فسوں کاریاں
پُرتگالی کہانی
بُڑھیا
ٹِیولِنڈا جرساؤ
Teolinda Gersaoتعارف و ترجمہ
نجم الدین احمد
بُڑھیا حقیقتاً بہت خوش تھی۔ آخر اُس نے ایک اچھی زندگی گُزاری تھی اور اُسے کبھی کسی شے کی تنگی نہیں رہی تھی۔ مثلاً صرف اُس صبح ہی اُسے پارک میں ایک ایسی جگہ پر اتنی مکمل جگہ ملی تھی جو نہ بہت سایہ دار تھی اور نہ بہت دھوپ والی، اگرچہ ٹرام میں بہت زیادہ رَش تھا پھر بھی اُسے اُس میں نشست مل گئی تھی اور جب اُس نے تین عدد ڈبل روٹیوں کے پیسے کاؤنٹر پر رکھے تھے تو بیکری والے اُس کا شکریہ ادا کیا تھا۔ کریانے والے کے مددگار نے اُسے ریزگاری لوٹانے کے بعد اُس سے گپ شپ کی تھی اور پُوچھا تھا کہ اُس نے کافی کا جو نیا برانڈ خریدا تھا اُسے کیسا پایا۔
اکثر لوگوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ چیزوں کی صحیح اہمیت نہیں جانتے تھے۔ بہت سے لوگ وقت اور خوشی کو ویسے ہی گنوا دیتے ہیں جیسے وہ دولت کو ضائع کر بیٹھتے ہیں ۔ اگر سچ کہا جائے تو بہت کم لوگ اپنے پاس موجود چیزوں کا بہترین استعمال جانتے ہیں ۔ مثال کے طو پر وہ اُس گرم پانی کو استعمال میں نہیں لاتے جو گیس جلا کر گرم کرنے کے بعد پائپوں میں بچ جاتا ہے ۔ اُنھیں ایک کمرے سے دُوسرے میں جاتے وقت بتّیاں یا خوراک کے تیار ہونے سے ذرا پہلے اَووَن بند کرنا یاد نہیں رہتا ۔ متعدّد لوگ ایسے تھے جو یہ سب کرنا بھول جاتے ہیں اور پھر حیران ہوتے تھے کہ کیونکر اور کب مہینہ ختم ہو گیا اور وہ تہی دست ہو گئے!
خُدا کا شکر تھا کہ اُس کے پاس ہمیشہ کافی کچھ رہا تھا۔ اُس کے پاس ضرورت کی ہر شے موجود رہی تھی اور اُسے کبھی کسی شے کے بغیر نہیں رہنا پڑا تھا۔ لیکن وہ ہمیشہ سے کفایت شعار رہی تھی۔ اُس نے کبھی کھانا ضائع نہیں کیا تھا اور بچا کھچا پھینکا نہیں تھا، روٹی کا آدھا ٹکڑا بھی نہیں جسے اگلے وقت کے کھانے پر مکمل اور اچھے طریقے سے کھایا جا سکتا تھا۔ جب وہ غسل کرتی تو ایک بڑے پتیلے میں تھوڑا سا پانی گرم کرتی اور صابن مَل لینے کے بعد وہ پلاسٹک کی ایک نیچی پیڑھی کو فرش کی نالی پر رکھ کر بیٹھ جاتی اور صابن کو پانی سے اُتارتی تھی۔ وہ ہمیشہ گرم پانی میں کچھ ٹھنڈا پانی ملاتی لہٰذا ایک پتیلا پانی کافی ہوتا تھا۔ اور موسمِ گرما میں اُسے پانی کو زیادہ گرم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی کیوں کہ وہ بہترین معتدل درجہ ٔ حرارت میں ہوتا تھا۔ چُوں کہ وہ بہت کم مقدار میں پانی استعمال میں لاتی تھی لہٰذا پتیلے میں ہمیشہ کچھ پانی بچ جاتا جو باقی پانی سے زیادہ گرم ہوتا تھا جسے وہ اپنی کمر پر ڈالتی۔ اوہ، بالکل درست درجہ حرارت والے اُس پانی کو اپنی جِلد پر بہنے کا احساس بہت سرور بخش ہوتا تھا۔ ایک جگ اُس کے آدھے بدن اور دُوسرا جگ اُسے کے بقیہ آدھے بدن کو دھونے کے لیے کافی تھا۔ گرم غسل کے بھرپُور احساس کے لیے اُسے پانی کے اِنہی دو جگوں کی ضرورت ہوتی تھی۔
ہاں، وہ سوچتی تھی کہ اُسے بخوشی مرنے کے لیے بس ایک صاف ستھرے اور اچھی طرح استری کیے ہوئے تولیے کی ضرورت ہے۔ یہ سچ ہے کہ کچھ گھروں میں جدید غسل خانے ہیں جن میں غسل کے دوران لیٹا جا سکتا ہے اور جن کے نَلوں سے نہ ختم ہونے والی مقدار میں پانی آتا ہے، لیکن ذرا سی خوش تدبیری اور ذہانت سے اُس کے بغیر بھی غسل لیا جا سکتا ہے۔ اُسے یقین تھا کہ امراء کے تولیے بھی اتنی عمدگی سے استری کیے ہوئے نہیں ہوتے ہوں گے جتنے عمدگی سے اُس کے تولیے استری کیے ہوتے تھے۔
تاہم، اُن دِنوں اُسے استری کرنا ایک مشکل کام لگتا تھا کیوں کہ جو استری وہ استعمال کرتی تھی اُس کا وزن ایک ٹَن تھا۔ حتّٰی کہ روزلینا بھی ایک بار اُس کے گھر آئی تو اُس نے بھی یہی بات کہی تھی۔ لیکن وہ اُسی استری کے ساتھ پچاس برسوں سے استری کرتی چلی آرہی تھی اور اُسے آسانی سے یُوں ہی نہیں چھوڑ سکتی تھی یا اُسے یُوں پھینک دیتی جیسے اُس کی اہمیت ہی نہ ہو۔ اِس کے علاوہ، پچاس برسوں کے استعمال کے دوران اُس نے کبھی اُسے نیچا نہیں دکھایا تھا۔ اِس کی وجہ روپیہ پیسہ بھی نہیں تھی کہ وہ دُوسری استری خریدنا نہیں چاہتی تھی بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسی بھی ایسی شے سے جان نہیں چھڑا سکتی تھی جس نے ہمیشہ اُس کی اچھی طرح خدمت کی ہو۔ وہ اُس کی اتنی آشنا ہو چکی تھی کہ اُس سے باتیں تک کر سکتی تھی۔
اور چیزوں سے باتیں کیوں نہ کی جائیں؟ مثلاً پیالوں اور چائے دانی سے جو اُس کے سامنے جھالردار پوش دان میں رکھی رہتی تھی۔ اگر وہ الماری کھولتی تو اُسے صفائی سے رکھی ہوئی چینی کی چمکتی دمکتی پلیٹیں اور شیشے کا گُل دان دِکھائی دیتا۔ جب وہ الماری کا پَٹ کھولتی تھی تو اُسے بالکل اُسی طرح پلیٹیں اور گُل دان دِکھائی دیتا— جیسے لوگ مُسکراتے وقت اپنے چمکتے ہوئے دانتوں کی دونوں قطاریں دِکھاتے ہیں۔ اشیاء بھی احتیاط سے برتے جانے کو پسند کرتی ہیں اور اگر وہ اپنی خدمات بہترین طور پر سر انجام دیں تو وہ عِزّت کا مطالبہ بھی کرتی ہیں۔ خواہ آپ اِسے نہ سمجھیں اور خواہ گھر کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اُس میں ہمیشہ ضرورت کی اشیاء موجود رہتی ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ اُس نے کبھی بیزاریت محسوس نہیں کی۔ گھڑیال، کُرسی، میز، جیکٹ، پردے— ہر شے اُس کی نظروں کو اپنی گرفت میں لیتی تھی جیسے وہ اُس کی توجہ چاہتی ہوں: دیکھو، مجھ پر دھول جم رہی ہے، میری چمک ماند ہو رہی ہے۔ مجھ پر سلوٹیں پڑ رہی ہیں، میر ا بٹن ٹُوٹ گیا ہے، ایک دھاگا ڈھیلا پڑ رہا ہے۔ وہ ہمیشہ کام میں لگی رہتی تھی۔ اُس کے اردگرد کی اشیاء اُسے ویسے ہی مصروف رکھتی تھیں جیسے بچّے مصروف رکھتے ہیں جن پر مستقلاً نظر رکھنا پڑتی ہے۔
اگر وہ کبھی اُسے موقع دیتیں یا وہ خود وقفہ لینے کا فیصلہ کرتی تو وہ ٹرام پکڑتی اور شہر کا چکر لگانے نکل جاتی۔ گرم ترین مہینوں میں وہ بُوڑھوں کی بس کا پاس لیتی اور چل نکلتی۔ لیکن یہ سرما میں مناسب نہیں ہوتا تھا۔ تب سردی اور بارشیں ہوتی تھیں اور وہ اپنے گنٹھیے کے مرض کی وجہ سے باہر نہ نکلنے کو ترجیح دیتی۔ لیکن وہ چُوں کہ تبھی باہر جاتی تھی جب موسم اچھا ہوتا۔ بس کا پاس سستا پڑتا تھا۔ اگر وہ بس کے پاس کو بارہ پر تقسیم کردیتی (اوہ، وہ اپنی رقم سے خوب آگاہ تھی، وہ ہمیشہ سکول میں بہت اچھی رہی تھی)۔ خوب، اگر وہ کرایے کو بارہ پر تقسیم کر دیتی تو بھی وہ پاس پر بہت کم ادا کر رہی تھی۔
وہ خاص طور پر ٹرام کو پسند کرتی تھی جو اُسے بِلا گاڑی بدلے شہر کا چکر لگوا دیتی تھی اور جس کی سِیٹیں بھی آرام دہ تھیں کیوں کہ وہ ہمیشہ ہی کھڑی کے ساتھ کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔ اگر اُسے جاتے ہوئے کھڑکی کے ساتھ والی نشست نہ بھی ملتی تب بھی اُسے یقین ہوتا تھا کہ واپسی پر ضرور مل جائے گی کہ کھڑکی کے ساتھ کی کسی نشست سے کوئی نہ کوئی اُٹھ کر اُتر جاتا اور پھر اُسے بس اتنا کرنا ہوتا کہ وہ تھوڑے فاصلے پر موجود نشست بدل لیتی اور ہر شے کا نظارہ کر سکتی تھی بالکل ایسے ہی جیسے وہ سینما میں بیٹھی ہو۔
وہ سینما زیادہ نہیں جاتی تھی۔ حقیقت میں وہ کئی برسوں سے سینما نہیں گئی تھی۔ اِس وجہ سے نہیں کہ سینما جانا مہنگا پڑتا تھا بلکہ بعض اوقات بہت پُرانی اور ٹوٹ گرنے والی سِیٹ ملتی تھی جو اُس کی کمر میں درد کر دیتی تھی۔ پھر یہ بھی تھا کہ وہ غیر یقینی کیفیت کا شکار رہتی تھی کہ فلم پسند بھی آئے گی یا نہیں۔ اور اگر اُسے فلم پسند نہ آتی تو وہ وہ نہیں کر سکتی تھی جو ٹی وی کے ساتھ کرتی تھی یعنی یا تو چینل بدل دیتی یا پھر ٹی وی بند کر دیتی۔ اُسے یا تو فلم کے خاتمے تک چپک کر بیٹھنا پڑتا یا پھر اُس کے ختم ہونے سے پہلے ہی اُسے ادھورا چھوڑ کر آنا پڑتا۔ اور بیچ ہی میں چھوڑ کر آنا اُس کے لیے سخت تکلیف دہ تھا جس سے وہ کئی بار گُزری تھی۔
یہی وجہ تھی کہ وہ اب سینما نہیں جاتی تھی۔ بِلا شبہ وہ ٹیلی ویژن بہت زیادہ دیکھتی تھی لیکن اُسے ٹرام میں سفر کرنے میں زیادہ لطف آتا تھا۔ گھر میں بند ہو کر بیٹھ رہنے کی نسبت وہ باہر لوگوں میں سڑکوں پر نکلتی۔ خود کو پیدل چلا چلا کر تھکا ڈالنے کی بجائے وہ کسی آرام دہ جگہ پر بیٹھ کر دُوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے سے لطف اندوز ہوتی تھی— تمام بتّیوں سے منوّر دُکان کی الماری، بھاگتا ہؤا آدمی، گوبھیوں سے لدی ٹوکری کے بوجھ سے جھکی عورت۔ اور وہ کُرسی پر بیٹھی، بِلا کچھ اُٹھائے حتّٰی کہ اپنے بدن کا بوجھ بھی نہیں، یہ منظر دیکھتی تو— اُس کی بے حد کاہلی اُسے بلند آہنگ قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیتی تھی۔
لیکن جب اُس کے جوڑوں کا درد اور سوزش بُری حالت میں نہیں ہوتے تھے تو وہ پیدل چلنے سے بھی لطف اُٹھاتی تھی۔ بسا اوقات— یہ ایک معجزے کی مانند ہوتا تھا— اُسے کوئی شے تکلیف نہیں دیتی تھی، نہ ٹانگ، نہ گردن اور نہ ہی بازو۔ وہ ہر سمت میں بغیر تکلیف کے بہ آسانی چل پھر سکتی تھی، بالکل ایسے جیسے وہ دوبارہ جوان ہو گئی ہو۔ تب وہ ہلکے پھلکے انداز میں سیر کرتی۔ اُسے اِس سہولت پر فخر ہوتا کہ وہ قدم آگے بڑھا سکتی تھی۔
جب وہ پیدل چلتی تھی تو مختلف رفتار سے چلتے ہوئے چیزوں کو مختلف انداز میں دیکھتی تھی۔ اُس کی نظر میں وہ گھاس آجاتی جو اِس سے پہلے موجود نہیں ہوتی تھی۔ اُسے معلوم ہوتا کہ سیڑھی کے کچھ قدمچوں پر رکھے گُل دانوں میں لگے بیگونیا کے پودے پچھلی بار کی نسبت کچھ انچ بڑھ گئے تھے اور یہ کہ ایک خاص کھڑکی کے شیشے کے عقب میں اُسے ہمیشہ ایک بِلّی تقریباً سوئی ہوئی ملتی تھی یا پھر یہ کہ برائے فروخت والے گھر پر اچانک ہی دروازے کے باہر نگہبانی کرنے والے کُتّے نگرانی کرتے نظر آنے لگتے تھے۔ وہ خود ہی شرط بَد لیتی کہ آیا اِس بار اُن کے پاس سے گُزرنے پر کُتّے اُس پر بھونکیں گے یا نہیں۔
وہ اپنے آپ کے ساتھ شرطیں لگانے میں بھی حظ اُٹھاتی تھی اور اکثر اُس کا اندازہ درست ہوتا تھا۔ کل بارش ہو گی کہ نہیں، میڈالینا فون کرے گی یا نہیں، جب وہ واپس لوٹے گی تو پڑوسیوں کا گلی والا دروازہ کھُلا ہوگا یا بند؟
سال میں ایک بار وہ لاٹری کا ٹکٹ خریدتی تھی۔ اُس نے کبھی کوئی چیز نہیں جیتی تھی لیکن وہ اب بھی یہ کھیل پسند کرتی تھی۔ سال میں ایک بار وہ خود کو اِس چھوٹی سی عیاشی اور رقم ضائع کرنے کی اجازت دیتی تھی۔ لیکن وہ دُوسرے طریقوں سے بھی حِصّہ لیتی تھی مثلاً ہر ہفتے وہ کونے والی دُکان کی کھڑکی میں فہرست کا مطالعہ کرتی اور فیصلہ کرتی کہ کون سے نمبر جیتنے والے لگتے تھے۔ وہ اُنھیں کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ لیتی اور پھر لاٹری کھُلنے کے دِن وہ جا کر دیکھتی کہ کون سے نمبر جیتے تھے۔ وہ اُن نمبروں کو خریدتی نہیں تھی لیکن قانع ہو کر اُن پر خرچ ہونے والی رقم کو ایک غلّک میں ڈالتی رہتی تھی۔ اِس طرح اُسے دوہری خو شی ملتی تھی— وہ نمبروں کے انتخاب، یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ کون سا نمبر جیتے گا، اور نتائج کے انتظار سے مسرت حاصل کرتی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ پیسے بھی بچا لیتی تھی۔ اپنی اِس باتدبیری پر وہ آپ ہی آپ مُسکرا دیتی تھی۔
وہ کبھی کبھار اپنے بچّوں اور بچّوں کے بچّوں کو خط لکھتی تھی لیکن وہ ایسا اکثر نہیں کرتی تھی کیوں کہ وہ جان گئی تھی کہ اُن کے پاس اُس کے خطوط پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ یہ فطری امر تھا: لوگ ، بالخصوص بچّے اِن دِنوں اِس قدر مصروف اور ہراساں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ ہر جگہ افراتفری میں جاتے ہیں، مُنھ اندھیرے گھر سے نکلتے ہیں اور رَات گئے لوٹتے ہیں۔ تاہم وہ اِس تمام بھاگ دوڑ سے آزاد تھی۔ دُنیا میں بس اُسی کے پاس وقت ہی وقت تھا۔
یہ حقیقت تھی کہ بعض دِنوں میں وقت نہایت سست رَوی سے گُزرتا تھا۔ حتّٰی کہ تب بھی جب وہ ساری شام ٹی وی دیکھتے ہوئے گُزارتی تھی کیوں کہ اُس کی آنکھیں بُنائی کر کر کے خوب تھک گئی ہوتی تھیں۔ بے شک اُس نے گُزرے سالوں میں بہت سی چیزوں کو، خاص طور پر اپنی نظر اور بہت سی صحت کو، کھو دیا تھا لیکن بہت سے لوگوں کو بھی کھویا تھا: سب سے پہلے جے نِسٹو کو اور پھر اپنی نسل کے تقریباً تمام دوستوں اور خاندان کے لوگوں کو۔ پچھلے کئی برسوں سے اُسے اپنی ٹیلی فون نمبروں والی ڈائری سے ایک ایک کر کے نام کاٹنے کا تکلیف دِہ تجربہ ہو رہا تھا اور وہ دیکھ رہی تھی کہ مختصر ہوتی فہرست میں بالآخر صرف اُس کا اپنا ایک نام ہی بچا تھا۔
بِلاشبہ اُس کے ہمسائے بھی تھے اور وہ عورت بھی جو اُس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اُن کے بغیر ایک دِن بھی یا ایک سے زیادہ دِن نہیں گُزرتا تھا۔ وہ آکر اُس سے دُکھ سُکھ کرتے اور تازہ ترین خبریں سُناتے تھے یا محض یہ معلوم کرنے آجاتے تھے کہ وہ کیسی ہے۔ اور پھر میڈالینا بھی تھی جو اب پڑوسی نہیں رہی تھی کیوں کہ وہ اب جا کر اُس کی ایک بیٹی کے ساتھ رہنے لگی تھی لیکن وہ اب بھی باقاعدگی سے عام طور پر کہ اُسے اُس کو چھوڑ کر جانے کا کتنا دُکھ ہے اور اُس کے داماد کی شکایت کرنے کے لیے فون کرتی تھی۔
اِس وجہ سے یا دیگر وجوہات کی بِناء پر بُوڑھی عورت کو خیال آتا تھا کہ وہ کبھی نہیں مرے گی۔ وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں بہت آسودہ اور رَومال کے حجم کے باغیچے سے بہت مطمئن تھی جہاں وہ اُن دِنوں میں بیٹھ کر دھوپ سینکتی تھی جن دِنوں وہ باہر نہیں نکلتی تھی اور جہاں اُس نے محض مسرت خیزی کے لیے جانور رَکھے ہوئے تھے۔ اب اُس کے پاس صرف مُرغیاں تھی لیکن کسی زمانے میں اُس نے خرگوش بھی پال رکھے تھے۔ اُس نے اُن سے اُس وقت جان چھڑوائی جب وہ جھک کر اُنھیں گھاس کھِلانے کے قابل نہ رہی۔ یہ فیصلہ کرنا اُس کے لیے بہت مشکل ثابت ہؤا تھا لیکن مُرغیاں اُس کے لیے کافی تھیں۔ اُس کے پاس ہمیشہ کچھ انڈے اور چُوزے رہے تھے اور اُس کی خاطر دیکھ بھال کرنے والے عورت کی بیٹی فالتو چُوزوں کو بازار میں بیچ آتی تھی جو زیادہ مہنگے اور دُوسری مُرغیوں سے زیادہ لذیذ ہوتھے تھے۔ اِس سے اُسے تھوڑی سی آمدن ہو جاتی تھی، وہ مصروف رہتی تھی اور وہ اُسے رفاقت بھی دیتی تھیں۔ وہ نہ صرف مُرغ کی اذان کو پسند کرتی تھی بلکہ وہ اُسے علی الصبح جگا بھی دیتا تھا اور سارا دِن اذانیں دیتا رہتا تھا۔
ایمانداری کی بات یہ تھی کہ وہ صرف اِس چیز سے خوف زدہ تھی کہ اُس سے اُس کا گھر چھڑا لیا جائے۔ وہ بازوؤں والی کُرسی پر بیٹھ کر اپنے کمرے میں ارد گرد کی مختلف چیزوں کو دیکھتے ہوئے— الماری، میز ، سائیڈ بورڈ اور کُرسیوں کو— کبھی کبھار اِس بارے میں سوچتی تھی۔ ایک بار گھر کا مالک اُسے ملنے اور منانے آیا تھا۔ اُس نے اُسے جانے کی صُورت میں ازالے کی پیش کش بھی کی تھی۔ اُس نے اُس سے وعدہ کیا کہ وہ اُسے ایک اچھے اپارٹمنٹ میں بھیجے گا جس میں سردوگرم کا مرکزی نظام، غسل خانہ اور کپڑے دھونے والی مشین ہو گی۔ لیکن اُس نے اُس پر اعتبار نہیں کیا۔ اگر یہ سچ بھی ہوتا تو بھی وہ نئے ہمسایوں کے گروہ میں نہیں جانا چاہتی تھی۔ کیا ہوتا اگر وہ اُنھیں پسند نہ کرتی؟ اور وہ مُرغیوں کا کیا کرتی؟ وہ اُن سے چھٹکارا نہیں چاہتی تھی۔ کسی بھی نوع کے جانور کے بغیر زندگی ممکن نہیں لگتی تھی۔
مالک مکان نے اصرار کیا تھا اور بار بار چکر لگائے تھے۔ حتّٰی کہ اُس نے اپنی پیش کش میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ لیکن اُسے راضی نہیں کر سکا تھا۔ دیکھ بھال کرنے والی عورت نے اُسے بتایا کہ وہ کُلی طور پر حق پر تھی اور قانوناً وہ اُسے بے دخل نہیں کر سکتے تھے۔ پھر بھی بُوڑھی عورت اِس بات سے ڈرتی تھی کہ قانون بدل نہ جائے۔ دُنیا ایسی ہی غیریقین جگہ ہے جس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔
وہ اِس بات سے بھی خوف زدہ تھی کہ اُسے گھر میں نہ ڈال دیا جائے۔ اُس کا خاندان ایسا کر سکتا تھا مثلاً اگر وہ معذور ہو جاتی یا اُس کے ساتھ کچھ اَور بُرا پیش آجاتا یا کوئی دُوسرا اُس کے بارے میں فیصلہ کر لیتا۔ ہاں، وہ اِس بات سے ڈرتی تھی۔ وہ موت سے اتنی زیادہ خوف زدہ نہیں تھی بجز اِس کے کہ موت کے خیال سے چند ناخوشگوار چیزیں جڑیں تھیں۔ وہ وقتاً فوقتاً بازوؤں والی کُرسی پر بیٹھ کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اِس کے بارے میں سوچتی اور بعض اوقات بیٹھے بیٹھے سو جاتی تھی۔
ایک مرتبہ اُس نے خواب دیکھا کہ تابوت اُٹھائے ہوئے دو آدمیوں نے اُس کے دروازے پر دستک دی۔ وہ پسینے میں خوب بھیگے ہوئے تھے اور تھوڑے سے بدحواس نظر آتے تھے۔ وہ جنازوں کو کندھا دینے والوں کی مانند نظر آتے تھے لیکن اُس نے اُنھیں فوراً پہچان لیا کہ وہ درحقیقت فرشتے تھے۔ اُن میں سے ایک گنجا ہو رہا تھا اور دُوسرا تھوڑا سا ہکلا تھا اور وہ رومال سے مسلسل اپنی ابرو پُونچھ کر رہا تھا۔
’’کیا یہی مطلوبہ جگہ ہے؟‘‘ اُنھوں نے دریافت کیا۔
اُس نے اُنھیں بتایا کہ وہی مطلوبہ جگہ تھی اور اندر آنے کو کہا۔ وہ تھکے ہوئے دِکھائی دیتے تھے اور یقینی طور پر وہ بہت دُور سے آئے تھے۔ اُس نے اپنے ایپرن کے کونے سے جلدی سے سٹول صاف کر کے اُنھیں دیتے ہوئے بیٹھنے کے لیے کہا۔ وہ اُن کے لیے روٹی، پنیر اور شراب کا ایک ایک گلاس لائی۔ پھر وہ میز کے دُوسری طرف بیٹھ کر اُنھیں دیکھنے لگی۔
’’بہت طویل سفر تھا۔‘‘ وہ بولے۔
’’خوب۔‘‘ بُوڑھی عورت نے کہا۔ ’’میں اِس سے قبل کہیں نہیں گئی۔ میں مکمل ایمانداری سے کہتی ہوں کہ میں یہ جاننے کے لیے واقعی مشتاق تھی کہ دُوسری طرف کیا ہے؟‘‘
فرشتوں نے شراب کا ایک ایک گھُونٹ بھرا اَور کوئی جواب نہیں دیا۔
’’تابوت کے اندر سے تو مجھے کچھ دِکھائی نہیں دے گا۔‘‘ بُوڑھی عورت نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’اِس کی بجائے تم مجھے اور میرے گھر کو تمام سامان سمیت لے جاؤ تو بہتر ہے۔‘‘
’’یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ ایک فرشتے نے کہا۔
’’لیکن اگر تم چاہو تو ہم تمھیں تمھاری کُرسی میں لے جا سکتے ہیں۔‘‘ دُوسرا بولا۔
اور اچانک ہی وہ اپنی بازوؤں والی کُرسی پر بیٹھی ہوئی گھر سے باہر اور پھر چھت پر تھی جسے فرشے دونوں اطراف سے پکڑے ہوئے لے جا رہے تھے۔
وہ دُوسرے گھروں کی چھتوں کو دیکھ سکتی تھی۔ سڑکیں چھوٹی ہوتی جا رہی تھیں جیسے کہ وہ جہاز میں بیٹھی ہو۔ اُسے کم از کم یہی خیال آیا تھا کہ جہاز سے ایسے ہی دِکھائی دیتا ہو گا۔وہ بلند ہوتے جا رہے تھے۔ وہ خوشی سے مُسکرائی کیوں کہ وہ اپنی پُوری زندگی میں کبھی جہاز پر سوار نہیں ہوئی تھی اور یہ نہایت تجسّس بھرا تجربہ تھا۔
تب ہی اُسے اپنی مُرغیاں یاد آگئیں۔
’’ٹھیرو، ٹھیرو۔‘‘ وہ فرشتوں پر چیخی۔ ’’میں مُرغیوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘
’’ہم اب واپس نہیں جاسکتے۔‘‘ ایک فرشتے نے جواب دیا۔
’’لیکن میرے بعد اُن کی دیکھ بھال کون کرے گا۔‘‘ بُوڑھی عورت بے حد تکلیف سے چِلّائی۔ ’’میں اُنھیں بالکل نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘
’’اب ہمارے لیے واپس جانا قطعاً ممکن نہیں رہا۔‘‘ ایک فرشتے نے کہا۔
لیکن دُوسرا فرشتہ زیادہ افہام و تفہیم والا تھا۔ اُسے نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ’’ آؤ تھوڑا سا نیچے چلیں، بس چھت تک۔‘‘
وہ تھوڑا نیچے اُتر آئے۔ دونوں فرشتوں کے ہاتھوں میں بازوؤں سے پکڑی کُرسی نیچے جھکی جب تک کہ بُوڑھی عورت نے باغیچے میں دوڑتی بھاگتی مُرغیوں کو دیکھ نہ لیا۔ اُس نے اُنھیں پُکارا اورہکلے فرشتے نے اپنے ہاتھوں سے ہانکا کر کے اُنھیں اُڑنے پر مجبور کیا۔ مُرغیاں اور مُرغ اُڑ کر چھت پر سے کُرسی کے بازوؤں اور پشت پر بیٹھ گئے اور وہ سب بلند ہوتے چلے گئے۔ بُوڑھی عورت بہت شُکر گُزار اور بلندی سے ہر شے کو— درختوں، چھتوں، مکانوں، سڑکوں پر ننّھی مُنّی کاروں، دریاؤں اور پلوں، ساحلِ سمندر، کھیتوں اور پہاڑوں کو اتنا واضح دیکھنے پر بہت خوش تھی۔ پھر وہ اَور بلند ہو گئے اور اُس نے بادلوں، افق تک پھیلے ہوئے بادلوں کے سمندر کو دیکھا جو ایسا نظارہ تھا جس کا زمین پر ہونا ممکنات میں سے نہیں تھا۔ بُوڑھی عورت نے عالمِ حیرت میں سوچا کہ ہمسائے اُس پر کبھی یقین نہیں کریں گے جب وہ بتائے گی کہ اُس نے کیا دیکھا تھا۔
لیکن اُس نے اپنے پڑوسیوں کو کبھی نہیں بتایا کیوں کہ وہ خواب سے کبھی واپس ہی نہیں آئی۔
۰۰۰

ٹِیولِنڈا جرساؤ
ٹِیولِنڈا جرساؤ ۳۰ جنوری ۱۹۴۰ء کو کوئمبرا (پرتگال) میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے جرمن، انگریزی اور رَومانوی زبانیں کوئمبرا، ٹیوبِن جِن اور برلن کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی۔ وہ پرتگال میں ٹیکنیکل یونیورسٹی آف برلن، لِسبن آرٹس فیکلٹی کے تدریسی عملے کی رُکن رہیں اور بعد ازاں یونیورسٹی آف لِسبن میں پروفیسر رہیں جہاں اُنھوں نے جرمن ادب اور تقابلی ادب کی ۱۹۹۵ء تک تعلیم دی۔ تب ہی سے اُنھوں نے خود کو مکمل طور پر لکھنے کے لیے وقف کر دیا۔ اُن کے ناولوں اور مختصر کہانیوں کو پرتگال کے کچھ اہم اعزازات ملے اور اُنھیں بہت سی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اُنھوں نے ۱۹۹۷ء میں لکھے جانے والے اپنے ناول کے پس منظر موزمبیق کا بھی دورہ کیا جس کا اُس زمانے میں لورینکو مارکیز دارالحکومت تھا۔ وہ فروری اور مارچ ۲۰۰۴ء میں بارکلے یونیورسٹی کی ریذیڈنٹ رائٹر بھی رہی ہیں۔
ٹِیولِنڈا جرساؤ کے ناول معاصر معاشرے کو برتتے ہیںخواہ اُنھیں کسی بھی زمانے میں رکھ دیا جائے۔ اُس کے ناولوں کے کچھ مرکزی موضوعات میں انسانی تعلّقات کی پیچیدگیاں، ابلاغ کی مشکلات، محبت و موت، استحصال، آزادی، شناخت، مزاحمت اور تخلیقی عمل شامل ہیں۔ اُس کی تحریروں کا ایک اَور مرکزی خیال’ وقت ‘ہے۔ چاہے وقت کو بیانیے میں برتا گیا ہو یا تاریخی وقت جس میں اُس کے ناول وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ سالازار کی آمریت، بیسویں دہائی، انیسویں صدی، اور پُرتگالی کولونیل موزمبیق کی پچاسویں اور ساٹھویں دہائیاں۔ پُرتگالی تاریخ کے یہ زمانے، جو ہر ناول کے احاطۂ عمل کا باطن ہیں، اِس طور پر برتے گئے ہیں کہ وقت کو ماورا کرتے ہوئے اُن کے کام کو آفاقیت عطا کرتے ہیں۔
۰۰۰
ٹیولنڈا جرساؤ کی تحریروں کے تازہ تراجم:

نجم الدین احمد
نجم الدین احمد ۰۲ جون ۱۹۷۱ء کو بہاول نگر ، پنجاب میں پیدا ہوئے۔ وہ انگریزی ادب میں ایم اے ہیں۔ وہ ناول نویس، افسانہ نگار اور مترجم ہیں۔ اُن کے اب تک تین ناول: ’’مدفن‘‘،’’کھوج‘‘ اور ’’سہیم‘‘؛ دو افسانوی مجموعے: ’’آؤ بھائی کھیلیں‘‘اور ’’فرار اور دوسرے افسانے‘‘؛عالمی افسانوی ادب سے تراجم کی سات کتب: ’’بہترین امریکی کہانیاں‘‘، ’’نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں‘‘، ’’عالمی افسانہ-۱‘‘، ’’فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)‘‘، ’’پلوتا (سرائیکی ناول از سلیم شہزاد)‘‘، ’’کافکا بر لبِ ساحل (جاپانی ناول ازو ہاروکی موراکامی)‘‘، ’’کتاب دَدَہ گُرگود (ترک/آذر بائیجان کی قدیم رزمیہ داستان‘‘شائع ہو چکی ہیں۔
علاوہ ازیں نجم الدین احمد نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے انگریزی زبان میں’’ڈسٹرکٹ گزٹیئر ضلع بہاول نگر ۲۰۲۱ء‘‘بھی تحریر و تالیف کیا، جسے حکومتِ پنجاب کی سائٹ پرشائع کیا گیا ہے۔ اُن کی تصانیف پر اب تک انھیں رائٹرز گلڈ ایوارڈ۔۲۰۱۳ء، یو بی ایل ایوارڈ۔ ۲۰۱۷ء اور قومی ادبی ایوارڈ۔ ۲۰۱۹ء سے نوازا جا چکا ہے۔اُن کا ناول یوبی ایل ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔
۰۰۰