تراجم عالمی ادب

صفیہ ہارون

عالمی یومِ ترجمہ

زبانوں کے درمیان پل اور فکری وسعت کی علامت

آج ۳۰ ستمبر کا دن اپنی نوعیت میں ایک خاص احساس رکھتا ہے۔ یہ دن ایک ایسی ٹھنڈک کا حامل ہے جو لسانی رکاوٹوں کو پگھلا کر مختلف زبانوں کے درمیان پل تعمیر کرتا ہے۔ آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ دن پشتو بولنے والے کو عبرانی سمجھا دے یا اردو کے قاری کو فرانسیسی سکھا دے۔ یہ دن دوریوں کو مٹانے، محبت اور علم کے چراغ کو مختلف زبانوں میں منتقل کرنے کا ہے۔ گویا آج ”عالمی یومِ ترجمہ“ تراجم کا وہ دن ہے جس میں مختلف ثقافتوں کے ادبی شاہکاروں کو ایک نئی زبان میں ڈھال کر دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے۔

ترجمہ ایک فن ہے جس کے ذریعے ایک زبان کا ادب، ثقافت اور فکری سرمایہ دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ دونوں تہذیبوں کے درمیان فکری، جذباتی اور ثقافتی تبادلوں کا عمل جاری رہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں، انسانوں نے اپنے تجربات، احساسات اور خیالات کو دوسری زبانوں کے ذریعے دوسروں تک پہنچایا۔ یہ سفر مختلف ادوار میں مختلف انداز سے جاری رہا اور مترجمین نے اس کام کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ وہ محض الفاظ کا ترجمہ نہیں کرتے، بل کہ ان میں چھپی روح کو بھی منتقل کرتے ہیں۔

ترجمہ، لفظوں کی محض منتقلی نہیں، بل کہ ایک ثقافت سے دوسری ثقافت کو فکری دولت دینے کا ذریعہ ہے۔ جب کسی زبان کی تحریر کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو اس زبان کی تہذیب، تاریخ اور فلسفہ بھی منتقل ہوتا ہے۔ ایک مترجم اس پل کا معمار ہوتا ہے جس کے ذریعے دو مختلف زبانوں کی دنیا آپس میں ملتی ہیں۔ اس عمل میں مترجم ایک سفیر کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف زبان، بل کہ اس کے پسِ منظر میں موجود معاشرتی اور جذباتی پہلوؤں کو بھی درست طریقے سے آگے بڑھاتا ہے۔

مترجمین کو اکثر اس چیلنج کا سامنا ہوتا ہے کہ زبان کی مخصوص لسانی ساخت اور اصطلاحات کو دوسری زبان میں کیسے منتقل کیا جائے؟ بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ایک زبان میں موجود ہوتی ہیں لیکن دوسری زبان میں ان کے عین مطابق الفاظ موجود نہیں ہوتے۔ یہیں پر مترجم کی صلاحیت اور ذہانت کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ مترجم کو یہ فن آنا چاہیے کہ وہ نہ صرف زبان بل کہ اس زبان کے پس پردہ موجود معنی اور احساسات کو بھی منتقل کرے۔

تاریخ میں بے شمار مترجمین نے دنیا کو عالمی ادب اور فکر سے روشناس کروایا ہے۔ ہرمن ہیسے، جس کا ناول ”سدھارتھ“ دنیا بھر میں مشہور ہے، اسی طرح فارسی کے بڑے شاعر مولانا رومی، جن کی مثنوی کا ترجمہ دنیا کی تقریباً ہر بڑی زبان میں ہو چکا ہے۔ اسی طرح جلال الدین رومی کا فارسی کلام جس کو انگریزی، عربی، فرانسیسی اور اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں منتقل کیا گیا، اس نے دنیا بھر میں روحانیت اور فکر کے نئے دریچے کھولے۔

ہر زبان کی اپنی ایک مخصوص ثقافتی اور فکری شناخت ہوتی ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے ترجمے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ مترجمین کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے مختلف گوشوں میں بیٹھے ہوئے انسان ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر گارسیا مارکیز کی جادوئی حقیقت نگاری ہو یا نجیب محفوظ کے مصری معاشرے کی گہرائیوں کا بیان، ان سب کا اردو اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تاکہ دنیا بھر کے قارئین ان کی تخلیقات سے مستفید ہو سکیں۔

کثیراللسان افراد، جنھیں بیک وقت کئی زبانوں پر عبور ہوتا ہے، انھیں بھی بھی زندگی کے بعض مراحل میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک سے زیادہ زبانیں جاننے والے افراد کو اکثر ایسی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے جہاں اُنھیں ایک زبان میں سوچنا اور دوسری زبان میں اظہار کرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل بعض اوقات ذہنی الجھن اور رکاوٹ کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ ہر زبان کا اپنا مخصوص اظہار ہوتا ہے اور الفاظ کا مفہوم مختلف ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کسی اردو بولنے والے کو فرانسیسی میں ترجمہ کرنا ہو تو اسے فرانسیسی زبان کے نہ صرف قواعد کو مدنظر رکھنا ہوگا بل کہ فرانسیسی ثقافت اور اس کے سیاق و سباق کو بھی سمجھنا ہوگا تاکہ وہ درست اور معیاری ترجمہ کر سکے۔ اسی طرح کثیراللسان افراد کو مختلف زبانوں کے مابین احساسات اور جذبات کو منتقل کرنے میں بھی مشکل پیش آ سکتی ہے، کیونکہ ہر زبان میں الفاظ کے پیچھے چھپے معنی اور مفہوم مختلف ہوتے ہیں۔فرانسیسی ادب کو اردو قالب میں ڈھالنے کے لیے ہمارے ہاں سر شوکت نیازی کے تراجم کی مثال دی جا سکتی ہے۔

جدید دور میں ترجمے کی دنیا میں ٹیکنالوجی نے بہت آسانیاں فراہم کی ہیں۔ مختلف خودکار تراجم کے سافٹ ویئرز اور گوگل ٹرانسلیٹ جیسے پلیٹ فارمز نے مترجمین کا کام آسان کر دیا ہے، لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خودکار تراجم کبھی بھی انسانی تراجم کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ انسانی ذہانت اور احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت ابھی تک کسی کمپیوٹر میں پیدا نہیں ہو سکی، اس لیے اصل روح کے ساتھ ترجمہ کرنے کے لیے انسانی مترجم کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔

ترجمہ نگاری کا فن مسلسل سیکھنے اور محنت کا متقاضی ہے، کیوں کہ ہر زبان کی مخصوص لسانی ساخت اور قواعد ہوتے ہیں، جنھیں درست طریقے سے سمجھنا اور ان کا ترجمہ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بڑے ادارے، جیسے اقوامِ متحدہ، اپنے اجلاسوں میں مترجمین کی خدمات لیتے ہیں تاکہ مختلف زبانوں میں گفت گو کا درست ترجمہ ہو سکے۔

عالمی یومِ ترجمہ دراصل ان مترجمین کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے جو اپنی محنت اور قابلیت سے مختلف زبانوں کے درمیان پل بناتے ہیں۔ یہ دن ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ زبانوں کا فرق انسانیت کو تقسیم کرنے کی بجائے اسے ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے۔ یہ مترجمین ہی ہیں جو مختلف زبانوں کے علم، فکر اور ادب کو ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں اور انسانیت کے فکری خزانے میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

ترجمے کا عمل محض الفاظ کا تبادلہ نہیں بل کہ ایک تہذیبی سفر ہے جو مختلف ثقافتوں اور زبانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ یہ مترجمین ہی ہیں جو ایک زبان کی خوبصورتی اور معانی و مطالب نیز مفاہیم کو دوسری زبان میں منتقل کر کے دنیا کو مزید قریب لانے میں مدد کرتے ہیں۔ عالمی یومِ ترجمہ ہمیں اس عظیم فن کی قدردانی کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ علم کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور مترجمین کی خدمات اس علم کو تمام دنیا تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

لسانی رابطوں کا طلسماتی سفر

آج کا دن اُس خوشبو کی مانند ہے جو حیات کی سانسوں میں رچی ہوئی ہے، جو الفاظ کی زبانوں سے ٹپکتی ہے اور جو دلوں کے دریچوں میں صدیوں سے مقفل خیالات کو ایک نئی روشنی عطا کرتی ہے۔ گویا یہ دن اُس نور کی طرح ہے جو سمندروں کے پار، پہاڑوں کے پیچھے اور صحراؤں کی وسعتوں میں کھوئے ہوئے ادبی جواہرات کو ایک نئی زبان کی صورت میں نئی حیات بخشتا ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے، جس میں زبانیں، جیسے محبت کی کوئی مخفی کائنات ہوں، ایک دوسرے کے گلے ملتی ہیں اور تہذیبوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔

ترجمہ، لسانی فضا میں محبت کا پل ہے۔ ترجمہ، ایک ایسا عمل ہے جس میں محض الفاظ کا تبادلہ نہیں بل کہ تہذیبوں کا عطر کشید کیا جاتا ہے۔ یہ ایک فکری، جذباتی اور ثقافتی پل ہے جو دنیا کے مختلف گوشوں سے گزرتا ہوا دلوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ ترجمہ وہ دروازہ ہے جس کے ذریعے ہم ایک اجنبی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور وہی دنیا ہمارے لیے اپنی خوشبو، اپنا رنگ اور اپنی معنویت کھول دیتی ہے۔

فرانسیسی ادب کے اعلیٰ شاہکاروں کو اردو میں ڈھالنے کا جب ذکر آئے تو سر شوکت نیازی کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے درج ہوتا ہے۔ ان کے قلم سے ایسا جادو ٹپکا کہ فرانسیسی ادب کے پیچیدہ موضوعات اور لسانی خوبصورتی کو اردو کی شیریں زبان میں اس طرح ڈھالا کہ گویا فرانسیسی ادبیات کی خوشبو اردو کے بام و در میں بکھر گئی۔ اُن کے ترجمے محض زبان کا تبادلہ نہیں، بل کہ وہ ایک علمی و روحانی تجربہ ہیں جو قاری کو فرانسیسی تہذیب کے حسن سے روشناس کراتا ہے۔

نجم الدین احمد اردو کے مایہ ناز مترجمین میں سے ایک ہیں جنھوں نے ترجمہ نگاری کے فن کو اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے۔ ان کی ترجمہ شدہ کہانیوں میں ایک ایسی چاشنی اور روانی ہے کہ قاری نہ صرف مواد کے اصل مفہوم تک پہنچتا ہے  بل کہ اس کے ساتھ ایک ایسا فکری اور جذباتی رشتہ قائم ہوتا ہے جو کسی بھی ترجمے کا اصل مقصود ہونا چاہیے۔ نجم الدین احمد نے نہ صرف لفظی ترجمے کی روایت کو مسترد کیا  بل کہ انھوں نے اس میں گہرائی اور احساسات کی ان کہی پرتیں بھی شامل کیں جو کسی فن پارے کو عالمی معیار بخشتی ہیں۔

ترجمہ کاری ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے جس میں مترجم کو دو زبانوں کے بیچ محض الفاظ کا تبادلہ نہیں کرنا ہوتا، بلکہ ثقافتی، سماجی، اور لسانی تہذیبوں کے پیچیدہ خطوط کو بھی سمجھنا ہوتا ہے۔ نجم الدین احمد اس ہنر میں ماہر و یکتا ہیں کہ وہ اصل مصنف کے بیان کردہ جذبات اور پیغام کو اردو زبان کے مخصوص ذوق اور تہذیبی معیار کے مطابق ڈھال دیتے ہیں۔ ان کے ترجمے نہ صرف وفادار ہوتے ہیں بل کہ اردو کی نثری روایات کو بھی بام عروج تک پہنچاتے ہیں۔

”نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں“ جیسا شاہکار مجموعہ اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ نجم الدین احمد نے عالمی ادب کے شاہکاروں کو اردو زبان کے سانچے میں ڈھالنے کا جو بیڑا اٹھایا، اس میں وہ نہایت کامیاب رہے ہیں۔ ان کا ترجمہ محض سادہ زبان میں کہانی کو پیش کرنے تک محدود نہیں ہے بل کہ وہ ہر کہانی کے اندر چھپے ہوئے فلسفیانہ، نفسیاتی اور معاشرتی عوامل کو اردو زبان میں نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں۔

ترجمہ کاری کے اس میدان میں نجم الدین احمد کا اسلوب منفرد ہے۔ وہ ہر کہانی میں موجود لسانی اور ادبی ظرافت کو اس قدر خوبصورتی سے منتقل کرتے ہیں کہ قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اصل متن کو پڑھ رہا ہے، بل کہ ایک ایسی دنیا میں داخل ہو رہا ہے جہاں اردو زبان کی لطافت اور نغمگی اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس لحاظ سے، نجم الدین احمد کے ترجمے اردو زبان کی وسعت اور تنوع کو نئے افقوں تک لے جاتے ہیں۔نجم الدین احمد کا ترجمہ کاری کا فن ان کی گہری ادبی فہم اور مختلف ثقافتوں کے ادب کو سمجھنے کی صلاحیت کا عکاس ہے۔ وہ اپنے تراجم میں اصل متن کے ساتھ اردو کی ثقافتی اور ادبی قدروں کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ان کا یہ فن اور انداز اردو کے چند مترجمین میں اُنھیں ایک خاص مقام عطا کرتا ہے۔

انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے میں ایک اور نام یاسر جواد کا بھی ہے۔ یاسر جواد اور نجم الدین احمد کا کمالِ فن انگریزی ادب کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے والوں میں یاسر جواد اور نجم الدین احمد کے نام اردو کے ادبی منظرنامے پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ دونوں مترجمین نے انگریزی زبان کے شاہکاروں کو اردو میں یوں منتقل کیا کہ زبان کے ساتھ ساتھ ادب کی روح بھی مجسم ہو کر قاری کے دل میں جاگزیں ہوتی چلی گئی۔ یاسر جواد کی ترجمہ نگاری میں جہاں عالمی ادب کی جادوئی حقیقت نگاری کا عکس ہے، وہیں نجم الدین احمد کے تراجم انسانی احساسات کی باریکیوں کو بے حد لطیف انداز میں قاری تک پہنچاتے ہیں۔

یاسر حبیب نے اردو ادب میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے منتخب عالمی افسانوں کو ”خدا کے نام خط“ کے عنوان سے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کے اس کارنامے میں نہ صرف عالمی افسانوں کی عمدہ ترجمہ کاری شامل ہے بل کہ اُنھوں نے مختلف ثقافتی اور ادبی پس منظر کے افسانوں کو اردو قارئین کے لیے نہایت مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔یاسر حبیب کے تراجم میں جو تخلیقی صلاحیت اور فنی مہارت نظر آتی ہے، وہ ان کی ذاتی ادبی بصیرت اور گہرے ادبی مطالعے کی عکاسی کرتی ہے۔ ”خدا کے نام خط“ کے ذریعے وہ نہ صرف مختلف ثقافتوں کی کہانیوں کو اردو میں منتقل کرتے ہیں بل کہ ان کہانیوں کی روح اور معنویت کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔ ان کا یہ کام اردو ادب میں عالمی افسانوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور قاری کو مختلف زاویوں سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ان کی اس کاوش نے اردو کے ادبی منظرنامے میں نئی جہتوں کا اضافہ کیا ہے اور یہ افسانے اردو ادب کے لیے ایک قیمتی اضافہ ہیں، جو عالمی ادبی روایت سے اردو کے قارئین کو متعارف کراتے ہیں۔

حمید رازی پنجابی زبان کے ایک معروف مترجم ہیں، جنھوں نے عالمی ادب کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھال کر اردو اور پنجابی ادب کے قارئین کے لیے ایک عظیم ادبی خدمت انجام دی ہے۔ ان کا کام نہ صرف پنجابی زبان کی ترقی اور ترویج کے حوالے سے نمایاں ہے بل کہ اُنھوں نے مختلف زبانوں کے شاہکاروں کو پنجابی میں منتقل کر کے عالمی ادبی ورثے کو مقامی سطح پر پہنچایا ہے۔ سر حمید رازی کی خدمات کا دائرہ صرف ترجمے تک محدود نہیں بل کہ انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے پنجابی زبان کے قارئین کو عالمی ادب کے بہترین نمونوں سے روشناس کروایا ہے۔ اُنھوں نے مختلف عالمی ادبی شاہکاروں کو پنجابی میں ڈھالا، جس سے نہ صرف ادب کا معیار بلند ہوا بل کہ پنجابی زبان کی ثروت میں بھی اضافہ ہوا۔

حمید رازی کا یہ کارنامہ پنجابی زبان اور ادب کی خدمت کے حوالے سے ناقابل فراموش ہے۔ ان کی ترجمہ کردہ کتابوں نے پنجابی زبان کے قارئین کو وہ عالمی ادبی شہ پارے فراہم کیے ہیں، جو ان تک شاید کبھی نہ پہنچتے۔ ان کے کام نے اس بات کو ثابت کیا کہ ترجمہ محض الفاظ کا نہیں بل کہ خیالات، ثقافتوں اور احساسات کا تبادلہ ہوتا ہے، جو مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ سر حمید رازی جیسے مترجمین کی خدمات کی بدولت پنجابی ادب کی دنیا میں نئے دروازے کھل چکے ہیں اور اُنھوں نے عالمی ادب کے شہ پاروں کو پنجابی زبان میں ڈھال کر ایک لازوال ادبی کارنامہ انجام دیا ہے، جس سے پنجابی زبان کا خزانہ اور بھی مالا مال ہوا ہے۔

پنجابی زبان میں ترجمہ کرنا ایک الگ ہی جہانِ فن ہے اور اس فن میں سید عاطف شاہ کی خدمات بے مثال ہیں۔ پنجابی کے دل کش لہجے میں عالمی ادب کی خوبصورتی کو یوں پرویا کہ گویا پنجابی زبان میں وہ الفاظ پہلے ہی سے موجود تھے، فقط ایک مترجم کی آنکھ اُنھیں دیکھ نہ پائی تھی۔ سید عاطف شاہ نے اپنی علمی اور فکری گہرائی سے پنجابی زبان کو نئے فکری خزانے بخشے اور پنجابی قاری کو عالمی ادب کی روشنی سے منور کیا۔

جب بات عربی سے اردو ترجمہ کی ہو تو محمد فیصل شہزاد کا نام بغیر کسی تمہید کے ذہن میں آتا ہے۔ اُنھوں نے عربی کے مشکل اور دقیق فلسفیانہ اور دینی موضوعات کو اردو میں اس مہارت کے ساتھ ڈھالا کہ قاری کو ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے کا احساس ہوتا ہے، جہاں الفاظ کی خوبصورتی اور معنی کی گہرائی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اُن کے تراجم صرف کتابوں کا منتقل کیا ہوا علم نہیں بل کہ وہ ایک نئی فکری تحریک ہیں جو اردو زبان کو عربی ادب کے قیمتی خزانوں سے متعارف کراتی ہے۔ ترجمے کی دنیا میں وہ لوگ اپنی خدمات کا بیش قیمت چراغ جلاتے ہیں جو مختلف زبانوں کے دریا عبور کر کے قاری تک معنی کی روشنیاں پہنچاتے ہیں۔ یہ عظیم مترجمین دراصل لسانی کائنات کے ستارے ہیں، جو دور دراز کے ادبی اور فکری جزیروں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔

محمد فیصل علی کا شمار ان ادبا و مترجمین میں ہوتا ہے جنھوں نے بچوں کے ادب میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ عربی زبان کے معروف مزاحیہ کردار جحا کی پچیس کہانیوں کا ترجمہ ان کی بے مثل قابلیت کا ثبوت ہے۔ ان کہانیوں کے تراجم نے نہ صرف بچوں کی ذہنی نشوونما میں اضافہ کیا بلکہ ان کی ادبی فہم کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ فیصل علی نے اپنی ترجمہ کاری میں جو طرزِ تحریر اپنایا ہے، وہ نہایت جامع اور پُراثر ہے، جس میں زبان کی نزاکت اور ادبی لطافت کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔

مزید برآں، فیصل علی نے پانچ ڈرامے اور تیس سے زائد کہانیاں بھی مختلف مقبول عام بچوں کے رسائل جیسے تعلیم و تربیت، ادبیات اطفال، بچوں کا باغ، اور جگنو میں شائع کی ہیں۔ ان کی تحریریں نہ صرف تفریحی ہیں بل کہ اخلاقی درس اور تربیت کے پہلو سے بھی بھرپور ہیں۔ ان کے تراجم کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اُنھوں نے عربی ادب کی معنوی گہرائی کو اردو زبان کی لطافت میں ڈھال کر پیش کیا ہے، جس سے اردو ادب کی ثروت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

محمد فیصل علی کی ترجمہ کاری کو فنی اور ادبی لحاظ سے قابلِ ستائش قرار دیا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے زبان کی پیچیدگی اور دقیق معانی کو آسان فہم انداز میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ لفظیات کی لطافت اور جملوں کی دلکشی کو بھی برقرار رکھا ہے۔ ان کی ترجمہ شدہ کہانیاں نہ صرف بچوں کے لیے دلکش اور دلچسپ ہیں بل کہ ادبی حلقوں میں بھی ان کی پذیرائی کی گئی ہے، کیوں کہ اُنھوں نے عربی ادب کو ایک نئے انداز میں اردو زبان میں متعارف کروایا ہے۔

یوں محمد فیصل علی کی خدمات نہ صرف بچوں کے ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہیں بل کہ ترجمہ کاری کے میدان میں بھی ان کی کاوشیں اردو ادب کے دامن کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

عربی زبان سے اردو میں معانی کی منتقلی کا عظیم نام توقیر بھملہ صاحب کا بھی ہے۔ جب ہم عربی زبان سے اردو ترجمے کی بات کرتے ہیں تو توقیر بھملہ صاحب کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔ توقیر بھملہ اُن مترجمین میں شامل ہیں جنھوں نے عربی کے دقیق اور گہرے ادبی و دینی تحریروں کو اردو میں منتقل کرکے قاری کو ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا۔ ان کی خدمات محض تراجم تک محدود نہیں بل کہ اُنھوں نے اردو زبان کو عربی کے علمی، ادبی اور فلسفیانہ خزانے سے مالا مال کیا۔

توقیر بھملہ نے عربی ادب کے پیچیدہ موضوعات کو نہایت سلیس اور دل نشیں اردو میں ڈھال کر، ایک ایسے پُل کی تعمیر کی ہے جس نے اردو بولنے والوں کو عربی تحریروں کی فکری گہرائی اور لطافت سے روشناس کرایا۔ ان کے ترجمے نہ صرف علمی اعتبار سے قابلِ قدر ہیں، بل کہ ان میں ادبی چاشنی بھی یوں گھلی ہوئی ہوتی ہے کہ قاری کو ایک نئے فکری اور روحانی سفر پر لے جاتی ہے۔

توقیر بھملہ صاحب کی خدمات کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اُنھوں نے عربی زبان کے ادبی شاہکاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے میں جو محنت کی، وہ بے مثل ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا کے دروازے کھولتے ہیں جہاں عربی کے فکری موتی اردو قاری کو ملتے ہیں۔ اُن کی تراجم میں نہ صرف الفاظ کا سحر ہوتا ہے بل کہ عربی تہذیب و ثقافت کی خوشبو بھی شامل ہوتی ہے۔ وہ اپنے تراجم میں محض الفاظ کا تبادلہ نہیں کرتے، بل کہ زبان کی روح کو اردو میں منتقل کرتے ہیں، جس سے اردو قاری نہ صرف عربی ادب کو سمجھتا ہے، بلکہ اُس کی فکری عظمت کا بھی قائل ہو جاتا ہے۔توقیر بھملہ جیسے مترجمین کی خدمات اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ لسانی رکاوٹوں کے باوجود علم اور ادب کی روشنی کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ وہ چراغ ہیں جو تہذیبوں کے اندھیروں کو ختم کرتے ہیں اور انسانیت کے نئے پہلوؤں کو روشن کرتے ہیں۔

آج کے دن ہم شوکت نیازی، یاسر جواد، نجم الدین احمد، حمید رازی، سید عاطف شاہ، محمد فیصل شہزاد، محمد فیصل علی اور توقیر بھملہ جیسے عظیم مترجمین کو سلام پیش کرتے ہیں، جنھوں نے ترجمے کے فن میں نئی روح پھونکی اور ہماری زبان کو عالمی ادبیات کے نایاب جواہرات سے روشناس کرایا۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مترجمین دراصل علم و ادب کے وہ خاموش سفیر ہیں جو دنیا کی مختلف زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں اور اس دنیا کو ایک عالمی گاؤں کی شکل دیتے ہیں۔ ہم ان کی خدمات کے ہمیشہ ممنون رہیں گے اور دعا کرتے ہیں کہ یہ روشنی کا سفر ہمیشہ جاری رہے۔

عالمی یومِ ترجمہ اور مترجمین

ترجمے کے عالمی دن پر میں نے عصر حاضر کے جن معتبر اور مستند مترجمین کا ذکر کیا ہے، وہ نہ صرف اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ ہیں بل کہ انھوں نے عالمی شہرت یافتہ ادبیات کو اردو قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ان کی تخلیقات میں ادبی لطافت، معنوی تہ داری اور فنکاری کے اعلیٰ نمونے یکجا ہو گئے ہیں۔ ان مترجمین کی خدمات کے بغیر شاید اردو ادب میں عالمی ادبی شہ پاروں کا آفاقی ذائقہ اس انداز میں میسر نہ آتا اور قارئین ان تخلیقات کی روح تک پہنچنے میں دشواری محسوس کرتے۔ یہاں چند اور مترجمین کی خدمات کا اعتراف بھی لازم ہے جنھوں نے اپنی سعی مسلسل سے شائقین ادب کو عالمی ادب سے متعارف کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

محمد سلیم الرحمان کی خدمات کا ذکر کیا جائے تو وہ ہومر جیسے قدیم یونانی ادیب کی تحریروں کو اردو کے حسین سانچے میں ڈھال کر ایک عظیم فنکارانہ کارنامہ سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کے تراجم کی بدولت اردو قارئین کو یونانی داستانوں کی لطافت اور ان کے فلسفیانہ رموز سے آگاہی حاصل ہوئی، جو نہ صرف ہمارے ادبی افق کو وسیع کرتا ہے بل کہ عالمی ادبیات کو بھی ہماری زبان کا حصہ بناتا ہے۔

اسی طرح انتظار حسین کا ذکر کیے بغیر اردو تراجم کی دنیا کی بات مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان کے تراجم میں تخلیقی لطافت اور فکری گہرائی اس قدر پائی جاتی ہے کہ وہ محض ترجمہ نہیں بل کہ ایک تخلیق نو محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی کتابیں ’’سرخ تمغہ‘‘ اور ’’گھاس کے میدانوں میں‘‘ ان تراجم کی بہترین مثالیں ہیں جو قارئین کو ایک منفرد اور جذبات سے لبریز دنیا میں لے جاتی ہیں۔

شاہد حمید کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے ”جنگ و امن“ اور ”کرامازوف برادران“ جیسے عظیم الشان اور ضخیم ناولوں کو اردو میں منتقل کیا۔ ان تراجم نے اردو زبان کو وہ وسعت عطا کی جس کی بدولت عالمی ادب کے مشکل اور پیچیدہ موضوعات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کا کام تراجم کی دنیا میں ایک روشن سنگ میل کی مانند ہے۔

محمد عمر میمن کا نام اردو تراجم کی دنیا میں ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ اُنھوں نے میلان کنڈیرا اور گبریئل گارسیا مارکیز جیسے پیچیدہ مفکرین کے تراجم کو اردو قارئین کے لیے نہایت سلیقے اور مہارت سے پیش کیا۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نہ صرف عالمی ادب کے پیچیدہ موضوعات کو اردو میں منتقل کرتے ہیں بل کہ اردو زبان کی لطافت اور بیان کی جادوگری کو برقرار رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کی مغربی تنقید پر گہری گرفت نے اُنھیں اردو تراجم کے میدان میں ایک معتبر حیثیت عطا کی۔ ان کے تراجم محض زبان کی تبدیلی نہیں بل کہ ایک فکری تبدیلی بھی ہیں جو قاری کو مغربی ادبیات کی تہوں میں چھپے معنوی رازوں تک رسائی فراہم کرتی ہے۔

اجمل کمال نے ”بوف کور“ اور ”پیلی بارش“ جیسے پیچیدہ اور علامتی ناولوں کو اردو کے قالب میں یوں ڈھالا کہ ان کی اصل روح برقرار رہتے ہوئے قاری کے سامنے ایک منفرد تجربہ پیش ہوتا ہے۔ ان کے تراجم کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ قاری کو ہر لفظ کے پیچھے چھپے گہرے مفاہیم اور رمزوں تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔

آصف فرخی نے لاطینی امریکی ادبیات کو اردو زبان میں پیش کر کے تراجم کی دنیا میں ایک نئی راہ متعارف کرائی۔ ہرمن ہیسے کے ”سدھارتھ“ جیسے ادبی شہ پارے کے ترجمہ نے مترجم کو تو جو عزت بخشی، وہ الگ، اس ترجمہ کی بدولت آصف فرخی نے اردو ادب کو عالمی ادب کے مدمقابل لا کھڑا کیا اور قاری کو ایک فکری تسکین فراہم کی۔

نیر مسعود کی فارسی تراجم اور کافکا کے مختصر افسانچے اردو ادب میں ان کے غیر معمولی ذوق اور ادبی سلیقے کا غماز ہیں۔ ان کے تراجم میں جو فکری باریکی اور لسانی لطافت پائی جاتی ہے، وہ انہیں اردو کے بہترین مترجمین میں شامل کرتی ہے۔

زینت حسام کی خدمات کا تذکرہ ضروری ہے، جنھوں نے ”تنہائی کے سو سال“ جیسے گراں قدر اور مشکل ناول کو اردو میں منتقل کیا۔ ان کا ترجمہ اس قدر باریکی سے کیا گیا ہے کہ یہ ایک مستقل تخلیق کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

محمد حسن عسکری کے تراجم کا ذکر کیے بغیر یہ فہرست نامکمل ہو گی۔ ان کا ناول ”موبی ڈک“ کا ترجمہ نہ صرف ادبی طور پر اہم ہے بل کہ یہ اردو ادب میں ایک لازوال ادبی شہ پارہ بن چکا ہے۔

علاوہ ازیں سید عابد علی عابد، ڈاکٹر عابد حسین، مسعود اشعر، ارجمند آرا، ندیم اقبال، سعید نقوی، شوکت نواز نیازی، حمید رازی، یاسر جواد اور یاسر حبیب جیسے مترجمین کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں، جنھوں نے تراجم کے ذریعے اردو ادب کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

یہ تمام مترجمین اپنے تراجم کی بدولت محض زبانوں کے درمیان پل نہیں بناتے بل کہ ان کی خدمات نے اردو زبان کو ایک نئی جِلا بخشی ہے۔ ان کا کام معیار، فن کاری اور ادبی جمالیات کا حسین امتزاج ہے اور ان کے تراجم کو آنکھیں بند کر کے خریدنے کا میرا مشورہ ایک ضمانت ہے کہ یہ تراجم اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ہر ترجمہ ایک نئی تخلیق کی مانند ہے جو اردو زبان و ادب کے افق کو مزید وسعت عطا کرتا ہے۔

ترجمہ کاری کا جادوئی سفر

ترجمہ وہ فن ہے جو نہ صرف زبانوں کو آپس میں جوڑتا ہے، بل کہ تہذیبوں اور قوموں کے درمیان ایک فکری سفر کا آغاز بھی کرتا ہے۔ جس طرح دریاؤں کے کنارے دو سرزمینوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں، اسی طرح مترجمین وہ سفیر ہیں جو زبانوں کے بیچ پل باندھتے ہیں اور دو الگ دنیاؤں کو ایک دوسرے کی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہیں۔ ایسی ہی ایک سفیر طاہرے گونیش بھی ہیں۔

طاہرے گونیش ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں، جو نہ صرف ایک کامیاب مصنفہ ہیں بل کہ ترجمے کے فن میں بھی ان کا مقام منفرد ہے۔ کئی زبانوں پر دسترس رکھنے والی طاہرے گونیش نے اپنی ادبی خدمات اور ترجمانی کے تجربات سے عالمی سطح پر شہرت پائی ہے۔ ان کی زندگی کا منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک سفارت کار کی جیون ساتھی ہونے کے ناطے اعلیٰ سطحی ریاستی تقریبات میں ترجمانی کے فرائض بھی نبھاتی رہی ہیں، جس نے ان کی فکری صلاحیتوں اور علمی گہرائیوں میں مزید نکھار پیدا کیا ہے۔

ان کے تجربات کا دائرہ صرف زبان و بیان تک محدود نہیں بل کہ اُنھوں نے مختلف سیاسی، سماجی اور ثقافتی محافل میں اپنی علمی بصیرت اور ترجمانی کے ذریعے نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ یہی متنوع تجربات ان کی شخصیت کو نکھار بخشتے ہیں اور ان کے ادبی کام کو بھی نئی جہتیں فراہم کرتے ہیں۔

طاہرے گونیش کی کتاب ”کہانیوں کا قاف“ ایک ادبی شاہکار ہے، جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ اس کتاب میں اُنھوں نے کہانیوں کے ذریعے انسانی جذبات، ثقافتی پیچیدگیوں اور زندگی کے مختلف رنگوں کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کا ادب میں یہ کارنامہ ثابت کرتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک ماہر مترجم ہیں، بل کہ ایک بہترین کہانی نویس بھی ہیں جو قاری کو اپنی تحریروں سے مسحور کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات اور ترجمانی کے تجربات نے اُنھیں نہ صرف ایک مضبوط ادبی مقام فراہم کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ان کے کام کو بھی پذیرائی ملی ہے۔

مترجمین نہ صرف زبانوں کا، بل کہ ایک مکمل تہذیبی ورثے کا انتقال کرتے ہیں۔ جیسے کسی باغ کے مالی کو علم ہوتا ہے کہ کون سے پھول کب اور کیسے کھلتے ہیں، اسی طرح مترجم کو بھی علم ہوتا ہے کہ الفاظ کا کون سا جوہر کب اور کیسے روشن کرنا ہے؟

فکر کا دریچہ اور ترجمے کا انوکھا جادو یہ مترجمین کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج اردو قاری فرانسیسی شاعری کی لطافت، انگریزی ناولوں کی پیچیدگی، عربی فلسفے کی گہرائی اور پنجابی ادب کی مٹھاس کو محسوس کر سکتا ہے۔ یہ علم کا ایسا دروازہ ہے جو ہر قاری کے لیے کھلا ہے اور ہر مترجم ایک چابی تھامے کھڑا ہے، تاکہ وہ اُس قاری کو اُس عالم میں لے جا سکے جہاں الفاظ کی خوشبو اور معانی کی روشنی روح کو منور کرتی ہے۔

ترجمے کا سفر جاری ہے اور یہ سفر جاری رہے گا۔ تراجم کے ذریعے مختلف زبانوں کے ادبی موتی، اردو کے قاری کو میسر آتے رہیں گے۔ عالمی یومِ ترجمہ ہمیں اس فن کی قدردانی کا موقع فراہم کرتا ہے اور مترجمین کی بے پناہ خدمات کو سلام پیش کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہماری یہ دعا ہے کہ دنیا کے تمام گوشوں میں مترجمین کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہے، تاکہ علم کی روشنی ہر زبان کے قاری تک پہنچ سکے اور تہذیبیں، زبانیں اور دل ایک دوسرے کے قریب تر ہوتے جائیں۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ترجمہ محض الفاظ کا کھیل نہیں، بل کہ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو دنیا کی تمام زبانوں کو آپس میں ملاتا ہے اور یہ وہ عظیم رشتہ ہے جو انسانیت کو ہر روز ایک نئے پہلو سے روشناس کراتا ہے۔

:::

صفیہ ہارون

عالمی یومِ ترجمہ

زبانوں کے درمیان پل اور فکری وسعت کی علامت

آج ۳۰ ستمبر کا دن اپنی نوعیت میں ایک خاص احساس رکھتا ہے۔ یہ دن ایک ایسی ٹھنڈک کا حامل ہے جو لسانی رکاوٹوں کو پگھلا کر مختلف زبانوں کے درمیان پل تعمیر کرتا ہے۔ آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ دن پشتو بولنے والے کو عبرانی سمجھا دے یا اردو کے قاری کو فرانسیسی سکھا دے۔ یہ دن دوریوں کو مٹانے، محبت اور علم کے چراغ کو مختلف زبانوں میں منتقل کرنے کا ہے۔ گویا آج ”عالمی یومِ ترجمہ“ تراجم کا وہ دن ہے جس میں مختلف ثقافتوں کے ادبی شاہکاروں کو ایک نئی زبان میں ڈھال کر دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے۔

ترجمہ ایک فن ہے جس کے ذریعے ایک زبان کا ادب، ثقافت اور فکری سرمایہ دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ دونوں تہذیبوں کے درمیان فکری، جذباتی اور ثقافتی تبادلوں کا عمل جاری رہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں، انسانوں نے اپنے تجربات، احساسات اور خیالات کو دوسری زبانوں کے ذریعے دوسروں تک پہنچایا۔ یہ سفر مختلف ادوار میں مختلف انداز سے جاری رہا اور مترجمین نے اس کام کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ وہ محض الفاظ کا ترجمہ نہیں کرتے، بل کہ ان میں چھپی روح کو بھی منتقل کرتے ہیں۔

ترجمہ، لفظوں کی محض منتقلی نہیں، بل کہ ایک ثقافت سے دوسری ثقافت کو فکری دولت دینے کا ذریعہ ہے۔ جب کسی زبان کی تحریر کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو اس زبان کی تہذیب، تاریخ اور فلسفہ بھی منتقل ہوتا ہے۔ ایک مترجم اس پل کا معمار ہوتا ہے جس کے ذریعے دو مختلف زبانوں کی دنیا آپس میں ملتی ہیں۔ اس عمل میں مترجم ایک سفیر کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف زبان، بل کہ اس کے پسِ منظر میں موجود معاشرتی اور جذباتی پہلوؤں کو بھی درست طریقے سے آگے بڑھاتا ہے۔

مترجمین کو اکثر اس چیلنج کا سامنا ہوتا ہے کہ زبان کی مخصوص لسانی ساخت اور اصطلاحات کو دوسری زبان میں کیسے منتقل کیا جائے؟ بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ایک زبان میں موجود ہوتی ہیں لیکن دوسری زبان میں ان کے عین مطابق الفاظ موجود نہیں ہوتے۔ یہیں پر مترجم کی صلاحیت اور ذہانت کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ مترجم کو یہ فن آنا چاہیے کہ وہ نہ صرف زبان بل کہ اس زبان کے پس پردہ موجود معنی اور احساسات کو بھی منتقل کرے۔

تاریخ میں بے شمار مترجمین نے دنیا کو عالمی ادب اور فکر سے روشناس کروایا ہے۔ ہرمن ہیسے، جس کا ناول ”سدھارتھ“ دنیا بھر میں مشہور ہے، اسی طرح فارسی کے بڑے شاعر مولانا رومی، جن کی مثنوی کا ترجمہ دنیا کی تقریباً ہر بڑی زبان میں ہو چکا ہے۔ اسی طرح جلال الدین رومی کا فارسی کلام جس کو انگریزی، عربی، فرانسیسی اور اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں منتقل کیا گیا، اس نے دنیا بھر میں روحانیت اور فکر کے نئے دریچے کھولے۔

ہر زبان کی اپنی ایک مخصوص ثقافتی اور فکری شناخت ہوتی ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے ترجمے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ مترجمین کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے مختلف گوشوں میں بیٹھے ہوئے انسان ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر گارسیا مارکیز کی جادوئی حقیقت نگاری ہو یا نجیب محفوظ کے مصری معاشرے کی گہرائیوں کا بیان، ان سب کا اردو اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تاکہ دنیا بھر کے قارئین ان کی تخلیقات سے مستفید ہو سکیں۔

کثیراللسان افراد، جنھیں بیک وقت کئی زبانوں پر عبور ہوتا ہے، انھیں بھی بھی زندگی کے بعض مراحل میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک سے زیادہ زبانیں جاننے والے افراد کو اکثر ایسی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے جہاں اُنھیں ایک زبان میں سوچنا اور دوسری زبان میں اظہار کرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل بعض اوقات ذہنی الجھن اور رکاوٹ کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ ہر زبان کا اپنا مخصوص اظہار ہوتا ہے اور الفاظ کا مفہوم مختلف ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کسی اردو بولنے والے کو فرانسیسی میں ترجمہ کرنا ہو تو اسے فرانسیسی زبان کے نہ صرف قواعد کو مدنظر رکھنا ہوگا بل کہ فرانسیسی ثقافت اور اس کے سیاق و سباق کو بھی سمجھنا ہوگا تاکہ وہ درست اور معیاری ترجمہ کر سکے۔ اسی طرح کثیراللسان افراد کو مختلف زبانوں کے مابین احساسات اور جذبات کو منتقل کرنے میں بھی مشکل پیش آ سکتی ہے، کیونکہ ہر زبان میں الفاظ کے پیچھے چھپے معنی اور مفہوم مختلف ہوتے ہیں۔فرانسیسی ادب کو اردو قالب میں ڈھالنے کے لیے ہمارے ہاں سر شوکت نیازی کے تراجم کی مثال دی جا سکتی ہے۔

جدید دور میں ترجمے کی دنیا میں ٹیکنالوجی نے بہت آسانیاں فراہم کی ہیں۔ مختلف خودکار تراجم کے سافٹ ویئرز اور گوگل ٹرانسلیٹ جیسے پلیٹ فارمز نے مترجمین کا کام آسان کر دیا ہے، لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خودکار تراجم کبھی بھی انسانی تراجم کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ انسانی ذہانت اور احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت ابھی تک کسی کمپیوٹر میں پیدا نہیں ہو سکی، اس لیے اصل روح کے ساتھ ترجمہ کرنے کے لیے انسانی مترجم کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔

ترجمہ نگاری کا فن مسلسل سیکھنے اور محنت کا متقاضی ہے، کیوں کہ ہر زبان کی مخصوص لسانی ساخت اور قواعد ہوتے ہیں، جنھیں درست طریقے سے سمجھنا اور ان کا ترجمہ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بڑے ادارے، جیسے اقوامِ متحدہ، اپنے اجلاسوں میں مترجمین کی خدمات لیتے ہیں تاکہ مختلف زبانوں میں گفت گو کا درست ترجمہ ہو سکے۔

عالمی یومِ ترجمہ دراصل ان مترجمین کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے جو اپنی محنت اور قابلیت سے مختلف زبانوں کے درمیان پل بناتے ہیں۔ یہ دن ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ زبانوں کا فرق انسانیت کو تقسیم کرنے کی بجائے اسے ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے۔ یہ مترجمین ہی ہیں جو مختلف زبانوں کے علم، فکر اور ادب کو ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں اور انسانیت کے فکری خزانے میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

ترجمے کا عمل محض الفاظ کا تبادلہ نہیں بل کہ ایک تہذیبی سفر ہے جو مختلف ثقافتوں اور زبانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ یہ مترجمین ہی ہیں جو ایک زبان کی خوبصورتی اور معانی و مطالب نیز مفاہیم کو دوسری زبان میں منتقل کر کے دنیا کو مزید قریب لانے میں مدد کرتے ہیں۔ عالمی یومِ ترجمہ ہمیں اس عظیم فن کی قدردانی کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ علم کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور مترجمین کی خدمات اس علم کو تمام دنیا تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

لسانی رابطوں کا طلسماتی سفر

آج کا دن اُس خوشبو کی مانند ہے جو حیات کی سانسوں میں رچی ہوئی ہے، جو الفاظ کی زبانوں سے ٹپکتی ہے اور جو دلوں کے دریچوں میں صدیوں سے مقفل خیالات کو ایک نئی روشنی عطا کرتی ہے۔ گویا یہ دن اُس نور کی طرح ہے جو سمندروں کے پار، پہاڑوں کے پیچھے اور صحراؤں کی وسعتوں میں کھوئے ہوئے ادبی جواہرات کو ایک نئی زبان کی صورت میں نئی حیات بخشتا ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے، جس میں زبانیں، جیسے محبت کی کوئی مخفی کائنات ہوں، ایک دوسرے کے گلے ملتی ہیں اور تہذیبوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔

ترجمہ، لسانی فضا میں محبت کا پل ہے۔ ترجمہ، ایک ایسا عمل ہے جس میں محض الفاظ کا تبادلہ نہیں بل کہ تہذیبوں کا عطر کشید کیا جاتا ہے۔ یہ ایک فکری، جذباتی اور ثقافتی پل ہے جو دنیا کے مختلف گوشوں سے گزرتا ہوا دلوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ ترجمہ وہ دروازہ ہے جس کے ذریعے ہم ایک اجنبی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور وہی دنیا ہمارے لیے اپنی خوشبو، اپنا رنگ اور اپنی معنویت کھول دیتی ہے۔

فرانسیسی ادب کے اعلیٰ شاہکاروں کو اردو میں ڈھالنے کا جب ذکر آئے تو سر شوکت نیازی کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے درج ہوتا ہے۔ ان کے قلم سے ایسا جادو ٹپکا کہ فرانسیسی ادب کے پیچیدہ موضوعات اور لسانی خوبصورتی کو اردو کی شیریں زبان میں اس طرح ڈھالا کہ گویا فرانسیسی ادبیات کی خوشبو اردو کے بام و در میں بکھر گئی۔ اُن کے ترجمے محض زبان کا تبادلہ نہیں، بل کہ وہ ایک علمی و روحانی تجربہ ہیں جو قاری کو فرانسیسی تہذیب کے حسن سے روشناس کراتا ہے۔

نجم الدین احمد اردو کے مایہ ناز مترجمین میں سے ایک ہیں جنھوں نے ترجمہ نگاری کے فن کو اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے۔ ان کی ترجمہ شدہ کہانیوں میں ایک ایسی چاشنی اور روانی ہے کہ قاری نہ صرف مواد کے اصل مفہوم تک پہنچتا ہے  بل کہ اس کے ساتھ ایک ایسا فکری اور جذباتی رشتہ قائم ہوتا ہے جو کسی بھی ترجمے کا اصل مقصود ہونا چاہیے۔ نجم الدین احمد نے نہ صرف لفظی ترجمے کی روایت کو مسترد کیا  بل کہ انھوں نے اس میں گہرائی اور احساسات کی ان کہی پرتیں بھی شامل کیں جو کسی فن پارے کو عالمی معیار بخشتی ہیں۔

ترجمہ کاری ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے جس میں مترجم کو دو زبانوں کے بیچ محض الفاظ کا تبادلہ نہیں کرنا ہوتا، بلکہ ثقافتی، سماجی، اور لسانی تہذیبوں کے پیچیدہ خطوط کو بھی سمجھنا ہوتا ہے۔ نجم الدین احمد اس ہنر میں ماہر و یکتا ہیں کہ وہ اصل مصنف کے بیان کردہ جذبات اور پیغام کو اردو زبان کے مخصوص ذوق اور تہذیبی معیار کے مطابق ڈھال دیتے ہیں۔ ان کے ترجمے نہ صرف وفادار ہوتے ہیں بل کہ اردو کی نثری روایات کو بھی بام عروج تک پہنچاتے ہیں۔

”نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں“ جیسا شاہکار مجموعہ اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ نجم الدین احمد نے عالمی ادب کے شاہکاروں کو اردو زبان کے سانچے میں ڈھالنے کا جو بیڑا اٹھایا، اس میں وہ نہایت کامیاب رہے ہیں۔ ان کا ترجمہ محض سادہ زبان میں کہانی کو پیش کرنے تک محدود نہیں ہے بل کہ وہ ہر کہانی کے اندر چھپے ہوئے فلسفیانہ، نفسیاتی اور معاشرتی عوامل کو اردو زبان میں نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ اجاگر کرتے ہیں۔

ترجمہ کاری کے اس میدان میں نجم الدین احمد کا اسلوب منفرد ہے۔ وہ ہر کہانی میں موجود لسانی اور ادبی ظرافت کو اس قدر خوبصورتی سے منتقل کرتے ہیں کہ قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اصل متن کو پڑھ رہا ہے، بل کہ ایک ایسی دنیا میں داخل ہو رہا ہے جہاں اردو زبان کی لطافت اور نغمگی اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس لحاظ سے، نجم الدین احمد کے ترجمے اردو زبان کی وسعت اور تنوع کو نئے افقوں تک لے جاتے ہیں۔نجم الدین احمد کا ترجمہ کاری کا فن ان کی گہری ادبی فہم اور مختلف ثقافتوں کے ادب کو سمجھنے کی صلاحیت کا عکاس ہے۔ وہ اپنے تراجم میں اصل متن کے ساتھ اردو کی ثقافتی اور ادبی قدروں کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ان کا یہ فن اور انداز اردو کے چند مترجمین میں اُنھیں ایک خاص مقام عطا کرتا ہے۔

انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے میں ایک اور نام یاسر جواد کا بھی ہے۔ یاسر جواد اور نجم الدین احمد کا کمالِ فن انگریزی ادب کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے والوں میں یاسر جواد اور نجم الدین احمد کے نام اردو کے ادبی منظرنامے پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ دونوں مترجمین نے انگریزی زبان کے شاہکاروں کو اردو میں یوں منتقل کیا کہ زبان کے ساتھ ساتھ ادب کی روح بھی مجسم ہو کر قاری کے دل میں جاگزیں ہوتی چلی گئی۔ یاسر جواد کی ترجمہ نگاری میں جہاں عالمی ادب کی جادوئی حقیقت نگاری کا عکس ہے، وہیں نجم الدین احمد کے تراجم انسانی احساسات کی باریکیوں کو بے حد لطیف انداز میں قاری تک پہنچاتے ہیں۔

یاسر حبیب نے اردو ادب میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے منتخب عالمی افسانوں کو ”خدا کے نام خط“ کے عنوان سے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کے اس کارنامے میں نہ صرف عالمی افسانوں کی عمدہ ترجمہ کاری شامل ہے بل کہ اُنھوں نے مختلف ثقافتی اور ادبی پس منظر کے افسانوں کو اردو قارئین کے لیے نہایت مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔یاسر حبیب کے تراجم میں جو تخلیقی صلاحیت اور فنی مہارت نظر آتی ہے، وہ ان کی ذاتی ادبی بصیرت اور گہرے ادبی مطالعے کی عکاسی کرتی ہے۔ ”خدا کے نام خط“ کے ذریعے وہ نہ صرف مختلف ثقافتوں کی کہانیوں کو اردو میں منتقل کرتے ہیں بل کہ ان کہانیوں کی روح اور معنویت کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔ ان کا یہ کام اردو ادب میں عالمی افسانوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور قاری کو مختلف زاویوں سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ان کی اس کاوش نے اردو کے ادبی منظرنامے میں نئی جہتوں کا اضافہ کیا ہے اور یہ افسانے اردو ادب کے لیے ایک قیمتی اضافہ ہیں، جو عالمی ادبی روایت سے اردو کے قارئین کو متعارف کراتے ہیں۔

حمید رازی پنجابی زبان کے ایک معروف مترجم ہیں، جنھوں نے عالمی ادب کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھال کر اردو اور پنجابی ادب کے قارئین کے لیے ایک عظیم ادبی خدمت انجام دی ہے۔ ان کا کام نہ صرف پنجابی زبان کی ترقی اور ترویج کے حوالے سے نمایاں ہے بل کہ اُنھوں نے مختلف زبانوں کے شاہکاروں کو پنجابی میں منتقل کر کے عالمی ادبی ورثے کو مقامی سطح پر پہنچایا ہے۔ سر حمید رازی کی خدمات کا دائرہ صرف ترجمے تک محدود نہیں بل کہ انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے پنجابی زبان کے قارئین کو عالمی ادب کے بہترین نمونوں سے روشناس کروایا ہے۔ اُنھوں نے مختلف عالمی ادبی شاہکاروں کو پنجابی میں ڈھالا، جس سے نہ صرف ادب کا معیار بلند ہوا بل کہ پنجابی زبان کی ثروت میں بھی اضافہ ہوا۔

حمید رازی کا یہ کارنامہ پنجابی زبان اور ادب کی خدمت کے حوالے سے ناقابل فراموش ہے۔ ان کی ترجمہ کردہ کتابوں نے پنجابی زبان کے قارئین کو وہ عالمی ادبی شہ پارے فراہم کیے ہیں، جو ان تک شاید کبھی نہ پہنچتے۔ ان کے کام نے اس بات کو ثابت کیا کہ ترجمہ محض الفاظ کا نہیں بل کہ خیالات، ثقافتوں اور احساسات کا تبادلہ ہوتا ہے، جو مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ سر حمید رازی جیسے مترجمین کی خدمات کی بدولت پنجابی ادب کی دنیا میں نئے دروازے کھل چکے ہیں اور اُنھوں نے عالمی ادب کے شہ پاروں کو پنجابی زبان میں ڈھال کر ایک لازوال ادبی کارنامہ انجام دیا ہے، جس سے پنجابی زبان کا خزانہ اور بھی مالا مال ہوا ہے۔

پنجابی زبان میں ترجمہ کرنا ایک الگ ہی جہانِ فن ہے اور اس فن میں سید عاطف شاہ کی خدمات بے مثال ہیں۔ پنجابی کے دل کش لہجے میں عالمی ادب کی خوبصورتی کو یوں پرویا کہ گویا پنجابی زبان میں وہ الفاظ پہلے ہی سے موجود تھے، فقط ایک مترجم کی آنکھ اُنھیں دیکھ نہ پائی تھی۔ سید عاطف شاہ نے اپنی علمی اور فکری گہرائی سے پنجابی زبان کو نئے فکری خزانے بخشے اور پنجابی قاری کو عالمی ادب کی روشنی سے منور کیا۔

جب بات عربی سے اردو ترجمہ کی ہو تو محمد فیصل شہزاد کا نام بغیر کسی تمہید کے ذہن میں آتا ہے۔ اُنھوں نے عربی کے مشکل اور دقیق فلسفیانہ اور دینی موضوعات کو اردو میں اس مہارت کے ساتھ ڈھالا کہ قاری کو ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے کا احساس ہوتا ہے، جہاں الفاظ کی خوبصورتی اور معنی کی گہرائی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اُن کے تراجم صرف کتابوں کا منتقل کیا ہوا علم نہیں بل کہ وہ ایک نئی فکری تحریک ہیں جو اردو زبان کو عربی ادب کے قیمتی خزانوں سے متعارف کراتی ہے۔ ترجمے کی دنیا میں وہ لوگ اپنی خدمات کا بیش قیمت چراغ جلاتے ہیں جو مختلف زبانوں کے دریا عبور کر کے قاری تک معنی کی روشنیاں پہنچاتے ہیں۔ یہ عظیم مترجمین دراصل لسانی کائنات کے ستارے ہیں، جو دور دراز کے ادبی اور فکری جزیروں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔

محمد فیصل علی کا شمار ان ادبا و مترجمین میں ہوتا ہے جنھوں نے بچوں کے ادب میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ عربی زبان کے معروف مزاحیہ کردار جحا کی پچیس کہانیوں کا ترجمہ ان کی بے مثل قابلیت کا ثبوت ہے۔ ان کہانیوں کے تراجم نے نہ صرف بچوں کی ذہنی نشوونما میں اضافہ کیا بلکہ ان کی ادبی فہم کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ فیصل علی نے اپنی ترجمہ کاری میں جو طرزِ تحریر اپنایا ہے، وہ نہایت جامع اور پُراثر ہے، جس میں زبان کی نزاکت اور ادبی لطافت کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔

مزید برآں، فیصل علی نے پانچ ڈرامے اور تیس سے زائد کہانیاں بھی مختلف مقبول عام بچوں کے رسائل جیسے تعلیم و تربیت، ادبیات اطفال، بچوں کا باغ، اور جگنو میں شائع کی ہیں۔ ان کی تحریریں نہ صرف تفریحی ہیں بل کہ اخلاقی درس اور تربیت کے پہلو سے بھی بھرپور ہیں۔ ان کے تراجم کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اُنھوں نے عربی ادب کی معنوی گہرائی کو اردو زبان کی لطافت میں ڈھال کر پیش کیا ہے، جس سے اردو ادب کی ثروت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

محمد فیصل علی کی ترجمہ کاری کو فنی اور ادبی لحاظ سے قابلِ ستائش قرار دیا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے زبان کی پیچیدگی اور دقیق معانی کو آسان فہم انداز میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ لفظیات کی لطافت اور جملوں کی دلکشی کو بھی برقرار رکھا ہے۔ ان کی ترجمہ شدہ کہانیاں نہ صرف بچوں کے لیے دلکش اور دلچسپ ہیں بل کہ ادبی حلقوں میں بھی ان کی پذیرائی کی گئی ہے، کیوں کہ اُنھوں نے عربی ادب کو ایک نئے انداز میں اردو زبان میں متعارف کروایا ہے۔

یوں محمد فیصل علی کی خدمات نہ صرف بچوں کے ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہیں بل کہ ترجمہ کاری کے میدان میں بھی ان کی کاوشیں اردو ادب کے دامن کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

عربی زبان سے اردو میں معانی کی منتقلی کا عظیم نام توقیر بھملہ صاحب کا بھی ہے۔ جب ہم عربی زبان سے اردو ترجمے کی بات کرتے ہیں تو توقیر بھملہ صاحب کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔ توقیر بھملہ اُن مترجمین میں شامل ہیں جنھوں نے عربی کے دقیق اور گہرے ادبی و دینی تحریروں کو اردو میں منتقل کرکے قاری کو ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا۔ ان کی خدمات محض تراجم تک محدود نہیں بل کہ اُنھوں نے اردو زبان کو عربی کے علمی، ادبی اور فلسفیانہ خزانے سے مالا مال کیا۔

توقیر بھملہ نے عربی ادب کے پیچیدہ موضوعات کو نہایت سلیس اور دل نشیں اردو میں ڈھال کر، ایک ایسے پُل کی تعمیر کی ہے جس نے اردو بولنے والوں کو عربی تحریروں کی فکری گہرائی اور لطافت سے روشناس کرایا۔ ان کے ترجمے نہ صرف علمی اعتبار سے قابلِ قدر ہیں، بل کہ ان میں ادبی چاشنی بھی یوں گھلی ہوئی ہوتی ہے کہ قاری کو ایک نئے فکری اور روحانی سفر پر لے جاتی ہے۔

توقیر بھملہ صاحب کی خدمات کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اُنھوں نے عربی زبان کے ادبی شاہکاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے میں جو محنت کی، وہ بے مثل ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا کے دروازے کھولتے ہیں جہاں عربی کے فکری موتی اردو قاری کو ملتے ہیں۔ اُن کی تراجم میں نہ صرف الفاظ کا سحر ہوتا ہے بل کہ عربی تہذیب و ثقافت کی خوشبو بھی شامل ہوتی ہے۔ وہ اپنے تراجم میں محض الفاظ کا تبادلہ نہیں کرتے، بل کہ زبان کی روح کو اردو میں منتقل کرتے ہیں، جس سے اردو قاری نہ صرف عربی ادب کو سمجھتا ہے، بلکہ اُس کی فکری عظمت کا بھی قائل ہو جاتا ہے۔توقیر بھملہ جیسے مترجمین کی خدمات اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ لسانی رکاوٹوں کے باوجود علم اور ادب کی روشنی کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ وہ چراغ ہیں جو تہذیبوں کے اندھیروں کو ختم کرتے ہیں اور انسانیت کے نئے پہلوؤں کو روشن کرتے ہیں۔

آج کے دن ہم شوکت نیازی، یاسر جواد، نجم الدین احمد، حمید رازی، سید عاطف شاہ، محمد فیصل شہزاد، محمد فیصل علی اور توقیر بھملہ جیسے عظیم مترجمین کو سلام پیش کرتے ہیں، جنھوں نے ترجمے کے فن میں نئی روح پھونکی اور ہماری زبان کو عالمی ادبیات کے نایاب جواہرات سے روشناس کرایا۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مترجمین دراصل علم و ادب کے وہ خاموش سفیر ہیں جو دنیا کی مختلف زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں اور اس دنیا کو ایک عالمی گاؤں کی شکل دیتے ہیں۔ ہم ان کی خدمات کے ہمیشہ ممنون رہیں گے اور دعا کرتے ہیں کہ یہ روشنی کا سفر ہمیشہ جاری رہے۔

عالمی یومِ ترجمہ اور مترجمین

ترجمے کے عالمی دن پر میں نے عصر حاضر کے جن معتبر اور مستند مترجمین کا ذکر کیا ہے، وہ نہ صرف اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ ہیں بل کہ انھوں نے عالمی شہرت یافتہ ادبیات کو اردو قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ان کی تخلیقات میں ادبی لطافت، معنوی تہ داری اور فنکاری کے اعلیٰ نمونے یکجا ہو گئے ہیں۔ ان مترجمین کی خدمات کے بغیر شاید اردو ادب میں عالمی ادبی شہ پاروں کا آفاقی ذائقہ اس انداز میں میسر نہ آتا اور قارئین ان تخلیقات کی روح تک پہنچنے میں دشواری محسوس کرتے۔ یہاں چند اور مترجمین کی خدمات کا اعتراف بھی لازم ہے جنھوں نے اپنی سعی مسلسل سے شائقین ادب کو عالمی ادب سے متعارف کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

محمد سلیم الرحمان کی خدمات کا ذکر کیا جائے تو وہ ہومر جیسے قدیم یونانی ادیب کی تحریروں کو اردو کے حسین سانچے میں ڈھال کر ایک عظیم فنکارانہ کارنامہ سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کے تراجم کی بدولت اردو قارئین کو یونانی داستانوں کی لطافت اور ان کے فلسفیانہ رموز سے آگاہی حاصل ہوئی، جو نہ صرف ہمارے ادبی افق کو وسیع کرتا ہے بل کہ عالمی ادبیات کو بھی ہماری زبان کا حصہ بناتا ہے۔

اسی طرح انتظار حسین کا ذکر کیے بغیر اردو تراجم کی دنیا کی بات مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان کے تراجم میں تخلیقی لطافت اور فکری گہرائی اس قدر پائی جاتی ہے کہ وہ محض ترجمہ نہیں بل کہ ایک تخلیق نو محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی کتابیں ’’سرخ تمغہ‘‘ اور ’’گھاس کے میدانوں میں‘‘ ان تراجم کی بہترین مثالیں ہیں جو قارئین کو ایک منفرد اور جذبات سے لبریز دنیا میں لے جاتی ہیں۔

شاہد حمید کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے ”جنگ و امن“ اور ”کرامازوف برادران“ جیسے عظیم الشان اور ضخیم ناولوں کو اردو میں منتقل کیا۔ ان تراجم نے اردو زبان کو وہ وسعت عطا کی جس کی بدولت عالمی ادب کے مشکل اور پیچیدہ موضوعات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کا کام تراجم کی دنیا میں ایک روشن سنگ میل کی مانند ہے۔

محمد عمر میمن کا نام اردو تراجم کی دنیا میں ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ اُنھوں نے میلان کنڈیرا اور گبریئل گارسیا مارکیز جیسے پیچیدہ مفکرین کے تراجم کو اردو قارئین کے لیے نہایت سلیقے اور مہارت سے پیش کیا۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نہ صرف عالمی ادب کے پیچیدہ موضوعات کو اردو میں منتقل کرتے ہیں بل کہ اردو زبان کی لطافت اور بیان کی جادوگری کو برقرار رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کی مغربی تنقید پر گہری گرفت نے اُنھیں اردو تراجم کے میدان میں ایک معتبر حیثیت عطا کی۔ ان کے تراجم محض زبان کی تبدیلی نہیں بل کہ ایک فکری تبدیلی بھی ہیں جو قاری کو مغربی ادبیات کی تہوں میں چھپے معنوی رازوں تک رسائی فراہم کرتی ہے۔

اجمل کمال نے ”بوف کور“ اور ”پیلی بارش“ جیسے پیچیدہ اور علامتی ناولوں کو اردو کے قالب میں یوں ڈھالا کہ ان کی اصل روح برقرار رہتے ہوئے قاری کے سامنے ایک منفرد تجربہ پیش ہوتا ہے۔ ان کے تراجم کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ قاری کو ہر لفظ کے پیچھے چھپے گہرے مفاہیم اور رمزوں تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔

آصف فرخی نے لاطینی امریکی ادبیات کو اردو زبان میں پیش کر کے تراجم کی دنیا میں ایک نئی راہ متعارف کرائی۔ ہرمن ہیسے کے ”سدھارتھ“ جیسے ادبی شہ پارے کے ترجمہ نے مترجم کو تو جو عزت بخشی، وہ الگ، اس ترجمہ کی بدولت آصف فرخی نے اردو ادب کو عالمی ادب کے مدمقابل لا کھڑا کیا اور قاری کو ایک فکری تسکین فراہم کی۔

نیر مسعود کی فارسی تراجم اور کافکا کے مختصر افسانچے اردو ادب میں ان کے غیر معمولی ذوق اور ادبی سلیقے کا غماز ہیں۔ ان کے تراجم میں جو فکری باریکی اور لسانی لطافت پائی جاتی ہے، وہ انہیں اردو کے بہترین مترجمین میں شامل کرتی ہے۔

زینت حسام کی خدمات کا تذکرہ ضروری ہے، جنھوں نے ”تنہائی کے سو سال“ جیسے گراں قدر اور مشکل ناول کو اردو میں منتقل کیا۔ ان کا ترجمہ اس قدر باریکی سے کیا گیا ہے کہ یہ ایک مستقل تخلیق کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

محمد حسن عسکری کے تراجم کا ذکر کیے بغیر یہ فہرست نامکمل ہو گی۔ ان کا ناول ”موبی ڈک“ کا ترجمہ نہ صرف ادبی طور پر اہم ہے بل کہ یہ اردو ادب میں ایک لازوال ادبی شہ پارہ بن چکا ہے۔

علاوہ ازیں سید عابد علی عابد، ڈاکٹر عابد حسین، مسعود اشعر، ارجمند آرا، ندیم اقبال، سعید نقوی، شوکت نواز نیازی، حمید رازی، یاسر جواد اور یاسر حبیب جیسے مترجمین کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں، جنھوں نے تراجم کے ذریعے اردو ادب کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

یہ تمام مترجمین اپنے تراجم کی بدولت محض زبانوں کے درمیان پل نہیں بناتے بل کہ ان کی خدمات نے اردو زبان کو ایک نئی جِلا بخشی ہے۔ ان کا کام معیار، فن کاری اور ادبی جمالیات کا حسین امتزاج ہے اور ان کے تراجم کو آنکھیں بند کر کے خریدنے کا میرا مشورہ ایک ضمانت ہے کہ یہ تراجم اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ہر ترجمہ ایک نئی تخلیق کی مانند ہے جو اردو زبان و ادب کے افق کو مزید وسعت عطا کرتا ہے۔

ترجمہ کاری کا جادوئی سفر

ترجمہ وہ فن ہے جو نہ صرف زبانوں کو آپس میں جوڑتا ہے، بل کہ تہذیبوں اور قوموں کے درمیان ایک فکری سفر کا آغاز بھی کرتا ہے۔ جس طرح دریاؤں کے کنارے دو سرزمینوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں، اسی طرح مترجمین وہ سفیر ہیں جو زبانوں کے بیچ پل باندھتے ہیں اور دو الگ دنیاؤں کو ایک دوسرے کی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہیں۔ ایسی ہی ایک سفیر طاہرے گونیش بھی ہیں۔

طاہرے گونیش ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں، جو نہ صرف ایک کامیاب مصنفہ ہیں بل کہ ترجمے کے فن میں بھی ان کا مقام منفرد ہے۔ کئی زبانوں پر دسترس رکھنے والی طاہرے گونیش نے اپنی ادبی خدمات اور ترجمانی کے تجربات سے عالمی سطح پر شہرت پائی ہے۔ ان کی زندگی کا منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک سفارت کار کی جیون ساتھی ہونے کے ناطے اعلیٰ سطحی ریاستی تقریبات میں ترجمانی کے فرائض بھی نبھاتی رہی ہیں، جس نے ان کی فکری صلاحیتوں اور علمی گہرائیوں میں مزید نکھار پیدا کیا ہے۔

ان کے تجربات کا دائرہ صرف زبان و بیان تک محدود نہیں بل کہ اُنھوں نے مختلف سیاسی، سماجی اور ثقافتی محافل میں اپنی علمی بصیرت اور ترجمانی کے ذریعے نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ یہی متنوع تجربات ان کی شخصیت کو نکھار بخشتے ہیں اور ان کے ادبی کام کو بھی نئی جہتیں فراہم کرتے ہیں۔

طاہرے گونیش کی کتاب ”کہانیوں کا قاف“ ایک ادبی شاہکار ہے، جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ اس کتاب میں اُنھوں نے کہانیوں کے ذریعے انسانی جذبات، ثقافتی پیچیدگیوں اور زندگی کے مختلف رنگوں کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کا ادب میں یہ کارنامہ ثابت کرتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک ماہر مترجم ہیں، بل کہ ایک بہترین کہانی نویس بھی ہیں جو قاری کو اپنی تحریروں سے مسحور کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات اور ترجمانی کے تجربات نے اُنھیں نہ صرف ایک مضبوط ادبی مقام فراہم کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ان کے کام کو بھی پذیرائی ملی ہے۔

مترجمین نہ صرف زبانوں کا، بل کہ ایک مکمل تہذیبی ورثے کا انتقال کرتے ہیں۔ جیسے کسی باغ کے مالی کو علم ہوتا ہے کہ کون سے پھول کب اور کیسے کھلتے ہیں، اسی طرح مترجم کو بھی علم ہوتا ہے کہ الفاظ کا کون سا جوہر کب اور کیسے روشن کرنا ہے؟

فکر کا دریچہ اور ترجمے کا انوکھا جادو یہ مترجمین کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج اردو قاری فرانسیسی شاعری کی لطافت، انگریزی ناولوں کی پیچیدگی، عربی فلسفے کی گہرائی اور پنجابی ادب کی مٹھاس کو محسوس کر سکتا ہے۔ یہ علم کا ایسا دروازہ ہے جو ہر قاری کے لیے کھلا ہے اور ہر مترجم ایک چابی تھامے کھڑا ہے، تاکہ وہ اُس قاری کو اُس عالم میں لے جا سکے جہاں الفاظ کی خوشبو اور معانی کی روشنی روح کو منور کرتی ہے۔

ترجمے کا سفر جاری ہے اور یہ سفر جاری رہے گا۔ تراجم کے ذریعے مختلف زبانوں کے ادبی موتی، اردو کے قاری کو میسر آتے رہیں گے۔ عالمی یومِ ترجمہ ہمیں اس فن کی قدردانی کا موقع فراہم کرتا ہے اور مترجمین کی بے پناہ خدمات کو سلام پیش کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہماری یہ دعا ہے کہ دنیا کے تمام گوشوں میں مترجمین کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہے، تاکہ علم کی روشنی ہر زبان کے قاری تک پہنچ سکے اور تہذیبیں، زبانیں اور دل ایک دوسرے کے قریب تر ہوتے جائیں۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ترجمہ محض الفاظ کا کھیل نہیں، بل کہ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو دنیا کی تمام زبانوں کو آپس میں ملاتا ہے اور یہ وہ عظیم رشتہ ہے جو انسانیت کو ہر روز ایک نئے پہلو سے روشناس کراتا ہے۔

:::

Author

  • افسانہ نویس، ماہرِ تعلیم، کالم نگار، آزاد نظم گو شاعرہ، محقق، نقاد، مصنفہ اور صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیبہ صفیہ ہارون ۰۴ ستمبر کو ضلع قصور میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد کا نام محمد ہارون ہے۔ صفیہ ہارون نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں اور کچھ عرصہ بوائز اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ہی ایم۔اے انگریزی،سرگودھا یونیورسٹی سے ایم۔اے اردو، ایم۔اے پنجابی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی۔ایڈ اور سرگودھا یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا ہے۔ منہاج یونیورسٹی سے ایم فل اردو مکمل کرنے کے بعد اب اسی جامعہ سے پی ایچ۔ڈی کا آغاز بھی کر چکی ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی موضوع پر ان کی کتاب ”ترقی پسند تحریک کے شعرا کی نعتیہ شاعری“ منظرِ عام پر آ کر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ ان کو اس کتاب پر صدارتی ایوارڈ مل چکا ہے اور مذکورہ کتاب پاکستان کے علاوہ بھارت سے بھی پاریکھ بک ڈپو سے شائع ہوئی ہے۔ ادبِ اطفال کے لیے بھی اُنھوں نے خدمات سر انجام دی ہیں۔ حال ہی میں ان کی ادب اطفال پر لکھی کتاب ”پریوں کا گھر“ منظر عام پر آئی ہے۔ ”پریوں کا گھر“ بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول ہو رہی ہے۔ ان کی ادبی خدمات کی بنا پر انھیں ابوالحسن ندوی ایوارڈ، ادب اطفال ایوارڈ، فضیلت جہاں گولڈ میڈل سمیت دیگر کئی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے اور اپنی اعلیٰ قابلیت کی بنا پر درجنوں ملکی و غیر ملکی سرٹیفکیٹ حاصل کر چکی ہیں۔ وہ مختلف ویب چینلز کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ انجمنِ نفاذِ اردو کی ضلعی صدر بھی ہیں اور فروغِ اردو زبان و ادب کے لیے اپنی قابلِ قدر کاوشیں سر انجام دے رہی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے وہ لیکچرر اردو ہیں اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ریسورس پرسن بھی ہیں۔ 

    View all posts

5 thoughts on “عالمی یومِ ترجمہ”

  1. محترمہ صفیہ ہارون نے ترجمہ کے عالمی دن پر اپنے مضمون میں ترجمہ نگاریوں کے کام اور ان کی محنت پر خوب روشنی ڈالی ہے اور مضمون بے حد فصیح لکھا ہے۔ وہ سلامت اور خوش رہیں اور ہمیں ایسے ہی مضامین سے نوازتی رہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *