تراجم عالمی ادب

ہن کانگ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

عمران ازفر کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

کوریائی ناول کا باب

سبزی خور

ہن کانگ

(Han Kang)

ترجمہ:عمران ازفر

پہلا موسم

جب تک کہ وہ سبزی خور نہیں ہوئی میں اپنی بیوی کو ہمیشہ اور ہر حوالے سے ایک نہایت عام عورت خیال کیا کرتا تھا۔ سچ بتاؤں تو پہلی ملاقات میں وہ مجھے کچھ خاص محسوس نہیں ہوئی تھی درمیانہ قد، تراشیدہ زلفیں (نہ ایسی لمبی کہ شبِ فراق کا گمان ہو اور نہ ہی بالکل چھوٹی کہ جیسے بے بی کٹ) یرقان زدہ بیمار جلد جو اُس کے گالوں کی ہڈیوں کو نمایاں کر رہی تھی۔ اُس کا حلیہ وہ سب بیان کر رہا تھا جسے جاننے کی مجھے تمنا تھی۔ ایک کیفے میں، وہ اُس میز پر آ کر براجمان ہوئی جہاں میں اُس کا پہلے سے منتظر تھا۔ میں نے اُس کا استقبال نہیں کِیا لیکن اُس کے عام سے سیاہ جوتے بغور دیکھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اُس کی چال نہ زیادہ سبک تھی اور نہ ہی سست، وہ نہ بڑے بڑے ڈگ بھرتی تھی اور نہ ہی اپنی چال میں نفاست کا مصنوعی پن شامل کرتی تھی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اگر اُس کی شخصیت میں کشش اور دل چسپی کا کوئی خاص عُنصر موجود ہوتا تو ہماری شادی کا امکان ختم ہو سکتا تھا۔ میں نے اِس عورت کی ڈھیلی ڈھالی شخصیت میں ایسا کوئی پہلو نہیں دیکھا جس میں خاص تازگی، دلکشی اور کشش ہو، ایسی کشش جو بطور مرد مجھے زمین پر دے مارتی، جبکہ وہ مجھ سے کسی ماڈل ایسی ظاہری حالت کا تقاضا کرتی تھی جیسے کہ فیشن میگزین کے سرِ ورق پر بنے سنورے ہوئے نمایاں مرد ہوتے ہیں۔ اِس ضمن میں، مجھے خاص کر میری شخصیت کے ظاہری پہلو بدلنے کے لیے اُس نے ابتدائی دو ملاقاتوں میں کچھ کوشش بھی کی۔ مجھے شادی کا یہ کڑوا گھونٹ بیس برس کی عمر میں پینا پڑا، جب میری پتلی ٹانگوں اور کہنی سے بازو تک کے مہین سے جسم کے حصے نے کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

 میں ہمیشہ سے اپنے عضو تناسل کو لے کر احساس کمتری کا شکار رہتا۔ میں نے خود کو یہ یقین دلایا کہ مجھے ان باتوں پر فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

میں زندگی میں ہمیشہ درمیانی راہ کا قائل رہا ہوں۔ سکول میں اپنے سے دو تین سال چھوٹے بچوں پر حکمرانی کرتا تاکہ میں اُن کے سرغنہ کا کردار ادا کروں بجائے اِس کے کہ ہم عمر لوگوں کی مجلس میں رہتا۔ اِس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کسی ایسے کالج میں داخلہ لوں گا جہاں سے مجھے وظیفہ بھی ملے اور جو میری روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔ میں نے ایک نوکری کے لیے درخواست دی جہاں مجھے مستعدی سے کام کرنے کے بدلے معقول ماہانہ تنخواہ ملنی تھی اور مجھے توقع تھی کہ وہ میری غیر معمولی صلاحیتوں کا اعتراف کریں گے۔ یہ ایک فطری بات تھی کہ میں دولت مند عورت سے شادی کر کے اپنی زندگی کا رخ بدلنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو ذہین تصور کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ گھریلو نظام میں اپنا اجارہ قائم کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ اپنی انہی توقعات کے مطابق آگے بڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ایسی دولت مند عورتیں عام بیوی ثابت ہوتی ہیں جو ناگوار اور فضول موضوعات پر بنا سوچے سمجھے بولتی رہتی ہیں۔

میری بیوی ہر صبح چھے بجے جاگتی، یخنی اور چاول تیار کرتی اور اِن کے ساتھ تھوڑی سی مچھلی بھی۔ سنِ شعور کو پہنچتے ہی وہ عجیب سا کام کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرتی تھی۔ کئی برسوں سے چلی آ رہی ملازمت جس میں وہ کمپوٹر گرافِکس کے ماہر کے طور پر اسسٹنٹ انسٹرکٹر کی ذمہ داریاں نبھاتی، جسے وہ اب چھوڑ چکی تھی۔ اُس نے ایک طناز ناشر کے مکالمہ نما نشانات ایسے الفاظ پر کام کرنے کے لیے ذیلی معاہدہ کِیا، یہ کام وہ گھر سے کر سکتی تھی۔ درحقیقت وہ چند الفاظ کی عورت تھی۔    

وہ شاذ و نادر ہی کسی چیز کا مطالبہ یا کوئی فرمائش کرتی اور میں شام میں گھر پہنچنے میں کتنی ہی دیر کرتا وہ کبھی اِس حوالے سے بدمزگی کا ماحول نہ بناتی اور نہ ہی کبھی ہنگامہ آرائی کرتی۔یہاں تک کہ ہماری مشترکہ تعطیلات کے دنوں میں بھی وہ مل کر سیر سپاٹے کے پروگرام مرتب نہ کرتی تھی۔ جب میں دوپہر کو ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لے کر بیکار چینل پر چینل گھما رہا ہوتا تو وہ خود کو کمرے میں محصور کر لیتی۔ میرا غالب گمان تھا کہ وہ یہ وقت کتاب خوانی میں صرف کرتی ہے جو کہ اُس کا پسندیدہ مشغلہ تھا کیونکہ وہ ناقابل یقین حد تک خود کو کتابوں کی دنیا میں غرق رکھتی تھی۔ ایسی پھیکی بے رنگ کتابیں جو آپ کی اتنی توجہ بھی نہ حاصل کر سکتی تھیں کہ آپ کبھی سر ورق سے اندر نگاہ ڈال کر دیکھیں۔

صرف کھانے کے وقت وہ دروازہ کھولتی اور خاموشی سے کھانے کی تیاری میں مگن ہو جاتی۔ اِس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ اِس مزاج کی بیوی اور اِس طرح کے طرز زندگی کا مطلب یہ ہے کہ میں ان دونوں میں سے کسی ایک کی بھی حوصلہ افزائی کا خیال نہیں رکھتا تھا۔

دوسری طرف اگر میری بیوی ان بیویوں میں سے ایک ہوتی جن کے فون دوستوں یا ساتھی کارکنوں کے رابطوں کے ساتھ دن بھر جلتے بجھتے رہتے ہیں یا ان بیویوں میں سے جن کے رویوں کی وجہ سے شوہر آخرکار چیخنے چلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ایک تماشا لگتا ہے تو میں اپنی بیوی کا شکر گزار ہوں کہ وہ آخر کار خود پر جبر کرتی ہے اور وہ ان بیویوں میں سے نہیں ہے۔

واحد خوبی جس کی وجہ سے میری بیوی پر کشش اور بلا کی غیر معمولی لگتی وہ یہ کہ وہ کبھی بھی انگیا (Bra) پہننا پسند نہیں کرتی تھی۔ جب کہ میں ابھی جوانی کی عمر کو پہنچا تھا، میں اور میری زوجہ میل ملاقات کرتے اور ڈیٹ پر جاتے تو میں محض اس لیے اُس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر سہلاتا کہ اُس کا ردِّعمل دیکھ سکوں اور یہ بھی کہ اُس نے انگیا پہنی ہوئی ہے یا نہیں۔ ایسے وقت میں، میں اُس کی انگیا کا نمایاں بیلٹ، جو عورت کی کمر کو گھیرتا ہے محسوس نہیں کر سکتا تھا اور جب مجھے اِس کی وجہ معلوم ہوئی تو میں چونک گیا۔ جب وہ مجھے کچھ بتانے کے لیے فیصلہ کرنے میں سرگرداں تھی تو میں نے ایک یا دو منٹ اُس کا تجسس آمیز نگاہوں سے مطالعہ کِیا۔ میری اِس دیکھ ریکھ کا حاصل یہ تھا کہ وہ انگیا نہ پہننے کا یہ کام کسی خاص قسم کا اشارہ دینے کے لیے نہیں کرتی تھی بلکہ یہ یا تو محض سستی تھی یا اپنی ذات پر توجہ کی کمی۔ میں شدید مضطرب تھا کیونکہ ایسا نہیں تھا کہ اُس کی چھاتیاں ایسی سڈول ہوں جو انگیا کے بغیر بھی نمایاں اور پرکشش دکھائی دیں۔ میں اُسے تہہ دار، پیڈ لگی ہوئی موٹی انگیا تجویز کرتا کہ میں اُس کے روبرو کچھ خاص کشش محسوس کر سکوں۔     

یہاں تک کہ گرمیوں میں جب میں نے اسے ایک مرتبہ انگیا پہننے پر آمادہ کیا تو تھوڑی ہی دیر بعد اس نے کمر کی طرف سے اپنے پستانوں کے گرد لپٹی انگیا کا ہک کھول دیا جو اس کے پتلے مہین کُرتے میں سے صاف دکھائی دے رہا تھا لیکن اِس نمایاں تمثال کا اُس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں نے کوشش کی کہ وہ ان گرمیوں کے حبس زدہ دنوں میں انگیا کی بجائے پستانوں کے گرد خاص زیر جامہ (vast) استعمال کرے کہ اس طرح اس کی چھاتیاں کچھ خوش نما دکھائی دیں گی مگر وہ اِس کے استعمال سے گریزاں تھی کہ اُس کے مطابق یہ پستانوں کو بری طرح جکڑ کر نچوڑ لیتے ہیں۔ چونکہ میں نے کبھی زیر جامہ یا انگیا بطور لباس استعمال نہیں کِیا تھا تو میں اِس احساس سے نابلد تھا کہ انگیا پہننے کا بعد کیسا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اِس سب کے باوجود غور کریں تو میں یہ حقیقت جانتا تھا کہ یہاں بہت سی دوسری خواتین تھیں جو اِسے ناپسند کرتی تھیں، جن کے پاس کوئی خاص جواز انگیا کی مخالفت میں نہیں تھا۔ میں اُس کی اِس بلا کی حساسیت کے بارے میں شک میں مبتلا ہونے لگا۔

دوسرے تمام حوالوں سے، ہماری شادی شدہ زندگی کا معاملہ درست انداز پر رواں دواں تھا۔ ہم پانچویں سال گرہ منانے کے قریب تھے لیکن ہمارے درمیان کوئی الفت کا تعلق قائم نہیں ہو سکا تھا جو شادی شدہ زندگی کو خوشگوار اور لطیف بنائے اِس سے پہلے کہ یہ ایک مسلسل امتحان کی صورت اختیار کرتا یا کچہری میں بحث و مباحثہ کا موضوع بنتا۔  

صرف ایک شے تھی کہ ہم نے بچے کی حصول کی کوشش ترک کر دی تھی جب تک کہ ہم اپنے لیے محفوظ اور مستقل پناہ گاہ یعنی گھر حاصل نہیں کر لیتے تو اس وقت تک بچہ موضوع نہیں ہوگا۔

ہمارے درمیان کوئی جسمانی تعلق آخری بار گزشتہ خزاں میں واقع ہوا تھا۔ جب کبھی میں کسی بچے کی کلکاریاں اور اُس کی ڈا ڈا کی آوازیں سنتا تو میرے لیے اپنا بچہ حاصل کرنے کی خواہش پھر سے زندہ ہو جاتی۔ یہاں تک کہ گزرے فروری کے ایک دن، جب میں اپنی بیوی کے پاس آیا، تب وہ کچن میں شام ڈھلے رات کے لباس میں ملبوس کھڑی تھی۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری زندگی باہمی تعامل کی اس ناقابل فراموش تبدیلی کے دور سے گزرے گی۔

______

’’تم یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو؟‘‘

میں غسل خانے کی بتی گُل کرنے کی والا تھا، جب مجھے یہ دھچکا لگا۔ یہ صبح کے چار بجے تھے اور میں شدید پیاس کی وجہ سے جاگا، جو رات کے کھانے میں سوجو (ایک خاص قسم کی شراب) مشروب کی نصف بوتل نوش جاں کرنے کا حاصل تھا، جس کا یہ بھی معنی تھا کہ مجھے ہوش بحال کرنے میں معمول کی نسبت زیادہ وقت درکار ہے۔

’’ہیلو؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’تم کیا کر رہی ہو؟‘‘

یہ مشروب ہمیشہ کی طرح ٹھنڈا یخ تھا، لیکن میری بیوی کا دیدار اِس سے کہیں زیادہ مدہوش کُن اور ہوش اڑا دینے والا تھا۔ الکوحل کی وجہ سے دیر پا غنودگی تیزی سے ختم ہوگئی۔ وہ فریج کے سامنے بے حس و حرکت کھڑی تھی۔ اُس کا چہرہ اندھیرے کی اوٹ میں تھا جس کی وجہ سے میں اُس کے جذبات نہیں دیکھ سکا لیکن جذبات کی فراوانی نے مجھے خدشات سے بھر دیا تھا۔ اُس کے قدرتی سیاہ گھنے بال بکھرے ہوئے تھے، پریشان چہرہ اور وہ اپنے معمول کے سفید رات کے لباس میں تھی جو ٹخنوں تک تھا۔

ایسی کسی رات، میری بیوی عجلت خیزی کے سبب سے کارڈیگن پر جوتے تلاش کرتے ہوئے پھسل گئی۔ نہیں معلوم کتنی دیر وہ جاتی گرمی میں وہاں ننگے پاؤں کھڑی رہی جیسے وہ میری صاف اور براہ راست پوچھ گچھ سے لاتعلق ہو۔ اُس کا چہرہ میری طرف سے ہٹ گیا اور وہ وہاں ایسے غیر فطری طریقے پر ایستادہ تھی جیسے کوئی بھوت اپنے میدان میں خاموشی سے کھڑا ہو۔

کیا ہو رہا ہے؟ اگر وہ مجھے دیکھ نہیں سکتی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ نیند میں چل رہی تھی۔

میں اس کی طرف بڑھا، گردن اُٹھا کر اُس کے چہرے کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔

’’تم یہاں پر ایسے کیوں کھڑی ہو؟ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

جب میں نے اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھا تو میں اُس کی طرف سے لاتعلقی اور سرد مہری پر بری طرح چونک اٹھا۔ مجھے یقین تھا کہ میری ذہنی حالت درست ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا مجھے دکھائی دے رہا ہے۔ مجھے ہر شے کا پورا شعور تھا جو میرا کمرہ چھوڑ کر باہر آنے تک، واقعہ ہوئی، اُس کی طرف بڑھتے ہوئے، تم کیا کر رہی ہو؟ یہ سوال کرتے ہوئے۔ وہ وہاں کھڑی تھی بِنا کسی ردِّعمل یا حرکت کے، اپنے ہی کسی جہان میں گمشدہ۔ یہ اُن چند غیر معمولی مواقع میں سے تھا جب ٹی وی ڈرامے میں مگن وہ میرے دیر سے گھر پہنچنے سے غافل رہتی۔ مگر صبح کے چار بجے، کچن کے سیاہ فرش پر رکھی فریج کے سفید دروازے کے سامنے رکنے میں اسے ایسی کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟

ہائے!!

اُس کا چہرہ اندھیرے سے میری جانب مڑا، میں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا، چمک دار مگر بخار سے عاری اور اُس کے لب دھیرے دھیرے جدا ہوتے ہوئے۔

’’میں نے خواب دیکھا ہے۔‘‘

اُس کی آواز حیران کن حد تک واضح اور صاف تھی۔

’’خواب؟ تم کیا فضول بول رہی ہو؟ کیا تمھیں معلوم ہے کہ کون سا وقت ہے؟‘‘

وہ مڑی اور اب اس کا جسم میرے روبرو تھا تب وہ آہستگی سے چلتی ہوئی رہائشی کمرے میں چلی گئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس نے اپنے پاؤں کو آگے بڑھایا اور خاموشی سے دروازہ بند کر دیا۔ مجھے اندھیری رسوئی میں تنہائی محسوس ہو رہی تھی۔  بے بس دکھائی دیتے ہوئے، جیسے اُس کا وجود آہستگی کے ساتھ پیچھے ہٹتا ہوا، کمرے کے اندر رہ گیا تھا۔   

میں نے غسل خانے کی بتی جلائی اور اندر داخل ہو گیا۔ کئی روز سے جاری سردی کا سلسلہ، اب مستقل طور پر ۱۴ فارن ہائٹ کے اردگرد تھا۔ میں نے چند گھنٹے پہلے غسل کِیا تھا یہی وجہ ہے کہ میرے نہانے کے ربڑی جوتے ابھی تک گیلے اور یخ بستہ تھے۔ اُس بے حس موسم میں تنہائی کا احساس مزید گہرا ہونے لگا۔ سیاہ سوراخ سے جو یخ بستگی داخل ہو رہی تھی، وہ تازہ ہوا کمرے میں لانے کے لیے متحرک پنکھے سے تھی۔ ہوا لانے والا یہ پنکھا کے غسل خانے کے اوپر تھا نصب تھا، سفید ٹائلوں میں جذب ہوتا جنہوں نے فرش اور دیواروں کو ڈھک رکھا تھا۔

جب میں رہائشی کمرے میں واپس آیا۔ میری بیوی لیٹی ہوئی تھی، اُس نے اپنی ٹانگیں چھاتیوں تک سکیڑ رکھی تھیں، کمرے میں گہرا سکوت تھا جیسے میں وہاں اکیلا ہوں۔ واقعتاً یہ میری محبوبہ تھی۔ اگر میں کچھ سننے کے لیے سانس روکے، سیدھا کھڑا رہتا تو میں اُس کی طرف سے آنے والے نیند میں جاری سانس کے ہلکورے سن سکتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ کسی سوئے ہوئے فرد کی گہری سانس محسوس نہیں ہوتی تھی۔ کیا میں اُس تک پہنچ سکتا ہوں کہ اُس کی گرم پتلی جلد کو ہاتھ سے چھو سکوں۔ لیکن بعض وجوہات کی بِنا پر میں اُسے چھونے سے قاصر تھا۔ یہاں تک کہ میں الفاظ کے ذریعے بھی اُس تک رسائی نہیں چاہتا تھا۔

______

اگلی صبح آنکھیں کھولنے کے فوراً بعد، چند ساعتوں کے لیے جب حقیقت اپنی معمول کی ٹھوس شکل میں سامنے آتی ہے، میں اپنے گرد کمبل لپیٹے ہوئے پڑا تھا اور سرما کی دھوپ کا اندازہ لگا رہا تھا جو کچھ وقت میں میرے کمرے میں آویزاں سفید پردوں سے اندر داخل ہونے والی تھی۔ اِس دوران وقت دیکھنے کے لیے میں نے گھڑیال پر نگاہ کی اور فوراً بستر پر سے کودا۔ دروازے کو ٹھوکر سے وا کِیا اور جلد بازی میں کمرے سے باہر آیا۔ میری بیوی فریج کے سامنے کھڑی تھی۔

’’کیا تم پاگل ہو؟ تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا؟ کیا وقت ہو رہا ہے— ؟‘‘

کسی شے نے میرے پیر کو کچل دیا اور میں بولتے بولتے رک گیا، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔  

وہ اکڑوں بیٹھی تھی،شب بسری کے لباس میں ملبوس، اُس کے بکھرے ہوئے، لچھے دار بال بے ترتیبی سے اُس کے چہرے پر پھیلے ہوئے تھے۔ اُس کے اطراف، رسوئی کا فرش مختلف ربڑی تھیلوں سے اٹا ہوا تھا اور ہوا بند مومی تھیلے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ وہاں کوئی ایسا چپہ تک نہ تھا جہاں میں پیر جما سکوں، سوائے اُن پر پاؤں رکھ کر کچلنے کے۔ موٹا گوشت، سؤر کے پیٹ کا گوشت، چمکتے ہوئے موٹے گوشت کی دو سطحیں، تھوڑی سی مُہر بند مچھلی کی خوراک، ٹکڑوں میں اِیل مچھلی جو میری ساس نے ہمیں دہقانی علاقوں سے عرصہ پہلے بھیجی تھی۔ خشک ٹراتی زرد تاروں کے ساتھ، مہر بند تھیلے اور لاتعداد بستے جن میں موجود اشیاء کی کوئی پہچان نہ تھی، فریج کی گہرائی سے کھینچے گئے تھے۔ وہاں پر سرسراہٹ جیسی آواز تھی؛ میری بیوی یہ سب اشیاء ایک ایک کر کے بڑے سیاہ کوڑے والے تھیلے میں رکھنے میں مصروف تھی۔ اچانک میں نے توازن کھو دیا۔

’’تم ابھی تک کیا کر رہی ہو؟‘‘ میں چلایا۔

اُس نے کوڑے کے تھیلے میں گوشت کے تھیلے ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا، ایسے جیسے اُسے میری موجودگی کا کوئی احساس ہی نہ ہو جیسے اُس گزشتہ رات میں وہاں نہیں تھا۔

موٹا گوشت اور سؤر کا گوشت، مرغی کی قاشیں، کم از کم دو لاکھ مالیت کی نمکین پانیوں کی بام مچھلی۔

’’کیا تمھارا دماغ خراب ہے؟ تم کیوں یہ سارا سامان زمین پر پھینکتی جا رہی ہو؟‘‘

میں نے اپنی راہ میں حائل مومی تھیلوں کو ٹھوکر ماری، اور اُس کی کلائی کو پکڑ کر تھیلے کو اُس کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی۔ میں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ وہ مجھ پر ردِّعمل ظاہر کرنے لگی۔ میں ایک لمحے کے لیے ہڑبڑا گیا، لیکن میرے غصے نے تیزی سے اُس پر قابو پانے کی صلاحیت دی۔ اُس کی سرخ کلائی کی مالش کرتے ہوئے، وہ اُسی پر سکون لاتعلق آواز میں گویا ہوئی جو اُس کا معمول تھا۔

’’میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔‘‘

:::

ہن کانگ کی تحریروں/انٹرویو وغیرہ  کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

 

عمران ازفر کے تراجم کی تمام پوسٹوں کے لیے یہاں کلک کریں۔

کوریائی ناول کا باب

سبزی خور

ہن کانگ

(Han Kang)

