایک خود مختار زبان۔ ایک ایسی زبان جس میں ہونٹ کھلنے سے پہلے ہی مکمل طور پر فعل کے سبب اور انداز کا تعین کر لیا جاتاہے۔
وہ کچھ بولے بغیر پڑھتے اور شور مچاتے طلبا کے درمیان بیٹھتی ہے ۔ اب یونانی زبان کا استاذ اس کی خاموشی پر منھ نہیں بناتا۔ وہ کلاس کی طرف پیٹھ کر کے ہاتھ پھیلا کر نرم کپڑے سے تختہ سیاہ پر لکھے جملے مٹاتا ہے۔
صاف کیے گئے تختہ سیاہ پر ٹیک لگا کر استاذ اعلان کرتا ہے۔ ’’جون میں ہم افلاطون کو پڑھیں گے۔ بلاشبہ ساتھ ساتھ گرامر بھی پڑھتے رہیں گے۔ ‘‘ وہ سیدھے ہاتھ میں چاک پکڑتا ہے اور الٹے ہاتھ سے عینک ناک کے بالائی حصے کی طرف دھکیلتا ہے۔
۰۰۰
حتّٰی کہ جب وہ بول سکتی تھی تو ہمیشہ انتہائی نرمی سے بات کرتی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کے نطقی عصبیوں یا پھیپھڑوں میں مسئلہ تھا۔ اسے بس زیادہ جگہ لینا پسند نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنے اردگرد اپنے وجود کے حجم کے مطابق جگہ گھیرتا ہے لیکن آواز تو دور تک سفر کرتی ہے۔ وہ خود کو دورتک پھیلانا نہیں چاہتی تھی۔ چاہے وہ کسی زیر زمین راستے پر ہوتی یاگلی میں، کسی بار یا ریستوران میں، وہ کبھی بھی اونچی آواز میں پکار کرکسی کو متوجہ نہیں کر تی تھی۔ سوائے لیکچر دیتے ہوئے،کمرے میں سب سے مدھم آواز اس کی ہوتی تھی۔ وہ پہلے ہی بہت دبلی تھی لیکن پھر بھی اپنے کندھے سکیڑتی رہتی تھی تا کہ کم سے کم جگہ گھیرے۔ وہ مزاح سمجھتی تھی اور خوبصورت مسکراہٹ کی مالک تھی لیکن اتنا مدھم ہنستی تھی کہ کوئی مشکل سے ہی سن پاتا تھا۔
حتّٰی کہ جب وہ بول سکتی تھی تو بعض اوقات وہ اپنے مخاطب پر نظریں گاڑ لیتی تھی گویا اُسے یقین ہو کہ جو وہ کہنا چاہ رہی ہے اسے نظروں سے سمجھنا عین ممکن ہے۔
سلام دعا کرنا،شکریہ ادا کرنا اور معذرت کرنا، وہ یہ تمام کام لفظوں کی بجائے نظروں سے کیا کرتی تھی۔ اس کے مطابق نظروں سے زیادہ کچھ بھی بے ساختہ اور فطری نہیں تھا۔ یہ چھوئے بغیر چھونے کا طریقہ تھا۔
نظر کے مقابلے میں الفاظ کسی کو چھونے کا ایک غیر محدود طبعی ذریعہ ہیں۔ بولتے ہوئے پھیپھڑے،حلق او رزبان حرکت کرتے ہیں۔ پردہ سماعت سے ٹکرانے سے پہلے آواز ہوا میں ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ زبان خشک ہوتی ہے، لعاب کے چھینٹے نکلتے ہیں اور ہونٹ کھلتے ہیں۔ جب اسے پتا چلا کہ بولنے کے عمل کے دوران یہ سارے عوامل ناقابل برداشت ہیں تو لکھنے پر دھیان نہیں دے پاتی تھی، حد یہ کہ تنہائی میں بھی نہیں۔ جیسا کہ اسے نا پسند تھا کہ اس کی آواز ہوا میں ارتعاش پیدا کرتی ہے، اسے یہ بات بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ اس کے جملے خاموشی میں خلل پیدا کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو کاغذ پر قلم رکھنے سے پہلے ہی وہ اپنے حلق میں صفرے کا ذائقہ محسوس کر تی۔
ایسا وقت بھی آتا تھا جب وہ ہونٹ کھول کر الفاظ ادا کرنے سے پہلے اپنے تازہ تازہ لکھے ہوئے الفاظ کی شکلوں کا بغور معائنہ کرتی۔ وہ بے ترتیب انداز میں پھیلے لاشوں جیسے الفاظ اور اپنی اٹکی ہوئی آواز پر دم بخود رہ جاتی۔ وہ پڑھتے پڑھتے رک جاتی اور لعاب نگلتی کیونکہ اس کا حلق خشک ہو جاتاتھا۔ بالکل اسی طرح جیسے جسم کے کسی حصے پر کٹ لگ جانے پر خون کو روکنے کے لیے دباتی تھی یا جراثیم کو جسم میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے دبا کرتھوڑا خون باہر نکالتی تھی۔
سرمئی بالوں والے ماہر نفسیات نے اس کے بچپن کو کھنگال کر وجوہات ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے صرف آدھے رستے تک ماہر نفسیات کا ساتھ دیا۔ وہ یہ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ دس سال کی عمر میں بھی وہ قوت گویائی سے محروم ہو گئی تھی، اس لیے اس نے اس سے پہلے کے واقعات دھرائے تھے۔
اس کی ماں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کی وجہ دوران حمل ٹائیفائیڈ بخار تھا۔ طبیعت کی خرابی کے دوران وہ ایک ماہ تک ہر کھانے کے بعد دوائی لیتی رہی تھی۔ بیٹی کے برعکس ماں وہمی اور جلد باز تھی۔ جیسے ہی اس کی طبیعت ٹھیک ہوئی وہ ماہر امراض نسواں کے پاس گئی اور کہا کہ وہ بچے سے جان چھڑانا چاہتی ہے ۔ اس کا ماننا تھا کہ جتنی دوائیاں وہ کھا چکی ہے بچہ صحت مند نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اب اسقاط حمل خطرناک ہو گا کیونکہ آنول نال بن چکی ہے، اس لیے وہ دو ماہ بعد آئے۔ اسے ٹیکہ لگایا جائے گا جس سے بچہ مردہ ہو گا۔ لیکن دو ماہ بعد اس نے ہسپتال جانے کا ارادہ ترک کر دہ کیونکہ اس کا ارادہ کمزور پڑ چکا تھا۔ بچے کی پیدائش تک وہ پریشانی سے گھر ی رہی۔ جب تک کہ اس نے متعدد بار خون میں لتھڑے بچے کے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں نہ گن لیں اسے چین نہ آیا۔
جب وہ بڑی ہو رہی تھی توخالہ، کزن اور حتّٰی کہ تانکا جھانکی کرنے والی پڑوسنوں نے بھی اسے یہ چٹکلہ سنایا۔تم دنیا میں نہ آتے آتے رہ گئیں۔ یہ جملہ بارہا منتر کی طرح دہرایا گیا تھا۔
تب وہ اتنی بڑی نہیں تھی کہ اپنے جذبات کو پڑھ سکے لیکن وہ اس جملے میں چھپی خطرناک بے حسی کو محسوس کر سکتی تھی۔ وہ جیسے پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہ دنیا میں اتفاقیہ طور پر آئی تھی۔یہ عین ممکن تھا کہ ان گنت عوامل کا گہری تاریکی میں ملاپ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک خاص وقت میں ایک ایسا بلبلہ وجود میں آیا جو کسی اور لمحے میں وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ ایک شام اپنی ماں کی چنچل اورمنہ پھٹ دوستوں کو ناگواری سے الوداع کرنے کے بعد وہ گھر کے سامنے چبوترے پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر صحن میں دفن ہو تے دن کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے ماہر نفسیات کو بتایا کہ جب وہ اٹکتی ہوئی سانسوں اور سکڑے ہوئے کندھوں کے ساتھ وہاں بیٹھی تھی تو اس نے محسوس کیا کہ پھیلتا ہوا اندھیرا لطیف،پھسپھسی اور ایک پرت والی اتنی بڑی دنیا کو نگل رہا ہے۔
یہ تمام باتیں معالج کو دلچسپ لگیں۔ ’’اس وقت تم کم عمری کی وجہ سے زندگی کو نہیں سمجھ سکتی تھیں اور نہ ہی تمھارے پاس الگ رہنے کے لیے وسائل تھے۔ اس لیے جب بھی تم اپنی پیدائش کے بارے میں یہ باتیں سنتی تو تمھیں خطرہ محسو س ہوتا تھا، جیسے کہ تمھارا وجود ختم ہونے کو ہے۔ لیکن اب تم بڑی ہو چکی ہو اور ایسی باتوں کا سامنا کر سکتی ہو۔ تمھیں اب مزید ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ تمھیں دب کر رہنے کی ضرورت نہیں۔ تمھیں کھل کر بولنا چاہیے۔ اپنے کندھوں کو سکیڑنا بند کرو اور جتنی چاہے جگہ گھیرو۔‘‘
لیکن وہ جانتی تھی کہ اگر وہ اس منطق پر عمل کرے گی تو اس کی پوری زندگی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی طویل جدوجہد بن جائے گی جو مسلسل اس کی زندگی کے حساس توازن کو بگاڑنے کے درپے ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا وہ زندہ رہنے کا حق رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جو ماہر نفسیات کے معقول اور خوبصورت نتیجے سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ وہ زیادہ جگہ گھیرنے کی خواہش نہیں رکھتی لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ ڈر کے زیر سایہ رہتی ہے یا اپنی ذات کھل کر اظہار نہیں کرتی۔
ماہر نفسیات کے ساتھ اس کی ملاقاتیں ٹھیک جا رہی تھیں اس لیے جب پانچ ماہ اس کی آواز گرج دار ہونے کی بجائے بند ہی ہو گئی تو وہ حیران تھا۔ ’’میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘اس نے کہا۔ ’’میں سمجھ سکتاہوں کہ تم نے کتنا کچھ برداشت کیا ہے۔ حال ہی میں ماں کے کھونے کے صدمے کے ساتھ بچے کی تحویل کا کیس ہارجانا بہت تکلیف دہ ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں تم نے اپنے بچے کو نا قابل برداشت حد تک یاد کیا ہوگا۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔ تمھیں احساس ہوا ہو گا کہ تم اکیلی اس سب کا مقابلہ نہیں کر پاؤ گی۔ ‘‘
ہمدردی سے لبریز اس کی آواز نے اسے حیران کر دیا۔ ماہر نفسیات کا یہ دعویٰ کہ وہ سمجھ سکتا ہے اس کے لیے نا قابل برداشت تھا۔ یہ ناممکن تھا اور اسے اس بات کا پورا یقین تھا۔
ایک پر سکون سکوت نے انھیں گھیر لیا۔ اس نے اپنے سامنے رکھا کاغذ اور قلم اٹھایا اور صفائی سے لکھا۔ نہیں،یہ اتناسادہ نہیں ہے۔
۰۰۰
παθεῖν
μαθεῖν
’’ان دو لفظوں کا مطلب ’تکلیف سہنا‘ اور ’سیکھنا‘ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قدیم یونانی حروف تہجی میں دونوں کے لکھنے کا طریقہ ملتا جلتا ہے۔ یہاں سقراط یہ بتانا چاہ رہا کہ کیسے یہ دونوں عوامل ملتے جلتے ہیں۔ ‘‘
وہ مسدس شکل کی پنسل کو تراشتی ہے جس پر وہ بے خیالی میں کہنی ٹکائے ہوئے تھی۔ وہ اپنی کہنی سہلانے کے بعد تختہ سیاہ پر لکھے دونوں الفاظ اپنی ڈائری میں لکھتی ہے۔ وہ پہلے یونانی حروف تہجی میں لکھتی ہے اور اس کے بعد اپنی زبان میں ان کے معنی لکھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ناکام رہتی ہے۔ وہ بایاں ہاتھ اٹھا کر کم خوابی کی شکار آنکھوں کو مَلنے لگتی ہے۔ وہ لیکچرر کے زرد چہرے کی طرف دیکھتی ہے ۔ اسے تختہ سیاہ پر لکھے اپنی مادری زبان کے الفاظ خون کے چھینٹوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں، سفید چھینٹے۔
وہ میز پر اپنے سامنے رکھی کتاب پر سر جھکا لیتی ہے۔ یہ افلاطون کی ’’جمہوریہ ‘‘کے ابتدائی حصوں پر مشتمل اصل یونانی اور کوریائی ترجمے کے ساتھ ضخیم کتاب ہے۔ اس کی کنپٹیوں سے بہتا ہوا پسینہ یونانی حصے پر گرتا ہے۔ گردان (دوبارہ بنایا گیا) کیا گیا گھٹیا کاغذ پھول جاتاہے۔
’’تاہم ان دونوں الفاظکا ایک ساتھ استعمال صرف لفظوں کا کھیل نہیں ہے۔ کیونکہ سقراط واقعتاً یہ سمجھتاتھا کہ کچھ سیکھنا تکلیف سہنے کے مترادف ہے۔ حتّٰی کہ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ سقراط کے کہنے کا یہ مطلب نہیں لیکن نوجوان افلاطون کے مطابق یہی مطلب بنتا ہے۔ ‘‘
جمعرات کے دن جب یونانی زبان کی کلاس ہوتی ہے تو وہ وقت سے پہلے اپنا بیگ تیار کر لیتی ہے۔ وہ اکادمی سے کافی پہلے بس سے اتر جاتی ہے اور شام کے وقت پکی سڑک سے نکلنے والی حدت کو برداشت کرتی ہے،عمارت کے سایہ دار حصے میں داخل ہونے کے باوجو د بھی اس کا جسم کچھ دیر تک پسینے میں ڈوبا رہتا ہے۔
ایک مرتبہ وہ دوسری منزل پر پہنچی ہی تھی کہ اس نے دیکھا کہ معلم اس کے آگے آگے چل رہا ہے۔ وہ فوراً ٹھہر گئی۔ کسی بھی قسم کی آواز پیدا ہونے کے ڈر سے اس نے سانس روک لیا۔ استاذ پہلے ہی کسی کی موجودگی محسوس کر چکا تھا۔ اس نے مڑ کر دیکھا اور مسکرایا۔ یہ ایسی مسکراہٹ تھی جس میں شناسائی،گھبراہٹ اور دست برداری شامل تھی، اور یہ بات واضح کر رہی تھی کہ وہ اس سے سلام دعا کرنا چاہتا تھا لیکن پھر اس نے ارادہ تر ک کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد جب بھی سیڑھیوں پر یا راہداری میں ان کا آمنا سامنا ہوتا وہ مسکرانے کی بجائے صرف آنکھوں سے ہیلو بول دیتا۔
جب وہ سر اٹھاتی ہے تو اسے ایسے لگتا ہے جیسے کم روشنی والے کمرے میں کافی روشنی ہو گئی ہے۔ وہ پریشان ہو جاتی ہے۔ وہ تختہ سیاہ کی طرف دیکھتی ہے جو خالی ہے کیونکہ وقفہ ہو گیا ہے ۔ معلم نے نرم کپڑے سے تختہ سیاہ سرسری صاف کیا ہے کیونکہ اب بھی یونانی الفاظ کے ہلکے ہلکے نقوش نظر آرہے ہیں۔ حتّٰی کہ وہ ایک تہائی جملہ پڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ استعمال شدہ چاک سے بنا ہوا ٹیڑھا میڑھا دائرہ بنا ہوا نظر آرہا ہے جیسے کسی نے جان بوجھ کر بنایا ہو۔
وہ دوبارہ کتاب پر جھک جاتی ہے۔ وہ گہرے سانس لیتی ہے اور سانس لینے کی آواز دور سے آتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ جب سے وہ گویائی سے محروم ہوئی ہے اسے ایسا لگتاہے کہ سانس اندر لے جانا اور باہر نکالنا بولنے کے جیسا ہے۔ سانس بھی ہوا میں ایسے ہی ارتعاش پیدا کرتی ہے جیسے آواز۔ اپنی ماں کی آخری لمحات میں بھی اسے ایسے ہی خیالات آرہے تھے۔ جب کوما کی حالت میں اس کی ماں سانس باہر نکالتی تھی تو خاموشی میں خلل پیدا ہوتا تھا اور جب وہ سانس اندر کھینچتی تھی تو لرزتی ہوئی خاموشی ایسے چلاتی تھی جیسے اس کی ماں اسے نگل رہی ہو۔
وہ پنسل اٹھاتی ہے اور ان جملوں کو دیکھتی ہے جنھیں وہ ابھی پڑھ رہی تھی۔ وہ ان تمام الفاظ میں پنسل سے سوراخ کر سکتی تھی۔ اگر وہ پنسل کے سکے کو زور سے دبا کر گھماتی تو وہ پورے لفظ میں، نہیں، بلکہ پورے جملے کو چیر سکتی تھی۔ وہ کھردرے سرمئی کاغذ پر چھپے چھوٹے کالے حروف کا جائزہ لیتی ہے۔ لفظوں پر لگے اعراب ایسے لگتے ہیں جیسے کیڑے اپنی کمر موڑے اور پھیلائے ہوئے ہوں۔ سائے میں ایک جگہ، غیر واضح اور ناقابل سفر۔ ایک جملہ جس میں افلاطون، جواب جوان نہیں ہے، کھڑا سوچ رہا ہے اور فیصلہ نہیں لے پارہا ۔ایک اجنبی آواز جس کا مخرج منھ اس کے ہاتھ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔
وہ پنسل پر اپنی گرفت مضبو ط کرتی ہے۔ وہ احتیاط سے سانس باہر نکالتی ہے۔ جملے میں چھپا ہوا جذبہ ایسے ظاہر ہوتا ہے جیسے چاک کے نشان یا خون کے خشک قطروں کی قطار۔ وہ یہ سب برداشت کرتی ہے۔
اس کا جسم اس کی طویل خاموشی کا عینی شاید ہے۔ یہ خاموشی اپنے وزن سے زیادہ بھاری دکھائی دیتی ہے۔ اس کے قدم، ہاتھ اور پاؤں کی حرکات، لمبے چہرے کے نقوش اور ڈھلکے ہوئے کندھے،یہ سب ایک حد کا تعین کرتے ہیں۔ ان حدود کے اندر نہ تو کچھ جا سکتا ہے اور نہ کچھ باہر آسکتا ہے۔
اس نے کبھی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی جانچ پڑتال نہیں کی تھی اور اب تو یہ خیال بھی اسے بے تکا لگتا تھا۔ زندگی کے سفر میں ہم سب سے زیادہ جس چہرے کا تصورکرتے ہیں وہ ہمارا اپنا ہی چہرہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک بار جب اس نے اپنے چہرے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا تو اسے اپنا چہرہ نقلی لگنے لگا تھا۔ جب بھی کسی کھڑکی یا شیشے میں اس کی اپنے چہرے پر نظر پڑتی تو وہ اپنی آنکھوں کا بغور معائنہ کرتی۔ یہ دو چمک دار پپوٹے ہی وہ واحد راستہ ہیں جو اس کے اور کسی اجنبی کے چہرے کے درمیان فرق بتاتے ہیں۔کبھی کبھار وہ اپنے آپ کو انسان کی بجائے مادے کی ایک متحرک شے سمجھتی ہے، ٹھوس یا مائع۔ جب وہ گرم چاول کھاتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ وہ یہی چاول بن گئی ہے اور جب وہ ٹھنڈے پانی سے منہ دھوتی ہے تو وہ اپنے آپ میں اور ٹھنڈے پانی میں فرق نہیں کر پاتی۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ نہ تو چاول ہے نہ پانی بلکہ ایک سخت مادہ ہے جو کسی بھی جاندار یا بے جان سے ملاپ نہیں کرے گا۔ وہ چیز جس کے بدلے وہ اس سرد خاموشی کو سہتی ہے، جس میں اس کی ساری طاقت صرف ہوتی ہے،وہ ہے اس بچے کا چہرہ جس کے ساتھ ہر دو ہفتوں بعد وہ ایک رات گزارتی ہے اور مردہ یونانی زبان کے الفاظ جنھیں وہ پنسل سے کاغذ پر کھرچتی ہے۔
γῇ κεῖται γυνή ۔
زمین پر ایک عورت پڑی ہے۔
وہ پنسل کو میز پر رکھتی ہے جو پسینے کی وجہ سے چپک رہی ہے۔ ہتھیلی سے کنپٹیوں پر سے موتی کی طرح چمکتے ہوئے پسینے کوصاف کرتی ہے ۔
۰۰۰
’’ماں ،انھوں نے کہا ہے کہ میں ستمبر کے بعد یہاں نہیں آ سکتا۔ ‘‘
گزشتہ ہفتے کی رات یہ الفاظ سننے کے بعد وہ اپنے بیٹے کے چہرے کو تشویش ناک نگاہوں سے تکنے لگی تھی۔ دو ہفتوں میں وہ مزید بڑا ہو گیا تھا۔ اس کا قد بڑھ گیا تھا لیکن وہ پہلے سے دبلا نظر آرہاتھا۔ اس کی پلکیں ہلکی اور لمبی تھیں۔ اس کے نرم سفید گالوں کی ہڈیاں ایسے نمایاں ہو رہی تھیں جیسے کسی تصویر میں پنسل سے تراشی گئی ہوں۔
’’میں نہیں جانا چاہتا۔ میری انگریزی بھی اتنی اچھی نہیں ہے۔ وہاں ڈیڈی کی بہن بھی رہتی ہے جس سے میں کبھی نہیں ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے وہاں پورا سال گزارنا ہے۔ میں نے ابھی ابھی تو دوست بنائے ہیں اور اب مجھے پھر سے نئی جگہ جانا ہو گا؟‘‘
وہ ابھی نہائی تھی اور بچے کو بستر میں لٹایا تھا۔ بچے کے بالوں میں سے سیب کی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ اس کی گول آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ سکتی تھی۔ وہ اس کی آنکھوں میں اپنے عکس کی آنکھوں میں اس کا چہرہ دیکھ سکتی تھی اور پھر اس عکس کی آنکھوں میں اپنا عکس۔ یہ عکسوں کا لامحدود سلسلہ تھا۔
’’ماں، کیا آپ ڈیڈی سے بات نہیں کر سکتیں؟ اگر یہ ممکن نہیں تو خط دیں؟ کیا میں دوبارہ یہاں آکر نہیں رہ سکتا؟‘‘
بچے نے غصے میں آکر دیوار کی طرف منھ موڑلیا اور اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا رخ واپس اپنی طرف کیا۔
’’ایسا نہیں ہو سکتا؟ میں واپس نہیں آسکتا ؟ کیوں نہیں ؟‘‘
وہ دوبارہ دیوار کی جانب مڑ گیا ۔ ’’پلیز بلب بند کر دیں۔ میں اتنی تیز روشنی میں کیسے سو سکتا ہوں؟‘‘
وہ اٹھی اور بلب بند کر دیے۔
پہلی منزل کی کھڑکیوں میں سے گلی میں لگے برقی قمقموں کی روشنی آ رہی تھی۔ اس طرح وہ تاریکی میں بھی اپنے بچے کا پورا جسم دیکھ سکتی تھی۔ اس کے ماتھے پر گہرے بل تھے۔ وہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سہلانے لگی۔ بچے نے پھر سے بھنویں سکیڑ لیں۔ اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کر رکھی تھیں اور اس کے سانسوں کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔
جون کی رات کے آخری پہر کی تاریکی میں پانی لگے گھاس اور درختوں کے گوند کی بو ضائع کیے گئے کھانے کی بو میں گھل گئی تھی۔ بیٹے کو چھوڑنے کے بعد وہ سیول کے مرکز سے بس لینے کی بجائے دو گھنٹے پیدل چلتی رہی۔ کچھ سڑکوں پر سائیلنسر سے نکلنے والے دھویں کی گھٹن اور تیز موسیقی کے علاوہ اتنی تیز روشنی تھی جیسے دن کا وقت ہو جبکہ کچھ گلیاں تاریک اور ویران پڑی تھیں اور وہاں آوارہ بلیاں کچرے سے شاپروں کو چیرتے پھاڑتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھیں۔
اسے تھکاوٹ نہیں ہوئی تھی۔ اس کی ٹانگوں میں دردنہیں تھا۔ وہ داخلی دروازے کے سامنے کھڑی اسے گھو ر رہی تھی۔ دروازے پر لفٹ کے سامنے لگے بلب کی روشنی پڑ رہی تھی۔ اسے اس دروازے سے داخل ہوناتھا اور پھر چلتے ہوئے اپنے بستر تک پہنچ کر اس میں سونا تھا۔وہ مڑی اور عمارت سے باہر نکل گئی۔باہر گرمیوں کی رات کی بو میں، ان سڑتی چیزوں کی بو تھی جو کبھی تازہ تھیں۔ وہ تیز تیز چلنے لگی۔ یہاں تک کہ لگ رہا تھا کہ وہ دوڑ رہی تھی۔ وہ فون بوتھ میں داخل ہوئی اور ٹراؤزر کی جیب سے سارے سکے نکالے۔
اسے ایک آواز سنائی دی۔ ’’ہیلو؟‘‘
اس نے منھ کھولا۔ جبراً سانس باہر نکالا۔ اس نے سانس اندر کھینچا اور پھر خارج کیا۔
آواز دوبارہ سنائی دی۔ ’’ہیلو؟‘‘۔ رسیور کو جکڑتے ہوئے اس کا ہاتھ کپکپا رہا تھا۔
تم اسے لے جانے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟ اتنا دور؟ اتنے لمبے عرصے کے لیے؟حرامزادے ۔ سنگ دل حرامی۔
اس کے جبڑے کانپ اور دانت بج رہے تھے۔ یہاں تک کہ اس نے رسیور واپس رکھ دیا۔ وہ اپنے گالوں پر ایسے ہاتھ پھیر رہی تھی جیسے کہ اپنے آپ کو تھپڑ مار رہی ہو۔ وہ اپنے ہونٹ، جبڑوں او رمنھ کو ایسے رگڑ رہی تھی جیسے ان پر کچھ لگا ہوا ہو۔
قوت گویائی سے محروم ہونے کے بعد اس رات پہلی بار اس نے خود کو ٹھیک طرح سے آئینے میں دیکھا۔ اس نے سوچا کہ وہ ضرور غلط طریقے سے دیکھ رہی ہے گوکہ اس نے اس خیال کو لفظوں میں نہ بدلا۔ یقینی طور پر اس کی آنکھیں اتنی پر سکون نہیں ہو سکتی تھیں۔ شاید اسے آنکھوں میں خون، پیٹ یا مٹی کے ذرات دیکھ کر اتنی حیرت نہ ہوتی۔
ایک طویل عرصے سے اس کے اندر جس نفرت کا ابال پیدا ہو رہا تھا وہ بڑھتا چلا گیا، اور بڑھتا ہوا غصہ مزید پھنکارنے لگا، ایک پھوڑا جو کبھی نہیں پھوٹا۔ زخم نہ بھرے۔
کچھ بھی ختم نہ ہوا۔
۰۰۰
’’یہ دنیا عارضی اور خوبصورت ہے،ہے نا؟ ‘‘ لیکچرر کہتا ہے ۔ ’’لیکن افلاطون ایک ایسی دنیا چاہتاتھا جو مستقل اور خوبصورت ہو۔‘‘ وہ اپنے ہلکے سبز چشمے کے پیچھے سے پر سکون نگاہوں سے اس کی چمکدار آنکھوں میں دیکھتا ہے ۔ چونکہ آج طلبا کا دھیان کہیں اور ہے اس لیے وہ دس منٹ سے گرامر کے بجائے متن کا معنی سمجھا رہا ہے۔ کبھی کبھار یہ اسباق بھٹک کر یونانی زبان اور فلسفے کی طرف چلے جاتے ہیں۔
’’وہ لوگ جو خوبصورت چیزوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن خوبصورتی پر یقین نہیں رکھتے، افلاطون کی نظر میں وہ تنویمی حالت میں ہیں اور وہ سمجھتا تھا کہ ایسے لوگوں کو منطق کے ذریعے سمجھایا جا سکتا ہے ۔ا س کی دنیا میں ہر چیز ایسے ہی الٹی تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ سمجھتا تھا کہ وہ حالت نیند میں نہیں بلکہ جاگ رہا ہے۔ وہ حقیقت میں موجود خوبصورت چیزوں پر یقین رکھنے کی بجائے ایسی مثالی خوبصورتی پر یقین رکھتا تھا جو حقیقت میں وجو د نہیں رکھتی تھی۔‘‘
وہ ہمیشہ کی طرح اپنی میز پر بے حس و حرکت بیٹھی ہے۔ ایک ہی آسن میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے اس کی کمر، گرد ن اور کندھوں میں تناؤ ہے۔ وہ ڈائری کھولتی ہے اور ان جملوں کا معائنہ کرنے لگتی ہے جو اس نے وقفے سے پہلے لکھے تھے۔ وہ جملوں کے درمیان خالی جگہ میں الفاظ لکھتی ہے۔ اسم اور فعل سے جڑے گرامر کے پیچیدہ اصولوں سے تگ و دو کے باوجود وہ نا مکمل جملے بناتی ہے اور اپنی زبان اور ہونٹ ہلنے کا انتظار کرتی ہے۔ وہ پہلی آوازکے نکلنے کے انتظار میں ہے۔
γῇ κεῖται γυνή۔
زمین پر ایک عورت پڑی ہے۔
χιὼν ἐπὶ δειρῄ۔
گلے میں برف ہے۔
ῥύπος ἐπὶ βλεφάροις۔
آنکھوں میں زمین ہے۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ فلسفے کا طالب علم، جو اسی کی قطار میں بیٹھا ہے، پوچھتا ہے۔ وہ ڈائری کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں اس نے قدیم یونانی میں نا مکمل جملے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ جملے مثال دینے کے لیے لکھوائے گئے تھے اور ’’زمین پر ایک عورت پڑی ہے۔‘‘سے شروع ہو رہے تھے۔وہ نہ گھبرائی اور نہ ہی جلدی سے ڈائری بند کی۔ وہ اپنی پوری قوت جمع کرتی ہے اور نوجوان کی آنکھوں میں ایسے جھانکتی ہے جیسے برف کی گہرائیوں میں دیکھ رہی ہے۔
’’ایسا لگتا ہے کہ آخر میں ہار مان لینے کا مطلب ہے کہ بلاوجہ اتنی پریشانی اٹھائی۔‘‘
’’کیا یہ شاعری ہے ؟ یونانی زبان میں شاعری؟‘‘ کھڑکی کے ساتھ بیٹھامتجسس طالب علم اس کی طرف منھ کر کے استفسار کرتا ہے۔ عین اسی لمحے لیکچرر کلاس میں واپس آجاتا ہے۔
’’ ٹیچر!‘‘ فلسفے کا طالب علم مکارانہ ہنسی ہنستا ہے۔ ’’دیکھیں ۔انھوں نے یونانی میں شاعری لکھی ہے۔‘‘
ستون کے پیچھے بیٹھا ادھیڑ عمر شخص اس کی طرف مڑ کر تحسین بھری نگاہوں دیکھتا ہے اور پھر قہقہہ مار کر ہنس پڑتاہے۔ قہقہے کی آواز سن کر وہ گھبرا کر ڈائری بند کر دیتی ہے۔ معلم کو اپنی کرسی کی طرف آتا دیکھ کر وہ اسے خالی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔
’’واقعی؟ اگر تم برا نہ مانو تو میں دیکھ لوں؟‘‘
وہ اس کے الفاظ پر دھیان دینے کے لیے زور لگاتی ہے جیسے کہ وہ کسی بدیسی زبان کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔ وہ اس کی عینک کی طرف دیکھتی ہے جس کے شیشے اتنے موٹے ہیں کہ اسے چکر آنے لگتے ہیں۔ وہ ایک دم تمام صورت حال سمجھ جاتی ہے اور اپنی ضخیم کتاب، ڈائری،لغت اور پنسل کا ڈبہ بیگ میں ڈال لیتی ہے۔
’’نہیں، براہِ مہربانی بیٹھی رہیں۔ بھلے مجھے ڈائری نہ دکھائیں۔‘‘
وہ اٹھتی ہے، بیگ کندھے پر ڈالتی ہے، خالی کرسیوں کی قطاروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھ جاتی ہے۔
ایمرجنسی دروازے کے، جو سیڑھیوں کی سمت کھلتا ہے، سامنے کوئی پیچھے سے اس کا ہاتھ پکڑتاہے۔ وہ گھبراہٹ کے عالم میں مڑتی ہے۔ ایسا پہلی بار ہے کہ وہ لیکچرر کو اتنے پاس سے دیکھ رہی ہے۔ اس کی توقع کہ برعکس لیکچرر پست قامت ہے کیونکہ اب وہ کلاس روم کے چبوترے پر نہیں کھڑا ،اور وہ یکدم بڑی عمر کا لگ رہاہے۔
’’میں تمھیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘‘ گہری سانس بھرتے ہوئے وہ مزید قریب آتاہے۔ ’’کیا تم…… کیا تم مجھے سن سکتی ہو؟ ‘‘ وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتا ہے۔ وہ وضاحت کرنے کے لیے کئی مرتبہ ہاتھ کے اشارے دوہراتا ہے اور گھبرا کر الفاظ ادا کرتا ہے۔ ’’معاف کیجئے گا ۔میں معافی مانگنے آیا ہوں۔‘‘
وہ خاموشی سے اس کے چہرے کی طرف دیکھتی ہے۔ وہ ایک اور سانس لیتا ہے اور ثابت قدمی اور بہادری سے بات جاری رکھتا ہے۔ ’’لازمی نہیں کہ ہم بات کریں ۔تمھیں جواب دینے کی بالکل ضرورت نہیں۔ میں واقعی شرمندہ ہوں اور یہاں معافی مانگنے آیاہوں۔‘‘
۰۰۰
اس کے بیٹے کی عمر چھے سال تھی۔
ایک مرتبہ اتوار کی صبح فرصت کے لمحات میں معمول کی بات چیت کے بعد اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کے اس بنیاد پر نئے نام رکھنا چاہئیں کہ ایک دوسرے کی نظر میں ہم فطری طور پر کس چیز سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اس کے بیٹے کو یہ خیال پسند آیا اور اس نے خود کو چمکدار جنگل کا نام دیا اورپھر اپنی ماں کا نام بھی رکھا۔وہ اتنے وثوق سے بولا جیسے وہ نام اس کی ماں کے لیے ہی تھا۔
’’تیزبرستی برف کا دکھ۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہ آپ کا نام ہے، ماں۔ ‘‘
اسے سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے۔وہ بیٹے کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ وہ اس کے ساتھ لپٹ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اسے لگ رہا تھا کہ اگر وہ آنکھیں کھولے گی تو اسے تیز برستی برف دکھائی دے گی۔ اس لیے اس نے اور سختی سے آنکھیں بند کر لیں۔آنکھ بند کرنے سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ نہ ہی بڑ ے مسدسی شکل کے بلور اور نہ ہی پروں کی طرح اڑتے برف کے گالے۔ نہ ہی گہرا جامنی سمندر اور نہ ہی پہاڑی برفانی تودہ۔
جب تک رات ختم نہیں ہو جاتی اس کے لیے نہ تو الفاظ ہیں اور نہ ہی رنگ۔ ہر چیز پربرف کی موتی تہہ چڑھی ہے۔ برف جو وقت جیسی ہے، وقت جس میں جمنے سے دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور وہ وقت اس کے تنے ہوئے جسم پر جم جاتا ہے۔ اس کے ساتھ لیٹا بچہ اب وہاں نہیں ہے۔ بستر کے ٹھنڈے کنار ے پر بے حس و حرکت لیٹے وہ ایک خواب دیکھتی ہے جس میں وہ اپنے بیٹے کے گرم پپوٹوں کو مسلسل چوم رہی ہے۔
۰۰۰
یک رویہ یک طرفہ گلی موٹروے کی حفاظتی باڑ تک جاتی ہے۔ وہ اس کے فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ ا س شاہراہ پر بہت کم لوگ آتے ہیں اس لیے کونسل نے اسے نظر انداز کر رکھا ہے۔ فٹ پاتھ کی سلوں کی دراڑوں میں سے جگہ جگہ گھاس کے جھنڈ نکلے ہوئے ہیں۔ گھروں کے گرد حفاظت کے لیے لگائے گئے ببول کے درختوں کی شاخیں آپس میں جڑ کر قوس بنائے ہوئے ہیں۔گہرے طور پر مرطوب شبینہ ہوا میں گھاس کی مہک کے ساتھ مل کر خارج ہونے والے دھویں کی بوشامل ہو گئی ہے۔ پاس سے گزرتی گاڑیوں کی انجن کی آواز اس کے کان کے پردوں پر ایسے پڑ رہی ہے جیسے برف پر نوکیلے سکیٹ پڑتے ہیں۔ گھاس میں دھنسے اس کے پیر پر ایک ٹڈا آہستگی سے چلا رہا ہے۔
یہ عجیب ہے۔
اسے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ پہلے بھی ایسی کوئی رات گزار چکی ہے۔
اسے لگتا ہے جیسے وہ پہلے بھی شرم اور پریشانی کا لبادہ اوڑھے اس سڑک سے گزر چکی ہے۔
تب وہ بول سکتی ہو گی اس لیے جذبات واضح اور طاقتور ہوں گے۔
لیکن اب وہ لفظوں سے خالی ہے۔
اس کے بدن سے نکالے گئے لفظ اور جملے بھوتوں کی طرح اس کا پیچھا کرتے ہیں او ر اس کے کان اور آنکھوں کے عین قریب منڈلاتے رہتے ہیں۔
اس مسافت کا شکریہ کہ صرف طاقتور جذبات ہی اس سے جڑے رہتے ہیں باقی ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے ناکارہ ٹیپ اتر جاتی ہے۔
وہ صرف دیکھتی ہے ۔ وہ زبان میں جو کچھ دیکھتی ہے اسے ترجمے کا لبادہ نہیں پہناتی ۔
اس کی آنکھوں میں چیزوں کی تصاویر بنتی ہیں، حرکت کرتی اور جھلملاتی ہیں اور پھر لفظوں میں ڈھلے بغیر ہی اُس کے چلتے قدموں کے ساتھ وقت کے ہاتھوں مٹتی چلی جاتی ہیں۔
کافی عرصہ پہلے ،ایسے ہی موسم گرما کی ایک رات گلی میں چلتے چلتے اس نے یکایک بے ساختہ بلاوجہ ہنسنا شروع کر دیا تھا۔
اُس نے تیرھویں کا کبڑا چاند دیکھ لیا تھا اور ہنسنے لگی تھی۔
وہ یہ سوچتے ہوئے ہنسنے لگی تھی کہ وہ غمگین چہرے سے مشابہ تھا اور اُس میں پڑھےگڑھے مایوسی چھپاتی ہوئی آنکھوں سے مشابہت رکھتے تھے۔
جیسے اس کے جسم کے اندر الفاظ فلک شگاف قہقہے میں بدل گئے ہوں اور پھر یہ قہقہہ اس کے چہرے پر پھیل گیا تھا۔
اب کی طرح اس رات بھی موسم گرما کے ساتھ آنے والی حدت ہچکچاتے ہوئے اندھیرے میں گم ہو گئی تھی۔
عرصہ پہلے اس رات، گو کہ بہت زیادہ عرصہ پہلے نہیں، اس کا بچہ اس کے آگے آگے چل رہا تھا اور وہ اپنے بازووں میں ایک بڑے تربوز کو جھلاتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے تھی۔
اس کی آواز شفقت بھری اور مدھم تھی تا کہ یہ کم سے کم جگہ گھیر سکے۔
اس کے ہونٹ بتا رہے تھے کہ اس کے دانت جکڑے ہوئے نہیں ۔
اس کی آنکھوں میں بالکل بھی خون اترا ہوا نہیں تھا۔
:::
ہن کانگ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
ریحان اسلام کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔
کوریائی ناول کا باب
درمیانی آواز
ہن کانگ
(Han Kang)
ترجمہ: ریحان اسلام
وہ عورت اپنے دونوں ہاتھ سینے کے سامنے جوڑ لیتی ہے۔بھنویں سکیڑتی ہے اور تختہ سیاہ کی طرف دیکھتی ہے۔
’’ٹھیک ہے ، یہ پڑھو ۔‘‘ موٹے شیشوں اور سرمئی فریم کی عینک والے شخص نے مسکراتے ہوئے کہا۔
عور ت کے ہونٹ پھڑکتے ہیں۔ وہ اپنی زبان کی نوک سے نچلے ہونٹ کو نم کرتی ہے۔ اس کے سینے کے سامنے دونوں ہاتھ بے کل ہیں۔ وہ منھ کھولتی ہے اور پھر بند کرلیتی ہے۔وہ سانس روکتی ہے اور پھر لمبا سانس باہر نکالتی ہے۔وہ شخص تختہ سیاہ کی طرف بڑھتا ہے اور تحمل سے اسے پھر پڑھنے کو کہتا ہے۔
اس عورت کی آنکھ کے پپوٹے دائیں بائیں گھومتے ہیں جیسے کسی کیڑے کے پر تیزی سے پھڑ پھڑا رہے ہوں۔ عورت اپنی آنکھیں بند کرتی ہے اور پھر دوبارہ کھولتی ہے۔ شاید وہ امید کر رہی ہے کہ جب وہ آنکھیں بند کر کے کھولے گی تو خود کو کسی اور جگہ پائے گی۔
وہ شخص اپنا چشمہ ٹھیک کرتا ہے۔ اس کی انگلیاں چاک مٹی سے اٹی ہوئی ہیں۔
’’چلوہمت کرو، بلند آواز میں۔‘‘
عورت نے گردن تک ڈھانپنے والا کالا سویٹر اور کالی پتلون پہن رکھی ہے۔ اس کی کالی جیکٹ کرسی پر ٹنگی ہے اور اس کا کالا اونی سکارف ایک بڑے کالے بیگ میں رکھاہے۔ اس کی سیاہ وردی دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کسی کے جنازے سے آرہی ہے۔ ا س کا چہرہ پتلا اور نقوش تیکھے ہیں۔ اس کے لمبے چہرے کو دیکھ کر لگتا ہے وہ جیسے کسی مجسمے کا چہرہ ہے۔
وہ جوان ہے نہ زیادہ حسین ۔ وہ آنکھوں سے ذہین دکھائی دیتی ہے لیکن آنکھوں کی مسلسل حرکت اس امر کی آگاہی مشکل بنا دیتی ہے۔ اس کے مستقل ڈھلکے ہوئے کندھوں اور کمر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنے کپڑوں میں پناہ ڈھونڈ رہی ہے اور اس کے ناخن بھدے طور پر تراشے ہوئے ہیں۔ اس کی بائیں کلائی میں گہری جامنی مخمل کی پونی ہے جو اس کے یک رنگے لباس سے مختلف رنگ کی واحد چیز ہے۔
’’آؤ سب مل کر پڑھتے ہیں۔‘‘ وہ شخص اب مزید اس عورت کا انتظار نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی نظر باقی طلبا کی طرف گھماتا ہے ، بچوں جیسے چہرے والی یونیورسٹی کی ایک لڑکی جو اس عورت والی قطار میں بیٹھی ہے، ایک ادھیڑ عمر آدمی ستون کے پیچھے آدھا چھپا ہے اور ایک نوجوان پوسٹ گریجویٹ طالب علم جو اپنی کرسی میں جھکاہوا ہے۔
’’ Emos, hēmeteros۔ میرا۔ ہمارا۔‘‘ تینوں طلبا دھیمی اور شرمیلی آواز میں پڑھتے ہیں۔ ’’Sos. Humeteros ۔ تمھارا۔ تمھارے۔‘‘
تختہ سیاہ کے پاس کھڑا شخص قریب قریب تیس کے پیٹے میں ہے۔ وہ دبلا پتلاہے، بھنویں اتنی گھنی گویا کچھ کہہ رہی ہو ں، اور ناک اور اوپر والے ہونٹ کے درمیان ایک گہری نالی۔ اس کے چہرے پر جذبات کو دبائے ہوئے ایک پھیکی سی مسکراہٹ ہے۔ اس کی گہرے بھورے رنگ کی مخمل کی جیکٹ کی کہنیوں پر ہلکے بھورے رنگ کے چمڑے کے ٹکڑے لگے ہوئے ہیں۔ جیکٹ کے بازو چھوٹے ہیں جس کی وجہ سے کلائی نظر آرہی ہیں۔ عورت دیکھتی ہے کہ اس کی بائیں آنکھ سے منھ کے دہا نے تک قوس کی شکل کا ایک باریک اور مدھم سا زخم کا نشان ہے۔ جب اس نے پہلے سبق میں یہ نشان دیکھا تو اسے لگاتھا کہ اس جگہ کبھی آنسو بہتے رہے ہوں گے۔
ہلکے سبز چشمے کے عقب سے اس شخص کی آنکھیں عورت کے سختی سے بند منھ پر جمی ہوئی ہیں۔ مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے۔ اس کے چہرے پر تناؤ آ جاتاہے۔ وہ تختہ سیاہ کی جانب مڑتاہے اور تیزی سے قدیم یونانی میں ایک جملہ لکھتاہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اعراب لگائے، چاک ٹوٹتا ہے اور دونوں حصے زمین پر گر جاتے ہیں۔
۰۰۰
گزشتہ برس بہار کے آخر میں وہ عورت خود ایک تختہ سیاہ کے سامنے کھڑی تھی، چاک میں اٹا اس کا ایک ہاتھ تختہ سیاہ پر ٹکا ہوا تھا۔ جب ایک منٹ یا اس سے زیادہ وقت گزر گیا تھا اور وہ اگلاحرف لکھنے میں ناکام رہی تھی تو اس کے طلبا نے کرسیاں بدلنا اور چہ گوئیاں کرنا شروع کر دی تھیں۔ اس کی غضب آلود نگاہیں طلبا، چھت یا کھڑکی کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہی تھیں، سامنے صرف خلاتھا۔
’’کیا آپ ٹھیک ہیں، ٹیچر؟‘‘ پہلی قطار میں بیٹھی گھنگریالے بالوں اور پیاری آنکھوں والی لڑکی نے پوچھا۔ اس عورت نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن الٹا اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ چالیس سے زیادہ طلبا سوالیہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ وہ کیا کر رہی ہے؟ میزوں کے درمیان سوالوں کی سرگوشی ہو رہی تھی ۔
وہ بس اتنا کر پائی کہ چپ چاپ کمرے سے باہر آگئی۔ اپنے آپ پر ستم کر کے اس نے جیسے تیسے یہ کام کیا۔ جس لمحے اس نے راہداری میں قدم رکھا تھا کمرے میں سرگوشیوں کی آواز شور میں بدل گئی تھی، جیسے لاؤڈ سپیکر سے آواز آرہی ہو اور یہ شور پتھر کے فرش پر اس کے جوتے سے پیدا ہونے والی آواز کو کھا گیاتھا۔ اس کے کپکپاتے ہونٹ آپس میں سختی سے چپکے ہوئے تھے ۔ وہ زبان اور حلق کے بجائے اندر کہیں منمنا رہی تھی: یہ پھر لوٹ آیا۔
ایسا پہلی بار اس سرما کے بعد ہوا تھا جب وہ سولہ برس کی ہوگئی تھی۔ زبان نے اسے ایسے گونگا اور قید کر دیا تھا جیسے ہزاروں سوئیوں سے سلاہوا لباس اچانک غائب ہو جائے۔ الفاظ اب بھی اس کے کانوں تک پہنچ رہے تھے لیکن ہوا کی دبیز تہہ اس کے کو کلیا (کان کا اندرونی حصہ) اور دماغ کے بیچ رکاوٹ بن گئی تھی۔ اس دھند زدہ خاموشی کے حصار میں گویائی کے لیے زبان اور ہونٹوں کو استعمال کر نے کی اس کی یادداشت اور مضبوطی سے پنسل پکڑنے کی یادداشت دھندلاتی جا رہی تھی ۔ وہ اب مزید زبان میں نہیں سوچ سکتی تھی۔ وہ زبان کے بغیر حرکت کرتی تھی اور زبان کے بغیر سمجھتی تھی جو اس کا حال بولنا سیکھنے سے پہلے تھا— نہیں بلکہ ویسا جب اسے زندگی بھی عطا نہیں ہوئی تھی۔ چپ نے اس کے جسم کو اندر اور باہر، دونوں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور وہ وقت کے بہاؤ کو ایسے جذب کر رہی تھی جیسے روئی کے گولے پانی کو جذب کرتے ہیں۔
خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کی ماں اسے ماہر نفسیات کے پاس لے گئی تھی جس نے اسے گولیاں دیں تھیں جنھیں اس نے زبان کے نیچے چھپا لیا تھا اور گھر آکر پھولوں کی کیاری میں دبا دیا تھا۔ جب تک اس کی دبائی ہوئی گولیوں کے نیتجے میں ساج کے پھول کی کونپلیں پھوٹیں، اس کی ماں اور ماہر نفسیات کے آپس میں مشورے کے بعد طے پایا کہ اسے واپس سکول بھیج دیا جائے ۔ یہ واضح تھا کہ اسے گھر میں بند کر نے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا اور پھر اسے اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے بھی نہیں رہنا چاہیے تھا۔
اس کے سٹیٹ ہائی سکول میں پہلی بار داخلے سے کئی ماہ پہلے سکول والوں نے ایک خط کے ذریعے آگاہ کر دیا تھا کہ نیا تعلیمی سال مارچ میں شروع ہونے جا رہا ہے۔ یہ ایک بے کیف اور دہشت انگیز مقام تھا۔تمام جماعتوں کو پہلے ہی کافی کچھ پڑھا دیا گیا تھا۔ اپنی عمر سے قطع نظرتمام اساتذہ سامراجی طبیعت کے مالک تھے۔ اس کے ہم جماعتوں کو ایسی لڑکی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جو صبح سے شام تک ایک لفظ بھی نہیں بولتی تھی۔ جب اسے کہا جاتا کہ کتاب سے دیکھ کر پڑھے یا جسمانی مشقوں کے دوران اونچی آواز میں گنتی گننے کو کہا جاتا تو وہ خالی خالی نظروں سے اساتذہ کو تکتی اور ہر بار یا تو اسے واپس کلاس میں بھیج دیا جاتا یا اس کے گالوں پر تھپڑ پڑتے۔
اس کی ماں اور ماہر نفسیات نے آس لگائی تھی کہ سماجی میل جو ل کا محرک اس کی خاموشی میں دراڑیں ڈالے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ الٹا ایک مزید شوخ اور مزید گاڑھے سکوت نے اس کے جسم کے سیاہ مٹی سے بنے مرتبان کو بھر دیا۔ گھر واپسی پر پُرہجوم گلی میں سے گزرتے ہوئے وہ بے وزن پیروں سے ایسے چلتی جیسے کسی بڑے صابن کے بلبلے میں بندہو۔ اس چمک دار بلبلے کے اندر سکوت تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے کوئی پانی کے اندر سے بالائی سطح کی سمت دیکھ رہا ہو۔ کاریں چنگھاڑتی ہوئی گزرتی اور ساتھ سے پیدل گزرتے لوگوں کی کہنیاں اس کے کندھوں اور بازوؤں میں لگتی۔ پھر وہ غائب ہو جاتے۔
جب کافی وقت گزر گیا تو وہ سوچنے لگی۔ کیا ہوتا اگر اس بالکل عام سے فرانسیسی لفظ نے اس کے اندر ہلچل نہ مچائی ہوتی؟ کیا ہوتا اگر اس نے نادانستہ زبان کو یاد نہ رکھا ہوتا، جیسے جسم کے کسی لاغر عضو کے وجود کو یاد رکھتے ہیں؟ فرانسیسی ہی کیوں؟ قدیم چینی یا انگریزی کیوں نہیں؟ شاید اس کے نئے پن کی وجہ سے کیونکہ یہ وہ زبان تھی جسے وہ سیکنڈری سکول میں اختیار مضمون کے طور پر پڑھ سکتی تھی۔ معمول کے مطابق اس کی خالی نگاہیں تختہ سیاہ کی جانب اٹھ گئیں لیکن وہاں کسی چیز پر اٹک کر رہ گئیں۔ پست قد اور سر سے گنجا استاذ لفظ کی ا دائیگی کرتے ہوئے لفظ کی طرف اشارہ کر رہا تھا ۔ وہ کمزور پڑ گئی اور اس کے ہونٹ بچوں کی طرح کپکپانے لگے۔ Bibliothèque (لائبریری)۔ زبان اور حلق کے اندر کہیں بہت گہرائی سے منمناتی ہوئی آواز نکلی۔
اس کے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہ تھا کہ وہ لمحہ کتنا اہم تھا۔
خوف اب بھی مبہم تھا، خاموشی کی گہرائیوں سے درد اپنی شدت ظاہر کرنے سے ہچکچا رہاتھا۔ جہاں لہجے، آوازیں اور غیر مربوط معنی ملے تھے، مسرت اور بغاوت کا آہستگی سے جلنے والا فیوز جل اٹھا تھا۔
یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس عورت نے پہلے ایک بک پبلشر کے لیے اور پھر چھ سال سے زیادہ عرصہ کے لیے ایڈیٹوریل پروڈکشن کمپنی کے لیے کام کیا تھا۔ اس کے بعد ا س نے تقریباً سات سال تک دارالحکومت اور اس کے مضافات میں کچھ یونیورسٹیوں میں اور ایک آرٹس سیکنڈری سکول میں ادب پر لیکچر دیے تھے۔ اس نے سنجیدہ شاعری کے تین مجموعے تخلیق کیے جو تین یا چار وقفوں میں منظر عام پر آئے اور پھر کئی سال تک ہر پندرھواڑے شائع ہونے والے ادبی رسالے کے لیے کالم لکھے۔ حال ہی میں ہر بدھ کی شام بنیادی رکن کی حیثیت سے وہ ایک ایسے ثقافتی میگزین کی مدیروں کی میٹنگ میں شامل ہوتی رہی تھی جس کے نام کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔
اب چونکہ یہ صورتحال پھر سے لوٹ آئی تھی تو اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے سب کچھ تج دے۔
ایسی کوئی علامت نہیں تھی جس کی بنیاد پر کہا جاتا کہ ایسا پھر سے ہو سکتا ہے یا ہونا چاہیے۔ بے شک یہ حقیقت ہے کہ چھ ماہ پہلے اس نے اپنی ماں کو کھو دیا تھا، کافی سال پہلے طلاق کے بعد بیٹے کو اپنے ساتھ رکھنے کا حق کھو دیا تھا اور اس بات کو پانچ ماہ ہونے والے تھے جب سالوں کی طویل قانونی جنگ کے بعد وہ پھر سے سابقہ شوہر کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ درج ذیل وجوہات کی بنیا د پر اسے قانونی جنگ میں شکست فاش ہوئی: کہ اس کا شوہر پہلوٹھی کا بچہ تھا اور اس کے شوہر کا باپ بھی پہلوٹھی کا بچہ تھا، کہ وہ اب جوان نہیں رہا تھا، کہ اس کے شوہر نے مسلسل یہ نقطۂ نظر اپنائے رکھا تھا کہ اس کی بیوی بہت زیادہ جذباتی عورت ہے جو کہ بچے کے لیے ٹھیک نہیں ہے، اور اس کے ثبوت کے لیے اس نے اپنی بیوی کے لڑکپن کے نفسیاتی علاج کا ریکارڈ پیش کیا— کہ شوہر کے مقابلے میں اس کے ذرائع آمدن بہت محدود اور غیر مستقل تھے اور اس کا شوہر حال ہی میں ترقی کے بعد بینک کے ہیڈ آفس میں چلا گیا تھا۔
سر مئی بالوں والا ماہر نفسیات،جس کے پاس وہ بیٹا چھن جانے کے بعد کم خوانی کا شکار ہو کر ہر ہفتے جایا کرتی تھی، یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ اتنی واضح وجوہات سے کیوں منکر ہے ۔ نہیں، اس نے میز پر رکھے سادہ کاغذ پر لکھا تھا ۔ یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے۔
یہ اس کی ماہر نفسیات سے آخری ملاقات تھی۔ لکھ کر کیے جانے والے نفسیاتی علاج معالجے میں بہت زیادہ وقت لگتا تھا اور غلطی کا امکان بھی بے حد ہوتا تھا۔اس نے ماہر نفسیات کی طرف سے لسانی علاج معالجے کے ماہر سے ملنے کی تجویز کو شائستگی سے رد کر دیا تھا۔
۰۰۰
وہ عورت دونوں ہاتھ میز پر رکھ لیتی ہے۔ اس کے جسم میں تناؤ ہے اور وہ یوں جھکی ہوئی ہے جیسے وہ ایک بچی ہو جس کے ناخنوں کا معائنہ ہونے جا رہا ہو۔ وہ اس شخص کی لیکچر ہال میں گونجتی ہوئی آواز سن رہی ہے۔
’’قدیم یونانی زبان میں مفعول اور فاعل آوازوں کے علاوہ ایک تیسری آواز بھی ہے جس کے متعلق میں نے گزشتہ لیکچر میں مختصراً بتایاتھا، یاد ہے؟‘‘
نوجوان، جو اسی قطار میں بیٹھا ہے جس میں وہ عورت بیٹھی ہے ، اثبات میں سر ہلاتا ہے ۔ وہ نوجوان فلسفے کا دوسرے سال کا طالب علم ہے اور اس کے گول گال کہ اس کے چالاک اور شرارتی ہونے تاثر دیتے ہیں۔
وہ عورت کھڑکی طرف دیکھنے لگتی ہے۔ اس کی نظریں اس پوسٹ گریجویٹ طالب علم پر پڑتی ہیں جس نے جیسے تیسے پری میڈیکل کا امتحان تو پاس کر لیا تھا لیکن وہ دوسروں کی زندگیوں کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا، اس لیے اس نے ادویات کی تاریخ کی تعلیم ترک کر دی۔
وہ دراز قد ہے، چہرہ موٹا اور ٹھوڑی لٹکی ہوئی ہے۔ اس نے سینگ کے بنے ہوئے فریم والی کالی عینک پہنی ہوئی ہے اور پہلی نظر میں پر سکون نظر آتا ہے۔ وہ تفریح کے دوران فلسفے کے نوجوان طلبا کے ساتھ وقت گزارتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو بے ہودہ لطیفے سناتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی کلاس شروع ہوتی ہے وہ سنجیدہ ہو جاتاہے۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ وہ تناؤ میں ہوتا ہے اور غلطیاں کرنے سے خوف زدہ رہتا ہے۔
’’یہ آواز، جسے ہم درمیانی آواز ہے جس میں فاعل ضمیر کی طرف راجع ہوسکتاہے۔‘‘ (یہاں اشارہreflexive pronounاور verbکی طرف ہے۔مترجم)
تیسری منزل کی کھڑکی سے باہر منتشر نارنجی روشنی کم بلند اداس عمارتوں پر پڑرہی ہے۔ اندھیرے میں چوڑے پتوں والے جوان درخت کی دبلی اور سیاہ شاخیں پتوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی خاموش نگاہیں باہر ویران منظر، سہمے ہوئے پوسٹ گریجویٹ طالب علم اور یونانی زبان کے استاذ کی ناتواں کلائیوں پر سے گزرتی ہیں۔
پہلے کے برعکس بیس سال بعد لوٹنے والی اس چپ میں نہ تو جدت ہے، نہ گہرائی اور نہ چمک۔ اگر پہلی بار چھانے والی خاموشی قبل از پیدائش چپ جیسی تھی تو یہ بعد از موت کے سکوت جیسی تھی۔ جہاں ماضی میں اس نے یہ محسوس کیا تھا کہ وہ زیر آب جا کر اوپر سطح کی جانب دیکھ رہی تھی، اب وہ محسوس کر رہی ہے کہ وہ ایک سایہ بن گئی ہے جو سر د و سخت دیوار اور ننگی زمین پر چل رہاہے، زندگی ایک پانی کا بڑا ساٹینک ہے اور وہ باہر سے اس کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ وہ ہر لفظ پڑھ اور سن سکتی ہے لیکن منھ سے ایک لفظ بھی نہیں پھوٹ سکتی ۔گویا بدن سے روح چھین لی گئی ہو،جیسے کسی مردہ درخت کا اندرونی حصہ، جیسے دو شہاب ثاقب کے درمیان تاریک خلا، ترش اور دقیق خاموشی۔
بیس سال پہلے وہ اس چیز کی پیش گوئی کرنے میں ناکام رہی تھی کہ ایک اجنبی زبان جس کی مادری زبان کوریائی سے تھوڑی بہت یا بالکل بھی مشابہت نہیں ہوگی اس کی خاموشی توڑ سکتی ہے۔اس نے ایک نجی اکادمی میں قدیم یونانی زبان کا انتخاب کیاکیوں کہ وہ اپنے اندر سے اپنی مرضی کی زبان بازیاب کروانا چاہتی ہے۔ اسے ہومر،افلاطون اور ہیروڈوٹس کے ادب میں، یااس دور کے عوامی زبان میں لکھے ہوئے ادب میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر برمی یا سنسکرت بھی پڑھائی جا رہی ہوتی تو وہ اس کا انتخاب کر لیتی، حالانکہ ان دونوں زبانوں کارسم الخط بالکل ہی اجنبی ہے۔
’’بس یہ کوئی ہے جسے میں اس کے کام سے جانتی ہوں۔‘‘
’’مثال کے طور پر فعل’لینا‘ درمیانی آواز میں تبدیل ہو کر ’میں انتخاب کرتاہوں۔‘ بن جاتا ہے۔ فعل ’دھونا‘ درمیانی آواز میں تبدیل ہو کر ’میں الف کو دھوتا ہوں۔‘ بن جاتا ہے جب کہ الف خو د (اپنی ذات) کاحصہ ہے۔ انگریزی میں کہا جاتاہے اس نے خود کو پھانسی دیدی، ٹھیک ہے؟ قدیم یونانی زبان میں ’خود‘ کہنا نہیں پڑتا۔ درمیانی آواز کو استعمال کرتے ہوئے یہ بات ایک لفظ میں کی جاسکتی ہے۔ اس طرح سے۔‘‘ استاذ سمجھاتا ہے اور پھر تختہ سیاہ پر لکھتا ہے: ἀπήγξατο (خودکشی)۔
تختہ سیاہ پر لکھے لفظوں کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ عورت پنسل اٹھاتی ہے اور یہ لفظ اپنی نوٹ بک میں لکھ لیتی ہے ۔اس نے پہلی بار کسی زبان میں اتنا پیچیدہ اصول دیکھا ہے۔ فعل کئی طرح سے اور صورتحال کے مطابق شکل تبدیل کرلیتا ہے: جیسے فاعل بطور ضمیر متکلم،اور اس کی تعداد، زمانہ جس کے کئی درجے ہیں، کیفیت کی چار اقسام ہیں، آواز جو کہ تین انواع کی ہیں۔ لیکن ان مفصل اور باریک بین اصول کا شکریہ کہ انفرادی جملے سادہ اور آسان ہیں۔ فاعل کو بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں اور نہ جملے میں الفاظ کی ترتیب کی قید۔ کسی ایک لفظ میں تخفیف کریں تو پتا چلتا ہے کہ فاعل بطور ضمیر غائب ہے، زمانہ Aorist(فعل ماضی مکمل) جو کسی فعل کا ماضی میں وقوع پذیر ہونا اور مکمل ہونا ظاہر کرتا ہے، اور درمیانی آواز جو معنی کو خود میں سمولیتی ہے جیسے کہیں کہ فلاں نے خود کو پھانسی دیدی۔
اس وقت جب آٹھ سال پہلے اس کا بچہ پیدا ہوا تھا (اور اب اسے بچے کی دیکھ بھال کے لیے نااہل قرار دیدیا گیا تھا۔) اور اس بچے نے پہلا لفظ بولنا سیکھا تھا، تو اس نے ایک ایسے لفظ کا خواب دیکھا تھا جس کے اندر دنیا کی تمام زبانیں سما جائیں۔ یہ اتنا واضح ڈراؤنا خواب تھا کہ اس کی کمر پسینے میں بھیگ گئی۔ واحد لفظ جس میں بے پناہ گہرائی اور وزن تھا۔ ایک ایسی زبان کہ جسے بولنے کے لیے کوئی جیسے ہی منھ کھولے تو اس کے الفاظ دھماکے کی طرح پھٹ جائیں اور ایسے پھیلنا شروع ہو جائیں جیسے کائنات کے آغاز میں مادہ پھیلنے لگا تھا۔ ہمیشہ جب بھی وہ اپنے تھکے ہوئے اور چڑ چڑے بچے کو سلا کر نیند کی آغوش میں جاتی تو وہ خواب دیکھتی تھی کہ رگوں کے جال میں لپٹے ہوئے اس کے دل کے مرکز میں زبان کا جسیم بلوریں مادہ دھماکہ خیز مواد کے مانند چمچما رہا ہے۔
وہ اس احساس پر دانت پیستی ہے، جو محض ایک سرد مہر یاد ہے، اور لکھتی ہے: ἀπήγξατο (خودکشی)۔
ایک ایسی زبان جو کسی برفیلے ستون کی طرح سرد اور سخت ہے۔ ایک ایسی زبان جسے پہلے بولے جانے والی کسی زبان کے ساتھ جڑت کی ضرورت نہیں، مکمل طور پر ایک خود مختار زبان۔ ایک ایسی زبان جس میں ہونٹ کھلنے سے پہلے ہی مکمل طور پر فعل کے سبب اور انداز کا تعین کر لیا جاتاہے۔
وہ کچھ بولے بغیر پڑھتے اور شور مچاتے طلبا کے درمیان بیٹھتی ہے ۔ اب یونانی زبان کا استاذ اس کی خاموشی پر منھ نہیں بناتا۔ وہ کلاس کی طرف پیٹھ کر کے ہاتھ پھیلا کر نرم کپڑے سے تختہ سیاہ پر لکھے جملے مٹاتا ہے۔
صاف کیے گئے تختہ سیاہ پر ٹیک لگا کر استاذ اعلان کرتا ہے۔ ’’جون میں ہم افلاطون کو پڑھیں گے۔ بلاشبہ ساتھ ساتھ گرامر بھی پڑھتے رہیں گے۔ ‘‘ وہ سیدھے ہاتھ میں چاک پکڑتا ہے اور الٹے ہاتھ سے عینک ناک کے بالائی حصے کی طرف دھکیلتا ہے۔
۰۰۰
حتّٰی کہ جب وہ بول سکتی تھی تو ہمیشہ انتہائی نرمی سے بات کرتی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کے نطقی عصبیوں یا پھیپھڑوں میں مسئلہ تھا۔ اسے بس زیادہ جگہ لینا پسند نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنے اردگرد اپنے وجود کے حجم کے مطابق جگہ گھیرتا ہے لیکن آواز تو دور تک سفر کرتی ہے۔ وہ خود کو دورتک پھیلانا نہیں چاہتی تھی۔ چاہے وہ کسی زیر زمین راستے پر ہوتی یاگلی میں، کسی بار یا ریستوران میں، وہ کبھی بھی اونچی آواز میں پکار کرکسی کو متوجہ نہیں کر تی تھی۔ سوائے لیکچر دیتے ہوئے،کمرے میں سب سے مدھم آواز اس کی ہوتی تھی۔ وہ پہلے ہی بہت دبلی تھی لیکن پھر بھی اپنے کندھے سکیڑتی رہتی تھی تا کہ کم سے کم جگہ گھیرے۔ وہ مزاح سمجھتی تھی اور خوبصورت مسکراہٹ کی مالک تھی لیکن اتنا مدھم ہنستی تھی کہ کوئی مشکل سے ہی سن پاتا تھا۔
حتّٰی کہ جب وہ بول سکتی تھی تو بعض اوقات وہ اپنے مخاطب پر نظریں گاڑ لیتی تھی گویا اُسے یقین ہو کہ جو وہ کہنا چاہ رہی ہے اسے نظروں سے سمجھنا عین ممکن ہے۔
سلام دعا کرنا،شکریہ ادا کرنا اور معذرت کرنا، وہ یہ تمام کام لفظوں کی بجائے نظروں سے کیا کرتی تھی۔ اس کے مطابق نظروں سے زیادہ کچھ بھی بے ساختہ اور فطری نہیں تھا۔ یہ چھوئے بغیر چھونے کا طریقہ تھا۔
نظر کے مقابلے میں الفاظ کسی کو چھونے کا ایک غیر محدود طبعی ذریعہ ہیں۔ بولتے ہوئے پھیپھڑے،حلق او رزبان حرکت کرتے ہیں۔ پردہ سماعت سے ٹکرانے سے پہلے آواز ہوا میں ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ زبان خشک ہوتی ہے، لعاب کے چھینٹے نکلتے ہیں اور ہونٹ کھلتے ہیں۔ جب اسے پتا چلا کہ بولنے کے عمل کے دوران یہ سارے عوامل ناقابل برداشت ہیں تو لکھنے پر دھیان نہیں دے پاتی تھی، حد یہ کہ تنہائی میں بھی نہیں۔ جیسا کہ اسے نا پسند تھا کہ اس کی آواز ہوا میں ارتعاش پیدا کرتی ہے، اسے یہ بات بھی ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ اس کے جملے خاموشی میں خلل پیدا کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو کاغذ پر قلم رکھنے سے پہلے ہی وہ اپنے حلق میں صفرے کا ذائقہ محسوس کر تی۔
ایسا وقت بھی آتا تھا جب وہ ہونٹ کھول کر الفاظ ادا کرنے سے پہلے اپنے تازہ تازہ لکھے ہوئے الفاظ کی شکلوں کا بغور معائنہ کرتی۔ وہ بے ترتیب انداز میں پھیلے لاشوں جیسے الفاظ اور اپنی اٹکی ہوئی آواز پر دم بخود رہ جاتی۔ وہ پڑھتے پڑھتے رک جاتی اور لعاب نگلتی کیونکہ اس کا حلق خشک ہو جاتاتھا۔ بالکل اسی طرح جیسے جسم کے کسی حصے پر کٹ لگ جانے پر خون کو روکنے کے لیے دباتی تھی یا جراثیم کو جسم میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے دبا کرتھوڑا خون باہر نکالتی تھی۔
سرمئی بالوں والے ماہر نفسیات نے اس کے بچپن کو کھنگال کر وجوہات ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے صرف آدھے رستے تک ماہر نفسیات کا ساتھ دیا۔ وہ یہ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ دس سال کی عمر میں بھی وہ قوت گویائی سے محروم ہو گئی تھی، اس لیے اس نے اس سے پہلے کے واقعات دھرائے تھے۔
اس کی ماں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کی وجہ دوران حمل ٹائیفائیڈ بخار تھا۔ طبیعت کی خرابی کے دوران وہ ایک ماہ تک ہر کھانے کے بعد دوائی لیتی رہی تھی۔ بیٹی کے برعکس ماں وہمی اور جلد باز تھی۔ جیسے ہی اس کی طبیعت ٹھیک ہوئی وہ ماہر امراض نسواں کے پاس گئی اور کہا کہ وہ بچے سے جان چھڑانا چاہتی ہے ۔ اس کا ماننا تھا کہ جتنی دوائیاں وہ کھا چکی ہے بچہ صحت مند نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اب اسقاط حمل خطرناک ہو گا کیونکہ آنول نال بن چکی ہے، اس لیے وہ دو ماہ بعد آئے۔ اسے ٹیکہ لگایا جائے گا جس سے بچہ مردہ ہو گا۔ لیکن دو ماہ بعد اس نے ہسپتال جانے کا ارادہ ترک کر دہ کیونکہ اس کا ارادہ کمزور پڑ چکا تھا۔ بچے کی پیدائش تک وہ پریشانی سے گھر ی رہی۔ جب تک کہ اس نے متعدد بار خون میں لتھڑے بچے کے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں نہ گن لیں اسے چین نہ آیا۔
جب وہ بڑی ہو رہی تھی توخالہ، کزن اور حتّٰی کہ تانکا جھانکی کرنے والی پڑوسنوں نے بھی اسے یہ چٹکلہ سنایا۔تم دنیا میں نہ آتے آتے رہ گئیں۔ یہ جملہ بارہا منتر کی طرح دہرایا گیا تھا۔
تب وہ اتنی بڑی نہیں تھی کہ اپنے جذبات کو پڑھ سکے لیکن وہ اس جملے میں چھپی خطرناک بے حسی کو محسوس کر سکتی تھی۔ وہ جیسے پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہ دنیا میں اتفاقیہ طور پر آئی تھی۔یہ عین ممکن تھا کہ ان گنت عوامل کا گہری تاریکی میں ملاپ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک خاص وقت میں ایک ایسا بلبلہ وجود میں آیا جو کسی اور لمحے میں وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ ایک شام اپنی ماں کی چنچل اورمنہ پھٹ دوستوں کو ناگواری سے الوداع کرنے کے بعد وہ گھر کے سامنے چبوترے پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر صحن میں دفن ہو تے دن کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے ماہر نفسیات کو بتایا کہ جب وہ اٹکتی ہوئی سانسوں اور سکڑے ہوئے کندھوں کے ساتھ وہاں بیٹھی تھی تو اس نے محسوس کیا کہ پھیلتا ہوا اندھیرا لطیف،پھسپھسی اور ایک پرت والی اتنی بڑی دنیا کو نگل رہا ہے۔
یہ تمام باتیں معالج کو دلچسپ لگیں۔ ’’اس وقت تم کم عمری کی وجہ سے زندگی کو نہیں سمجھ سکتی تھیں اور نہ ہی تمھارے پاس الگ رہنے کے لیے وسائل تھے۔ اس لیے جب بھی تم اپنی پیدائش کے بارے میں یہ باتیں سنتی تو تمھیں خطرہ محسو س ہوتا تھا، جیسے کہ تمھارا وجود ختم ہونے کو ہے۔ لیکن اب تم بڑی ہو چکی ہو اور ایسی باتوں کا سامنا کر سکتی ہو۔ تمھیں اب مزید ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ تمھیں دب کر رہنے کی ضرورت نہیں۔ تمھیں کھل کر بولنا چاہیے۔ اپنے کندھوں کو سکیڑنا بند کرو اور جتنی چاہے جگہ گھیرو۔‘‘
لیکن وہ جانتی تھی کہ اگر وہ اس منطق پر عمل کرے گی تو اس کی پوری زندگی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی طویل جدوجہد بن جائے گی جو مسلسل اس کی زندگی کے حساس توازن کو بگاڑنے کے درپے ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا وہ زندہ رہنے کا حق رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جو ماہر نفسیات کے معقول اور خوبصورت نتیجے سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ وہ زیادہ جگہ گھیرنے کی خواہش نہیں رکھتی لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ ڈر کے زیر سایہ رہتی ہے یا اپنی ذات کھل کر اظہار نہیں کرتی۔
ماہر نفسیات کے ساتھ اس کی ملاقاتیں ٹھیک جا رہی تھیں اس لیے جب پانچ ماہ اس کی آواز گرج دار ہونے کی بجائے بند ہی ہو گئی تو وہ حیران تھا۔ ’’میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘اس نے کہا۔ ’’میں سمجھ سکتاہوں کہ تم نے کتنا کچھ برداشت کیا ہے۔ حال ہی میں ماں کے کھونے کے صدمے کے ساتھ بچے کی تحویل کا کیس ہارجانا بہت تکلیف دہ ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں تم نے اپنے بچے کو نا قابل برداشت حد تک یاد کیا ہوگا۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔ تمھیں احساس ہوا ہو گا کہ تم اکیلی اس سب کا مقابلہ نہیں کر پاؤ گی۔ ‘‘
ہمدردی سے لبریز اس کی آواز نے اسے حیران کر دیا۔ ماہر نفسیات کا یہ دعویٰ کہ وہ سمجھ سکتا ہے اس کے لیے نا قابل برداشت تھا۔ یہ ناممکن تھا اور اسے اس بات کا پورا یقین تھا۔
ایک پر سکون سکوت نے انھیں گھیر لیا۔ اس نے اپنے سامنے رکھا کاغذ اور قلم اٹھایا اور صفائی سے لکھا۔ نہیں،یہ اتناسادہ نہیں ہے۔
۰۰۰
παθεῖν
μαθεῖν
’’ان دو لفظوں کا مطلب ’تکلیف سہنا‘ اور ’سیکھنا‘ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قدیم یونانی حروف تہجی میں دونوں کے لکھنے کا طریقہ ملتا جلتا ہے۔ یہاں سقراط یہ بتانا چاہ رہا کہ کیسے یہ دونوں عوامل ملتے جلتے ہیں۔ ‘‘
وہ مسدس شکل کی پنسل کو تراشتی ہے جس پر وہ بے خیالی میں کہنی ٹکائے ہوئے تھی۔ وہ اپنی کہنی سہلانے کے بعد تختہ سیاہ پر لکھے دونوں الفاظ اپنی ڈائری میں لکھتی ہے۔ وہ پہلے یونانی حروف تہجی میں لکھتی ہے اور اس کے بعد اپنی زبان میں ان کے معنی لکھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ناکام رہتی ہے۔ وہ بایاں ہاتھ اٹھا کر کم خوابی کی شکار آنکھوں کو مَلنے لگتی ہے۔ وہ لیکچرر کے زرد چہرے کی طرف دیکھتی ہے ۔ اسے تختہ سیاہ پر لکھے اپنی مادری زبان کے الفاظ خون کے چھینٹوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں، سفید چھینٹے۔
وہ میز پر اپنے سامنے رکھی کتاب پر سر جھکا لیتی ہے۔ یہ افلاطون کی ’’جمہوریہ ‘‘کے ابتدائی حصوں پر مشتمل اصل یونانی اور کوریائی ترجمے کے ساتھ ضخیم کتاب ہے۔ اس کی کنپٹیوں سے بہتا ہوا پسینہ یونانی حصے پر گرتا ہے۔ گردان (دوبارہ بنایا گیا) کیا گیا گھٹیا کاغذ پھول جاتاہے۔
’’تاہم ان دونوں الفاظکا ایک ساتھ استعمال صرف لفظوں کا کھیل نہیں ہے۔ کیونکہ سقراط واقعتاً یہ سمجھتاتھا کہ کچھ سیکھنا تکلیف سہنے کے مترادف ہے۔ حتّٰی کہ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ سقراط کے کہنے کا یہ مطلب نہیں لیکن نوجوان افلاطون کے مطابق یہی مطلب بنتا ہے۔ ‘‘
جمعرات کے دن جب یونانی زبان کی کلاس ہوتی ہے تو وہ وقت سے پہلے اپنا بیگ تیار کر لیتی ہے۔ وہ اکادمی سے کافی پہلے بس سے اتر جاتی ہے اور شام کے وقت پکی سڑک سے نکلنے والی حدت کو برداشت کرتی ہے،عمارت کے سایہ دار حصے میں داخل ہونے کے باوجو د بھی اس کا جسم کچھ دیر تک پسینے میں ڈوبا رہتا ہے۔
ایک مرتبہ وہ دوسری منزل پر پہنچی ہی تھی کہ اس نے دیکھا کہ معلم اس کے آگے آگے چل رہا ہے۔ وہ فوراً ٹھہر گئی۔ کسی بھی قسم کی آواز پیدا ہونے کے ڈر سے اس نے سانس روک لیا۔ استاذ پہلے ہی کسی کی موجودگی محسوس کر چکا تھا۔ اس نے مڑ کر دیکھا اور مسکرایا۔ یہ ایسی مسکراہٹ تھی جس میں شناسائی،گھبراہٹ اور دست برداری شامل تھی، اور یہ بات واضح کر رہی تھی کہ وہ اس سے سلام دعا کرنا چاہتا تھا لیکن پھر اس نے ارادہ تر ک کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد جب بھی سیڑھیوں پر یا راہداری میں ان کا آمنا سامنا ہوتا وہ مسکرانے کی بجائے صرف آنکھوں سے ہیلو بول دیتا۔
جب وہ سر اٹھاتی ہے تو اسے ایسے لگتا ہے جیسے کم روشنی والے کمرے میں کافی روشنی ہو گئی ہے۔ وہ پریشان ہو جاتی ہے۔ وہ تختہ سیاہ کی طرف دیکھتی ہے جو خالی ہے کیونکہ وقفہ ہو گیا ہے ۔ معلم نے نرم کپڑے سے تختہ سیاہ سرسری صاف کیا ہے کیونکہ اب بھی یونانی الفاظ کے ہلکے ہلکے نقوش نظر آرہے ہیں۔ حتّٰی کہ وہ ایک تہائی جملہ پڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ استعمال شدہ چاک سے بنا ہوا ٹیڑھا میڑھا دائرہ بنا ہوا نظر آرہا ہے جیسے کسی نے جان بوجھ کر بنایا ہو۔
وہ دوبارہ کتاب پر جھک جاتی ہے۔ وہ گہرے سانس لیتی ہے اور سانس لینے کی آواز دور سے آتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ جب سے وہ گویائی سے محروم ہوئی ہے اسے ایسا لگتاہے کہ سانس اندر لے جانا اور باہر نکالنا بولنے کے جیسا ہے۔ سانس بھی ہوا میں ایسے ہی ارتعاش پیدا کرتی ہے جیسے آواز۔ اپنی ماں کی آخری لمحات میں بھی اسے ایسے ہی خیالات آرہے تھے۔ جب کوما کی حالت میں اس کی ماں سانس باہر نکالتی تھی تو خاموشی میں خلل پیدا ہوتا تھا اور جب وہ سانس اندر کھینچتی تھی تو لرزتی ہوئی خاموشی ایسے چلاتی تھی جیسے اس کی ماں اسے نگل رہی ہو۔
وہ پنسل اٹھاتی ہے اور ان جملوں کو دیکھتی ہے جنھیں وہ ابھی پڑھ رہی تھی۔ وہ ان تمام الفاظ میں پنسل سے سوراخ کر سکتی تھی۔ اگر وہ پنسل کے سکے کو زور سے دبا کر گھماتی تو وہ پورے لفظ میں، نہیں، بلکہ پورے جملے کو چیر سکتی تھی۔ وہ کھردرے سرمئی کاغذ پر چھپے چھوٹے کالے حروف کا جائزہ لیتی ہے۔ لفظوں پر لگے اعراب ایسے لگتے ہیں جیسے کیڑے اپنی کمر موڑے اور پھیلائے ہوئے ہوں۔ سائے میں ایک جگہ، غیر واضح اور ناقابل سفر۔ ایک جملہ جس میں افلاطون، جواب جوان نہیں ہے، کھڑا سوچ رہا ہے اور فیصلہ نہیں لے پارہا ۔ایک اجنبی آواز جس کا مخرج منھ اس کے ہاتھ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔
وہ پنسل پر اپنی گرفت مضبو ط کرتی ہے۔ وہ احتیاط سے سانس باہر نکالتی ہے۔ جملے میں چھپا ہوا جذبہ ایسے ظاہر ہوتا ہے جیسے چاک کے نشان یا خون کے خشک قطروں کی قطار۔ وہ یہ سب برداشت کرتی ہے۔
اس کا جسم اس کی طویل خاموشی کا عینی شاید ہے۔ یہ خاموشی اپنے وزن سے زیادہ بھاری دکھائی دیتی ہے۔ اس کے قدم، ہاتھ اور پاؤں کی حرکات، لمبے چہرے کے نقوش اور ڈھلکے ہوئے کندھے،یہ سب ایک حد کا تعین کرتے ہیں۔ ان حدود کے اندر نہ تو کچھ جا سکتا ہے اور نہ کچھ باہر آسکتا ہے۔
اس نے کبھی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی جانچ پڑتال نہیں کی تھی اور اب تو یہ خیال بھی اسے بے تکا لگتا تھا۔ زندگی کے سفر میں ہم سب سے زیادہ جس چہرے کا تصورکرتے ہیں وہ ہمارا اپنا ہی چہرہ ہوتا ہے۔ لیکن ایک بار جب اس نے اپنے چہرے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا تو اسے اپنا چہرہ نقلی لگنے لگا تھا۔ جب بھی کسی کھڑکی یا شیشے میں اس کی اپنے چہرے پر نظر پڑتی تو وہ اپنی آنکھوں کا بغور معائنہ کرتی۔ یہ دو چمک دار پپوٹے ہی وہ واحد راستہ ہیں جو اس کے اور کسی اجنبی کے چہرے کے درمیان فرق بتاتے ہیں۔کبھی کبھار وہ اپنے آپ کو انسان کی بجائے مادے کی ایک متحرک شے سمجھتی ہے، ٹھوس یا مائع۔ جب وہ گرم چاول کھاتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ وہ یہی چاول بن گئی ہے اور جب وہ ٹھنڈے پانی سے منہ دھوتی ہے تو وہ اپنے آپ میں اور ٹھنڈے پانی میں فرق نہیں کر پاتی۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ نہ تو چاول ہے نہ پانی بلکہ ایک سخت مادہ ہے جو کسی بھی جاندار یا بے جان سے ملاپ نہیں کرے گا۔ وہ چیز جس کے بدلے وہ اس سرد خاموشی کو سہتی ہے، جس میں اس کی ساری طاقت صرف ہوتی ہے،وہ ہے اس بچے کا چہرہ جس کے ساتھ ہر دو ہفتوں بعد وہ ایک رات گزارتی ہے اور مردہ یونانی زبان کے الفاظ جنھیں وہ پنسل سے کاغذ پر کھرچتی ہے۔
γῇ κεῖται γυνή ۔
زمین پر ایک عورت پڑی ہے۔
وہ پنسل کو میز پر رکھتی ہے جو پسینے کی وجہ سے چپک رہی ہے۔ ہتھیلی سے کنپٹیوں پر سے موتی کی طرح چمکتے ہوئے پسینے کوصاف کرتی ہے ۔
۰۰۰
’’ماں ،انھوں نے کہا ہے کہ میں ستمبر کے بعد یہاں نہیں آ سکتا۔ ‘‘
گزشتہ ہفتے کی رات یہ الفاظ سننے کے بعد وہ اپنے بیٹے کے چہرے کو تشویش ناک نگاہوں سے تکنے لگی تھی۔ دو ہفتوں میں وہ مزید بڑا ہو گیا تھا۔ اس کا قد بڑھ گیا تھا لیکن وہ پہلے سے دبلا نظر آرہاتھا۔ اس کی پلکیں ہلکی اور لمبی تھیں۔ اس کے نرم سفید گالوں کی ہڈیاں ایسے نمایاں ہو رہی تھیں جیسے کسی تصویر میں پنسل سے تراشی گئی ہوں۔
’’میں نہیں جانا چاہتا۔ میری انگریزی بھی اتنی اچھی نہیں ہے۔ وہاں ڈیڈی کی بہن بھی رہتی ہے جس سے میں کبھی نہیں ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے وہاں پورا سال گزارنا ہے۔ میں نے ابھی ابھی تو دوست بنائے ہیں اور اب مجھے پھر سے نئی جگہ جانا ہو گا؟‘‘
وہ ابھی نہائی تھی اور بچے کو بستر میں لٹایا تھا۔ بچے کے بالوں میں سے سیب کی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ اس کی گول آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ سکتی تھی۔ وہ اس کی آنکھوں میں اپنے عکس کی آنکھوں میں اس کا چہرہ دیکھ سکتی تھی اور پھر اس عکس کی آنکھوں میں اپنا عکس۔ یہ عکسوں کا لامحدود سلسلہ تھا۔
’’ماں، کیا آپ ڈیڈی سے بات نہیں کر سکتیں؟ اگر یہ ممکن نہیں تو خط دیں؟ کیا میں دوبارہ یہاں آکر نہیں رہ سکتا؟‘‘
بچے نے غصے میں آکر دیوار کی طرف منھ موڑلیا اور اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا رخ واپس اپنی طرف کیا۔
’’ایسا نہیں ہو سکتا؟ میں واپس نہیں آسکتا ؟ کیوں نہیں ؟‘‘
وہ دوبارہ دیوار کی جانب مڑ گیا ۔ ’’پلیز بلب بند کر دیں۔ میں اتنی تیز روشنی میں کیسے سو سکتا ہوں؟‘‘
وہ اٹھی اور بلب بند کر دیے۔
پہلی منزل کی کھڑکیوں میں سے گلی میں لگے برقی قمقموں کی روشنی آ رہی تھی۔ اس طرح وہ تاریکی میں بھی اپنے بچے کا پورا جسم دیکھ سکتی تھی۔ اس کے ماتھے پر گہرے بل تھے۔ وہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سہلانے لگی۔ بچے نے پھر سے بھنویں سکیڑ لیں۔ اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کر رکھی تھیں اور اس کے سانسوں کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔
جون کی رات کے آخری پہر کی تاریکی میں پانی لگے گھاس اور درختوں کے گوند کی بو ضائع کیے گئے کھانے کی بو میں گھل گئی تھی۔ بیٹے کو چھوڑنے کے بعد وہ سیول کے مرکز سے بس لینے کی بجائے دو گھنٹے پیدل چلتی رہی۔ کچھ سڑکوں پر سائیلنسر سے نکلنے والے دھویں کی گھٹن اور تیز موسیقی کے علاوہ اتنی تیز روشنی تھی جیسے دن کا وقت ہو جبکہ کچھ گلیاں تاریک اور ویران پڑی تھیں اور وہاں آوارہ بلیاں کچرے سے شاپروں کو چیرتے پھاڑتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھیں۔
اسے تھکاوٹ نہیں ہوئی تھی۔ اس کی ٹانگوں میں دردنہیں تھا۔ وہ داخلی دروازے کے سامنے کھڑی اسے گھو ر رہی تھی۔ دروازے پر لفٹ کے سامنے لگے بلب کی روشنی پڑ رہی تھی۔ اسے اس دروازے سے داخل ہوناتھا اور پھر چلتے ہوئے اپنے بستر تک پہنچ کر اس میں سونا تھا۔وہ مڑی اور عمارت سے باہر نکل گئی۔باہر گرمیوں کی رات کی بو میں، ان سڑتی چیزوں کی بو تھی جو کبھی تازہ تھیں۔ وہ تیز تیز چلنے لگی۔ یہاں تک کہ لگ رہا تھا کہ وہ دوڑ رہی تھی۔ وہ فون بوتھ میں داخل ہوئی اور ٹراؤزر کی جیب سے سارے سکے نکالے۔
اسے ایک آواز سنائی دی۔ ’’ہیلو؟‘‘
اس نے منھ کھولا۔ جبراً سانس باہر نکالا۔ اس نے سانس اندر کھینچا اور پھر خارج کیا۔
آواز دوبارہ سنائی دی۔ ’’ہیلو؟‘‘۔ رسیور کو جکڑتے ہوئے اس کا ہاتھ کپکپا رہا تھا۔
تم اسے لے جانے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟ اتنا دور؟ اتنے لمبے عرصے کے لیے؟حرامزادے ۔ سنگ دل حرامی۔
اس کے جبڑے کانپ اور دانت بج رہے تھے۔ یہاں تک کہ اس نے رسیور واپس رکھ دیا۔ وہ اپنے گالوں پر ایسے ہاتھ پھیر رہی تھی جیسے کہ اپنے آپ کو تھپڑ مار رہی ہو۔ وہ اپنے ہونٹ، جبڑوں او رمنھ کو ایسے رگڑ رہی تھی جیسے ان پر کچھ لگا ہوا ہو۔
قوت گویائی سے محروم ہونے کے بعد اس رات پہلی بار اس نے خود کو ٹھیک طرح سے آئینے میں دیکھا۔ اس نے سوچا کہ وہ ضرور غلط طریقے سے دیکھ رہی ہے گوکہ اس نے اس خیال کو لفظوں میں نہ بدلا۔ یقینی طور پر اس کی آنکھیں اتنی پر سکون نہیں ہو سکتی تھیں۔ شاید اسے آنکھوں میں خون، پیٹ یا مٹی کے ذرات دیکھ کر اتنی حیرت نہ ہوتی۔
ایک طویل عرصے سے اس کے اندر جس نفرت کا ابال پیدا ہو رہا تھا وہ بڑھتا چلا گیا، اور بڑھتا ہوا غصہ مزید پھنکارنے لگا، ایک پھوڑا جو کبھی نہیں پھوٹا۔ زخم نہ بھرے۔
کچھ بھی ختم نہ ہوا۔
۰۰۰
’’یہ دنیا عارضی اور خوبصورت ہے،ہے نا؟ ‘‘ لیکچرر کہتا ہے ۔ ’’لیکن افلاطون ایک ایسی دنیا چاہتاتھا جو مستقل اور خوبصورت ہو۔‘‘ وہ اپنے ہلکے سبز چشمے کے پیچھے سے پر سکون نگاہوں سے اس کی چمکدار آنکھوں میں دیکھتا ہے ۔ چونکہ آج طلبا کا دھیان کہیں اور ہے اس لیے وہ دس منٹ سے گرامر کے بجائے متن کا معنی سمجھا رہا ہے۔ کبھی کبھار یہ اسباق بھٹک کر یونانی زبان اور فلسفے کی طرف چلے جاتے ہیں۔
’’وہ لوگ جو خوبصورت چیزوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن خوبصورتی پر یقین نہیں رکھتے، افلاطون کی نظر میں وہ تنویمی حالت میں ہیں اور وہ سمجھتا تھا کہ ایسے لوگوں کو منطق کے ذریعے سمجھایا جا سکتا ہے ۔ا س کی دنیا میں ہر چیز ایسے ہی الٹی تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ سمجھتا تھا کہ وہ حالت نیند میں نہیں بلکہ جاگ رہا ہے۔ وہ حقیقت میں موجود خوبصورت چیزوں پر یقین رکھنے کی بجائے ایسی مثالی خوبصورتی پر یقین رکھتا تھا جو حقیقت میں وجو د نہیں رکھتی تھی۔‘‘
وہ ہمیشہ کی طرح اپنی میز پر بے حس و حرکت بیٹھی ہے۔ ایک ہی آسن میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے اس کی کمر، گرد ن اور کندھوں میں تناؤ ہے۔ وہ ڈائری کھولتی ہے اور ان جملوں کا معائنہ کرنے لگتی ہے جو اس نے وقفے سے پہلے لکھے تھے۔ وہ جملوں کے درمیان خالی جگہ میں الفاظ لکھتی ہے۔ اسم اور فعل سے جڑے گرامر کے پیچیدہ اصولوں سے تگ و دو کے باوجود وہ نا مکمل جملے بناتی ہے اور اپنی زبان اور ہونٹ ہلنے کا انتظار کرتی ہے۔ وہ پہلی آوازکے نکلنے کے انتظار میں ہے۔
γῇ κεῖται γυνή۔
زمین پر ایک عورت پڑی ہے۔
χιὼν ἐπὶ δειρῄ۔
گلے میں برف ہے۔
ῥύπος ἐπὶ βλεφάροις۔
آنکھوں میں زمین ہے۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ فلسفے کا طالب علم، جو اسی کی قطار میں بیٹھا ہے، پوچھتا ہے۔ وہ ڈائری کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں اس نے قدیم یونانی میں نا مکمل جملے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ جملے مثال دینے کے لیے لکھوائے گئے تھے اور ’’زمین پر ایک عورت پڑی ہے۔‘‘سے شروع ہو رہے تھے۔وہ نہ گھبرائی اور نہ ہی جلدی سے ڈائری بند کی۔ وہ اپنی پوری قوت جمع کرتی ہے اور نوجوان کی آنکھوں میں ایسے جھانکتی ہے جیسے برف کی گہرائیوں میں دیکھ رہی ہے۔
’’ایسا لگتا ہے کہ آخر میں ہار مان لینے کا مطلب ہے کہ بلاوجہ اتنی پریشانی اٹھائی۔‘‘
’’کیا یہ شاعری ہے ؟ یونانی زبان میں شاعری؟‘‘ کھڑکی کے ساتھ بیٹھامتجسس طالب علم اس کی طرف منھ کر کے استفسار کرتا ہے۔ عین اسی لمحے لیکچرر کلاس میں واپس آجاتا ہے۔
’’ ٹیچر!‘‘ فلسفے کا طالب علم مکارانہ ہنسی ہنستا ہے۔ ’’دیکھیں ۔انھوں نے یونانی میں شاعری لکھی ہے۔‘‘
ستون کے پیچھے بیٹھا ادھیڑ عمر شخص اس کی طرف مڑ کر تحسین بھری نگاہوں دیکھتا ہے اور پھر قہقہہ مار کر ہنس پڑتاہے۔ قہقہے کی آواز سن کر وہ گھبرا کر ڈائری بند کر دیتی ہے۔ معلم کو اپنی کرسی کی طرف آتا دیکھ کر وہ اسے خالی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔
’’واقعی؟ اگر تم برا نہ مانو تو میں دیکھ لوں؟‘‘
وہ اس کے الفاظ پر دھیان دینے کے لیے زور لگاتی ہے جیسے کہ وہ کسی بدیسی زبان کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔ وہ اس کی عینک کی طرف دیکھتی ہے جس کے شیشے اتنے موٹے ہیں کہ اسے چکر آنے لگتے ہیں۔ وہ ایک دم تمام صورت حال سمجھ جاتی ہے اور اپنی ضخیم کتاب، ڈائری،لغت اور پنسل کا ڈبہ بیگ میں ڈال لیتی ہے۔
’’نہیں، براہِ مہربانی بیٹھی رہیں۔ بھلے مجھے ڈائری نہ دکھائیں۔‘‘
وہ اٹھتی ہے، بیگ کندھے پر ڈالتی ہے، خالی کرسیوں کی قطاروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھ جاتی ہے۔
ایمرجنسی دروازے کے، جو سیڑھیوں کی سمت کھلتا ہے، سامنے کوئی پیچھے سے اس کا ہاتھ پکڑتاہے۔ وہ گھبراہٹ کے عالم میں مڑتی ہے۔ ایسا پہلی بار ہے کہ وہ لیکچرر کو اتنے پاس سے دیکھ رہی ہے۔ اس کی توقع کہ برعکس لیکچرر پست قامت ہے کیونکہ اب وہ کلاس روم کے چبوترے پر نہیں کھڑا ،اور وہ یکدم بڑی عمر کا لگ رہاہے۔
’’میں تمھیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘‘ گہری سانس بھرتے ہوئے وہ مزید قریب آتاہے۔ ’’کیا تم…… کیا تم مجھے سن سکتی ہو؟ ‘‘ وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتا ہے۔ وہ وضاحت کرنے کے لیے کئی مرتبہ ہاتھ کے اشارے دوہراتا ہے اور گھبرا کر الفاظ ادا کرتا ہے۔ ’’معاف کیجئے گا ۔میں معافی مانگنے آیا ہوں۔‘‘
وہ خاموشی سے اس کے چہرے کی طرف دیکھتی ہے۔ وہ ایک اور سانس لیتا ہے اور ثابت قدمی اور بہادری سے بات جاری رکھتا ہے۔ ’’لازمی نہیں کہ ہم بات کریں ۔تمھیں جواب دینے کی بالکل ضرورت نہیں۔ میں واقعی شرمندہ ہوں اور یہاں معافی مانگنے آیاہوں۔‘‘
۰۰۰
اس کے بیٹے کی عمر چھے سال تھی۔
ایک مرتبہ اتوار کی صبح فرصت کے لمحات میں معمول کی بات چیت کے بعد اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کے اس بنیاد پر نئے نام رکھنا چاہئیں کہ ایک دوسرے کی نظر میں ہم فطری طور پر کس چیز سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اس کے بیٹے کو یہ خیال پسند آیا اور اس نے خود کو چمکدار جنگل کا نام دیا اورپھر اپنی ماں کا نام بھی رکھا۔وہ اتنے وثوق سے بولا جیسے وہ نام اس کی ماں کے لیے ہی تھا۔
’’تیزبرستی برف کا دکھ۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہ آپ کا نام ہے، ماں۔ ‘‘
اسے سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے۔وہ بیٹے کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ وہ اس کے ساتھ لپٹ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اسے لگ رہا تھا کہ اگر وہ آنکھیں کھولے گی تو اسے تیز برستی برف دکھائی دے گی۔ اس لیے اس نے اور سختی سے آنکھیں بند کر لیں۔آنکھ بند کرنے سے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ نہ ہی بڑ ے مسدسی شکل کے بلور اور نہ ہی پروں کی طرح اڑتے برف کے گالے۔ نہ ہی گہرا جامنی سمندر اور نہ ہی پہاڑی برفانی تودہ۔
جب تک رات ختم نہیں ہو جاتی اس کے لیے نہ تو الفاظ ہیں اور نہ ہی رنگ۔ ہر چیز پربرف کی موتی تہہ چڑھی ہے۔ برف جو وقت جیسی ہے، وقت جس میں جمنے سے دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور وہ وقت اس کے تنے ہوئے جسم پر جم جاتا ہے۔ اس کے ساتھ لیٹا بچہ اب وہاں نہیں ہے۔ بستر کے ٹھنڈے کنار ے پر بے حس و حرکت لیٹے وہ ایک خواب دیکھتی ہے جس میں وہ اپنے بیٹے کے گرم پپوٹوں کو مسلسل چوم رہی ہے۔
۰۰۰
یک رویہ یک طرفہ گلی موٹروے کی حفاظتی باڑ تک جاتی ہے۔ وہ اس کے فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ ا س شاہراہ پر بہت کم لوگ آتے ہیں اس لیے کونسل نے اسے نظر انداز کر رکھا ہے۔ فٹ پاتھ کی سلوں کی دراڑوں میں سے جگہ جگہ گھاس کے جھنڈ نکلے ہوئے ہیں۔ گھروں کے گرد حفاظت کے لیے لگائے گئے ببول کے درختوں کی شاخیں آپس میں جڑ کر قوس بنائے ہوئے ہیں۔گہرے طور پر مرطوب شبینہ ہوا میں گھاس کی مہک کے ساتھ مل کر خارج ہونے والے دھویں کی بوشامل ہو گئی ہے۔ پاس سے گزرتی گاڑیوں کی انجن کی آواز اس کے کان کے پردوں پر ایسے پڑ رہی ہے جیسے برف پر نوکیلے سکیٹ پڑتے ہیں۔ گھاس میں دھنسے اس کے پیر پر ایک ٹڈا آہستگی سے چلا رہا ہے۔
یہ عجیب ہے۔
اسے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ پہلے بھی ایسی کوئی رات گزار چکی ہے۔
اسے لگتا ہے جیسے وہ پہلے بھی شرم اور پریشانی کا لبادہ اوڑھے اس سڑک سے گزر چکی ہے۔
تب وہ بول سکتی ہو گی اس لیے جذبات واضح اور طاقتور ہوں گے۔
لیکن اب وہ لفظوں سے خالی ہے۔
اس کے بدن سے نکالے گئے لفظ اور جملے بھوتوں کی طرح اس کا پیچھا کرتے ہیں او ر اس کے کان اور آنکھوں کے عین قریب منڈلاتے رہتے ہیں۔
اس مسافت کا شکریہ کہ صرف طاقتور جذبات ہی اس سے جڑے رہتے ہیں باقی ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے ناکارہ ٹیپ اتر جاتی ہے۔
وہ صرف دیکھتی ہے ۔ وہ زبان میں جو کچھ دیکھتی ہے اسے ترجمے کا لبادہ نہیں پہناتی ۔
اس کی آنکھوں میں چیزوں کی تصاویر بنتی ہیں، حرکت کرتی اور جھلملاتی ہیں اور پھر لفظوں میں ڈھلے بغیر ہی اُس کے چلتے قدموں کے ساتھ وقت کے ہاتھوں مٹتی چلی جاتی ہیں۔
کافی عرصہ پہلے ،ایسے ہی موسم گرما کی ایک رات گلی میں چلتے چلتے اس نے یکایک بے ساختہ بلاوجہ ہنسنا شروع کر دیا تھا۔
اُس نے تیرھویں کا کبڑا چاند دیکھ لیا تھا اور ہنسنے لگی تھی۔
وہ یہ سوچتے ہوئے ہنسنے لگی تھی کہ وہ غمگین چہرے سے مشابہ تھا اور اُس میں پڑھےگڑھے مایوسی چھپاتی ہوئی آنکھوں سے مشابہت رکھتے تھے۔
جیسے اس کے جسم کے اندر الفاظ فلک شگاف قہقہے میں بدل گئے ہوں اور پھر یہ قہقہہ اس کے چہرے پر پھیل گیا تھا۔
اب کی طرح اس رات بھی موسم گرما کے ساتھ آنے والی حدت ہچکچاتے ہوئے اندھیرے میں گم ہو گئی تھی۔
عرصہ پہلے اس رات، گو کہ بہت زیادہ عرصہ پہلے نہیں، اس کا بچہ اس کے آگے آگے چل رہا تھا اور وہ اپنے بازووں میں ایک بڑے تربوز کو جھلاتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے تھی۔
اس کی آواز شفقت بھری اور مدھم تھی تا کہ یہ کم سے کم جگہ گھیر سکے۔
اس کے ہونٹ بتا رہے تھے کہ اس کے دانت جکڑے ہوئے نہیں ۔
اس کی آنکھوں میں بالکل بھی خون اترا ہوا نہیں تھا۔
:::
Authors
-
ادب کے نوبیل انعام ۲۰۲۴ء کا اعلان کرتے ہوئے منصفین نے ہن کانگ کو نوبیل انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کِیا: ’’اُن کی پُرزور شاعرانہ نثر کے لیے جو تاریخی صدمات کا مقابلہ کرتی ہے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی کو عیاں کرتی ہے۔‘‘ وہ نوبیل انعام پانے والی پہلی کوریائی شاعرہ/ مصنفہ ہیں جب کہ کل نوبیل جیتنے والے کل ۱۱۹ شعرا و ادبا میں سترھویں خاتون ہیں — اُن سے قبل ۱۶ خواتین یہ اعزاز حاصل کر چکی ہیں — اور ایشیا سے نوبیل انعام کے فاتحین میں اُن کا نمبر نواں ہے۔ ہن کانگ ۲۷ نومبر، ۱۹۷۰ء کو جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں پیدا ہوئیں مگر نو سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سیول منتقل ہو گئی تھیں۔ اُن کا اپنا ایک ادبی پس منظر ہے۔ اُن کے والد ایک نامور ناول نویس تھے۔ اپنے لکھنے پڑھنے کے کام کے ساتھ ساتھ، اُنھوں نے اپنے آپ کو فنونِ لطیفہ اور موسیقی کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے، جس کی عکاسی اُن کے تمام ادبی کاموں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ہن کانگ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۹۳ء میں ’’ادب اور معاشرہ‘‘ نامی کوریائی میگزین میں متعدد نظموں کی اشاعت سے کیا۔ اُن کی نثر کی شروعات ۱۹۹۵ء میں افسانوی مجموعے ’’یوہسُو کی محبت‘‘ سے ہوئی (یوہسُو ، جنوبی کوریا کا ایک ساحلی شہر)۔ جس کے فوراً بعد اُن کے بہت سے نثری کام، ناول اور افسانوں کے مجموعے منصۂ شہود پر آئے۔ جن میں سے قابل ذکر ناول ’’تمھارے یخ ہاتھ‘‘ ۲۰۰۲ء ہے۔ اِس میں فنونِ لطیفہ میں ہن کانگ کی دلچسپی کے واضح آثار موجود ہیں۔ یہ ناول ایک لاپتہ مجسمہ ساز کے، جو خواتین کے بدنوں کےمجسمے پلاسٹر آف پیرس سے بنانے کا جنونی ہے، اپنے پیچھے چھوڑے گئے ایک مخطوطہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اِس میں انسانی علم الاعضا اور شخصیت و تجربے کےمابین کھیل کا استغراق ہے، جہاں مجسمہ ساز کے کام میں ایک تنازع جنم لیتا ہے کہ جسم کیا ظاہر کرتا اور کیا چھپاتا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے آخر میں ایک جملہ واضح اصرار کرتا ہے: ’’زندگی ایک پاتال پر تنی ہوئی چادر ہے، اور ہم اِس پر نقاب پوش بازی گروں کے مانندرہتے ہیں۔‘‘ ہن کانگ کو نمایاں بین الاقوامی شہرت ۲۰۰۷ء میں اشاعت پذیر ہونے والے اُن کے ناول ’’سبزی خور‘‘ سے ملی جس کا ۲۰۱۵ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ ’’دی ویجیٹیرین‘‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ تین حصوں پر مشتمل اِس ناول میں اُن متشدد عواقب کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اُس وقت رونما ہوتے ہیں جب ناول کی مرکزی کردار ییونگ ہائے کھانا کھانے کی مروجہ اقدار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ اس کے گوشت نہ کھانے کے فیصلے پر مختلف، یکسر مختلف رد ِّعمل سامنے آتے ہیں۔ اُس کے رویے کو اُس کا شوہر اور جابر باپ دونوں سختی سے مسترد کر دیتے ہیں، اور اُس کے بصری فنکار (ویڈیو آرٹسٹ) بہنوئی کے ہاتھوں اُس کا شہوانی و جمالیاتی استحصال ہوتا ہے جو اُس کے غیر فعال جسم کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بالآخر، اُسے ایک نفسیاتی علاج گاہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے، جہاں اُس کی بہن اُسے بچانے اور اُسے ’’معمول کی زندگی‘‘ میں واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم ییونگ ہائے ایک گہری نفسیاتی کیفیت میں مزید ڈوب چکی ہوتی ہے جس کا اظہار ’’بھڑکتے ہوئے درختوں‘‘ (درختوں کی ایک قسم، جس کے پتے گہرے سرخ اور بڑے ہوتے ہیں جس سے یوں لگتا ہے جیسے اُس میں آگ بھڑکی ہوئی ہو۔ یہ درختوں کی سلطنت کے بادشاہی کی علامت بھی ہے اور یہ جتنا دلکش دکھائی دیتا ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہوتا ہے۔) کی علامت کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ایک اور پلاٹ پر مبنی کتاب ’’ہَوا چلتی ہے، جاؤ‘‘ہے، جو ۲۰۱۰ء میں منظرِ عام پر آئی اور دوستی اور فن کے بارے میں ایک ضخیم اور پیچیدہ ناول ہے، جس میں دُکھ اور تبدیلی کی آرزو اپنی بھرپور شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہن کانگ کی کہانیوں میں زندگی کی شدتوں کو سہتے جسموں سے ہمدردی کی تصویر کشی کےلیے اُنھیں اپنے بے حد قوی استعاراتی انداز سے تقویت ملتی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ’’یونانی اسباق‘‘- ۲۰۲۳ء، دو غیر محفوظ افراد کے درمیان غیر معمولی تعلق کی ایک دلکش تصویر کشی ہے۔ ایک نوجوان عورت، جو کئی تکلیف دہ تجربات کے بعد اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے،ازمنۂ قدیم کے یونان میں اپنی استاذ سے رابطہ کرتی ہے، جو خود اپنی بینائی کھو رہی ہے۔ اُن کی اِن اپنی خامیوں سے، ایک سوختہ و خستہ محبت پروان چڑھتی ہے۔یہ ناول خسارے، قربت اور زبان کے حتمی حال و قال کے چوگرد ایک خوبصورت مراقبہ ہے۔ کوریائی زبان میں ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والے ناول ’’انسانی افعال‘‘، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۶ء میں ’’ہیومن ایکٹس‘‘کے عنوان سے ہوا، میں اِس مرتبہ ہن کانگ نے اپنی سیاسی بنیاد کو برتتے ہوئے ایک تاریخی واقعہ پیش کِیا جو گوانگجو شہر میں پیش آیا تھا، جہاں وہ خود پلی بڑھی اور جہاں سینکڑوں طلبہ اور غیر مسلح شہریوں کا ۱۹۸۰ء میں جنوبی کوریا کی فوج نے قتلِ عام کِیا تھا۔ تاریخ کے متأثرین کی آواز بننے کی کاوش میں، وہ اپنے اِس ناول میں اِس واقعہ کو سفاکانہ حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کرتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، ادبی گواہی کی صنف تک پہنچتی ہیں۔ ہن کانگ کا انداز، جتنا بصیرت آمیز ہے اُتنا ہی جامع و مختصر بھی۔ اس کے باوجود ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا جس کی خاص مصلحت یہ ہے کہ مُردوں کی روحوں کو اُن کے بدنوں سے جدا ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی فنا کا خود مشاہدہ کر سکیں۔ کچھ خاص مقامات پر، ناقابلِ شناخت لاشوں کے نظر آنے پر جنھیں کفن دفن نصیب نہیں ہوا ہوتا، متن سوفوکلس کے اینٹی گون کے مرکزی خیال سے رجوع کرتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ہن کانگ کا اگلا پڑاؤ تھا: ’’سفید کتاب‘‘۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں اگلے ہی برس ۲۰۱۷ء میں ’’سفید کتاب‘‘ کے عنوان سے ہو گیا۔اِس ناول میں ایک بار پھر ہن کانگ کا شاعرانہ اندازحاوی نظر آیا۔ یہ کتاب اُس شخص کے نام انتساب کی گئی ہے جو اپنی بڑی بہن کا خود بیانیہ ہو سکتا تھا، لیکن وہ تو پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی چل بسی تھی۔ مختصر وضاحتوں کی ترتیب میں، جو تمام تر سفید اشیاء کے بارے میں ہیں جنھیں ایک لڑی میں پرویا گیا ہے کہ سفید رنگ غم و حزن کا رنگ ہے۔ یہی چیز اِسے ایک ناول کم اور ایک قسم کی ’’سیکولر دعائیہ کتاب‘‘ کا درجہ دیتی ہے، جیسا کہ یہی بیان بھی کیا گیا ہے۔ اگر راوی کی، یہ توجیہ راوی ہی پیش کرتا ہے، خیالی بہن کو زندہ رہنے دیا جاتا تو وہ خود بھی اپنے آپ کو وجود میں نہ آنے دیتی۔ مرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ، جس پر کتاب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے: ’’اُس سفید کے اندر، اُن تمام سفید چیزوں میں، مَیں اپنی آخری سانس اُس سانس میں لوں گا جو تم نے خارج کی تھی۔‘‘ ہن کانگ کی ایک اور خاص تخلیق اُن کا ۲۰۲۱ء میں منصۂ شہود پر آنے والا تازہ ترین ناول ’’ ہم جدا نہیں ہوتے ‘‘ الم و حزن کی تصویر کشی کے حوالے سے گہرے طور پر ’’ سفید کتاب ‘‘سے جڑی ہوئی ہے۔اِس کی کہانی ۱۹۴۰ء کی دہائی کے اواخر میں جنوبی کوریا کے جزیرے جیجو پر ہونے والے ایک قتل عام کو سامنے لاتی ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کو، جن میں بچّے اور بوڑھے بھی شامل تھے، محض ساتھی ہونے کے شبہ میں گولی مار دی گئی۔ اِس ناول میں راوی اور اُس کے دوست اِنسیون کی مشترکہ سوگ منانے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ دونوں اِس سانحے کے کافی عرصے بعد تک اپنےعزیز و اقارب کی بربادی کے صدمے کو برداشت کرتے ہیں۔ تخیل کے ساتھ، جو کہانی کے عین اُتنا ہی مطابق ہے جتنا کہ کثیف، ہن کانگ نہ صرف ماضی کی طاقت کو حال پر منتج کرتی ہیں بلکہ اتنی ہی قوت کے ساتھ وہ دوستوں کی اُن بے لوث کوششوں کو منظر عام پر لانے کے لیےکھوج بھی لگاتی ہیں جو اجتماعی غفلت کا شکار ہوئیں۔ اِس طرح یہ اُن دونوں دوستوں کا ایک مشترکہ آرٹ پروجیکٹ میں صدمہ بن جاتا ہے، جو کتاب کو اِس کا عنوان فراہم کرتا ہے۔ دوستی کی گہری ترین شکل کی صورت میں یہ ناول جتنا وراثتی المیے کو بیان کرتا ہے اُتنا ہی ڈراونے خوابوں کو بھی اور ادبی گواہی کی حق گوئی کے رجحان کے درمیان بڑی اصلیت کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ ہن کانگ کے تمام کام کی خصوصیت الم و حزن کی ایسی دوہری تصویر کشی عبارت ہے جو مشرقی سوچ سے قریبی تعلق کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی اذیت کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ۲۰۱۳ء کے ناول ’’رُوبہ صحت‘‘ میں ٹانگ کا السر شامل ہے جو ٹھیک ہونے سے انکار کرتا ہے، اور مرکزی کردار اور اس کی مردہ بہن کے مابین ایک تکلیف دہ رشتہ۔ کوئی حقیقی صحت یابی کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتی، اور درد ایک بنیادی وجودی تجربے کے طور پر ابھرتا ہے جسے کسی گزرتے ہوئے عذاب میں کسی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔ ’’سبزی خور‘‘ جیسے ناول میں بھی کوئی سادہ سی وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔ جب کہ اِس ناول میں منحرف عمل اچانک اور دھماکہ خیز طور پر صاف انکار کی صورت میں ہوتا ہے، جس میں مرکزی کردار خاموش رہتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کی مختصر کہانی، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۹ء میں ’’یوروپا‘‘کے عنوان سے ہوتا ہے، ایک ایسے مرد راوی کو سامنے لاتی ہے جو اپنے آپ کو عورت کے بھیس میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایک چیستاں عورت کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے جو ایک ناممکن شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ بیانیہ خود تو چپ رہتا ہے لیکن جب اُس کی محبوبہ دریافت کرتی ہے: ’’اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوتے تو آپ اپنی زندگی کا کیا کرتے؟‘‘ لیکن یہاں تکمیل یا کفارہ کی کوئی گنجائش نہیں ملتی۔ ہن کانگ اپنی تخلیقات میں، تاریخی سانحات اور پوشیدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ مبارزت اور اپنی ہر لکھت میں انسانی زندگی کی بے ثباتی کو کھول کر بیان کرتی ہیں۔ وہ جسم اور روح، زندہ اور مردہ کے درمیان رشتے کے بارے میں ایک منفرد آگہی رکھتی ہیں، اوراُنھوں نے اپنے آپ کو اپنے شاعرانہ اور تجرباتی انداز میں عصری نثر میں ایک اختراعی کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔
View all posts -
محمد ریحان، جو ریحان اسلام کو اپنے قلمی نام کے طور پر استعمال کرتے ہیں، کا تعلق ملتان، پاکستان سے ہے۔ انگریزی ادب میں ایم فل کرنے کے بعد، ریحان نے چین میں دو سال تک چینی زبان، ثقافت اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔ واپسی کے بعد اُنھوں نے کچھ عرصہ چینی ترجمان کے طور پر کام کیا۔ اس وقت وہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج، دنیا پور، پنجاب میں انگریزی کے لیکچرار ہیں ۔ اُنھوں نے چینی نوبل انعام یافتہ مو یان کی کہانیوں کے تراجم کا بعنوان ترجمہ ’’مو یان کی کہانیاں ‘‘اور جاپانی ناول نگار ہاروکی موراکامی کے ناول ’’ ساؤتھ آف دی بارڈر، ویسٹ آف دی سن‘‘ کا اردو میں ترجمہ ’’سرحد سے پار، سورج سے پرے‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ ریحان اسلام نے مختلف انگریزی افسانوں کے بھی اردو میں تراجم کیے ہیں جو موقر اردو ادبی جرائد کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔ وہ اردو سے انگریزی میں بھی افسانوں کے تراجم کرتے ہیں جو مختلف قومی و بین الاقوامی جرائد میں اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں۔
View all posts
تراجم عالمی ادب
2 thoughts on “درمیانی آواز”
That was so beautiful and well versed. I liked the flow of the words and expressions throughout the chapter. I wish I could read the full novel.
I am thankful to this platform!