فسوں کاریاں
فارسی ڈراما
مسرت کا قرابہ
بہرام بیزائی
Bahram Beyzaii
)’’سند باد کے آٹھ بحری سفر‘‘ سے انتخاب(
تعارف و ترجمہ: محمد عبداللہ

لوگ:
بازار میں آتشِ حرص دہک رہی تھی۔جنگ سے تباہ حال بازار میں دھوکہ دہی اور دوسروں کا گلا گھونٹنے کی کیفیت تھی۔
سندباد:
(ایک راہگیر سے) کیا آپ جانتے ہیں کہ مجھے نوفل نامی سوداگر کہاں ملے گا؟
پہلا آدمی:
مجھے کوئی اتا پتا نہیں۔
سندباد:
(دوسرے راہگیر سے) میرے دوست کیا تمھیں کچھ شنید ہے؟
دوسرا آدمی:
میں کچھ نہیں جانتا۔
سندباد:
(ایک اور راہگیر سے) بھائی، کیا تم نے نوفل سوداگر کو دیکھا ہے؟
تیسرا آدمی:
نام تو شناسا ہے۔
سندباد:
وہ ایک اچھا انسان ہے۔
تیسرا آدمی:
شاید وہ اچھا انسان تھا۔
سندباد:
ٹھہرو!
(وہ شخص مجمع میں غائب ہو جاتا ہے توایک اور شخص سے)
کیا آپ کو نوفل سوداگر کی کوئی خبر ہے؟
چوتھا آدمی:
انھوں نے اس کا گھر جلا ڈالا۔
سندباد:
کیوں؟
(وہ شخص مجمع میں غائب ہو جاتا ہ۔ وہاب نمودار ہوتا ہے)
سندباد:
وہاب! کیا ہو رہا ہے؟
وہاب:
جنگ!
سندباد:
انھوں نے نوفل کا گھر جلا دیا۔مجھے ایک تلوار دو۔
وہاب:
میں جس شخص کو پہلے قتل کروں گا اس کی تلوار آپ کے حوالے کروں گا۔ آپ میرا یہیں انتظار کریں۔
سندباد:
(پکارتے ہوئے) وہاب—
(وہاب ہجوم میں غائب ہو جاتا ہے۔ نوفل تھکا ماندہ اور زخموں سے چور سامنے آتا ہے۔)
ساحر (جادوگر):
سندباد، میرے بیٹے!
سندباد:
کیا ہوا، نوفل؟
ساحر:
میرا ہاتھ پکڑ لو۔
سندباد:
آپ زخمی ہیں، نوفل۔
ساحر:
دوست کا دیا زخم زیادہ گہرا ہوتا ہے۔
سندباد
یہ کس نے کیا؟ مجھے بتاؤ، وہ کون تھے؟
ساحر:
میری بات سنو، سندباد۔
(وہ زمین پر گر جاتا ہے اور سندباد اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیتا ہے۔)
سندباد:
انتقام، انتقام۔
ساحر:
انتقام لینے کے خیال سے اپنی زندگی برباد مت کرو۔
سندباد:
مجھے بس اتنا بتا دو کہ وہ کون تھا ؟
ساحر:
سندباد، میں تمھیں اس سے بھی زیادہ بتا سکتا ہوں۔کیا تم جانتے ہو وہ کیوں لڑ رہے ہیں؟
سندباد:
نہیں، میں ابھی یہاں پہنچا ہوں۔ میں کچھ نہیں جانتا۔
ساحر:
ایک حکمران نے اپنی حکومت بچانے کے لیے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا دیا ہے اور ان کے غصے کو ان ہی کے خلاف۔ سندباد، کیا تم انھیں دیکھ رہے ہو؟ وہ جو پہلے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی میز پر اکٹھے بیٹھتے تھے اب ان کی لاشیں ایک دوسرے کے پاس پڑی ہیں۔
لوگ:
نظریات کی جنگ، ایک دوسرے سے مبارز قبائل، زرد خیموں والے سرخ خیموں کے خلاف، خونی رشتوں کی جنگ، قبائل کی جنگ۔
سندباد:
دوست کون ہے اور دشمن کون؟ میں کس سے لڑوں؟
ساحر:
کوئی بھی نہیں۔ وہ سادہ لوح بدقسمت لوگ ہیں، سندباد۔ تمھارا کام جنگ سے زیادہ مشکل ہے۔ سنو! پچھلے کچھ دنوں میں یہ سمجھ گیا ہوں— سورج بادلوں کی اوٹ میں چھپتا ہے۔سندباد، ،مسرتوں کے قرابہ کی تلاش میں نکلو۔سندباد، مسرت جھوٹی چیز نہیں۔
سندباد:
یہ جھوٹ نہیں ہے؟ کیا آپ اس بارے جانتے ہو؟
ساحر:
میرے پاس یہ جاننے کے لیے وقت نہیں تھا۔ سندباد، سراندیپ کے جزیرے پر جاؤ۔ چند دن پہلے مجھے ایک مرغول کاغذ ملا، جو میرے آباؤ اجداد چھوڑ گئے تھے، اس مرغول چرمی کاغذ پر ایک نقشہ بہت خوبصورت انداز میں بنایا ہوا تھا۔ اس میں سراندیپ کا ایک جزیرہ دکھایا گیا ہے، سندباد، اور وہیں تمھیں مسرتوں کا قرابہ ملے گا۔ سراندیپ جاؤ، سندباد۔ مسرت جھوٹی چیز نہیں۔
سندباد:
نوفل!
ساحر:
آخری وقت میں تم سے ایک استدعا ہے۔ مجھے ’’ابا‘‘ کہہ کر پکارو۔
(وہ مر جاتا ہے۔)
سندباد:
میری بات سنیں— کون سا جزیرہ؟ سر اندیپ کہاں ہے، نوفل؟ کون سا نقشہ؟ کون سا مرغول کاغذ؟ کون سی مسرت ؟ جواب دیں— ابا! ابا!
(وہاب دوسرے لوگوں کے ساتھ وہاں آتا ہے۔)
وہاب:
سندباد، آپ کے لیے تلوار!
سندباد:
اسے نیچے رکھ دو، وہاب۔
وہاب:
یہ لوگ ہمارے دوست ہیں، سندباد۔ ہم مل کر ان بزلوں کے ایک ایک آدمی کا قلع قمع کر دیں گے۔تلوار لے لو، سند باد۔
سندباد:
میں اب مزید نہیں لڑ سکتا۔
وہاب:
کیا؟
پہلا گروہ:
بے چارے لوگ۔
دوسرا گروہ:
جنگ کرو۔
پہلا گروہ:
خون بہہ رہا ہے۔
دوسرا گروہ:
وہ مار رہے ہیں۔
پہلا گروہ:
ہم نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔
دوسرا گروہ:
انھوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔
وہاب:
آپ کیا کہتے ہیں، سندباد؟
سندباد:
میں یہاں سے جا رہا ہوں۔
وہاب:
توآپ اپنے بھائیوں کو چھوڑ رہے ہیں؟
سندباد:
یہ کام اپنے بھائیوں کو قتل کرنے سے بہتر ہے، وہاب۔ تلوار اس درد کا درماں نہیں۔
وہاب:
آپ اس سے بہتر کس علاج سے آگاہ ہیں ؟
سندباد:
میں ان لوگوں کے لیے مسرت لانے جا رہا ہوں۔
وہاب:
کون سی خوشی؟ کہاں سے؟
سندباد:
مجھے ابھی نہیں معلوم ۔
وہاب:
آپ خوف زدہ ہیں، سندباد۔ آپ جنگ سے خوف زدہ ہو گئے ہیں۔ کیا یہ راہ فرار نہیں؟
سندباد:
تمھیں من مرضی کا سوچنے کا مکمل حق ہے، لیکن مجھے جانا ہے۔
(سندباد رخصت ہوتا ہے۔)
وہاب:
جب آپ تھک جائیں تو لوٹ آنا؛ ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے جو بخوبی تلوار چلا سکے۔ سندباد؟ لوٹ آؤ ،سندباد!
سندباد:
(گودی پر) واپسی کی کوئی راہ نہیں، بہادر ملاحو، واپسی کی کوئی راہ نہیں۔ میرا یقین کرو تم تب تک جہاز واپس نہیں موڑو گے جب تک کہ مجھے اٹھا کر سمندر نہ پھینک دو۔ میرے لیے کوئی واپسی نہیں۔ جس روز میرے باپ نوفل کے بدن کے انگ انگ سےلہو بہہ رہا تھا اس نے مجھے بتایا تھا مسرت جھوٹی چیز نہیں ہوتی۔ اور ہم اس چیز کو کھوجیں گے جو جھوٹی نہیں ہوتی— ان لوگوں کے لیے جو سمجھ جاتے ہیں، اور ان کے لیے جو ایک دوسرے کو تھامتے ہیں، ان کے لیے جن کی دشوار زندگیاں بے توقیر ہیں۔ میں نے بے شمار ایسے سر دیکھے ہیں جو بے تن تھے، لیکن ان کی انکھیں مجھے گھور رہی ہیں، مسرت کی بھیک مانگ رہی ہیں، اپنی خاطر نہیں بلکہ اپنے پیچھے چھوڑ جانے والے اپنے پیاروں کے لیے۔ میں نے لاتعداد بے سروں والے بدن دیکھے ہیں جن کے سینے چیر کر دل نکال دیے گئے تھے لیکن وہ دل اب بھی مضطرب اور آنے والے دنوں کے تمنائی تھے۔ ہم تمھارے اور تمھارے بچوں کے لیے خوشی لینے جا رہے ہیں۔ ہم سب! کیونکہ اکیلا شخص کچھ نہیں سکتا۔ کیا تم تیار ہو؟
ملاح:
تیار ہیں!
عبداللہ:
لیکن آقا، اگر ہم اسے جلد نہ ڈھونڈ سکے تو کیا ہوگا؟ کیا ہو گا اگر اس میں زیادہ…
سندباد:
کیا تمھارا کوئی بیٹا ہے؟ کوئی بھائی؟ کوئی دوست؟ یا کوئی چاہنے والا؟
عبداللہ:
جی، آقا۔
سندباد:
تو پھر یہ کام ان کے لیےکرو۔ یہ ان کے لیے بہترین تحفہ ہوگا۔
غیور:
اگر ہمارا پورا سال بیت گیا تو؟
سندباد:
تم کہیں بھی رہو سال تو بیت ہی جائے گا۔ اس زندگی کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہاں ایسے درخت ہیں جو تم سے پانچ ہزار سال زیادہ عرصے تک زندہ رہتے ہیں۔ کیا تم نے دیکھا کہ درخت کی شاخ کے مقابلے میں تمھاری اور میری حیثیت لمحہ بھر سے زیادہ نہیں۔
غیور:
یہ سچ ہے ، آقا۔
سندباد:
تو پھر اس لمحے کو عمدہ بناؤ، اور یہ قیمتی کھوج تمھارا اعزاز ہوگا۔
غیور:
میں تیار ہوں، آقا۔
سندباد:
تم سب؟
ملاح:
ہم تیار ہیں۔
سندباد:
یاد رکھو اس وطن کو جہاں سے تم جا رہے ہو اور اس زمین کو جہاں تم نے جنم لیا تھا آج وہ جہنم بن چکی ہے۔ کیا تم سب تیار ہو؟
ملاح:
دل و جان کے ساتھ ۔
سندباد:
تو جان لو، ہم اس تباہ حال ملک سے کچھ نہیں لے کر جا رہے۔ معاوضہ کم ہو گا، تھوڑا سا کھانا اور تھوڑا سا پانی۔ کچھ دنوں کے لیے تمھیں زیادہ کھانا پانی نہیں ملے گا۔ کچھ دن کھانا نہ پانی، ہو سکتا ہے صرف نمک، مچھلی اور سمندری پانی میسر ہو۔ شاید سخت بھوک،دھوپ اور تکلیفیں ہوں۔ کیا تم تیار ہو؟
ملاح:
ہم تیار ہیں۔
سندباد:
بہادرملاحو، میں جانتا ہوں میں جانتا ہوں… ہم کامیاب ہونے جا رہے ہیں تو تم میں سے ہر ایک — سمجھ رہے ہو نا میں کیا کہہ رہا ہوں؟ مجھے ایک چپو دو۔ ڈھول بجاؤ! بجاؤ ڈھول! بجاؤ ڈھول!
(ساحر تیسرے بحری سفر کا اعلان کرتا ہے۔)
پہلا ملاح:
آقا، کالے بادل!
سندباد:
پریشان نہ ہوں، ہوائیں ہمارے حق میں ہیں۔ غیور آج رات ستاروں کو پڑھو۔ مشتری کو تلاش کرو ۔
غیور:
جی، آقا۔
سندباد:
سکان گیر، مشتری کے حساب سے راستہ طے کرو۔
دوسرا ملاح:
جی، آقا۔
سندباد:
آبناؤں پر تیزرو لہروں کو دیکھو ۔ہم وہاں مدوجزر کا انتظار کریں گے۔
دوسرا ملاح:
جی، آقا۔
سندباد:
رجب،جعفر! سامان کو سمندر میں پھینک دو۔ تمام سامان کو۔
غیور:
کیوں، آقا؟
سندباد:
ہم سامان ملاحوں کو یقین دلوانے کے لیے رکھتے ہیں، جو منافع کا خواب دیکھتے ہیں، لیکن اب ہم سیدھا سر اندیپ جائیں گے۔ تمام سامان سمندر میں پھینک ڈالو تاکہ جہاز ہلکا ہو کر دوڑے۔
تیسرا ملاح:
جی، آقا۔
سندباد:
سونے اور چوکیداری کے لیے باریاں مقرر کردو۔ سب کو برابر کھانا دو اور ایک ایک کپ پانی کی اجازت۔ یار ایک طرف ہٹو اور وِہیل میرے حوالے کر دو۔
غیور:
جی، آقا۔
سندباد:
تم چلاؤ۔
غیور:
جی، آقا۔
سندباد:
اور آج تیسرے بحری سفر کا اٹھارہواں روز ہے۔ میرا دل غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن دل کے کسی پوشیدہ خانے میں اب بھی محبت جاگ رہی ہے۔
غیور:
آقا، ہم طوفانی لہروں سے گزر آئے ہیں۔
سندباد:
شاباش غیور۔ رفتار بڑھا دو۔
غیور:
رفتار بڑھا دو!
سندباد:
اور اب اپنے بحری سفر کے انیسویں دن پر — اپنوں سے دوری پر میری انکھیں انسوؤں سے بھر ی ہوئی ہیں۔ بلاشبہ، یہ آنسو براہِ راست سورج کو تکنے کی وجہ سے ہیں۔
غیور:
یہ آنسو ناقابل برداشت ہیں۔
سندباد:
پانی کی گہرائی ماپو۔
تیسرا ملاح:
جی آقا۔
سندباد:
اور اب اس بحری سفر کے سینتسویں دن مَیں مظرب لہریں دیکھ رہا ہوں۔ اگر خوشیاں وہم ہوئیں تو کیا ہوگا ؟
غیور:
آقا، ہمارے پاس کھانے کا آخری ذخیرہ بچا ہے ۔
سندباد:
اور میں سوچ رہا تھا آیا خوشیاں جھوٹ تو نہیں!
غیور:
آقا، آپ کا کیا حکم ہے؟
سندباد:
کیا ہوا غیور؟
غیور:
آج ساٹھویں روز ہمارے پاس بس آخری ایک وقت کی خوراک اور پانی بچا ہے۔
سندباد:
مقدار کم کردو۔ تمھارے پاس تمھاری ہتھیلی جتنی روٹی ہونی چاہیے اور جتنا پانی اس کپ میں ہے اس سے زیادہ نہیں۔
غیور:
جی آقا۔
سندباد:
میں سوچ رہا تھا اگر اس مرغول کاغذ پر کوئی کہانی لکھی ہوتی؟
(رجب داخل ہوتا ہے)
رجب:
آقا، مجھے معاف کردیں کہ مجھے میری مرضی کے بغیر زیادہ جسامت ملی ہے۔ مجھے معاف کر دیں لیکن اگر مجھے بھی میری ضرورت سے کم دوسروں جتنا کھانا اور پانی ملا تو میں مر جاؤں گا۔
سندباد:
کیا تم یہ برداشت نہیں کر سکتے؟
رجب:
آقا، میں پہلے ہی بہت برداشت کر چکا ہوں۔ لیکن میری خواہش کے برعکس میری جاں بہ لب ہو چکا ہوں۔مجھ میں مزید جہاز کھینے کی سکت بھی نہیں رہی۔
سندباد:
غیور، اسے میرا حصہ دے دو ۔
رجب:
آقا، مجھے یہ منظور نہیں۔
سندباد:
تمھیں لینا ہوگا۔ مجھے کھانے پانی سے زیادہ تمھاری ضرورت ہے۔
رجب:
آقا، میں یہ کھانا نہیں لوں گا۔
سندباد:
تو پھر مجھ سے کیا چاہتے ہو؟
رجب:
آقا، مجھے معاف کر دیں۔ لیکن میں بھی نہیں جانتا ۔
سندباد:
غیور، میرا حصہ سمندر میں پھینک دو۔
رجب:
نہیں آقا۔
سندباد:
تو پھر یہ لے لو!
رجب:
مجھے معاف کر دیجیے لیکن آقا، میں یہ نہیں لے سکتا ۔
سندباد:
پھر اس شخص کو سمندر میں پھینک دو ۔
رجب:
میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں ، آقا، کبھی نہیں۔
سندباد:
تو تم یہ لے رہے ہو یا نہیں؟
رجب:
آپ مجھے میری خواہش کے برعکس مجبور کر رہے ہیں۔میں اس کے عوض کیا کر سکتا ہوں، آقا؟
سندباد:
جہاز کھے کر۔
رجب:
ٹھیک ہے ، آقا۔
(وہ چلا جاتا ہے)
سندباد:
میں اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ اگر یہ مرغول کاغذ درست نہ ہوا تو کیا ہو گا؟ اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ اس سفر کے اس اڑسٹھویں دن میرے ملاحوں میں اب جہاز کھینے کی طاقت نہیں رہی۔
غیور:
نگران کو کچھ نظر آیا؟
دوسرا ملاح:
سمندر کے علاوہ کچھ نہیں ۔
سندباد:
آج پچہترویں روز میں ہر شے سے غافل زندگی اور موت کے درمیان جونجھ رہا ہوں،میں سب سے بے خبر ہوں (اچانک ساحر سے) تم— کیا تم وہاں نہیں تھے… ؟
ساحر:
کہاں؟
سندباد:
اس ریاست میں، میں نے تمھیں نہیں دیکھا؟ کیا تم وہاں نہیں تھے؟ (ساحر ہنستا ہے) میں موت کے دھانے پر کھڑا ہوں ، میرے تمام ملاح بے حال ہو چکے ہیں، آدھے تپتی دھوپ جھلس چکے ہیں۔میں نے اپنے آپ سے پوچھا ہے آیا میں نے انھیں دھوکہ دیا ہے۔ اور جہاز بغیر کپتان کے، بغیر کسی منزل کے تعین کے اور بغیر چپوؤں کے چلتا جا رہا ہے۔ چلچلاتا ہوا سورج، سورج، بس سورج۔ میں کسی مفہوم کی کھوج میں ہوں؛ ابتدائی دنوں میں امیدکیسی خوش کن تھی، مسرت کے قرابہ کے خواب لیکن اس سے بھی پیاری وہ پکار تھی جو چِلّا—
دوسرا ملاح:
ہو ہو، زمین!
تیسرا ملاح:
زمین، آقا! زمین۔
(سندباد بمشکل اٹھتا ہے)
سندباد:
اے مردو، اپنی آخری طاقت تک لگا دو۔ زمین! کیا یہ سراندیپ ہے؟
(سب خاموش رہتے ہیں۔غیور آگے آتا ہے)
غیور:
میں شاہد ہوں، میں نے لمحہ بہ لمحہ اُس کی اپنی جان پر کھیلنے کی حد تک تلاش کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے، جسے اپنے والدین تک کا نہیں پتا، اُس سے مسرت کے قرابہ کے متعلق پوچھا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ یہ طلائی قرابہ ہے جس میں کسی دانا نے اپنی آواز قید کر دی اور جب تم اس کی مہر ہٹاؤ گے تو یہ تمھیں اسرار بتائے گا۔
(ہر شخص دوبارہ حرکت میں آجاتا ہے۔)
تیسرا ملاح:
آقا، ہم نے تمام جزیرہ چھان مارا۔ ناامیدی ہے۔
سندباد:
پہاڑ میں وہ تنگ درہ، اس میں تم کیا دیکھتے ہو غیور؟
غیور:
محض ایک تنگ درہ۔
سندباد:
یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم نے تلاش نہیں کیا۔
غیور:
آقا، مقامی لوگ کہتے ہیں کہ وہاں بےشمار اڑنے والے سانپ اور عجیب و غریب چمگادڑ ہیں جو مسلسل چیختے چِلّاتے رہتے ہیں۔
سندباد:
ان الفاظ نے مجھے امید دلائی ہے۔ چلو، وہاں چلتے ہیں۔
تیسرا ملاح:
اُدھر دیکھیں، انسانی چہرے جیسی ایک چٹان۔
دوسرا ملاح:
وہ کسی عفریت جیسی دِکھتی ہے۔
تیسرا ملاح:
ہنستا ہوا عفریت، لیکن اس کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
دوسرا ملاح:
آقا، دو مُنھا سانپ۔
سندباد:
اسے مار ڈالو۔
ملاح:
اسے ماردو۔
سندباد:
اب چلو۔
تیسرا ملاح:
اس غار کا چہرہ عجیب ہے۔ میں یہاں کی کسی چیز پہ اعتبار نہیں کر سکتا۔
غیور:
یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں! ناقابل یقین! رنگ برنگے برتن!
تیسرا ملاح:
خزانہ۔ خزانہ۔
(ملاح برتنوں کی طرف دوڑتے ہیں۔)
سندباد:
ٹھہرو!
(ملاحوں کی چیخ و پکار، زیورات پر لڑائی جھگڑا۔)
کسی چیز ہاتھ مت لگاؤ۔ رک جاؤ!
(تلوار نیچے رکھ کر وہ ان کے درمیان کھڑا ہو جاتا ہے۔)
تمھیں کس نے اپنے بھائی پر ہاتھ اٹھانے کا کہا؟ یا تم؟ یا تم؟ اس چابک کو ایک طرف پھینکو۔ اے، پتھر پھینک دو۔
پہلا ملاح:
ہمیں زیورات چاہئیں، آقا۔
دوسرا ملاح:
آقا، یہی تو ہم ڈھونڈ رہے تھے۔کم از کم یہ خواب تو نہیں۔
سندباد:
تمھارا مطلب کیا ہے؟
تیسرا ملاح:
خوب، یہی مسرت…
(وقفہ۔ پہلا ملاح آگے آتا ہے۔)
پہلا ملاح:
جی ہاں، یہ سب کچھ سراندیپ میں ہوا تھا۔ میں نے— گومنان(جگہ کا نام) کے غوطہ خور کے بیٹے نے—یہ سب بچشم خود دیکھا تھا۔ بعد دفن شدہ خزانے اور سانپوں کے بارے میں بہت سی روایتیں بن گئیں۔ تلخ افوائیں لیکن حقیقت اس سے زیادہ تلخ تھی۔
(سندباد اور دوسرے لوگ کھوج رہےہیں۔)
سندباد:
تم نے اپنی لڑائی سے افراتفری مچا دی۔ برتن گر گئے، موتیوں کی مالائیں ٹوٹ گئیں اور زمرد کے نشان والی کمان دو ٹکڑے ہو گئی۔
دوسرا ملاح:
آقا، یہاں کہیں طلائی قرابہ نہیں۔
سندباد:
لازماً یہیں ہونا چاہئے۔ تلاش جاری رکھو۔
تیسرا ملاح:
آقا، ہم تاریکی میں نہیں دیکھ سکتے ۔
سندباد:
اپنے ہاتھ استعمال کرو۔
پہلا ملاح:
آپ کو پورا یقین ہے، آقا؟
سندباد:
وہ قرابہ ہے، مٹی کے قرابے جیسا لیکن سونےسے بنایا ہوا جس پرعجیب و غریب لکھائی کندہ ہم ہے اور اس کے اندر اسرار پوشیدہ کیے گئے ہیں۔ کیا تم سمجھ گئے؟
غیور:
یہاں نہیں ہے، آقا۔
سندباد:
یہ رہا!
غیور:
یہ وہ نہیں ہے، آقا۔ یہ محض مٹی کا ایک برتن ہے۔
سندباد:
مٹی کا برتن؟
غیور:
یہ ٹوٹا ہوا ہے۔ یہ لڑائی کے دوران میں ٹوٹ گیا تھا، آقا۔
سندباد:
(اسےایک طرف پھینک دیتا ہے) لڑائی میں ٹوٹ جانے والا ایک خالی برتن۔
غیور:
کیا یہ ہے آقا؟ یہ مہر بند قرابہ۔
سندباد:
نہیں، یقینا ًیہ نہیں ہے۔ ڈھونڈتے رہو ۔
دوسرا ملاح:
آقا، ہم نے ہر جگہ ڈھونڈ لیا۔ وہ یہاں نہیں ہے۔
سندباد:
اپنا منھ بند رکھو۔
پہلا ملاح:
وہ یہاں نہیں ہے، آقا۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔
(وقفہ۔)
سندباد:
ٹھیک ہے، میں دیکھتا ہوں۔ (وہ ایک طرف جاتا ہے۔) تو یہ نہیں تھا… یہ بھی نہیں ہے۔ تو پھر مسرت کا قرابہ جھوٹ تھا؟یہ جھوٹ ہے۔
غیور:
آقا، اب ہم کیا کریں؟
سندباد:
جو تمھارا دل چاہے، وہ۔
***

بہرام بیزائی
بہرام بیزائی ۱۹۳۸ء میں تہران میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ہدایت کار، پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر ہیں۔ ۱۹۶۸ء میں وہ متنازعہ ایرانی رائٹرز گلڈ (کانون-ای نیوسندیگان-ای ایران) میں شامل ہونے والے پہلے مصنفین میں سے ایک تھے۔ انھوں نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ۱۹۷۰ء میں ایک کامیاب مختصر فلم ’’مونچھوں والے چچا‘‘ سے کیا۔ بہرام بیزائی کے فلمی و ڈرامائی کاموں میں ’’پھوہار‘‘ ۱۹۷۱ء، ’’اجنبی اور دھند‘‘ ۱۹۷۴ء، ’’سفر‘‘ ۱۹۷۲ء، ’’کوا‘‘ ۱۹۷۸، ’’تارا کے گیت‘‘ ۱۹۸۰ء، ’’یزدگرد کی موت‘‘ ۱۹۸۱ء، ’’سرخ لکیر‘‘ ۱۹۸۱ء، ’’بھگوڑا‘‘ ۱۹۸۵ء، ’’باشو، ننھا اجنبی‘‘ ۱۹۸۷ء، ’’شاید پھر کبھی‘‘ ۱۹۸۸ء، ’’مسافر‘‘ ۱۹۹۲ء، ’’وقوعے کا روز‘‘ ۱۹۹۵ء، ’’برجِ مِنو‘‘ ۱۹۹۶ء، ’’فاصلے۔پانچواں سیزن‘‘ ۱۹۹۶ء، ’’کِش کہانیاں‘‘ ۲۰۰۱ء، ’’ساگ کوشی‘‘ ۲۰۰۱ء شامل ہیں۔
۰۰۰
بہرام بیزائی کی تحریروں کے تازہ تراجم:

محمد عبداللہ
محمد عبداللہ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۲ء میں محمد رمضان تبسّم کے ہاں چک ۲۴ کلاں، تحصیل صفدر آباد، ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ چند سال وہاں گزارنے کے بعد وہ اپنے آبائی گاؤں ۳۴۶ ڈبلیو۔بی، تحصیل دنیاپور، ضلع لودھراں میں آ گئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کی،انٹرمیڈیٹ گورنمنٹ گریجویٹ کالج دنیاپور سے کرنے کے بعد آج کل اسی کالج میں بی۔ایس اردو ڈیپارٹمنٹ کے متعلم ہیں۔ انھیں اپنے بچپن ہی سے اردو شاعری اور افسانوی ادب میں بہت دلچسپی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شوق بڑھتا رہا اور خود بھی لکھنے کی کوششیں کی ۔ اب اپنے استاذ اور معرورف مترجم ریحان اسلام کو، جن کی تراجم کی اب تک دو کتب منصۂ شہود پر آ چکی ہیں، دیکھتے ہوئے محمد عبداللہ میں بھی ترجمہ کرنے کےشوق نے جنم لیا۔ اس شوق کی تکمیل میں ریحان اسلام اُن کی کافی مدد کر رہے ہیں ۔
۰۰۰
محمد عبداللہ کے تازہ تراجم:
براہِ کرم فیس بک (Face Book)، انسٹاگرام (Instagram)، اور ٹویٹر (Twitter) کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر— اوپر دیے گئے متعلقہ نشان (آئیکن) پر کلک کر کے — ہمارے نقشِ پا دیکھیے اور Follow کیجیے تاکہ آپ جانچ سکیں کہ ہم کس طرح اردو زبان کی ترقی و ترویج کی خاطر تراجم کے واسطے سے اس کے فروغ اور آپ کی زبان میں ہونے والے عالمی ادب کے شہ پاروں کے تراجم کی رسائی دنیا بھر میں کرنے کی سعی کر رہے ہیں ۔ ہم آپ سے ملتمس ہیں کہ آپ بھی اپنے طور پر انھیں دنیا کے ساتھ بانٹ کر (شیئر کر کے) ہماری ان کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ نیز آپ کے ساتھ ساتھ معزز قارئین سے یہ بھی ملتمس ہیں کہ سائٹ پر شائع ہونے والے ہر ترجمے کے آخر میں دیے گئے تبصرے کے خانے (کمینٹس سیکشن) میں اپنی آراء کا کھل کر اظہار کر کے مترجمین کی حوصلہ افزائی و پذیرائی بھی کریں کیوں کہ وہ تلاشِ بسیار سے آپ کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انتہائی محنت، لگن اور دل جمعی سے دنیا بھر کا بہترین ادب، آپ کو آپ کی اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے، عمدہ تراجم کے وسیلے سے فراہم کرتے ہیں۔ ہم آپ کی آراء کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کے ممنون ہوں گے۔