ترجمہ:عمران ازفر

پہلا موسم

جب تک کہ وہ سبزی خور نہیں ہوئی میں اپنی بیوی کو ہمیشہ اور ہر حوالے سے ایک نہایت عام عورت خیال کیا کرتا تھا۔ سچ بتاؤں تو پہلی ملاقات میں وہ مجھے کچھ خاص محسوس نہیں ہوئی تھی درمیانہ قد، تراشیدہ زلفیں (نہ ایسی لمبی کہ شبِ فراق کا گمان ہو اور نہ ہی بالکل چھوٹی کہ جیسے بے بی کٹ) یرقان زدہ بیمار جلد جو اُس کے گالوں کی ہڈیوں کو نمایاں کر رہی تھی۔ اُس کا حلیہ وہ سب بیان کر رہا تھا جسے جاننے کی مجھے تمنا تھی۔ ایک کیفے میں، وہ اُس میز پر آ کر براجمان ہوئی جہاں میں اُس کا پہلے سے منتظر تھا۔ میں نے اُس کا استقبال نہیں کِیا لیکن اُس کے عام سے سیاہ جوتے بغور دیکھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اُس کی چال نہ زیادہ سبک تھی اور نہ ہی سست، وہ نہ بڑے بڑے ڈگ بھرتی تھی اور نہ ہی اپنی چال میں نفاست کا مصنوعی پن شامل کرتی تھی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اگر اُس کی شخصیت میں کشش اور دل چسپی کا کوئی خاص عُنصر موجود ہوتا تو ہماری شادی کا امکان ختم ہو سکتا تھا۔ میں نے اِس عورت کی ڈھیلی ڈھالی شخصیت میں ایسا کوئی پہلو نہیں دیکھا جس میں خاص تازگی، دلکشی اور کشش ہو، ایسی کشش جو بطور مرد مجھے زمین پر دے مارتی، جبکہ وہ مجھ سے کسی ماڈل ایسی ظاہری حالت کا تقاضا کرتی تھی جیسے کہ فیشن میگزین کے سرِ ورق پر بنے سنورے ہوئے نمایاں مرد ہوتے ہیں۔ اِس ضمن میں، مجھے خاص کر میری شخصیت کے ظاہری پہلو بدلنے کے لیے اُس نے ابتدائی دو ملاقاتوں میں کچھ کوشش بھی کی۔ مجھے شادی کا یہ کڑوا گھونٹ بیس برس کی عمر میں پینا پڑا، جب میری پتلی ٹانگوں اور کہنی سے بازو تک کے مہین سے جسم کے حصے نے کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

 میں ہمیشہ سے اپنے عضو تناسل کو لے کر احساس کمتری کا شکار رہتا۔ میں نے خود کو یہ یقین دلایا کہ مجھے ان باتوں پر فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

میں زندگی میں ہمیشہ درمیانی راہ کا قائل رہا ہوں۔ سکول میں اپنے سے دو تین سال چھوٹے بچوں پر حکمرانی کرتا تاکہ میں اُن کے سرغنہ کا کردار ادا کروں بجائے اِس کے کہ ہم عمر لوگوں کی مجلس میں رہتا۔ اِس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کسی ایسے کالج میں داخلہ لوں گا جہاں سے مجھے وظیفہ بھی ملے اور جو میری روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔ میں نے ایک نوکری کے لیے درخواست دی جہاں مجھے مستعدی سے کام کرنے کے بدلے معقول ماہانہ تنخواہ ملنی تھی اور مجھے توقع تھی کہ وہ میری غیر معمولی صلاحیتوں کا اعتراف کریں گے۔ یہ ایک فطری بات تھی کہ میں دولت مند عورت سے شادی کر کے اپنی زندگی کا رخ بدلنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو ذہین تصور کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ گھریلو نظام میں اپنا اجارہ قائم کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ اپنی انہی توقعات کے مطابق آگے بڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ ایسی دولت مند عورتیں عام بیوی ثابت ہوتی ہیں جو ناگوار اور فضول موضوعات پر بنا سوچے سمجھے بولتی رہتی ہیں۔

میری بیوی ہر صبح چھے بجے جاگتی، یخنی اور چاول تیار کرتی اور اِن کے ساتھ تھوڑی سی مچھلی بھی۔ سنِ شعور کو پہنچتے ہی وہ عجیب سا کام کر کے اپنے خاندان کی کفالت کرتی تھی۔ کئی برسوں سے چلی آ رہی ملازمت جس میں وہ کمپوٹر گرافِکس کے ماہر کے طور پر اسسٹنٹ انسٹرکٹر کی ذمہ داریاں نبھاتی، جسے وہ اب چھوڑ چکی تھی۔ اُس نے ایک طناز ناشر کے مکالمہ نما نشانات ایسے الفاظ پر کام کرنے کے لیے ذیلی معاہدہ کِیا، یہ کام وہ گھر سے کر سکتی تھی۔ درحقیقت وہ چند الفاظ کی عورت تھی۔    

وہ شاذ و نادر ہی کسی چیز کا مطالبہ یا کوئی فرمائش کرتی اور میں شام میں گھر پہنچنے میں کتنی ہی دیر کرتا وہ کبھی اِس حوالے سے بدمزگی کا ماحول نہ بناتی اور نہ ہی کبھی ہنگامہ آرائی کرتی۔یہاں تک کہ ہماری مشترکہ تعطیلات کے دنوں میں بھی وہ مل کر سیر سپاٹے کے پروگرام مرتب نہ کرتی تھی۔ جب میں دوپہر کو ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لے کر بیکار چینل پر چینل گھما رہا ہوتا تو وہ خود کو کمرے میں محصور کر لیتی۔ میرا غالب گمان تھا کہ وہ یہ وقت کتاب خوانی میں صرف کرتی ہے جو کہ اُس کا پسندیدہ مشغلہ تھا کیونکہ وہ ناقابل یقین حد تک خود کو کتابوں کی دنیا میں غرق رکھتی تھی۔ ایسی پھیکی بے رنگ کتابیں جو آپ کی اتنی توجہ بھی نہ حاصل کر سکتی تھیں کہ آپ کبھی سر ورق سے اندر نگاہ ڈال کر دیکھیں۔

صرف کھانے کے وقت وہ دروازہ کھولتی اور خاموشی سے کھانے کی تیاری میں مگن ہو جاتی۔ اِس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ اِس مزاج کی بیوی اور اِس طرح کے طرز زندگی کا مطلب یہ ہے کہ میں ان دونوں میں سے کسی ایک کی بھی حوصلہ افزائی کا خیال نہیں رکھتا تھا۔

دوسری طرف اگر میری بیوی ان بیویوں میں سے ایک ہوتی جن کے فون دوستوں یا ساتھی کارکنوں کے رابطوں کے ساتھ دن بھر جلتے بجھتے رہتے ہیں یا ان بیویوں میں سے جن کے رویوں کی وجہ سے شوہر آخرکار چیخنے چلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ایک تماشا لگتا ہے تو میں اپنی بیوی کا شکر گزار ہوں کہ وہ آخر کار خود پر جبر کرتی ہے اور وہ ان بیویوں میں سے نہیں ہے۔

واحد خوبی جس کی وجہ سے میری بیوی پر کشش اور بلا کی غیر معمولی لگتی وہ یہ کہ وہ کبھی بھی انگیا (Bra) پہننا پسند نہیں کرتی تھی۔ جب کہ میں ابھی جوانی کی عمر کو پہنچا تھا، میں اور میری زوجہ میل ملاقات کرتے اور ڈیٹ پر جاتے تو میں محض اس لیے اُس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر سہلاتا کہ اُس کا ردِّعمل دیکھ سکوں اور یہ بھی کہ اُس نے انگیا پہنی ہوئی ہے یا نہیں۔ ایسے وقت میں، میں اُس کی انگیا کا نمایاں بیلٹ، جو عورت کی کمر کو گھیرتا ہے محسوس نہیں کر سکتا تھا اور جب مجھے اِس کی وجہ معلوم ہوئی تو میں چونک گیا۔ جب وہ مجھے کچھ بتانے کے لیے فیصلہ کرنے میں سرگرداں تھی تو میں نے ایک یا دو منٹ اُس کا تجسس آمیز نگاہوں سے مطالعہ کِیا۔ میری اِس دیکھ ریکھ کا حاصل یہ تھا کہ وہ انگیا نہ پہننے کا یہ کام کسی خاص قسم کا اشارہ دینے کے لیے نہیں کرتی تھی بلکہ یہ یا تو محض سستی تھی یا اپنی ذات پر توجہ کی کمی۔ میں شدید مضطرب تھا کیونکہ ایسا نہیں تھا کہ اُس کی چھاتیاں ایسی سڈول ہوں جو انگیا کے بغیر بھی نمایاں اور پرکشش دکھائی دیں۔ میں اُسے تہہ دار، پیڈ لگی ہوئی موٹی انگیا تجویز کرتا کہ میں اُس کے روبرو کچھ خاص کشش محسوس کر سکوں۔     

یہاں تک کہ گرمیوں میں جب میں نے اسے ایک مرتبہ انگیا پہننے پر آمادہ کیا تو تھوڑی ہی دیر بعد اس نے کمر کی طرف سے اپنے پستانوں کے گرد لپٹی انگیا کا ہک کھول دیا جو اس کے پتلے مہین کُرتے میں سے صاف دکھائی دے رہا تھا لیکن اِس نمایاں تمثال کا اُس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں نے کوشش کی کہ وہ ان گرمیوں کے حبس زدہ دنوں میں انگیا کی بجائے پستانوں کے گرد خاص زیر جامہ (vast) استعمال کرے کہ اس طرح اس کی چھاتیاں کچھ خوش نما دکھائی دیں گی مگر وہ اِس کے استعمال سے گریزاں تھی کہ اُس کے مطابق یہ پستانوں کو بری طرح جکڑ کر نچوڑ لیتے ہیں۔ چونکہ میں نے کبھی زیر جامہ یا انگیا بطور لباس استعمال نہیں کِیا تھا تو میں اِس احساس سے نابلد تھا کہ انگیا پہننے کا بعد کیسا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اِس سب کے باوجود غور کریں تو میں یہ حقیقت جانتا تھا کہ یہاں بہت سی دوسری خواتین تھیں جو اِسے ناپسند کرتی تھیں، جن کے پاس کوئی خاص جواز انگیا کی مخالفت میں نہیں تھا۔ میں اُس کی اِس بلا کی حساسیت کے بارے میں شک میں مبتلا ہونے لگا۔

دوسرے تمام حوالوں سے، ہماری شادی شدہ زندگی کا معاملہ درست انداز پر رواں دواں تھا۔ ہم پانچویں سال گرہ منانے کے قریب تھے لیکن ہمارے درمیان کوئی الفت کا تعلق قائم نہیں ہو سکا تھا جو شادی شدہ زندگی کو خوشگوار اور لطیف بنائے اِس سے پہلے کہ یہ ایک مسلسل امتحان کی صورت اختیار کرتا یا کچہری میں بحث و مباحثہ کا موضوع بنتا۔  

صرف ایک شے تھی کہ ہم نے بچے کی حصول کی کوشش ترک کر دی تھی جب تک کہ ہم اپنے لیے محفوظ اور مستقل پناہ گاہ یعنی گھر حاصل نہیں کر لیتے تو اس وقت تک بچہ موضوع نہیں ہوگا۔

ہمارے درمیان کوئی جسمانی تعلق آخری بار گزشتہ خزاں میں واقع ہوا تھا۔ جب کبھی میں کسی بچے کی کلکاریاں اور اُس کی ڈا ڈا کی آوازیں سنتا تو میرے لیے اپنا بچہ حاصل کرنے کی خواہش پھر سے زندہ ہو جاتی۔ یہاں تک کہ گزرے فروری کے ایک دن، جب میں اپنی بیوی کے پاس آیا، تب وہ کچن میں شام ڈھلے رات کے لباس میں ملبوس کھڑی تھی۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری زندگی باہمی تعامل کی اس ناقابل فراموش تبدیلی کے دور سے گزرے گی۔

______

’’تم یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو؟‘‘

میں غسل خانے کی بتی گُل کرنے کی والا تھا، جب مجھے یہ دھچکا لگا۔ یہ صبح کے چار بجے تھے اور میں شدید پیاس کی وجہ سے جاگا، جو رات کے کھانے میں سوجو (ایک خاص قسم کی شراب) مشروب کی نصف بوتل نوش جاں کرنے کا حاصل تھا، جس کا یہ بھی معنی تھا کہ مجھے ہوش بحال کرنے میں معمول کی نسبت زیادہ وقت درکار ہے۔

’’ہیلو؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’تم کیا کر رہی ہو؟‘‘

یہ مشروب ہمیشہ کی طرح ٹھنڈا یخ تھا، لیکن میری بیوی کا دیدار اِس سے کہیں زیادہ مدہوش کُن اور ہوش اڑا دینے والا تھا۔ الکوحل کی وجہ سے دیر پا غنودگی تیزی سے ختم ہوگئی۔ وہ فریج کے سامنے بے حس و حرکت کھڑی تھی۔ اُس کا چہرہ اندھیرے کی اوٹ میں تھا جس کی وجہ سے میں اُس کے جذبات نہیں دیکھ سکا لیکن جذبات کی فراوانی نے مجھے خدشات سے بھر دیا تھا۔ اُس کے قدرتی سیاہ گھنے بال بکھرے ہوئے تھے، پریشان چہرہ اور وہ اپنے معمول کے سفید رات کے لباس میں تھی جو ٹخنوں تک تھا۔

ایسی کسی رات، میری بیوی عجلت خیزی کے سبب سے کارڈیگن پر جوتے تلاش کرتے ہوئے پھسل گئی۔ نہیں معلوم کتنی دیر وہ جاتی گرمی میں وہاں ننگے پاؤں کھڑی رہی جیسے وہ میری صاف اور براہ راست پوچھ گچھ سے لاتعلق ہو۔ اُس کا چہرہ میری طرف سے ہٹ گیا اور وہ وہاں ایسے غیر فطری طریقے پر ایستادہ تھی جیسے کوئی بھوت اپنے میدان میں خاموشی سے کھڑا ہو۔

کیا ہو رہا ہے؟ اگر وہ مجھے دیکھ نہیں سکتی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ نیند میں چل رہی تھی۔

میں اس کی طرف بڑھا، گردن اُٹھا کر اُس کے چہرے کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔

’’تم یہاں پر ایسے کیوں کھڑی ہو؟ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

جب میں نے اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھا تو میں اُس کی طرف سے لاتعلقی اور سرد مہری پر بری طرح چونک اٹھا۔ مجھے یقین تھا کہ میری ذہنی حالت درست ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا مجھے دکھائی دے رہا ہے۔ مجھے ہر شے کا پورا شعور تھا جو میرا کمرہ چھوڑ کر باہر آنے تک، واقعہ ہوئی، اُس کی طرف بڑھتے ہوئے، تم کیا کر رہی ہو؟ یہ سوال کرتے ہوئے۔ وہ وہاں کھڑی تھی بِنا کسی ردِّعمل یا حرکت کے، اپنے ہی کسی جہان میں گمشدہ۔ یہ اُن چند غیر معمولی مواقع میں سے تھا جب ٹی وی ڈرامے میں مگن وہ میرے دیر سے گھر پہنچنے سے غافل رہتی۔ مگر صبح کے چار بجے، کچن کے سیاہ فرش پر رکھی فریج کے سفید دروازے کے سامنے رکنے میں اسے ایسی کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟

ہائے!!

اُس کا چہرہ اندھیرے سے میری جانب مڑا، میں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا، چمک دار مگر بخار سے عاری اور اُس کے لب دھیرے دھیرے جدا ہوتے ہوئے۔

’’میں نے خواب دیکھا ہے۔‘‘

اُس کی آواز حیران کن حد تک واضح اور صاف تھی۔

’’خواب؟ تم کیا فضول بول رہی ہو؟ کیا تمھیں معلوم ہے کہ کون سا وقت ہے؟‘‘

وہ مڑی اور اب اس کا جسم میرے روبرو تھا تب وہ آہستگی سے چلتی ہوئی رہائشی کمرے میں چلی گئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس نے اپنے پاؤں کو آگے بڑھایا اور خاموشی سے دروازہ بند کر دیا۔ مجھے اندھیری رسوئی میں تنہائی محسوس ہو رہی تھی۔  بے بس دکھائی دیتے ہوئے، جیسے اُس کا وجود آہستگی کے ساتھ پیچھے ہٹتا ہوا، کمرے کے اندر رہ گیا تھا۔   

میں نے غسل خانے کی بتی جلائی اور اندر داخل ہو گیا۔ کئی روز سے جاری سردی کا سلسلہ، اب مستقل طور پر ۱۴ فارن ہائٹ کے اردگرد تھا۔ میں نے چند گھنٹے پہلے غسل کِیا تھا یہی وجہ ہے کہ میرے نہانے کے ربڑی جوتے ابھی تک گیلے اور یخ بستہ تھے۔ اُس بے حس موسم میں تنہائی کا احساس مزید گہرا ہونے لگا۔ سیاہ سوراخ سے جو یخ بستگی داخل ہو رہی تھی، وہ تازہ ہوا کمرے میں لانے کے لیے متحرک پنکھے سے تھی۔ ہوا لانے والا یہ پنکھا کے غسل خانے کے اوپر تھا نصب تھا، سفید ٹائلوں میں جذب ہوتا جنہوں نے فرش اور دیواروں کو ڈھک رکھا تھا۔

جب میں رہائشی کمرے میں واپس آیا۔ میری بیوی لیٹی ہوئی تھی، اُس نے اپنی ٹانگیں چھاتیوں تک سکیڑ رکھی تھیں، کمرے میں گہرا سکوت تھا جیسے میں وہاں اکیلا ہوں۔ واقعتاً یہ میری محبوبہ تھی۔ اگر میں کچھ سننے کے لیے سانس روکے، سیدھا کھڑا رہتا تو میں اُس کی طرف سے آنے والے نیند میں جاری سانس کے ہلکورے سن سکتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ کسی سوئے ہوئے فرد کی گہری سانس محسوس نہیں ہوتی تھی۔ کیا میں اُس تک پہنچ سکتا ہوں کہ اُس کی گرم پتلی جلد کو ہاتھ سے چھو سکوں۔ لیکن بعض وجوہات کی بِنا پر میں اُسے چھونے سے قاصر تھا۔ یہاں تک کہ میں الفاظ کے ذریعے بھی اُس تک رسائی نہیں چاہتا تھا۔

______

اگلی صبح آنکھیں کھولنے کے فوراً بعد، چند ساعتوں کے لیے جب حقیقت اپنی معمول کی ٹھوس شکل میں سامنے آتی ہے، میں اپنے گرد کمبل لپیٹے ہوئے پڑا تھا اور سرما کی دھوپ کا اندازہ لگا رہا تھا جو کچھ وقت میں میرے کمرے میں آویزاں سفید پردوں سے اندر داخل ہونے والی تھی۔ اِس دوران وقت دیکھنے کے لیے میں نے گھڑیال پر نگاہ کی اور فوراً بستر پر سے کودا۔ دروازے کو ٹھوکر سے وا کِیا اور جلد بازی میں کمرے سے باہر آیا۔ میری بیوی فریج کے سامنے کھڑی تھی۔

’’کیا تم پاگل ہو؟ تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا؟ کیا وقت ہو رہا ہے— ؟‘‘

کسی شے نے میرے پیر کو کچل دیا اور میں بولتے بولتے رک گیا، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔  

وہ اکڑوں بیٹھی تھی،شب بسری کے لباس میں ملبوس، اُس کے بکھرے ہوئے، لچھے دار بال بے ترتیبی سے اُس کے چہرے پر پھیلے ہوئے تھے۔ اُس کے اطراف، رسوئی کا فرش مختلف ربڑی تھیلوں سے اٹا ہوا تھا اور ہوا بند مومی تھیلے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ وہاں کوئی ایسا چپہ تک نہ تھا جہاں میں پیر جما سکوں، سوائے اُن پر پاؤں رکھ کر کچلنے کے۔ موٹا گوشت، سؤر کے پیٹ کا گوشت، چمکتے ہوئے موٹے گوشت کی دو سطحیں، تھوڑی سی مُہر بند مچھلی کی خوراک، ٹکڑوں میں اِیل مچھلی جو میری ساس نے ہمیں دہقانی علاقوں سے عرصہ پہلے بھیجی تھی۔ خشک ٹراتی زرد تاروں کے ساتھ، مہر بند تھیلے اور لاتعداد بستے جن میں موجود اشیاء کی کوئی پہچان نہ تھی، فریج کی گہرائی سے کھینچے گئے تھے۔ وہاں پر سرسراہٹ جیسی آواز تھی؛ میری بیوی یہ سب اشیاء ایک ایک کر کے بڑے سیاہ کوڑے والے تھیلے میں رکھنے میں مصروف تھی۔ اچانک میں نے توازن کھو دیا۔

’’تم ابھی تک کیا کر رہی ہو؟‘‘ میں چلایا۔

اُس نے کوڑے کے تھیلے میں گوشت کے تھیلے ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا، ایسے جیسے اُسے میری موجودگی کا کوئی احساس ہی نہ ہو جیسے اُس گزشتہ رات میں وہاں نہیں تھا۔

موٹا گوشت اور سؤر کا گوشت، مرغی کی قاشیں، کم از کم دو لاکھ مالیت کی نمکین پانیوں کی بام مچھلی۔

’’کیا تمھارا دماغ خراب ہے؟ تم کیوں یہ سارا سامان زمین پر پھینکتی جا رہی ہو؟‘‘

میں نے اپنی راہ میں حائل مومی تھیلوں کو ٹھوکر ماری، اور اُس کی کلائی کو پکڑ کر تھیلے کو اُس کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی۔ میں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ وہ مجھ پر ردِّعمل ظاہر کرنے لگی۔ میں ایک لمحے کے لیے ہڑبڑا گیا، لیکن میرے غصے نے تیزی سے اُس پر قابو پانے کی صلاحیت دی۔ اُس کی سرخ کلائی کی مالش کرتے ہوئے، وہ اُسی پر سکون لاتعلق آواز میں گویا ہوئی جو اُس کا معمول تھا۔

’’میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔‘‘

:::

Authors

  • ادب کے نوبیل انعام ۲۰۲۴ء کا اعلان کرتے ہوئے منصفین نے ہن کانگ کو نوبیل انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کِیا: ’’اُن کی پُرزور شاعرانہ نثر کے لیے جو تاریخی صدمات کا مقابلہ کرتی ہے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی کو عیاں کرتی ہے۔‘‘ وہ نوبیل انعام پانے والی پہلی کوریائی شاعرہ/ مصنفہ ہیں جب کہ کل نوبیل جیتنے والے کل ۱۱۹ شعرا و ادبا میں سترھویں خاتون ہیں — اُن سے قبل ۱۶ خواتین یہ اعزاز حاصل کر چکی ہیں — اور ایشیا سے نوبیل انعام کے فاتحین میں اُن کا نمبر نواں ہے۔ ہن کانگ ۲۷ نومبر، ۱۹۷۰ء کو جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں پیدا ہوئیں مگر نو سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سیول منتقل ہو گئی تھیں۔ اُن کا اپنا ایک ادبی پس منظر ہے۔ اُن کے والد ایک نامور ناول نویس تھے۔ اپنے لکھنے پڑھنے کے کام کے ساتھ ساتھ، اُنھوں نے اپنے آپ کو فنونِ لطیفہ اور موسیقی کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے، جس کی عکاسی اُن کے تمام ادبی کاموں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ہن کانگ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۹۳ء میں ’’ادب اور معاشرہ‘‘ نامی کوریائی میگزین میں متعدد نظموں کی اشاعت سے کیا۔ اُن کی نثر کی شروعات ۱۹۹۵ء میں افسانوی مجموعے ’’یوہسُو کی محبت‘‘ سے ہوئی (یوہسُو ، جنوبی کوریا کا ایک ساحلی شہر)۔ جس کے فوراً بعد اُن کے بہت سے نثری کام، ناول اور افسانوں کے مجموعے منصۂ شہود پر آئے۔ جن میں سے قابل ذکر ناول ’’تمھارے یخ ہاتھ‘‘ ۲۰۰۲ء ہے۔ اِس میں فنونِ لطیفہ میں ہن کانگ کی دلچسپی کے واضح آثار موجود ہیں۔ یہ ناول ایک لاپتہ مجسمہ ساز کے، جو خواتین کے بدنوں کےمجسمے پلاسٹر آف پیرس سے بنانے کا جنونی ہے، اپنے پیچھے چھوڑے گئے ایک مخطوطہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اِس میں انسانی علم الاعضا اور شخصیت و تجربے کےمابین کھیل کا استغراق ہے، جہاں مجسمہ ساز کے کام میں ایک تنازع جنم لیتا ہے کہ جسم کیا ظاہر کرتا اور کیا چھپاتا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے آخر میں ایک جملہ واضح اصرار کرتا ہے: ’’زندگی ایک پاتال پر تنی ہوئی چادر ہے، اور ہم اِس پر نقاب پوش بازی گروں کے مانندرہتے ہیں۔‘‘ ہن کانگ کو نمایاں بین الاقوامی شہرت ۲۰۰۷ء میں اشاعت پذیر ہونے والے اُن کے ناول ’’سبزی خور‘‘ سے ملی جس کا ۲۰۱۵ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ ’’دی ویجیٹیرین‘‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ تین حصوں پر مشتمل اِس ناول میں اُن متشدد عواقب کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اُس وقت رونما ہوتے ہیں جب ناول کی مرکزی کردار ییونگ ہائے کھانا کھانے کی مروجہ اقدار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ اس کے گوشت نہ کھانے کے فیصلے پر مختلف، یکسر مختلف رد ِّعمل سامنے آتے ہیں۔ اُس کے رویے کو اُس کا شوہر اور جابر باپ دونوں سختی سے مسترد کر دیتے ہیں، اور اُس کے بصری فنکار (ویڈیو آرٹسٹ) بہنوئی کے ہاتھوں اُس کا شہوانی و جمالیاتی استحصال ہوتا ہے جو اُس کے غیر فعال جسم کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بالآخر، اُسے ایک نفسیاتی علاج گاہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے، جہاں اُس کی بہن اُسے بچانے اور اُسے ’’معمول کی زندگی‘‘ میں واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم ییونگ ہائے ایک گہری نفسیاتی کیفیت میں مزید ڈوب چکی ہوتی ہے جس کا اظہار ’’بھڑکتے ہوئے درختوں‘‘ (درختوں کی ایک قسم، جس کے پتے گہرے سرخ اور بڑے ہوتے ہیں جس سے یوں لگتا ہے جیسے اُس میں آگ بھڑکی ہوئی ہو۔ یہ درختوں کی سلطنت کے بادشاہی کی علامت بھی ہے اور یہ جتنا دلکش دکھائی دیتا ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہوتا ہے۔) کی علامت کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ایک اور پلاٹ پر مبنی کتاب ’’ہَوا چلتی ہے، جاؤ‘‘ہے، جو ۲۰۱۰ء میں منظرِ عام پر آئی اور دوستی اور فن کے بارے میں ایک ضخیم اور پیچیدہ ناول ہے، جس میں دُکھ اور تبدیلی کی آرزو اپنی بھرپور شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہن کانگ کی کہانیوں میں زندگی کی شدتوں کو سہتے جسموں سے ہمدردی کی تصویر کشی کےلیے اُنھیں اپنے بے حد قوی استعاراتی انداز سے تقویت ملتی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ’’یونانی اسباق‘‘- ۲۰۲۳ء، دو غیر محفوظ افراد کے درمیان غیر معمولی تعلق کی ایک دلکش تصویر کشی ہے۔ ایک نوجوان عورت، جو کئی تکلیف دہ تجربات کے بعد اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے،ازمنۂ قدیم کے یونان میں اپنی استاذ سے رابطہ کرتی ہے، جو خود اپنی بینائی کھو رہی ہے۔ اُن کی اِن اپنی خامیوں سے، ایک سوختہ و خستہ محبت پروان چڑھتی ہے۔یہ ناول خسارے، قربت اور زبان کے حتمی حال و قال کے چوگرد ایک خوبصورت مراقبہ ہے۔ کوریائی زبان میں ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والے ناول ’’انسانی افعال‘‘، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۶ء میں ’’ہیومن ایکٹس‘‘کے عنوان سے ہوا، میں اِس مرتبہ ہن کانگ نے اپنی سیاسی بنیاد کو برتتے ہوئے ایک تاریخی واقعہ پیش کِیا جو گوانگجو شہر میں پیش آیا تھا، جہاں وہ خود پلی بڑھی اور جہاں سینکڑوں طلبہ اور غیر مسلح شہریوں کا ۱۹۸۰ء میں جنوبی کوریا کی فوج نے قتلِ عام کِیا تھا۔ تاریخ کے متأثرین کی آواز بننے کی کاوش میں، وہ اپنے اِس ناول میں اِس واقعہ کو سفاکانہ حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کرتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، ادبی گواہی کی صنف تک پہنچتی ہیں۔ ہن کانگ کا انداز، جتنا بصیرت آمیز ہے اُتنا ہی جامع و مختصر بھی۔ اس کے باوجود ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا جس کی خاص مصلحت یہ ہے کہ مُردوں کی روحوں کو اُن کے بدنوں سے جدا ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی فنا کا خود مشاہدہ کر سکیں۔ کچھ خاص مقامات پر، ناقابلِ شناخت لاشوں کے نظر آنے پر جنھیں کفن دفن نصیب نہیں ہوا ہوتا، متن سوفوکلس کے اینٹی گون کے مرکزی خیال سے رجوع کرتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ہن کانگ کا اگلا پڑاؤ تھا: ’’سفید کتاب‘‘۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں اگلے ہی برس ۲۰۱۷ء میں ’’سفید کتاب‘‘ کے عنوان سے ہو گیا۔اِس ناول میں ایک بار پھر ہن کانگ کا شاعرانہ اندازحاوی نظر آیا۔ یہ کتاب اُس شخص کے نام انتساب کی گئی ہے جو اپنی بڑی بہن کا خود بیانیہ ہو سکتا تھا، لیکن وہ تو پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی چل بسی تھی۔ مختصر وضاحتوں کی ترتیب میں، جو تمام تر سفید اشیاء کے بارے میں ہیں جنھیں ایک لڑی میں پرویا گیا ہے کہ سفید رنگ غم و حزن کا رنگ ہے۔ یہی چیز اِسے ایک ناول کم اور ایک قسم کی ’’سیکولر دعائیہ کتاب‘‘ کا درجہ دیتی ہے، جیسا کہ یہی بیان بھی کیا گیا ہے۔ اگر راوی کی، یہ توجیہ راوی ہی پیش کرتا ہے، خیالی بہن کو زندہ رہنے دیا جاتا تو وہ خود بھی اپنے آپ کو وجود میں نہ آنے دیتی۔ مرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ، جس پر کتاب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے: ’’اُس سفید کے اندر، اُن تمام سفید چیزوں میں، مَیں اپنی آخری سانس اُس سانس میں لوں گا جو تم نے خارج کی تھی۔‘‘ ہن کانگ کی ایک اور خاص تخلیق اُن کا ۲۰۲۱ء میں منصۂ شہود پر آنے والا تازہ ترین ناول ’’ ہم جدا نہیں ہوتے ‘‘ الم و حزن کی تصویر کشی کے حوالے سے گہرے طور پر ’’ سفید کتاب ‘‘سے جڑی ہوئی ہے۔اِس کی کہانی ۱۹۴۰ء کی دہائی کے اواخر میں جنوبی کوریا کے جزیرے جیجو پر ہونے والے ایک قتل عام کو سامنے لاتی ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کو، جن میں بچّے اور بوڑھے بھی شامل تھے، محض ساتھی ہونے کے شبہ میں گولی مار دی گئی۔ اِس ناول میں راوی اور اُس کے دوست اِنسیون کی مشترکہ سوگ منانے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ دونوں اِس سانحے کے کافی عرصے بعد تک اپنےعزیز و اقارب کی بربادی کے صدمے کو برداشت کرتے ہیں۔ تخیل کے ساتھ، جو کہانی کے عین اُتنا ہی مطابق ہے جتنا کہ کثیف، ہن کانگ نہ صرف ماضی کی طاقت کو حال پر منتج کرتی ہیں بلکہ اتنی ہی قوت کے ساتھ وہ دوستوں کی اُن بے لوث کوششوں کو منظر عام پر لانے کے لیےکھوج بھی لگاتی ہیں جو اجتماعی غفلت کا شکار ہوئیں۔ اِس طرح یہ اُن دونوں دوستوں کا ایک مشترکہ آرٹ پروجیکٹ میں صدمہ بن جاتا ہے، جو کتاب کو اِس کا عنوان فراہم کرتا ہے۔ دوستی کی گہری ترین شکل کی صورت میں یہ ناول جتنا وراثتی المیے کو بیان کرتا ہے اُتنا ہی ڈراونے خوابوں کو بھی اور ادبی گواہی کی حق گوئی کے رجحان کے درمیان بڑی اصلیت کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ ہن کانگ کے تمام کام کی خصوصیت الم و حزن کی ایسی دوہری تصویر کشی عبارت ہے جو مشرقی سوچ سے قریبی تعلق کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی اذیت کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ۲۰۱۳ء کے ناول ’’رُوبہ صحت‘‘ میں ٹانگ کا السر شامل ہے جو ٹھیک ہونے سے انکار کرتا ہے، اور مرکزی کردار اور اس کی مردہ بہن کے مابین ایک تکلیف دہ رشتہ۔ کوئی حقیقی صحت یابی کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتی، اور درد ایک بنیادی وجودی تجربے کے طور پر ابھرتا ہے جسے کسی گزرتے ہوئے عذاب میں کسی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔ ’’سبزی خور‘‘ جیسے ناول میں بھی کوئی سادہ سی وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔ جب کہ اِس ناول میں منحرف عمل اچانک اور دھماکہ خیز طور پر صاف انکار کی صورت میں ہوتا ہے، جس میں مرکزی کردار خاموش رہتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کی مختصر کہانی، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۹ء میں ’’یوروپا‘‘کے عنوان سے ہوتا ہے، ایک ایسے مرد راوی کو سامنے لاتی ہے جو اپنے آپ کو عورت کے بھیس میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایک چیستاں عورت کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے جو ایک ناممکن شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ بیانیہ خود تو چپ رہتا ہے لیکن جب اُس کی محبوبہ دریافت کرتی ہے: ’’اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوتے تو آپ اپنی زندگی کا کیا کرتے؟‘‘ لیکن یہاں تکمیل یا کفارہ کی کوئی گنجائش نہیں ملتی۔ ہن کانگ اپنی تخلیقات میں، تاریخی سانحات اور پوشیدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ مبارزت اور اپنی ہر لکھت میں انسانی زندگی کی بے ثباتی کو کھول کر بیان کرتی ہیں۔ وہ جسم اور روح، زندہ اور مردہ کے درمیان رشتے کے بارے میں ایک منفرد آگہی رکھتی ہیں، اوراُنھوں نے اپنے آپ کو اپنے شاعرانہ اور تجرباتی انداز میں عصری نثر میں ایک اختراعی کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔ 

    View all posts
  • عمران ازفر اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، یونیورسٹی آف سرگودھا ہیں۔ وہ گل گشت ملتان میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان سے ایم اے (اردو) کِیا اور بعد ازاں اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی۔ اسلام آباد میں دس برس تک نوکری کرنے کے بعد یونیورسٹی آف سرگودھا سے بطور لیکچرار (اردو) اپنی ملازمت کا آغاز۲۰۱۸ء سے کِیا۔ اُن کی اب تک کئی کتب منصۂ شہود پر آچکی ہیں جن میں اُن کی نظموں کا مجموعہ ’’رات کا خیمہ‘‘،نظم نگاری پرتنقیدکی کتاب ’’نئی نظم نئی تخلیقی جہت‘‘، نظریہ سازی کے حوالے سے کتاب ’’ادب کی سماجیات‘‘، ’’مغربی پنجاب پر مسلم اور انگریز معاشرت کے اثرات‘‘شامل ہیں۔ اُن کے ۲۴ تحقیقی مضامین بین الاقوامی جرائد میں اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ اِس کے علاوہ تراجم کے ضمن میں وہ اب تک ’’پابلو نیرودا کی ۱۱۱ نظموں کے تراجم‘‘،ٹی ایس ایلیٹ کی معروف نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ کا پہلی مرتبہ ’’مفاعلاتن‘‘ کی بحر میں ترجمہ اور ۲۰۲۴ء کا نوبیل انعام برائے ادب کی فاتح کوریائی شاعرہ و مصنفہ ہن کانگ کے دنیا بھر میں شہرت پانے والےناول ’’دی ویجیٹرین‘‘ کا، جسے بُکر انعام ۲۰۱۶ء سے نوازا جا چکا ہے، اردو میں ’’سبزی خور‘‘ کے عنوان سے ترجمہ بھی اُن کا طرہ امتیاز ہے۔ 

    View all posts

7 thoughts on “سبزی خور”

  1. کسی مقام پر احساس نہیں ہو رہا کہ تحریر ترجمہ کی گئی ہے ورنہ اردو میں تراجم بہت سے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ناول دوسرے تراجم کے برعکس رواں ہے جملوں کے درمیان رابطہ ہے۔ مشکل الفاظ نہیں ہیں اور سب سے اعلیٰ بات یہ ہے کہ اجنبی پن محسوس نہیں ہوتا۔
    بہت خوب عمران ازفر صاحب

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *