تراجم عالمی ادب

انٹرویو

نوبیل انعام یافتہ

ہن کانگ

(Han Kang)

انٹرویوکنندہ:جینی رائیڈن

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

میں بے حد متحیر اور مشرف ہوئی ہوں۔ — ہان کانگ - نوبیل انعام یافتہ شاعرہ و مصنفہ کا انٹرویو۔ ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: ہان کانگ

’’میں بے حد متحیّر اور  مشرف ہوئی ہوں۔‘‘

—ہن کانگ

(نوٹ: درج ذیل انٹرویو نوبیل انعام برائے ادب ۲۰۲۴ء  کا اعلان ہونے کے فوراً   نوبیل پرائز آرگنائزیشن کی نمائندہ جینی رائیڈن (Jenny Rydén) نے ٹیلی فون پر جنوبی کوریا کی انعام جیتنے والی شاعرہ و مصنفہ ہن کانگ سے لیا۔ اس کی آڈیو ریکارڈنگ نوبیل پرائز آرگنائزیشن کی آفیشل ویب سائٹ سے سنی جا سکتی ہے۔)

ہن کانگ:      

ہیلو

جینی رائیڈن:  

ہیلو، کیا آپ ہن کانگ ہیں؟

ہن کانگ:     

جی۔

جینی رائیڈن:  

میرا نام جینی رائیڈن ہے۔ مَیں نوبیل پرائز کی طرف سے آپ کو فون کر رہی ہوں۔

ہن کانگ:

ہاں، آپ سے بات کرنا بہت اچھا لگا۔

جینی رائیڈن:  

مجھے بھی آپ سے بات کرنا بہت اچھا لگ  رہا ہے۔ سب سے پہلے تو مَیں آپ کو مبارک باد دینا چاہوں گی۔

ہن کانگ:     

 شکریہ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

جینی رائیڈن:  

آپ عین اسی لمحے کیسا محسوس کر رہی ہیں؟

ہن کانگ:      

مَیں نہایت حیرت زدہ ہوں، اور یقیناً مجھے عزّت بخشی گئی ہے۔

جینی رائیڈن:  

آپ کو نوبیل انعام ملنے کے بارے میں کیسے پتا چلا؟

ہن کانگ:        

مجھے کسی مرد نے فون کِیا اور مجھ ےاِس خبر کے بارے میں بتایا تو یقیناً مجھے نہایت تحیّر ہوا۔اور تب مَیں  اُس وقت اپنے بیٹے کے ہمراہ رات کا کھانا کھا کر ہٹی ہی تھی کیوں کہ کوریا میں اُس وقت رات کے آٹھ بجے تھے۔ تو ہاں، یہ نہایت پُرامن شام تھی۔ مَیں حقیقتاً متحیّر تھی۔

جینی رائیڈن:    

اور آپ سیول میں اپنے گھر میں ہیں؟

ہن کانگ:     

ہاں، مَیں سیول میں اپنے میں ہوں۔

جینی رائیڈن:  

اور آپ دِن میں کیا کرتی رہیں؟

ہن کانگ:       

آج؟ آج مَیں نے کوئی کام نہیں کِیا، بس تھوڑا سا مطالعہ اورپیدل  سیر کی۔آج کا دِن میرے لیے خاصا سہل دِن تھا۔

جینی رائیڈن:  

جیسا کہ آپ نے بتایا کہ آپ اپنے بیٹے کے ہمراہ تھیں۔ اُن کا اِس پر کیا ردِّعمل تھا؟

ہن کانگ:      

میرا بیٹا بھی ششدر تھا لیکن ہمیں آپس میں گفتگو کرنے کا زیادہ  موقع نہیں ملا۔ہم حیرت زدہ تھے، اور بس۔

جینی رائیڈن:  

مَیں سمجھ سکتی ہوں۔ ادب میں نوبیل انعام کا ملنا آپ کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟

ہن کانگ:      

مجھے توقیر بخشی گئی اور مَیں واقعی آپ کی حوصلہ افزائی، انعام کی حوصلہ افزائی سے، کی تحسین کرتی ہوں، ۔بس  مَیں تحسین ہی کرتی ہوں۔

جینی رائیڈن:  

آپ جنوبی کوریا سے نوبیل انعام برائے ادب  پانے والی پہلی ہستی ہیں۔ یہ کیسا لگتا ہے؟

ہن کانگ:      

ہاں، آپ کو تو پتا ہے کہ مَیں کتابوں میں پلی بڑھی،اپنے بچپن ہی سے،کوریائی اور ترجمہ شدہ کتابوں میں بڑی ہوئی۔ پس، مَیں کہہ سکتی ہوں کہ میں کوریائی ادب کے ساتھ بڑی ہوئی، جو مجھے اپنے بہت قریب محسوس ہوتا ہے۔ اِس لیے مجھے توقع ہے کہ یہ خبر کوریائی ادب کے قارئین اور میرے دوستوں، لکھاریوں کے لیے بڑی خبر ہے۔

جینی رائیڈن:   

آپ نے بتایا کہ آپ کا پس منظر ادبی ہے۔ آپ کو تحرک دینے میں کن لکھاریوں نے اہم کردار ادا کِیا؟

ہن کانگ:       

میرے لیے، مَیں بچّی تھی تب ہی سے، تمام لکھاری اجتماعی تحرک بنے۔ وہ  زندگی کا مفہوم تلاش رہے ہیں۔ بعض اوقات وہ راہ کھو بیٹھتے ہیں اور بعض اوقات وہ پُرعزم ہوتے ہیں اور اُن کی تمام کوششیں اور طاقتیں میرے لیے باعثِ تحرک رہی ہیں۔لہٰذا میرے لیےاِس تحرک کے لیے چند نام چننا ازحد مشکل ہے۔نہایت ہی دشوار ہے میرے لیے۔

جینی رائیڈن:        

مَیں نے پڑھا تھا کہ سویڈش مصنفہ، آسٹرد لِنڈگرین (Astrid Lindgren)،  آپ کے لیے باعثِ تحرک رہے ہیں؟

ہن کانگ:       

ہاں۔ جب مَیں چھوٹی تھی تو  اُن کی کتاب Lionheart Brothers سے عشق کرتی تھی۔ اور اب بھی مجھے اُس کتاب سے محبت ہے، لیکن مَیں یہ نہیں کہہ سکتی کہ  اکیلی وہی لکھاری تھیں جنھوں نے مجھے میرے بچپن میں مجھے تحریک دی۔جب مَیں نے وہ کتاب، Lionheart Brothers ، پڑھی تو مَیں اُس کا تعلق انسان یا زندگی اور موت کے بارے میں اپنے سوالات سے جوڑ سکتی تھی۔

جینی رائیڈن:    

کسی ایسے شخص کو، جو آپ کے کام کو دریافت کرنا چاہے، آپ کہاں سے آغاز کرنے کی تجویز دیں گی؟

ہن کانگ:       

میری کتابوں میں سے؟ میرا خیال ہے کہ ہر لکھاری اپنی تازہ ترین کتاب ہی کو چاہتا ہے۔پس مَیں اپنی تازہ ترین کتاب ’’ہم جدا نہیں ہوتے‘‘ (We Do Not Part)، یا  اِ سے ’’مَیں الوداع نہیں کہتی‘‘ (I Do Not Bid Farewell)، یا ’’ناممکن خدا حافظ کہنا‘‘ (Impossible Goodbyes) بھی کہتے ہیں۔ اور ’’انسانی افعال‘‘ (Human Acts) اِس کتاب ’’ہم جدا نہیں ہوتے‘‘ (We Do Not Part) سے براہِ راست جڑی ہوئی ہے۔ اور پھر ہے ’’سفید کتاب‘‘ (The White Book)، جو میرے لیے بے حد ذاتی کتاب ہے۔ کیوں کہ یہ مکمل طور پر آپ بیتی ہے۔ اور پھر ’’سبزی خور‘‘ (The Vegetarian) ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ’’ہم جدا نہیں ہوتے‘‘ سے آغاز کِیا جا سکتا ہے۔

جینی رائیڈن:   

ایک عالمی قاری کے لیے ، شاید ’’سبزی خور‘‘زیادہ معروف ہے۔آپ کے لیےبالخصوص یہ ناول کیا اہمیت رکھتا ہے؟

ہن کانگ:       

مَیں نے اِسے تین برسوں میں لکھا، اور وہ تین برس بوجوہ میرے لیے مشکل سال تھے۔اِس لیے میرا خیال ہے کہ مَیں مرکزی کردار، اُس کے اِردگرد کے لوگوں، پیڑوں کی اشکال، دھوپ اور ہر ہر چیز  کی تخیل کاری کی سعی کر رہی تھی، اوراُن برسوں کے دوران میں  ہر شےمجھ پر خوب عیاں تھی۔

جینی رائیڈن:   

مَیں بس تھوڑی ہی دیر میں آپ کو فارغ کر دوں گی۔ کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ آپ اِس نوبیل انعام  کا جشن کیسے منائیں گی؟

ہن کانگ:       

اِس فون کے بعد مَیں چائے پینا چاہوں گی— میرا نہیں خیال— مَیں اپنے بیٹے کے ساتھ چائے پیوں گی اور مَیں آج خاموشی سے یہ جشن مناؤں گی۔

جینی رائیڈن:   

نہایت عمدہ۔ جی۔ ایک مرتبہ پھر ڈھیروں مبارک باد۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

ہن کانگ:       

شکریہ۔

جینی رائیڈن:   

بہتر۔ خدا حافظ۔

ہن کانگ:

اپنا خیال رکھیے۔ الوداع۔

:::

]انگریزی متن بشکریہ ٹیلی فونک آڈیو ریکارڈنگ ’’نوبیل پرائز آرگنائزیشن‘‘[

انٹرویو

نوبیل انعام یافتہ

ہن کانگ

(Han Kang)

انٹرویوکنندہ:جینی رائیڈن

تعارف و ترجمہ:نجم الدّین احمد

میں بے حد متحیر اور مشرف ہوئی ہوں۔ — ہان کانگ - نوبیل انعام یافتہ شاعرہ و مصنفہ کا انٹرویو۔ ترجمہ:نجم الدین احمد، انٹرویو: ہان کانگ

’’میں بے حد متحیّر اور  مشرف ہوئی ہوں۔‘‘ —ہن کانگ

(نوٹ: درج ذیل انٹرویو نوبیل انعام برائے ادب ۲۰۲۴ء  کا اعلان ہونے کے فوراً   نوبیل پرائز آرگنائزیشن کی نمائندہ جینی رائیڈن (Jenny Rydén) نے ٹیلی فون پر جنوبی کوریا کی انعام جیتنے والی شاعرہ و مصنفہ ہن کانگ سے لیا۔ اس کی آڈیو ریکارڈنگ نوبیل پرائز آرگنائزیشن کی آفیشل ویب سائٹ سے سنی جا سکتی ہے۔)

ہن کانگ:      

ہیلو

جینی رائیڈن:  

ہیلو، کیا آپ ہن کانگ ہیں؟

ہن کانگ:     

جی۔

جینی رائیڈن:  

میرا نام جینی رائیڈن ہے۔ مَیں نوبیل پرائز کی طرف سے آپ کو فون کر رہی ہوں۔

ہن کانگ:

ہاں، آپ سے بات کرنا بہت اچھا لگا۔

جینی رائیڈن:  

مجھے بھی آپ سے بات کرنا بہت اچھا لگ  رہا ہے۔ سب سے پہلے تو مَیں آپ کو مبارک باد دینا چاہوں گی۔

ہن کانگ:     

 شکریہ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

جینی رائیڈن:  

آپ عین اسی لمحے کیسا محسوس کر رہی ہیں؟

ہن کانگ:      

مَیں نہایت حیرت زدہ ہوں، اور یقیناً مجھے عزّت بخشی گئی ہے۔

جینی رائیڈن:  

آپ کو نوبیل انعام ملنے کے بارے میں کیسے پتا چلا؟

ہن کانگ:       

مجھے کسی مرد نے فون کِیا اور مجھ ےاِس خبر کے بارے میں بتایا تو یقیناً مجھے نہایت تحیّر ہوا۔اور تب مَیں  اُس وقت اپنے بیٹے کے ہمراہ رات کا کھانا کھا کر ہٹی ہی تھی کیوں کہ کوریا میں اُس وقت رات کے آٹھ بجے تھے۔ تو ہاں، یہ نہایت پُرامن شام تھی۔ مَیں حقیقتاً متحیّر تھی۔

جینی رائیڈن:   

اور آپ سیول میں اپنے گھر میں ہیں؟

ہن کانگ:     

ہاں، مَیں سیول میں اپنے میں ہوں۔

جینی رائیڈن:  

اور آپ دِن میں کیا کرتی رہیں؟

ہن کانگ:      

آج؟ آج مَیں نے کوئی کام نہیں کِیا، بس تھوڑا سا مطالعہ اورپیدل  سیر کی۔آج کا دِن میرے لیے خاصا سہل دِن تھا۔

جینی رائیڈن:  

جیسا کہ آپ نے بتایا کہ آپ اپنے بیٹے کے ہمراہ تھیں۔ اُن کا اِس پر کیا ردِّعمل تھا؟

ہن کانگ:      

میرا بیٹا بھی متعجب تھا لیکن ہمیں آپس میں گفتگو کرنے کا زیادہ  موقع نہیں ملا۔ہم حیرت زدہ تھے، اور بس۔

جینی رائیڈن:  

مَیں سمجھ سکتی ہوں۔ ادب میں نوبیل انعام کا ملنا آپ کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟

ہن کانگ:      

مجھے توقیر بخشی گئی اور مَیں واقعی آپ کی حوصلہ افزائی، انعام کی حوصلہ افزائی سے، کی تحسین کرتی ہوں، ۔بس  مَیں تحسین ہی کرتی ہوں۔

جینی رائیڈن:  

آپ جنوبی کوریا سے نوبیل انعام برائے ادب  پانے والی پہلی ہستی ہیں۔ یہ کیسا لگتا ہے؟

ہن کانگ:      

ہاں، آپ کو تو پتا ہے کہ مَیں کتابوں میں پلی بڑھی،اپنے بچپن ہی سے،کوریائی اور ترجمہ شدہ کتابوں میں بڑی ہوئی۔ پس، مَیں کہہ سکتی ہوں کہ میں کوریائی ادب کے ساتھ بڑی ہوئی، جو مجھے اپنے بہت قریب محسوس ہوتا ہے۔ اِس لیے مجھے توقع ہے کہ یہ خبر کوریائی ادب کے قارئین اور میرے دوستوں، لکھاریوں کے لیے بڑی خبر ہے۔

جینی رائیڈن:  

آپ نے بتایا کہ آپ کا پس منظر ادبی ہے۔ آپ کو تحرک دینے میں کن لکھاریوں نے اہم کردار ادا کِیا؟

ہن کانگ:      

میرے لیے، مَیں بچّی تھی تب ہی سے، تمام لکھاری اجتماعی تحرک بنے۔ وہ  زندگی کا مفہوم تلاش رہے ہیں۔ بعض اوقات وہ راہ کھو بیٹھتے ہیں اور بعض اوقات وہ پُرعزم ہوتے ہیں اور اُن کی تمام کوششیں اور طاقتیں میرے لیے باعثِ تحرک رہی ہیں۔لہٰذا میرے لیےاِس تحرک کے لیے چند نام چننا ازحد مشکل ہے۔نہایت ہی دشوار ہے میرے لیے۔

جینی رائیڈن:       

مَیں نے پڑھا تھا کہ سویڈش مصنفہ، آسٹرد لِنڈگرین (Astrid Lindgren)،  آپ کے لیے باعثِ تحرک رہے ہیں؟

ہن کانگ:      

ہاں۔ جب مَیں چھوٹی تھی تو  اُن کی کتاب Lionheart Brothers سے عشق کرتی تھی۔ اور اب بھی مجھے اُس کتاب سے محبت ہے، لیکن مَیں یہ نہیں کہہ سکتی کہ  اکیلی وہی لکھاری تھیں جنھوں نے مجھے میرے بچپن میں مجھے تحریک دی۔جب مَیں نے وہ کتاب، Lionheart Brothers ، پڑھی تو مَیں اُس کا تعلق انسان یا زندگی اور موت کے بارے میں اپنے سوالات سے جوڑ سکتی تھی۔

جینی رائیڈن:    

کسی ایسے شخص کو، جو آپ کے کام کو دریافت کرنا چاہے، آپ کہاں سے آغاز کرنے کی تجویز دیں گی؟

ہن کانگ:      

میری کتابوں میں سے؟ میرا خیال ہے کہ ہر لکھاری اپنی تازہ ترین کتاب ہی کو چاہتا ہے۔پس مَیں اپنی تازہ ترین کتاب ’’ہم جدا نہیں ہوتے‘‘ (We Do Not Part)، یا  اِ سے ’’مَیں الوداع نہیں کہتی‘‘ (I Do Not Bid Farewell)، یا ’’ناممکن خدا حافظ کہنا‘‘ (Impossible Goodbyes) بھی کہتے ہیں۔ اور ’’انسانی افعال‘‘ (Human Acts) اِس کتاب ’’ہم جدا نہیں ہوتے‘‘ (We Do Not Part) سے براہِ راست جڑی ہوئی ہے۔ اور پھر ہے ’’سفید کتاب‘‘ (The White Book)، جو میرے لیے بے حد ذاتی کتاب ہے۔ کیوں کہ یہ مکمل طور پر آپ بیتی ہے۔ اور پھر ’’سبزی خور‘‘ (The Vegetarian) ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ’’ہم جدا نہیں ہوتے‘‘ سے آغاز کِیا جا سکتا ہے۔

جینی رائیڈن:  

ایک عالمی قاری کے لیے ، شاید ’’سبزی خور‘‘زیادہ معروف ہے۔آپ کے لیےبالخصوص یہ ناول کیا اہمیت رکھتا ہے؟

ہن کانگ:      

مَیں نے اِسے تین برسوں میں لکھا، اور وہ تین برس بوجوہ میرے لیے مشکل سال تھے۔اِس لیے میرا خیال ہے کہ مَیں مرکزی کردار، اُس کے اِردگرد کے لوگوں، پیڑوں کی اشکال، دھوپ اور ہر ہر چیز  کی تخیل کاری کی سعی کر رہی تھی، اوراُن برسوں کے دوران میں  ہر شےمجھ پر خوب عیاں تھی۔

جینی رائیڈن:  

مَیں بس تھوڑی ہی دیر میں آپ کو فارغ کر دوں گی۔ کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ آپ اِس نوبیل انعام  کو خوشی کو کیسے منائیں گی؟

ہن کانگ:      

اِس فون کے بعد مَیں چائے پینا چاہوں گی— میرا نہیں خیال— مَیں اپنے بیٹے کے ساتھ چائے پیوں گی اور مَیں آج خاموشی سے یہ خوشی مناؤں گی۔

جینی رائیڈن:  

نہایت عمدہ۔ جی۔ ایک مرتبہ پھر ڈھیروں مبارک باد۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

ہن کانگ:      

شکریہ۔

جینی رائیڈن:  

بہتر۔ خدا حافظ۔

ہن کانگ:

اپنا خیال رکھیے۔ الوداع۔

:::

]انگریزی متن بشکریہ ٹیلی فونک آڈیو ریکارڈنگ ’’نوبیل پرائز آرگنائزیشن‘‘[

Authors

  • ادب کے نوبیل انعام ۲۰۲۴ء کا اعلان کرتے ہوئے منصفین نے ہن کانگ کو نوبیل انعام کا حق دار قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کِیا: ’’اُن کی پُرزور شاعرانہ نثر کے لیے جو تاریخی صدمات کا مقابلہ کرتی ہے اور انسانی زندگی کی بے ثباتی کو عیاں کرتی ہے۔‘‘ وہ نوبیل انعام پانے والی پہلی کوریائی شاعرہ/ مصنفہ ہیں جب کہ کل نوبیل جیتنے والے کل ۱۱۹ شعرا و ادبا میں سترھویں خاتون ہیں — اُن سے قبل ۱۶ خواتین یہ اعزاز حاصل کر چکی ہیں — اور ایشیا سے نوبیل انعام کے فاتحین میں اُن کا نمبر نواں ہے۔ ہن کانگ ۲۷ نومبر، ۱۹۷۰ء کو جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں پیدا ہوئیں مگر نو سال کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ سیول منتقل ہو گئی تھیں۔ اُن کا اپنا ایک ادبی پس منظر ہے۔ اُن کے والد ایک نامور ناول نویس تھے۔ اپنے لکھنے پڑھنے کے کام کے ساتھ ساتھ، اُنھوں نے اپنے آپ کو فنونِ لطیفہ اور موسیقی کے لیے بھی وقف کر رکھا ہے، جس کی عکاسی اُن کے تمام ادبی کاموں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ ہن کانگ نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز ۱۹۹۳ء میں ’’ادب اور معاشرہ‘‘ نامی کوریائی میگزین میں متعدد نظموں کی اشاعت سے کیا۔ اُن کی نثر کی شروعات ۱۹۹۵ء میں افسانوی مجموعے ’’یوہسُو کی محبت‘‘ سے ہوئی (یوہسُو ، جنوبی کوریا کا ایک ساحلی شہر)۔ جس کے فوراً بعد اُن کے بہت سے نثری کام، ناول اور افسانوں کے مجموعے منصۂ شہود پر آئے۔ جن میں سے قابل ذکر ناول ’’تمھارے یخ ہاتھ‘‘ ۲۰۰۲ء ہے۔ اِس میں فنونِ لطیفہ میں ہن کانگ کی دلچسپی کے واضح آثار موجود ہیں۔ یہ ناول ایک لاپتہ مجسمہ ساز کے، جو خواتین کے بدنوں کےمجسمے پلاسٹر آف پیرس سے بنانے کا جنونی ہے، اپنے پیچھے چھوڑے گئے ایک مخطوطہ کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ اِس میں انسانی علم الاعضا اور شخصیت و تجربے کےمابین کھیل کا استغراق ہے، جہاں مجسمہ ساز کے کام میں ایک تنازع جنم لیتا ہے کہ جسم کیا ظاہر کرتا اور کیا چھپاتا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے آخر میں ایک جملہ واضح اصرار کرتا ہے: ’’زندگی ایک پاتال پر تنی ہوئی چادر ہے، اور ہم اِس پر نقاب پوش بازی گروں کے مانندرہتے ہیں۔‘‘ ہن کانگ کو نمایاں بین الاقوامی شہرت ۲۰۰۷ء میں اشاعت پذیر ہونے والے اُن کے ناول ’’سبزی خور‘‘ سے ملی جس کا ۲۰۱۵ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ ’’دی ویجیٹیرین‘‘‘ کے عنوان سے ہوا۔ تین حصوں پر مشتمل اِس ناول میں اُن متشدد عواقب کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اُس وقت رونما ہوتے ہیں جب ناول کی مرکزی کردار ییونگ ہائے کھانا کھانے کی مروجہ اقدار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ اس کے گوشت نہ کھانے کے فیصلے پر مختلف، یکسر مختلف رد ِّعمل سامنے آتے ہیں۔ اُس کے رویے کو اُس کا شوہر اور جابر باپ دونوں سختی سے مسترد کر دیتے ہیں، اور اُس کے بصری فنکار (ویڈیو آرٹسٹ) بہنوئی کے ہاتھوں اُس کا شہوانی و جمالیاتی استحصال ہوتا ہے جو اُس کے غیر فعال جسم کے جنون میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بالآخر، اُسے ایک نفسیاتی علاج گاہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے، جہاں اُس کی بہن اُسے بچانے اور اُسے ’’معمول کی زندگی‘‘ میں واپس لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم ییونگ ہائے ایک گہری نفسیاتی کیفیت میں مزید ڈوب چکی ہوتی ہے جس کا اظہار ’’بھڑکتے ہوئے درختوں‘‘ (درختوں کی ایک قسم، جس کے پتے گہرے سرخ اور بڑے ہوتے ہیں جس سے یوں لگتا ہے جیسے اُس میں آگ بھڑکی ہوئی ہو۔ یہ درختوں کی سلطنت کے بادشاہی کی علامت بھی ہے اور یہ جتنا دلکش دکھائی دیتا ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہوتا ہے۔) کی علامت کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ایک اور پلاٹ پر مبنی کتاب ’’ہَوا چلتی ہے، جاؤ‘‘ہے، جو ۲۰۱۰ء میں منظرِ عام پر آئی اور دوستی اور فن کے بارے میں ایک ضخیم اور پیچیدہ ناول ہے، جس میں دُکھ اور تبدیلی کی آرزو اپنی بھرپور شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ ہن کانگ کی کہانیوں میں زندگی کی شدتوں کو سہتے جسموں سے ہمدردی کی تصویر کشی کےلیے اُنھیں اپنے بے حد قوی استعاراتی انداز سے تقویت ملتی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ’’یونانی اسباق‘‘- ۲۰۲۳ء، دو غیر محفوظ افراد کے درمیان غیر معمولی تعلق کی ایک دلکش تصویر کشی ہے۔ ایک نوجوان عورت، جو کئی تکلیف دہ تجربات کے بعد اپنی قوت گویائی کھو چکی ہے،ازمنۂ قدیم کے یونان میں اپنی استاذ سے رابطہ کرتی ہے، جو خود اپنی بینائی کھو رہی ہے۔ اُن کی اِن اپنی خامیوں سے، ایک سوختہ و خستہ محبت پروان چڑھتی ہے۔یہ ناول خسارے، قربت اور زبان کے حتمی حال و قال کے چوگرد ایک خوبصورت مراقبہ ہے۔ کوریائی زبان میں ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والے ناول ’’انسانی افعال‘‘، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۶ء میں ’’ہیومن ایکٹس‘‘کے عنوان سے ہوا، میں اِس مرتبہ ہن کانگ نے اپنی سیاسی بنیاد کو برتتے ہوئے ایک تاریخی واقعہ پیش کِیا جو گوانگجو شہر میں پیش آیا تھا، جہاں وہ خود پلی بڑھی اور جہاں سینکڑوں طلبہ اور غیر مسلح شہریوں کا ۱۹۸۰ء میں جنوبی کوریا کی فوج نے قتلِ عام کِیا تھا۔ تاریخ کے متأثرین کی آواز بننے کی کاوش میں، وہ اپنے اِس ناول میں اِس واقعہ کو سفاکانہ حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کرتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے، ادبی گواہی کی صنف تک پہنچتی ہیں۔ ہن کانگ کا انداز، جتنا بصیرت آمیز ہے اُتنا ہی جامع و مختصر بھی۔ اس کے باوجود ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا جس کی خاص مصلحت یہ ہے کہ مُردوں کی روحوں کو اُن کے بدنوں سے جدا ہونے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی فنا کا خود مشاہدہ کر سکیں۔ کچھ خاص مقامات پر، ناقابلِ شناخت لاشوں کے نظر آنے پر جنھیں کفن دفن نصیب نہیں ہوا ہوتا، متن سوفوکلس کے اینٹی گون کے مرکزی خیال سے رجوع کرتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ہن کانگ کا اگلا پڑاؤ تھا: ’’سفید کتاب‘‘۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں اگلے ہی برس ۲۰۱۷ء میں ’’سفید کتاب‘‘ کے عنوان سے ہو گیا۔اِس ناول میں ایک بار پھر ہن کانگ کا شاعرانہ اندازحاوی نظر آیا۔ یہ کتاب اُس شخص کے نام انتساب کی گئی ہے جو اپنی بڑی بہن کا خود بیانیہ ہو سکتا تھا، لیکن وہ تو پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی چل بسی تھی۔ مختصر وضاحتوں کی ترتیب میں، جو تمام تر سفید اشیاء کے بارے میں ہیں جنھیں ایک لڑی میں پرویا گیا ہے کہ سفید رنگ غم و حزن کا رنگ ہے۔ یہی چیز اِسے ایک ناول کم اور ایک قسم کی ’’سیکولر دعائیہ کتاب‘‘ کا درجہ دیتی ہے، جیسا کہ یہی بیان بھی کیا گیا ہے۔ اگر راوی کی، یہ توجیہ راوی ہی پیش کرتا ہے، خیالی بہن کو زندہ رہنے دیا جاتا تو وہ خود بھی اپنے آپ کو وجود میں نہ آنے دیتی۔ مرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ، جس پر کتاب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے: ’’اُس سفید کے اندر، اُن تمام سفید چیزوں میں، مَیں اپنی آخری سانس اُس سانس میں لوں گا جو تم نے خارج کی تھی۔‘‘ ہن کانگ کی ایک اور خاص تخلیق اُن کا ۲۰۲۱ء میں منصۂ شہود پر آنے والا تازہ ترین ناول ’’ ہم جدا نہیں ہوتے ‘‘ الم و حزن کی تصویر کشی کے حوالے سے گہرے طور پر ’’ سفید کتاب ‘‘سے جڑی ہوئی ہے۔اِس کی کہانی ۱۹۴۰ء کی دہائی کے اواخر میں جنوبی کوریا کے جزیرے جیجو پر ہونے والے ایک قتل عام کو سامنے لاتی ہے، جس میں لاکھوں لوگوں کو، جن میں بچّے اور بوڑھے بھی شامل تھے، محض ساتھی ہونے کے شبہ میں گولی مار دی گئی۔ اِس ناول میں راوی اور اُس کے دوست اِنسیون کی مشترکہ سوگ منانے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ دونوں اِس سانحے کے کافی عرصے بعد تک اپنےعزیز و اقارب کی بربادی کے صدمے کو برداشت کرتے ہیں۔ تخیل کے ساتھ، جو کہانی کے عین اُتنا ہی مطابق ہے جتنا کہ کثیف، ہن کانگ نہ صرف ماضی کی طاقت کو حال پر منتج کرتی ہیں بلکہ اتنی ہی قوت کے ساتھ وہ دوستوں کی اُن بے لوث کوششوں کو منظر عام پر لانے کے لیےکھوج بھی لگاتی ہیں جو اجتماعی غفلت کا شکار ہوئیں۔ اِس طرح یہ اُن دونوں دوستوں کا ایک مشترکہ آرٹ پروجیکٹ میں صدمہ بن جاتا ہے، جو کتاب کو اِس کا عنوان فراہم کرتا ہے۔ دوستی کی گہری ترین شکل کی صورت میں یہ ناول جتنا وراثتی المیے کو بیان کرتا ہے اُتنا ہی ڈراونے خوابوں کو بھی اور ادبی گواہی کی حق گوئی کے رجحان کے درمیان بڑی اصلیت کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ ہن کانگ کے تمام کام کی خصوصیت الم و حزن کی ایسی دوہری تصویر کشی عبارت ہے جو مشرقی سوچ سے قریبی تعلق کے ساتھ ساتھ ذہنی اور جسمانی اذیت کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ ۲۰۱۳ء کے ناول ’’رُوبہ صحت‘‘ میں ٹانگ کا السر شامل ہے جو ٹھیک ہونے سے انکار کرتا ہے، اور مرکزی کردار اور اس کی مردہ بہن کے مابین ایک تکلیف دہ رشتہ۔ کوئی حقیقی صحت یابی کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتی، اور درد ایک بنیادی وجودی تجربے کے طور پر ابھرتا ہے جسے کسی گزرتے ہوئے عذاب میں کسی طور کم نہیں کیا جا سکتا۔ ’’سبزی خور‘‘ جیسے ناول میں بھی کوئی سادہ سی وضاحت فراہم نہیں کی گئی۔ جب کہ اِس ناول میں منحرف عمل اچانک اور دھماکہ خیز طور پر صاف انکار کی صورت میں ہوتا ہے، جس میں مرکزی کردار خاموش رہتا ہے۔ ۲۰۱۲ء کی مختصر کہانی، جس کا انگریزی میں ترجمہ ۲۰۱۹ء میں ’’یوروپا‘‘کے عنوان سے ہوتا ہے، ایک ایسے مرد راوی کو سامنے لاتی ہے جو اپنے آپ کو عورت کے بھیس میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایک چیستاں عورت کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے جو ایک ناممکن شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ بیانیہ خود تو چپ رہتا ہے لیکن جب اُس کی محبوبہ دریافت کرتی ہے: ’’اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوتے تو آپ اپنی زندگی کا کیا کرتے؟‘‘ لیکن یہاں تکمیل یا کفارہ کی کوئی گنجائش نہیں ملتی۔ ہن کانگ اپنی تخلیقات میں، تاریخی سانحات اور پوشیدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ مبارزت اور اپنی ہر لکھت میں انسانی زندگی کی بے ثباتی کو کھول کر بیان کرتی ہیں۔ وہ جسم اور روح، زندہ اور مردہ کے درمیان رشتے کے بارے میں ایک منفرد آگہی رکھتی ہیں، اوراُنھوں نے اپنے آپ کو اپنے شاعرانہ اور تجرباتی انداز میں عصری نثر میں ایک اختراعی کی حیثیت سے منوا لیا ہے۔ 

    View all posts
  • Najam-uddin, Urdu Literature - Urdu Fictionist - Urdu Writer - Urdu Novelist - Urdu Short Story Writer - Translator from English to Urdu and Urdu, and Sarariki to English

    نجم الدین احمد انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

    View all posts

4 thoughts on “ہن کانگ”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *