𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛

فسوں کاریاں

ہسپانوی کہانی

مکونڈو میں بارش دیکھتے ہوئے ازابیل کی خود کلامی

گیبریل گارشیا مارکیز

Gabriel García Márquez

تعارف و  ترجمہ:    ریحان اسلام

Urdu Translation of Monologue of Isabel Watching It Rain in Macondo of Gabrial Garcia Marquez Nobel Laureate-

ایک اتوار جب لوگ چرچ سے نکل رہے تھے تو سردی پڑنے لگی۔ ہفتے کی رات جبس زدہ تھی۔ حتّٰی کہ اتوار کی صبح کو بھی کسی نے نہیں سوچا تھا کہ بارش ہوگی۔ واعظ ختم ہونے کے بعد عورتوں نے ابھی چھتری بھی نہیں اٹھائی تھی کہ ایک دم تند و تیز کالی ہوا چلی جس کا ایک بڑا بگولہ مٹی اور مٹی کی خشک لکڑیوں کو اڑا کرلے گیا۔ میرے پاس کھڑے کسی شخص نے کہا: ’’یہ بارش والی ہوا ہے ۔‘‘  میں یہ سب پہلے سے ہی محسوس کر رہی تھی۔ جس لمحے ہم باہر چرچ کی سیڑھیوں پر آئے تھے میری چھٹی حس مجھے خبر دار کر رہی تھی جس کی وجہ سے میں لرز کر رہ گئی تھی۔ مرد خود کو تیز ہوا اور مٹی کے طوفان سے بچانے کے لیے ایک ہاتھ ٹوپی پر رکھے اور دوسرے ہاتھ میں رومال لیے قریبی گھروں کی طرف دوڑنے لگے۔ پھر بارش برسنے لگی۔ آسمان سرمئی ہو چکا تھا، یہ ایک جیلی نما مادے میں تبدیل ہو چکا تھا جو عین ہمارے سروں پر اپنے پر پھڑ پھڑا رہا تھا۔

دن کے باقی حصے میں مَیں اور میری سوتیلی ماں بنگلے کے پاس بیٹھے رہے اور یہ سوچ کر خوش ہوتے رہے کہ اب بارش کی وجہ سے پیاسے نگل مریم اور بالچھڑ کے پودے تازہ دم ہو جائیں گے کیونکہ شدید گرمی اور تپتی ریت نے ان کا برا حال کر دیا تھا۔ دو پہر کو زمین کی بے چینی ختم ہو گئی اور مٹی  مہکنے لگی، یہ ہرے بھرے اور تازہ دم سبزے کی مہک تھی جو گل مریم کی ٹھنڈی اور صحت بخش بو کے ساتھ شامل ہو چکی تھی۔ دوپہر کے کھانے کے وقت میرے باپ نے کہا: ’’مئی کے مہینے میں بارش کا ہونا اچھا شگون ہے۔‘‘ نئے موسم کی آمد پر مسکراتے ہوئے میری سوتیلی ماں نے مجھے بتایا: ’’میں نے خطبے میں بھی یہی بات سنی تھی۔‘‘ یہ سن کر میرا باپ مسکرایا۔ انھوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور پھر دیگچے کے پاس سکون سے کھانا ہضم کرنے کے لیے جھولی کرسی میں لیٹ گئے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں ، وہ سو نہیں رہے تھے بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جاگتے ہوئے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پوری سہ پہر ایک ہی ڈھنگ میں بارش ہوتی رہی، یہ پرسکون انداز میں تیزی سے برستی رہی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آپ ریل گاڑی میں سہ پہر کے وقت سفر کر رہے ہیں اور بارش کی آواز سن رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ محسوس نہیں کر پا رہے تھے کہ بارش ہمارے حواس میں گھستی چلی جارہی تھی ۔ سوموار کی صبح صبح ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے ہم دروازے بند کر رہے تھے تو ہمارے حواسوں پر بارش چھائی ہوئی تھی ۔ سوموار کی صبح پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ میری سوتیلی ماں اور میں گھر کے عقب میں باغچے پر نظر ڈالئے گئے۔ مئی کی سخت اور سرمئی زمین راتوں رات ایک سستے اور کالے چپکنے والے صابن میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ پھولوں کے گملوں سے پانی گر رہا تھا۔ ’’میرے خیال میں رات کو انھیں ضرورت سے زیادہ پانی ملا ہے۔‘‘ میری سوتیلی ماں نے کہا۔ میں نے غور کیا کہ ان کی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی اور ایک ہی رات میں ان کی گزشتہ روز کی خوشی ایک بے چین اور تھکا دینے والی سنجیدگی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ میں نے تائید کی۔ ’’بہتر ہے کہ سرخ ہندی ملازم بارش رکنے تک انھیں برآمدے میں رکھ دیں۔‘‘ ملازموں نے ایسا ہی کیا جبکہ بارش نے ایک بہت بڑے درخت کی شکل اختیار کر لی تھی جس نےتمام درختوں کو ڈھانپ دیا تھا۔ میرا باپ اسی جگہ لیٹار با جہاں وہ اتوار کی شام لیٹا تھا لیکن اس نے بارش کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ اس نے کہا: ’’شاید میں رات ٹھیک سے سو نہیں سکا کیونکہ میری کمر میں اکڑاؤ ہے۔‘‘ وہ دو ہیں جنگلے کے ساتھ ایک کرسی پر پاؤں دھرے منھ خالی باغچے کی طرف کیے بیٹھے رہے۔ انھوں نے دوپہر کا کھانا واپس کر دیا تھا۔ شام کو وہ بولے: ’’ ایسا لگ رہا ہے کہ بارش کبھی نہیں رکے گی۔‘‘ مجھے گرمی والے مہینے یاد آ گئے۔ مجھے اگست یاد آیا جب لمبی دو پہروں کے بوجھ تلے ہم لمبی تان کر گہری نیند سو جاتے تھے، ہمارے کپڑے جسم سے چپک جاتے تھے اور ست روی سے گزرتے وقت کی بھنبھناہٹ مسلسل سنائی دیتی تھی۔ میں نے دھلی ہوئی دیواروں کو دیکھا جن کے جوڑ پانی سے پھولے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ باغچہ پہلی بار خالی ہو گیا تھا اور میری مرحوم ماں کی وفادار چنبیلی دیوار سے لگی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ میرا باپ جھولی کرسی میں دکھتی کمر کو تکیے پر ٹکا کر بیٹھا تھا اور اس کی اداس آنکھیں بارش کے معمے میں الجھی ہوئی تھیں۔ مجھے اگست کی راتیں یاد آئیں جب ہر طرف مطلق خاموشی چھائی ہوتی تھی اور کچھ بھی سنائی نہ دیتا تھا سوائے زمین کی اپنے زنگ آلود مرکز کے گرد ازلی گردش کی گڑگڑاہٹ کے۔ اچانک ایک زور آور اداسی نے مجھے آلیا۔

اتوار کی طرح سوموار کو بھی سارا دن بارش ہوتی رہی۔ لیکن اب بارش کسی اور انداز سے ہو رہی تھی کیونکہ میرے دل میں کچھ مختلف اور تکلیف دہ احساسات جنم لے رہے تھے۔ شام کے وقت میری ساتھ والی کرسی سے آواز آئی: ’’یہ بارش اکتا دینے والی ہے۔‘‘  میں دیکھے بغیر پہچان گئی تھی کہ یہ مارٹن کی آواز ہے۔ مجھے پتا تھا کہ ساتھ والی کرسی پر وہی ہے جو اپنے اسی جذبات سے عاری اور عجیب تاثرات کے ساتھ بول رہا ہے جو تاثرات دسمبر کی اس پریشان صبح بھی نہیں بدلے تھے جب وہ میرا شوہر بنا تھا۔ اس بات کو پانچ ماہ ہو گئے تھے۔ اب میں حاملہ تھی اور  مارٹن کہہ رہا تھا کہ وہ بارش سے اکتا گیا ہے۔ ’’اکتا دینے والی نہیں ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’یہ ا فسردہ کر دینے والی ہے کیونکہ باغیچہ خالی ہو گیا ہے اور صحن میں موجود بیچارے درخت گھر کے اندر نہیں آسکتے۔‘‘ پھر میں نے مڑ کر مارٹن کی طرف دیکھا تو وہ جا چکا تھا۔ یہ صرف ایک آواز تھی جو کہہ رہی تھی: ’’ لگتا ہے کہ بارش کبھی نہیں تھے گی۔‘‘  اور جب میں نے آواز کی طرف دیکھا تو وہاں خالی کرہی تھی۔

منگل کی صبح ہم نے دیکھا کہ با نیچے میں ایک گائے کھڑی تھی۔ وہ ایک سخت چکنی مٹی کی پہاڑی کی طرح لگ رہی تھی جس نے حرکت کے خلاف بغاوت کر دی تھی، اس کے کُھر زمین میں دھنسے ہوئے تھے اور سر جھکا ہوا۔ دن کے وقت سرخ ہندی ملازموں نے پتھروں اور ڈنڈوں سے اسے بھگانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور اپنے آپ میں گم کھڑی رہی۔ اس کے پاؤں ابھی تک دھنسے ہوئے تھے اور سر بارش سے جھکا ہوا۔ ملازم اسے بھگانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہاں تک کہ میرے باپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ گائے کے دفاع میں بول پڑے ۔ ’’اسے اکیلا چھوڑ دو۔‘‘ وہ بولے ۔ ’’ وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی چلی جائے گی۔‘‘

منگل کے روز غروب آفتاب کے وقت بارش نے ایک تکلیف دہ غلاف کی شکل اختیار کر لی جیسے دل کے گرد کفن لپٹا ہوا ہو۔ اتوار کی صبح والی ٹھنڈک اب گرم اور  چپچپاہٹ والی نمی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ زیادہ حدت تھی نہ ٹھنڈک، یہ احساس بخار میں محسوس ہونے والی ٹھنڈک کے جیسا تھا۔ جوتوں میں پاؤں میں پسینہ آ رہا تھا۔ یہ بتا نامشکل تھا کہ کیا زیادہ تکلیف دہ ہے، بر ہنہ بدن یا کپڑوں کا جلد کو چھونا۔ گھر میں تمام سرگرمیاں معطل ہوگئی تھیں۔ ہم سب برآمدے میں بیٹھے تھے لیکن پہلے دن کی طرح بارش نہیں دیکھ رہے تھے۔ ہم بارش کا گر نامحسوس نہیں کر پارہے تھے۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا سوائے دھند میں لپٹی درختوں کی قطار اور اداس و ڈوبتے سورج کے۔ یہ ایسا منظر تھا جو ہونٹوں پر ایساذ ائقہ چھوڑ رہا تھا جو آپ تب محسوس کرتے ہیں جب کسی اجنبی کو خواب میں دیکھنے کے بعد جاگیں۔ میں جانتی تھی کہ وہ منگل کا دن تھا اور مجھے سینٹ جیروم سے تعلق رکھنے والی جڑواں نا بینا لڑکیاں یاد آئیں جو ہر ہفتے ہمارے گھر آکر سادہ سے گانے سناتی تھیں، ان کی خالص اور ملاوٹ سے پاک بچگا نہ آواز کرب سے بھر پور ہوتی تھی جو گانے کو مزید درد ناک بنا دیتی تھی۔ میں جڑواں نابینا بہنوں کی آواز سن سکتی تھی اور میں نے تصور کیا کہ وہ اپنے گھر میں ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھی ہوں گی اور بارش کے رکنے کا انتظار کر رہی ہوں گی تا کہ وہ باہر جا کر گانا گا سکیں۔ اس روز سینٹ جیروم کی جڑواں لڑکیاں نہیں آنے والی تھیں، میں نے سوچا، اور نہ ہی وہ بھکارن جو ہر منگل کی شام ہمارے جاگنے کے بعد بر آمدے میں آجاتی تھی اور سدا بہار پودینے کی شاخ کا مطالبہ کرتی تھی۔

اس روز ہم کھانا پینا بھول گئے۔ قیلوے کے وقت میری سوتیلی ماں نے طشتریوں میں بے ذائقہ سوپ اور باسی روٹی کا ایک ٹکڑادیا۔ در حقیقت سوموار کی شام سے ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا اور میرے خیال سے اس کے بعد سے ہم نے سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ بارش نے ہمیں مدہوش کر دیا تھا، ہم فالج زدہ ہو چکے تھے اور خاموشی اور رضامندی سے فطرت کی تباہی کے لیے تیار تھے۔ شام کو صرف گائے حرکت کر رہی تھی۔ اچانک اس کے اندر کسی شور نے اسے ہلا کر رکھ دیا اور اس کے کُھر گارے میں مزید دھنس گئے۔ پھر وہ آدھ گھنٹہ بے حس و حرکت کھڑی رہی، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پہلے ہی مر چکی ہے لیکن زندہ رہنے کی عادت اور بارش میں ایک ہی انداز سے کھڑے رہنے کی عادت اسے گرنے سے روک رہی تھی یہاں تک کہ اس کی عادت اس کے جسم کے مقابلے میں کمزور پڑگئی۔ پھر اس نے اگلی دونوں ٹانگیں موڑ لیں (اس کی پچھلی چمکدار اور کالی ٹانگیں آخری مزاحمت کرتے ہوئے اب بھی سیدھی تھیں۔) اور اس کا رال ٹپکا تا منھ کیچڑ میں پھنس گیا۔ آخر کا ر اس نے ہار مان لی اور خاموشی سے، آہستہ آہستہ پر وقار طریقے سے سقوط مکمل ہوا اور وہ اپنے بوجھ تلے دب گئی۔ ’’اس نے بہت مزاحمت کی۔‘‘ میرے عقب سے کسی نے کہا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو چوکھٹ پر بھکارن بیٹھی تھی۔ اتنے شدید طوفان کے باوجود وہ پودینے کی شاخ لینے آئی تھی۔

شاید بدھ کے دن میں اس گھٹن زدہ ماحول کی عادی ہوگئی ہوتی اگر میں بیٹھک میں نہ جاتی اور وہاں دیوار کے ساتھ لگی میز پر فرنیچر کا ڈھیر نہ لگا ہوتا اور دوسری طرف رات کے وقت بنائی گئی چھوٹی سی دیوار پر صندوق اور گھر کے سامان کے ڈبے نہ ہوتے۔ وہ منظر دیکھ کر میرے اندر خالی پن کی ایک شدید لہر دوڑ گئی۔ رات کو کچھ تو ہوا تھا۔ تمام گھر بکھرا ہوا تھا۔ سرخ ہندی ملازم بغیر قمیضوں کے اور ننگے پاؤں تھے اور ان کی پتلونیں گھٹنوں تک چڑھی ہوئی تھیں۔ وہ فرنیچر اٹھا کر کھانے کے کمرے میں لے جا رہے تھے۔ وہ سب لگن سے کام کر رہے تھے لیکن مردوں کے چہرے پر غصے اور بغاوت کے آثار نمایاں تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے بارش نے ان کی خجالت اور کم تری تھے میں اضافہ کر دیا ہو۔ میں سمت اور ارادے کا تعین کیے بغیر چلنے لگی۔

میں نے محسوس کیا کہ میں ایک بنجر چراگاہ میں تبدیل ہوگئی ہوں جس میں ہر طرف ایلیجی اور پھپھوندی کے ساتھ نرم اور چپچی زہریلی کھمبیاں اگی ہوئی ہیں اور نمی اور سائے میں اگنے والے کر یہ المنظر پودے ان کی زرخیزی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ میں وہاں کھڑی بکھرے ہوئے فرنیچر کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ ساتھ والے کمرے سے میری ماں نے خبر دار کیا کہ مجھے نمونیا ہوسکتا ہے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میرے ٹخنوں تک پانی تھا، سارا گھرپانی پانی ہو چکا تھا اور فرش گا ڑ ھے اور میلے کچیلے پانی سے ڈھکا ہوا تھا۔

بدھ کی دو پہر تک دن مکمل طور پر نہیں نکلا تھا۔ سہ پہر کے تین بجے سے پہلے ہی بے وقت اور بیمار کر دینے والی رات چھا گئی۔ بارش کی طرح یہ رات آہستہ آہستہ ایک ہی ڈھنگ اور بے رحمی سے پھیل رہی تھی۔ یہ قبل از وقت شام تھی جو دھیمی اور افسر دی تھی۔ یہ کرسیوں پر اکڑوں بیٹھے ملازموں کے درمیان پھیلتی جارہی تھی۔ فطرت کی اس ہلچل کے سامنے سرخ ہندی بے بس اور شکست خوردہ لگ رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب باہر سے خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ کوئی شخص یہ خبر لے کر نہیں آیا تھا۔ یہ بس آگئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گلیوں میں بہتا ہوا گارا یہ خبر لایا تھا۔ یہ گارا گلیوں سے گزر رہا تھا، گھر کی چیزوں سے ٹکرا رہا تھا، دور کسی تباہی کے نتیجے میں بکھری چیزوں کو چھو کر آیا تھا، کچرے اور مردہ اجسام سے مل کر آرہا تھا۔ یہ خبر ان واقعات کی تھی جو اتوار کے روز پیش آئے تھے اور تب کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ بارش ایسی تباہی لے کر آئے گی۔ ہمارے گھر تک اس خبر کو پہنچنے میں دو دن لگے۔ بدھ کے روز یہ خبر ایسے پہنچی جیسے کہ طوفان نے اسے یہاں آنے پر مجبور کیا ہو۔ خبر تھی کہ سیلاب چرچ میں بھی داخل ہو گیا تھا اور وہ کسی بھی وقت ڈھے سکتا تھا۔

نہ جانے اسے کیسے پتہ چلا لیکن اس رات ایک شخص نے بتایا۔ ’’سوموار سے ریل گاڑی پل عبور نہیں کر سکی ہے۔ لگتا ہے کہ دریا پٹڑیاں بہا کر لے گیا ہے۔‘‘ ایک اور خبر آئی کہ ایک بیمار خاتون اپنے بستر سے غائب ہوگئی اور اسی شام اس کی لاش صحن میں تیر رہی تھی۔

 ڈر اور خوف کے سائے تلے سیلاب سے تنگ آکر میں ٹانگیں موڑ کر جھولی کرسی پر بیٹھ گئی اورنمی اور غیر یقینیت سے بھر پور اندھیرے میں دیکھنے لگی۔ ہاتھ میں دیا لیے تنے ہوئے سر کے ساتھ میری سوتیلی ماں دروازے میں آکھڑی ہوئی۔ وہ گھر کے کسی فرد کے بھوت کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ مجھے اس لیے ڈر نہ لگا کیونکہ میں خود کو بھی بھوت محسوس کر رہی تھی۔ وہ وہاں کھڑی ہوگئی جہاں کچھ دیر پہلے میں کھڑی تھی۔ ان کا سرا ب بھی تنا ہوا تھا اور دیا ہوا میں اٹھا ہوا تھا۔ برآمدے میں ان کے چلنے سے چھپک چھپک کی آواز پیدا ہورہی تھی۔ ’’اب ہمیں دعا کرنی ہوگی۔‘‘ وہ بولیں۔ ان کے خشک اور جھریوں بھرے چہرے کو دیکھ کر مجھے لگا جیسے وہ ابھی اپنے مقبرے سے نکلی ہیں اور انھیں کسی اور مٹی سے بنایا گیا ہے۔ وہ ہاتھ میں تسبیح لیے میرے سامنے کھڑی تھیں اور کہہ رہی تھیں: ’’اب دعا کا وقت آ گیا ہے۔ پانی قبروں میں گھس گیا ہے اور بھاری لاشیں قبرستان میں تیر رہی ہیں۔‘‘

میں اُس رات کچھ دیر ہی سوئی تھی کہ گلتی سڑتی لاشوں کی ناگوار اور چبھنے والی بدبو سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے ساتھ خراٹے لیتے مارٹن کو جھنجوڑا۔ ’’تمھیں بدبونہیں آرہی؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ اس نے پوچھا: ’’ کیا؟‘‘  میں نے بتایا۔ ’’ بدبو آرہی ہے۔ یہ ضرور گلیوں میں تیرتی لاشوں کی بدبو ہے ۔‘‘  میں شدید تشویش میں مبتلا تھی لیکن مارٹن نے دیوار کی طرف کروٹ لی اور بیٹھی ہوئی اور نیند بھری آواز میں کہا: ’’یہ تمھار اوہم ہے۔ حاملہ عورتیں ایسی باتیں سوچتی رہتی ہیں۔‘‘

جمعرات کی صبح بد بو آنا بند ہوگئی اور فاصلے کا احساس ختم ہو گیا۔ گزشتہ روز سے جو وقت کا احساس گڑ بڑ ہو چکا تھا وہ احساس اب غائب ہو گیا تھا۔ پھر جمعرات کا دن بھی غائب ہو گیا۔ وہ چیز جسے جمعرات کہا جاسکتا تھا ایک جیلی نما جسم تھا جسے ہاتھ سے چیر کر جمعہ کے دن کو دیکھا جاسکتا تھا۔ وہاں کوئی مرد تھانہ عورت۔ میری سوتیلی ماں، میرا باپ اور ملازمین لاشے سے بنے جسم تھے جو سردی کی دلدل میں یہاں وہاں حرکت کر رہے تھے ۔ میرے باپ نے مجھ سے کہا: ’’جب تک تمھیں کہا نہ جائے یہاں سے کہیں مت  جانا۔‘‘  ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دور سے بول رہے تھے اور کسی اور  ہی سے  بات کر رہے تھے۔ کانوں تک ان کی آوازر پہنچ ہی نہیں پارہی تھی بلکہ جب آداز نے مجھے چھوا تو مجھے پتا چلا اب صرف چھونے کی حس ہی کام کر رہی تھی۔

میرا باپ لوٹ کر نہ آیا۔ وہ موسم میں گم ہو کر رہ گیا تھا۔ جب رات ہوئی تو میں نے اپنی سوتیلی ماں کو کہا کہ میرے کمرے میں آجائے۔ مجھے رات بھر پر سکون نیند آئی۔ اگلے دن بھی موسم ویسا ہی تھا، بے رنگ، بےبو اور بغیر کسی درجہ حرارت کے۔ جیسے ہی میں جاگی تو ایک کرسی میں ساکن ہو کر بیٹھ گئی کیونکہ کسی نے مجھے بتایا کہ میرے شعور کا ایک حصہ ابھی بھی سورہا تھا۔ پھر میں نے ریل گاڑی کی سیٹی کی آواز سنی۔ طویل اور اداس سیٹی طوفان سے بچ کر بھاگ رہی تھی۔ ’’ضرور کہیں نہ کہیں مطلع صاف ہو گیا ہوگا۔‘‘ میں نے سوچا اور عقب میں کوئی میرے خیالات کا جواب دے رہا تھا۔ ’’کہاں؟‘‘ اس آواز نے پوچھا۔ ”کون ہے؟‘‘ میں نے  اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ میں نے اپنی سوتیلی ماں کو دیکھا جس نے اپنا د بلا اور لمبا ہاتھ دیوار کی طرف کیا ہوا تھا۔ ’’یہ میں ہوں۔‘‘ وہ بولیں۔ میں نے پوچھا: ’’کیا آپ سن سکتی ہیں؟ ( میرے خیالات )۔‘‘ انھوں نے کہا، ہاں اور بتایا کہ شاید کہیں نہ کہیں بادل چھٹ گئے ہوں گے اور انھوں نے پٹڑیوں کی مرمت کر دی ہوگی۔ پھر انھوں نے ایک طشتری میں مجھے ناشتہ دیا جس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس سے لہسن کی چٹنی اور گرما گرم مکھن کی مہک آرہی تھی۔ یہ سوپ تھا۔ میں نے عدم دلچسپی سے اپنی ماں سے پوچھا کہ کیا وقت ہوا ہے۔ انھوں نے تھکے ہوئے انداز میں جواب دیا: ’’اڑھائی بج رہے ہوں گے۔ اس صورتحال کے باوجود ریل گاڑی وقت پر آئی ہے۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’اڑھائی! میں اتنی دیر تک کیسے سو سکتی ہوں!‘‘ تو انھوں نے کہا : ’’ تم دیر تک نہیں سوئی۔ زیادہ سے زیادہ تین بجے ہوں گے۔‘‘ میری انگلیاں کانپنے لگیں اور لگا کہ طشتری گر جائے گی۔ ’’اڑھائی بجے اور جمعہ کا دن۔‘‘ میں نے کہا  تو انھوں نے بے رحمی سے کہا: ’’آج جمعرات ہے میرے بچی۔ اڑھائی بجے ہیں اور جمعرات کا دن ہے۔‘‘

پتا نہیں میں کب تک نیند میں چلتی رہی کیونکہ میں اپنے حواس کھو چکی تھی۔ مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ ان گنت گھنٹوں بعد میں نے ساتھ والے کمرے سے ایک آواز سنی۔ آواز کہہ رہی تھی: ’’اب تم بستر کو اس طرف لگا سکتے ہو۔‘‘ یہ تھکی  ہوئی آواز تھی، کسی بیمار شخص کی نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کی جو صحت یاب ہورہا تھا۔ پھر میں نے پانی میں اینٹوں کی آواز سنی۔ میں کافی دیر تک ساکت رہی یہاں تک کہ مجھے پتا چلا کہ میں لیٹی ہوئی ہوں۔ میں نے شدید خالی پن محسوس کیا۔ میں نے گھر میں چلاتی ہوئی اور متشد د خاموشی کو محسوس کیا، ایک ایسا جمود تھا جو ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرا دل جما ہوا پتھر ہے۔ ’’شاید میں مرچکی ہوں۔‘‘ میں نے سوچا۔ ’’اوہ خدا، میں مرگئی ہوں۔‘‘ میں بستر میں اچھلی۔ میں چلائی۔ ’’ایڈا! ایڈا!‘‘ مارٹن نے نا خوشگواری سے جواب دیا۔ ’’وہ نہیں سن سکتے۔ وہ پہلے ہی باہر جا چکے ہیں۔‘‘ تب مجھے احساس ہوا کہ مطلع صاف ہو چکا تھا، ہر طرف خاموشی تھی، سکون تھا، پر اسراریت اور گہری خوبصورتی تھی، ایک کامل صورت حال جو  شاید موت کے جیسی تھی۔ برآمدے میں قدموں کی چاپ سنی جاسکتی تھی۔ پھر ٹھنڈی ہوا چلی جس سے دروازے کا پٹ ہلا، دروازے کا ہینڈل چر چرایا جیسے صحن میں موجود پانی کے ٹینک میں کوئی پکا ہوا پھل گرا ہو۔ ہوا میں کچھ ایسا تھا جس نے کسی نظر نہ آنے والے شخص کی موجودگی کا احساس دلایا جو اندھیرے میں کھڑا مسکرارہا تھا۔ ’’میرے خدا۔‘‘ میں نے سوچا۔ میں وقت میں الجھی ہوئی تھی۔ ’’مجھے بالکل بھی حیرت نہیں ہوگی اگر وہ مجھے گزشتہ اتوار کے واعظ میں شرکت کی دعوت دینے کےلینے آرہے  ہیں۔‘‘

***

Gabriel García Márquez - Nobel Laureate Literature

گبریل گارسیا مارکیز

گبریل گارسیا مارکیز بیسویں صدی کے عظیم ترین ناول نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ ۶؍ مارچ ۱۹۲۷ء  کو کولمبیا کے شہر آراکاتا کا میں پیدا ہوئے اور ۱۷؍ اپریل  ۲۰۱۴ء  کو میکسیکو سٹی میں وفات پا گئے۔ انھیں ہسپانوی زبان کے سب سے اہم ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے اور انھوں نے عالمی ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ مارکیز کو طلسماتی حقیقت نگاری کے موجدوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ ان کے ناولوں میں حقیقت اور جادو کا امتزاج، تاریخ اور افسانے کی ہم آہنگی، اور سماجی و سیاسی حالات کی گہری عکاسی نمایاں طور پر موجود ہے۔ مارکیز کی تحریروں میں لاطینی امریکہ کی سیاست، معاشرت، غربت، جبر، آمریت، محبت، موت، اور یادداشت جیسے موضوعات نمایاں ہیں۔ ان کے اسلوب میں شاعری، علامت نگاری اور طلسماتی عناصر شامل ہوتے ہیں، جو ان کے بیانیے کو منفرد بناتے ہیں۔ گبریل گارسیا مارکیز نہ صرف لاطینی امریکہ بلکہ پوری دنیا کے ادب میں ایک انقلاب کا نام ہے۔ ان کی تحریریں آج بھی قارئین کو حیرت، احساس اور سوچ میں مبتلا کرتی ہیں۔ ان کی مشہور تصانیف میں تنہائی کے سو سال ہے ۔ یہ ان کا سب سے مشہور ناول ہے، جو ۱۹۶۷ء  میں شائع ہوا۔ اس نے انھیں عالمی شہرت عطا کی۔ اس کے علاوہ وبا کے دنوں میں محبت  —  ایک رومانوی ناول جو عمر بھر کی محبت اور وقت  طاقتور تصویر کشی کرتا ہے۔ ان کا ایک اور شہرہ آفاق ناول ایک پیش گفتہ موت کی روداد — ایک منفرد طرز کا ناول ہے جو جرم اور سماجی روایات پر تنقید کرتا ہے۔ ۱۹۸۲ء میں گبریل گارسیا مارکیز کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ ان کے کاموں کا ترجمہ دنیا کی درجنوں زبانوں میں ہو چکا ہے۔

۰۰۰

گیبریل گارشیا مارکیز کی تحریروں کے تازہ تراجم:

Rehan Islam - Translator from English to Urdu

ریحان اسلام

محمد ریحان، جو ریحان اسلام کو اپنے قلمی نام کے طور پر استعمال کرتے ہیں، کا تعلق ملتان، پاکستان سے ہے۔ انگریزی ادب میں ایم فل کرنے کے بعد، ریحان نے چین میں دو سال تک چینی زبان، ثقافت اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔ واپسی کے بعد اُنھوں نے کچھ عرصہ چینی ترجمان کے طور پر کام کیا۔ اس وقت وہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج، دنیا پور، پنجاب میں انگریزی کے لیکچرار ہیں ۔ اُنھوں نے چینی نوبل انعام یافتہ مو یان کی کہانیوں کے تراجم کا بعنوان ترجمہ ’’مو یان کی کہانیاں ‘‘اور جاپانی ناول نگار ہاروکی موراکامی کے ناول ’’ ساؤتھ آف دی بارڈر، ویسٹ آف دی سن‘‘  کا اردو میں  ترجمہ ’’سرحد سے پار، سورج سے پرے‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ ریحان اسلام نے مختلف انگریزی افسانوں کے بھی اردو میں تراجم کیے ہیں جو موقر اردو ادبی جرائد کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔ وہ اردو سے انگریزی میں بھی افسانوں کے تراجم کرتے ہیں جو مختلف قومی و بین الاقوامی جرائد میں اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں۔

۰۰۰

ریحان اسلام کے تازہ تراجم:

چینی ناولچہ

گاجر

مویان

Mo Yan

تعارف و ترجمہ:ریحان اسلام

براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے —  ہمارے نقشِ پا   دیکھیے اور  Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں  کہ ہم کس طرح  اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم  کے واسطے سے اس کے فروغ  اور آپ کی زبان میں ہونے والے  عالمی ادب کے شہ پاروں  کے  تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں  ۔  ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ  سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں  کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے  کے لیے، عمدہ تراجم  کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔

1 thought on “مکونڈو میں بارش دیکھتے ہوئے از ابیل کی خود کلامی”

  1. شاندار کہانی
    ترجمہ بھی اچھا لگا

    Reply

Leave a Comment

𝐓𝐫𝐚𝐣𝐢𝐦 𝐀𝐥𝐦𝐢 𝐀𝐝𝐚𝐛